واقعہ فدک

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
ااسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

برادران اسلام !
میں آج جس موضوع کے ساتھ حاضر ہواہوں وہ ہے مسئلہ فدک ۔ میں کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ اس واقعہ کے بارے میں کچھ لکھا جائے مگر ہر وقت اپنی کم علمی آڑے آتی رہی ۔ ۔ ۔ آج خوش قسمتی سے ٍفضیلۃ الشیخ حضرت اقدس علامہ عبدالستار تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کی اس مسئلہ پر لکھی ہوئی ایک کتاب “ ازالۃ الشک عن مسئلہ فدک “ ہاتھ آ گئی ۔۔۔ تو میں نے سوچا کہ چلو اسی کتاب سے اقتباسات سلسلہ وار شروع کردیتا ہوں ۔ ۔ ۔
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ظلم کی کہانی جس کا تزکرہ نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ ہی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے ۔ اگر اس تاریخی واقعہ میں کوئی ایسی بات بالفرض ثابت ہو جس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ساری جماعت کے ایمان اور دیانت اور امانت اور نصوص قرآن اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ راستی ، صداقت و تقویٰ پر زد پڑتی ہو ۔ تو ایسی تاریخی بات قرآن و حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں نا قابل قبول یا قرآن و حدیث کے مطابق کسی تاویل و توجیہ کی مستحق ہو گی اصولی طور پر قرآن مجید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف صرف کسی تاریخی واقعہ پر دین و مذہب اور عقیدہ و ایمان کی بنیاد رکھنا جہالت اور ضلالت ہے ۔
واقعہ فدک کے متعلق صحیح تشریح و توجیہ چھوڑ کر یہ سمجھنا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول نے ظلم کیا اور تمام مہاجر اور انصار اور اہل ایمان کی فوجیں اس ظلم میں شریک ہو گے ۔ بنی ہاشم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عم محترم حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور اسد اللہ الغالب حیدر کرار رضی اللہ عنہ جیسے بہادر و غیور خاموش رہے ۔ ۔ ۔ یہ قرآن و حدیث کا انکار اور خدا اور رسول خدا کو جھٹلانا ہے تو اگر اس واقعہ کی صحیح حقیقت اور توجیہ و تشریح معلوم نہ ہو تو قران و حدیث کے فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس واقعہ کو ہی صحیح نا سمجھنا بہتر اور حسن عاقبت کا مؤجب ہو گا ۔ اس اصولی تشریح کے بعد ہم واقعہ فدک کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں ۔
جاری ہے
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد :

مسئلہ فدک کو سمجھنے کے لئے امور ذیل کو ملحوظ و مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔

( 1 ) فدک ایک گاؤں تھا جو مدینہ طیبہ سے تین منزل پر تھا جسمیں چشمے اور کھجور کے درخت تھے ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فدک بغیر لڑائی کے صلحا قبضہ میں آیا تھا اور اموال فئی میں سے تھا ۔ اہل سنت اور اہل تشیع بلکہ تمام مؤرخین مسلم و غیرمسلم کا اس بات میں کامل اتفاق و اتحاد اور کلمہ واحدہ ہے فدک اموال فئی میں سے تھا ۔ خود اہل تشیع کی کتاب شرح نہج البلاغہ مصنفہ سید علی نقی ، فیض الاسلام کے صفہ 959 پر ہے ؛

اہل فدک نصف آں راو بقولے تمام را بصلح و آشتی تسیلم نمودند ۔
فدک کے لوگوں نے اس کا نصف اور ایک دوسرے قول میں ہے کہ تمام فدک صلح سے ، بغیر جنگ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا ۔

اور مال فئی قرآن شریف نے ایسے اموال کو قرار دیا ہے جو بغیر جنگ کے صلح سے قبضہ میں آویں ۔

( 2 ) اموال فئی فدک ہو یا غیر فدک ، اس متعلق قرآن مجید میں صاف اور صریح واضح الفاظ میں اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے ۔
جس قدر اموال فئی ہیں ، وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور رشتہ دار رانِ نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں اور عام مسلمانوں میں سے یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے اوع فقرا مہاجرین اور انصار مدینہ اور ان کے بعد انے والے خیر خواہ حاجتمند ، مسلمانوں کے لئے ہیں ۔ تاکہ اموال فئی دولتمند بے حاجت لوگوں کے لینے دینے اور قبضہ میں نا آ جاویں جو کچھ اور جتنا کچھ رسول اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم حقدار مسلمانوں کو دیدیں لے لو ۔ اور جو تم سے روک لیں اس سے تم رک جاؤ ۔
( پ 28 سورۃ حشر )

