حروف ابجد کا تاریخی پس منظر اور شریعت میں ان کا مقام
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی فردیاقوم میں سے بری رسومات اوربدعات وعادات قبیحہ کاترک کراناجوئےشیرلانے کے مترادف ہے،کیوں کہ یہ عادات اوررسومات ان کے رگ وپے میںبری طرح سے سرایت کرگئی ہوتی ہیں جیساکہ موجودہ دورمیںآیات قرآنی واسمائے باری تعالیٰ و سرورکونین ﷺکے ناموں کے اعدادبجائے حروف لکھنے کو ایک رسم بنا لیا گیاہے ۔متعددحضرات نے مختلف رسائل واخبارات کے ذریعہ ان عادات قبیحہ کوترک کرانے کی کوشش کی ہے ۔ہنوزجہاں تک مجھے معلوم ہے اس کا عوام الناس پرکوئی خاص اثر نہیں ہوا۔اس کی غالباًایک بڑی وہ یہ ہے کہ لوگوں کواس کی حقیقت سے روشناس نہیںکرایاگیا۔چنانچہ موجودہ دورمیںکسی بری رسم یابری عادت کاچھڑانااس وقت تک نا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے جب تک کہ اس کی حقیقت اورمضرت سے لوگوں کو پوری طرح سے آشنا نہ کرایاجائے۔
چنانچہ اسی طرح کاایک استفسارمحترم والد(حضرت مفتی عزیزالرحمن بجنوری نوراللہ مرقدہ‘)کی خدمت میں موصول ہوا،جس کا عنوان تھا’’کیا۷۸۶بسم اللہ الرحمن الرحیم کامتبادل بن سکتاہے؟‘‘اسی کے ساتھ ایک رسالہ کی فوٹواسٹیٹ کاپی بھی منسلک تھی،جس میں صاحب مضمون نگارنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ سات سوچھیاسی کو بجائے بسم اللہ یااسمائے باری تعالیٰ وسرورکونین کوتین کوعددمیں لکھنالغواوربیہودہ حرکت ہے کیونکہ بسم اللہ اور ’’ہرکرشن‘‘کے نام کے اعداد بھی یہی یعنی سات سو چھیاسی ہوتے ہیں ۔لیکن یہ مضمون بھی دیگرمضامین کی طرح غیرواضح اورمبہم سارہا میرے خیال سے اگراس مضمون کوتاریخی پس منظر میں لکھا جاتاتوزیادہ مفیداورکارآمدثابت ہوتا۔چنانچہ مختصراً حروف ابجد کاتاریخی پس منظر اور شریعت میں اس کا کیا مقام ہے پیش خدمت کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
حروف ابجد،ہوز،حطی،کلمن،سعفص،قرشت،ثخذ،ضظغ کی ایجادکہاں ہوئی اورکس نے کی اوراس کی حقیقت کیاہے؟اس میں کافی اختلاف بعض نے ان کا موجدعربوں کوماناہے۔لیکن ان کے دلائل غیروقیع ہیں اکثرحضرات کی رائے ہے کہ عرب اس کی موجدنہیں بلکہ مجددہیں۔جیسا کہ مضمون سے واضح ہوجائے گا۔
انسائیکلوپیڈیا یاتاریخ عالم کے مطابق حروف ابجد کی ایجادقبل از مسیح اہل فونیقیہ نے کی فونیقیہ لبنان کے مغربی حصہ میں یک ساحلی علاقہ ہے۔ اہل فونیقیہ کی زبان کواگرسامنے رکھ کر دیکھاجائے تومعلوم ہوگا کہ یہ لوگ کنعانیوں کی ایک شاخ ہیں جن کی بولی مغربی ساحلی بولی تھی جوکہ کنعان کی عبرانی زبان سے مماثلت رکھتی تھی۔چنانچہ صاحب غیاث اللغات نے لکھاہے کہ ابجدکی ایجادمرامرنا نامی سامی النسل ایک شخص نے کی جو اس کے لڑکوں کے نام تھے۔
اسلامی انسائیکلوپیڈیامیں لکھاہے کہ حروف ابجددرحقیقت عبرانی اورآرامی حروف ہیں۔جن کوبعدمیں عربوں کی طرف منسوب کیاجانے لگا۔ لیکن پرانے فن تحریرسے مستنبط دلائل ثابت کرتے ہیں کہ عربوں نے حروف ہجانبطیون سے اخذ کئے ہیں۔شروع میں عرب سامی زبان سے بالکل نابلدتھے۔انہیں اپنی عصبیت اورقومی حسب ونسب پربڑانازتھا۔اس نے وہ ابجدکے آٹھوں الفاظ کی اصلیت کے متعلق ادھراُدھرکی بے معنی تشریحات کرنے لگے اوریہ تشریحات ایسی تھیں جوروایتا نقل ہوتی گئیں جوکچھ انہوں نے اس بارے میں لکھاہے وہ سب لغوہے چنانچہ چند ایسی ہی تشریحات پیش خدمت ہیں۔
ایک روایت مہینہ کہ مدأن کے چھ بادشاہوں نے اپنے ناموںکے مطابق ترتیب پرحروف ہجامرتب کئے۔
صاحب غیاث اللغات نے بحوالہ ضوابطہ عظیم لکھاہے کہ بعض حضرات نے حروف ابجد کواباجادنامی بادشاہ کا مخفف ماناہے اورباقی سات حروف اس کے لڑکوں کے نام ہیں بعض نے لکھاہے کہ شروع کے چھ الفاظ شیطانوں کے نام تھے بعض نے کہاہے کہ ہفتوں کے دنوں کے نام تھے۔ چنانچہ سلوسٹرڈی ساسی نے اس طرف اشارہ کیاہے کہ یہ روایتیں پہلے چھ لفظوں کی توجیہہ بیان کرتی ہیں مثلاً،یوم الجمعۃ ثخذ نہیں بلکہ عروبہ ہے لیکن علمی طورپرہم ان روایات پراعتماد نہیں کرسکتے۔(اسلامی انسائیکلوپیڈیا)
اسی طرح صاحب غیاث اللغات نے بحوالہ صاحب مدارالافاضل کی ایک دلچسپ تشریح بیان کی ہے جوصرف قیاسی ہے مثلاً
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