بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کے دو اہم دلائل اور اُن کی وضاحت

ناصرنعمان

وفقہ اللہ
رکن

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کی پہلی دلیل​
"جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا اسکو خود بھی ثواب ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کا ثواب بھی اسکو ملتا رہے گا اور جس نے دین میں برا طریقہ نکالا تو اسکو نہ صرف اسکا گناہ بلکہ جو بعد میں اس (برے) عمل کو کرے گا اسکا بھی گناہ اسے ملے گا"
(مسلم شریف ، ابن ماجہ، مشکوة شریف باب العلم ص 33)

اس حدیث پاک سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اچھا طریقہ ایجاد کرنے پر ثواب ہے اور یہی بدعت حسنہ ہے

بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کا اس حدیث سے استدلال غلط ہے :

اول اس لئے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیئے مشکوة جلد 1 ص 30)اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت (ملاحظہ ہو ہامش مشکوة ج 1 ص 30)اور حضرت غضیف بن الحارث رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیے مشکوة ج 1 ص 31)کی روایتوں میں اس امر کی تصریح موجود ہے کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من تمسک بسنتی“یعنی جس نے میری سنت سے تمسک کیا اور مضبوطی سے اس کو پکڑا .اور فرمایا کہ ”من فتمسک بسنتہ خیر“الخ یعنی میری سنت سے تمسک کرنا بہتر ہے .

ان روایات سے معلوم ہوا کہ امتی کا کام سنت پر چلنا ہے اس سے تمسک کرنا ہے .سنت جاری کرنا امتی کا کام نہیں​

رہا حضرات خلفاءراشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کا معاملہ وہ اس بحث سے خارج ہیں۔

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میرے بعد زندہ رہا وہ بہت ہی زیادہ اختلاف دیکھے گا .سو تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے خلفاءراشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں مضبوط پکڑو اور اپنی ڈاڑھوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو ،کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “(ترمذی ج 2 ص 92 )(ابن ماجہ ص 5)(ابو داود ج 2 ص279) (مسند دارمی ص26)(مسند احمد ج 4 ص 27)(مستدرک ج 1 ص 95)

ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:
اہل سنت والجماعت یہ فرماتے ہیں کہ جو قول اور فعل جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ثابت نہ ہوں تو اس کا کرنا بدعت ہے کیوں کہ اگر وہ کام اچھا ہوتا تو ضرور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہم سے پہلے اس کام کو کرتے .اس لئے انہوں نے نیکی کے کسی پہلو اور کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنہ عمل نہیں چھوڑا بلکہ وہ ہر کام میں گوئے سبقت لے گئے ہیں “
(تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 156)

اور خیر القرون کا تعامل بھی حجت ہے
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد تابعین کرام اور تبع تابعین کرام کی اکثریت کا کسی کام کو بلا نکیر کرنا یا چھوڑنا بھی حجت شرعی ہے اور ہمیں ان کی پیروی ضروری ہے .اس کے ثبوت میں بھی متعدد حدیثین موجود ہیں
ہم اختصار کے ساتھ دواحادیث پیش کررہے ہیں

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی 32 ھ)سے روایت ہے :
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں پھر ان کے بعد والے اور پھر ان کے بعد والے پھر ایسی قومیں آئیں گی جن کی شہادتیں قسم سے اور قسم شہادت اور گواہی سے سبقت کرے گی“
(بخاری ج 1 ص 362) (مسلم ج 2 ص 309)

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ ان کے نقش قدم پر چلنا)پھر ان کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر ان کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر جھوٹ عام ہوجائے گا کہ آدمی بلا قسم دیئے بھی قسم اٹھائیں گے اور بلا گواہی طلب کئے بھی گواہی دیں گے سو جو شخص جنت کے وسط میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس جماعت کا ساتھ نہ چھوڑے “ (مسند ابو داود طیالسی ص 7 ) (مستدرک ج 1 ص114)قال الحاکم والذھبی علیٰ شرطھما،مثلہ فی المشکوة ج 2 ص 554 )وفی المرقات راوہ نسائی و اسناد صحیح و موارد الظمآن ص 56)

ان صحیح روایات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون کے بعد جو لوگ پیدا ہوں گے ،ان میں دین کی وہ قدر و عظمت نہ ہوگی جو خیر القرون میں تھی .جھوٹ ان بعد میں آنے والوں میں بکثرت رائج ہوجائے گا .بات بات پر بلا طلب کئے قسم اٹھاتے پھریں گے اور بے تحاشہ گواہی دیں گے .

