جشن میلاد النبی ناجائز کیوں ؟ اور جلوس اہلحدیث اور جشن دیوبند کا جواز کیوں ؟

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَاِن تعدو نِعمَةَ اللّٰہ ِ لَا تَحصُو ھَا۔
اور اگر اللہ کی نعمتوں کو گنو تو شما ر نہ کرسکوگے ۔ پارہ نمبر 12 رکوع نمبر 17
بے شک اللہ تعالیٰ کی نعمتیں لاتعداد اور بے حساب اور حد شمار سے باہر ہیں ، مگر ان سب نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت بلکہ تمام نعمتوں کی جان ، جان ِ جہان و جانِ ایمان حضور پر نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہے ، جن کے طفیل باقی سب نعمت و انعامات ہیں ، اعلیٰ حضرت مجددّ دین و ملت مولانا امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے فرمایا :۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
اس لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کر ، سب سے زیادہ اور بہت ہی اہتمام و تاکید کے ساتھ آپ کی ذات بابرکات کے بھیجنے کا احسان ظاہر فرمایا ۔ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم ۔ بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا ، مسلمانوں پر کہ ان میں انہی سے ایک رسول بھیجا ۔ (پ 14 ، رکوع 8 ) چونکہ ایمانداروں پر سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑا احسان ظاہر فرمایا ہے ، اس لئے اہل ایمان اس کی سب سے بڑھ کر قدرو منزلت جانتے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ شکر ادا کرتے ہیں اور جس ماہ یوم میں اس احسان و نور و نعمت کا ظہور ہوا ، اس میں اس کا بالخصوص چرچا و مظاہرہ کرتے ہیں، اس لئے کہ مولیٰ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا اپنی نعمتوں کی تذکیر تشکر اور ذکر اذکار کا حکم فرمایا ہے ، خاص طور پر سورۃ الضحیٰ میں ارشاد ہوا ہے ۔ واما بنعمة ربک فحدث ۔ ( اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔پ 30 رکوع 18 ۔) پھر بطور خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے نعم[font=] [/font]اللہ ہونے کا بیان اور ناشکری و ناقدری کرنے والے بے دینوں کا رد فرمایا ۔ الم تر الی الذین بدلو انعمة اللہ کفراََ۔ ( کیا تم نے انہیں نہ دیکھا ، جنہوں نے اللہ کی نعمت نا شکری سے بدل دی ۔ پ 13 رکوع 17 ۔) بخاری شریف و دیگر تفاسیر میں سید المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس و حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :: کہ ناشکری کرنے والے کفار ہیں ۔ ومحمدنعمۃ اللّٰہ ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں ( بخاری شریف جز ثالث صفحہ 6 ) جب اللہ کے فرمان اور قرآن سے ثابت ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خاص نعمت ہیں جس پر اللہ نے اپنے خاص احسان کا ذکر فرمایا اور پھر نعمت کا چرچا کرنے کا بھی حکم دیا تو اب کون مسلمان و اہل ایمان ہے جو آپ کی ذات بابرکات ، نور کے ظہور اور دنیا میں جلوہ گری و تشریف آوری کی خوشی نہ منائے ، شکر ادا نہ کرے اور سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑھ کر چرچا و مظاہرہ پسند نہ کرے اور نعمت عظمٰی کے خصوصی شکرانہ اور چرچا و مظاہرہ کے لئے جشن عید میلا النبی صلی اللہ علیہ وسلم مولود شریف اور یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس مبارک پر برا منائے اور زبان طعن دراز کرے ۔ مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خاں مرحوم نے کیا خوب فرمایا ہے :۔
حبیب حق ہیں خدا کی نعمت بنعمۃ ربک فحدث
یہ فرمان مولٰی پر عمل ہے جو بزم مولد سجارہے ہیں

رحمت کے خوشی :۔
قرآن ہی میں یہ بھی بیان ہے کہ ( تم فرماﺅ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر چاہیے ، کہ خوشی کریں ، وہ ان کی سب دھن دولت سے بہتر ہے )۔ پ 11 رکوع 11 ۔جس طرح اوپر نعمت کا چرچا کرنے کا ذکر ہوا ہے ، اسی طرح یہاں فضل و رحمت پر خوشی منانے کا بیان ہے اور کون مسلمان نہیں جانتا کہ اللہ کا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی رحمت بلکہ جانِ رحمت اور رحمۃ اللعالمین (پ17 رکوع 7 ) آپ کی ذاتِ بابرکات ہے یہاں فضل و رحمت سے اگر کوئی بھی چیز مراد لی جائے تو یقینا وہ بھی آپ ہی کا صدقہ وسیلہ اور طفیل ہے ، لہذا آپ بہر صورت بدرجہ اولیٰ فضل الہٰی و رحمت خداوندی اور نعمۃ اللہ ہونے کا مصداق کامل ہیں ، کیونکہ دونوں جہان میں آپ کا ہی سب فیضان ہے اور آپ کی خوشی منانا ، چرچا و مظاہرہ کرنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان و فرمان خداوندی کے تحت و اس کے مطابق ہے ، نہ کہ معاذ اللہ اس کے مخالف و منکر اور شرک و بدعات ۔
خدا کا شکر نعمت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت ہے
یہ دونوں کی اطاعت ہے قیام محفل مولد
حصول فیض و رحمت ہے نزول خیر و برکت ہے
حصول عشق حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے قیام محفل مولد
نہ اس میں رفع سنت ہے نہ شرک و کفر بدعت ہے
یہ رد شرک و بدعت ہے قیام محفل مولد
جاری
 

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
یوم ولادت کی اہمیت :۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر شریف (سوموار) کا روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : فیہ ولدت وفیہ انزل علیہ ۔ یعنی اسی دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 179 ) اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور یوم نزول قرآن کی اہمیت اور اس دن کی یادگار منانا اور شکر نعمت کے طور پر روزہ رکھنا ثابت ہوا جیسے ہفتہ وار دنوں کے حساب سے یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی یادگار اہمیت ہے ویسے ہی سالانہ تاریخ کے حساب سے بھی یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی اہمیت و امت میں مقبولیت ہے ، جس طرح نزول قرآن کا دن پیر 27 رمضان المبارک کو سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ، اسی طرح یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن پیر 12 ربیع الاوّل میں ہونے کے باعث اہل اسلام میں ماہ ربیع الاوّل و 12 ربیع الاوّل کی سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ۔ بلکہ امام احمد بن محمد قسطلانی شارح بخاری اور شیخ محقق علامہ عبد الحق محدّث دہلوی شارح مشکوٰۃ ( رحمۃ اللہ علیہما ) جیسے محدثین نے نقل فرمایا کہ امام احمد بن حنبل جیسے امام واکابر علماءامت نے تصریح کی ہے کہ شب میلاد شب قدر سے افضل ہے ۔ نیز فرمایا جب آدم علیہ السلام کی پیدائش کے دن جمعۃ المبارک میں مقبولیت کی ایک خاص ساعت ہے تو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد کی ساعت کے متعلق تیرا کیا خیال ہے ۔( اس کی شان کا کیا عالم ہوگا)۔(زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ135.136 ۔ مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 13 )
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کیا خوب ترجمانی کی ۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
لفظ عید کی تحقیق :۔
مذکورہ ارشادات کی روشنی میں مزید عرض ہے کہ بفرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جمعۃ المبارک آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن بھی ہے اور عید کا دن بھی ہے بلکہ عند اللہ عید الاضحٰی اور عید الفطر سے بھی بڑا دن ہے ۔( مشکوٰۃ شریف صفحہ 123/140 ) ملخصاََ
لہذا جب سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن عید کا دن بلکہ دونوں عیدوں سے بڑھ کر ہوسکتا ہے تو سیدنا سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں ہوسکتا ؟ جب کہ سب کچھ آپ کا ہی فیضان ، آپ کے دم قدم کی بہار اور آپ ہی کے نور کا ظہور ہے ۔
ہے انہی کے دم قدم سے باغ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گروہ نہ ہوں عالم نہیں
صحابہ کا فتویٰ :۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم ۔ تلاوت فرمائی ۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :: یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ۔(یوم جمعہ اور یوم عرفہ ) مشکوٰۃ شریف صفحہ 121 ۔۔ مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے ۔ بلکہ یوم جمعہ کے علاوہ یوم عرفہ کوبھی عید قرار دے کر واضح فرمایا کہ واقعی جس دن اللہ کی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا ہو خاص اس دن بطور یادگار عید منانا ، شکر نعمت اور خوشی کا اظہار کرنا جائز اور درست ہے علاوہ ازیں جلیل القدر محدث ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس موقع پر یہ بھی نقل فرمایا کہ ہر خوشی کے دن کے لئے لفظ عید استعمال ہوتا ہے ، الغرض جب جمعہ کا عید ہونا ، عرفہ کا عید ہونا ، یوم نزول آیت کا عید ہونا ہر انعام و عطا کے دن کا عید ہونا اور ہر خوشی کے دن کا عید ہوناواضح و ظاہر ہوگیا تو اب ان سب سے بڑھ کر یوم عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ۔ جو سب کی اصل و سب مخلوق سے افضل ہیں ۔ مگر :
آنکھ والے تیرے جلووں کا نظارہ دیکھے
دیدہ ء کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
قرآن کی تائید :
عیسٰی ابن مریم نے عرض کی : اے اللہ ! اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار ۔ کہ وہ دن ہمارے لئے عید ہوجائے اگلوں او ر پچھلوں کی ۔(پارہ 7 آیت 114 سورہ المائدہ )
سبحان اللہ !! جب مائدہ اور من و سلویٰ جیسی نعمت کا دن عید کا دن قرار پایا ۔ تو سب سے بڑی نعمت یوم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شک رہا ؟
محدثین کا بیان :
امام احمد بن محمد قسطلانی علامہ محمد بن عبد الباقی زرقانی اور شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دعائیہ بیان نقل فرمایا : فرحم اللہ امراءاتخذ لیالی شھر مولدہ المبارک اعیادہ ۔ اللہ اس شخص پر رحم فرمائے ، جو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہ میلاد کی راتوں کو عیدوں کی طرح منائے ۔(زرقانی شرح المواہب جلد اول صفحہ 139 ۔ ماثبت من السنۃ صفحہ 60 ) دیکھئے ایسے جلیل القدر محدثین نے نہ صرف ایک دن بلکہ ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب راتوں کو عید قرار دیا ہے اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ منانے والوں کے لئے دعائے رحمت بھی فرمائی ہے ، جس دن کی برکت سے ربیع الاول کی راتیں بھی عیدیں قرار پائیں ۔ 12 ربیع الاول کا وہ خاص دن کیونکر عید قرار نہ پائے گا ؟ بلکہ امام دادودی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں آپ کی ولادت کی جگہ مسجد حرام کے بعد سب سے افضل ہے اور اہل مکہ عیدین سے بڑھ کر وہاں محافل میلاد کا انعقاد کرتے تھے ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مبارک جگہ محفل میلاد میں حاضری اور مشاہدہ ءانوار کا ذکر فرمایا ۔( جواہر البحار جلد سوم صفحہ 1154 فیوض الحرمین صفحہ 27 )
جاری
 

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
یوم ولادت کی اہمیت :۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر شریف (سوموار) کا روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : فیہ ولدت وفیہ انزل علیہ ۔ یعنی اسی دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 179 ) اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور یوم نزول قرآن کی اہمیت اور اس دن کی یادگار منانا اور شکر نعمت کے طور پر روزہ رکھنا ثابت ہوا جیسے ہفتہ وار دنوں کے حساب سے یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی یادگار اہمیت ہے ویسے ہی سالانہ تاریخ کے حساب سے بھی یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی اہمیت و امت میں مقبولیت ہے ، جس طرح نزول قرآن کا دن پیر 27 رمضان المبارک کو سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ، اسی طرح یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن پیر 12 ربیع الاوّل میں ہونے کے باعث اہل اسلام میں ماہ ربیع الاوّل و 12 ربیع الاوّل کی سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ۔ بلکہ امام احمد بن محمد قسطلانی شارح بخاری اور شیخ محقق علامہ عبد الحق محدّث دہلوی شارح مشکوٰۃ ( رحمۃ اللہ علیہما ) جیسے محدثین نے نقل فرمایا کہ امام احمد بن حنبل جیسے امام واکابر علماءامت نے تصریح کی ہے کہ شب میلاد شب قدر سے افضل ہے ۔ نیز فرمایا جب آدم علیہ السلام کی پیدائش کے دن جمعۃ المبارک میں مقبولیت کی ایک خاص ساعت ہے تو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد کی ساعت کے متعلق تیرا کیا خیال ہے ۔( اس کی شان کا کیا عالم ہوگا)۔(زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ135.136 ۔ مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 13 )
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کیا خوب ترجمانی کی ۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
السلام علیکم نورانی صاحب
آپ نے خود اوپر لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھا کرتے تھے ۔۔۔۔!
اور ایک مسلمان کے پاس نبی کی سنت سے بڑھ کر کوئی متاع نہیں ہو سکتی ۔۔۔
تو میرے محترم نبی کی سنت تو یہ ہے کہ نبی کی پیدائش کے دن روزہ رکھا جائے ۔۔۔۔! نہ کہ اس دن کو عید کا دن قرار دے کر جلسے جلوس نکالے جائیں ۔۔۔
کیونکہ جس دن عید ہو اس دن روزہ نہیں ہوتا
اور جس دن روزہ ہو اس دن عید نہیں ہوتی ۔۔۔!

