حروف ابجد کا تاریخی پس منظر اور شریعت میں ان کا مقام

حروف ابجد کا تاریخی پس منظر اور شریعت میں ان کا مقام​

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی فردیاقوم میں سے بری رسومات اوربدعات وعادات قبیحہ کاترک کراناجوئےشیرلانے کے مترادف ہے،کیوں کہ یہ عادات اوررسومات ان کے رگ وپے میںبری طرح سے سرایت کرگئی ہوتی ہیں جیساکہ موجودہ دورمیںآیات قرآنی واسمائے باری تعالیٰ و سرورکونین ﷺکے ناموں کے اعدادبجائے حروف لکھنے کو ایک رسم بنا لیا گیاہے ۔متعددحضرات نے مختلف رسائل واخبارات کے ذریعہ ان عادات قبیحہ کوترک کرانے کی کوشش کی ہے ۔ہنوزجہاں تک مجھے معلوم ہے اس کا عوام الناس پرکوئی خاص اثر نہیں ہوا۔اس کی غالباًایک بڑی وہ یہ ہے کہ لوگوں کواس کی حقیقت سے روشناس نہیںکرایاگیا۔چنانچہ موجودہ دورمیںکسی بری رسم یابری عادت کاچھڑانااس وقت تک نا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے جب تک کہ اس کی حقیقت اورمضرت سے لوگوں کو پوری طرح سے آشنا نہ کرایاجائے۔
چنانچہ اسی طرح کاایک استفسارمحترم والد(حضرت مفتی عزیزالرحمن بجنوری نوراللہ مرقدہ‘)کی خدمت میں موصول ہوا،جس کا عنوان تھا’’کیا۷۸۶بسم اللہ الرحمن الرحیم کامتبادل بن سکتاہے؟‘‘اسی کے ساتھ ایک رسالہ کی فوٹواسٹیٹ کاپی بھی منسلک تھی،جس میں صاحب مضمون نگارنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ سات سوچھیاسی کو بجائے بسم اللہ یااسمائے باری تعالیٰ وسرورکونین کوتین کوعددمیں لکھنالغواوربیہودہ حرکت ہے کیونکہ بسم اللہ اور ’’ہرکرشن‘‘کے نام کے اعداد بھی یہی یعنی سات سو چھیاسی ہوتے ہیں ۔لیکن یہ مضمون بھی دیگرمضامین کی طرح غیرواضح اورمبہم سارہا میرے خیال سے اگراس مضمون کوتاریخی پس منظر میں لکھا جاتاتوزیادہ مفیداورکارآمدثابت ہوتا۔چنانچہ مختصراً حروف ابجد کاتاریخی پس منظر اور شریعت میں اس کا کیا مقام ہے پیش خدمت کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
حروف ابجد،ہوز،حطی،کلمن،سعفص،قرشت،ثخذ،ضظغ کی ایجادکہاں ہوئی اورکس نے کی اوراس کی حقیقت کیاہے؟اس میں کافی اختلاف بعض نے ان کا موجدعربوں کوماناہے۔لیکن ان کے دلائل غیروقیع ہیں اکثرحضرات کی رائے ہے کہ عرب اس کی موجدنہیں بلکہ مجددہیں۔جیسا کہ مضمون سے واضح ہوجائے گا۔
انسائیکلوپیڈیا یاتاریخ عالم کے مطابق حروف ابجد کی ایجادقبل از مسیح اہل فونیقیہ نے کی فونیقیہ لبنان کے مغربی حصہ میں یک ساحلی علاقہ ہے۔ اہل فونیقیہ کی زبان کواگرسامنے رکھ کر دیکھاجائے تومعلوم ہوگا کہ یہ لوگ کنعانیوں کی ایک شاخ ہیں جن کی بولی مغربی ساحلی بولی تھی جوکہ کنعان کی عبرانی زبان سے مماثلت رکھتی تھی۔چنانچہ صاحب غیاث اللغات نے لکھاہے کہ ابجدکی ایجادمرامرنا نامی سامی النسل ایک شخص نے کی جو اس کے لڑکوں کے نام تھے۔
اسلامی انسائیکلوپیڈیامیں لکھاہے کہ حروف ابجددرحقیقت عبرانی اورآرامی حروف ہیں۔جن کوبعدمیں عربوں کی طرف منسوب کیاجانے لگا۔ لیکن پرانے فن تحریرسے مستنبط دلائل ثابت کرتے ہیں کہ عربوں نے حروف ہجانبطیون سے اخذ کئے ہیں۔شروع میں عرب سامی زبان سے بالکل نابلدتھے۔انہیں اپنی عصبیت اورقومی حسب ونسب پربڑانازتھا۔اس نے وہ ابجدکے آٹھوں الفاظ کی اصلیت کے متعلق ادھراُدھرکی بے معنی تشریحات کرنے لگے اوریہ تشریحات ایسی تھیں جوروایتا نقل ہوتی گئیں جوکچھ انہوں نے اس بارے میں لکھاہے وہ سب لغوہے چنانچہ چند ایسی ہی تشریحات پیش خدمت ہیں۔
ایک روایت مہینہ کہ مدأن کے چھ بادشاہوں نے اپنے ناموںکے مطابق ترتیب پرحروف ہجامرتب کئے۔
صاحب غیاث اللغات نے بحوالہ ضوابطہ عظیم لکھاہے کہ بعض حضرات نے حروف ابجد کواباجادنامی بادشاہ کا مخفف ماناہے اورباقی سات حروف اس کے لڑکوں کے نام ہیں بعض نے لکھاہے کہ شروع کے چھ الفاظ شیطانوں کے نام تھے بعض نے کہاہے کہ ہفتوں کے دنوں کے نام تھے۔ چنانچہ سلوسٹرڈی ساسی نے اس طرف اشارہ کیاہے کہ یہ روایتیں پہلے چھ لفظوں کی توجیہہ بیان کرتی ہیں مثلاً،یوم الجمعۃ ثخذ نہیں بلکہ عروبہ ہے لیکن علمی طورپرہم ان روایات پراعتماد نہیں کرسکتے۔(اسلامی انسائیکلوپیڈیا)
اسی طرح صاحب غیاث اللغات نے بحوالہ صاحب مدارالافاضل کی ایک دلچسپ تشریح بیان کی ہے جوصرف قیاسی ہے مثلاً
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

