اجتماعی ذکر کے حوالے سے اثرابن مسعود کی تحقیق درکار ہے ؟
الحمد لله و الصلاة و السلام على رسول الله
أما بعد:
اجتماعی ذکر کے حوالے سے سنن الدارمي کی ایک روایت کی تحقیق درکا رہے ۔
عربی متن ، 206
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنِ ابِيهِ، قَالَ كُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ فَإِذَا خَرَجَ مَشَيْنَا مَعَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَجَاءَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ فَقَالَ أَخَرَجَ إِلَيْكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَعْدُ قُلْنَا لَا فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ فَلَمَّا خَرَجَ قُمْنَا إِلَيْهِ جَمِيعًا فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَمَا هُوَ فَقَالَ إِنْ عِشْتَ فَسَتَرَاهُ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِي كُلِّ حَلْقَةٍ رَجُلٌ وَفِي أَيْدِيهِمْ حَصًى فَيَقُولُ كَبِّرُوا مِائَةً فَيُكَبِّرُونَ مِائَةً فَيَقُولُ هَلِّلُوا مِائَةً فَيُهَلِّلُونَ مِائَةً وَيَقُولُ سَبِّحُوا مِائَةً فَيُسَبِّحُونَ مِائَةً قَالَ فَمَاذَا قُلْتَ لَهُمْ قَالَ مَا قُلْتُ لَهُمْ شَيْئًا انْتِظَارَ رَأْيِكَ وَانْتِظَارَ أَمْرِكَ قَالَ أَفَلَا أَمَرْتَهُمْ أَنْ يَعُدُّوا سَيِّئَاتِهِمْ وَضَمِنْتَ لَهُمْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ قَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَصًى نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّسْبِيحَ قَالَ فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ قَالُوا وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ قَالَ وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولَئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ
ترجمہ ::
امام دارمی بیان کرتے ہیں کہ ھم سے حکم بن مبارک نے بیان کیا، حکم بن مبارک کہتے ھیں کہ ھم سے عمروبن یحی نے بیان کیا،عمروبن یحی کہتے ھیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنا،وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے فرمایا :
"ھم نمازفجرسے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر بیٹھ جاتے،اورجب وہ گھر سے نکلتے توان كے ساتھ مسجد روانہ ہوتے،ایک دن کا واقعہ هے کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کیا ابوعبدالرحمن (عبداللہ بن مسعود) نکلے نہیں ؟ھم نے
جواب دیا نہیں،یہ سن كر وه بهى ساته بیٹھ گئے،یہاں تک ابن مسعود باہرنکلے،اورھم سب ان کی طرف کھڑے ہو گئے تو ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ان سے مخاطب ہوئے اور
کہا : ائے ابوعبدالرحمن ! میں ابھی ابھی مسجد میں ایک نئی بات دیکھ آ رہا ھوں،حالانکہ جوبات میں نے دیکھی وہ الحمد للہ خیر ہی ھے،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کونسی بات ھے؟ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرزندگی رہی توآپ بھی دیکھ لیں گئے،کہا وہ یہ بات ھے کہ کچھ لوگ نمازكے انتظارميں مسجد کے اندرحلقہ بنائے بیٹھے ھیں،ان سب كے ہاتوں ميں كنكرھیں،اورہرحلقے میں ایک آدمی متعین ھے جو ان سے کہتا ہے کہ سو100 بار اللہ اکبر کہو،توسب لوگ سوباراللہ اکبرکہو،توسب لوگ سو بار اللہ اکبر کہتے ھیں،پھرکہتآ ہے سو بار لاالہ الااللہ کہو توسب لوگ لاالہ الااللہ کہتے ہیں ،پھرکہتا ہے کہ سوبارسبحان اللہ کہو توسب سوبارسبحان اللہ کہتے ہیں-ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھرآپ نے ان سے کیا کہا ،ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کی رائے کے انتظارمیں میں نے ان سے کچھ نہیں کہا؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے ان سے یہ کیوں نہیں کہ دیا کہ آپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورپھراس بات کا ذمہ لےلیتے کہ ان کی کوئی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی-
