تسلیم و رضا (سلسلہ مواعظ حسنہ نمبر6)

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
سلسلہ مواعظ حسنہ نمبر۶

[align=center]تسلیم و رضا

واعِظ:
شیخ العرب و العجم عارف باللہ حضرتِ اقدس مولاناالشاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم العالیہ

جامع و مرتب:
حضرت سیّد عشرت جمیل میر صاحب مدظلہ (خادمِ خاص حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ)

ناشر:
کتب خانہ مظہری (و خانقاہ امدادیہ اشرفیہ)، گلشنِ اقبال، کراچی، پاکستان[/align]

نوٹ: حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ سفرِ ہندوستان سے واپس کراچی آنے پر اپنے ایک ہم وطن اور پڑوسی حفیظ الرحمن صاحب جن کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا، کے گھر تعزیت کے لیے تشریف لے گئے اور گھر والوں کی تسلی کے لیے کچھ کلمات فرمائے، پیشِ نظر وعظ ’’تسلیم و رضا‘‘ اُنھی مبارک و پُرتاثیر کلمات پر مشتمل ہے، جو غمزدہ و شکستہ دِلوں کے لیے ایک مرہم و تسکین ہے۔ (از جامع و مرتب، ملخصاً)
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی۔ اَمَّا بَعْدُ اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
وَبَشِّرِ الصّٰبِریْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ۔ قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
وقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ لِلّٰہِ مَااَخَذَ وَلَہٗ مَااَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی۔ (مشکوٰۃ شریف: ص ۱۵۰)​
حضرات سامعین! اس وقت میں آپ کے گھر پر جو حاضر ہوا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ حبیب الرحمن صاحب کی اہلیہ (والدہ حفیظ الرحمن) کا انتقال ہوا اور اس کے دو چار گھنٹہ کے بعد میں بمبئی سے واپس ہوا۔
اس وقت مجھے علم ہوا جس کے یہاں کوئی صدمہ اور غم پہنچ جائے وہاں حاضر ہونا اور کچھ تسلی کے کلمات پیش کرنا اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت قرار دیا ہے۔ تعزیت کے معنی ہیں تسلی دینا۔ اس لیے تعزیت سنت ہے اور سنت کی برکت سے اللہ تعالیٰ غمزدہ دلوں پر سکون و تسلی کا مرہم عطا فرماتے ہیں لہٰذا اس سنت کا ثواب لینے کے لیے اور اس سنت کو زندہ کرنے کے لیے، اور اس سنت کو ادا کرنے کے لیے مجھے اللہ تعالیٰ نے حاضری کی توفیق عطا فرمائی اور چونکہ یہ حضرات میرے ہم وطن ہیں پرتاب گڈھ کے رہنے والے ہیں۔ یوں تو ہر مسلمان کے ذمہ ہر مسلمان کا حق ہے لیکن بعضے تعلقات کی وجہ سے اس محبت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر پڑوسی کا حق بہت ہے، میرے تو آپ پڑوسی بھی ہیں۔ ایسے وقت میں لوگوں کو تسلی دینے سے اگر نفع نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو مسنون نہ فرماتے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے وہی کام تجویز فرماتے ہیں جس میں ان کے بندوں کا فائدہ ہو۔ شریعت کے جتنے احکام ہیں سب میں ہمارا ہی فائدہ ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری عبادت کا محتاج نہیں۔ اگر ساری دنیا ولی اللہ ہوکر، یورپ کے تمام کافر ممالک امریکا، رُوس، جرمن، جاپان وغیرہ ساری دنیا کے سلاطین مع رعایا مسلمان ہوکر سجدہ میں گر جائیں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت میں ایک ذرّہ اضافہ نہیں ہوگا۔ ان کی شان میں ہمارے سجدوں سے، ہماری عبادتوں سے اضافہ نہیں ہوتا اور اگر ساری دنیا بغاوت کر جائے مان لیجئے کہ دنیا میں ایک مؤمن بھی نہ رہے تو اللہ تعالیٰ کی عظمت کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ پاک کی عظمتِ شان ہماری عبادتوں سے اور بغاوت سے بے نیاز اور بالا تر ہے۔ سبحان اللہ! مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں ؎
من نہ گردم پاک از تسبیح شان​
میں اپنے بندوں کے سبحان اللہ کہنے اور پاکی بیان کرنے سے پاک تھوڑا ہی ہوتا ہوں۔ میں تو پہلے ہی سے پاک ہوں، بلکہ ؎
پاک ہم ایشاں شوند و در فشاں​
جو سبحان اللہ کہتے ہیں اور میری پاکی بیان کرتے ہیں اس کی برکت سے میرے وہ بندے خود پاک ہوجاتے ہیں۔ جب تم کہتے ہو سبحان اللہ کہ اللہ پاک ہے تو ہماری پاکی بیان کرنے کے صدقے میں تم خود پاک ہوتے ہو۔ تم ہمیں کیا پاک کروگے، ہم نے تمہیں منی سے پیدا کیا، ناپاک قطرہ سے۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دستور اور قانون کا یہ راز بتا رہا ہوں کہ رمضان کے روزے ہوں یا نماز ہو یا حج ہو یا زکوٰۃ ہو جتنے بھی احکام ہیں سب میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ میرے بندے عزت کے ساتھ رہیں لہٰذا جن چیزوں سے منع فرمایا وہ ہمارے اوپر ظلم نہیں ہے بلکہ اس میں ہماری عزت ہے۔ مثال کے طور پر جھوٹ بولنا ہے۔ جب آدمی کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے تو ہمیشہ کے لیے دوسرے کی نظر میں اس کی عزت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر کسی کو معلوم ہوجائے کہ یہ ہماری غیبت کرتا ہے، پیٹھ پیچھے بُرائی کرتا ہے تو ہمیشہ کے لیے اس کی عزت ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بدنظری کی ممانعت ہے کہ کسی نامحرم عورت کو مت دیکھو۔ اس میں بھی ہماری عزت ہے کیونکہ عورت جب دیکھتی ہے کہ یہ لوگ نیچی نظر کرکے گذرگئے تو کہتی ہے کہ بڑے شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں جنہوں نے ہمیں نظر اُٹھاکر نہیں دیکھا۔
ملکِ شام جب فتح ہورہا تھا تو عیسائیوں نے اپنی نوجوان لڑکیوں کو دورویہ کھڑا کردیا تھا تاکہ یہ مسلمان گناہ میں مبتلا ہوجائیں تو پھر فتح نہیں ہوسکتی۔ اللہ کی رحمت ہٹ جائے گی، لیکن صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سپہ سالار نے فوراً آیت پڑھی:
