الیکشن سے مربوط مسائل کا شرعی حل

ڈاؤن لوڈ پی دی ایف (جسامت 2 م ب)

السلام علیکم
قارئین کرام زیر نظر مقالہ حال ہی میں جامع مسجد امروہہ یوپی انڈیا میں منعقد’’ اسلامی فقہی اکیڈمی‘‘ کے 22 ویں سیمنار میں پیش کیا جا چکا ہے ۔الیکشن سے متعلق جو تجاویز پاس ہوئیں یہ مقالہ انہی تجاویز کے مطابق ہے ۔جو تجاویز طے پائیں وہ بھی انشاءاللہ پیش خدمت کروں گا یہ سیمنار ۸ مارچ کو شروع ہوکر ۱۱ مارچ ۲۰۱۳ ء کو اختتام کو پذیر ہوایہی وجہ رہی کہ احقر کئی دن تک فورم سے غائب رہا

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الیکشن سے مربوط مسائل کا شرعی حل​

نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم : اما بعد

عابدالرحمٰن بجنوری مظاہری
بن مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری​
فَاَ عُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ​
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ (پ۱۴۳:۲)
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم :خیر الامور اوساطھا : اوکما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم صدق اللہ العلی العظیم

اسلام اور انسانی حقوق :
اس تکوینی نظام کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے روز ازل سے لیکر آج تک اور آج سے لیکر قیامت تک کے لئے انسان کو خلیفۃ فی الارض بنا کر بھیجا ، انسانوں کی رہنمائی اور دنیاوی نظام کو چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کو ایک ضابطہ حیات ایک قانون دیکر مبعوث فرمایا تاکہ انسان عدل وانصاف و بھائی چارگی ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پوری پوری پاسداری کرتے ہوئے آزادانہ زندگی گزاریں ،اور اس کو علم کی دولت سے سرفرازفرمایا تاکہ اچھے برے کی تمیز کرسکے اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو،اور دنیا میں امن سکون رہے کسی کی حق تلفی نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا۔
قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ۝۰ۭ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللہِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۝۶۰ [٢:٦٠]
اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر (کے پانی پی) لیا۔(ہم نے حکم دیا کہ) خدا کی (عطا فرمائی ہوئی) روزی کھاؤ اور پیو، مگر زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا
اور دوسری جگہ فرمایا
وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ۝۲۰۵ [٢:٢٠٥]
اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کردے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا
اس طرح کی اور بھی آیات شریفہ ہیں جن میں عدم فساد اور باہمی بھائی چارگی اور مساوات کی تعلیم دی گئی ہے۔
انسانیت کی تاریخ کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں حقوق کی آزادی کے لئے بڑے بڑے انقلابات رونما ہوئے ،اور حقوق کی ادائیگی و حفاظت کے لئے بڑی بڑی جنگیں ہوئیں بے شمار بغاوتیں ہوئیں لیکن ہر جنگ وجدل کے بعد بھی حقوق انسانی کا وہی حشر ہوا جو اس سے پہلے تھا بلکہ اس سے بھی بدتر ہوگئے۔
بیشک اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا لیکن اس کی آزادی کو ایک شریعت وقانونمربوط کردیاہے تاکہ انسان اپنی آزادی کی خاطر دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کرسکے۔ یہ اسلامی دستور وقانون انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ،اس دستور میں اس بات کا پورا پورا خیال رکھا گیا کہ انسان کے فطری حقوق کی پامالی نہ ہو ۔ یہ دستور اسلامی اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ حقوق ا نسانی ،دنیا کے ہر فرد و شخص کے تمام گوشہ ہاے زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
اسلام ا یک مکمل ضابطہ حیات ہے ،اسلام میں تمام قسم کے حقوق حقوق انسانی کے دائرہ کار میں آتے ہیں ،اسلام نے مذہب ودین ،ر نگ و نسل ، خاندان ونسب ،رشتہ وقرابت ،علاقہ وملک،غرض کہ تمام گوشہ ہائے زندگی کو اور تمام دوسری بنیادی ضرورتوں کو انسان کی حقوق کی تشکیل میں سامنے رکھا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا
فَاَقِـمْ وَجْہَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا۝۰ۭ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْہَا۝۰ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ۝۰ۤۙ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۝۳۰ۤۙ (روم:۳۰)
ترجمہ: تو تم ایک طرف کے ہوکر دین (خدا کے رستے) پر سیدھا منہ کئے چلے جاؤ (اور) خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس میں تمام جسمانی مادی ضروریات کے پہلو بہ پہلو روحانی واخلاقی ضروریات کابھی خیال رکھا گیا ہے ،اور یہ ایسی ضروریات ہیں جن کے عدم توازن کی وجہ سے انسانی شخصیت میں بھی توازن برقرار نہیں رہتا ،تو اس طرح جب افراد واشخاص کی فطرت متاثر ہوگی تو پورا سماج ہی متاثر ہوگا ۔چنانچہ اسلام انسانی حقوق کی پاسداری میں سب سے آگے ہے ۔اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ آفاقی بھی ہے اور ابدی بھی اگر ازلی بھی کہا جائے تو کوئی مضائقہ اور مبالغہ نہ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب سے انسان کا وجود اس دنیا میں آیا ہے ،اسلام نے اس کو تما م حقوق بلا مطالبہ دائمی طور پر عطا کردئے۔ اسلام تمام انسانوں کو ان کی انسانیت کےرشتہ وتعلق سے انسانی حقوق عطا کرتا ہے ۔وہ مسلم غیر مسلم ،علاقہ وطن ،رنگ نسل ،غرض کہ کسی قسم کی تفریق نہیں کرتا۔
اسلام کے برعکس مغربی کلچر وتہذیب وتمدن نے انسان سے انسانیت چھین لی ۔آپس میں نفرت تعصب ،بد تہذیبی علاقائیت ،غرض کہ انسان کو انسان ہی کی نگاہ میں ذلیل و رسوا کردیا۔ انسان کا روحانی سکون ختم کردیا ،آج مغربی انسانیت روحانی سکون کے لئے دردر بھٹک رہی ہے ۔ جب ان مستشرقین کو روحانی سکون نہیں ملا تو انہوںنےپوری انسانیت کو اپنا جیسا اور ہم خیال بنانے کے لئے شیطانی چالیں چلنی شروع کردیں اور سیدھا اسلام اور مسلمان کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔اور انسان کو انسان سے حیوان بنادیا۔
اسلام اور جمہوریت :
اسلام واحد ایسا دین ومذہب ہے جو انسانی فطرت وعین عقل کے مطابق ہے ۔اسلام کی اس خوبی اور ہماگیریت کی وجہ سے مستشرقین پریشان ہوگئے اور انہوں نے یک زبان ویک ذہن ہوکر اسلامی تعلیمات کے خلاف یلغار کردی ،اور انہوں نے سب سے پہلا حملہ مسلمانوں کے اقتدار پر کیا ،جن کو جنگ کے ذریعہ جیت سکتے تھے ان کو جنگ کے ذریعہ حاصل کیا اور جو ان کے قبضہ میں نہ آسکے وہاں کی عوام میں بغاوت کے بیچ بوکر جمہوریت کا سبز باغ دکھا کر وہاں جمہوری نظام نافذ کرادیا ،چنانچہ اس وقت تقریباًپوری دنیا میں جمہوری نظام نافذ ہے اور جہاں جمہوری نظام نہیں ہے لیکن جمہوری نظام سے متاثرضرور ہیں ،اس طرح سے آج جمہوریت زمانہ کی مجبوری اور ضرورت بن گئی ہے۔
مستشرقین کےزعم باطل کےمطابق یہ ان کی ایک بڑی کامیابی ہے ،لیکن یہاں بھی ان کو منہ کی کھانی پڑی ،اسلام کیونکہ انفرادیت کی تعلیم نہیں دیتاتا سب کو ساتھ لیکر چلنے کی دعوت دیتاہے ، زمانہ کی ضرورت بن جانا واقعی یہ اسلام کا ایک اہم پہلو اور تقاضا ہے ۔مگر اس کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ اسلامی تعلیمات کو بھلا دیا جائے ،اسلامی عقائد اور اساسی حقائق کو گئے گزرے دور کا موضوع بنا دیا جائے،اللہ اور بندے کے درمیان ایک دیوار

