وسیلہ اور ایصال ثواب

السلام علیکم

وسیلہ اور ایصال ثواب

لیس للانسان الا ما سعیٰ
{ بیشک اولاد صالح انسان کی ’’سعی‘‘ ہوتی ہے ۔صحیح ہے میرے خیال سے لفظ سعی کو اگر صرف اولاد صالحہ تک ہی مقید کردیا جائےتو اب ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کے اولاد ہی نہیں یا جنہوں نے شادی ہی نہیں کی اب ان کی ’’سعی‘‘ کیا ہوگی لہٰذا لامحالہ اس لفظ’’ سعی‘‘ کو عام کرنا پڑے گا یعنی نیک عمل کو انسان کی ’’سعی‘‘ (کمائی) میں شمار کیا جائے گا یہ تو ہے میری ناقص رائے اب ذرا ادھر آتے ہیں۔}
میں کہیں عر ض کرچکا ہوں کہ اکابر کی قبروں پر جانا انبیاؑ علیہم السلام سے لیکر سلف صالحین تک ثابت ہے اور وہ جہاں کر کچھ پڑھ کر ( وہ ذکر اذکار کی شکل قرآنی آیات اور سورتیں و دعائیں ماثورہ بھی ہوسکتی ہیں جن کا ثبوت ہے) بخشتے تھے یا جس کو ایصال ثواب بھی کہہ سکتے ہیں (اس طریقہ ارسال ثواب کو کیا کہیں گے۔ اس کی کوئی اصطلاح مقرر ہونی چاہئے)۔اب چونکہ قبروں پر یا قبرستان جا نا ثابت ہے اور عوام الناس بشمول علماء و صلحاء کے مختلف واقعات ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں پیش کرتا ہوں جس کو ایک سائل نے میرے پاس پوسٹ کیا تھا اور یہی اس کو لکھنے کا سبب ہے لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ یہ سارے واقعات ہی من گھڑت ہوں ان کی کچھ نہ کچھ تو اصل ہے اور میرا بھی مشاہدہ ہے ۔لہٰذا ان تمام واقعات کی تشریح اور توجیہات درکار ہیں کیوں کہ جب ہم فریق مخالف کے اعمال کو شرک یا بدعت سے تعبیر کرتے ہیں وہ فوراً ان تمام واقعات کو پیش کرتے ہیں تو ایک دفعہ کو ذہن کو صدمہ سا پہونچتا ہے لیکن چونکہ اپنی بات بالا بالا رکھنی ہوتی ہے مختلف طریقوں سے سامنے والے کو یا سائل کو خاموش تو کردیا جاتا ہے لیکن مطمئن نہیں کر پاتے اس کی وجہ ہے کہ جب وہ دوسرے علماء کے پاس جاتے ہیں تو ان کو دوسرے دلائل سننے کو ملتے ہیں ۔ایسے میں اپنی بھی سبکی ہوتی ہے اور خاموش ہونا پڑتا ہے تو اس لیے حل طلب امور یہ ہیں کہ ان مسائل کو کیسے حل کیا جائے ور’’یسر‘‘والا مقولہ بھی سامنے رہے۔ لیجئے پیش خدمت ہیں یہ واقعات۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول
حضرت کعب الاحبار کے قبولِ اسلام کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا :
هل لک أن تسيرمعي إلي المدينة فنزور قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم وتتمتع بزيارته، فقلت نعم يا أمير المؤمنين.
’’کیا آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت اور فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے میرے ساتھ مدینہ منورہ چلیں گے؟‘‘ تو انہوں نے کہا : ’’جی! امیر المؤمنین۔‘‘
’’ایک مرتبہ مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی دِگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک روشندان آسمان کی طرف کھولو تاکہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ اتنی زور دار بارش ہوئی جس کی وجہ سے خوب سبزہ اُگ آیا اور اُونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ پس اُس سال کا نام ہی ’’عامُ الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘‘ رکھ دیا گیا۔
عثمانی ترکوں کے زمانے یعنی بیسویں صدی کے اوائل دور تک رائج رہا، وہ یوں کہ کہ جب قحط ہوتا اور بارش نہ ہوتی تو اہلِ مدینہ کسی کم عمر سید زادہ کو وضو کروا کر اوپر چڑھاتے اور وہ بچہ اس رسی کو کھینچتا جوقبرِ انور کے اوپر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے فرمان کے مطابق سوراخ کے ڈھکنے کو بند کرنے کے لئے لٹکائی ہوئی تھی۔ اس طرح جب قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا تو بارانِ رحمت کا نزول ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کا معمول
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے آزاد کردہ غلام نافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب بھی سفر سے واپس لوٹتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس پر حاضری دیتے اور عرض کرتے :
السّلام عليک يا رسول اﷲ! السّلام عليک يا أبا بکر! السّلام عليک يا أبتاه!