(۱)ابجد۔ای وجدفی المعصیۃ۔
(۲)ہوز۔ای اتبع ھواہ(العیاذباللہ)
(۱)حضرت آدم سےگناہ کا صدورہوا۔
(۲)یعنی انہوں (حوّا)نے اپنی خواہش نفس کی پیروی کی(العیاذباللہ)
یہ اسی قسم کی بے تکی تشریحات ہیں جیساکہ بعض مفسرین نے حرف مقطعات کی تشریح کی ہیں مثلاً’ ’ طہ ‘‘ کوسانپ کی شکل قراردیاہے اوریہ ہیں علامہ فراہی صاحب (نعوذباللہ)
قواعدجمل کے حساب سے حروف تہجی جن سےکلمات مرکب ہوتے ہیں وہ ۲۸حروف ہیں اورہرحروف کے لئے عددمقررہے۔تفصیل اس کی اس قطعہ سے ظاہرہوگی
ابجد ہوزاورحطی تک ایک پر ایک توبڑھاتاجا
اورکلمن سے لیکے تاسعفص دس پردس کویونہی ملاتاجا
قرشت وثخذوضظغ کے لئے سوپہ سوویسی ہی لگاتاجا​
قواعدجمل میں مکتوبی حروف شمارکئے جاتے ہیں جو حرف کہ بولاجاتا ہے مگرلکھانہیں جاتا اس کا شمار حساب میں نہیں کیا جاتا جیسے اللہ کا الف جو بعد لام کےہے اور سمٰوات کا الف جو بعدمیم ہے کہ باجود بولے جانے کے نہ لکھے جانے کی وجہ سے حساب میں شمار نہیں کیا جاتا اور جو حروف کے مخلوط التلفظ ہیں جیسے ابھارونکھارمیں یائے مخلوط التلفظ ہے ۔یاحوحروف کے ملفوظ ہیں مگرلکھے جاتے ہیں جیسے ملک الشعراء میں ملک کے بعدجوالف ولام ہے کہ لکھا جاتاہے مگرپڑھانہیں جاتاان حروف کابوجہ مکتوب ہونے کے حساب میںشمارہوگا۔ان حرفوں کا استعمال شروع میں تاریخی نام رکھنے ۔یاتاریخ پیدائش یاتاریخ وفات معلوم کرنے کے لئے ہوتاتھا۔شعراء ایران ہندوستان وعرب نے ان کا استعمال خوب کیاہے ایران میں سولہویں صدی عیسوی قبل الشعراء بابیوں اوربہائیوں نے کافی تاریخی اشعارلکھے ہیں ملاحظہ ہو’’تاریخ ادبیات ایران ‘‘،ایران سے شعراء کی کافی بڑی تعدادہندوستان آئی جوبعدمیں مستقلاًیہیں سکونت پذیرہوگئے جنہوں نے اردومیں تاریخی اشعارکہے۔ ان شعراء میں شمس ولی اللہ ولی فہرست ہیں ان کے بارے میں مولوی محمدحسین آزادلکھتے ہیں کہ یہ اردونسل کا آدم جب ملک عدم سے چلاتو اس کے سرپراولیت کا تاج رکھا گیا،(رہنمائے تاریخ اردوص،۲۳)قدیم زمانے سے صوفیوں نے ابجدی حروف کوتعویذ اورجادوطلسمات کے مقصد سےاستعمال کرناشروع کررکھاہے اس مذہب کے مطابق ان حرفوں میں سے ہرایک حرف جو الف سے شروع ہوکرغین پرختم ہوتے ہیں خدا کے ناموںمیںسے کسی ایک نام یادوسرقوائے روحانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔چنانچہ حرف اور عدد کے اس مشترک علاقہ نیزرموز مذکورہ کا لحاظ کرتے ہوئے صوفی عالموںکے ایک مسلک کی بنیاد قائم ہوئی مثلاً تعویذوں کے شروع کے طریقوں میں حرفوں کے اعداد کوباہم ملایاجاتاہے اوراوراس سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس کا تعلق وہ عالم جن سے قائم کرتے ہیں یہی طریقہ قرون وسطی کے یہودیوں میں صوفیانہ تشریح کے متعلق رائج تھا۔(ملاحظہ ہواسلامی انسائیکلوپیڈیا۔)
اصل میں ان حرفوں کی ایجاد حروف تہجی کویادکرنے کی غرض سے کیاگیاتھا اوریہی غرض وغایت عربوں اوریونانیوں اورسامیوں کی تھی لیکن بعد میں اس کا استعمال جادوگرجادو کے طلسمات میں اورشعراء حضرات اشعارمیں کرنے لگے جس کی وضاحت تاریخی کتب میں موجود ہے ہمارے علماء نے بھی اس کا استعمال تعویذوں میں شروع کردیا۔جیساکہ ذکرکیاگیاجس کاماحصل یہ ہے کہ یہ صرف قیاسی اور غیراسلامی تعبیرات ہیں لیکن ہمارے علماء وجہ جواز میں یہ فرماتے ہیں کہ آیات قرآنی کو اگرحرفالکھ کر دیاجائے تواس میں بے ادبی کااحتمال رہتا ہے اورغیرمسلموں کوتوحرفالکھ کردینے میں سرا سر بے ادبی ہے ۔اس لئے ان کو عددی شکل میں لکھ کر دینے سے وہی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو کہ حروف کے لکھنے سے ہوتے ہیں۔جب کہ یہ صرف خیال ہے جب تک کہ کسی اسلامی نص سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ آیات اورحروف کے خواص عدد کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔اس پریقین کرنا اورعمل کی تعمیرقائم کردینا غیرسنجیدہ حرکت ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