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
کھڑی کردی جائے۔اور اللہ تعالیٰ کو حاکم اعلیٰ نہ مان کر بندوں کو ہی وہ مقام دیدیا جائے ،اسلام میں ایسے خداؤں کی کوئی گنجائش نہیں۔
اسلام کہتا ہے اللہ ہی رب العالمین ہے اورمحمدﷺ رحمۃ اللعالمین ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ’’کافۃ للناس ‘‘کہہ کریہ ثابت کردیا کہ آپ کو تمام انسانوں کے لئے مبعوث فرمایا ہے،اور قرآن پاک کو ’’بلاغ للناس ‘‘اور بصائر للناس ،یعنی تمام دنیا کے لئے پیغام ہدایت بنایا، اور ’’ بیت اللہ‘‘ شریف کو’’مثابۃ للناس ‘‘ کہہ کر خطاب کیا یعنی تمام دنیا کے لئے مرکز ہدایت ،اور امت مسلمہ کو’’ اخرجت للناس‘‘ اور ’’ شھداء علی الناس‘‘ کے خطاب سے نوازا یعنی مسلمانوں کو پوری انسانیت کا نگران مقرر فرمایا ۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کو کسی خطہ خاص یا طبقہ خاص تک محدود نہیں رکھا ۔بلکہ اسلام سب کی رہنمائی کرتا ہے اور سب کو اپنے دامن عافیت میں جگہ دیتا ہے ،اسلام تمام افکاروں تمام قوموں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے،اسلام محکوم نہیںبلکہ حاکم ہے،اسلام کسی کا پابند نہیں سب کو اپنا بند بنایاتا ہے اور سب کوساتھ لیکر چلنے کا قائل ہے۔
چین وعرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہیں ساراجہاں ہمارا​
موجودہ دور میں مذہب خاص کر مذہب اسلام موضوع سخن بنا ہوا ہے ،کہ اسلام اور جہوریت دو جدا گانہ نظام ہیں ،اور اسلام اس جمہوری دور میں عصری تقاضوں کے ہم آہنگ نہیں ہے۔جب کہ ایسا نہیں ہے ۔مذہب ایک قلبی طور پر محسوس ہونے والا ایک حقیقی اور پر اثر احساس ہے ایک ایسی چیز جس کا تعلق زندگی کے تما م پہلوؤں کے ساتھ ہے۔دوسری طرف ایک فلسفیانہ نظام ہے جو انسان کو مذہب بیزاری سکھاتا ہے ،ان کے یہاں سماجی اور معاشی تصور الگ ہیں ۔جس کو یہ جمہوریت کے نام سے پکارتے ہیں ۔اور اسلام کو اینٹی جمہوریت یا جمہوریت مخالف تصور کرتے ہیں ۔ اور اسلا و جمہوریت کا موازنہ کرتے ہیں ۔ جبکہ اسلام کا کسی جمہوریت یا کسی دوسرے سیاسی سماجی معاشی نظام سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔اسلام کا مرکزی نقطہ نظر زندگی کے ناقابل تبدیل پہلوؤں سے ہے ،جبکہ سیاسی اور سماجی اور معاشی نظام کا تعلق زندگی کے تغیر پذیر پہلوؤں سے ہے۔
جمہوریت ایک بتدریج فروغ پانے والا اصلاحی نظام ہے جو مختلف حالات میں حالات کی مناسبت سے تغیر پذیر ہے ،جب کہ اسلام کے اپنے مستقل پائیدار اور جامع اصول ہیں جن کا دائرہ کار انسان کے اعمال عقائد ایمان عبادات اخلاقیات اور معاملات سے ہے ،اور یہ ناقابل تبدیل اصول ہیں ۔
اسلام اور اقتدار اعلیٰ:
اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیتِ مخلوق(عوام) کے بجائے حاکمیت ِخالق (اللہ تعالیٰ )کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے کسی کو بھی ’’ارباب من دون اللہ‘‘ بننے کا حق نہیں دیا گیا ہے ۔
اسلامی نقطہ نظر سے اللہ تعالیٰ ہی حاکم اعلیٰ ہے کوئی خاندان کوئی ملت کوئی قوم اپنی حاکمیت کا دعویٰ نہیں کرستی ــ
’’ان الحکم الا للہ‘‘(انعام: ۵۷) (حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں)۔
اللہ تعالیٰ قانون ساز ہے اور اسی کو ردو بدل کا حق ہے اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں۔حتیٰ کے انبیا علیہم السلام کو بھی نہیں۔
امیر یا اسلامی حکومت صرف اسی صورت میں قابل قبول ہے جب تک وہ قانون الٰہی کی پابند رہیں گی۔
اسلام میں قانونی اور سیاسی حاکمیت میں کوئی امتیاز نہیں اللہ ہی سیاسی اور قانونی مقتدر اعلیٰ ہے۔
جن لوگوں کے ہاتھوں میں سیاسی نظام کی باگ ڈور ہوتی ہے ان کی حیثیت حاکم کی نہیں بلکہ نگراں اور منتظم اعلیٰ کی ہوتی ہے ان کا فرض منصبی یہ ہے
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

کہ وہ خود بھی اللہ کے احکام کی پاسداری کریں اور دوسروں کو بھی پابند عمل بنائیں ،اور عدل وانصاف کے ساتھ اللہ کی مخلوق کی دیکھ بھال کریں اور ان کے معاملات کو سلجھائیں ۔
اسلام میں حکومت ایک امانت ہوتی ہے اس لئے اس کا حق وہی ادا کرسکتے ہیں جو امین ہوں ۔
اسلام میں شخصی آزادی یا جمہوریت:
اسلام میں انفرادی اور شخصی آزادی کافی اہمیت کی حامل ہے یہی ایک ایسا پہلو ہے جو تھوڑی بہت جمہوریت سے مما ثلت رکھتی ہے ۔ اسلامی دستور کے مطابق ہرایک شخص کو خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم سب کو ، مذہب ،عقیدہ ،تنظیم ،وغیرہ کی کھلی اجازت دیتا ہے ،بشرطیکہ وہ مفاد عامہ میں ہو ،اور اس سے شر وفساد نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۝۶۴ ( مائدہ ۶۴- )
اور یہ ملک میں فساد کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اور خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
اس لئے اسلام ایک پر امن زندگی کی ضمانت اور حکم دیتا ہے ۔اسلام جمہوریت کے اس پہلو سے بالکل ہم آہنگ ہے بلکہ جمہوریین نے یہ اصول اسلام سے ہی اخذ کیا ہے۔اسلام مساوات اخووت و بھائی چارگی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی جمہوریت کا نعرہ ہے ۔قرآن فرماتاہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً۝۰ۚ
ترجمہ:لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔
تو ظاہر ہے جب انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں تو ان سے رنگ ونسل کا امتیاز خود بخود ختم ہوجائیگا ،اور پھر یہ رنگ ونسل کا فرق صرف فروعی حیثیت رکھتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَنْ اَبِی نَضْرَةَ قَالَ حَدَّثَنِی اَو حَدَّثَنَا مَنْ شَہِدَ خُطَبَ رَسُولِ اللّٰہِ بمِنٰی فِی وَسَطِ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ وَہُوَ عَلٰی بَعِیْرٍ فَقَالَ یٰایُّہَا النَّاسُ أَلاَ اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وأنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِیّ عَلٰی عَجَمِیّ وَلاَ عَجَمِیِّ عَلٰی عَرَبِیّ وَلاَ لِأسْوَدَ علٰی اَحْمَرَ وَلاَ لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی أَلاَ ہَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ قَالَ لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِب
ابونضرة ؓفرماتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو مقام منی میں ایامِ تشریق کے درمیان میں حضور صلى الله عليه وسلم کے خطبوں میں حاضر تھا دران حالیکہ آپ اونٹ پر سوار تھے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اے لوگو خبردار تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ (آدم) ایک ہے خبردار کسی عربی آدمی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر نہ کسی کالے وسیاہ آدمی کو کسی سرخ پر اور نہ کسی سرخ کو کسی سیاہ آدمی پر کوئی فضیلت ہے ہاں تقویٰ فضیلت کا مدار ہے پھر آپﷺ نے صحابہ ؓسے مخاطب ہوکر فرمایا کیا میں نے پیغام الٰہی امت تک پہنچادیا؟ صحابہؓ نے جواب دیا جی ہاں آپ(ﷺ) نے پہنچادیا آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جو یہاں موجود ہے وہ اس تک پہنچا دے جو موجود نہیں ہے۔ (روح المعانی ۸/۱۶۴ من روایت البیہقی والمردویہ، تفسیر قرطبی ۸/۶۰۵)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (القرآن)
 