اور اہل بدعت کے اس غلط استدلال کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اسی روایت میں ”من سن فی الاسلام “کے بجائے یہ الفاظ بھی آئے ہیں ”ایما داع الیٰ ھدیٰ “کہ جس داعی نے ہدایت کی طرف دعوت دی“
(مسلم ج 2 ص 341))(ابن ماجہ ص 19 )(مجمع الزوائد ج 1 ص 168)

اسی روایت کے دوسرے طریق پر ہے :
”جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہوچکی تھی“(ابن ماجہ ص 19)(ترمذی ج 2 ص 92)(مشکو? ج 1 ص 30)

ایک روایت میں یوں آتا ہے :
”جس نے میری سنتوں میں سے کوئی سنت زندہ کی کہ لوگ اس پر عمل پیرا ہوئے “(ابن ماجہ ص 19)

نیز فرمایا :
کہ جو شخص کسی اچھے راستے پر چلا “(ابن ماجہ ص 19)

ایک روایت میں ہے :
”جس نے کوئی علم سیکھایا تو اس کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا عمل کرنے والے کو اس کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی “(ابن ماجہ ص 21)

ان روایات سے لوگوں کی طرف سے بدعت کے جواز میں پیش کی گئی اس مجمل روایت کی تفصیل اور تشریح ہوجاتی ہے کہ سنت اور طریقہ کا جاری کرنا مراد نہیں بلکہ اس کی طرف دعوت دینا ،اس کی تعلیم دینا ،کسی سنت کو زندہ کرنا ،اور اس پر خود بھی عمل کرنا اور لوگوں کو بھی عمل کی تلقلین کرنا مراد ہے .

اس سے یہ مطلب سمجھنا اور مراد لینا کہ از خود کوئی طریقہ جاری کرنا یقینا غلط ہے.​

آخری اور اہم بات یہ کہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ جس چیز کا شریعت میں دلالةً و اشارةً ثبوت موجودد ہو ،اس کے اجراءکرنے میں ثواب ہوگا ،اوروہ وہی فعل ہوگا جس کا داعیہ اور محرک خیر القرون میں موجود نہ ہو بلکہ بعد کو پیش آیااور ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل کے تحت وہ داخل ہو۔چناچہ اسی حدیث میں ”حسنتہً“ کی قید موجود ہے اور اہل سنت کے نزدیک کسی امر شرعی میں حُسن یا قبح نہیں پایا جاسکتا جب تک کہ شرعیت سے اس کا ثبوت نہ ہو ۔اور بدعات کی تو شریعت نے جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے ،اس سے بھلا ان کا حسن ہونا کہاں سے اور کیسے ثابت ہوگا ؟
(بحوالہ راہ سنت)
 

ناصرنعمان

وفقہ اللہ
رکن

بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کی دوسری دلیل
اہل بدعت ہر قسم کی بدعات کے جواز پر ایک حدیث پیش کیا کرتے ہیں ۔۔۔۔جس کو مفتی احمد یار نعیمی صاحب نے بھی نقل کیا ہے ۔۔۔۔چناچہ وہ لکھتے ہیں :
”وقال علیہ السلام ماراہ المسلمون حسناً فھو عند اللہ حسن“(جاءالحق ص ۱۰۳)
یعنی جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے “


اس روایت کو سامنے رکھ کو وہ جملہ بدعات کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمان ان کو اچھا سمجھتے ہیں ،لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہی ہوں گی ،اور اچھے کا م پر نہ تو گرفت ہوتی ہے اور نہ گناہ ۔

اس روایت کے متعلق چند ضروری ابحاث ہیں جن کو سمجھنا نہایت ہی اہم ہے ۔
اول :
اگر چہ بعض حضرات فقہائے کرام نے اس روایت کو مرفوع بیان کیا ہے لیکن یہ روایت مرفوع نہیں ہے بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے ۔چناچہ جمال الدین الزیلعی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 167 ھ) لکھتے ہیں :
”میں نے اس روایت کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہی پایا ہے “(نصب الرا یہ ج 4 ص133)