’’اے اللہ کے (پیارے) رسول! آپ پر سلامتی ہو، اے ابوبکر! آپ پر سلامتی ہو، اے ابا جان! آپ پر سلامتی ہو۔‘‘
ضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا معمول
حضرت ابو اُمامہ بیان کرتے ہیں :
رَأيتُ أنَس بن مَالِک أتي قَبْر النَّبي صلي الله عليه وآله وسلم فوقف فرفع يديه حتي ظننتُ أنه افتتح الصّلاة فسلّم علي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم ثم انصرف.
’’میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر آتے دیکھا، انہوں نے (وہاں آ کر) توقف کیا، اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ شاید میں نے گمان کیا کہ وہ نماز ادا کرنے لگے ہیں۔ پھر انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا، اور واپس چلے آئے۔‘‘
ضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خواب میں زیارت کا حکم
عاشقِ رسولﷺ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ حضورﷺکے وِصال مبارک کے بعد مدینہ منورہ، سے ملک شام چلے گئےاس خیال سے کہ جب یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہ رہے تو پھر اِس شہر میں کیا رہنا! حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے خواب میں آئے اور فرمایا :
ما هذه الجفوة، يا بلال؟ أما آن لک أن تزورني؟ يا بلال!.
’’اے بلال! یہ فرقت کیوں ہے؟ اے بلال! کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم ہم سے ملاقات کرو؟‘‘
اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَشک بار ہو گئے۔ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو حکم سمجھا اور مدینہ کی طرف رختِ سفر باندھا، اُفتاں و خیزاں روضۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دی اور بے چین ہوکر غمِ فراق میں رونے اور اپنے چہرے کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ملنے لگے۔
حضرت ابو ایوب اَنصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا :
نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ لَمْ آتِ الْحَجَرَ.
’’ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔‘‘
ضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا بارگاہِ نبوت میں سلام
إذا أتيت المدينة ستري قبر النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، فأقرئه منّي السّلام.
’’جب آپ مدینہ منورہ حاضر ہوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک پر حاضری دے کر میری طرف سے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں) سلام (کا تحفہ و نذرانہ) پیش کر دیجئے گا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :
کان عمر بن عبد العزيز يوجه بالبريد قاصدًا إلي المدينة ليقري عنه النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ آپ ایک قاصد کو شام سے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی طرف سے درود و سلام کا ہدیہ پیش کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے۔‘‘
’’ابو صادق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیہاتی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین دن بعد مدینہ منورہ آیا۔ اس نے فرطِ غم سے اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گرا لیا۔ قبر انور کی مٹی اپنے اوپر ڈالی اورعرض کیا : اے اللہ کے رسول! صلی اﷲ علیک وسلم آپ نے فرمایا اور ہم نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کا قول مبارک سنا ہے، آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اللہ سے احکامات لئے اور ہم نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے احکام لئے اور اُنہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ’’وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ اور اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے‘‘ میں نے بھی اپنے اوپر ظلم کیا ہے، آپ صلی اﷲ علیک وسلم میرے لیے اِستغفار فرما دیں۔ اعرابی کی اِس (عاجزانہ اور محبت بھری) التجاء پر اُسے قبر سے ندا دی گئی : ’’بیشک تمہاری مغفرت ہو گئی ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
مَنْ زَارَ قَبْرِي، أَوْ قَالَ : مَنْ زَارَنِي کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا أَوْشَهِيْدًا، وَ مَنْ مَاتَ فِي أَحَدِ الْحَرَمَيْنِ بَعَثَهُ اﷲُ مِنَ الآمِنِيْنَ يَوْمَ الْقِيَامَة.