گزشتہ سے پیوستہ
ترجمہ: اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم وحوا) سے بنایا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا (محض اس لئے کیا) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔
اس طرح اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے ،اسلام یہ بات بھی تسلیم کرتا ہے کہ افراد اور گروہوں کو بعض بنیادی حقوق شہری آزادیاں ہونی چاہئیں اس بنیادی بات کی حد تک اسلامی تصور اور موجودہ جمہوریت باہم متفق ہیں ۔جہاں تک اسلام اورجمہوری نظام کا تعلق ہے ،وہ درج ذیل ہے ۔
حرمت جان یا جینے کا حق ،عزت آبرو کی حفاظت ،خصوصاً ناموس خواتین کی حفاظت ، بنیادی ضروریات زندگی کی حفاظت و ضمانت،عدل و انصاف کے حصول کا حق ،نیکی میں تعاون اور بدی میں عدم تعاون کا حق،مساوات کا حق ،ظالم کی اطاعت سے انکار معصیت سے اجتناب ، شخصی آزادی،نجی زندگی کا تحفظ،اخلاقی حقوق کی پاسداری، اظہاررائےکی آزادی ،مذہبی آزادی ،مسلک کی آزادی ۔عبادات کی آزادی وغیرہ یہ سب وہ اصل ہیں جو جمہوریت کے اصول ہیں ،یہاں تک اسلام اور جمہوریت میں کوئی فرق نہیں۔
اسلام کا شورائی (جمہوری)نظام:
نظام کی اہمیت اور تقدس کا یہ عالم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب مقدس قرآن مجید کی ایک مکمل سورت کا نام ہی ”سورة الشوریٰ“ ہے اور اس میں مسلمانوں کے شورائی (جمہوری) طرزِ حکمرانی کو عبادات اور اخلاق جیسے اوصافِ مومنانہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ کسی کی رائے سے اختلاف رکھنے والے کو مکمل طور پر برداشت کرنا‘ اس کی بات پر توجہ دینا‘ یعنی حزب اختلاف (اپوزیشن) کو مطمئن کرنا اور اکثریت کے فیصلے کا پورا پورا احترام کرنا اور از روئے قران و سنت اور آثارِ صحابہ واجب ہے۔ جبکہ سورة آلِ عمران کی(۱۵۹)نمبر آیت میں مشورہ لینے کے حکم کے ساتھ عزم اور توکل کے حکم میں بھی دراصل اشارہ اسی بات کا ہے کہ اکثریت کی رائے سے جو فیصلہ طے ہو جائے اسے عزم بالجزم کے ساتھ نافذ کر دیا جائے اور نتائج کے سلسلے میں اللہ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کیا جائے اور یہی اسلامی جمہوریت کا امتیاز اور مطلوب و مقصود بھی ہے۔ اگر اسلام کا منشا قیام حکومت یا سیاسی نظام نہ ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے خلفائے راشدین ایک منفرد حکومت قائم کر کے دنیا بھر کی فتوحات اور تسخیر کے لیے قافلہ در قافلہ نہ نکلتے اور بادشاہانِ وقت کے ساتھ خارجی روابط اور دعوتِ اسلام کے لیے سُفراءاور رسائل نہ ارسال کرتے اور نہ ہی امت کو بالخصوص اصولِ حکمرانی تلقین فرمائے جاتے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام جن سیاسی قدروں اور جس طرزِ حکمرانی کا علمبردار ہے وہ نہ صرف جمہوری اقدار اور جمہوری طرز کی حکمرانی ہے بلکہ وہ عصرِ حاضر کی صدارتی و پارلیمانی جمہوریت سے افضل اور انسانیت کے لیے زیادہ نفع بخش بھی ہے۔ اسلام کی جمہوری قدریں دراصل عادلانہ قدروں سے عبارت ہیں اور یہ عدل کو تقویٰ سے وابستہ کرتا ہے۔ عدل دراصل احترامِ آدمیت مساوات اور خدمت انسانیت کی زندہ و نمائندہ علامت ہے اسی لیے اسلام جن جمہوری اقدار کو پروان چڑھانا چاہتا ہے ان میں عدل و انصاف کو اولیت حاصل ہے۔ چنانچہ اسلام کی (قرآن میں) اس ضمن میں کچھ خاصی اصطلاحات ہیں جنہیں ہم اسلامی اصطلاحاتِ جمہوریت کا نام دے سکتے ہیں۔ ان اصطلاحات میں (علماءکونسل) ایتمار (باہمی مشورہ)،خلیفہ (جائز نمائندہ) ، استفتاء(استصوابِ رائے یا ریفرنڈم)، مبایعت (عوامی تائید) شوریٰ (قومی اسمبلی) وغیرہ۔
الغرض ہر ملک کے جمہوری نظام کی مختلف ضروریات اور کیفیات ہوتی ہیں ۔جن کو باہمی مشورے سے طے کیا جاتا ہے۔
ہندوستان اور جمہوریت:
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری نظام ہے جس میں مختلف رنگ ونسل کے اور مختلف زبانوں کے بولنے والے،مختلف مذاہب والے ،اور
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
مختلف المسلک افراد رہتے ہیں ۔یہاں کے دستوری آئین کے مطابق سب کو ہرطرح کی آزادی ہے خصوصاً مذہبی آزادی ،اس ملک کی یہ خاص صفت اور خوبی ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے ،ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے ،حتیٰ کے ان کی مذہبی عدالتیں بھی ہیں، جیسا کہ مسلمانوں کی شرعی عدالتیں ،اور جگہ جگہ شرعی دارالافتاء ہیں ،حکومت ان میں کوئی مداخلت نہیں کرتی،غرض کہ ہر انسان خصوصاً مسلمان مسلم ممالک کی بنسبت ،ہندوستان میں زیادہ پر امن اور آزاد ہے۔اور یہاں کا باعزت شہری ہے ، اس ملک کے صدور بھی مسلمان ہوئے ہیں ۔اس اعتبار سے مسلمانوں کا اس ملک کے قوانین سے ہم آہنگ ہوجانے میں کوئی قباحت نہیں۔
ووٹ کی شرعی حیثیت:
ووٹ : انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کے ذریعہ سے ایک ووٹر الیکشن میں کھڑے ہوئے امیدوار کے بارے میں گواہی دیتا ہے کہ میرے نزدیک یہ امید وار قوم و ملت کا سچا خادم اور ہمدردہے اور ملک کا بہی خواہ ہے ،اور میری دانست کے مطابق یہ امیداوار ایماندار او دیانت دار ہے ،اس لئے میں اس کو ووٹ دے رہا ہوں، یعنی اس کے حق میں گواہی دے رہا ہوں کہ یہ معتمد ہے۔
ووٹ کی شرعی حیثیت اور اکابر علماء کرام:
ہمارے اکا برین علماء کرام میں والدی حضرت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ ، حضرت مفتی کفایت اللہ صاحبؒ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ اور حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ اور عصری علماء کبار میں حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ اور حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ العالی نے الیکشن میں کسی امیدوار کوووٹ دینے کی جو حیثیا ت قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
ووٹ بحیثیت مشورہ: ووٹ کی ایک حیثیت مشورہ کی ہے جسکے ذریعہ ایک ووٹر سے یہ مشورہ لیا جاتا ہے کہ یہ امیدوار جو ملکی اقتدار میں شامل ہونے کا خواہش مند ہے کیا اس کا انتخاب ملک قوم وملت کے حق میں مفید رہے گا یا نہیں۔ شریعت کی رو سے جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کی حیثیت امین کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ ( النساء :۸۵(
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’الْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَن‘‘ (الحدیث) أخرجه أبو داود والترمذي وحسنه وابن ماجه وإسناده صحيح
جس سے مشورہ طلب کیا جائےوہ اس کا امین ہوتا ہے
اس کا مطلب یہ ہےکہ مشورہ دینےوالے کو مشورہ اپنی یا کسی دوسرے کی غرض کو شامل کئے بغیر دینا چاہئے اور اس مشورہ کو بطور امانت اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہئے اور ہر کسی پر اس کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔
وو ٹ بحیثیت وکالت: ووٹ کی شرعی حیثیت وکالت کی ہے ،جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس امیدوار کو میں ووٹ دے رہا ہوں میرےکے نزدیک اس امید وار میں وکالت کی اہلیت ہے اور قابل اعتماد اور با صلاحیت ہےاس لئے میں اس کو اپنی جانب سےو کیل اور نمائندہ منتخب کرتا ہوں ،لیکن یہ وکالت صرف اس کےشخصی حق کے ساتھ متعلق نہیں ہے ،اور اس کا نفع نقصان صرف ووٹر کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے ملک وقوم کےمفادات اس سے وابستہ ہو تے ہیں اگر کسی وجہ سے یہ منتخب نمائندہ خائن ہوجائے یا نا اہل ثابت ہوجائے تو اس حق تلفی کرنے کا
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
نمائندے کو ہوگا وہیں اس ووٹر کو بھی ہوگا۔
وو ٹ بحیثیت شہادت وگواہی: ووٹ کی ایک حیثیت گواہی اور شہادت کی بھی ہے گویا ووٹر یہ گواہی دے رہا کہ جس امیدوار کے حق میں میں ووٹ دے رہا ہوں وہ اس کا اہل ہے ،اور علم ودانش میں یہ شخص دیانت دار محنتی اور ایماندار ہے ملک وقوم کی خدمت دیانت داری سے کریگا۔اس لئے میرے نزدیک یہ شخص ملک کا نمائندہ بننے کا اہل ہے۔
وو ٹ بحیثیت سفارش و شفاعت: شرعی نقطہ نظر سےووٹ کی ایک حیثیت شفاعت وسفارش کی بھی ہے ،گویا ایک ووٹر یہ سفارش کررہاہے کہ جس امیدوار کو میں ووٹ دے رہا ہوں یہ اس ووٹ سچاحق دار ہے اور اس عہدہ کاصحیح اہل ہے اس لئے اس کو ملک وقوم کی خدمت کا موقع دیا جائے۔
تنبیہ: واضح رہے کہ جس آدمی کے بارے میںسفارش کی جارہی ہے اس کے بارے میں پہلے اچھی طرح تحقیق کرلی جائے کہ وہ اس عہدہ کا اہل بھی کہ نہیں اس وجہ سے اگر وہ نا اہل نکل گیا تو اس کی ذمہ داری شرعاً ووٹر کی بھی ہوگی اور ووٹر برابر کا گناہ میں معاون مانا جائیگا ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَـنَۃً يَّكُنْ لَّہٗ نَصِيْبٌ مِّنْھَا۝۰ۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَيِّئَۃً يَّكُنْ لَّہٗ كِفْلٌ مِّنْھَا۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيْتًا۝۸۵ [٤:٨٥]
ترجمہ: جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
اور دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے فرمایا ہے
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ [٥:٢]
ترجمہ : اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے
بالکل واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمادی دیکھو نیک کاموں میں تو ایک دوسرے کی مدد کردیا کرو لیکن گناہ والے کاموں شرکت مت کرنا اگر ایساکروگے تو اس کا گناہ تمہارے ذمہ بھی ہوگا اور یاد رکھو اللہ سخت عذاب والا ہے۔ اس لئے ووٹر کے لئے ضروری ہے کسی امیدوار کی حمایت کرتے ہوئےیہ پہلو سامنے رہنا چاہئے۔اور امید وار کے بارے میں اچھی طرح سے تصدیق کر لینی چاہئے۔
ووٹ ایک شرعی حق ہے :
علماء اور فقہاء نے فرمایا ہے’’ ووٹ دینا ایک شرعی ذمہ داری ہے اور اس کا پورا کرنا واجب ہےکیونکہ ووٹ کی حیثیت گواہی کی ہے اور گواہی سے بچنا گناہ ہے‘‘ (مفتی عزیزالرحمٰن ؒبجنوری)
انتخابات میں ووٹ، ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے۔ جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور جھوٹ بولنابھی حرام ہے، اس میں محض ایک سیاسی ہارجیت اور دنیا کا کھیل سمجھنابہت بڑی غلطی ہے، آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے، علم و عمل اور دیانتداری کی روح سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے۔ جس کام کیلیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں۔(مفتی شفیع صاحبؒ)
مستدلات:
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَلَا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ۝۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۲۸۳ۧ [٢:٢٨٣]