’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ۔‘‘
’’اے نبی! آپ ایمان والوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلیں، نامحرموں پر نہ ڈالیں۔‘‘​
لہٰذا سارے لوگ نگاہیں نیچی کرکے گذر گئے۔ عیسائی لڑکیوں نے اپنے والدین سے جاکر کہا کہ آپ نے جو ہم کو ان لوگوں کے لیے جال بنایا تھا تو وہ لوگ ہمارے جال میں نہیں پھنسے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی شان ہم نے دیکھی، وہ فرشتے ہیں، انسان نہیں معلوم ہوتے اور جنگ فتح ہوگئی۔
تو ہمارے لیے شریعت میں جتنے بھی کرنے کے کام ہیں اور جتنے نہ کرنے کے کام ہیں دونوں میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ ہمارے شیخ شاہ عبدالغنی پھولپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کے لوگ جب کام لیتے ہیں تو کام کراکے پھر مزدوری دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایسے کریم مالک ہیں کہ بہت سے کاموں کو کہتے ہیں کہ نہ کرو اور نہ کرکے مجھ سے مزدوری لو۔ وہ کام کیا ہیں مثلاً جھوٹ نہ بولو۔ جھوٹ بولنا بھی تو ایک کام ہے۔ یہ کام نہ کرو، مزدوری لو، ثواب لو۔ غیبت نہ کرو اور مزدوری لو۔ عورتوں کو بُری نظر سے مت دیکھو۔ گانا مت سنو، چوری نہ کرو جتنے بھی گندے کام ہیں خلافِ شریعت کام ہیں۔ ان کاموں کو نہ کرکے مجھ سے مزدوری لے لو۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت فرماتے تھے کہ دنیا میں کوئی فیکٹری مالک ایسا نہیں ہے جو اپنے مزدوروں سے کہہ دے کہ بھائی تم لوگ یہ یہ کام نہ کرو اور نہ کرکے مزدوری لے لو۔ کام نہ کراکے انعام دینا یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کرم ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی نظر بچاتا ہے اللہ کے خوف سے تو اللہ تعالیٰ اسی وقت اس کے دل میں ایمان کی مٹھاس پیدا کردیتے ہیں۔ یعنی حلاوتِ ایمانی عطا فرمادیتے ہیں۔ (کنز العمال: ج ۵، ص ۲۳۸) یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ بصارت کی لذت لے کر بصیرت اور قلب کی لذت دے دی۔
اس وقت جو میری حاضری ہوئی ہے یہ تعزیت مسنون ہے اور اس سنت کے اندر بھی راز ہے کہ اس سے تسلی ہوتی ہے کیونکہ جس کی ماں یا باپ یا کوئی عزیز مرتا ہے اس کے قلب پر ایک زخم ہوتا ہے اور تسلی دینے سے اس میں کمی آتی ہے۔ تسلی دینے سے تسلی ہوتی ہے۔ جیسے زخم پر کوئی مرھم رکھ دے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے اُوپر رحم فرماتے ہوئے ایسے وقت ایک دوسرے کے گھر جانا اور تسلی دینا سنت قرار دے دیا اور تسلی (تعزیت) کو تین روز تک کے لیے سنت قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تین دن کے بعد غم گھٹنے لگتا ہے۔ تین دن تک غم اپنے جوش پر ہوتا ہے لہٰذا تین روز تک تسلی دینا سنت ہے۔ اس کے بعد مسنون نہیں۔ تین دن کے بعد یہ غم آہستہ آہستہ ہلکا ہوتے ہوئے سال دو سال کے بعد آپ کو یاد بھی نہیں آئے گا کہ دل پر کیا سانحہ گذرا تھا۔ تصور میں تو آئے گا کہ میری ماں نہیں ہے لیکن ایسا غم نہیں ہوگا جیسا اس وقت ہے۔ میری والدہ کا ناظم آباد میں جب انتقال ہوا، تقریباً پندرہ سال پہلے تو مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ بس ان کی کوئی چیز دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ ان کی چارپائی دیکھ کر، ان کا پاندان دیکھ کر دل رونے لگتا تھا، لہٰذا میں اپنے دوستوں میں دل بہلانے کے لیے ٹیکسلا وغیرہ چلاگیا لیکن آج غم کا کوئی ایک ذرّہ معلوم نہیں ہوتا۔ بس ایک ہلکا سا خیال تو ہوتا ہی ہے ماں باپ کا۔ بھائی! ماں باپ کی محبت کو تو کوئی شخص بھول سکتا ہی نہیں۔ اس لیے کہ ماں باپ کے لیے اللہ تعالیٰ دُعا سکھارہے ہیں۔ قرآن مجید میں آیت نازل کردی کہ تم اللہ سے یوں کہو:
’’رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔‘‘
اے میرے ربّ میرے ماں باپ پر رحمت نازل فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پروش کی۔ اللہ تعالیٰ سکھارہے ہیں کہ اپنے ماں باپ کے لیے دعا کرتے رہو۔
’’رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔‘‘
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ماں باپ کا اکرام کرو۔ اگر عزت کے ساتھ محبت و اکرام کے ساتھ تم اپنے ماں باپ پر نظر ڈال د وتو ایک حج مقبول کا ثواب ملے گا۔
’’مَا مِنْ وَلَدٍ یَنْظُرُ اِلٰی وَالِدَیْہِ نَظَرَۃَ رَحْمَۃٍ اِلَّا کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بِکُلِّ نَظَرَۃٍ حَجَّۃً مَبْرُوْرَۃً۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف: ص ۴۲۱)
اور اگر تم نے ماں باپ کو ستایا تو موت نہ آئے گی جب تک کہ دنیا میں اس کا عذاب نہ چکھ لو گے۔
’’کُلُّ الذُّنُوبِ یَغْفِرُ اللّٰہُ مِنْہَا مَاشَائَ اِلَّا عُقُوْقَ الْوَالِدَیْنِ فَاِنَّہٗ یُعَجِّلُ لِصَاحِبِہٖ فِی الْحَیٰوۃِ قَبْلَ الْمَمَاتِ۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف: ص ۴۲۱)
اس حدیث کی شرح میں محدثین فرماتے ہیں کہ اور گناہوں کی سزا تو آخرت میں ہے لیکن ماں باپ کا دل دکھانے والوں کی سزا دنیا ہی میں آئے گی اور اس وقت تک موت نہیں آسکتی جب تک کہ اس کا بدلہ نہ مل جائے۔
میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک شخص نے اپنے باپ کے گلے میں رسّی باندھی اور اس کو گھسیٹ کر بانس کے درختوں تک لے گیا جو سامنے دس بیس گز پر تھے۔ باپ نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا! اب اس کے آگے مت کھینچنا ورنہ تو ظالم ہوجائے گا۔