میرے محترم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں آمد یقینا دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہے ۔۔۔ اور ہمارے دین نے خوشی منانے کے طریقے بھی ہمیں سمجھائے ہیں ۔۔۔۔
عید میلاد النبی کے نام سے مروجہ جلوس نکالنے کا طریقہ اگر آپ نبی اور صحابہ کی سنت سے ثابت کر سکیں تو اگلی دفعہ میں آپ کے ساتھ عید میلاد جلوس نکالوں گا۔۔۔۔!

لفظ عید کی تحقیق :۔
مذکورہ ارشادات کی روشنی میں مزید عرض ہے کہ بفرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جمعۃ المبارک آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن بھی ہے اور عید کا دن بھی ہے بلکہ عند اللہ عید الاضحٰی اور عید الفطر سے بھی بڑا دن ہے ۔( مشکوٰۃ شریف صفحہ 123/140 ) ملخصاََ
لہذا جب سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن عید کا دن بلکہ دونوں عیدوں سے بڑھ کر ہوسکتا ہے تو سیدنا سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں ہوسکتا ؟ جب کہ سب کچھ آپ کا ہی فیضان ، آپ کے دم قدم کی بہار اور آپ ہی کے نور کا ظہور ہے ۔
ہے انہی کے دم قدم سے باغ عالم میں بہار
وہ نہ تھے عالم نہ تھا گروہ نہ ہوں عالم نہیں

محترمی نورانی صاحب یہاں پر آپ غلط مفہوم لے رہے ہیں ۔۔۔۔
کیا آپ کے نزدیک نبی کے قول اور اپنی مرضی کے ایک قول کا مرتبہ ایک جیسا ہے ؟

جمعہ کے دن کو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کا دن قرار دیا ۔۔۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن کو عید آپ نے قرار دیا۔۔۔
اس لئے نبی کا قول تو ہمارے لئے معتبر ہے ۔۔۔
البتہ آپ کا خود ساختہ قول ہمارے لئے معتبر نہیں ۔۔۔!
اور دوسرا آپ نبی کی ولادت کے دن کو عید کا دن کہہ رہے ہیں
جبکہ نبی نے خود اس دن روزہ رکھا ہے ۔۔۔
اور نبی ﷺ نے اپنی ولادت کے دن روزہ رکھ کر یہ بتلا دیا کہ میری ولادت کا دن عید کا دن نہیں بلکہ روزہ کا دن ہے ۔۔۔!


صحابہ کا فتویٰ :۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم ۔ تلاوت فرمائی ۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :: یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ۔(یوم جمعہ اور یوم عرفہ ) مشکوٰۃ شریف صفحہ 121 ۔۔ مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے ۔ بلکہ یوم جمعہ کے علاوہ یوم عرفہ کوبھی عید قرار دے کر واضح فرمایا کہ واقعی جس دن اللہ کی طرف سے کوئی خاص نعمت عطا ہو خاص اس دن بطور یادگار عید منانا ، شکر نعمت اور خوشی کا اظہار کرنا جائز اور درست ہے علاوہ ازیں جلیل القدر محدث ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری نے اس موقع پر یہ بھی نقل فرمایا کہ ہر خوشی کے دن کے لئے لفظ عید استعمال ہوتا ہے ، الغرض جب جمعہ کا عید ہونا ، عرفہ کا عید ہونا ، یوم نزول آیت کا عید ہونا ہر انعام و عطا کے دن کا عید ہونا اور ہر خوشی کے دن کا عید ہوناواضح و ظاہر ہوگیا تو اب ان سب سے بڑھ کر یوم عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ۔ جو سب کی اصل و سب مخلوق سے افضل ہیں ۔ مگر :
آنکھ والے تیرے جلووں کا نظارہ دیکھے
دیدہ ء کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے

میرے محترم یہاں پھر آپ صرف قیاس آرائیوں سے کام چلا رہے ہیں
کہ یوں ہوسکتا ہے تو یوں کیوں نہیں ہو سکتا۔۔۔ جب کہ ہمیں یہ سوچنا چاہئے
کہ یوں ہوا ہے ۔۔۔۔ اور یوں نہیں ہوا ہے ۔۔۔
جس دن کو نبی ﷺ اور نبی ﷺ کے صحابہ عید کادن کہہ دیں وہ یقینا ہمارے لئے عید کادن ہے ۔۔۔ آپ ﷺ کی ولادت کے دن کو نہ آپ ﷺ نے عید کادن کہا نہ آپ ﷺ کے صحابہ نے بلکہ آپ نے خود ساختہ طور پر اس دن کو عید کادن قرار دیا ۔۔۔
تو میرے محترم احکامِ شرعیہ میں آپ کے خود ساختہ قول کی کوئی اہمیت نہیں
یا تو اس قول سے رجوع کریں یا پھر ثابت کردیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ولادت کے دن کو عید دن کہہ کر مروجہ طریقہ سے جلوس نکالے ہوں ۔۔۔؟ یا آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس دن کو عید کا دن کہہ کر مروجہ طریقہ سے کوئی کام کیا ہو ۔۔۔؟

قرآن کی تائید :
عیسٰی ابن مریم نے عرض کی : اے اللہ ! اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار ۔ کہ وہ دن ہمارے لئے عید ہوجائے اگلوں او ر پچھلوں کی ۔(پارہ 7 آیت 114 سورہ المائدہ )
سبحان اللہ !! جب مائدہ اور من و سلویٰ جیسی نعمت کا دن عید کا دن قرار پایا ۔ تو سب سے بڑی نعمت یوم عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عید ہونے میں کیا شک رہا ؟
اس کا بھی وہی جواب ہے جو میں پہلے دے چکا ہوں کہ مائدہ کے نزول کو قرآن نے عید کہا ہے ۔۔۔ جبکہ آپ ﷺ کی ولادت کے دن کو قرآن نے عید نہیں کہا ۔۔۔!

میرے محترم آپ کے پیش کردہ معروضات کے میں نے تسلی بخش جواب دے دئیے ہیں۔۔۔ اب دیکھتے ہیں آپ ان پر کیا کہتے ہیں ۔۔۔
 

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
مفسرین کا اعلان : ۔
امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ نے امام فخر الدین رازی ( صاحب تفسیر کبیر) نے نقل فرمایا کہ جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا ۔ برکت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا شخص نہ محتاج ہوگا نہ اس کا ہاتھ خالی رہے گا ۔ (النعمۃ الکبرٰی صفحہ 9 ) مفسر قرآن علامہ اسماعیل حقی نے امام سیوطی امام سبکی ، امام بن حجر عسقلانی ، امام ابن حجر ، امام سخاوی ، علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہم جیسے اکابر علمائے امت سے میلاد شریف کی اہمیت نقل فرمائی اور لکھا ہے کہ میلاد شریف کا انعقاد آپ کی تعظیم کے لئے ہے ،اور اہل اسلام ہر جگہ ہمیشہ میلاد شریف کا اہتمام کرتے ہیں ۔( تفسیر روح البیان جلد 9 صفحہ 56 )۔ 12 ربیع الاول پر اجما ع امت :۔
امام قسطلانی ، علا مہ زرقانی ، علامہ محمد بن عابدین شاکی کے بھتیجے علامہ احمد بن عبد الغنی دمشقی ، علامہ یوسف نہبانی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم نے تصریح فرمائی کہ امام المغازی محمد بن اسحاق وغیرہ علماءکی تحقیق ہے کہ یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے کہا یہی جمہور سے مشہور ہے اور علامہ ابن جوزی اور علامہ ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ اس لئےکہ سلف و خلف کا تمام شہروں میں 12 ربیع الاول کے عمل پر اتفاق ہے ۔ بالخصوص اہل مکہ اسی موقع پر جائے ولادت باسعادت پر جمع ہوتے اور اس کی زیارت کرتے ہیں ۔ ملخصاََ (زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ 132 ۔ جواہر البحار جلد 3 صفحہ 1147 ۔ماثبت من السنۃ صفحہ 57 ۔ مدارج النبوت صفحہ 14 ) واقعہءابولہب : ۔
جلیل القدر آئمہ محدثین نے نقل کیا ہے کہ ابولہب نے اپنی لونڈی ثوبیہ سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری سن کر اسے آزاد کردیا ، جس کے صلہ میں بروز پیر اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور انگلی سے پانی چوسنا میسر آتا ہے ، جب کافر کا یہ حال ہے تو عاشق صادق مومن کے لئے میلاد شریف کی کتنی برکات ہوں گی ؟ ( بخاری جلد 3 صفحہ 243 ، مع شرح زرقانی صفحہ 139 ماثبت بالسنہ صفحہ 60 ) دوسروں کی زبان سے :۔
( ہفت روزہ اہلحدیث) لاہور۔27 مارچ 1981 ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے ۔: ملک میں حقیقی اسلامی تقریبات کی طرح یہ بھی (عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک اسلامی تقریب ہی شمارہوتی ہے اور اس امر واقعہ سے آپ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اب ہر برس ہی 12 ربیع الاول کو اس تقریب کے اجلال و احترام میں سرکاری طور پر ملک بھر میں تعطیل عام ہوتی ہے اور آپ اگر سرکاری ملازم ہیں تو اپنے منہ سے اس کو ہزار بار بدعت کہنے کے باوجود آ پ بھی یہ چھٹی مناتے ہیں اور آئندہ بھی یہ جب تک یہاں چلتی ہے آپ اپنی تمام تر (اہلحدیثیت ) کے باوجود یہ چھٹی مناتے رہیں گے ۔۔۔۔ خواہ کوئی ہزار منہ بنائے دس ہزار بار ناراض ہوکر بگڑے جب تک خدا تعالیٰ کو منظور ہوا یہاں اس تقریب کی کارفرمائی ایک امر واقعہ ہی ہے ۔جلوس :۔
حکومت اگر اپنے زیراہتمام تقریب کو سادہ رکھے اور دوسروں کو بھی اس بات کی پرزور تلقین کرے تو اس کااثر یقینا خاطرخواہ ہوگا ۔ انشاءاللہ ۔ اس تقریب کے ضمن میں جتنے بھی جلوس نکلتے ہیں اگر ان کو حکومت کے اہتمام سے خاص کردیا جائے تو یہ کام ہرگز مشکل نہیں ہے ، ہر جگہ کے حکام بآسانی اس کام کو سرانجام دے سکتے ہیں ، اگر ہر شہر میں صرف ایک ہی جلوس نکلے اور اسے ہر ہر جگہ کے سرکاری حکام کنٹرول کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مفاسد اچھل سکیں اور مصائب رونما ہوں ۔( اہلحدیث 16.1.81...27.3.81. ) تنظیم اہلحدیث :۔
جماعت اہلحدیث کے بالعموم اورحافظ عبد القادر روپڑی کے بالخصوص ترجمان ہفت روزہ (تنظیم اہلحدیث ) لاہور نے 17 مئی 1963 ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں ، جس دن گناہ سے محفوظ رہے ، جس دن خاتمہ بالخیر ہو ، جس دن پل سے سلامتی کے ساتھ گزرے ، جس دن جنت میں داخل ہو اور جب پردردگار کے دیدار سے بہر ہ یاب ہو ۔تنظیم اہلحدیث کا یہ بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔(درۃ الناصحین صفحہ 263 ) مقام انصاف ہے کہ جب مومن کی اکھٹی پانچ عیدیں تکمیل دین کے خلاف نہیں تو جن کے صدقہ و وسیلہ سے ایمان قرآن اور خود رحمان ملا ، ان کے یوم میلاد کو عید کہہ دینے سے دین میں کونسا رخنہ پڑجائے گا ؟جبکہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مقابلے کے لئے ہے اور نہ ان کی شرعی حیثیت ختم کرنا مقصود ہے ، اہلحدیث مزید لکھا ہے کہ ( اگر عید کے نام پر ہی آپ کا یوم ولادت منانا ہے تو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف دیکھیں کہ آپ نے یہ دن کیسے منایا تھا ؟ سنئے !
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن منایا پر اتنی ترمیم کے ساتھ کہ اسے تنہا عید میلاد نہیں رہنے دیا بلکہ عید میلاد اور عید بعث کہہ کر منایا اور منایا بھی روزہ رکھ کر اور سال بہ سال نہیں بلکہ ہر ہفتہ منایا ۔( ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 27 مارچ 1981 ئ)
سبحان اللہ ! اہلحدیث نے تو حد کردی کہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عید میلاد منانے ہی کی تصریح نہیں کی بلکہ ایک اور عید یعنی عید بعث منانے کا بھی اضافہ کردیا اور وہ بھی ہفتہ وار۔
ماہنامہ دارلعلوم دیوبند نومبر 1957 ء کی اشاعت میں ایک نعت شریف شائع ہوئی ہے کہ ؛
یہ آمد ، آمد اس محبوب کی ہے
کہ نور جاں ہے جس کا نام نامی
خوشی ہے عید میلاد النبی کی
یہ اہل شوق کی خوشی انتظامی
کھڑے ہیں باادب صف بستہ قدسی
حضور سرور ذات گرامی
الحمد اللہ ! اس تمام تفصیل اور لاجواب و ناقابل تردید تحقیقی و الزامی حوالہ جات سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اس نعمت کا چرچا کرنے شکر گزاری و خوشی کرنے محافل میلاد کے انعقاد و جلوس نکالنے کی روز روشن کی طرح تحقیق و تائید ہوگئی اور وہ بھی وہاں وہاں سے جہاں سے پہلے شرک و بدعت کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ، ماشا ءاللہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظمت و قوت عشق سے اپنی حقانیت کا لوہا منوالیا ، مگر ضروری ہے کہ میلاد شریف کے سب پروگرام بھی شریعت کے مطابق ہو ں اور منانے والے بھی شریعت و سنت کی پابندی کریں کیونکہ عشق رسالت کے ساتھ اتباع سنت بھی ضروری ہے ۔مسئلہ بدعت :۔
مذکورہ تمام تفصیل و تحقیق کے بعد اب تو کسی بدعت و دت کا خطرہ نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ بدعت و ناجائز تو وہ کام ہوتا ہے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو مگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل و بنیاد اور مرجع و مآخذ قرآن و حدیث ، صحابہ کرام ، جمہور اہل علم ، محدثین ، مفسرین بلکہ اجماع امت اور خود منکرین میلاد کے اقوال سے ثابت کرچکے ہیں ، لہذا اب تو اس کو بدعت تصور کرنا بھی بدعت و ناجائز اور محرومی و بے نصیبی کا باعث ہے ۔
میرے مولا کے میلاد کی دھوم ہے :: ہے وہ بد بخت جو آج محروم ہے
استفسار :
اگر اب بھی کوئی میلاد شریف کا قائل نہ ہو ، تو پھر اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیرت کانفرنس ، سیرت کے اجلاس ، سالانہ تبلیغی اجتماعات ، اہلحدیث کانفرنسیں اور مدارس کے سالانہ پروگرام وغیرہ منعقد کرے ۔ورنہ وہ وجہ فرق بیان کرے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ وسلم کیوں بدعت ہے اور باقی مذکورہ امور کس دلیل سے توحید و سنت کے مطابق ہیں اور ہمارے دلائل اور جلیل القدر محدثین و اکابر کے حوالہ جات کا کیا جواب ہے ؟
تم جو بھی کرو بدعت و ایجاد روا ہے :: اور ہم جو کریں محفل میلاد براہے
منکرین میلاد کا کردار :۔
جو بچہ ہو پیدا تو خوشیاں منائیں
مٹھائی بٹے اور لڈو بھی آئیں
مبارک کی ہر سو آئیں صدائیں
مگر
محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جب یوم میلاد آئے
تو بدعت کے فتوے انہیں یاد آئے
صد سالہ جشن دیوبند کا بیان
جاری
 