اموال فئی کے متعلق یہ آیت بالکل محکم اور اپنے معنیٰ میں نہایت واضح اور غیر مبہم ہے ۔اور اموال فئی کے مستحق لوگوں کو بخوبی عیاں و نمایا ں کر کے بیان کر دیتی ہے ۔ جوکہ نہ رسول اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مخفی تھی اور نہ صدیق و فاروق رضی اللہ عنہم سے پوشیدہ تھی اور نہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے مسلمان سے کسی حجاب و نقاب میں مضمر تھی ۔
اور مال فئی کے متعلق اہل تشیع کی کتاب تفسیر صافی صفحہ 210 پر ہے کہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے انفال فئی کے متعلق فرمایا :
فئی اللہ تعالی اور اس کے رسول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے اور اس کا حق ہے جوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے قائم مقام خلیفہ بنے ۔

اس سے ثابت ہوا کہ فئی کسی کی شخصی ملکیت اور وراثت نہیں ہے ۔
( جاری ہے )
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
( 3 ) یہ امر بھی فریقین کی معتبر کتابوں سے ثابت اور محقق ہے جیسا کہ عنقریب ناظرین کی خدمت میں واضح کر دیا جائے گا ۔ (ان شاءاللہ تعالی ) اموال فئی فدک وغیرہ کے متعلق جو عمل اور طریقہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد مبارک اور حیات طیبہ میں مقرر اور جاری فرمایا تھا ۔ تمام خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کی خلافت راشدہ حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ کے دور تک اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل واقع نہ ہوا ۔ اور عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عمل صدیق و فاروق اور عثمان غنی اور علی المرتضی اور حسن المجتبے رضوان اللہ تعالی اجمعین یکساں طور پر واحد و متحد رہا ذرا بھر فرق اور سر مو تفاوت اس مدت میں ایک لمحہ کے لئے بھی واقع نہیں ہوا ۔ یعنی قرآن مجید میں مزکورہ بالا بیان کردہ حکم و حدایت کے موافق جس طرح خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرما یا بعینہ وہی عمل جو ں کا توں تمام خلفائے راشدین نے جاری رکھا ۔ ۔
اگر نعوذبااللہ صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہم وغیرہ کا یہ عمل ظالمانہ یا غاصبانہ کہا جائے تو اسی عمل کو جاری رکھنے والے حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کس طرح مستثنےٰ اور مبرا ہوں گے ( العیاذبااللہ )