کوئی ان سے معلوم کرے کہ کیاشریعت میں اس کی کوئی گنجائش ہے؟جب کہ خود نبی کریم ﷺنے جو خطوط مختلف سلاطین کوروانہ کئے ان کےابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی اور خودحضرت عمرفاروقؓ نے ایک ٹوپی کے اندر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر دی جس کے اوڑھنے سے اس کے سرکے درد کو آرام ملتا تھا۔جہاں تک اعدادکاتعلق ہے توایک جانورکے نام کے بھی وہی اعدادہوسکتے ہیں جوقرآنی الفاظ کے ہوتے ہیں ۔جیساکہ شروع میں ذکرکیاجاچکاہے۔ کہ ہندوئوں کے بھگوان ہری کرشناکے اعدادبھی ۷۸۶ہوتے ہیں اوراسی طرح نبیل جو کہ ایک بابی شاعرتھا بابیوں کے نزدیک محمدکابدل ہے ا س لئے کہ ازروئے جمل دونوں کے اعداد’۹۲‘ہیں۔
ان سب وضاحتوں اورتوجیہات سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآنی آیات،یااسماء گرامی باری تعالیٰ واسماء حضورپاکﷺ کوعددی شکل میں لکھناایک غیرشرعی اورلغوہے یہودیوں اورمشرکوں کاطریقہ ہے۔ احادیث شریفہ میں صراحتاًمذکورہے کہ اجروثواب کامعاملہ حروف کی ادائیگی پر ہے جیساکہ ’’الم‘‘اس کے ہرلفظ پراللہ تعالیٰ نے ثواب دینے کاوعدہ فرمایاہے اوراسی میں خیروبرکت وبھلائی ہے ناکہ عددلکھنے پراللہ تعالیٰ صحیح طور پر سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔
 