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
میرے محترم نورانی میاں میرے مندرجہ بالا سوالات کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔!
اور مزید سوال کر ڈالے ۔۔۔۔!
میرے محترم اتنی لمبی لمبی کاپی پیسٹ کر کے ٹائم ضائع کرنے کی بجائے چند لائنوں میں اپنا عقیدہ اور مسلک میلاد النبی کی حق میں لکھ دیں اور میں بھی اپنا عقیدہ لکھ دیتا ہوں پھر اس پر بحث کرلیتے ہیں۔۔۔۔ ! چلو دلائل کی آپ کو رعایت دیتے ہیں دلائل آپ چاہے کاپی پیسٹ کر لیجئے گا۔۔۔! آخر کاپی پیسٹ کے سوا آپ کو آتا ہی کیا ہے ۔۔۔۔؟
امید ہے مشورہ پسند آئے گا۔۔۔۔!
 

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
ذیشان نصرصاحب اس وقت میرا مضمون جاری ہے کاپی پیست ہو یانہ ہو اس میں ٲپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نھیں بس آپ دلیل دے حوالہ کے ساتھ ادہر ادہر کی باتیں فورم میں اچھی نہیں لگتی
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
ایک فورم میں بربادی کا سامان رکھ دینا، پھر وہاں سے کوچ کر کے دوسرے فورم میں داخل کر دینا۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی کوئی خوبی ہے؟ دوبارہ نقل کرنے کا کچھ فائد حاصل نہ ہو گا۔ اگر واقعی آپ کسی چیز کو سمجھنا چاہتے ہیں ، حق و باطل کو سمجھنے میں مخلص ہیں، تو یہ طریقہ چھوڑیے کہ کبھی بازو پکڑ لیا، وہاں سے جان چھڑا کر کبھی ٹانگ پکڑ لی۔۔۔۔۔۔۔دلائل سے اور غیر جانبدار ہو کر مقابلہ کیجیے جب تک بات واضح نہ ہو جائے دوسرا موضوع نہ شروع کریں، یہ کیا جب دیکھا کہ پھنس گئے تو دوسری بات درمیان میں اڑانا شروع کر دی۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب آپ تلاشِ حق میں نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔
محترم ذیشان صاحب نے جب جوابات دیے تو ان کا ردّ کیجیے دالائل سے یا تسلیم کیجیے۔
 

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
بھیس کے انڈدوں
واقعی آپ لوگ تعصب سے برے ہوئےہو آپ لوگوں کی کیا اصلاح کرئےگے
صرف ہوا میں تیر چلانا کوئی کمال نھیں
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
نورانی نے کہا ہے:
بھیس کے انڈدوں
واقعی آپ لوگ تعصب سے برے ہوئےہو آپ لوگوں کی کیا اصلاح کرئےگے
صرف ہوا میں تیر چلانا کوئی کمال نھیں

بھئی یوں دال نہیں گلنے والی۔۔۔دلائل سے بات کرنے کو بہت جی چاہتا ہے تو پھر کرتے کیوں نہیں؟ ۔۔۔ خالی ایسی بھڑکیں مارنے سے کچھ نہیں ملے گا۔مہذب انداز میں بات کرو۔
 

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
نورانی نے کہا ہے:
ذیشان نصرصاحب اس وقت میرا مضمون جاری ہے کاپی پیست ہو یانہ ہو اس میں ٲپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نھیں بس آپ دلیل دے حوالہ کے ساتھ ادہر ادہر کی باتیں فورم میں اچھی نہیں لگتی
جناب نورانی صاحب ! میں نے آپ کے پیش کردہ معروضات کا مدلل جواب پوسٹ نمبر 3 میں دیا ہے ۔۔۔ !
اس کو ایک دفعہ پڑھ لیں ۔۔۔۔!
میں نے تو دلائل کےساتھ بات کی ہے ۔۔۔ آپ خود ہی میرے دلائل کے جواب میں ادھر ادھر کی ہانک رہے ہیں محترم ۔۔۔۔! اور الزام ہمیں دے رہے ہیں ۔۔۔۔
ہم تو مدت ہی سے حق گوئی کے مجرم ہیں حضور
ہم پہ الزام بڑی دیر کے بعد آیا ہے ۔۔۔۔!
 