( 4) نیز یہ امر بھی فریقین کی معتبر و مستند مسلمہ کتابوب میں ثابت ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کیا کہ میں جب تک زندہ ہوں ان اموال فئی فدک وغیرہ میں عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی جاری رکھوں گا ان میں کسی کو کسی قسم کا تغیر و تبدل اور کوئی دوسرا طریقہ جاری نہ کرنے دوں گا ۔ ہاں میرے ذاتی اموال میں آپ کو اختیار ہے جو چاہیں لے لیں سب کچھ آپ پر قربان ہے ۔
چناچہ شیعہ کی معتبر کتاب حق الیقین کے صفحہ 231 پر ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللی عنہ نے بہت سے فضائل و مناقب جناب سیدہ رضی اللہ عنہا کے بیان کیے اور کہا :
اموال واحوال خود را از تو مضائقہ ندارم آنچہ خواہی بگیر۔ تو سیدہ امت پدر خودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسی نمے تواند کرد و حکم تو نافذ استدر مال من ۔ امادر اموال مسلماناں مخالفت گفتئہ پدر تو نمے توانم کرد ۔
میں اپنا مال جائیداد دینے میں تم سے دریغ نہیں رکھتا جو کچھہ مرضی چاہے لے لیں آپ اپنے باپ کی امت کی سیدہ ہیں اور اپنے فرزندوں کے لئے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں آپ کے فضائل کا کو ئی انکار نہیں رکھتا آپ کا حکم میرے ذاتی مال میں بلا چوں چرا جاری اور منظور ہے ۔لیکن عام مسلمانوں کے مال میں میں آپ کے والد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت ہر گز نہیں کر سکتا ۔
اسی قسم کے الفاظ بخاری شریف میں بھی ہیں ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ رضی اللہ عنہا کیخدمت میں عرض کیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار مجھے اپنے رشتہ داروں سے زیادہ محبوب ہیں ۔
نیز بخاری شریف میں ہے کہ سیدہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا ۔
میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ سکتا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے تھے ۔ میں ضرور وہی عمل جاری رکھوں گا کیونکہ میں ڈرتا ہوں اگر کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے چھوڑ دوں تو گمراہ ہو جاؤں گا ۔
یعنی سیدہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں اپنے اموال پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا مگر فدک وغیرہ اموال فئی میں حکم و رضا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کچھ کرنے کو گمراہی جانا ۔
( جاری ہے )
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
( 5 ) مسئلہ فدک میں یہ امر سب سے زیادہ قابل غور ہے کہ فدک کی محرومی کی وجہ سے جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر جنابہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی کہانی اہل سنت والجماعت کی کسی معتبر کتاب میں جنابہ سیدہ رضی اللہ عنہا کی زبانی ثابت نہیں کی جا سکتی یہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ سیدہ رضی اللہ عنہا نے خود فرمایا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا حق غصب کر لیا ہے اور مجھ پر ظلم کیا ہے میں ان سے ناراض ہوں ان سے کبھی بات نہیں کروں گی ہمارا دعوٰی ہے کہ قیامت تک کوئی شخص اہل سنت کی معتبر کتابوب سے اس قسم کا ثبوت پیش نہیں کر سکتا ۔ ۔ ۔
مگر اس کے بر عکس شیعہ کی معتبر کتابوں میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زبانی جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ پر اس فدک کی وجہ سے سخت ناراضگی ثابت ہے ۔ جس کا ازالہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں بھی نہ کیا بلکہ فدک کو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق و فاروق و غنی رضی اللہ عنہم اجمعین والے سابقہ طریقہ پر باقی رکھا اور سابقہ خلفائے راشدین کے طرز عمل میں کسی تغیر کو جائز نہ سمجھا ۔ تو جناب علی رضی اللہ عنہ جن پر سیدہ فاطمہ کی ناراضگی شیعہ کے نزدیک یقینی ثابت ہے کہ ان کو سیدہ رضی اللہ عنہا نے خود ناراضگی کے سخت الفاظ فرمائے ان کو امام معصوم اور خلیفہ برحق سمجھنا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جن پر سیدہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں ان کا ظالم ، غاصب سمجھنا کس انساف اور کس دیانت پر مبنی ہے ؟؟؟
( 6 ) مسئلہ فدک کو سمجھنے کے لئے یہ حقیقت بھی خوب ملحوظ اور ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شیعہ حضرات کے نزدیک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حیطان سبعہ ( سات باغوں ) پر قابض اور متصرف تھیں ۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے املاک ، اراضی و باغات اس کے علاوہ تھے ۔ ان سات باغوں کی وراثت حسب روایت شیعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے جناب سیدہ رضی اللہ عنہا سے طلب کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہی جواب دیا کہ ان میں وراثت نہیں ہو سکتی اور ان سات باغوں میں سے ایک حبہ بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو نہ دیا ۔
چناچہ فروع کافی جلد ثالث ص 28 پر ہے ۔
احمد ابن محمد نے موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت کی کہ میں نے امام موسیٰ کاظم سے ان سات باغوں کے متعلق دریافت کیا جو فاطمہ علیاالسلام کے پاس جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھے ۔ تو امام صاحب نے فرمایا میراث نہ تھے بلکہ وقف تھے ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے اتنا لے لیتے تھے جو کہ مہمانوں کو کافی ہوتا تھا ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گے ۔ تو حجرت عباس رضی اللہ عنہ ان سات باغوں کی بابت جناب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے جھگڑا کیا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ نے شہادت دی وہ وقف ہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اور وہ سات باغ ۔ دلال ، عفاف ، حسنیٰ ، صافیہ ، مالام ابراہیم ، مبیت اور برقہ تھے ۔
اب قابل غور امر یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس یہ سات باغ بھی تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اراضی اور باغات بھی علاوہ تھے تو فدک کے اموال فئی کے متعلق اس قسم کا نظریہ کہ یہ اموال فدک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو دے دئے تھے --------- شان نبوت پر سخت حملہ ہے جبکہ کتب شیعہ کے مطابق فدک کی پیدوار ہزاروں دینار تھی جیسا کہ ملا باقر مجلسی حیات القلوب میں نقل کرتا ہے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل فدک سے یہ معاہدہ کر لیا کہ وہ ہر سال چوبیس ہزار دینا دیں ________ تو اس قسم کا نظریہ خلاف قرآن اور شان نبوت کے منافی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سات باغ بھی سیدہ کو دے جائیں اور ہزاروں دینار کی آمدنی کے اموال فئی فدک سیدہ رضی اللہ عنہا کو دے جائےں ۔