اس نے کہا کہ بابا! کیا ابھی تک ظالم نہیں ہوں یہ جو بیس گز تک رسّی باندھ کر کھینچا ہے۔ باپ نے کہا کہ ہاں! تو ابھی تک ظالم نہیں ہوا کیونکہ میں نے بھی اپنے بابا کو یعنی تیرے دادا کو یہاں تک کھینچا تھا۔ لہٰذا ابھی تک تو مجھے اس کا بدلہ ملا، اب اس جگہ سے اگر تو آگے بڑھے گا تو ظالم ہوجائے گا۔
حضرت فرماتے تھے کہ میں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے ماں باپ کا اکرام کیا تو ان کے بچوں نے ان کا اکرام کیا اور اجنہوں نے اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کی تو جب ان کے بچے بڑے ہوئے تو ان سے ویسا ہی بدلہ ملا ان کو۔ ایک ہاتھ سے دو، دُوسرے ہاتھ سے لو۔
تو ماں باپ کی محبت ایک فطری چیز ہے۔ لیکن مولانا رومی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرماتے ہیں ؎
مادراں را مہر من آمو ختم​
اے لوگوں اور مائوں کی محبت پر ناز کرنے والو! ماں کی محبت میں نے ہی تو پید ای ہے۔ ان کے جگر میں مامتا میں نے ہی تو رکھی ہے لہٰذا میری محبت کا کیا عالَم ہوگا۔ تھوڑا سا اس کو قیاس کرو مائوں کی محبت پر ناز کرنے والو میری محبت کو بھی سوچو کہ جس کی مخلوق میں یہ اثر ہے کہ ماں اپنے بچوں کی تکلیف سے بے چین ہوجاتی ہے۔ چھوٹے بچے بستر پر پیشاب کردیتے ہیں۔ ماں سوکھی جگہ پر بچہ کو سلادیتی ہے اور گیلی جگہ پر خود لیٹ جاتی ہے۔ رات بھر سردی میں کانپ رہی ہے لیکن اپنے بچہ کو وہاں نہیں سونے دیتی۔ اگر بچے ذرا بیمار ہوجاتے ہیں تو رات بھر اس کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹروں کے یہاں دوڑ رہی ہے، بزرگوں سے دُعائیں کرارہی ہے تعویذات لارہی ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مائوں کی محبت پر ناز کرنے والو! ہماری محبت کو بھی سوچا کرو کہ جب ہماری مخلوق میں یہ اثرت ہے تو ہم تمہارے ساتھ کتنی محبت کرتے ہیں لیکن تم محبت کا یک طرفہ ٹریفک چلارہے ہو کہ ہم تو تمہارے ساتھ محبت کرتے ہیں اور تم ہماری یاد میں غفلت کرتے ہو۔ تم نے ہماری قدر نہ کی۔
’’وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حِقَّ قَدْرِہٖ۔‘‘
مولانا رومی نے فرمایا کہ دیکھو اگر کوئی حاجی تمہیں ایک ٹوپی پہنادیتا ہے تو تم تین دفعہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہو کہ حاجی صاحب اللہ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے ہمیں مکہ شریف کی ٹوپی پہنادی جس نے اللہ کا شہر دیکھا۔ مدینہ پاک کی ٹوپی آپ نے ہمیں دے دی۔ لیکن فرماتے ہیں کہ جس نے سر بنایا اس کا بھی کبھی شکر ادا کیا۔ اگر خدا سر نہ دیتا تو تم ٹوپی کہاں رکھتے۔ گردن پر رکھتے؟
لہٰذا ذرا اس کا بھی خیال کیا کرو کہ جس نے سر عطا فرمایا، اس کا کتنا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ اس سر کا شکریہ ادا کرو یعنی سجدہ کرو، نمازیں پڑھو۔ جو شخص نماز میں سر سجدہ میں رکھتا ہے، سر کا شکریہ ادا کرتا ہے جب اللہ کے سامنے جھک گیا آدھے دھڑا کا شکریہ ادا ہوگیا اور جب سجدہ میں سر رکھ دیا تو پورے اعضاء ہی بچھ گئے۔ سجدہ میں پورا شکر ادا ہوتا ہے، اس لیے اتنا قرب بندہ کو کہیں نہیں ملتا جتنا سجدہ میں ملتا ہے۔
شاعر کہتا ہے جس نے سجدہ کا عجیب نقشہ کھینچا ہے ؎
پردے اُدھے ہوئے بھی ہیں اُن کی اِدھر نظر بھی ہے
بڑھ کے مقدّر آزما سر بھی ہے سنگِ در بھی ہے​
سنگِ در دروازہ کی چوکھٹ کو کہتے ہیں جہا سجدہ میں سر ہوتا ہے اللہ کی چوکھٹ ہے وہ۔ اور فرماتے ہیں ؎
دین میں اسی کی روشنی شب میں اسی کی چاندنی
سچ تو یہ ہے کہ رُوئے یار شمس بھی ہے قمر بھی ہے​
اگر چاند سورج کو اللہ روشنی نہ دیا تو یہ کہاں سے لاتے، سورج کی روشنی بھیک ہے اللہ کی۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎
گر تو ماہ و مہرا را گوئی خِفاء​
اے خدا سورج اور چاند کو اگر آپ فرمادیں کہ تم اندھیرے ہو بے نُور ہو اور
گر تو قد سرو را گوئی دوتا​
اے اللہ! اگر آپ قدِّسرو کو جو بالکل سیدھا ہوتا ہے اور شاعر لوگ اپنے محبوبوں کے قد سے تعبیر کرتے ہیں لیکن اے اللہ! آپ قدوسرو کو یعنی سرو کے درخت کے قد کو کہہ دیں کہ تُو ٹیڑھا ہے اور
گر تو کان و بحرا را گوئی فقیر​
اگر سونے اور چاندی کی کانوں کو اور سمندروں کو جہاں کروڑوں کروڑوں کے موتی ہوتے ہیں آپ فقیر فرمادیں اور
گر تو چرخ و عرش را گوئی حقیر​
اگر آسمانوں کو اور عرشِ اعظم کو آپ کہہ دیں کہ تم حقیر مخلوق ہو ؎
ایں بہ نسبت باکمال تو رواست
ملک و اقبال و غناہا مر تو راست​
تو یہ آپ کی عظمت کے لیے زیبا ہے اور عزت و اقبال و بلندی آپ ہی کی شان کے لائق ہے کیونکہ آپ خالق ہیں۔ آپ ان کو حقیر کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ ہی نے ان کو روشنی دی۔
اس لیے شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
دن میں اسی کی روشنی شب میں اسی کی چاندنی
سچ تو یہ ہے کہ روئے یار شمس بھی ہے قمر بھی ہے​
چاند سورج بھی بھک منگے ہیں اللہ کے۔ اللہ سے مانگا ہے انہوں نے، اللہ سے پایا ہے یہ نُور۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ کے نام میں دونوں جہان کی لذت ہے۔ اللہ کا نام دونوں جہان کی لذتوں کا کیپ سول ہے۔ جن کو اللہ کے نام کا مزہ مل گیا انہوں نے سلطنتیں لٹادیں۔ سلطان ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے سلطنتِ بلخ کو لٹادیا۔ اللہ کے نام میں وہ مزہ پایا کہ سلطنت ان کو تلخ پڑگئی اور آدھی رات کو گدڑی پہن کر اپنی حدودِ سلطنت سے نکل گئے اور دس سال نیشاپور کے جنگل میں دریائے دجلہ کے کنارے عبادت کی اور اللہ نے ان کو کس مقام پر پہنچایا کہ قرآن پاک کی تفسیروں میں ان کا تذکرہ آرہا ہے۔ رُوح المعانی جو پندرہ جلدوں میں ہے عربی زبان میں ہے جس کا کوئی ترجمہ نہیں۔ علامہ آلوسی السید محمود بغدادی مفتی بغداد نے چوتھے پارے کی ایک آیت کی تفسیر کے ذیل میں ان کا قصہ بیان فرمایا ؎
اب میرا نام بھی آئے گا ترے نام کے ساتھ​