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
صدائے باز گشت :۔
شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے شہرہءآفاق کلام و اشعار میں ::
زد یوبند حسین احمد ایں چہ بو العجی است
فرماکردیوبند و صدر دیوبند کی مشرک دوستی و کانگرس نوازی اور متحدہ قومیت سے ہمنوئی کو بہت عرصہ پہلے جس بوالعجی سے تعبیر فرمایا تھا، بمصداق تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ سے تعبیر فرمایا تھا ، اس بو العجی کی صدائے بازگشت اس وقت بھی سنی گئی ، جب صد سالہ جشن دیوبند میں مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم بھارت کو شمع محفل دیکھ کر خود دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم و لیڈر مولوی احتشام الحق تھانوی (کراچی) کو بھی یہ کہنا پڑا کہ
بہ دیوبند مسز گاندھی ایں چہ بوالعجی است
تفصیل : ۔
اس اجمال کی یہ ہے : کہ شان رسالت و جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت کے مرکز اور کانگرس کی حمایت و مسلم لیگ و پاکستان کی مخالفت کے گڑھ دارالعلوم دیوبند کا ۲۱، ۲۲، ۲۳۔ مارچ1980ء کو صد سالہ جشن منایا گیا اور اس موقع پر اندداگاندھی کی کانگریسی حکومت نے جشن دیوبند کا کامیاب بنانے کے لئے ریڈیو۔ ٹی وی۔ اخبارات۔ ریلوے وغیرہ تمام متعلقہ ذرائع سے ہر ممکن تعاون کیا۔ بھارتی محکمہ ڈاک و تارنے اس موقع پر 30 پیسے کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا: جس پر مدرسہ دیوبند کی تصویر شائع کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اندرادیوبندی نے٬بنفس نفیس٬ جشن دیوبند کی تقریبات کا افتتاح کیا۔ اپنے دیدار و آواز و نسوانی اداﺅں سے دیوبندی ماحول کو مسحور کیا: اور دیوبند کے اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں اپنے خطاب سے جشن دیوبند کو مستفیض فرمایا: بانیءدیوبند کے نواسے اور مدرسہ دیوبند کے بزرگ ٬مہتمم قاری محمد طیب صاحب نے اندرادیوی کو ٬عزت مآب وزیراعظم ہندوستان٬ کہہ کر خیر مقدم کیا اور اسے بڑی بڑی ہستیوں میں شمار کیا: اور اندرادیوی نے اپنے خطاب میں بالخصوص کہا کہ٬ ہماری آزادی اور قومی تحریکات سے دارالعلوم دیوبند کی وابستگی اٹوٹ رہی ہے٬: علاوہ ازیں جشن دیوبند کے اسٹیج سے پنڈت نہروکی رہنمائی و متحدہ قومیت کے سلسلہ میں بھی دیوبند کے کردار کو اہتمام سے بیان کیا گیا : بھارت کے پہلے صدر راجند پرشاد کے حوالہ سے دیوبند کو ٬آزادی (ہند) کا ایک مضبوط ستون قرار دیا گیا۔ (ماہنامہ ٬رضائے مصطفٰے٬ گوجرانوالہ جمادی الاخریٰ 1400ھ مطابق اپریل 1980 ء۔)یادگار اخباری دستاویز :۔
نئی دہلی 21۔ مارچ (ریڈیو رپورٹ) اے آئی آر) دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات شروع ہو گئیں بھارت کی وزیر اعظم مسزاندراگاندھی نے تقریبات کا افتتاح کیا۔(روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت لاہور ۲۲، ۳۲۔ مارچ 1980ء) تقریر :۔
مسز اندراگاندھی نے کہا دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان روداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس نے دیگر اداروں کے ساتھ مل جل کر آزادی کی جدوجہد کوآگے بڑھایا۔ انھوں نے دارالعلوم کا موازنہ اپنی پارٹی کانگریس سے کیا (روزنامہ جنگ راولپنڈی ۳۲مارچ) تصویر :۔
روزنامہ جنگ کراچی ۳اپریل کی ایک تصویر میں مولویوں کے جھرمٹ میں ایک ننگے منہ ننگے سر برہنہ بازو۔ عورت کو تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔ ٬مسز اندراگاندھی دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر تقریر کر ہی ہیں۔٬:
روزنامہ ٬نوائے وقت٬ لاہور۔۹۔اپریل کی تصویر میں ایک مولوی کو اندراگاندھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔٬مولانا راحت گل مسزاندراگاندھی سے ملاقات کرنے کے بعد واپس آ رہے ہیں۔دیگر شرکاء :۔
جشن دیوبند میں مسزاندراگاندھی کے علاوہ مسٹر راج نرائن، جگ جیون رام، مسٹر بھوگنا نے بھی شرکت کی۔(جنگ کراچی۱۱۔اپریل) سنجے گاندھی کی دعوت :۔
اندراگاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی نے کھانے کا وسیع انتظام کر رکھا تھا۔ سنجے گاندھی نے تقریبا پچاس ہزار افراد کو تین دن کھانا دیا۔ جو پلاسٹک کے لفافوں میں بند ہوتا تھا۔ بھارتی حکومت کے علاوہ وہاں کے غیر مسلم باشندوں ہندوﺅں اور سکھوں نے بھی دارالعلوم کے ساتھ تعاون کیا۔ (روزنامہ امروز لاہور ۹۔اپریلہندوﺅں کا شوق میزبانی :۔
کئی مندوبین (دیوبندی علماء) کو ہندو اصرار کرکے اپنے گھر لے گئے جہاں وہ چار دن ٹھہرے۔ (روزنامہ امروز لاہور27۔ مارچ 1980ء) حکومتی دلچسپی :۔
اندراگاندھی اور سنجے گاندھی وغیرہ کی ذاتی دلچسپی کے علاوہ اندرا حکومت نے بھی جشن دیوبند کے سلسلہ میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اور اس جشن کے خاص انتظام و اہتمام کے لئے ملک و حکومت کی پوری مشیزی حرکت میں آ گئی اور بڑے بڑے سرکار حکام نے بہت پہلے سے اس کو ہر اعتبار سے کامیاب بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنےآرام و سکون کو قربان کر دیا۔ اور شب و روز اسی میں لگے رہے ریلوے، ڈاک، پریس، ٹی وی، ریڈیو اور پولیس کے حفاظتی عملہ نے منتظمین جشن کے ساتھ جس فراخدلی سے اشتراک و تعاون کیا ہے۔اس صدی میں کسی مذہبی جشن کے لئے ا سکی مثال دور دور تک نظر نہیں آتی۔(ماہنامہ فیض رسول براﺅن بھارت۔مارچ 1980ء) ڈیڑھ کروڑ :۔
جشن دیوبند کے مندوبین نے واپسی پر بتایا کہ جشن دیوبند کی تقریبات پر بھارتی حکومت نے ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کئے اور ساٹھ لاکھ روپے دارالعلوم نے اس مقصد کے لئے اکٹھے کئے۔ (روزنامہ امروز لاہور 27مارچ 1980ء) ۔ لاکھ:۔
مرکزی حکومت نے قصبہ دیوبند ک نوک پلک درست کرنے کے لئے، 30 لاکھ روپیہ کی گرانٹ الگ مہیا کی۔ روٹری کلب نے ہسپتال کی صورت میں اپنی خدمات پیش کیں۔ جس میں دن رات ڈاکٹروں کا انتظام تھا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۔اپریل 1980ء) ۔ لاکھ:۔
مرکزی حکومت نے قصبہ دیوبند ک نوک پلک درست کرنے کے لئے، 30 لاکھ روپیہ کی گرانٹ الگ مہیا کی۔ روٹری کلب نے ہسپتال کی صورت میں اپنی خدمات پیش کیں۔ جس میں دن رات ڈاکٹروں کا انتظام تھا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی ۲۔اپریل 1980ء) اندرا سے استمداد :
مفتی محمودنے اسٹیج پر مسز اندراگاندھی سے ملاقات کی اور ان سے دہلی جانے اور ویزے جاری کرنے کے لئے کہا۔ اس پر اندراگاندھی نے ہدایت جاری کی کہ اسے ویزے جاری کردئیے جائیں۔ چنانچہ بھارتی حکومت نے دیوبند میں ویزا آفس کھول دیا۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور 26مارچ1980ء) دیوبند کے تبرکات:
زائرین دیوبند و جشن دیوبند میں شرکت کے علاوہ واپسی پر وہاں سے بےشمار تحفے تحائف بھی ہمراہ لائے ہیں ان میں کھیلوں کا سامان ہاکیاں طور کرکٹ گیندوں کے علاوہ سیب، گنے، ناریل، کیلا، انناس، کپڑے، جوتے، چوڑیاں، چھتریاں اور دوسرا سینکڑوں قسم کا سامان شامل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چند ایک زائرین اپنے ہمراہ لکڑی کی بڑی بڑی پارٹیشنین بھی لاہور لائے ہیں۔ (روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت 26 مارچ 1980ء) تاثرات
احتشام الحق تھانوی:
کراچی ۲۲۔مارچ مولونا احتشام الحق تھانوی نے کہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا صدسالہ اجلاس جو مذہبی پیشوا اور علماءو مشائخ کا خالص مذہنی اور عالمی اجتماع ہے اس کا افتتاح ایک (غیر مسلم اور غیر محرم خاتون) کے ہاتھ سے کراکرنہ صرف مسلمانوں کی مذہبی رویاات کے خلاف ہے بلکہ ان برگزیدہ مذہنی شخصیتوں کے تقدس کے منافی بھی ہے جو اپنے اپنے حلقے اور علاقوں سے اسلام کی اتھارٹی اور ترجمان ہونے کی حقیقت سے اجتماع میں شریک ہوئے ہیں۔ ایشیاکی دینی درسگاہ کے اس خالص مذہبی صد سالہ اجلاس کو ملکی سیاست کے لئے استعمال کرنا ارباب دارالعلوم کی جانب سے مقدس مذہبی شخصیتوں کا بدترین استحصال اور اسلاف کے نام پر بدترین قسم کی استخوان فروشی ہے ہم ارباب دارالعلوم کے اس غیر شرعی اقدام پر اپنے دلی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اس شرمناک حرکت کی ذمہ داری دارالعلوم دیوبند کے مہتمم پر ہے۔ جنہوں نے دارالعلوم کی صد سالہ روشن تاریخ کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ (روزنامہ امن کراچی 24۔ مارچ 1980ء) وقار انبالوی :
مولانا احتشام الحق صاحب کا یہ کہنا :
(بہ دیوبند مسز اندرا ایں چہ بوالعجبی است)
کی وضاحت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ یہ تو اب تاریخ دیوبند کا ایک ایسا موڑ بن گیا ہے کہ مﺅرخ ا سے کسی طرح نظر انداز کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے دامن سے یہ داغ شاید ہی مٹ سکے۔ وقتی مصلحتوں نے علمی غیرت اور حمیت فقر کو گہنا دیا تھا۔ اس فقیر کو یا د ہے کہ متحدہ و قومیت کی تارنگ میں ایک مرتبہ بعض علماءسوامی سردہانند کو جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھانے کا ارتکاب بھی کر چکے ہیں لیکن دو برس بعد اسی سردہانند نے مسلمانوں کو شدھی کرنے یا بھارت سے نکالنے کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ (سرراہے نوائے وقت ۲۹۔ مارچ 1980ء) جشن دیوبند پر قہرخداوندی :
دارلعلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کے بعد سے (جس میں کچھ باتیں ایسی بھی ہوئیں جو یقینا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نظر عنایت سے محروم کرنے والی تھیں) ایک خانہ جنگی شروع ہوئی جو برابر جاری ہے اوراس عاجز کے نزدیک وہ خداوندی قہرو عذاب ہے۔ راقم سبطور ساٹھ سال پرانی سے اخبار اور رسائل کا مطالعہ کرتا رہا ہے ان میں وہ رسالے اور اخبارات بھی ہوتے ہیں جن میں سیاسی یا مذہبی مخالفین کے خلاف لکھا جاتا تھا اور خوب خبر لی جاتی تھی ۔ ۔ ۔۔۔۔۔ لیکن مجھے یاد نہیں کہ ان میں سے کسی کے اختلافی مضامین میں شرافت کو اتنا پامال اور رزالت و سفالت کا ایسا استعمال کیا گیا ہو جیسا کہ ہمارے دارالعلوم دیوبند سے نسبت رکھنے والے ان مجاہدین قلم نے کیا ہے۔ پھر ہماری انتہائی بدقسمتی کہ ان میں وہ حضرات بھی ہیں جو دارالعلوم کے سند یافتہ فضلاءبتلائے جاتے ہیں۔ (ماہنامہ الفرقان لکھنوءفروری 1981ءالاعتصام لاہور 20۔مارچ) سیارہ ڈائجسٹ :
اناری اسٹیشن پر ٹکٹیں خریدی گئیں تو پتہ چلا کہ حکومت بھارت نے (جشن دیوبند کے) شرکاءکو یکطرفہ کرایہ میں دو طرفہ سفر کی رعایت دی ہے۔ بعض لوگ کفار کی طرف سے اس رعایت یا مدد کو مسترد کرنے پر اصرار کر رہے تھے۔ مگر جب انہیں بتایا گیا کہ اسی کافر حکومت نے جشن دیوبند کی تقریبات کے انتظامات پر ایک کروڑسے زائد رقم لگائی ہے اور گیسٹ ہاﺅس بھی بنوا دیا ہے۔ تو یہ اصحاب ندامت سے بغلیں جھانکنے لگے۔ دیوبند میں اندراگاندھی، جگ جیون رام، چرن سنگھ، جیسی معروف شخصیتیں آئی ہوئی تھیں۔ اور دیوبند تقریبات پر حکومت نے ایک کروڑ 20۔لاکھ روپے صرف کئے اور ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائیں۔ دیوبند کی افتتاحی تقریب میں جب اندراگاندھی نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو ہندوستانی قومیت کے تصور ہم آہنگ کرکے مسلم قومیت کے تصور کی بیخ کنی کی تو وہاں موجود چوٹی کے علماءکو السام کے اس عظیم اور بنیادی فلسفہ کی تشریح اور تصحیح کی جراءت نہ ہوئی۔ حکیم الامت (اقبال) نے کانگریس کے علماءکی اسی ذہنی کیفیت کو بھانپ کر فرمایا تھا:
عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است
تلاوت و ترانہ کے بعد اسٹیج پر کچھ غیر معمولی حرکات کا احساس ہوا۔ اس لئے کہ شریمتی اندراگاندھی افتتاح اجلاس میں آرہی ہیں۔ اسٹیج پر موجودہ تمام عرب و فوددو رویہ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ اندراگاندھی ان سب کے خوش آمدید کا مسکراہٹ سے جواب دیتے ہوئے آئیں۔ انہیں مہمان خصوصی کی کرسی پر جو صاحب صدر اور قاری محمد طیب کی کرسیوں کے درمیان تھی بٹھایا گیا (جبکہ دیگر بڑے بڑے علماءبغیر کرسی کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ شریمتی کو دیکھنے کے لئے زبردست ہلچل مچی تمام حاضرین اور خصوصا پاکستانی شرکاءشریمتی کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ شریمتی ایک مرصع اور سنہری کرسی پر لاکھوں لوگوں کے سامنے جلوہ گر تھیں۔ شریمتی نے سنہری رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی اور ان کے ہاتھ میں ہلکے رنگ کا ایک بڑا سا پرس تھا۔ قاری محمد طیب صاحب کے خطبہءاستقبالیہ کے دوران مصر کے وزیر ادقاف عبداللہ سعود نے شریمتی اندراگاندھی سے ہاتھ ملایا۔ نیز شریمتی ارو مفتی محمود صاحب تھوڑی دیر اسٹیج پر کھڑے کھڑے باتیں کرتے رہے۔ (بعض شرکاء دیوبند کا کہنا ہے کہ اندراگاندھی بن بلائی آئی تھی) اگر یہ درست مان لیا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے مہمان خصوصی کی کرسی پر کیوں بٹھایا گیا تقریر کیوں کرائی گئی ؟ چرن سنگھ اور جگ جیون رام وغیرہ نے ایک مذہبی سٹیج پر کیوں تقاریر کیں؟ کیا یہ سب کچھ دارالعلوم دیوبند کے منتظمین کی خواہش کے خلاف ہوتا رہا ؟ دراصل ایک جھوٹ چھپانے کے لئے انسان کو سو اور جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ کاش! خدا علماءکو سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
ایک پاکستانی ہفت روزہ میں مولانا عبدالقادر آزاد نے غلط اعداد و شمار بیان کئے ہیں۔ یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے ان کے مطابق دس ہزار علماءکا وفد پاکستان سے گیا تھا۔ حالانکہ علماءو طلبہ ملا کر صرف ساڑھے آٹھ سو افراد ایک خصوصی ٹرین کے ذریعے دیوبند گئے تھے۔ اجتماع کی تعداد مولانا نے کم از کم ایک کروڑ بتائی ہے۔ حالانکہ خود منتظمین جلسہ کے بقول پنڈال تین لاکھ آدمیوں کی گنجائش کے لئے بنایا گیا تھا۔ کاش! ہم لوگ حقیقت پسند بن جائیں۔ اعداد و شمار کو بڑھا بڑھا کر بیان کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ عرب و فود کیلئے طعام و قیام کا عالیشان انتظام تھا۔ ڈائینگ ہال اور اس طعام کا ٹھیکہ دہلی کے انٹر کانٹی نینسٹل ہوٹل کا تھا۔ عربوں کے لئے اس خصوصی انتظام نے مساوات اسلامی سادگی اور علماءربانی کے تقدس کے تصور کی دھجیاں اڑا دیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کل انتظام کا ۵۷ فیصد طوجھ عرب و فود کی دیکھ بھال اور اہتمام کی وجہ سے تھا۔ (ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور جون 1980آنکھوں دیکھا حال) سیدہ اندرا گاندھی :روزنامہ اخبار الاعالم الاسلامی سعودی عرب نے لکھا کہ سعودی حکومت نے دارالعلوم دیوبند کو دس لاکھ روپے وظیفہ دیا۔ جبکہ سیدہ اندرا گاندھی نے جشن دیوبند کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کیا۔ (14۔جمادی الاولیٰ 1400ھغلام خان درمدح مشرک :
روزنامہ جنگ راولپنڈی۔ یکم اپریل 1980ءکی اشاعت میں ایک باتصویر اخباری کانفرنس میں مولوی غلام خاں کا بیان شائع ہوا کہ جشن دیوبند کو کامیاب بنانے کے لئے بھارت کی حکومت نے بڑا تعاون کیا ہے۔ سوا کروڑ روپے خرچ کرکے اندراحکومت نے اس مقصد کےلئے سڑکیں بنوائیں، نیا اسٹیشن بنوایا ہم سے نصف کرایہ لیا اور دیوبند کی تصویر والی ٹکٹ جاری کی۔ وزیراعظم اندراگاندھی نے بھارت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کر دیا ہے وہاں باہر سے کوئی چیز نہیں منگواتے اس کے مقابلے میں پاکستان اب بھی گندم تک باہر سے منگوا رہا ہے۔ پاکستان میں باہمی اختلافات اور نوکر شاہی نے ملک کو ترقی کی بجائے نقصان کی طرف گامزن کر رکھا ہے۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی)
یاد رہے :۔
کہ مولوی غلام خاں کا یہ آخری اخباری بیان تھا۔ جس میں اس موحد نے عید میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرح صد سالہ جشن دیوبند کو بدعت قرار دینے اور دیگر تکلفات و فضول خرچی بالخصوص ایک دشمن السام و پاکستان بے پردہ و غیرمحرم کافرہ مشرکہ کی شمولیت کی پر زور مذمت کرنے کی بجائے الٹا جشن دیوبند کی کامیابی و اندراگاندھی کی کامیابی و احسانات کے ذکر و بیان کے لئے باقاعدہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اور اندراحکومت کی توصیف اور اس کے بالمقابل پاکستان کی تنقیص کی گئی اور ساری عمر غیراللہ کی امداد استمداد کا انکار کرنے والوں نے اندراحکومت کے بڑے تعاون کو بڑے اہتمام سے بیان کیا۔ اور ساری عمر یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پکارنے والے صحیح العقیدہ سنی مسلمانوں کو خواہ مخواہ مشرک وبدعتی قرار دے کر مخالف کرنے والے آخر عمر میں کافرہ مشرکہ کی مدح کرنے لگے۔ جس پر قدرت خداوندی کے تحت آخری انجام بھی عجیب و غریب اور عبرتناک ہوا۔
چنانچہ
محمد عارف رضوی ملتانی خطیب فیصل آباد کے ایک مطبوعہ اشتہار میں دوبئی سے مختار احمد صاحب کا ایک خط بدیں الفاظ شائع ہوا ہے۔ کہ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر لکھتا ہوں کہ (دوبئی میں) میں نے خود پہلے ان کی تقریر سنی جو انہوں نے یہاں کی۔ تقریبا دو گھنٹے تک آپ تقریر کرتے رہے۔ ہزاروں لوگ تقریر سننے آئے ہوئے تھے۔ مولانا غلام اللہ خاں صاحب نے خوب خوب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی پہلے میںخود بھی ان کا مداح تھا۔ پھر تقریر کرتے ہوئے انہیں دل پر درد پڑا۔ اور انہیں ہسپتال لایا گیا۔ وہ پلنگ سے اچھل کر چھت تک جاتے اور پھر زمین پر آ پڑتے۔ ڈاکٹر سب کمرہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ میں چھپ کر دیکھتا رہا اور کانپتا رہا۔ اسی کشمکش میں تقریبا ایک گھنٹہ گزرا پھر خاموشی ہو گئی۔ کوئی اندر جانے کو تیار نہ تھا۔ میں نے ڈاکٹر کو بلایا۔ جب کافی آدمی جمع ہو ئے، اکٹھے اندر گئے اور دیکھا کہ ان کا رنگ سیاہ پڑ چکا ہے زبان منہ سے باہر نکل کر لٹک رہی تھی اور آنکھیں باہر ابل آئی تھیں۔ مجبورا اسی طرح پیٹی میں بند کرکے پاکستان بھیج دیا گیا۔ میں تین چار دن بیمار رہا اور اٹھ اٹھ کر بھاگتا تھا۔ پھر توبہ استغفار پڑھی اور کچھ میں ٹھیک ہوا۔یہ تھی ان کی تقریر اور انجام۔ خدا کی لاٹھی بے آواز تھی کام کر گئی۔ (مختار احمد 19ستمبر 1980ءدوبئی)
نوائے وقت کی تائید:
روزنامہ نوائے وقت کے خصوصی نمائندہ کی رپورٹ سے بھی مختار احمد صاحب کے مذکورہ مکتوب کی تائید ہوتی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جگہ جگہ لوگوں نے مولانا(غلام خان) کی میت کا آخری دیدار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن انہیں کامیابی نہ ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ حتیٰ کہ جبمولانا کی میت لحد میں اتاری جانے لگی۔ تو طبی وجوہ کی بناءپر اس وقت بھی خواہش مند سوگواروں کو مولانا کی میت کا آخری دیدار نہیں کریا گیا۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور۔ راولپنڈی 29 مئی 1980ء) ظاہر ہے کہ بقول مختار احمد دال میں کچھ کالا ہے ضرور تھا۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ بزعم خویش ساری عمر قرآن پاک کی تبلیغ کرنے والے اور شیخ القرآن کہلانے والے کا چہرہ بھی نہ دکھایا گیا۔ جب کہ بیرونی ممالک سے لائی جانے والی عام لوگوں کی میت کا بھی آخری دیدار کرایا جاتا ہے۔
یہ ہے مسلمانوں کو مشرک بنانے اور اصلہ نسلی مشرکوں کی تعظیم و مدح سرائی کا عبرتناک انجام اور جشن دیوبند منانے اور جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر فتوے لگانے کی قدرتی گرفت و سزا۔
والعیاذ باللہ
جاري
 

