صبرو ہمت کی پیکر

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
صبرو ہمت کی پیکر
حضرت ابوالحسن سراج کہتے ہیں کہ میں حج بیت اللہ کیلئے گھرسے چلا اور بیت اللہ پہنچ کر کعبۃ اللہ کاطواف کررہا تھا کہ ایک حسین وجمیل عورت جس کے حسن وجمال نے عالم کو روشن کردیاتھا پرنظرپڑی میں نے کہا خداکی قسم آچ تک کہیں ایسی حسینہ وجمیلہ عورت نظرنہ آئی شاید یہ حسن وخوبی فکروغم کے کم ہونے کی وجہ سے ہے یہ بات اس عورت نے سنی تو کہا:
’’اے مرد! تو نے کیا کہا؟ خداکی قسم میں غموں سے جکڑی ہوئی ہوں دل فکرو سے زخمی ہے اس غم میں میرا کوئی شریک نہیں‘‘
میں نے کہا وہ کون سا غم ہے؟ کہنے لگی:
’’میرے شوہرنے ایک بکری قربانی کی ذبح کی اور میرے دوچھوٹے لڑکے کھیل رہے تھے اورایک چھوٹا شیرخواربچہ میری گود میں تھا،میں کھاناپکانے اٹھی تھی بڑے لڑکے نے چھوٹے سے کہا آئو میں تمہیں دکھلائوں کی ابانے بکری کے ساتھ کیسا کام کیا چھوٹے لڑکے نے کہا ضرور دکھلائو پھربڑے لڑکے نے چھوٹے لڑکے کو لٹاکرذبح کرڈالا اور خود پہاڑ پربھاگ گیا وہاں اس کوبھیڑئے نے پھاڑڈالا،اس کا باپ اس کی تلاش میں گیا وہ شدت پیاس سے مرگیا، چھوٹے شیر خواربچے کومیں چھوڑکر دروازے تک گئی کہ دیکھوں کہاں گیا؟ ہانڈی چولہے پرتھی بچے نے گرم ہانڈی اپنے اور انڈیل لی اوروہ بھی جل کرچل بسا، یہ افسوسناک خبرجب میری بڑی لڑکی کو جواپنے شوہر کے پاس تھی پہنچی توسنتے ہی بیہوش ہوکرزمین پرگرپڑی اورروح قفص عنصری سے پرواز کرگئی، ان سب میں صرف مجھ کو زمانہ نے تنہاچھوڑاہے‘‘۔
میں نے کہا تو ان مصیبتوں پرکیسے صبرکرتی ہے ؟کہا کوئی ایسا نہیں جوصبر اور گھبراہٹ میں فرق کرے اوراس کو ان دونوں کے درمیان راہ نہ مل جائے صبر کاانجام نیک ہے اورگھبرانے والے کو کچھ عوض نہیں ملتا،یہ کہکر وہ عورت چلی گئی۔
(نزہۃ البساتین اُردوترجمہ روح الراحین ص ۱۲۶ ج۱)
 
Top