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
کتنے بادشاہ مرگئے لیکن کیا قرآن کی تفسیر میں کسی کا ذکر آیا؟ ایک یہ بادشاہ ہے جس نے اللہ کی محبت میں سلطنت لٹادی آج اس کا ذکر قرآن کی تفسیروں میں ہورہا ہے۔
دوستو! جو اللہ پر مرتا ہے تو اللہ کے نام کے ساتھ اس کا نام بھی مخلوق کی زبان پر آتا ہے۔ جہاں اللہ کا ذکر ہوتا ہے وہاں اللہ کے عاشقوں کا ذکر بھی ہوتا ہے۔
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کا ترجمہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کے نام کو بلند کردیا۔ اس کی تفسیر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
’’اِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِیَ۔‘‘ (روح المعانی: ج ۳۰، ص ۱۶۹)
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! جب بندے میرا نام لیں گے تو تیرا نام بھی لیں گے۔ جب مؤذن اشھد اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہے گا تو اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ بھی کہے گا۔ میرے نام سے تو اب الگ نہیں ہوسکتا۔
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ میں نے آپ کے نام کو بلند کردیا۔ جب میں عالم اور کائنات میں یاد کیا جائوں گا تو میری یاد کے ساتھ تیرا نام بھی لیا جائے گا۔ اللہ اللہ کیا شان ہے۔ کیا عزت ہے۔ اس کو عزت کہتے ہیں۔
تو دوستو! ایک دن قبر میں اُترنا ہے اور سب کو جانا ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو دنیا میں آیا ہو اور نہ جائے۔ ہم لوگ دنیا کے نیشنل نہیں ہیں، یہاں کا قیام ایک عارضی نیشنلٹی ہے لیکن درحقیقت میں ہم یہاں کے نیشنل نہیں ہیں، پردیسی ہیں اور یہی دلیل ہے کہ ہمارے جو عزیز جاتے ہیں اس کا ثبوت پیش کرکے جاتے ہیں کہ دیکھو دنیا پردیس ہے اس سے دل نہ لگانا۔
اللہ تعالیٰ نے غمزدہ دلوں کے لیے ارشاد فرمایا کہ جب تم کو کوئی صدمہ اور غم پہنچے جب کوئی مصیبت کا واقعہ پیش آجائے تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ایسے لوگوں کو بشارت دے دیجئے، خوشخبری سنادیجئے جو کسی مصیبت کے وقت میں اپنے ربّ کی مرضی پر راضی رہتے ہیں اور ان کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے کوئی اعتراض اور شکایت نہیں ہوتی اور کہتے ہیں
’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘
حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا شرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘ میں زبردست تسلی کا مضمون بیان فرمایا ہے۔ اس آیت میں دو جملے ہیں: ایک ’’اِنَّا لِلّٰہِ‘‘ دُوسرا ’’وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ‘‘
’’اِنَّا لِلّٰہِ‘‘ کے معنی ہیں کہ ہم سب اللہ کے مملوک ہیں غلام ہیں۔ لام ملکیت کے لیے آتا ہے یعنی ہم اپنی ذات کے مالک نہیں ہیں۔ اگر اپنی ذات کے مالک ہوتے تو خودکشی جائز ہوتی کیونکہ اپنی چیز میں آدمی کو تصرّف کا حق ہے۔ اگر ہم اپنی چیز ہوتے تو گلے میں پھندا ڈالنا جرم نہ ہوتا لیکن خودکشی اس لیے حرام ہے کہ تم اپنے مالک نہیں ہو تو ہماری امانت ہو، ہماری چیز ہو تمہیں اپنا گلا گھونٹنے کا کی حق ہے۔ یعنی خودکشی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے مالک نہیں ہیں، ہمارے جسم و جان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ’’اِنَّا لِلّٰہِ‘‘ کے معنی ہیں کہ ہم سب اللہ کی ملکیت میں ہیں، لہٰذا اس جملہ میں ایک تسلی تو یہ ہے کہ جب ہم مملوک اور غلام ہیں تو مالک کو ہمارے اندر ہر تصرف کا حق حاصل ہے جو چیز چاہے ہم کو دے۔ جس کو چاہے ہم سے لے لے۔ کیونکہ صدمہ کے وقت میں دو خیال آتے ہیں: ایک تو یہ کہ ہماری ماں، باپ یا شوہر کو جلدی بلالیا، ہم سے چھین لیا۔ اس کا جواب ’’اِنَّا لِلّٰہِ‘‘ ہے کہ تمہاری ماں، باپ، شوہر یا بیٹا بھی ہماری ملکیت، تم بھی ہمارے غلام۔ اور مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف کا حق حاصل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عمر ساتھ رہنے سے محبت ہوجاتی ہے۔ اب اس عزیز کی جدائی سے جو غم ہورہا ہے اس کا کیا علاج ہے۔ تو اس کے لیے تسلی کا دوسرا مضمون ’’وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ‘‘ میں نازل فرمادیا کہ اللہ ہی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ یہ جدائی دائمی تھوڑی ہے، عارضی جدائی ہے۔ آج تمہاری ماں گئی ہے، ایک دن تم بھی ہمارے پاس واپس ہوگے۔
آج وہ کل ہماری باری ہے​
اور وہاں سب اعزاء و اقرباء پھر مل جائیں گے اور پھر کبھی جدائی نہ ہوگی لہٰذا کیوں گھبراتے ہو۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت اِنَّا لِلّٰہِ الخـ کی تفسیر کے ذیل میں اس حقیقت کو ایک عجیب مثال سے سمجھایا فرماتے ہیں کہ مثلاً کسی شخص نے ایک الماری خریدی جس میں دو خانے ہیں۔ نیچے کے خانے میں اس نے ایک درجن گلاس اور ایک درجن چائے کی پیالیاں لاکر رکھ دیں۔ سال بھر تک اسی خانے میں وہ گلاس اور چائے کی پیالیاں رکھی رہیں۔ پھر اس الماری کے مالک نے اپنے نوکر کو حکم دیا کہ سال بھر پہلے جو چائے کی بارہ پیالیاں اور بارہ گلاس میں نے نیچے کے خانے میں رکھے ہیں، تم اس نیچے والے خانہ سے ایک گلاس اور ایک پیالی اُٹھاکر اوپر والے خانہ میں رکھ دو۔ ملازم نے کہا: حضور! آپ ایسا حکم کیوں دے رہے ہیں؟ مالک کہتا ہے کہ نالائق! یہ الماری میری، اس کے دونوں خانے میرے، گلاس اور چائے کی پیالیاں میری اور تم بھی میرے نوکر۔ تم کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں جو میں کہتا ہوں ویسا کرو، لہٰذا اس نے ایک پیالی اور ایک گلاس اُٹھاکر اُوپر والے خانہ میں رکھ دیا۔ پھر نوکر نے کہا کہ حضور! اب بات سمجھ میں آگئی کہ آپ الماری کے مالک ہیں اور اس کے دونوں خانوں کے بھی مالک ہیں اور گلاس اور چائے کی پیالیوں کے بھی ملک ہیں جس گلاس اور پیالی کو چاہیں آپ نیچے والے خانے سے اُوپر والے خانے میں رکھنے کا حکم دے دیں۔