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
قادری محمد طیب :مہتمم دارالعلوم دیوبند بھی دیوبند سے بیدخلی کے باعث اسی کشمکش میں دنیا سے چل بسے جو جشن دیوبند کی نحوست و شامت کے باعث خانہ جنگی کی صورت میں پیدا ہوئی۔ حتیٰ کہ آخری وقت ان کا جنازہ بھی دارالعلوم میں سے نہ گزرنے دیا گیا۔ (روزنامہ جنگ 21۔ اگست 1983ء)
اگر درخانہ کس است یک حرف بس است
اندراگاندھی کا مرثیہ :بھارتی وزیراعظم آنجہانی مسز اندراگاندھی کے قتل پر جس طرح پاکستان میں موجود سابق قوم پرست علماءاور کانگریس کے سیاسی ذہن و فکر کے ترجمان وارثان منبرہ محراب نے تعزیت کی ہے وہ کوئی قابل فخر اور دینی حلقوں کیلئے عزت کا باعث نہیں ہے۔ قومی اخبارات میں خبر شائع ہوئی ہے کہ نظام العلماءپاکستان کے نامور رہنماﺅں مولانا محمد شریف و ٹو مولانا زاہدالراشدی اور مولانا بشیر احمد شاد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ: اندراگاندھی نے اپنے اقتدار میں جمعیت علماءہند اور دارالعلوم دیوبند کی قومی خدمات کا ہمیشہ اعتراف کیا اور ہر طرح کی معاونت اور حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ نیزا ن رہنماﺅں نے یہ بھی کہا کہ اندرا نے جشن دیوبند میں اکابر دیوبند سے اپنے خاندانی تعلقات کا برملا اظہار کیا یہ پڑھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ سیکولرازم کے علمبراداران سابق کانگرسی علماءکو ابھی تک اندرا کے خاندانی تعلق پر کس قدر فخر ہے۔ کس قدر ستم کی بات ہے کہ ان مٹھی بھر لوگوں نے ابھی تک اپنے دل میں پاکستان کی محبت کی بجائے اندارگاندھی سے تعلق کو سجا رکھا ہے۔ اس لئے پاکستان کی تلخیاں اپنے دل سے نہیں نکال سکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ مولاناشبیر احمد عثمانی کو ان کے اپنے قول کے مطابق جس طرح فرزندان دیوبند کو اکثریت غلیظ گالیوں سے نوازتی تھی وہ فکر آج تک ان لوگوں کے سینوں میں عداوتِ پاکستان کا ایک تنا ور درخت بن چکی ہے ، ورنہ اس وقت پنڈت موتی لال نہرو ، پنڈت جواہر لال نہرو کا جناب سید احمد بریلوی اور جناب اسماعیل دہلوی سے فکری تعلق جوڑنے کی کیا ضرورت تھی ، دیوبند کے ان رہنماﺅ ں نے یہ بیان دے کر آج بھی دو قومی نظریے کی نفی کی ہے ۔ تحریک پاکستان میں ہندوﺅں کے ساتھ کانگریسی خیال کے علماءکے کردار کو نمایاں کرنا ہمارے لئے باعث ِ شرم ہے ۔ ( روزنامہ آفتاب لاہور 3 نومبر 1984 ء) دیوبند بریلی کی راہ پر :۔
ماہ جمادی الاخر 1409 ھ میں اہلسنت کی دیکھا دیکھی علمائے دیوبند نے بھی دھوم دھام سے نہ صرف یوم صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ منایا بلکہ عین یوم وصال 22 جمادی الاخر کو مختلف مقامات پر جلوس نکالا اور سرکاری طور پر نہ صرف یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بلکہ ایام خلفائے راشدین منانے اور یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر تعطیل کرنے کا مطالبہ کیا ۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ۔اخبار جنگ لاہور ۔ یکم فروری ۔ نوائے وقت 2.3 فروری مشرق لاہور 30 جنوری 1989 ء ) نیز ایک دیوبندی انجمن سیالکوٹ کی طرف سے 22 رجب کو یوم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی سرکاری طور پر منانے اور اس دن تعطیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔( نوائے وقت 13 فروری 1989 ء) انجمن سپاہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم بنام سپاہ صحابہ :۔

رحیم یار خان اور صادق آباد میں بھی دیوبندی سپاہ صحابہ کے زیر اہتمام یوم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر بڑے اہتمام سے جلوس نکالا گیا چنانچہ انجمن سپاہ مصطفٰی رحیم یار خان نے دیوبندی علماءسے جواب طلبی کی کہ بتاﺅ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوس ناجائز کیوں ؟ اور وصال صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جلوس جائز کیوں ؟ اس پر انجمن سپاہ صحابہ کے دیوبندی علماءپر سناٹا چھاگیا۔ البتہ مولوی محمد یوسف دیوبندی نے ذرا ہمت کی اور انجمن سپاہ صحابہ کے مولوی حق نواز جھنگوی وغیرہ پر بدیں الفاظ فتویٰ عائد کیا کہ لوگوں نے ایک نئے انداز سے صحابہ کرام کے دن منانے شروع کردیئے ہیں کو کہ صریح بدعت اور شرعا ناپسندیدہ فعل ہے نہ ہی شریعت مقدسہ میں اس قسم کے جلوسوں کی اجازت ہے اور نہ ہی علماءدیوبند کا ان جلوسوں سے کوئی تعلق ہے ، اللہ تعالیٰ ان (حق نواز دیوبندی وغیرہ ) کو ہدایت دے کہ بدعات کے اختراع کی بجائے سنتوں کو زندہ کریں ۔( مولوی محمد یوسف دارالعلوم عثمانیہ ) چک نمبر پی 88 رحیم یار خان بتاریخ 24 جمادی الاخر 1409 ھ
بمصداق مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیر ی
مولوی محمد یوسف دیوبندی کے فتویٰ سے ثابت ہوگیا کہ دیوبندی وہابی مکتب فکر کی انجمن سپاہ صحابہ اور بالخصوص اس انجمن کے لیڈر مولوی حق نواز جھنگوی اور ان کے رفقاءگمراہ و بدعتی ہیں جنہوں نے صریح بدعت و شرعا ناپسندیدہ فعل اوربدعات کے اختراع کا ارتکاب کیا ہے ، بلکہ مولوی یوسف دیوبندی کے علاوہ باقی تمام علماءدیوبند۔ مولوی سرفراز گکھڑی، عنایت اللہ بخاری اور ضیاءالقاسمیٰ دیوبندی وغیرہ ہم بھی مولوی حق نواز دیوبندی کے شریک جرم ہیں۔ جنہوں نے سپاہ صحابہ کے بدعات کے مظاہرہ پر اپنی خاموشی سے کم از کم نیم رضا مندی کا ثبوت دیا۔ مذکورہ تمام ناقابل تردید حقائق و شواہد اور حوالہ جات سے فرزندان نجدودیوبند غیر مقلدین و دیوبندی علماءکا دور خامنافقانہ کردار واضح ہو گیا۔ کہ ان لوگوں کو محض شان رسالت و ولایت سے عداوت کے باعث میلادشریف اور عرس و گیارہویں شریف سے عنا دہے اور خود ساختہ جشن دیوبند و بدعات اہلحدیث سے انہیں کوئی تکلیف نہیں۔
نوٹ: یوم صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یک محرم 1421ھ کو دیوبندی انجمن سپاہ صحابہ نے ملک بھر میں یوم فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی منایا اور جلوس بھی نکالا۔
تم جو بھی کرو بدعت ایجاد روا ہے
اور ہم جو کریں محفل میلاد برا ہے
یہ جو بھی کریں بدعت ایجاد روا ہے
اور ہم جو کریں محفل میلاد برا ہے