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
جزاکم اللہ مفتی صاحب بہت تحقیقی اور مفید مضمون لکھا ہے۔
اس موضوع پر ایک کتابچہ پڑھا تھا، “786 کیا ہے“ کے عنوان سے۔ معلوم نہیں وہ نیٹ پر دستیاب ہے یا نہیں۔ اس میں کئی ایسی عبارات جو ہماری درسی کتب میں ملتی ہیں، پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ مثلا حواشی کی عبارت کے آخر میں 12 لکھا جاتا ہے، جو “انتہی“ کا مخفف بتایا جاتا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ اس سے شیعی 12 امام مراد ہیں۔ اور اس طرح کی باتیں کہی گئی ہیں۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
بہت خوبصورت علمی موضوع پر حضرت مفتی صاحب نے قلم اٹھا یا جزاک اللہ
پیامبر صاحب نے12منہ کا جو ذکر کیا میں نے بھی پڑھا تھا
خطوط غالب میں یہ بات لکھی ہے ص221غالب نے اپنے شاگرد حاتم علی بیگ مہر کو لکھا صاحب بندہ اثنا عشری ہوں ہر مطلب کے خاتمے پر 12منہ کا ہندسہ لکھتا ہوں خدا کرے میرا بھی خاتمہ اسی عقیدے پر ہو 12منہ خطوط غالب ص221
از کتاب المعروف ارمغان عجم تحفہ بابل ونینواص120 مصنفعزیز احمد صدیقی
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
جزاک اللہ نئی معلومات فراہم کرنے کا شکریہ میں اس کو اپنے مضمون میں شامل کرلوں گا کچھ اور معلومات ہوں تو فراہم کردیں شکریہ
اس قسم کے اشارے اہل تشیع زیادہ استعمال کرتے ہیں ایک کتابچہ ایران سے چھپا ہے جس کانام ہے موسومہ قرآن اسپر یہ نقش اسطرح رقم ہے 786_
202
اوپر 786پھر اس کے نیچے لکیر لگا کر 202 لکھا ہوا ہے
حالانکہ اکثر 92کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو امامی کے عدد بنتے ہیں مگر اس کتابچہ میں 202 لکھا ہوا ہے جسکا مطلب علی امامی بنتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح شیعہ حضرات 72 کا اشارہ بھی اکثر استعمال کرتے ہیں جو کر بلا کے شر کاء کی تعداد کی طرف اشارہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح لفظ حد بھی زیادہ استعمال کرتے ہیں جس کے اعداد 12 بنتے ہین اثنا عشری
کی طرف اشارہ ہے اس کے کہنے کا مطلب ہو تا ہے میں نے اپنے 12 اماموں کو یاد کر لیا اور ان کے دشمنوں سے بے زاری کااعتراف کرتا ہوں
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
786 اور 12 وغیرہ اعداد کے متعلق اُوپر جو حقائق بیان کیے گئے ہیں وہ سب احقر کو جھوٹ نظر آتا ہے، کیونکہ ہمارے اکابر و اسلاف کی فراست بہت تھی، الحمدللہ تعالیٰ!، ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے اکابر نے ان اعداد کا حسبِ ضرورت استعمال کیا اگر ان اعداد کا پس منظر ایسا ہوتا جیسے بیان کیے گئے ہیں تو ہرگز استعمال نہ فرماتے۔
اب اہلِ تشیع بارہ اماموں میں سے پہلے گیارہ ائمہ پھر ایسے ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق جو جو باتیں کہتے پھرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں، کیا ہم ان کو بھی حقیقت مان لیں؟۔۔۔ ہرگز نہیں وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے، یہ سب حضرات محترم ہیں اور ایسی باتوں سے بَری ہیں جو ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔
المختصر! ہمارے اکابر نے ان اعداد کا استعمال فرمایا ہے، اس لیے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ احقر نے اپنے اکابر کے کئی فتاویٰ میں بھی ایسا ہی دیکھا پڑھا ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
ایسے ہی 786 کا استعمال بھی غلط نہیں ہے حسبِ ضرورت استعمال کی اجازت ہے۔
وظائف و عملیات میں بھی اعداد ابجد وغیرہ استعمال درست ہے، علماء و صلحاء استعمال فرماتے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں۔
اکابرین اُمت نے اس سلسلہ میں جو راہِ اعتدال بیان فرمائی ہے، اس میں رہنا ہی بہتر ہے، افراط و تفریط سے اجتناب کرنا چاہیے۔
 