’’جس نے میری قبر (یا راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) میری زیارت کی میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا اور جو کوئی دو حرموں میں سے کسی ایک میں فوت ہوا اللہ تعالیٰ اُسے روزِ قیامت ایمان والوں کے ساتھ اٹھائے گا۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ زَارَنِي بِالْمَدِيْنَةِ مُحْتَسِبًا کُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا وَشَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
’’جس شخص نے خلوصِ نیت سے مدینہ منورہ حاضر ہوکر میری زیارت کا شرف حاصل کیا، میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘
صلحاء کی قبروں پر جانا:
امام عبدالرزاق، امام طبری، امام سیوطی اور امام ابنِ کثیر وغیرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے تھے۔ امام عبدالرزاق (م 211ھ) نے بیان کیا ہے :
عن محمد بن إبراهيم قَالَ کَانَ النَّبِي صلي الله عليه وآله وسلم يَأْتِي قُبُوْرَ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ رَأسِ الْحَوْلِ فَيَقُوْلُ : السَّلاَمُ عَلَيْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَي الدَّارِ. قَالَ وَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَفْعَلُوْنَ ذَلِکَ.
’’حضرت محمد بن ابراہیم التیمی سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سال کے آغاز میں شہداء کی قبروں پر تشریف لاتے تھے اور فرماتے : تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کے صلہ میں آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ روای نے کہا : حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ رضي الله عنه بَعْدَ وَفَاةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعُمَرَ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَي أمِّ أَيْمَنَ نَزُوْرُهَا کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَزُوْرُهَ
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : چلو حضرت اُم ایمن کی زیارت کرکے آئیں جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔‘‘
مذکورہ حدیث کی شرح میں امام نووی لکھتے ہیں :
’’اس حدیثِ مبارکہ میں صالحین کی زیارت اور اس کی فضیلت کا بیان ہے۔ اسی طرح کسی صالح شخص کا (مقام و مرتبہ کے لحاظ سے) اپنے سے کم درجہ شخص کی ملاقات کے لیے جانا، کسی انسان کا اپنے دوست احباب کی زیارت کرنا، مردوں کا باجماعت کسی نیک اور صالح خاتون کی ملاقات اور اس کی گفتگو سننا، اسی طرح کسی عالم اور بزرگ کا اپنے دوست کو زیارت و ملاقات اور عیادت وغیرہ کے لئے اپنے ساتھ لے جانا، صالحین اور دوست و احباب کی مفارقت پر غمگین ہونا اور رونا اگرچہ وہ اونچے درجے کی طرف منتقل ہوگئے ہوں ۔‘‘
امام شافعی رضی اللہ عنہ کا امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری کا معمول
خطیب بغدادی اور بہت سے ائمہ کی تحقیق کے مطابق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد میں ہوتے تو حصولِ برکت کی غرض سے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت کرتے۔ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی، امام ابو حنیفہ کے مزار کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
إنّي لأتبرّک بأبي حنيفة، وأجيء إلي قبره في کلّ يوم. يعني زائرًا. فإذا عُرضت لي حاجة صلّيت رکعتين، وجئتُ إلي قبره، و سألت اﷲ تعالي الحاجة عنده، فما تبعد عنّي حتي تقضي.
’’میں امام ابو حنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے۔‘‘
امام ابو القاسم ابن ہبۃ اﷲنے لکھا ہے :
عن أبي الفرج الهندبائي يقول : کنت أزور قبر أحمد بن حنبل فترکته مدة، فرأيت في المنام قائلاً يقول لي : لم ترکت زيارة قبر إمام السنة.