لیکن حضور مجھے ایک اشکال ہے وہ بھی آپ حل فرمادیں اور وہ اشکال یہ ہے کہ یہ بارہ پیالیاں اور بارہ گلاس جو ایک سال سے آپس میں ساتھ تھے ان کی آپس میں محبت ہوچکی تھی، اب ایک گلاس اور ایک پیالی کو ان سے جدا کرکے آپ نے اُوپر کے خانہ میں رکھ دیا تو یہ گیارہ پیالیاں اور گیارہ گلاس رو رہے ہیں جو ساتھ رہتے تھے اس کا کیا علاج ہے؟ مالک نے کہا: گھبرائو مت! یہ گیارہ پیالیاں اور گیارہ گلاس جو نیچے والے خانہ میں ہیں ان سب کو ہم یکے بعد دیگرے اُوپر والے خانہ میں لے جانے والے ہیں۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
لہٰذا یہ غم عارضی غم ہے، یہ ان کا دائمی غم نہیں ہے۔ اب حکیم الامت فرماتے ہیں کہ یہ دنیا اور آخرت اللہ تعالیٰ کی ایک الماری ہے۔ ایک خانہ آسمان کے نیچے ہے اور ایک خانہ آسمان کے اوپر ہے۔ آسمان کے نیچے والے کانہ کا نام دنیا ہے اور آسمان کے اوپر والے خانہ کا نام آخرت ہے۔ ہم لوگ اللہ کے گلاس اور پیالیوں کی طرح ہیں۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ جب تک چاہتے ہیں ہمیں نیچے والے خانہ میں رکھتے ہیں اور جب ان کا حکم ہوجاتا ہے کہ اب اس کا وقت پورا ہوگیا تو اس خانہ سے اُٹھاکر آسمان کے اوپر والے خانہ میں اپنے پاس بلالیتے ہیں۔
تو دوستو! آپ کی والدہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس خانہ سے اُٹھاکر دوسرے خانہ میں منتقل کردیا ہے، الماری بھی اللہ کی، نیچے والا خانہ بھی خدا کا، آسمان سے اوپر والا خانہ بھی اللہ کا اور ہم لوگ بھی اللہ کے، ہمارے ماں باپ بھی اللہ کی ملکیت۔ اللہ کو اختیار ہے۔ اتنے ہی دن کا ویزا دیا تھا۔ اس کے بعد ایک سیکنڈ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا تھا۔ ساری دنیا کے ڈاکٹر بھی جمع ہوجائیں تو کسی کو روک نہیں سکتے۔ جب کوئی مرتا ہے تو سمجھ لو کہ یہی وقت تھا اس کے جانے کا۔ حتیٰ کہ جب وقت آجاتا ہے تو ہارٹ اسپیشلسٹ بھی اپنے کو نہیں روک سکتا اور اپنے دل کی رفتار جاری نہیں رکھ سکتا۔ دل کے ماہر ڈاکٹر جمعہ کا ہارٹ فیل ہوا۔ دوسرے کے دل کی رفتار گن رہا ہے، دل کی حرکت کا شمار کررہا ہے اور خود کے دل کی حرکت بند ہوگئی۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ پیاروں کی جدائی کا غم تو ہوتا ہے۔ میری ماں کی جدائی کا کیا علاج ہے؟ اسی طرح باپ یا بیوی یا کسی کا شوہر چلا گیا تو ان کے غم کا کیا علاج ہے؟ اس کا علاج ارشاد فرمایا گیا: ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘ کہ یہ جدائی عارضی ہے اور اس اوپر والے خانہ میں ہم لوگ بھی یکے بعد دیگرے جانے والے ہیں اور ہمارا زیادہ خاندان تو وہیں ہے۔ ہمارے دادا اور نانا، اور دادا کے دادا اور نانا کے نانا، جن کو ہم نے دیکھا بھی نہیں سب اوپر ہیں۔ زیادہ رشتہ دار تو وہیں ہیں۔ آپ سوچئے وہاں کتنا بڑا خاندان ہے جو پردیس سے وطن چلے گئے سب خاندان والوں نے ان کا استقبال کیا ہوگا۔
تو غمزدہ دلوں کے لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تسلی کا زبردست مضمون نازل فرمایا ہے اور اس سے قبل ہی صبر کرنے والوں کو یہ بشارت بھی سنادی کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابرَیْنَ یعنی ہم صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ پس کسی کے انتقال پر یا مصیبت پر جو اجر و ثواب ہم نے تمہارے لیے رکھا ہے وہ تو ہے ہی لیکن اگر تم سے تمہاری کوئی چیز کھوگئی، تمہاری اولاد، ماں باپ، بیوی یا شوہر کا انتقال ہوگیا تو اس کے بدلہ میں ہم تمہیں اپنی معیتِ خاصہ اپنا قربِ خاص عطا کرتے ہیں۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابرَیْنَ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہے۔
آپ سوچئے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو اس کی کیا قسمت ہے اور اس کے لیے کتنی بڑی دولت کی بشارت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مکہ کے نومسلم قریش نوجوانوں کو کچھ بکریاں، کچھ بھیڑ کچھ اونٹ زیادہ دے دیئے۔ تو شیطان نے بعض انصاری نوجوانوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ دیکھو ابھی تک رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ والوں سے زیادہ اُنس ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مکہ والوں کو دیا اور ہم لوگوں کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان کے اس خطرناک زہریلے مکر سے مطلع فرمایا۔ آپ نے سارے صحابہ کو جمع کرکے فرمایا کہ اے مدینہ کے انصار! تمہیں شیطان نے بہکانے کی کوشش کی ہے۔ ہوشیار ہوجائو! یہ نہ سمجھو کہ چند بھیڑ اور بکریاں اہلِ قریش کو دینے کی وجہ سے میری محبت تمہارے ساتھ کم ہے جو نومسلم ہیں ابھی جلد اسلام لائے ہیں۔ میں نے ان کی دلجوئی اور ان کو خوش کرنے کے لیے یہ بھیڑیں اور بکریاں دے دی ہیں، لیکن خوب غور سے سن لو! یہ قریشِ مکہ ابھی جب مکہ شریف کو واپس ہوں گے تو میری دی ہوئی چند بھیڑیں، چند بکریاں اور چند اونٹ لے کر جائیں گے اور اے مدینہ والو! تم جب مدینہ واپس ہوگے تو اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ لے کر جائو گے۔ میرا مرنا جینا تمہارے ساتھ ہے۔ رسولِ خدا کی عظمت و قیمت تمہارے قلوب میں کیا ہے۔ بس صحابہ اس خوشی میں اتنا روئے کہ آنسو ان کی داڑھیوں سے بہہ رہے تھے۔ (بخاری: ج۲، ص ۶۲۰-۶۲۱ و سیرت المصطفیٰ: ج ۲، ص ۶۷ بحوالہ تاریخ ابن اثیر)
تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بشارت دی کہ اگر تم سے کوئی چیز چھن گئی، تمہارے باپ چھن گئے، بیٹے کا انتقال ہوگیا تو اللہ تعالیٰ تو تمہارے ساتھ ہے جس پر ہزاروں جانیں قربان ہوں، اولاد قربان ہو، ایسی ذات پاک نے کیسی بشارت دی ہے۔
اور جدائی کا طبعی غم تو ہوتا ہی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ساتھ رہنے سے محبت ہوجاتی ہے جس سے ہم رونے لگتے ہیں اور رونے کی اجازت بھی ہے۔ مگر ایسی بات نہ نکالے کہ ہائے! میری ماں کیوں مر گئی اور اللہ نے کیوں اُٹھالیا؟ کیوں نہ لگائو بس یہ کہو کہ اللہ مجھے اپنی ماں کی جدائی کا غم ہے۔ یہ کہنا بھی سنت ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کا جب انتقال ہوا تو فرمایا: ’’اے ابراہیم! تمہاری جدائی سے نبی غمگین ہے۔‘‘ (ابوداود: ج ۲، ص ۹۰) اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے تو معلوم ہوا کہ آنکھوں سے آنسو بہہ جانا بھی سنت ہے اور اظہارِ غم بھی سنت ہے کہ مجھے اپنی والدہ کا صدمہ ہے اور یہ کہہ کر اگر آنسو بہہ جائیں تو یہ سنت کے خلاف نہیں بلکہ رولینا چاہئے کیونکہ بعض لوگوں نے بہت ضبط کیا تو ان کو ہمیشہ کے لیے دل کی بیماری لگ گئی۔ پھر کوئی خمیرہ کام نہ آیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر رحمت فرمائی کہ رونے کی اجازت عطا فرمادی کیونکہ تھوڑا سا رو لینے سے دل کا غم پانی بن کر بہہ جاتا ہے۔ ایسے وقت میں بعض لوگوں نے سوچا کہ ہم کو نہیں رونا چاہئے یا تو ان کو سنت کا علم نہیں تھا یا کسی حال کا غلبہ ہوگیا۔ ایک دم آنسوئوں کو ضبط کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہارٹ فیل ہوگیا۔ اس لیے یہ تھوڑا سا رولینا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سکھایا خود رو کرکے۔ اب نبی سے بڑھ کر کون صبر والا ہوسکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ رونا صبر کے خلاف نہیں۔ ورنہ سنت کیوں ہوتا۔ نبی سے بڑھ کر کس کا ظرف ہوسکتا ہے جنہوں نے طائف کے بازار میں ہزاروں پتھر کھاکر اُف نہیں کی۔ اُحد کے دامن میں کافروں کے تیروں سے جو خون مبارک بہا آپ اپنے اس خون کو پوچھتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس اُمت کا کیا حال ہوگا جو اپنے پیغمبر کو لہولہان کرتی ہے لیکن اسی خونِ مبارک کے صدقہ میں ہم آج عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں ورنہ رام چند اور گنیش سنگھ اور رام پرشاد ہوتے۔ آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی خون کا صدقہ ہے جس کی برکت سے ہم مسلمان ہیں۔ اسلام آپ کے خونِ مبارک کے صدقہ میں پھیلا ہے۔ صحابہ کی گردنیں کٹی ہیں۔ ستر ستر شہید اُحد کے دامن میں سوئے ہوئے ہیں۔ ان کی وفاداریوں کی برکت سے آج اللہ نے ہم کو اسلام دیا، کلمہ عطا فرمایا ورنہ ہم لوگ ایمان سے محروم رہتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ہمارے ایمان اور اسلام کی خاطر اپنے پیاروں کا خون بہانا گوارا فرمایا۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ موت سے آدمی فنا نہیں ہوتا، دنیا سے آخرت میں منتقل ہوتا ہے۔ موت دراصل انتقال ہے پردیس سے اپنے وطن کی طرف جہاں وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
ہمارے سلسلہ کے بزرگوں میں دہلی میں ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں جن کا نام مظہرجانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو انہوں نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں ایک شعر لکھ دیا تھا۔ اس شعر کو پڑھ کر گھر والوں کو تسلی ہوگئی، وہ شعر کیا تھا؟ فرماتے ہیں ؎
لوگ کہتے ہیں کہ مظہر مرگیا
اور مظہر درحقیت گھر گیا​
اللہ اکبر! کیا شعر ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ مظہر مرگیا اور مظہر تو اپنے گھر گیا، پردیس سے اپنے وطن چلا گیا۔ جہاں سے آیا تھا اللہ میاں کے پاس۔ یہ مرنا نہیں ہے، تبدیلی ہے۔ جیسے ایک شہر سے دوسرے شہر آدمی منتقل ہوجاتا ہے، لہٰذا کوئی اپنے گھر جائے تو آپ کیوں اتنا زیادہ روتے ہیں۔
میں نے جہاں جہاں بیان کیا اس شعر کو سنتے ہی لوگوں کو بڑی تسلی ہوئی۔ ابھی الٰہ آباد میں بھی بیان کیا تھا۔ ایک صاحب بڑے رئیس زمیندار تھے۔ ان کو ڈاکوئوں نے فائر کرکے شہید کردیا۔ ان کے برادرِ نسبتی انیس صاحب الٰہ آبادی ہمارے دوست ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ بڑا حادثہ پیش آگیا۔ سارے گھر والے بے چین ہیں، میں ان کے یہاں گیا اور تقریر کی سب نے کہا کہ صاحب دل میں ٹھنڈک پڑگئی۔ ایسی تسلی ہوئی کہ غم بالکل ہلکا ہوگیا، جیسے ہے ہی نہیں۔ الحمدللہ تعالیٰ اور تھوڑا سا غم بھی اللہ کی مصلحت ہے۔ یہ محبت کا حق ہے۔ مرنے والے کی محبت کا حق ہے لہٰذا غم تو ہوگا وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ ہلکا ہوجائے گا۔ تب ہی تو تسلی دینا سنت قرار دیا۔ غم نہ ہوتا تو تسلی دینا سنت ہی نہ ہوتا۔ کسی ایسے شخص کو جاکر تسلی دیجئے جس کو غم نہ ہو تو وہ کہے گا آپ مجھے کیوں پریشان کررہے ہیں، کہیں زخم نہ ہو اور مرہم لگائیے تو کہے گا کہ بھائی آپ مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔ ارے! زخم تو ہے ہی نہیں، پھر مرھم سے کیا فائدہ۔
تو تسلی سنت جب ہے جب غم ہو۔ معلوم ہوا کہ پیاروں کے انتقال سے غم ہوتا ہے، اس لیے غم کو ہلکا کرنے کے لیے تعزیت کو سنت قرار دیا۔ اللہ سے زیادہ کون جانے گا جس نے ہمیں زندگی دی، جو غم اور خوشی کا خالق اور مالک ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے والد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جب انتقال ہوا تو بہت لوگوں نے تعزیت کی لیکن ایک بدوی (دیہاتی) بزرگ آئے اور انہوں نے ایسی تعزیت کی جس سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بہت تسلی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اے عبداللہ ابن عباس! تمہارے والد کا انتقال ہوگیا۔ یہ بتائو کہ تمہارے والد کے لیے تم زیادہ بہتر ہو یا عباس کا اللہ زیادہ بہتر ہے اور عباس کی وفات سے جو تمہیں غم پہنچا اور اس مصیبت پر صبر کے بدلہ میں جو تمہیں اجر و ثواب ملا بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ مل گیا تو یہ بتائو کہ یہ انعامِ عظیم تمہارے لیے کیا عباس سے بہتر نہیں ہے۔