ترجمہ: (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
قرآن پاک میں جہاں شہادت کو چھپانے کی ممانعت ہے اور گناہ ہے ، وہیں سچی گواہی اور شہادت کی تاکید بھی فرمائی ہے۔
چنانچہ اللہ رب العزت نے فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۸ [٥:٨]
ترجمہ : اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو بنا کسی افراط وتفریط کے حق کی آواز بلند کرنی چا ہئےاور حق بات کہنے میں اس کو جھجک اور خوف نہیں ہونا چاہئے،اس بارے میں علامہ شبیر عثمانی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ’’عدل وانصاف کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ بنا کسی افراط تفریط کےوہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے ،عدل وانصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہئے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عدوات بھی اس کے دونوں پلوں میں سے کوئی پلہ نہ جھکا سکے (تفسیر عثمانی ص:۱۴۴)
ووٹ نہ دینا خیانت ہے:
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے وہ ڈالنا یا شرعاً واجب ہے اس طرح ووٹ نہ دینا ایک خیانت اور نا انصافی اور شرعی جرم ہے بعض لوگوں کا یہ گمان ہوتا ہےکہ نا اہل کو ووٹ دینا معصیت اور گناہ ہے بیشک ایسا سوچنے میں وہ برحق ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ امیدوار نا اہل ہے اور یہ اہل ہے ۔بغیر تحقیق کئے کسی کو نا اہل کہنا مناسب نہیں،البتہ چھان پھٹک کرنا تحقیق کرنا اس ووٹر کی شرعی اور قومی وملی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح امیدوار کا پتہ لگائے ،اس وجہ سے کہ اگر ہماری لا پرواہی کی وجہ سے کوئی غلط آدمی منتخب ہوجائے جو بد دیانت اور خائن فسادی ہو ظالم ہو غیر عادل ہو تو اس کی ذمہ داری بھی اس ووٹ نہ ڈالنے پر بھی عائد ہوگی اور وہ بھی اس ظلم میں برار کا شریک مانا جائیگا، جیساکہ قرآن پاک نے فرمایا:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ [٥:٢]
ترجمہ :اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے ۔
اس لئے نیکی کے کاموں میں مدد کرنی چاہئے اور برائی کے کاموں سے اجتناب کرنا چاہئے۔واضح رہے کہ ووٹ استعمال کا صحیح استعمال نہ کرنا یہ کتمان شہادت ہے اور ووٹ کا غلط استعمال کرنا زُورہے جس شریعت میں شہادت زور حرام ہے اسی طرح کتمان شہادت بھی حرام ہے۔
فرمان رسالت ماٰب ﷺ ہے :
عن ابی بردۃ عن ابیہ عن النبی ﷺ قال من کتم شہادۃ اذا دعی الیھا کمن کان شھدالزور(المعجم الاوسط ج:۴ص:۲۷۰)
ترجمہ: حضرت ابو بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو شہادت کے لیے بلایا جائے پھر اسے چھپائے اور شہادت نہ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
دے تو وہ ایسا ہے جیسے جھوٹی گواہی دینے والا(گناہوں میں دونوں برابر ہیں )۔
اس لئے ووٹر کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چا ہئے اور اہل امیدوار کو ووٹ دینا چاہئے۔
ووٹ دینا ایک سیاسی اور ملی فریضہ ہے:
ووٹ دیناسیاسی اور ملی اعتبار سے بھی نہایت ضروری ہے کیوں کہ اگر مسلمان الیکشن میں حصہ لینا بند کردیں تو قومی اور ملکی سطح پر مسلمانوں کی پوزیشن بہت ڈاؤن ہوجائے گی اور ان کا کوئی پرسان حال بھی نہ رہے گا۔جس کا سیدھا سیدھا فائدہ مسلم مخالف قوتوں کو ہوگا،اور ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمان ملک کی نمائندگی کرنا بند کردیں اور اور مسلمان تیسرے درجہ کے شہری بن جائیں اور ملک میں ان کا وزن اور ان کی اہمیت ختم ہوجائے۔
اور یہ سوچنا کہ اگر ہم نے ایک ووٹ نہ دیا تو ایک ووٹ سے کیا فرق پڑنے والا ہے ؟یہ سوچ انتہائی بچکانہ اور نہ سمجھی کی علامت ہے قوم وملت کے لئے نہایت خطرناک ہے، اس لئے کہ اگر ہر شخص یہی سوچنے لگے تو پھر پورے ملک میں ایک ووٹ کا بھی صحیح استعمال نہ ہوسکے گا ،معلوم رہے ہماراملک ہندوستان واحد ایک ایسی جمہوریہ ہے جہاں ووٹوں کی شماری نہایت امانت ودیانتداری کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ایک ووٹ بڑا قیمتی ہوتا ہے پورے ملک کی قسمت کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ اس میں ایک جاہلانہ غفلت ہے ، ذراسی بھول چوک یا بددیانتی پورے ملک وملت کو تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے اس لئےہمارے مروجہ نظام الیکشن میں ہر ووٹ نہایت قیمتی اور ملک کی قسمت کو سنوارنے اور بگاڑنے کے لیے فیصلہ کن ہے لہٰذا ہر فرد کا شرعی ،اخلاقی قومی اور ملی فریضہ ہے کہ اپنے وہ ووٹ کو نہایت تندہی اور ایمانداری سے استعمال کرے اسی میں سب کی بھلائی و عافیت ہے (ملخصاً ازاسلام اور سیاست حاضرہ ص۹ فقہی مقالات ج۲ص۲۹۲)
الیکشن میں از خود امیدوار بننے کا حکم شرعی :
شرعی اعتبار سے از خود کسی منصب یا عہدہ کا طلب کرنا ایک مذموم فعل ہے رسول اکرم ﷺنے از خود عہدہ ومنصب طلب کرنے ،اس کے لئے سفارش کروانے اور دل وجان سے اس کی خواہش کرنے سے منع فرمایا ہے ، قرآن وسنت کا عام حکم بھی یہی ہے کہ از خود کسی سرکاری عہدے اور منصب کو اپنے لیے طلب کرنا جائزنہیں ہے،اور شریعت کی نظر میں ایسا شخص مطلوبہ عہدے کا اہل نہیں ہوتاہےحضور ﷺ کا یہ معمول گرامی تھا اگر کوئی از خود کسی عہدہ یا منصب کی خواہش کا اظہار کرتا ،تو آپﷺ ایسے شخص کو آپ عہدہ دینے سے منع فرمادیتے تھے۔
حدیث شریف میں ہے:
عن أبی موسیٰ قال دخلت علی النبیﷺ أنا ورجلان من بنی عمّی فقال أحد الرجلین یارسول اللہ!أمّرنا علی بعض ما ولاک اللہ عزوجل وقال الاٰخر مثل ذالک فقال: إنا واللہ لانولی علی ہذا العمل أحدا سألہ ولا أحد احرص علیہ۔ (مسلم کتاب الامارۃ باب النہی عن طلب الامارۃ والحرص علیھا (ج۲ص۱۲۰)
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اور میرے چچا کی اولاد میں دو شخص نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ،اور ان میں سے ایک نے کہا یا رسول اللہ!اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو تمام مسلمانوں اور روئے زمین کا حاکم بنایا ہے ،مجھ کو بھی کسی کام یا کسی جگہ کا والی وحاکم مقرر فرمادیجیے، اور دوسرے نے بھی رسول اللہ ؐسے اسی طرح خواہش کا اظہار کیا ہے ،رسول اکرم ؐ نے فرمایا خدا کی قسم ہم اس شخص کو کسی کا والی اور حاکم نہیں بناتے جو اس کا از خود طالب ہوتا ہے اور نہ اس شخص کو کوئی ذمہ داری اور عہدہ دیتے ہیں جو اسکا حرص اور خواہش رکھتا ہو۔
ایک دوسری حدیث پاک میں ہے:
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

عن أبی ذر قال قلت یارسول اللہ !ألاتسعملنی ؟قال فضرب بیدہ علی منکبی ،ثم قال یا اباذر!انک ضعیف وأنہا امانۃ وانہا یوم القیامۃ خزی وندامۃ إلامن أخذہا بحقہا وادی الذی علیہ فیہا وفی روایۃ یا ابا ذر! إنی اراک ضعیفا وانی احب لک ما احب لنفسی لا تامرن علی اثنین ولاتولین مال یتیم۔
(مسلم الامارۃ باب کراہۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ ) ( ج۲ص۱۲۰)

حضرت ابوذر غفاری ؓفرماتے ہیں کہ ایک دن میں رسول کریم ﷺسے عرض کیا یارسول اللہ !آپ مجھے کسی جگہ کا والی اور حاکم کیوں نہیں بنادیتے ؟یہ سن کر آپﷺ نے اپنا دست مبارک ازرہ شفقت ومحبت میرے مونڈھے پر مارا اور فرمایا اے ’’ابو ذر‘‘! تم ناتواںاور کمزورہو اور یہ حکومت وامارت ایک عظیم امانت ہے جس کی ادائیگی نہایت لازم وضروری ہے ورنہ تو یہ حکومت وسیادت قیامت کے دن باعث رسوائی وشرمندگی ہوگی الا یہ کہ اسکا حق پورا ادا کردے ۔ایک اور روایت میں یوں ہے کہ اے ابو ذر! میں تم کو ناتواںدیکھتا ہوں تم حکومت وامارت کے بارگراں کا تحمل نہیں کر سکو گے اور میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند کرتا ہوں جو خود اپنے لئےپسند کرتا ہوں لہٰذا تم کسی دو آدمی کاکبھی امیر وحاکم نہ بننا اور نہ کسی یتیم کے ما ل کی نگرانی قبول کرنا ۔
مذکورہ بالا تمام روایات سے معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو عہدہ ومنصب کے لئے پیش کرنا ،اور قیادت وسیادت ، حکومت وامارت کی ذمہ داری کےلئے عوام میں خود کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا ،انتخابات میں خود امید وار بننا اور عوام کی ذہن سازی کرنا کہ مجھے منتخب کرو ، اور یہ اظہار کرنامیں اس عہدے کا مستحق ہوں ،اس کے واسطےاشتہار بازی کرنا ،اپنی مدح سرائی کرنا ،اور مخالف پارٹی کی برائی کرنا کہ وہ اس کا اہل نہیں ہے میںہی اس کا اہل ہوں ،میں ہی آپ کے ووٹ کا صحیح حق دار اور مستحق ہوں،لہٰذا مجھے ہی ووٹ دو ،یہ طریقہ شریعت کے خلاف ہے، اور قرآن وسنت کے بالکل مخالف ہے۔اس لئے الیکشن میں اپنے آپ کونمائندہ بنا کر پیش کرنا ازروئے شرع درست نہیں ہے۔
مصلحتاً طلب منصب کا حکم:
ازخود طلب منصب ایک مذموم اور نا پسندیدہ عمل ہے لیکن استثنائی صورتوں میں عہدہ اور منصب کی درخواست مباح ہے جہاں اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگرکوئی نا اہل الیکشن میں کھڑا ہوگیا تویہ نااہل اور ظالم اس پر قبضہ کرکے لوگوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائےگا ، ملک وملت کو نقصان پہنچائےگا ،اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس عہدہ منصب کے لائق واہل بھی نہیں ہے ،تو ایسی صورت میں ازخود عہدے کا طالب ہونا اور قوم وملک کا نمائندہ بن کر کھڑے ہونااور لوگوں سے ووٹ کا مطالبہ کرنا اس کی شرعاً گنجائش ہے ،بشرطیکہ محض اقتدار وکرسی اور جاہ منصب کے حصول کے لئے نہ ہو بلکہ قوم وملت کی خدمت کے جذبے اور سماج ومعاشرہ میں پھیلے ہوئے مفاسد کو ختم کرنے کے ارادے سے ہو ،اور اس کے اندر بھی یہ شرط ہے کہ اپنے حریف پارٹی کی غیبت ،سب وشتم اور عیب کا ذکر اور تشہیر نہ ہو ۔
الغرض مذکورہ حالات میں اگر کوئی شخص از خود عہدہ طلب کرے تو جائز ہے ، اور اس کا ثبوت حضرت یوسف علیہ السلام کے ’’قول اجعلنی علیٰ خزائن الارض إنی حفیظ امین ‘‘سے بھی ہوتا ہے،حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر سے ایسے وقت میں عہدے کا مطالبہ کیا کہ ان کو یقین تھا کہ اگر میں اس منصب کو نہ لوںگا تو کوئی دوسرا نااہل آدمی اس پر مسلط ہو جائیگا اور لوگوں کو تکلیف پہنچائیگا ،اور ملک میں قحط سالی کا دور آنے والا ہے ،بنابریں آپ نے عہدہ کا مطالبہ کیا۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس منصب کے لائق وفائق آدمی موجود نہ ہواور اس بات کا اندیشہ ہو کہ اگروہ اس منصب پر کنٹرول نہیں کرے گا تو لوگو ں کو انصاف نہیں مل سکے گا ،لوگوں کو تکلیف وپریشانی ہوگی اور لوگ ظلم وستم کے شکار ہوں گے تو ایسے موقع پر خود
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