( جاری ہے )
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
میراث انبیاء علیہم السلام​

اب میراث کے دعوٰی کی حقیقت بھی سمجھ لیجیے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خود حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اب مزکورہ سات باغوں کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ میراثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے یہ تو و قفِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان میں میراث نہیں ہے ۔ تو فدک جس کو قرآن مجید نے سراحتا وقف و فئی قرار دیا اس میں کیسے وراثت کا سوال جائز ہو سکتا ہے جس طرح ان سات باغوں اور اموال فئی فدک وغیرہ میں وراثت کا سوال غلط ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تما اموال میں وراثت کا سوال باطل اور غلط ہے اس میں اہل سنت اور اہل تشیع کی معتبر روایات اور احادیث متفق اور متحد ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کی مالی وراثت ہر گز نہیں ہوتی بلکہ صرف علوم و اخلاق بنوت ہی ہیں جو ان مقدس بزرگوں کی وراثت ہوتی ہے ۔

دلیل نمبر ( 1)

شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی صفۃ 18 میں ہے کہ

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان العلماء ورثۃ الانبیاء لم یورثوادیناراولادرھماولکن اورثواالعلم فمن اخذمنہ اخذ بحظ وافر ( اصول کافی ص 18 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انبیاء کے وارث علماء ہی ہیں کیونکہ انبیاء دینار و درہم کا کسی کو وارث نہیں بناتے لیکن علم وراثت میں دیتے ہیں پس جس نے ان کے علم سے حصہ لیا اس نے اچھا حصہ پالیا ۔ ۔۔

دلیل نمبر ( 2 )

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کو وصیت فرمائی ۔

وتفقھہ فی الدین فان الفقھاء ورثۃ الانبیاء ان الانبیاء لم یورثو دینارا ولا درھما ولٰکنھم ورثو العلم فمن اخذ منہ اخذ بحظ وافر ( شیعہ کی معتبر کتاب من الا یحضرالفقیہ ج دوم ص 346 )

اے بیٹے دین کا پورا کامل علم حاصل کر کیونکہ دین کو پوری طرح سمجھنے والے عالم انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء نے دینار و درہم کا وارث کسی کو نہیں بنایا وہ تو صرف علمکی وراثت دے جاتا ہیں تو جس نے اس علم دین کو حاصل کیا اس نے اچھا حصہ پا لیا ۔


جاری ہے
)
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
گزشتہ سے پیوستہ​

دلیل نمبر ( 3 )

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

ان العلماء ورثۃ الانبیاء وزاک ان الانبیاء لم یورثوا درھما ولا دینارا وانما اورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ حظا وافرا ( اصول کافی ص 17 )

بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء اپنی وراثت درہم و دینار نہیں چھوڑتے بلکہ وہ احادیث ( علوم و احکام شریعت ) ہی اپنی وراثت چھوڑ جاتے ہیں ۔ پس جس شخص نے احادیث و علوم نبوت سے کچھ حصہ لیا تواس نے بڑا کافی وافی حصہ لیا ۔


ان تینوں روایات نے ثابر کر دیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ ن نے صاف طور پر فرمادیا کہ حضرات انبیاء کرام علیہ السلام کی وراثت مالی درہم و دینار اموال دنیا ہر گز نہیں ہوتی بلکہ ان کی وراثت صرف علوم احادیث و اخلاق نبوت ہوتی ہے ۔

دلیل نمبر ( 4 )

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

ورث سلیمان داود ورث محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلیمان ( اصولِ کافی ص 137 )

حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داود علیہ السلام کے وارث ہوئے اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سلیمان علیہ السلام کے وارث ہوئے ۔۔


حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد پر غور کیجیے کیا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سلیمان علیہ السلام کے قریبی جدی رشتہ دار ہونے کے باعث ان کے مال اموال کے وارث ہوئے یا ہو سکتے تھے ۔۔۔ تو امام صاحب کا مقصد یہاں بھی وہی وراثت نبوت و علوم و اخلاق نبوت ہے یعنی انبیاء علیہ السلام کی وراثت علمی دینی اور اخلاقی روحانی ہی ہوتی ہے نہ کہ مالی اور دنیاوی ۔