فکری

وفقہ اللہ
رکن
ارمغان صاحب کیا بسم اللہ لکھنے پر ثواب ملتا ہے یا 786 لکھنے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ایک عمل مشروع موجود ہے تو ہم عمل مشکوک کی طرف کیوں جایں ۔۔۔۔۔۔12 منہ جوکہ غالب کے خطوط میں ہے اس سے مراد اثنا عشری ہے کیا خاتمہ کے لئے جسطرح قرآن میں گول دائرہ ہے یہاں بھی گول دائرہ یا کوئی اور لفظ مقرر نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 12 منہ ہی لکھنا کیوں ضروری ہے ۔۔۔۔۔ اصل بات ہے ہم کچھ چیزوں میں تحقیق نہیں کرتے اور دیکھا دیکھی اس کو لکھ دیتے ہیں
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
فکری نے کہا ہے:
ارمغان صاحب کیا بسم اللہ لکھنے پر ثواب ملتا ہے یا 786 لکھنے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ایک عمل مشروع موجود ہے تو ہم عمل مشکوک کی طرف کیوں جایں ۔۔۔۔۔۔12 منہ جوکہ غالب کے خطوط میں ہے اس سے مراد اثنا عشری ہے کیا خاتمہ کے لئے جسطرح قرآن میں گول دائرہ ہے یہاں بھی گول دائرہ یا کوئی اور لفظ مقرر نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 12 منہ ہی لکھنا کیوں ضروری ہے ۔۔۔۔۔ اصل بات ہے ہم کچھ چیزوں میں تحقیق نہیں کرتے اور دیکھا دیکھی اس کو لکھ دیتے ہیں

آپ کے اعتراضات و سوالات سوائے لغویات کے کچھ نہیں، اس لیے جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا۔ ان سب شبہات و اعتراضات و سوالات کے جوابات حضراتِ اکابر بہت دفعہ دے چکے ہیں۔اکابر و اسلاف کی مسلمہ تحقیقات پر اپنی ناقص العقل کے گھوڑے دوڑانے سے دماغ میں ایسی ہی باتیں سوجھتی ہیں۔ دوجمع دو کا جواب چار ہی نکلے گا چاہے جتنی مرضی کوشش کر لیجیے، باقی اگر کوئی بعد میں آنے والا پانچ جواب نکالنا شروع کر دے تو اس کی مرضی۔ یہ دین اعتماد پر ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
جس کو تحقیق کی ضرورت ہے وہ بے شک کرے، اگر کسی کی تسلی یوں ہی ہوتی ہے تو پھر کس نے منع کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔
 