عہدہ طلب کرنا جائز ہے ،اور استثنائی صورت تمام مناصب میں ہے خواہ امارت ہو ،یا انتظامی منصب ہو،یا قضاء کا منصب ہو یا اسمبلی اور ممبر پارلیمینٹ کا منصب ہو ،جب ان مناصب کے لیے کوئی دوسرا شخص اللہ کے حکم کے مطابق انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والاموجود نہ ہوتو اس صورت میں خود سے عہدہ طلب کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے عہدہ طلب کیا۔ (ملخصاً ازفتاویٰ عثمانی ج۳ص۵۰۷،)اور اس حدیث پاک سے ان علماء کرام نے استدلال کیا ہے:
واستدل بہذالحدیث من منع طلب الامارۃ والقضاء مطلقا،ویدل علی خلاف ذالک قول اللہ تعالی حکایۃ لسیدنا یوسف علیہ السلام ،،اجعلنی علی خزائن الأرض إنی حفیظ أمین (سورۃ یوسف رقم الایۃ ۵۵)
وقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من طلب قضاء المسلمین حتی ینالہ ثم غلب عدلہ جورہ فلہ الجنۃ ،ومن غلب جورہ عدلہ فلہ النار اخرجہ أبو داؤد عن أبی ہریرۃ۔وسکت علیہ ہو والمنذری ،وسندہ لامطعن فیہ (نیل الاوطار ج۸ص۴۹۸)
وکذالک قولہ علیہ السلام لا حسد إلافی اثنتین رجل اٰتاہ اللہ مالا فسلطہ علی ہلکتہ فی الحق واٰخر اٰتاہ الحکمۃ فہو یقضی بہا ویعلمہا۔ اخرجہ البخاری وغیرہ عن عبداللہ ۔
ومن أجل ہذہ الدلائل اختار أکثر الفقہاء التفصیل،فإن کان الطالب غیر أہل لذالک المنصب من الامامۃ او القضاء فإن طلبہ محظور مطلقا ،وکذالک إذا کان الطلب لحب المال والرئاسۃ والشرف فإنہ منہی عنہ علی الاطلاق ،وأما إذا کان للإصلاح بین الناس وإقامۃ العدل فلیس بمنہی عنہ۔
(تکملۃ فتح الملہم ج۳ص۲۴۳،۲۴۴,وہٰکذا تستفاد من عبارۃ إعلاء السنن ج۱۵ص۴۴)

ترجمہ: اور امارت وقضاء کے عہدہ کی طلب کی مطلقا ممانعت پر بعض اہل علم نے اس حدیث پاک سے استدلال کیا ہے ،جب کہ باری تعالی کا ارشاد پاک جو حضرت یوسف علیہ السلام کے قول کو نقل کرتے ہوئے آیا ہے کہ مجھے ملک مصر کا وزیر خزانہ بنا دیجیے اس لئے کہ میں اس کی حفاظت کرنے والا اور جاننے والاہوںاس کے خلاف دلالت کرتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یوسف علیہ السلام ایک نبی ہیں اور نبی کےلئے کسی کی اقتداء جائز نہیں کیونکہ نبوت ایک مہتم بالشان مقام ہوتا ہے دنیا کا بڑا سےبڑا عہدہ اور مرتبہ بھی ،مقام ومرتبہ نبوت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ،تو ظاہر ہے اتنی عظیم شخصیت ایک ادنیٰ کی اطاعت کیسے کرسکتی تھی اس لئے انبیاء کرام ہی امارت اور اقتدار کے زیادہ مستحق اور اہل ہوتے ہیں۔
اور رسول کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ جس نے مسلمانوں کے قضاء کو طلب کیا پھر اس کو حاصل کرلیا ،پھر اس کا عدل وانصاف اس کے ظلم وجور پر غالب رہا تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کا ظلم وستم اس کے عدل وانصاف پر غالب رہا تو اس کے لیے جہنم ہے ، اس حدیث کو امام ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہؓ کی سندسے نقل کیا ہے،اور ابو داؤد اور علامہ منذری نے اس پر سکوت فرمایا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
اسی طرح رسول پاکؐ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حسد وغبطہ صرف دو چیزوں میں جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا پھر اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کے لیے مسلط کردیا۔دوسرے وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت ودانائی سے سرفراز کیا اوروہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو سکھلاتا ہے اس حدیث کو امام بخاری نے حضرت عبداللہ کی سند سے تخریج کی ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان دلائل کی روشنی میں اکثرحضرات فقہاء کرام نے منصب وعہدہ کے مطالبہ کے سلسلے میںاحتیاط واحتیاج کے پہلو کو مد نظر
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

رکھا ہے چنان چہ علماء فرماتے ہیں کہ اگر امامت وقضاء کے عہدے کا طالب شخص نا اہل اور غیر مستحق ہو تو اس صورت میں طلب عہدہ مطلقاممنوع ہے اسی طرح اگر طلب منصب حب مال اور اقتدار سلطنت کی ہوس اور مال ودولت کی لالچ میں ہو تو اس وقت بھی عہدہ کا طلب مطلقا ممنوع ہے لیکن اگر لوگوں کی اصلاح مقصود ہو اور عہدہ قبول کرکے عدل وانصاف کو قائم کرنے کا عزم وحوصلہ ہو تو اس صورت میں طلب عہدہ ومنصب مذموم نہیں ہے بلکہ مباح ہے اس سےیہ بات واضح ہوگئی کہ ایسے شخص کا الیکشن میں نمائندہ بن کر کھڑا ہونے کا حکم بدرجہ اولیٰ معلوم کیا جاسکتاہے ۔
شرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے اداروں کے رکن بننے کا حکم شرعی
ہر وہ ادارہ یا مرکز یا تنظیم جہاں اسلامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا ان کے مقاصد اور منشور میں اسلامی قانون کی تضحیک ہو یا ان اداروں کے قوانین وضوابط اسلامی قانون سے متصادم ہوں ،خواہ اس طرح کے ادارے وتنظیم ممالک اسلامیہ میں ہوں یا غیر اسلامیہ میں اور اس ادارے کے منشور میں یہ بات شامل ہو کہ اس تنظیم یا ادارے کےہر فرد یا رکن یا ملازم پر ہر حال میں اس کی پاسداری اور لحاظ کرنا لازم ہوگا ،۔ تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں ایسے اسلام مخالف قانون ساز اداروں میں ملازمت کرنا یا ان کا رکن یا ممبر بننایا ان کی مجالس میں شرکت کرنا در پردہ ان اداروں کو تقویت اور مضبوطی فراہم کرنا شمارہوگااور ان کا یہ عمل تعاون علی الاثم میں شمار ہوگا جو شرعی نقطہ سے جائز نہیں ، لہٰذاان میں شرکت کرنا جائز نہیں۔
( عزیز المفتی غیر مطبوعہ از مفتی عزیز الرحمٰن بجنوریؒ وھٰکذا قال مفتی کفایت اللہ ؒ فی کفایت المفتی ج:۹ص:۲۵۶)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۲ [٥:٢]
اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے
امام احمد بن حنبلؒ صحیح اسناد کے ساتھ سیدنا ابو موسی اشعریؓ سے روایت فرماتے
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ : قُلْتُ لِعُمَرَ ’’ إنَّ لِي كَاتِبًا نَصْرَانِيًّا قَالَ ما لَكَ قَاتَلَكَ اللَّهُ ! أَمَا سَمِعْت َاللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ) (المائدة ) أَلا اتَّخَذْتَ حَنِيفِيًّا (يعني مسلماً) قَالَ قُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لِي كِتَابَتُهُ وَلَهُ دِينُهُ قَالَ لا أُكْرِمُهُمْ إذْ أَهَانَهُمْ اللَّهُ ، وَلا أُعِزُّهُمْ إذْ أَذَلَّهُمْ اللَّهُ ، وَلا أُدْنِيهِمْ إذْ أَقْصَاهُمْ اللَّهُ‘‘
ترجمہ: ابو موسی اشعریؓ فرماتے ہیں کہ: (میں نے سیدنا عمر بن خطاب سے کہا: میرا ایک کاتب نصرانی ہے۔ انہوں نے غصہ میں کہا تیرا بیڑہ غرق ہو تو نے ایسا کیوں کیا! کیا تو نے سنا نہیں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
(اے ایمان والو! یہود ونصاری کو اپنے دوست نہ بناؤ یہ تو صرف ایک دوسرے ہی کہ دوست ہیں)
کیوں نہیں تو نے ایک مسلمان کو رکھ لیا ہوتا۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین مجھے تو محض اس کی کتابت سے مطلب ہے، وہ جانے اور اس کا دین۔ آپ نے فرمایا: میں تو ان کا اکرام نہیں کروں گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہی ان کی اہانت فرمائی ہے۔اور نہ ان کی عزت کروں گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہی انہیں ذلیل ورسواء کیا ہے، اور نہ انہیں اپنے سے قریب کرو ں گا جبکہ اللہ تعالی ہی نے انہیں دھتکار دیا ہے)۔
ایک اور حدیث میں جس کو اوس بن شرجیل نے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں:
عن أوس بن شرحبیل أنہ سمع رسول اللہ ﷺ یقول من مشی مع ظالم لیقویہ وہو یعلم أنہ ظالم فقد خرج من
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