یہ کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف روانہ ہوئے اورھم بھی ان کے ساتھ چل پڑے،مسجد پہنچ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس کھڑے ہوکرفرمایا: تم لوگ کیا کررہے ہو! یہ کنکریاں ہیں جن پرھم تسبیح وتہلیل کررہے ہیں ،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اس کی بجائے تم اپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورمیں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی پھی ضائع نہیں ہوگی،
تمھاری خرابی ھے ائے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی توتمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثیرتعداد میں موجود ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےچھوڑے ہوئے کپڑے نہیں پھٹے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن نہیں ٹوٹے اورتم اتنی جلدی ہلاکت کا اشکارہوگئے،قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے! یا توتم ایسی شریعت پر چل رہے ہوجونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ھے -- نعوذوباللہ -- بہترھے،یا گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو-انھوں نے کہا ائے ابوعبدالرحمن ! اللہ کی قسم اس عمل سے خیر کے سوا ھماراکوئی اورمقصدنہ تھا-ابن مسعود نے فرمایا ایسے کتنے خیرکے طلبگار ھیں جوخیرتک کبھی پہنچ ہی نہیں پاتے- چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھم سے ایک حدیث بیان فرمائی کہ ایسی ايك قوم ايسى هو گی جوقرآن پڑھے گی،مگرقرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا- اللہ کی قسم ! کیا پتہ کہ ان میں سے زیادہ ترشائد تمھیں میں ھوں-
یہ باتیں کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے واپس چلے ئے-
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان حلقوں کے اکثرلوگوں کو ھم نے دیکھا کہ نہروان جنگ میں وہ خوارج کے شانہ بشانہ ھم سے نیزہ زنی کررہے تھے۔
جزاكم الله خیرا
حضرت یہ حدیث منکرین تصوف اکثر مجالس ذکر اور صوفیاء کہ اشغال کے رد میں پیش کرتے ہیں اس حوالے سے بھی کچھ ارشاد فرمانا۔
الحمد لله و الصلاة و السلام على رسول الله
أما بعد:
اجتماعی ذکر کے حوالے سے سنن الدارمي کی ایک روایت کی تحقیق درکا رہے ۔
عربی متن ، 206
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنِ ابِيهِ، قَالَ كُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ فَإِذَا خَرَجَ مَشَيْنَا مَعَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَجَاءَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ فَقَالَ أَخَرَجَ إِلَيْكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَعْدُ قُلْنَا لَا فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ فَلَمَّا خَرَجَ قُمْنَا إِلَيْهِ جَمِيعًا فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَمَا هُوَ فَقَالَ إِنْ عِشْتَ فَسَتَرَاهُ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِي كُلِّ حَلْقَةٍ رَجُلٌ وَفِي أَيْدِيهِمْ حَصًى فَيَقُولُ كَبِّرُوا مِائَةً فَيُكَبِّرُونَ مِائَةً فَيَقُولُ هَلِّلُوا مِائَةً فَيُهَلِّلُونَ مِائَةً وَيَقُولُ سَبِّحُوا مِائَةً فَيُسَبِّحُونَ مِائَةً قَالَ فَمَاذَا قُلْتَ لَهُمْ قَالَ مَا قُلْتُ لَهُمْ شَيْئًا انْتِظَارَ رَأْيِكَ وَانْتِظَارَ أَمْرِكَ قَالَ أَفَلَا أَمَرْتَهُمْ أَنْ يَعُدُّوا سَيِّئَاتِهِمْ وَضَمِنْتَ لَهُمْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ قَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَصًى نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّسْبِيحَ قَالَ فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ قَالُوا وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ قَالَ وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولَئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ
ترجمہ ::