( جاری ہے )

 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
گزشتہ سے پیوستہ​

دلیل نمبر 5

شیعہ کی معتبر کتاب خصال بن بابویہ ص 39 پہ ہے :

اتت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی شکواہ الذی توفی فیہ فقالت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذان ابنان نورثھما شیئا قال امام الحسن فان لہ ھیبتی وامام الحسین فان لہ جرائتی ۔

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مرض الموت میں آئیں اور عرض کیا یہ دونوں بچے ہیں ان کو کچھ میراث دے دیجیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور حسین رضی اللہ عنہ کے لئے میری جرائت ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور کیجیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وراثت میں اپنے ان دونوں نواسوں کو اپنے اخلاق ہی عطاء کئے اور مالی وراثت کا نام و نشان بھی نہ لیا ۔
نیز شیعہ کی معتبر کتاب “ مناقب فاخرہ للعترۃ الطاہر ص 189 پر بھی یہ روایت موجود ہے اور شرح نہج البلاغہ حدیدی جلد دوم جز شانزدہم ص 261 پر بھی یہ روایت موجود ہے ۔

( جاری ہے )

 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
[size=xx-large]
[size=xx-large]گزشتہ سے پیوستہ​

دلیل 6

شیعہ کی معتبر کتاب من لا یحضرالفقیہ ج 2 ص 217 پہ ہے :

عن الفضیل بن یسار قال سمعت اباجعفر علیہ السلام یقول لا واللہ ماورث رسول اللہ العباس ولاعلی ولا ورثتہ الا فاطمہ علیہ السلام ۔ ۔

فضیل بن یسار نے نقل کیا کہ میں نے حضرت امام محمد باقر سے سنا وہ فرماتے تھے اللہ کی قسم کہ جناب رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس اور چچازاد بھائی حضرت علی اور دوسرے تمام رشتے دار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث نہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وارث صرف اکیلی حضرت فاطمہ علیہ السلام ہی ہوئی ۔ من لایحضر الفقیہ کی اس روایت معتبرہ پر غور کیجیے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت نہ حضرت عباس کو ملی اور نہ کسی دوسرے وارث رشتےدار ، ازواج مطہرات کو سوائے بی بی حضرت فاطمہ کے کوئی حقدار وراثت نہ تھا تو اب غور کیجیے قرآن کریم میں جو وراثت مالی کا قانون اور حکم منصوص بیان فرمایا گیا ہے کہ وراثت مالی لڑکی کو نصف اور ازواج کو آٹھواں حصہ دیا جائے ۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی مالی وراثت بموجب حکم قرآن ہوتی تو پھر شیعہ حضرات کے نزدیک امام صاحب کیوں یہ ارشاد فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام رشتے دار اور حقدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث نہ ہوئے بلکہ صرف اکیلی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مال و وارث ہوئی تھی یہ تمام مزکورہ روایات صراحتا دلالت کرتی ہیں کہ آئمہ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی وراثت اس طرح ہر گز نہ تھی جس طرح کے عام مسلمانوں کی مالی وراثت ان کے ورثاء اور رشتے داروں میں بموجب حکم قرآن تقسیم ہوتی ہے ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مالی وراثت کے حکم سے خارج اور مستثناء ہیں ۔ اور اہل سنت والجماعت بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد :

نحن معاشرالانبیاء لانورث ماترکنا فھوصدقہ ِ
ہم انبیاء مالی وراثت نہیں چھوڑ جاتے وہ وقف اور صدقہ فی سبیل اللہ ہوتا ہے ۔

کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی وراثت نہ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مالی وراثت کے حکم سے خارج اور مستثناء ہیں ۔
[/size]
[/size]
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
سیدہ کے سوال کی کیفیت