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
محمد ارمغان نے کہا ہے:
786 اور 12 وغیرہ اعداد کے متعلق اُوپر جو حقائق بیان کیے گئے ہیں وہ سب احقر کو جھوٹ نظر آتا ہے، کیونکہ ہمارے اکابر و اسلاف کی فراست بہت تھی، الحمدللہ تعالیٰ!، ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے اکابر نے ان اعداد کا حسبِ ضرورت استعمال کیا اگر ان اعداد کا پس منظر ایسا ہوتا جیسے بیان کیے گئے ہیں تو ہرگز استعمال نہ فرماتے۔
اب اہلِ تشیع بارہ اماموں میں سے پہلے گیارہ ائمہ پھر ایسے ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق جو جو باتیں کہتے پھرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں، کیا ہم ان کو بھی حقیقت مان لیں؟۔۔۔ ہرگز نہیں وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے، یہ سب حضرات محترم ہیں اور ایسی باتوں سے بَری ہیں جو ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔
المختصر! ہمارے اکابر نے ان اعداد کا استعمال فرمایا ہے، اس لیے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ احقر نے اپنے اکابر کے کئی فتاویٰ میں بھی ایسا ہی دیکھا پڑھا ہے۔
ارمغان بھائی! اوپر جو باتیں کی گئی ہیں، وہ امکانی طور پر کی گئی ہیں، یہ نہیں کہا گیا کہ ایسا ہی ہے۔ اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ جھوٹ ہے، ایسا ممکن ہے کہ یہ ہو۔ خدا نہ کرے کہ ان باتوں کو قبول کرنے سے اسلاف کی فراست پر حرف آتا ہو، ایسا نہیں ہے، میرا اس موضوع پر مطالعہ نہیں ہے، لیکن یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے کہ چونکہ اکابر کرتے ہیں، اس لیے ٹھیک ہے، ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ میری رائے کے مخالف حدیث ملے تو میرا قول ترک کردو۔ تو اکابر تو بعد میں آئے ہیں۔ میں نے وضاحت کی ہے کہ اس موضوع پر میرا مطالعہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے اکابر میں سے کسی نے کچھ لکھا ہو۔ یا اس طرح ذہن نہ گیا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ زوائد کاتبین کی جانب سے ہو۔
اور چونکہ شبہ موجود ہے اس لیے میرے خیال میں احتیاط بہتر ہے۔ اور مولانا نور الحسن صاحب نے حوالہ بھی دیا ہے تو بات مزید پکی ہوجاتی ہے۔
786 کا موازنہ حضرت علی سے کیسے کرسکتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک خلیفہ ہیں۔ اور ان کے بارے میں جو باتیں شیعوں کی کتابوں میں ملتی ہیں، وہ شریعت سے صراحتاً معارض ہیں۔ جب کہ 786 کو استعمال کرنا خود معارض ہے کہ اس کا استعمال قرون اولیٰ میں موجود نہیں۔
ہاں اگر ایسی تحقیق سامنے آجاتی ہے جس میں یہ بحث ہو باحوالہ کہ ان اعداد کا استعمال ان ان وجوہات کی بناء پر درست ہے تو اس کے استعمال کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ہم فضیلت سے ایک ایسی چیز کی طرف جارہے ہیں جس کا شریعت میں ذکر ہی نہیں تو کیسے اسے مان لیا جائے۔ صرف اس بناء پر کہ اکابر استعمال کرتے تھے۔ شریعت کے طالب علم کے لیے اکابر کا قول، قول فیصل نہیں ہونا چاہیے جب تک دلیل موجود نہ ہو۔ ہاں عوام کی بات اور ہے۔

آپ نے آخر میں لکھا ہے کہ آپ نے کئی فتاویٰ میں پڑھا ہے اگر آپ یہاں پیش کرسکیں تو اسے حوالہ کے طور پر آگے پیش کیا جاسکتا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
 

مجمداشرف یوسف

وفقہ اللہ
رکن
786 بسم اللہ کا متبادل نہیں

علم الا عداد کے جاننے والے اور اس کا استعمال کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ 786کے اعداد بسم اللہ الرحم ن الرحیم کے متبادل ہیں۔ یہ بدعت کہاں سے آئی یا اس کی ابتدا کس نے کی ۔ یہ تو معلوم نہیں البتہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ 786کے اعداد بسم اللہ الرحمن الرحیم کامتبادل ٹھہرانا حضورؐ کی سنت کے خلاف ہے ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اپنی تحریر کے اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے سے بے حرمتی کا مرتکب ہو گا ۔ لہذا 786 کو اس کے متبادل کے طور پر استعمال کرے تو اسے چاہیے کہ وہ کچھ لکھنے سے پہلے زبانی طور پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ لے جیسا کہ ہم ہر کام شروع کرنے سے پہلے کرتے ہیں۔