’’ابو الفراج ہندبائی نے بیان کیا ہے : میں اکثر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کی زیارت کیا کرتا تھا پس ایک عرصہ تک میں نے زیارت کرنا چھوڑ دیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے : تو نے امام السنۃ (امام احمد بن حنبل) کی قبر کی زیارت کو کیوں ترک کیا؟‘‘
علامہ ابنِ مفلح نے اپنی کتاب ’’المقصد الارشد‘‘میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ محمد بن یوسف الفریابی کی زیارت کے لئے سفر کرکے ملک شام گئے تھے۔
امام ذہبی نے امیر المؤمنین فی الحديث اور سید المحدّثین امام محمد بن اسماعیل بخاری کی قبر مبارک سے تبرک کا ایک واقعہ درج کیا ہے، لکھتے ہیں :
ابو الفتح نصر بن حسن السکتی سمرقندی نے بیان کیا کہ ایک بار سمرقند میں کچھ سالوں سے بارش نہ ہوئی تو لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی پس انہوں نے کئی بار نمازِ استسقاء ادا کی لیکن بارش نہ ہوئی۔ اسی اثناء اُن کے پاس ایک صالح شخص جو ’’صلاح‘‘ کے نام سے معروف تھا، سمر قند کے قاضی کے پاس گیا اور اس سے کہا : میں آپ سے اپنی ایک رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ قاضی نے کہا : وہ کیا ہے؟ اس نے کہا :
’’میری رائے ہے کہ آپ کو اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں کو امام محمد بن اسماعیل بخاری کی قبر مبارک پر حاضری دینی چاہیے، ان کی قبر خرتنک میں واقع ہے، ہمیں قبر کے پاس جا کر بارش طلب کرنی چاہیے عین ممکن ہے کہ اﷲتعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب کر دے۔ قاضی نے کہا : آپ کی رائے بہت اچھی ہے۔ پس قاضی اور اس کے ساتھ تمام لوگ وہاں جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے سو قاضی نے لوگوں کو ساتھ مل کر بارش طلب کی اور لوگ قبر کے پاس رونے لگے اور اللہ کے حضور صاحبِ قبر کی سفارش کرنے لگے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اسی وقت کثیر وافر پانی کے ساتھ بادلوں کو بھیج دیا، تمام لوگ تقریباً سات دن تک خرتنک میں رکے رہے، اُن میں سے کسی ایک میں بھی کثیر بارش کی وجہ سے سمرقند پہنچنے کی ہمت نہ تھی حالانکہ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘
خطیب بغدادی نے حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے بارے میں لکھا ہے:
أخبرنا إسماعيل بن أحمد الحيري أخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي قال : فتح الموصلي کان من کبار مشايخ الموصل، وکان يحضر زيارة بشر الحافي.’’
اسماعیل بن احمد الحیری نے ابوعبدالرحمٰن السلمی سے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا : حضرت فتح موصلی اکابر مشائخِ موصل میں سے تھے، وہ بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لئے بغداد حاضر ہوئے تھے۔‘‘
امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں امام ابو الحسن علی بن احمد الشافعی کے حوالے سے لکھا ہے :
المحدث أحد الأئمة الزهاد قطع أوقاته في العبادة والعلم والکتابة والدرس والطلب حتي مکن اﷲ منزلته في القلوب وأحبه الخاص والعام حتي کان يقصده الکبار للزيارة والتبرک.
’’وہ محدّث ان پرہیزگار ائمہ میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی زندگی عبادت، حدیثِ علم، کتاب، درس و تدریس اور طلب علم میں صرف کی یہاں تک کہ اﷲتعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں ان کامقام و مرتبہ بلند کر دیا اور عوام اور خواص نے ان سے محبت کی حتیٰ کہ اکابر ائمہ ان کی زیارت اور ان سے حصولِ تبرک کے لئے دور دراز سے سفر کرکے آتے۔‘‘
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہما کو وسیلہ بنایا اور اﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی اور عرض کیا : اے اﷲ! یہ تیرے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا حضرت عباس ہیں ہم ان کے وسیلہ سے تیری نظر کرم کے طلبگار ہیں ہمیں پانی سے سیراب کر دے وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں پانی سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب فرمایا : اے لوگو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزل والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرو اور انہیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔
تو محترم قارئین و علماء عظام ان تمام واقعات اور ان کے علاوہ اور بہت سے واقعات ہیں ان کی تردید کی جائے اور کیسے تاویل کی جائے ۔ یہاں تنا عرض کردوں مروجہ ایصال ثواب کا میں بھی قائل نہیں ہوں برائے مہربانی وسعت قلبی کے ساتھ اپنی آراء اور دلائل سے نوازیں ۔فقط والسلام
 
Top