حرف آخر :
بفضل تعالیٰ ہم نے جشن عید میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور جلوس میلاد پاک کے متعلق تحقیقی ق الزامی اور تاریخی طور پر حقائق و حوالہ جات کا ایک ذخیرہ پیش کر دیا ہے۔ اور منکرین شان رسالت و مخالفین میلاد کے گھر سے ایسے دلائل مہیا کر دئیے کہ انشاءاللہ تعالیٰ ان کے جواب سے وہ کبھی عہد و بر آنہیں ہو سکیں گے اور یہ مختصر و جامع مجموعہ منکرین میلاد کے تابوت میںآخری میخ ثابت ہو گا۔ کتاب ہذاکایہ تاریخی و معلوماتی پہلو اس کی اہمیت و حیثیت میں مذید اضافہ کا باعث ہوگا کہ اس میں منکرین شان رسالت و مخالفین میلاد کے نام نہاد قائدین کا عبرتناک انجام بھی شامل اشاعت کر دیا گیا ہے کہ جنہوں نے عمر بھر شان رسالت و ولایت اور میلاد مبارک کی مخالفت کی اور اپنے اپنے جشن کے شادیانے بجائے وہ آنافانا ایسے المناک و عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے اور ان پر ایسی تباہی و بر بادی مسلط ہوئی کہ ہمیشہ کے لئے نشان عبرت بن گئے۔ اور آخر وقت منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہے۔ العیاذباللہ تعالیٰ۔
ان کے دشمن پہ لعنت خدا کی
رحم پانے کے قابل نہیں ہے
یہ ہے میت کسی بے ادب کی
منہ دکھانے کے قابل نہیں ہے
اف یہ عقائد باطلہ :مسلمانوں کو بات بات پر مشرک و بدعتی گرداننے والے نجدیوں وہابیوں کے عقائد باطلہ کے سلسلے میں ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی شقاوت و شان رسالت سے عداوت کا یہ عالم ہے کہ ان کے زندیک ماہ میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منانا تو بدعت و ناجائز ہے لیکن اپنوں کی موت کا مہینہ منانا جائز و حلال ہے۔ گویا جس طرح شیعوں کے ماتمی جلوسوں کی بناءپر شیعوں کا محرم مشہور ہے اور جشن عیدمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پرنور و پرسرور جلوسوں اور پروگراموں کی وجہ سے ربیع الاول سنیوں، بریلویوں کا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ اب اسی طرح 23۔مارچ 1987ءکو قلعہ لچھمن سنگھ لاہور میں وہابیوں کے جلسہ میں بم کے دھماکہ کے باعث اپنے مرنے والوں کی یادمنانے اور ان کا غم تازہ کرنے کیلئے تاریخ اہلحدیث کے ابواب و نصاب میں تحریرا تقریرا عملا وہابیوں نے اپنے لئے ماہ مارچ کو اختیار کر لیا ہے اور اس بات کا عملا مظاہرہ ہو گیا ہے کہ نجدیوں، وہابیوں کو جس طرح اپنے مولویوں اور لیڈروں سے عقیدت و تعلق ہے اس طرح ان کے دلوں میں نہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عقیدت و تعلق اور خوشی ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت و شہداءکربلا (علیہم الرضوان) کی عقیدت و تعلق کی وہابیوں کے دلوں میں کوئی گنجائش ہے۔
ورنہ کیا وجہ ہے :
کہ ان کے مرنے والوں کی یادگار منانے کے لئے تو کھلی چھٹی ہو۔ جلسوں، کانفرنسوں کے انعقاد اہتمام و تداعی اور مہینہ و ایام کے تعین و تقرر اور دیگر لوازمات پر شرک و بدعت کا کوئی سایہ نہ پڑے مگر
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا جب یوم میلاد آئے
تو بدعت کے فتویٰ انہیں یاد آئے
اسی طرح :
ماہ محرم آئے تو شہداءکربلا (رضی اللہ تعالیٰ عنم) کی یاد منانے، ذکر خیر کرنے اور ختم شریف و ایصال ثواب وغیرہ سب کو بدعت و ناجائز قرار دے کر ممنوع قرار دیا جائے۔
بدعات اہلحدیث :
برسی :
علامہ ظہیر کی برسی ملک بھر میں احتجاجی اجتماعات منعقد ہونگے۔ اہل حدیث یوتھ فورس کے قائم مقام جنزل سیکرٹری یونس چوہدری نے کہا ہے کہ مارچ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر اور ان کے رفقاءکی شہادت کا ایک سال گزر جانے پر ملک بھر میں احتجاجی جلسے اور اجتماعات منعقد کئے جائیں گے۔ 23۔مارچ سے 31۔مارچ تک ہفتہ ءتجدید عرس منایا جائے گا۔ (روزنامہ مرکز اسلام آباد ۹۲۔فروری ۸۸ء)
21۔ مارچ : روزنامہ مرکز کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق مختلف مقامات پر شہدائے اہلحدیث کانفرنس اور احسان کانفرنس کے انعقاد کے علاوہ 21۔مارچ کو بم کے دھماکہ کی مقررہ جگہ پر بالخصوص شہدائے اہلحدیث کانفرنس منعقد کی گئی اور اس سلسلہ میں دیگر اشتہارات کے علاوہ اہلحدیث یوتھ فورس لاہور کی طرف سے ایک سرخ رنگ کا باتصویر خونی اشتہار شائع کیا گیا جس میں بم کے دھماکہ میں ہلاک و زخمی ہونے والے اہلحدیث مولویوں اور لیڈروں کو فوٹو شائع کئے گئے اور 23۔مارچ کے اخبار جنگ، نوائے وقت وغیرہ میں اس کانفرنس کی رپورٹ شائع ہوئی۔
23۔ مارچ :
23۔ مارچ کو بھی بالخصوص تاریخ، جگہ، دن اور ایک بجے دوپہر کے وقت و تعین کے ساتھ مرنے والوں کی یاد میں خاص اہتمام سے کانفرنس کی گئی اور اشتہارات میں قائد کے روحانی پئیو لاہور چلو کے الفاظ سے اس کانفرنس میں شرکت کی ترغیب دی گئی اور قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کی ان دونوں کانفرنسوں میں اہلحدیث نے بھر پور شرکت کی۔ (پریس رپورٹ)
یزدانی روڈ :
مولوی حبیب الرحمان یزدانی روڈ (سادھو کے) کاسنگ بنیاد رکھنے کی تقریب زیر صدارت مولوی محمد عبداللہ وغیرہ منعقد ہوئی اورخطاب کیا گیا۔ (نوائے وقت لاہور۔ 26۔مارچ ۸۸ء)
خانہءخدا پر غیر اللہ کا نام :
کوٹ قاضی علی پور چٹھہ روڈ گوجرانوالہ میں مسجد حبیب الرحمان یزدانی نام رکھا گیا۔ (پوسٹر جمعیت اہلحدیث 23۔مارچ فروری ۸۸ء)
پتھر پر دعاء :
29۔ مارچ ۸۸ءکے نوائے وقت اور 31۔ مارچ ۸۸ءکے جنگ اخبار میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس کے نیچے لکھا ہے کہ امیر جمعیت اہلحدیث مولوی محمد عبداللہ یزدانی روڈ کاسنگ بنیاد رکھنے کے بعد دعاءمانگ رہے ہیں۔ کیا کوئی غیر مقلد وضاحت کرے گا کہ : کسی روڈ پر غیر اللہ کا نام متعین کرکے ایسے اہتمام سے تقریب کا انعقاد، پھر پتھر نصب کرنے کے بعد اسے سامنے رکھ کر اس پر دعاءکرنا بدعت ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو اس کا کوئی ثبوت حدیث صحیح و صریح سے پیش کیا جائے۔
جلوس و مزار و فا تحہ
14۔ اگست 1988ء بروز جمعہ کا مونکی منڈی میں یوم آزادی کی بجائے یوم احتجاج منایا گیا۔ بعد نما زجمعہ اہلحدیث کی مساجد سے لوگ جلوسوں کی شکل میں مرکزی جامع المسجد اہلحدیث پہنچے۔ جہاں سے ایک بڑا جلوس مولوی حبیب الرحمان یزدانی کے مزار پر گیا۔ اور وہاں فاتحہ خوانی کے بعد پرامن طور پر منتشر ہو گیا۔ (روزنامہ جنگ لاہور۔ 12۔اگست، نوائے وقت 13۔اگست 1988ء)
رضائے مصطفی :
قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے جانے اور جلوس میلاد و مزارات اولیاءاور گھروں یا قبروں پر فاتحہ خوا نی کو بدعت وناجائز قرار دینے والوں کا اپنے آنجہانی مولوی یزدانی، کے لئے یہ سب کچھ کرنا جہاں باعث تعجب ان کی دورنگی کا مظاہرہ ہے، وہاں مسلک اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اصولی فتح ہے کہ مخالفین نے بالآخر قبر کو مزار قرار دینے، وہاں زیارت کے لئے جانے جلوس نکالنے اور فاتحہ خوانی کرنے کا عملی اعتراف کر لیا۔
تنظیم اہلحدیث کا اہلحدیث کو انتباہ :
ماہ رابیع الاول 1408ھ: کے رضائے مصطفی میں بعنوان (زندہ باد اے مفتی احمد رضا خان زندہ باد) چونکہ مخالفین اہلسنت کے متعلق اس اہم الزامی مضمون کا ایک پیرا جلوس و مزار فاتحہ بالخصوص غیر مقلدین سے متعلق تھا، اس لئے اس لاجواب مبنی برحق مضمون کی اہمیت و افادیت کے باعث ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور نے اپنے ہم مسلک اہلحدیثوں کو انتباہ کرتے ہوئے۔ مضمون ہذابدیں عنوان لفظ شائع کیا ہے کہ توحید و سنت کے گلشن کو برباد نہ کرو۔۔۔ ہوش کرو اور سنو (تنظیم اہلحدیث ۴۔دسمبر 1987ءچنانچہ رضائے مصطفی کے مضمون کی افادیت و اہمیت کو تسلیم کرنے اور اس بناءپر تنظیم اہلحدیث کے اہلحدیث کو انتباہ کرنے سے واضح ہو گیا کہ اہل سنت کے عقیدہ ءتوحید و سنت پر طعنہ زنی کرنے اور شرک و بدعت کا ناحق نشانہ بنانے والے غیر مقلدین بذات خود توحید و سنت کے گلشن کو اجاڑ اور برباد کرنے کے مرتکب و مجرم ہیں اور مختلف بدعات و رسومات میں مستغرق ہیں مگر حال یہ ہے کہ :
غیر کی آنکھ کا تنکا تو تجھے نظر آیا
اپنی آنکھ کانہ دیکھا مگر شہنتیر بھی
شہدائے اہلحدیث کی دوسری برسی :
23۔ مارچ کو قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کے جلسہ میں بم کے دھماکہ میں ہلاک ہونے والی مولوی احسان ظہیر، مولوی حبیب الرحمان یزدانی وغیرہ کی یاد میں ان کی دوسری برسی کے موقع پر بھی مقررہ تاریخ و مقررہ جگہ پر 17۔مارچ بروز جمعہ جمعیت و اہلحدیث یوتھ فورس کے زیر اہتمام بڑے اہم انتظامات کے ساتھ دوسری شہدائے اہلحدیث کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس سلسلے میں اخباری بیانات کے علاوہ وسیع اخراجات سے بڑے سائز کے رنگین اشتہارات بہت کثرت سے چھپوائے اور لگوائے گئے اور رسائل و اشتہارات میں قلعہ لچھمن سنگھ چلو کا۔۔۔۔ نعرہ لکھوایا گیا اور اہلحدیث مساجد میں جمعہ بند کرکے قلعہ لچھمن سنگھ میں مشترکہ جمعہ کا اعلان کیا گیا۔ نما زجمعہ سے پہلے امیر جمعیت اہلحدیث مولوی محمد عبداللہ اور دیگر علماءحدیث کے بیانات ہوئے اور نماز جمعہ کے بعد قلعہ لچھمن سنگھ سے لیکر چوک آزادی تک جلوس بھی نکالا گیا۔ اس موقع پر دیگر علاقوں کے وہابیوں نے بھی بڑے زور و شور سے شدرحال کیا اور بسوں کے ذریعے قافلوں کی صورت میں قلعہ لچھمن سنگھ کے پرواگرام میں حاضری دی۔ پریس نوٹ (18 مارچ ۹۸ء)
کیا فرماتے ہیں :۔
غیر مقلدین وہابیہ کہ کتاب سنت اور عقیدہ ءرتوحید کا وہ کونسا شرعی ضابطہ ہے کہ جس کے تحت میلادمصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، عرس اولیاءاور گیارہویں شریف و تیجا دسواں، چالیسواں تو بدعت و حرام و ناجائز ہے لیکن نام نہاد شہدائے اہلحدیث کی دوسری برسی پر دوسری کانفرنس اپنے تمام لوازمات سمیت کتاب و سنت کی روشنی میں عقیدہ ءتوحید کے عین مطابق ہے ؟
جشن میلادمصطفی بدعت و ناجائز کیوں ؟
اور صد سالہ جشن کا جواز کیوں ؟
اہل نجد ودیوبند جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت مخالف ہیں۔ بالخصوص ماہ نور ربیع الاول شریف میں یہ لوگ جشن میلاد شریف کی مخالفت میں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن جب اپنا معاملہ آتا ہے تو پھر بدعت و عدم جواز کے سب فتوے بھلا دیتے ہیں۔ اور تمام تر تعلقات و لوازمات کے ساتھ انہیں منانے میں کوئی چیز آڑے نہیں آتی۔
جشن سعودی عرب :
۵۔شوال 1499ھ بمطابق 23۔جنوری 1999ءمیں سعودی عرب کے قیام کی 100 سالہ سالگرہ پر صد سالہ جشن بادشاہت منایا گیا اور اس سلسلہ میں مختلف تقریبات کے علاوہ پاکستان میں بھی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ )روزنامہ نوائے وقت لاہور 25۔26 جنوری 1999ء) جبکہ صد سالہ جشن سے قبل ہر سال 23۔ ستمبر کو الیوم والوطنی اور عید الوطنی کے نام سے سالانہ سالگرہ بھی بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے۔
غرضیکہ نجدی سعودی دیوبندی وہابی علماءو حکام جشن صد سالہ منائیںیا ہر سال عیدالوطنی اور جشن دستار فضیلت منائیں ان کے لئے شرک و بدعت کا کوئی فتویٰ نہیں مگر
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا جب یوم میلاد آئے
بدعت کے فتوے انہیں یاد آئے
لمحات فکر۔ 14 اگست 1998ء :
کو 51واں یوم پاکستان حسب سابق شام و شوکت سے منایا گیا۔ اس سلسلہ میں جلسے ہوئے جلوس بھی نکالے گئے۔ جھنڈیاں لگائی گئیں۔ جھنڈے لہرائے گئے اور رات کو خوب چراغاں کیا گیا اور اس تقریب کو عیدآزادی سے تعبیر کیا گیا۔
17 اگست 1998ء :
کو سابق صدر ضیاءالحق کی قبر پر ان کی برسی بھی دھوم دھام سے منائی گئی۔ اس سلسلہ میں شدرحال کرکے دور دور سے بڑے بڑے قافلے ان کی قبر پر حاضری اور برسی میں شرکت کے لئے وہاں پہنچے۔ برسی سے قبل اخبارات میں بڑے بڑے باتصویر غیر شرعی قیمتی اشتہارات شائع کرائے گئے۔ مگر بڑے تعجب و افسوس کی بات ہے کہ اہل نجد و دیوبند اس موقع پر شاید گونگے بہرے ہو گئے یا دانستہ انہوں نے علمی بخل و کتمان حق سے کام لیا کہ دیوبندی یا وہابی اصول کے تحت ان دونوں بدبختوں کے خلاف انہیں نے نہ کوئی اجتماعی مظاہرہ کیا اور نہ ان کی طرف سے کسی قسم کا کوئی خاص سا ریپلے دیکھنے ، سننے میں آیا۔
ناحقہ سر بیگریباں ہے اسے کیا کہئیےخامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہئیے
مشہور و مشاہدہ تو یہی ہے کہ
ع وہابی آں باشد کہ چپ نہ شود
لیکن نامعلوم کونسا سانپ سونگھ گیا کہ سبھی نے چہ سادھ لی اور صورت حال یہ ہو گئی کہ،
ع چناں خفتہ اند گوئی کہ مرد ہ اند
جبکہ
۱۱ ربیع الاول :
کا چاند طلوع ہونے سے پہلے ہی یہ منکرین شان رسالت و مخالفین میلاد مصطفی (علیہ التحیۃ والشاء) اس طرح تیاری کر لیتے اور کمربستہ ہو جاتے ہیں جیسا کہ کسی محاذ جنگ پر جانے والے ہیں۔
اہل نجد و دیوبند :
کے چھوٹے بڑے مولوی ملاں نہ صرف زبانی و تقریری طور پر بلکہ بذریعہ اشتہارات جرائد و رسائل بیک وقت بیک زباں خبث باطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدیں الفاظ زہر اگلنے لگتے ہیں کہ عیدمیلادالنبی بدعت ہے بے ثبوت ہے اسراف ہے۔ دن مقرر کرنا سالانہ یادگار منانا جائز نہیں۔ خیرالقرون میں ایسا نہیں ہوا۔ صحابہءکرام علیہم الرضوان نے ایسا نہیں کیا۔ وغیر ذالک من الخرافات۔ مگر 14 اگست اور 17اگست کے مجموعہ بدعات پر اس قسم کے اعتراضات کی بنیاد پر کوئی مخالفانہ رد عمل نہ کیا گیا۔ حالانکہ وہی اعتراضات بلکہ ان سے بڑھ کر اعتراضات مذکورہ دونوں بدعتوں پر بھی عائد ہوتے ہیں۔لٰہذا اگر یہ بدعت نہیں اور ان پر اعتراض نہیں تو 12ربیع الاول اور محافل میلاد شریف بدرجہ اولیٰ نہ بدعت ہیں نہ قابل اعتراض۔ اور اگر 12 ربیع الاول بدعت و قابل اعتراض ہے تو 14 اگست اور 17اگست کا پروگرام اس سے بڑھ کر بدعت و قابل اعتراض ہے۔ پھر اس پر الخاموشی نیم رضا کا مظاہرہ کیوں ؟ جبکہ 14 اگست اور 17 اگست کی بدعتوں پر منکرین میلاد مصطفی کی خاموشی ان کے گونگا شیطان (شیطان اخرس) بننے کے مترادف ہے اور میلاد مصطفی کی مخالفت ان کی شان رسالت سے صریح عداوت کا مصداق ہے۔ ورنہ وجہ بتائی جائے کہ جشن میلاد مصطفی (علیہ التحیۃ والشنائ) کے خلاف اس قدر بدزبانی، واویلا اور جھوٹی فتویٰ بازی کیوں ہے۔ اور 14 اگست و 17اگست کے مجومعہ بدعات پہ خاموشی اور اس کا کیا جواز ہے ؟ اور دونوں میں وجہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ 14اگست کی تقریب منانے میںشریک ہوتے اور شدید بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ فافہم و تدبر۔
 

