حکماء ، حکام ، زاہدوں اور شہنشاہوں کے مزارات

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حکماء ، حکام ، زاہدوں اور شہنشاہوں کے مزارات​

حکیم سنانی کی قبر پر ہم لوگ ( مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور رفقاء) تھوڑی دیر ٹہرے ،ان کے لئے دعاء کی اور فاتحہ پڑھی یہاں تک یاد آگیا کہ علامہ اقبال نومبر 1933 ء میں ان کی قبر پر آئے تو وہاں پھوٹ پھوٹ کر روئے اور اسی سے متاثر ہو کر اپنا بلند پایہ قصیدہ کہا جس کا مطلع ہے ۔
سماسکتا نہیں پنہائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہ صحر​
ا۔
اور اس کا آخری شعر ہے
[align=center]سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا​
[/align]
سنانی:حکیم سنانی کا نام مجدود تھا، اور کنیت ابو المجد تھی، بہرام شاہ غزنوی کے زمانہ کے ہیں سن وفات میں اختلاف ہے 525ھ ،546ھ اور 576ھ کی مختلف روایتیں ہیں ، یہ متوصفانہ شاعری میں صف اول کے شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں ،سب سے پہلے انہی نے حسن اخلاق ، تہذیب نفس اور انسانیت ککی عظمت وافتخار کو موجوع سخن بنایا اور اس پر زور دیا ، جوش ، سر مستی اور اثر انگیزی ان کے کلام کا امتیاز ہیں
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے چند اولیاء اللہ اور صالحین مثلا بہلول دانا ، سید علی لالا، خواجہ بلغار ، شمس العارفین کے مزارات کی زیارت کی ۔
مجاہد اسلام ، فاتح ہندوستان سلطان محمود غزنوی کی قبر پر حاضری دی جن کے لئے بڑی بڑی فوجوں کی قیادت ، دوسرے ممالک میں دور تک بے خطر گھستے چلے جانا ، پے در پے حملے اور جنگیں ایسی بے حقیقت اور آسان تھیں ، جیسے آج کے نوجوانوں کے لئے پِک نِک یا صبح وشام چہل قدمی ،انہوں نے ہندوستان میں اسلام کے قدم جمائے او مسلم حکومت کی بنیاد مستحکم کر دیں ، جو مختلف خاندانوں کی شکل میں تقریبا آٹھ سو سال تک باقی رہی ۔ ہم مزار شاہی پر تصویر حیرت بنے کھڑے رہے ، یہاں وہ شیر سورہا ہے جس کی ہیبت سے افغانستان وہندوستان کے بادشاہوں اور سپہ سالاروں کی نیند اڑ جاتی ہے ، آج وہ خود محو خواب ہے ، محمود کے درباری شاعر فر خی نے اسکی موت پر جو دل دوز مرثیہ کہا تھا، اس کے یہ چند شعر صورتحال کی پوری تصویر کھینچتے ہیں ۔
خیز شاہا ! کہ رسولان شہاں آمدہ اند
بدیہا دارند آوردہ فراواں ونثار
کہ تو اند؟ کہ بر انگیز د ازیں خواب ترا
خفتی خفتی ، کز خواب نگردی بیدار
خفتن بسیار اے خواجہ کوے تو نبود
ہیچ کس خفتہ ندید است ترا ازیں کردار​
ترجمہ: اے بادشاہ اٹھ ! بادشاہوں کے قاصد آئے ہیں ، جو کثرت سے ہر قسم کے ہدئے اور تحفے لائے ہیں ۔
کس کی طاقت ہے کہ تجھ کو اس نیند سے جگاسکے ، تو ایسی نیند سویا کہ اب پھر نہ جاگے گا۔
آقا! دیر تک سےسونا تیری عادت نہ تھی، کسی نے اس طرح تجھ کو سوتے نی دیکھا تھا ۔

عبرت کا مقام : میں اس دورہ سے شکستہ خاطر او ملول وغمگین لوٹا ،اللہ کی عظمت اور اسکی ابدیت پر ایمان مزید مستحکم ہو گیا ، اور انسان کی کمزوری اسکی کوتاہ نظری اور مظاہر سے فریب خوردگی پر یقین تازہ ہو گیا ، بڑے بڑے دا رالسلطنتوں سے اعتماد اٹھ گیا ، جو آج آبادی کی کثرت ،عمارتوں کے استحکام اور بنیادوں کی مضبوطی پر ناز کرتے ہیں ، اور جن پر ان کے سر براہوں وہاں کے بسنے والوں اور ان سے متاثر ومر عوب ہونے والوں کو بڑا اعتماد ہے ۔اسی طرح بڑی آن بان کرو وفر ،شان وشوکت ، لاؤ لشکر ، علم وفن ،اثر واقتدار ،مضبوط قلعوں ،محفوظ برجوں ، عالی شان عمارتوں اور بڑے بڑے کار خانوں والے طاقتور اور وسیع وعریض ممالک پر سے بھی عقیدہ اٹھ گیا میں نے سوچا کہ بغداد ، غزنی ،قرطبہ ، غرناطہ ، سمر قند اور بخارا کی تباہی وبر بادی کے بعد ان موجود دار السطنتوں ، شہروں ، تہذیب وثقافت کے مر کزوں اور ان کی حکومتوں کی کیا ضمانت دی جا سکتی ہے ، بادشاہوں کے جاہ وحشم کے اس انجام کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ سب بچوں کا کھیل اور اسٹیچ کی نقالی ہے ۔
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے بس وہی باقی بتان آذری​
اللہ نے سچ کہا ہے “ وتلک الایام نداولھا بین الناس“ ۔ بیش قیمت کثیر معلومات ، مشاہدات اور گوناں گوں تا ثرات واحساسات لئے ہم واپس آگئے
۔( دریائے کابل سے دریائے یر موک تک)
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
حقیقتِ دُنیا کی عمدہ تصویر پیش کی ہے۔
گر پڑھے کوئی غور سے ان واقعات کو
دُنیائے قلب میں ارمان انقلاب پائے گا وہ
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محمد ارمغان نے کہا ہے:
حقیقتِ دُنیا کی عمدہ تصویر پیش کی ہے۔
گر پڑھے کوئی غور سے ان واقعات کو
دُنیائے قلب میں ارمان انقلاب پائے گا وہ

تصویر عکس کا دوسرانام ہے ۔یہاں تو حضرت علیہ الرحمۃ نے حقیقت حال ہی پیش کر دیا ۔اللہ تعالیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے درجات بلند فر مائے۔عالم اسلام خصوصا ہندوستان کے اس عظیم مورخ ، بے بدل عالم،مرشد ومفسر وادیب کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
بدیہا دارند آوردہ فراواں ونثار
کہ تو اند؟ کہ بر انگیز د ازیں خواب ترا
خفتی خفتی ، کز خواب نگردی بیدار
خفتن بسیار اے خواجہ کوے تو نبود
ہیچ کس خفتہ ندید است ترا ازیں کردار
بہت عمدہ اشعارپیش فرمائے ہیں۔جزاک اللہ
 
Top