سبحان اللہ! کیا عنوان ہے! دیہات کے تھے وہ، لیکن اللہ جس کو چاہے مضمون عطا فرماتا ہے جیسا کہ حضرت پرتاب گڈھی دامت برکاتہم فرماتے ہیں ؎
جو آسکتا نہیں وہم و گماں میں
اسے کیا پا سکیں لفظ و معانی
کسی نے اپنے بے پایاں کرم سے
مجھے خود کردیا رُوح المعانی​
عجب تسلی کا مضمون ان کے منہ سے نکلا۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنے ابا کے لیے رو رہے ہو اور تمہارے ابا اپنے ربّا کے پاس چلے گئے جو ارحم الراحمین ہے۔ پس ان کا ربّ تم سے بہتر ہے اور ان کی جدائی پر صبر کے بدلہ میں تمہیں اللہ مل گیا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابرَیْنَ اور اجر و ثواب ملا تو یہ انعام تمہارے لیے تمہارے ابّا سے بہتر ہے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور جدائی بھی عارضی ہے۔ سب چند دن کی باتیں ہیں۔ پھر سب کو وہیں جانا ہے، وہاں سب سے پھر ملاقات ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
اور حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ گھر میں کسی کی موت آجانا یہ بھی اللہ کی رحمت ہے، اس لیے کہ آج آپ اپنی اماں کے انتقال کو نہیں چاہتے۔ دل سے یہی چاہتے ہیں کہ میری اماں ابھی کچھ دن اور زندہ رہتی۔ تو آپ کی اماں بھی یہی چاہتی کہ میری اماں بھی نہ مریں یعنی نانی۔ اور نانی بھی یہی چاہتی کہ میری اماں بھی نہ مریں تو اگر سب کی آرزو اللہ پوری کردیتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ ایک گھر میں زیادہ نہیں، صرف پانچ نانے اور پانچ نانیاں لیٹی ہوئی ہوں اور پانچ دادے اور پانچ دادیاں لیٹی ہوں۔ کوئی پانچ سو برس کا ہے، کوئی تین سو برس کا، سب کے چارپائی پر پاخانے ہورہے ہیں تو آپ نہ تو نوکری کرسکتے نہ اپنے بال بچوں کی پرورش کرسکتے۔ یہ ہمارے دو سو چالیس گز کے پلاٹ کیا۔ ارے! ہزار گز کے پلاٹ بھی ناکافی ہوجاتے۔ پھر آپ تعویذ دباتے اور دعائیں کرتے کہ یہ جلدی سے مریں، اس لیے یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ لوگوں کو اپنے اپنے وقت پر پردیس سے وطن اصلی کی طرف منتقل فرماتے رہتے ہیں۔ جب بال سفید ہوگئے سمجھ لو کھیتی پک گئی اور کھیتی پک جانے کے بعد کسان کہاں کھیت میں چھوڑتا ہے۔
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب بال سفید ہوجائیں تو ہوشیار ہوجائو کہ تمہاری زندگی کی کھیتی پک چکی ہے لہٰذا تیار رہو اب کسی بھی وقت حضرت عزرائیل علیہ السلام درانتی لے کر آئیں گے اور تمہاری زندگی کی کھیتی کاٹ لیں گے۔
مولانا رومی کا بھی کیا اندازِ بیان ہے فرماتے ہیں کہ جلدی جلدی تیاری کرلو کٹائی کا وقت قریب آچکا ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
یہ تو ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ کی تفسیر بیان ہوگئی اور جو حدیث شریف میں نے پڑھی اس کا ترجمہ یہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’اِنَّ لِلّٰہِ مَااَخَذَ وَلَہٗ مَااَعْطٰی۔‘‘ اللہ جو چیز ہم سے لیتا ہے وہ ہماری نہیں اللہ کی ہے، اس کا مالک اللہ ہے جو چیز اس نے لے لی ہے وہ اسی نے عطا فرمائی تھی۔ اگر کوئی اپنی امانت واپس لے لے تو آپ اس پر زیادہ غم نہیں کرتے کیونکہ وہ آپ کی چیزیں نہیں تھی جس کی تھی اس نے لے لی وہ اس کا مالک ہے۔ ہم کو جد حد سے زیادہ غم ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ غلطی سے اس کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں حالانکہ الفاظِ نبوت یہ ہیں: ’’اِنَّ لِلّٰہِ مَااَخَذَ‘‘ جو کچھ اللہ نے تم سے لے لیا، جس کو اللہ نے اپنے پاس بلالیا وہ اللہ ہی کا تھا۔ اسے تم کیوں اپنا سمجھتے ہو۔ اگر آپ کو کوئی شخص اپنی گھڑی دے دے کہ آپ دو مہینے اس کو استعمال کرلیجئے۔ پھر دو مہینے کے بعد وہ آپ سے گھڑی مانگے کہ میری گھڑی واپس کردیجئے تو آپ روئیں گے نہیں۔ آپ یہی کہیں گے کہ ٹھیک ہے صاحب لیجئے یہ آپ کی گھڑی ہے بلکہ آپ کا شکریہ کہ اتنے دن تک آپ نے اپنی گھڑی مجھے دی تھی۔ تو آپ بھی شکر کریں کہ ہماری والدہ کو اللہ نے اتنی زندگی دی ورنہ اس سے پہلے بھی تو اللہ تعالیٰ ان کو اُٹھاسکتے تھے۔ بچپن ہی میں آپ کو چھوٹا سا چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اُٹھاسکتے تھے۔ یہ ان کا احسان ہے کہ آپ لوگ بڑے ہوگئے۔ ماشاء اللہ بچے دار ہوگئے۔ تب بلایا اتنے روز تک آپ کے پاس رکھا لہٰذا شکر ادا کیجئے کہ اللہ آپ کا شکر ہے کہ آپ نے ہماری والدہ کو اتنے عرصہ ہمیں دیے رکھا جیسے وہ شخص کہتا ہے جس کو آپ نے گھڑی دی کہ ہم آپ کے شکر گذارہیں کہ اتنے عرصہ تک اپنی گھڑی آپ نے ہمیں دی ہوئی تھی جو کچھ لے لیا وہ بھی اللہ کا وَلَہٗ مَا اَعْطٰی اور جو کچھ عطا فرمایا وہ بھی اللہ ہی کا ہے جو چیزیں دی ہیں ان کا بھی شکر ادا کیجئے۔ ان کا شکر کیا ہے کہ یااللہ! آپ کا احسان ہے کہ آپ نے میرے والد کا سایہ میرے سر پر عطا فرمایا ہوا ہے اور کتنی نعمتیں دی ہوئی ہیں۔ میری اولاد ہے، بیوی بچے ہیں، مکان ہے، ہزاروں نعمتیں دی ہوئی ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا شکر ادا کیجئے کہ اے اللہ! آپ کی بے شمار نعمتوں کا بے شمار زبانوں سے شکر ادا کرتا ہوں۔