اور مشہور محدث علامہ الامام صلاح الدین ابو سعیدی العلائی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 741 ھ) فرماتے ہیں
:
”مین نے اس روایت کو باوجود طویل بحث و تمحیص اور زیادہ کھوج اور سوال کے حدیث کی کسی کتاب میں کسی ضعیف سند کے ساتھ بھی مرفوع نہیں پایا ،بلکہ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو موقوف قول ہے “(بحوالہ فتح الملہم ج 2 ص 409)

اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابی کا قول خصوصاً حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے بارگاہ نبوت میں معتمد علیہ کا ،اپنے مقام پر ایک وزنی دلیل ہے ۔مگر اصول حدیث کی رو سے مرفوع اور موقوف کا جو فرق ہے وہ بھی نظر انداز کنے کے قابل نہیں ہے ۔جو حیثیت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کی ہے وہ یقینا کسی صحابی کے قول کی نہیں ہے ،اگر چہ وہ صحیح بھی ہو ۔حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس موقوف قول کو پیش کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :”اس کی سند صحیح ہے “

دوم:
اصل بحث یہ ہے کہ ”المسلمون“سے کون سے مسلمان مراد ہیں ؟
اگر ”الف“اور ”لام“اس میں جنس کے لئے ہو تو لازم آئے گا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے تہتر فرقے سب کے سب ناجی ہوجائیں کیوں کہ ہر ایک فرقہ ازراہ تدین اپنے معمول کو حسن ہی سمجھتا ہے اور یہ اس حدیث کے خلاف ہے ”ماانا علیہ واصحابی“
اور اگر ”المسلمون“ میں ”الف “اور ”لام“سے استغراق مراد ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس چیز کو تمام مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہی ہوگی ۔تو اس سے ”اجماع اُمت“مراد ہوگی ۔۔۔اور ”اجماع“ کے حسن ہونے میں کیا شک ہے ؟

اور اگر ”المسلمون“ میں ”الف “ اور ”لام“ سے عہد خارجی (علماءاصول کا یہ مسلک ہے کہ اصل الف لام میں عہد خارجی ہے ۔تلویح ص 147 اور ص 160وغیرہ )مراد ہو تو اس سے مسلمانوں کا ایک مخصوص طبقہ مراد ہوگا کہ مسلمانوں کا وہ گروہ اور طبقہ جس چیز کو اچھا سمجھے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہوگی ۔۔۔اور مسلمانوں کا وہ گروہ اولین درجہ پر بفحوائے حدیث ”ماانا علیہ واصحابی“صرف حضرات صحابہ کرام رجوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا گروہ ہی ہوسکتا ہے۔۔۔ اور یہی بات صحیح ہے کہ جس چیز کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پسند کریں وہ اچھی ہوگی ۔

اگر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت اور ان سے مروی دیگر روایات کو سرسری نظر سے دیکھ لیا جائے تو ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا گروہ ہی متعین ہوجاتا ہے ۔
چناچہ امام ابو داود طیالسی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 204 ھ) نے یہ روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے :

اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں پر نظر کی تو حضرت محمد صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے علم کے بموجب رسالت کے لئے چنا اور انتخاب فرمایا ۔پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں کے دلوں کو دیکھا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو انتخاب فرمایا اور ان کو اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کا وزیر بنایا ۔سو جس چیز کو وہ مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہوگی اور جس چیز کو وہ برا سمجھیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری ہوگی “(طیالسی ص 33)
(کم و بیش یہی الفاظ مسند احمد میں بھی مروی ہیں ۔الزیلعی ج 4 ص 133 والدرایہ ص 306)

اور امام ابو عبد اللہ الحاکم رحمتہ اللہ علیہ ( المتوفی 405 ھ)صحیح سند کے ساتھ ( جس کی تصحیح پر امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ ذھبی رحمتہ اللہ علیہ دونوں متفق ہیں) اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں :
”جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اچھی ہی ہوگی اور جس چیز کو مسلمان برا سمجھیں وہ وہ عند اللہ بھی بری ہی ہوگی اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا اور ان کی خلافت کو اچھا سمجھا ،لہٰذا ان کی خلافت عند اللہ بھی اچھی ہی ہوگی “(المستدرک حاکم ج 3 ص 78)

ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”المسلمون“کے لفظ سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہی کی طرف اشارہ ہے ،بلکہ تصریح فرماتے ہیں کہ ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا پاک گروہ ہی مراد ہے ۔
یہی نہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہی مراد لیتے ہیں بلکہ اُمت کو تاکید فرماتے ہیں کہ وہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلیں اور ان کی خلاف ورزی نہ کریں ۔کیوں کہ ان کی اتباع ہی میں فلاح ہے ۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سنت پر چلنا چاہتا ہے وہ وہ ان بزرگوں کے قدم پر چلے جو فوت ہوچکے ہیں کیوں کہ زندہ کبھی فتنہ سے مامون نہیں ہوسکتا ۔وہ لوگ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جو اس اُمت کے نہایت افضل لوگ ہیں اور نہایت بھلے قلوب والے اورر نہایت گہرے علم والے اور نہایت کم تکلف اور کم بناوٹ والے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کے قائم کرنے کے لئے انتخاب کیا تھا ۔ان کی فضیلتوں کو پہچانواور ان کے نقش وقدم پر چلو اور جس قدر ہوسکے اپن کے اخلاق اور سیرت کو مشعل راہ بناﺅ کیوں کہ وہ لوگ ہدایت مستقیمہ پر تھے “(رواہ رزین مشکوة ج 1 ص32)

اس روایت سے نہایت صراحت اور وضاحت سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”المسلمون“کا مصداق صرف ”اولٰئک اصحٰب محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم “ہی تھے اور یہی وہ مفہوم ہے جس کو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے” مااناعلیہ واصحابی “سے تعبیر فرمایا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اتباع کی تاکید فرمائی اور اس کے خلاف ابتداع کی مذمت کی ہے :
”ہمارے نقش قدم کی پیروی کرو اور اپنی طرف سے بدعتیں مت ایجاد کرو کیوں کہ (دین مکمل ہوچکا ہے اور) تم کفایت کئے گئے ہو“(الااعتصام ج 1 ص 54)

اور دوسری طرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سختی سے ان لوگوں کی تردید کی اور ان کو مسجد سے نکال دیا جنہوں نے مل کر بلند آواز سے ذکرکرنے کو پسند کیا تھا ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ اُن کا گذر مسجد میں ذاکرین کی ایک جماعت پر ہوا ،جس میں ایک شخص کہتا تھا ۔سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو تو حلقہ نشین لوگ کنکریوں پر سو مرتبہ تکبیر کہتے ۔پھر وہ کہتا سو مرتبہ ”لاالہ الااللہ“پڑھو تو وہ سو بار تہلیل پڑھتے
۔پھر وہ کہتا سو مرتبہ” سبحان اللہ “ کہو،تو وہ سنگریزوں پر سو دفعہ تسبیح پڑھتے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ان سنگریزوں اور کنکریوں پر کیا پڑھتے تھے؟ وہ کہنے لگے ہم تکبیر ،تہلیل و تسبیح پڑھتے رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا :
”فقال فعدو ا من سیئا تکم فانا ضا من ان لا یضیع من حسنا تکم شئی ویحکم یا امتہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم مااسرع ھلکتم ھٰولاءصحابة بینکم متوافرون وھٰذا ثیا بہ لم تبل واٰ نیتہ لم تکسر (الیٰ ان قال) او مفتحی باب ضلالة“(مسند دارمی ص 38 قلت بسند صحیح )
یعنی تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کیا کرو ،میں اس کا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہوگا ۔تعجب ہے تم پر اے اُمت محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم ،کیا ہی جلدی تم ہلاکت میں پڑ گئے ہو ۔ابھی تک حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تم میں بکثرت موجود ہیں ،اور ابھی تک جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پرانے نہیں ہوئے اور ابھی تک آپ کے برتن نہیں ٹوٹے (آگے فرمایا ) اندریں حالات تم بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھولتے ہو ۔

غورفرمائیں کہ اُن لوگوں کا یہ فعل جو بظاہر اچھا تھا بلکہ اُن مسلمانوں کو بھی اچھا لگ رہا تھا۔۔۔لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اُن کے اس فعل کو ”ماراہ المسلمون حسناً“ کے تحت حسن اور اچھا نہ سمجھا کیوں کہ ان لوگوں کا یہ طریقہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے طریقہ کے خلاف تھا ۔​
محترم قارئین کرام
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی اہل بدعت کے غلط استدلال کی بخوبی وضاحت ہوجاتی ہے

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
ماخوذ : راہ سنت
 
Top