الاسلام۔ (مشکوٰۃص۴۳۶ ج۶ص۱۲۲،المعجم الکبیر ج۲ص۲۷۱)

حضرت اوس بن شرحبیل ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول کریم ﷺسے سناکہ آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے کہ جو شخص کسی ظالم کو تقویت پہنچانے کے لئے اس کے ساتھ چلے گا جب کہ اس کو معلوم ہے کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام کے کمال سے نکل گیا ۔
البتہ اگر کوئی ایسا ادارہ ہے کہ منشور یا ان کا مقصد اسلام کو اور اسلامی تعلیمات کو نقصان پہنچانا ہو اور وہاں کے ملازمین و ممبران کو اپنے مذہبی قوانین پر عمل کرنے کی رخصت ہو ، یا کوئی فرد ان اداروں میں اس نیت اور مقصد سے شرکت کرتا ہے کہ وہ گفت وشنید کے بعد ان کی اصلاح کرسکتا ہے ،یا اس نیت سے شرکت کرتا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ غیر اسلامی تنظیمیں اسلام یا مسلمان مخالف تو کوئی کا م نہیں کرہی ہیں ،اگر یہ اغراض پیش نظر ہیں تو ان اداروں میں شرکت کی جا سکتی ہے ۔ اس شر ط کے ساتھ کہ وہ خود ا ن کے مقاصد میں معاون اور ملوث نہ ہو ہوجائے۔
حدیث پاک میں ارشاد ہے،حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ الناس إذارأو الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أوشک أن یعمہم اللہ بعقاب منہ‘‘
(کنز العمال،ج۳ص۷۱ :مسنداحمد بن حنبل،ج۱ص۲۰۸ا:سنن ابی داؤدج۴ص۲۱۴)

ترجمہ: اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیںتو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام نازل فرمادے۔
لہٰذا ظلم وزیادتی اور خلاف شریعت قانون کو روکنے کی نیت سے ایسے ادارے کی رکنیت اختیار کرنا اس کی شرعاً گنجائش معلو م پڑتی ہے ، بصورت دیگراگر یہ معلوم ہو کہ اس ادارے کی رکنیت اور شمولیت اختیا ر کرنے میںوہاں کے قوانین و ضوابط میں کوئی تبدیلی نہیںہوگی بلکہ ادارے کے قوانین ہی پر کار بند رہنا پڑ ے گا اور اس کے ما تحت رہ کر کام کرنا ہوگا اور وہا ں اصول شریعت کے خلاف بھی کام کرنا پڑے گا تو اس صورت حال میں ایسے ادارے اور جماعت وپارٹی کی رکنیت وشمولیت اختیار کرنا جائز نہیں ہے ۔
حلف وفاداری اور شریعت:
ہر ملک اور مخصوص اداروں یا سیاسی جماعتوں کا ان کا اپنا آئین اور دستور ہوتا ہے جس میں شمولیت کے لئے حلف وفاداری لیا جا تا ہے ،کچھ جگہوں میں تو شمولیت کرنے والے ملازم ہوں یا ممبر ان کو اپنے مذہب کے مطابق ہی حلف برداری کےلئے کہا جاتا ہے یہاں تک تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کے برعکس اگر کسی ادارہ یا جماعت وپارٹی کا دستور ومنشور اور اصول قانون شریعت اسلامی اور قرآن وحدیث کے اصول کے با لکل خلاف ہو،اور اس میں شمولیت ورکنیت اختیار کرنے والوں کے لیے خلاف شریعت قانون سے بھی وفاداری کا عہدوپیمان کرنا پڑے اور خلاف شریعت دفعات سے وفاداری کا حلف اٹھانا پڑے ، توایک مسلمان کے لئے اس طرح کے دفعات وقوانین سے وفاداری کا حلف لینا اور اس عہد وپیمان کرنا کہ میں اس ادارے کے تمام قوانین کا پاس ولحاظ کروںگا (اگرچہ وہ خلاف شرع ہی کیوںنہ ہوں) ،جائز نہیں ۔
اس لئےکہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاہے:
عن النواس بن سمعان قال قال رسول اللہ ﷺ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔
(شر ح السنۃ :ج۱۰ ص۴۴: المعجم الکبیر :ج۱۸ ص۱۷۰: ،مصنف بن ابی شیبہ: ج۱۲ص۵۴)

حضرت نواس بن سمعان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس مسئلہ میں خالق اللہ رب العزت کی نا فرمانی لازم آتی ہو اس میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
’’ عن علی قال قال رسول اللہﷺ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ إنما الطاعۃ فی المعروف‘‘
(بخاری شریف :باب ما جاء فی اجازۃ خبرالواحد الصدوق،مسلم: کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ: ج۲ رقم ۴۸۷۱)

حضرت علی ؓ سے روایت کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ معصیت اور گناہ کے کام میں کسی بھی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے اطاعت وفرماں بر داری صرف نیک کاموں میں جائز ہے ۔
خلاصہ کلام : مذکورہ بالا احادیث شریفہ سے معلوم ہوا کہ امیروحاکم کی بات کو سننا اوراطاعت کرنا اسی طرح کسی ادارے اور جماعت وپارٹی کے قوانین واصول کے ساتھ وفاداری اس وقت تک جائز ہے ،جب تک وہ قرآن وحدیث کے مخالف نہ ہوں ،اگر ادارہ یا جماعت وپارٹی کا کوئی حکم وقانون شریعت کی حدود سے متجاوز ہو اور اس پر عمل پیرا ہونے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور عدم اطاعت لازم آتی ہو، تو اس صورت میں اس کے ساتھ وفاداری کا عہد کرنا یا اس کے لیے حلف اٹھانا کسی کلمہ گو شخص کے لئے جائز نہیں ۔
بائبل اور انجیل پر حلف لینے کا شرعی حکم
حلف کہتے ہیں کسی کتاب محترم کو ہاتھ میں لیکرکسی حالف کا یہ اظہاراور اعلان کرنا،کہ میں جو کچھ اعلان اور اقرار کررہا ہوں وہ با لکل صحیح ہے ،اور یہ کتاب اس بات کی سند ہےکہ میں اپنے قول و فعل میں سچا ہوں۔اب چونکہ حالف کے اعتقاد کے مطابق یہ کتاب مکرم اور قابل احترام ہے اور وہ اس کا دل کی گہرائی سے قابل تعظیم اور لائق احترام ہونا تسلیم کرتاہے اس لئے اس کا تعلق ایمان اور عقائد ے جڑ گیااور روئے زمین پر اس وقت کلام اللہ (قرآن پاک )کے علاوہ کوئی کتاب برحق نہیں ہے، اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ موجودہ زمانے میں جو تورات وانجیل کے نسخے ہیں وہ تحریف شدہ ہیں گویا وہ کتاب اللہ نہیں بلکہ کتاب الناس ہیں۔ اور اس وقت کو ئی ایک نسخہ بھی دنیا میں بالکل اصلی حالت میں موجود نہیں ہے بلکہ تمام نسخے افتراء علی اللہ اور تحریف وتغیر سے پر ہیں،اس لئے کسی مسلمان کےلئے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کتابوں کو ہاتھ میں لے کر قسم کھائے۔
اور ان کتابوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کا مطلب ہے ان کا منجانب اللہ ہونے اور ان کے برحق ہونے کی تصدیق کرنیکا،جو جائز نہیں ،البتہ اگر کوئی مسلمان طوعاً وکرہاًاس پر مجبور ہو،اور اس کے بغیر حصول انصاف اور ظلم وستم سے بچنا نا ممکن ہو تو بادل نخواستہ کر اہت کے ساتھ اس کی تعظیم وتوقیر اور احترام واکرام کا اعتقاد دل میں لئے بغیر دفع مضرت کی نیت سے ہاتھ رکھ کر حلف لے سکتا ہے۔ اور جس کی توثیق وتصدیق واجازت رابطہ عالم اسلامی کے زیر نگرانی اسلامک فقہ اکیڈمی کی پانچویں سمینار منعقدہ ۸-۱۶ربیع الثانی ۱۴۰۲؁ھ میں ہوئی اور علماء امت جن نکات پر متفق ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے ۔
إذا کان القضاء فی بلد ما حکمہ غیر اسلامی یوجب علی من توجہت علیہ الیمین وضع یدہ علی التوراۃ او لإنجیل أو کلیہما فعلی المسلم أن یطلب من المحکمۃ وضع یدہ علی القرآن فإن لم یستجب لطلبہ یعتبر مکرہا ولابأس علیہ أن یضع یدہ علیہما أوعلی أحدہما دون أن ینوی بذالک تعظیما۔
(قرارات مجلس المجمع الفقہی الاسلامی ۱۴۰۲ھ؁/۸۵بحوالہ جدید فقہی مسائل ج۱ص۴۷۰)