عام طور پہ شیعہ حضرات اوران کے ذاکرین اور مجتہدین بڑی شدت سے یہ دعوٰی کرتے ہیں
کہ اہل سنت کی بخاری شریف میں ثابت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دربار ِ خلافت میں گیئں اور وراثتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال کیا مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حدیث رسول سنا کر سیدہ کو خالی ہاتھ واپس کیا جس سے وہ ناراض ہو گیئں ۔ ۔ ۔
مگر یہ خیال اور دعوٰی بالکل غلط ہے ۔ بخاری شریف اور مسلم شریف وغیرہ کی تحقیق سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دربارِ خلافت میں اس سوال کے لیے بالکل نہیں گیئں ۔ بلکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنا آدمی بھیجا ۔جس نے جا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ سول کیا ۔ دیکھیے بخارے شریف جلد اول صفحہ 526 پر ثابت ہے ۔
عن عائشہ ان فاطمہ ارسلت الی ابی بکر تسئلہ میراثھا من النی صلی اللہ علیہ وسلم مما افاءاللہ ۔ِ ِ ۔ ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا کر اموال فئ میں میراث کا سوال کیا ۔ ۔۔
تو بخاری شریف کے الفاظ ارسلت فاطمہ ۔ صراحۃ دلالت کرتے ہیں کہ خود سیدہ نہیں گیئں بلکہ کسی قصد کو بھیج کر سوال کیا ۔ تو جس روایت میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کرنے اور جانے کا ذکر ہے وہ مجازی طور پر ہے ۔ کیونکہ واقعہ واحد ہے یعنی جو کام کسی کے حکم سے کیا جاتا ہے اس کام کو اس حکم کرنیوالے کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے نہر نکالی ہے یا سڑک بنائی ہے ۔ تو خود بادشاہ نہ تو نہر نکالتا ہے اور نہ سڑک بناتا ہے بلکہ مزدور اور مستری یہ کام کرتے ہیں ۔ بادشاہ کے حکم کی وجہ سے وہ کام اس کی طرف منسوب ہوتا ہے ۔اس لئے یہاں بھی سوال کرنے یا آنے کا جو ذکر سیدہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ہے وہ بطور مجاز اور حکم دینے اور آدمی بھیجنے کے ہے ۔
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کی حقیقت و حکمت

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی وراثت نہ تھی اور جب کہ قرآن مجید اموال فئی کے متعلق حکم دے رہا ہے کہ
جس قدر اموال فئی ہیں ، وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور رشتہ دار رانِ نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہیں اور عام مسلمانوں میں سے یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے اوع فقرا مہاجرین اور انصار مدینہ اور ان کے بعد انے والے خیر خواہ حاجتمند ، مسلمانوں کے لئے ہیں ۔ تاکہ اموال فئی دولتمند بے حاجت لوگوں کے لینے دینے اور قبضہ میں نا آ جاویں جو کچھ اور جتنا کچھ رسول اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم حقدار مسلمانوں کو دیدیں لے لو ۔ اور جو تم سے روک لیں اس سے تم رک جاؤ ۔
( پ 28 سورۃ حشر )
تو سیدہ کے وراثت کے سوال کا مقصد کیا تھا؟ تواس کا جواب یہ ہے جو زبدۃالمحققین ، عمدۃالمتاخرین علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نےعرف شذی شرح ترمزی ص 485 پر سید سمہودی کا قول نقل کیا ہے کہ
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا سوال ترکہ کے حصول ملکیت یعنی مالک بننے کے خیال اور ارادہ سے نہ تھا بلکہ صرف ان اموال فئی اور وقف اموال میں بطور قرابت رشتہ داری متولی بننے کے متعلق تھا ۔ جس کے جواب میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سنادی جو حضرت علی اور حضرت عباس ، حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہما وغیرہ کبار صحابہ جانتے تھے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال متروکہ میں کسی قسم کی وراثت نہیں چل سکتی ۔ نہ مالکانہ نہ متولیانہ ۔ بس اس حقیقت کے بعد پھر کبھی سیدہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ سے اس سوال کی نوبت نہیں آئی جبکہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔
تحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہماری مالی وراثت نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے تو اس مال سے آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نان نفقہ خرچ ہوتا رہے گا ۔ ۔ ۔ ۔ اور تحقیق میں خدا کی قسم اٹھا کر کے کہتا ہوں کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی صدقات رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے تبدیل نہ کروں گا ، وہ صدقات جس طرح کے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھے جوں کے توں اسی طرح رکھوں گا اور ضرور بالضرور ان صدقات میں بعینہ وہی عمل اور دستور جاری رکھوں گا جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا ۔
( بخاری شریف ج اور ص 526)

یعنی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں یہی کہلا بھیجا کہ میں عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جاری رکھوں گا اور اسی مال سے آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خرچ خوراک ہوتا رہے گا تو حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے مطمئن ہو گئیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ عملِ نبوی میں کسی قسم کے ردوبدل کا ارادہ نہیں رکھتے ،
 
Top