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
اس ہرزہ سرائی پر ہم صرف یہی کہیں گے بقولِ مولانا ظفر علی خان :۔
بریلی کے فتوے کا سستا ہے بھاؤ
یہ کوڑی کے ملتے ہیں اب تین تین
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
نورانی صاحب میں نے عرض کیا تھا “بحث برائے بحث ہو ۔براہ کرم بھارت ۔دیوبند حسین مدنی رحمۃ اللہ علیہ ۔مسز اندرا گاندھی یہ سب موضوع سے خارج باتیں ہیں ۔“سیاست کی طرف موضوع کو موڑنے سے گریز کریں“۔موضوع سے غیر متعلق سطور حذف کردیں ۔
 

فکری

وفقہ اللہ
رکن
نورانی نے کہا ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَاِن تعدو نِعمَةَ اللّٰہ ِ لَا تَحصُو ھَا۔
اور اگر اللہ کی نعمتوں کو گنو تو شما ر نہ کرسکوگے ۔ پارہ نمبر 12 رکوع نمبر 17
بے شک اللہ تعالیٰ کی نعمتیں لاتعداد اور بے حساب اور حد شمار سے باہر ہیں ، مگر ان سب نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت بلکہ تمام نعمتوں کی جان ، جان ِ جہان و جانِ ایمان حضور پر نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہے ، جن کے طفیل باقی سب نعمت و انعامات ہیں ، اعلیٰ حضرت مجددّ دین و ملت مولانا امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے فرمایا :۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
اس لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کر ، سب سے زیادہ اور بہت ہی اہتمام و تاکید کے ساتھ آپ کی ذات بابرکات کے بھیجنے کا احسان ظاہر فرمایا ۔
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم ۔ بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا ، مسلمانوں پر کہ ان میں انہی سے ایک رسول بھیجا ۔ (پ 14 ، رکوع 8 ) چونکہ ایمانداروں پر سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑا احسان ظاہر فرمایا ہے
، اس لئے اہل ایمان اس کی سب سے بڑھ کر قدرو منزلت جانتے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ شکر ادا کرتے ہیں اور جس ماہ یوم میں اس احسان و نور و نعمت کا ظہور ہوا ، اس میں اس کا بالخصوص چرچا و مظاہرہ کرتے ہیں، اس لئے کہ مولیٰ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا اپنی نعمتوں کی تذکیر تشکر اور ذکر اذکار کا حکم فرمایا ہے ، خاص طور پر سورۃ الضحیٰ میں ارشاد ہوا ہے ۔ واما بنعمة ربک فحدث ۔ ( اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔پ 30 رکوع 18 ۔) پھر بطور خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے نعم[font=] [/font]اللہ ہونے کا بیان اور ناشکری و ناقدری کرنے والے بے دینوں کا رد فرمایا ۔ الم تر الی الذین بدلو انعمة اللہ کفراََ۔ ( کیا تم نے انہیں نہ دیکھا ، جنہوں نے اللہ کی نعمت نا شکری سے بدل دی ۔ پ 13 رکوع 17 ۔) بخاری شریف و دیگر تفاسیر میں سید المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس و حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :: کہ ناشکری کرنے والے کفار ہیں ۔ ومحمدنعمۃ اللّٰہ ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں ( بخاری شریف جز ثالث صفحہ 6 ) جب اللہ کے فرمان اور قرآن سے ثابت ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خاص نعمت ہیں جس پر اللہ نے اپنے خاص احسان کا ذکر فرمایا اور پھر نعمت کا چرچا کرنے کا بھی حکم دیا تو اب کون مسلمان و اہل ایمان ہے جو آپ کی ذات بابرکات ، نور کے ظہور اور دنیا میں جلوہ گری و تشریف آوری کی خوشی نہ منائے ، شکر ادا نہ کرے اور سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑھ کر چرچا و مظاہرہ پسند نہ کرے اور نعمت عظمٰی کے خصوصی شکرانہ اور چرچا و مظاہرہ کے لئے جشن عید میلا النبی صلی اللہ علیہ وسلم مولود شریف اور یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس مبارک پر برا منائے اور زبان طعن دراز کرے ۔ مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خاں مرحوم نے کیا خوب فرمایا ہے :۔
حبیب حق ہیں خدا کی نعمت بنعمۃ ربک فحدث
یہ فرمان مولٰی پر عمل ہے جو بزم مولد سجارہے ہیں

