واقعہ فدک

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
(بقیہ )سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کی حقیقت و حکمت

خود شیعہ حضرات کی معتبر کتابوں میں بھی ثابت ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اسی جواب پر مطمئن اور خوش ہو گئیں ۔ اور ان اموال فئی فدک وغیرہ سے اپنے تمام اخراجات خانگی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے وصول کرتی رہیں ۔ چناچہ شیعہ کی معتب کتاب شرح نھج البلاغہ درۃ نجفیۃ ص 332 سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےسیدہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا ۔
میں تیرے سامنے اللہ تعالٰی کاعھد کر کے کہتا ہوں کہ میں ان اموالِ فئی فدک وغیرہ میں اسی طرح کروں گا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے اس پر سیدہ رضی اللہ عنہا اس بات پہ راضی اور خوش ہو گئیں اور صدیق اکبر سے یہی عھد لے لیا اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان اموالِ فئی کی پیداوار وصول کر کے حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا اور ان کے گھرانے کے لئے ان کا تمام خرچ کافی و وافی دے دیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔
در حقیقت حضرت سیدہ کے سوال کا مقصد اور منشا یہی تھا کہ قریبی رشتہ داروں کو اس وقفِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اموال کا متولی بنایا جائے ۔ مگر چونکہ متولی بنانے میں یہ اندیشہ تھا کہ لوگوں میں یہ غلط فہمی ہو جائیگی کہ اموالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو وقف تھے ان میں وراثت جاری کر دی گئی ہے اور آئندہ کے لئے ان اموالِ فئی کو بجائے وقف سمجھنے کے ورثا اور رشتہ داروں میں تقسیم ہو جانے کا غلط خیال جاری ہوجاتا جس کو ابتدا ہی سے بند کر دیا گیا ۔
یا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سوال کو عدالت میں پیش کراکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کو واضح فرمانا چاہتی تھیں تاکہ عدالت میں یہ بات پیش ہو کر خوب واضح ہو جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان نبوت صرف اللہ تعالٰی کے ارشاد ، تبلیغِ دین اور ہدایتِ خلق کے لئے تھا نہ کے اپنی اولاد اور اقرباء کو جاگیردار اور مالدار بنانے کےلئے حتی کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقنوضہ جائیداد تک بھی کسی رشتہ دار کو نہیں مل رہی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان و مال ہر چیز اللہ کے لئے وقف تھی ۔
یہ سوال عدالت میں پیش نہ ہونے کی صورت میں ممکن تھا کہ لوگ یہ خیال کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت بھی باقی لوگوں کی طرح تقسیم ہوئی ہو گی ۔
نیز حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے اس سوال و جواب کے ذریعہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صداقت کو دنیا کے سامنے واضح کر دیاکہ خلیفہ رسول مقبول حکمِ رسول مقبول کے خلاف کسی کی رعایت نہیں کرتا، خواہ کیسی محبوب اور معززترین ہستی کیوں نہ ہو ۔
 
Top