اگر کسی غیر اسلامی مملکت کی عدالت قسم لینے والے کے لیے توریت یاا نجیل یا ان دونوں پر ہاتھ رکھنا ضروری قراردیتی ہو تو مسلمانوں کو چا ہیے کہ وہ عدالت سے قرآن کریم پر ہاتھ رکھنے کا مطالبہ کرے ،اگر اس کا مطالبہ نہ مانا جائے تو ایسے کو محبور سمجھا جائے گا اور دونوں یا کسی ایک پر تعظیم کی نیت کے بغیر ہاتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ (اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے فیصلے ص۱۲۰)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
مسلمانوں کا مسلم مخالف پارٹیوں میں شمولیت کرنا :
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک ایسی جمہوریت کہ جہاں’’ ہندو‘‘ اکثریت ہے ،اور جب سے یہ ملک آزاد ہوا ہے اس وقت سے یہاں کی اکثریت ہندو راشٹر قائم کرنے کی فکر میں رہتی ہے کچھ کھل کر اس اظہار کرتے ہیں اور کچھ کا خفیہ ایجنڈہ ہو تاہے ،تو کچھ نے سیکولر کا مکھوٹا لگا رکھا ہے تا کہ مسلم ووٹ حاصل کیا جاسکے، لیکن درپردہ ہیں سب مسلم دشمن۔ اب رہی وہ پارٹیاں جن کی مسلم دشمنی بالکل عیاں ہےاور ان کے آئین ودستور ودفعات میں بھی درج ہے، ان کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر قائم ہے، اور ان کے یہاں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور ان کی عائلی اور خارجی زندگی کی صیانت وحفاظت کی کوئی ضمانت اور گارنٹی نہیں ہے اور نہ ان کے اصول میں ہے، توایسی سیاسی جماعتوںاور پارٹیوں میں مسلمانوں کی شرکت قطعی مفید اور کار آمد نہیں ، اورنہ ہی کوئی مسلمان اس میں شریک وشمولیت اختیار کرکے ان کے اصول وقوانین کی اصلاح کرسکتاہے اور نہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے اس طرح کی پارٹیوں اور جماعتوں میں مسلمانوں کی شرکت اور شمولیت کرنا اور ان کی جانب سے الیکشن میں انتخاب لڑنا باعث گناہ عظیم اور حرام ہوگا اور’’ تعاون علی الاثم والعدوان ‘‘کے متراف ہوگا اور مسلمانوں کی دشمنی میںکافروں کے ساتھ برابر کے شریک ہوگا۔ (کفایت المفتی ج۹ص۲۵۶)
حدیث شریف میں ہے:
عن ابن مسعود عن النبی ﷺ قال من رضی عمل قوم فہو منہم ومن کثر سواد قوم فہو منہم
(تفسیر رازی سورۃ المائدہ ج۱۲، ص۵۴التفسیر الکبیر ج۱۲ص۵۴، سبل السلام ج۷ص۱۰۷)

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓفرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جو کوئی کسی قوم کے عمل سے راضی ہے وہ اسی میں سے ہے اور جو کوئی کسی قوم کی جماعت کو زیادہ کرے وہ بھی اسی میں سے ہے ۔
لیکن اگر کوئی شخص اس نیت سے ان اسلام مخالف پارٹیوں میں شریک ہوتا ہے کہ اس میں داخل ہوکر اس کے ایجنڈے اور اصول کو بدلنے کی سعی وکوشش کریگا تو ظاہر ہے کہ اس کی حسن نیت کے مطابق اس میں شمولیت کی اجازت بوقت ضرورت دی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ خود اس میں شریک ہوکر اسی کا آلہ کار بن کر نہ رہ جائے اور اس کی حیثیت تماش بین کی نہ رہ جائے ۔
مسند احمد اور معجم کبیر وغیرہ میں حضرت سہل بن حنیف ؓسے روایت ہے کہ رسول اکر مؐ نے ارشاد فرمایا :
من أذل عندہ مؤمن فلم ینصرہ ویقدرعلی أن ینصرہ أذلہ اللہ علی رؤس الأشہاد یوم القیامۃ۔
(المعجم الکبیر ج۶ص۷۳:شعب الإیمان ،ج۶ص۱۱۰:مسند احمد ، ج۲۵ص۳۶۱)

جس شخص کے سامنے کسی مؤمن کو ذلیل ورسوا کیا جارہا ہو اور وہ اس کی مدد پر قدرت رکھنے کے باوجود مددنہ کرسکے ،تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن (میدان محشر میں) رسوا وذلیل کرے گا ۔
اس حدیث کی رو سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اسلام مخالف ایجنڈے کے بدلنے پر قدرت وطاقت رکھتا ہے ،اور وہ اس مسلم مخالف واسلام دشمنی پر بنائی گئی پارٹی میں اصلاح کی نیت سے شریک ہوتا ہے تو اس کی گنجائش ہے ،لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو ،تنہا مسلم کچھ بھی نہیں کرسکتا ،اس لئے تنہا مسلمان کا ایسی پارٹی شریک ہوناجائز نہیں۔اس کے لئےعدم شرکت ہی زیادہ افضل واولیٰ ہے۔
سیکولر پارٹیوں کی طرف سے انتخاب لڑنا:
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
اوپر واضح کیا جا چکا ہےکہ ہندوستان ایک ہندو اکثریت والا ملک ہے ،اس لئے زیادہ تر سیاسی پارٹیاں غیر مسلموں کی ہی ہیں اس لئے حکومت بھی ان ہی لوگوں کی بنتی ہے اور پھر جو بھی حکومت تشکیل پاتی ہے وہ اکثریت کا خیال رکھتی ہے ،ان حالالت میں کچھ پارٹیاں ایسی وجود میں میں آئیں جو سیکولر ہیں اور مسلم مفاد کا خیال اکثریت کے مقابلہ میں زیادہ رکھتی ہیں،اور مسلم مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہیں ،ان پارٹیوں کی بنیاد مسلم دشمنی پر نہیں ہوتی اور دستور اساسی مسلم نواز ہوتا ہے،اس سب کے باوجود ان کی مسلم دشمنی کے سبب ان کے بعض جزوی قانون مسلم مفادات کے مغائر ہوتے ہیںکھلم کھلا اسلام دشمنی پر مبنی پارٹیوں کے مقابلے میں یہ پارٹیاں اہون ہوتی ہیں ۔
فقہ کا اصول ہے ،،إذا ابتلیت ببلیتین فاختر أہونہما، ’’
اہون البلیتین کا مطلب یہ ہے کہ دو مصیبتوں میں سے کم تر مصیبت کو اختیار کر لیا جائے اس اصول کے پیش نظر اس میں مسلمانوں کے لیے شرکت کرنا جائز ہوگا ۔اور ان کی طرف سے انتخاب لڑ نااور ان کی حکومت ریاست اور وزارت میں شامل ہونا جائز ہوگا تاکہ جب کوئی قانون یا بل مسلمانوں کے خلاف پاس ہو تو وہ سینہ سپر ہوکر قانون کے دائرہ میں رہ کر اس کی مخالفت کر سکیں۔
اور اگر مسلما ن کلی طور پر ان سیاسی پارٹیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیںتو یہ مسلمانوں کے حق میں زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے ، اس صورت میں غیروں کو زیادہ فائدہ ہوگا ۔ اوراگر مسلمان سیاست میں شریک ہوتے ہیں تو ان مسلم مخالف جماعتوں کو مسلمانوں کے خلاف کام کرنےکے مواقع کم فراہم ہوں گے ۔ اسلئے مسلمانوں کےحق میں یہ بات زیادہ فائدہ مند ہوگی کہ ایوان بالا میں حق کی آواز بلند کرنے اور مسلمانوں کی آواز کو ایوان حکومت اور زیر اقتدارحکومت کے ارباب تک پہنچانے اور اسلام مخالف اور مسلم دشمنی پر مبنی قانون پر قدغن لگا نے کے لئے سیکولر جماعت میں شرکت مسلمانوں کےلئے وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی گنجائش ہے ۔
ہندوستان میں خالص مسلم سیاسی جماعت بنانا:
جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے کہ ہندوستان ہندو اکثریت والا ملک ہے ،اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جہاں مختلف اور متعدد سیاسی سیکولر اور غیر سیکو لر پارٹیاں اور جماعتیں موجود ہیں ،جن کی قیادت وسیادت غیر مسلموں کے ہاتھوں میں ہے، اور اس ملک میں مسلمان نہایت اقلیت میں ہیں،اور ان کا ملک میں کوئی خاص اثر رسوخ بھی نہیں ہے۔اور مسلمان آپس میں متفق بھی نہیںہیںمسلمانوں کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے ، ہر ایک کے اپنے جدا گانہ افکار اور نظریات ہیں ،مسلمانوں کی کوئی اجتماعیت ،اتفاقیت اور شیرازہ بندی نہیںہے، ایسی صورت میں خالص مسلم سیاسی اور اسلامی پارٹی کا قیام موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے نا مناسب اور غیر موزوں ہوگا ،اس لیے کہ جب کوئی نمائندہ انتخابات میں مسلم پارٹی اوراسلامی پارٹی کی طرف سے امیدوار بن کر کھڑ ا ہوتا ہے تو اس کے با لمقابل کئی مسلم امیدوار میدان میں آجاتے ہیں جس کا نتیجہ شکست کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، علاوہ ازیں جب کوئی مسلم پارٹی وجود میں آتی ہے تو دیکھنے میں آیا کہ تمام فرقہ پرست تنظیمیں متحد ہو جاتی ہیں ۔اس سے فائدہ اٹھاکر غیر مسلموں کے ووٹوںکو یکجا کرلیتی ہیں۔اور اسکی وجہ سے مسلم مخالف ذہنیت کو تقویت ملتی ہے۔اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے معاملہ میں تمام کفار ایک ملت ہیں خواہ ان کے اندر کتنی ہی تنظیمیںکیوں نہ ہو ں، اس لئے ان حالات میں خالص مسلم سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان شدت پسنداورمتعصب ہندواور فرقہ پرستوں کو آپس میںمتحد ومتفق کرنے کے موقع فراہم کرنےکےمترادف ہوگا جو مسلمانوں کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوگا ،اس لئے مسلمانوں کا علیٰحدہ سےکوئی سیاسی جماعت قائم کرنا مناسب نہ ہوگا ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
مسلم عورتوں کا کسی پارٹی کی طرف سے انتخاب لڑنا:
امارت وسیاست کے معاملات میں اسلام نے عورت کی شمولیت کو ہر گز پسند نہیں کیا ہے ۔اور نہ ہی عورت کی جسمانی ساخت اور فطری صلاحیت ایسی ہے کہ امارت وسیاست جیسے معاملات میں وہ حصہ لے ،اسلام نے امارت کے لئے جن شرائط کی پابندی لگائی وہ اسپر بھی پوری نہیں اتر تی ۔اسلام میں بے حیائی اور مردوزن کے آزادانہ اختلاط کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،نیز اس ایسی صورت میں عائلی قوانیں بھی تباہ ہوجاتے ہیں جو اسلامی نقطہ نظر سے کافی اہمیت کے حامل ہیں ،اس جگہ یہ ذکر دینا بھی زیادہ مناسب رہیگاکہ جب اہل ایران نے بنت کسریٰ (پوران ،نوشیرواں کی پوتی اور شیرویہ کی بہن ) کو اپنا بادشاہ بنا لیا ،تو جب یہ خبر نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا:
کَیْفَ یَفْلح قَوْم وَلَّوْ اَمْرَھُم اِمْرَاۃً (بخاری کتاب المغازی)
ترجمہ: وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے جس نے اپنا سر براہ ایک عورت کو بنالیا ہو۔
اور حدیث شریف میں ہے:
( عن ابي هریرة رض قال رسول الله ص اذا کانت امراءکم خیارکم و اغنیاءکم سمعاءکم و امورکم شوری بینکم فظهرالارض خیر لکم من بطنھا واذا کان امراء کم شرارکم واغنیاءکم بخلاءکم وامورکم الیٰ نساءکم فبطن الا رض خیر من ظھرھا۔ ( رواه الترمذی بحوالہ مشکٰوۃ ،باب تغیر الناس)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تمہارے حکمران اچھے لوگ ہوں اور تمہارے دولتمند سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہوں تو تمہارے لئے زندگی موت سے بہتر ہے اور جب تمہارے حکمران بد کردار ہوں اور دولتمند بخیل ہوں اور تمہارے معاملات بیگمات کے حوالے ہوں تو تمہاری موت زندگی سے بہتر ہے۔
ارشاد ربانی ہے ۔
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝۳۲ۚ وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝۰ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا۝۳۳ۚ (سورۃ الاحزاب رقم الا یۃ ۳۲)
ترجمہ: اےپیغمبر کی بیویو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو کسی (اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کیا کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔ اور ان دستور سےکے مطابق بات کیا کرو .اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے .
عورتوں کو اللہ تبارک وتعالی نے خانگی امور کو سنبھالنے ،گھریلو زندگی کو سنوارنے ،بال بچوں اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے اور گھر کے اندورونی وداخلی معاملات کی دیکھ ریکھ کرنے کے لئے گھر کی ملکہ او ررانی بناکر پیدا کیا ،اور یوں فرمایا کہ عورت گھرکی ملکہ ہے گھر کے اندر کی ذمہ داری سنبھالنا ،بچوں کی تربیت کرنا اور شوہر کے مال ومتاع کی حفاظت کرنا اس کے فرض منصبی میں داخل ہے ،جس طرح کہ گھر کے باہر کی زندگی کو
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