رحمت کے خوشی :۔
قرآن ہی میں یہ بھی بیان ہے کہ ( تم فرماﺅ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر چاہیے ، کہ خوشی کریں ، وہ ان کی سب دھن دولت سے بہتر ہے )۔ پ 11 رکوع 11 ۔جس طرح اوپر نعمت کا چرچا کرنے کا ذکر ہوا ہے ، اسی طرح یہاں فضل و رحمت پر خوشی منانے کا بیان ہے اور کون مسلمان نہیں جانتا کہ اللہ کا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی رحمت بلکہ جانِ رحمت اور رحمۃ اللعالمین (پ17 رکوع 7 ) آپ کی ذاتِ بابرکات ہے یہاں فضل و رحمت سے اگر کوئی بھی چیز مراد لی جائے تو یقینا وہ بھی آپ ہی کا صدقہ وسیلہ اور طفیل ہے ، لہذا آپ بہر صورت بدرجہ اولیٰ فضل الہٰی و رحمت خداوندی اور نعمۃ اللہ ہونے کا مصداق کامل ہیں ، کیونکہ دونوں جہان میں آپ کا ہی سب فیضان ہے اور آپ کی خوشی منانا ، چرچا و مظاہرہ کرنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان و فرمان خداوندی کے تحت و اس کے مطابق ہے ، نہ کہ معاذ اللہ اس کے مخالف و منکر اور شرک و بدعات ۔
خدا کا شکر نعمت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت ہے
یہ دونوں کی اطاعت ہے قیام محفل مولد
حصول فیض و رحمت ہے نزول خیر و برکت ہے
حصول عشق حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے قیام محفل مولد
نہ اس میں رفع سنت ہے نہ شرک و کفر بدعت ہے
یہ رد شرک و بدعت ہے قیام محفل مولد
جاری
نورانی صاحب بے چارے نورانی ہی ہیں ۔۔۔۔۔ جو کہ پیسٹ کر کے آپ کے سامنے باتیں لاے ہیں ۔۔۔۔ پورے مولانا احمد رضا خان پہ گے ہیں
کسی کی نہیں سننی اپنی سنانی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم ۔ بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا ، مسلمانوں پر کہ ان میں انہی سے ایک رسول بھیجا ۔ (پ 14 ، رکوع 8 ) چونکہ ایمانداروں پر سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑا احسان ظاہر فرمایا ہے
اس آیت کا کوئی مسلمان منکر نہیں مگر یہ بتائیں یہ آیت آپ پر اتری یارحمت عالم صل اللہ علیہ وسلم پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مفھوم جو آپ نے لیا کیا یہ ہی مفھوم صحابہ نے لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔۔۔۔۔۔۔۔ اما بنعمۃ ربک فحدث یہ حدث امر واحد کا صیغہ ہےاور یہ امر خاص رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو ہے تفسیر جلالین ہی آپ دیکھ لیتے اگر آپ نے پڑھی ہوتی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ صفحہ ہے 503 واما بنعمۃ ربک ۔۔۔۔۔۔اسکی تفسیر علیک بالنبوۃ فحدث اخبر۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر لفظ نعمت پر جلوس نکالنے کا مفھوم ہی آپ لیتے ہیں تو اللہ پاک نے فر مایا ۔۔۔فانقلبو بنعمۃ من اللہ وفضل ولم یمسسھم سوء۔۔۔ آل عمران آیت نمبر 174)۔۔ یہاں خود صحابہ سے کہا جارہا ہے کہ تم اللہ کے فضل ورحمت کے ساتھ لوٹو گے ۔۔۔اب یہاں فضل اور نعمت اکھٹے ہیں ۔۔۔۔۔کیا صحابہ نے اس نعمت وفضل پہ جلوس نکالے جشن مناے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے جتنی آیات لکھیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے کسی سے بھی آپ۔ کا موقف ثابت نہیں ہو تا نہ عید میلاد نہ جلوس ۔۔۔ ثابت کر سکے نہ ہی صحابہ کاعمل کہ صحابہ نے یہ ہی مفھوم لیا ہو جو آپ نے اختراع کیا ۔۔۔۔۔
3۔۔۔۔۔۔۔۔یستبشرون بنعمۃ اللہ ومن فضل یہاں بھی نعمت وفضل ہے ۔۔۔۔۔ جو شہدا پر خوش ہونے کا کون منکر سوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ ہےکہ ان جلوسوں کا اور ان اعمال کا جو آپ کر رہے ہیں کیا شھدا بھی اس خوشی میں یہ ہی کچھ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہاں اللہ نے شھدا کی خوشی ذکر کی ہے مگر ۔۔۔۔۔ کہین بھی جلوس کا ذکر آپ نے نہین پڑھا ہو گا کہ شھدا اس خوشی پہ جلوس نکالتے ہین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید میلاد ۔۔۔۔۔ کو کیا نہیں کیا جارہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عورتوں کا بے حجاب ہو نا۔۔۔۔۔ ساز باجوں کے جلوس ۔۔۔۔
نورانی میاں اصولی بات یہ ہے جس امر جائز کے اندر خرافات پیدا ہو جائیں تو اسعمل کو چھوڑا جاے الا کلیل فی الا ستنباط التنزیل ص100
کل فعل مطلوب ترتب علی فعلۃ مفسد ۃ اقوی من مفسد ۃ ترکہ یعنی مندوب کو کر نے سے قوی سے قوی فساد پیدا ہو تو اس فعل مندوب کو چھوڑ دیا جاے
مولوی احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں ۔۔۔
ایک جائز کام جس سے فتنہ وفساد پیدا ہو اور آپس میں پھوٹ پڑے یہ ناجائز ہے ( فتاوی رضویہ ص237 ج11)
کتنے فتنے وفساد پیدا ہوتے ہین ان جلوسون کی صورت میں آپ اخبارات دیکھ لیں ،،،، حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ لکھتے ہی ۔۔۔۔اذالم ینطق شئی ولم یرو فی السنۃ عن رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم شءی فانقرض عصر الصحابہ ولم ینقل احد منھم قولا فالکلام فیہ بدعۃ وحدث ( غنیۃ الطالبین ص95)جس بات کا ثبوت حضور صل اللہ علیہ وسلم سے نہ ہو صحابہ کے دور میں نہ ہو اب اس کو کر نا بدعت ہے اور یہ ہی حضرت جیلانی ہیں جن کے بارے مین خان صاحب نے لکھا ان کی بات کی مخالفت دنیاو آخرت کی بر بادی ہے فتاوی رضویہ ج3 ص 545 ۔۔۔۔۔۔۔ چلو حضرت جیلانی سے ہی ان امور کا ثبوت دیدو جو آپ لوگ میلاد کے نام پر کرتے ہین ۔۔۔۔۔ اگر اصلی نورانی ہو ۔۔۔۔۔ اپنے خان صاحب سے بھی جلوس کا ثبوت دینا ہے کہ خان ساحب کتنے جلوس نکالا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔+-آپ کو چاھئے تھا وہ آیات واحادیث پیش کرتے جن میں میلاد کے جلوس اور آپ کی تمام میلادی حرکات مذکور ہوتیں اگر آپ کو فرصت مل جاے تومولوی عبد الحکیم شرف قادری کی تحریر جو رسالہ البر لاھور مارچ 2012 ربع الثانی 1433ھ میں ان کا مضمون ہے عید میلا دالنبی صل اللہ علیہ وسلم اور غیر مسند روایات یہ ضرور پڑھ لینا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ نے امام فخر الدین رازی ( صاحب تفسیر کبیر) نے نقل فرمایا کہ جس شخص نے میلاد شریف کا انعقاد کیا اگرچہ عدم گنجائش کے باعث صرف نمک یا گندم یا ایسی ہی کسی چیز سے زیادہ تبرک کا اہتمام نہ کرسکا ۔ برکت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا شخص نہ محتاج ہوگا نہ اس کا ہاتھ خالی رہے گا ۔ (النعمۃ الکبرٰی صفحہ 9 ) مف
مولوی عبد الحیکم شرف قادری بریلوی لکھتے ہیں النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سید ولد آدم ۔۔۔۔اس میں الثر موضوع اور جھوٹی روایات ہیں یہ ایک جعلی کتاب ہے جو علامہ ابن حجر مکی کی طرف منسوب کردی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ماہنامہ البر لاھور مارچ 2012)
باقی جو آپ نے ہمارے جلوسوں کے بارے میں ذکر کیا ہے ہم نہ انہیں دین سمھجتے ہیں نہ سنت ۔۔۔۔۔ اور آپ کے جلوس دین سمھج کے نکالے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
صدائے باز گشت :۔
شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے شہرہءآفاق کلام و اشعار میں ::
زد یوبند حسین احمد ایں چہ بو العجی است
فرماکردیوبند و صدر دیوبند کی مشرک دوستی و کانگرس نوازی اور متحدہ قومیت سے ہمنوئی کو بہت عرصہ پہلے جس بوالعجی سے تعبیر فرمایا تھا، بمصداق تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ سے تعبیر فرمایا تھا ، اس بو العجی کی صدائے بازگشت اس وقت بھی سنی گئی ، جب صد سالہ جشن دیوبند میں مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم بھارت کو شمع محفل دیکھ کر خود دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم و لیڈر مولوی احتشام الحق تھانوی (کراچی) کو بھی یہ کہنا پڑا کہ
بہ دیوبند مسز گاندھی ایں چہ بوالعجی است
نورانی صاحب اپنی ا\سلیت کی طرف لوٹ رہے ہیں علامہ صاحب تو مولوی دیدار علی الوری جو رضا خاں کے خاص نمائندے رہے ہیں اقبال اسکے لئے لکھتے ہیں
گر فلک در الور انداز وترا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے کہ مے دانی تمیز خوب وزشت
گوئمت در مصرعہ بر جست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکہ بر قر طاس دل باید نوشت
آدمیت در زمین او مجو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان ایں دانہ در الور نکشت
کشت اگر آب وہوا خر رستہ است۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زانکہ خاکش را خیرے آمد سرشت
(روز گار فقیر ص233ج2)
اے وہ جو اچھے اور برے مین فرق جانتا ہے گردش زمانہ اگر تجھے کبھی الور لے جاے ۔۔۔ تو تجھے ایک برجستہ مصرعے میں بات کہتا ہوں جو لوھ دل پر لکھنے کے لائق ہے الور کی زمین مین انسانیت کی تلاش نہ کر ۔۔۔۔۔ قدرت نے یہ دانہ الور مین بویا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا حسین احمد کے موقف کی خبر جب ڈاکٹر صاحب کو ملی تو آپ نے روز نامہ احسان کے ایڈیٹر کو لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولا نا اسبات سے انکار کرتے ہیں کہ انہون نے مسلمانان ھند کو جدید نطریہ قومیت اکتیار کر نے کا مشورہ دیا ہے ۔۔۔۔ لھذا میں اسبات کا علان جروری سمھجتا ہوں مجھے اب کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا کی حمیت دینی کے احترام میں میں ان کے کسی عقیدت مند کے پیچھے نہین ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا تجانب اہلسنت میں آپ کے دانا پوری کافتوی علامہ کے بارے مین ہے پڑھ لیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ کی زریں بخیہ دری جو 1939 میں محمد میاں قادری برکاتی کی ہے پڑھ لو جو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے آے گا وہ جنتی نہ ہو گا چلو ہم کانگرسی ہی صحیح آپ نہ مسلم لیگی نہ کانگرسی آپ کس کی صف میں کھڑے تھے 1939 تک تو مسلم لیگ کے مخالف رہے ۔۔۔۔ اب پاکستان کے بانی بنے پھرتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا بے چارہ خان اتحاد امت کو پارہ پارہ کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔ وہ اعلی حضرتے بن گیا ۔۔۔۔ کیا پھرتیاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پوری امت خلافت کو بچانے لگی تھی اقبال سمیت اور خاں صاحب انگریزوں کے حآمی تھے ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان جھاد کر رہے تھے خاں صاحب اعلام الاعلام بان ہندوستان دار السلام کتاب لکھ کر انگریز کی خدمت کر رہے تھے
جاری
 

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
بھائیوں مجھے بھی بہیت افسوس سے لکھنا پرھا لیکن کیا کرتا
تم بھی نو بدعات کے موجد ہو لیکن فرق
یہ جو بھی کریں بدعت ایجاد روا ہے
اور ہم جو کریں محفل میلاد برا ہے
 

فکری

وفقہ اللہ
رکن
بھائیوں مجھے بھی بہیت افسوس سے لکھنا پرھا لیکن کیا کرتا
تم بھی نو بدعات کے موجد ہو لیکن فرق
یہ جو بھی کریں بدعت ایجاد روا ہے
اور ہم جو کریں محفل میلاد برا ہے
محفل میلاد میں ذکر مصطفی صل اللہ علیہ وسلم ہو آپ کی سیرت بیان ہو تو کوئی اختلاف نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آپ تو نہ میلاد منا سکتے ہین نامیلاد کی بات کر سکتے ہیں میلاد بشر کا ہو تا ہے نور کا نہیں ۔۔۔۔۔خزائن العرفان فی تفسیر القرآن یہ تفسیر ہے مولوی نعیم الدین مرادا آبادی ص4۔۔۔۔حاشیہ نمبر 13 قرآن پاک میں جابجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافر فر مایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔۔۔ رشد الایمان مصنف مولوی محمد عبد الرشید حنفی قادری رضوی ص 45پر لکھتے ہیں نبی کو بشر یا تو رب تعالی نے فر مایا یا خود نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے یا کفار نے اب جو نبی صل اللہ علیہ وسلم کو بشر کہے وہ نہ تو خدا ہے نہ ہی نبی لھذا وہ کفار مین ہی داخل ہوا
تفسیر نعیمی ص100 ج1پر لکھا ہے ان کو بشر ماننا ایمان نہیں
عقائد اہلسنت ظہیر احمد قادری نے ص 657 نے لکھا ہے
جو آدم کی آدمیت سے پہلے وہ بشر کیسے قرار دیا جاسکتا ہے
جو بشر نہیں اس کا میلاد نہیں
 
Top