امام دارمی بیان کرتے ہیں کہ ھم سے حکم بن مبارک نے بیان کیا، حکم بن مبارک کہتے ھیں کہ ھم سے عمروبن یحی نے بیان کیا،عمروبن یحی کہتے ھیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنا،وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے فرمایا :
"ھم نمازفجرسے پہلے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر بیٹھ جاتے،اورجب وہ گھر سے نکلتے توان كے ساتھ مسجد روانہ ہوتے،ایک دن کا واقعہ هے کہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کیا ابوعبدالرحمن (عبداللہ بن مسعود) نکلے نہیں ؟ھم نے
جواب دیا نہیں،یہ سن كر وه بهى ساته بیٹھ گئے،یہاں تک ابن مسعود باہرنکلے،اورھم سب ان کی طرف کھڑے ہو گئے تو ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ان سے مخاطب ہوئے اور
کہا : ائے ابوعبدالرحمن ! میں ابھی ابھی مسجد میں ایک نئی بات دیکھ آ رہا ھوں،حالانکہ جوبات میں نے دیکھی وہ الحمد للہ خیر ہی ھے،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کونسی بات ھے؟ ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرزندگی رہی توآپ بھی دیکھ لیں گئے،کہا وہ یہ بات ھے کہ کچھ لوگ نمازكے انتظارميں مسجد کے اندرحلقہ بنائے بیٹھے ھیں،ان سب كے ہاتوں ميں كنكرھیں،اورہرحلقے میں ایک آدمی متعین ھے جو ان سے کہتا ہے کہ سو100 بار اللہ اکبر کہو،توسب لوگ سوباراللہ اکبرکہو،توسب لوگ سو بار اللہ اکبر کہتے ھیں،پھرکہتآ ہے سو بار لاالہ الااللہ کہو توسب لوگ لاالہ الااللہ کہتے ہیں ،پھرکہتا ہے کہ سوبارسبحان اللہ کہو توسب سوبارسبحان اللہ کہتے ہیں-ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھرآپ نے ان سے کیا کہا ،ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کی رائے کے انتظارمیں میں نے ان سے کچھ نہیں کہا؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ نے ان سے یہ کیوں نہیں کہ دیا کہ آپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورپھراس بات کا ذمہ لےلیتے کہ ان کی کوئی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی-
یہ کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد کی طرف روانہ ہوئے اورھم بھی ان کے ساتھ چل پڑے،مسجد پہنچ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس کھڑے ہوکرفرمایا: تم لوگ کیا کررہے ہو! یہ کنکریاں ہیں جن پرھم تسبیح وتہلیل کررہے ہیں ،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اس کی بجائے تم اپنے اپنے گناہ شمارکرو،اورمیں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی پھی ضائع نہیں ہوگی،
تمھاری خرابی ھے ائے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ابھی توتمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کثیرتعداد میں موجود ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےچھوڑے ہوئے کپڑے نہیں پھٹے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن نہیں ٹوٹے اورتم اتنی جلدی ہلاکت کا اشکارہوگئے،قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے! یا توتم ایسی شریعت پر چل رہے ہوجونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ھے -- نعوذوباللہ -- بہترھے،یا گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو-انھوں نے کہا ائے ابوعبدالرحمن ! اللہ کی قسم اس عمل سے خیر کے سوا ھماراکوئی اورمقصدنہ تھا-ابن مسعود نے فرمایا ایسے کتنے خیرکے طلبگار ھیں جوخیرتک کبھی پہنچ ہی نہیں پاتے- چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھم سے ایک حدیث بیان فرمائی کہ ایسی ايك قوم ايسى هو گی جوقرآن پڑھے گی،مگرقرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا- اللہ کی قسم ! کیا پتہ کہ ان میں سے زیادہ ترشائد تمھیں میں ھوں-
یہ باتیں کہ کرابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے واپس چلے ئے-
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان حلقوں کے اکثرلوگوں کو ھم نے دیکھا کہ نہروان جنگ میں وہ خوارج کے شانہ بشانہ ھم سے نیزہ زنی کررہے تھے۔
جزاكم الله خیرا
حضرت یہ حدیث منکرین تصوف اکثر مجالس ذکر اور صوفیاء کہ اشغال کے رد میں پیش کرتے ہیں اس حوالے سے بھی کچھ ارشاد فرمانا۔