سنوارنا ،مال ودولت کمانا ،مردوں کی ذمہ داری ہے ،مرد حضرات گھر کے باہر کے نظام زندگی کو کنٹرول کریں اور عورت گھر کے اندر کے نظام کو کنٹرول کریں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ولایت وحکم رانی کا اہل، اور وزارت امامت کے لائق مرد ہی ہوسکتا ہے ، عورت منصب وزارت وامامت اور حکومت وسیاست کی اہل نہیں ،عورتوں کو ولایت وحکمرانی دینے منصب وزارت وقیادت پر فائز کرنے اور انتخاب میں امیدوار بن کر کھڑے ہونے میںبہت سارے شرعی مفاسد اور امورمنکرہ کا ارتکاب لاز آتا ہے ،مثلا نا محرم مردوں کے ساتھ اختلاط ،اسٹیج پر عوام کے سامنے خطاب ، بلا محرم دور دراز کا سفر ،کونسلوں اور اسمبلیوں میں غیر محرم اجنبی مردوں کے سامنے روبر وہوکر بیٹھنا، وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے عورتوں کا انتخاب میں امید وار بننا شرعا ممنوع اور شریعت کےخلاف ہے ۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب نوراللہ مرقدہ لکھتے ہیں ،، عورتوں کا امیدوار بننا ممنوع ہے ہاں ووٹ دیتے وقت شرعی پردہ کا لحاظ رکھنا لازم ہوگا اور بطور امیدوار کھڑا ہونا عورتوں کے لئےمناسب نہیں ،کیوں عورتوں کے لئے شرعی ضروریات کی رعایت کے ساتھ کونسل یا اسمبلی کی شرکت انتہائی مشکل اور دشوارہے۔
عورتوں کا پولنگ بوتھ پر جا کر ووٹ ڈالنا:
حضرت مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ مسلم عورتین اس طور پر اپنا ووٹ ڈال سکتی ہیں کہ ان کی بے پردگی نہ ہو اور ان کے پردہ کا باقاعدہ انتظام ہو اور اگراس عورت کے ساتھ اس کا کوئی محرم بھی ہو تو اچھا ہےنیز انتظامیہ کی طرف سے عورتوں کی جانچ کرنے والی بھی عورتیں ہوں اگر ایسا نہیں ہے تو خاتوں ملازمہ کا مطالبہ کرنا چاہئے اگر انتظامیہ اس مطالبہ کو پورا کردیتی ہے تو ووٹ ڈالنا چاہئے،نہیں تو ووٹ ڈالنا اس کےلئے جائز نہ ہوگا( عزیز المفتی غیرمطبوعہ)
اور مفتی کفایت اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں
اگر عورت شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے با پردہ ہوکر جس امید وار کو اہل اور لائق سمجھے اپنا ووٹ ڈال سکتی ہے ضروری ہے کہ پولنگ بوتھ پر بقاعدہ طورپر عورتوں کےلئے پردے کا معقول انتظام ہو ،غیر محرم اجنبی مرد حضرات منتظم نہ ہوں ،اور زنانہ اسٹاف بھی ہو ،تو اس صورت میں مسلمان عورتوں کے لیے ووٹ ڈالنا جائز ہے ، اور اگرصرف غیر محرم مرد ہی ہوں تو اس صورت میں عورت کے لئے ووٹ ڈالنے کے لئےجانا جائز نہیں ہے ،بلکہ ان کو زنانہ منتظم کا مطالبہ کرنا چاہئےاگر ایسا ہوجاتا ہے تو ٹھیک ہے۔،اور اگر زنانہ منتظم نہ ہوں تو عورت کے ساتھ اس کا شوہر یا کو ئی محرم شرعی ہو تو بھی جاکر ووٹ دے سکتی ہے بشرطیکہ اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔ (مستفاد کفایت المفتی ج۹ص۳۵۷)
مسلمان عورتوں کا قانوں ساز اداروں کا ممبر بننا:
جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے کہ مسلم عورتوں کی ذمہ داریاں ان کی خانگی ذمہ داریاں ہیں امور خانہ داری سنبھالنا یہ عورتوں کی ذمہ داری ہے اور بیرونی یعنی باہری ذمہ داریاں مردوں کی ہیں اس لئے عورتوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ مردوں کے کام میں دخیل ہوں، عورت کی آواز بھی عورت عورت ہوتی ہے اور یہ اس کی زینت ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔
قرآن وحدیث اور اسلامی فقہ میں عورتوں کے متعلق شدید تاکید آئی ہے کہ وہ اپنے گھر کی ملکہ اور رانی بن کر رہیں اور بال بچوں کی تعلیم وتربیت ،شوہر کے مال ومتاع کی حفاظت کرنے کےلئے اپنے گھروں میں قرار پکڑیں ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شریعت مطہرہ کے یہ تمام مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ جہاں نامحرم مردوں سے اختلاط اور بے پردگی کا خطرہ ہو اور عورتوں کی عفت وعصمت کی چادر تارتار ہونے کا خطرہ لاحق ہو وہاں عورتوں کے لئے جانا شرعا ممنوع ہے ،لہٰذا چوں کہ کسی بھی قانون ساز ادارہ کے ممبرکے لئے شرعی حدود وتقاضے کو پورا کرنا انتہائی دشوار امر ہے ، بے پردگی لازمی ، عورتوں کا اجنبی مردوں سے ہم کلام ہو نا ضروری ہے،کھلے چہرہ کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھنا ،اسٹیج پر برسر عام مجمع میںخطاب کرنا بھی نا گزیر ہے ، اس لئے ان تمام حالات کے پیش نظر قرآن وحدیث کے اصول وقوانین کے مطابق اور شریعت مطہرہ کی رو سے کسی عورت کےلئے کسی قانون ساز ادارے کا ممبربننا یا اسمبلی وکونسل کا رکن بننا شرعا ممنوع اور ناجائز ہے ۔ فقط واللہ اعلم با لصواب
احقر العباد
عابدالرحمٰن بجنوری مظاہری
بن مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ
مدنی دارالافتاء
مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم
محلہ مردھگان بجنور (یوپی)
۱۵/محرم الحرام ۱۴۳۴؁ھ
یوم الجمعہ
 
Top