بد قسمتی سے ہمارے نام نہاددینی اسکالرز اور محققین نے بھی اس اہم چیز کو تواتر سے نظر انداز کیا ہے ۔آپ مجھے یہ بتائیں کہ آیا ہم یہ اعدادی عمل کہیں قرآن مجید میں بھی دیکھتے ہیں ،کیا آپ سورۃ فاتحہ کی پیشانی سے بسم اللہ ارحمٰن الرحیم حذف کر کے وہاں 786لکھ سکتے ہیں ؟حضو ر اکرمؐ نے جو خطوط مختلف سلطنتوں کے غیر مسلم حکم رانوں کو لکھے ان کی ابتدا ہمیشہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھ کر ہی کی ہے (وہ خطوط اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں )انہوں نے کوئی متبادل طریقہ استعمال نہین کیا نہ ہی اس کی حر مت کے بارے میں سوچا۔اسی طرح کچھ لوگ اللہ لکھنے کے بجائے66لکھ دیتے ہیں اور محمد کے بدلے 92لکھ دیتے ہیں !!!کسی کو اس کے Nick nameسے بلانا گناہ ہے ، اللہ تعالٰی فرماتا ہے کسی کو اس کے Nick nameسے نہیں پکارو، اگر اللہ سبحانہٗ و تعالٰی کسی انسان کو اس کے نک نیم سے پکارنے سے منع فرماتا ہے تو وہ کیوں کر اپنے بندوں کو اس قبیل کے ہتک آمیز متبادل ، اپنے لیے اور اپنے حبیب کے لیے استعمال کرنا پسند فرمائے گا۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بے حد اہمیت کا حامل ہے ، اسی لیے تمام مسلمانون کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے ہر کام کی ابتدا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے کرو ۔۔۔۔۔۔نہ کہ اس کے متبادل اعدا دسے!!!!

قارئین کرام!اصل بات یہ ہے کہ جب ضعیف العقیدہ لوگوں نے کفار سے غیر اللہ چیزوں اور لوگوں سے ڈرنا سیکھا اور ان کے نحس و سعد اثرات پر ایمان لے آئے تو ان کے تدارک کے لیے جادو ٹونے اور تعویز گنڈوں کا سہارا لیا، اب چونکہ بنیادی طور پر یہ مسلما ن ہیں لہذا اپنی عملیات اور تعویز نویسی کیلئے قرآنی آیات اور اسمائے ربانی کا استعمال شروع کر دیا،چونکہ مسلمان ہونے کے ناتے یہ کافروں کے اشلوک میں یا ان کی دیوی دیوتائوں کے نام تو استعمال نہیں کر سکتے تھے ، پھر ان کے ذہن میں آیا کہ آیات قرآنی اور اسمائے ربانی اپنے تعویزوں میں لکھ کر کہیں بے حرمتی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟لہذا انہوں نے علم الاعدادترتیب دیا اور ہر لفظ کے متبادل اعداد بنا لیے اس طرح تمام تعویز گنڈے اعداد میں لکھے جانے لگے، اس طرح انہوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے اعداد بھی 786نکال لیے ۔ اس طرح عام لوگوںمیں بھی 786 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا متبادل مروج ہو گیا ۔لیکن افسو س صد افسوس کہ ان پیشہ ور تعویز گنڈے والوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا یا سوچا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے لیے بنائے ہوئے متبادل اعداد 786ہندوئو ں کے بھگوان ،ہری کرشنا ، کے اعداد کے برابر ہیں،یعنی 786،اب آپ یہ بتائیں کہ آیااللہ تعالٰی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے بدلے بندوں کے بنائے ہوئے ایسے اعداد پسند فرمائے گا جو مشرکوں کے بھگوان ہری کرشنا کے بھی ہیں؟!!
 

فکری

وفقہ اللہ
رکن
یہی بات میں بھی کہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں کیا مصیبت پڑی ہے ہم اعداد لکھیں ہم بسم اللہ نہیں لکھ سکتے تو پڑھ لیں ۔۔۔۔۔ جزاک اللہ
 

اسامہ رؤف

وفقہ اللہ
رکن
سم اللہ شریف کے عدد ہیں، بزرگوں سے اس کے لکھنے کا معمول چلا آتا ہے، غالباً اس کو رواج اس لئے ہوا کہ خطوط عام طور پر پھاڑ کر پھینک دئیے جاتے ہیں، جس سے بسم اللہ شریف کی بے ادبی ہوتی ہے، اس بے ادبی سے بچانے کے لئے غالباً بزرگوں نے بسم اللہ شریف کے اعداد لکھنے شروع کئے، اس کو ہندووٴں کی طرف منسوب کرنا تو غلط ہے، البتہ اگر بے ادبی کا اندیشہ نہ ہو تو بسم اللہ شریف ہی کا لکھنا بہتر ہے۔

آپکے مسائل اور انکا حل جلد ۸
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ
 
Top