’’وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے جو کچھ اللہ لیتا ہے اور جو کچھ عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں پہلے ہی سے مقدر ہے یہاں تک کہ برتنوں کا وقت بھی مقرر ہے۔ مثلاً آپ مدینہ شریف سے ایک گلاس لائے لیکن اچانک کسی بچہ سے وہ گرگیا تو سمجھ لیجئے کہ اس کا یہی وقت مقرر تھا۔ حدیث پاک میں ہے کہ برتنوں کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، اس لیے اپنے بچوں کی بے طرح پٹائی نہ کرو کہ نالائق تو نے مدینہ شریف کا گلاس کیوں توڑ دیا۔ مار پٹائی کررہے ہیں، گھر میں ایک شور مچا ہوا ہے۔ اکثر لوگ اس معاملہ میں بچوں پر زیادتی کرجاتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ نرمی سے سمجھادو کہ بیٹے گلاس کو دونوں ہاتھوں سے مضبوط پکڑا کرو لیکن زیادہ پٹائی نہ کرو بلکہ کہو۔
’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ اس کی زندگی کا وقت ختم ہوگیا تھا اور اس کا یہی وقت مقرر تھا۔ جس کے گھر میں کوئی غمی ہوجائے تو ایسے وقت میں اس کے ذمہ دو کام ہیں: ایک تو یہ کہ جانے والے کے لیے ثواب پہنچائے کیونکہ چلا گیا، اب وہ بے عمل ہوگیا۔ اس کی عمل کی فیلڈ ختم ہوگئی۔ اب وہ خود کوئی عمل نہیں کرسکتا لہٰذا اس کو صبح و شام ثواب کا پارسل بھیجنا چاہئے۔ یعنی زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کیجئے۔ بدنی عبادت اور مالی عبادت دونوں کا ثواب پہنچانا چاہئے۔ بدنی ثواب تو اس طرح سے کہ تلاوت کرلی مثلاً سورہ یٰسین پڑھ کر بخش دیا یا تین مرتبہ قل ہواللہ پڑھ کر ہمیشہ صبح و شام بخش دیا۔ تین بار قل ہواللہ پڑھنے سے ایک قرآن کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اللہ سے کہہ دیا کہ یااللہ! یہ جو میں نے پڑھا ہے، اس کا ثواب میری والدہ کو پہنچادیجئے۔ اس طرح روز کا روز صبح و شام آپ کی طرف سے ثواب کا پارسل پہنچتا رہے گا۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ ثواب پہنچتا ہے تو وہ مرنے والے پوچھتے ہیں کہ اللہ میاں! یہ ہماری نیکیاں کہاں سے بڑھ رہی ہیں، ہم تو مرگئے ہیں، اب عمل نہیں کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہاری اولاد تمہیں ثواب بھیج رہی ہے۔ دیکھئے! زمین پر دوسروں کا عمل اور آخرت میں مرنے والوں کے اعمال نامہ میں لکھا جارہا ہے۔ اس طرح ان کے عمل کا میٹر چل رہا ہے کیونکہ اب وہ عمل نہیں کرسکتے لہٰذا ہمارے پارسلوں کا انتظار کرتے ہیں کہ ہماری اولاد ہمیں کچھ بھیجے۔
حدیث شریف میں ہے کہ یہ ثواب کا تحفہ ان کو دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا ہے لہٰذا اس کا معمول بنالیجئے کہ روزانہ ہمیشہ کچھ پڑھ کر اپنے اعزاء و اقرباء کو جو مرگئے ہیں بخش دیا کہ کم از کم صبح و شام تین مرتبہ قُل ہُوَاللّٰہُ شریف تین مرتبہ، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ تین مرتبہ، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر بخش دیا اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مخلوق کے ہر شر سے حفاظت رہے گی۔ کسی قسم کا کالا جادو یا جنات یا شیطان کوئی پڑوسی اور کوئی حاسد آپ کو ایک ذرّہ نقصان نہیں پہنچاسکتا، کیونکہ الفاظِ نبوت ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے کہ ’’تَکْفِیْکَ مِنْ کُلِّ شَئٍی۔‘‘ (مشکوٰۃ: ص ۱۸۸)
یعنی یہ تینوں سورتیں ہر شر سے حفاظت کے لیے کافی ہیں۔ نبی کی بات کو اللہ ٹالتا کیونکہ نبی وہی کہتا ہے جو اللہ کہلاتا ہے۔ نبی اپنی طبیعت سے کوئی بات کہتا ہی نہیں۔ صبح کو پڑھ لیا تو شام تک حفاظت ہوگئی اور شام کو پڑھ لیا تو رات بھر حفاظت رہے گی۔
اگر کوئی حاسد جادو یا سفلی عمل کرے گا تو اس عمل کی برکت سے الٹا اسی پر پڑجائے گا۔ کوئی دُشمن کے آپ کے خلاف اسکیم بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ناکام کردیں گے۔ اس لیے صبح و شام یہ تینوں سورتیں آپ بھی پڑھئے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی پڑھائیے اور اسی کو اپنی والدہ کو بخش دیجئے۔ ان کو ثواب بھی پہنچ جائے گا اور آپ لوگ حاسدین اور شیاطین کے شر سے اور جنات اور کالا عمل کرانے والوں کے شر سے غرض ساری مخلوق کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ آج کل تو بس ذرا ذرا سی دُشمنی پر جادو اور کالا عمل کرادیتے ہیں۔ پھر ہم لوگ عاملوں کی طرف دوڑرتے ہیں تو عاملوں کے پاس جانے کی بجائے ہم یہ عمل کیوں نہ کرلیں جو ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا ہے جس کے بعد کسی عامل کے پاس جانے کی کبھی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ آج کل ننانوے فیصد عامل ٹھگ بیٹھے ہیں۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
میرے پاس نواب قیصر صاحب ایک بڑے میاں کو لے کر آئے۔ وہ ہمارے بڑے معزز اللہ والے دوست ہیں۔ نواب قیصر صرف نواب نہیں ہیں، میرے گمان میں وہ ایک ولی اللہ شخص ہیں۔ آپ ان کے تہجد اور عبادت کو دیکھئے آپ حیران رہ جائیں گے اور تواضع کی بھی عجیب شان ہے۔ مولانا فقیر محمد صاحب دامت برکاتہم کے خلیفہ بھی ہیں۔ وہ لے کر آئے کہ صاحب ان کا کاروبار ٹھپ ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کوئی تعویذ دے دیں۔ میں نے پوچھا کہ اس سے پہلے کہیں گئے تھے۔
ان صاحب نے کہا کہ ہاں ناظم آباد میں ایک عامل کے پاس گیا تھا۔ اس نے پوچھا کہ کیا شکایت ہے۔ میں نے کہا کہ میرا کاروبار ٹھپ ہے۔ اس نے کہا کہ تمہارا نام کیا ہے۔ پھر میری اماں کا نام پوچھا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ تین دن کے بعد آنا۔ میرا جو مؤکل ہے وہ جادو یا کالاعمل جو ہوگا تلاش کرلائے گا لیکن اس کی فیس پانچ سو روپے ہے۔ انہوں نے پانچ سو روپے دے دیئے اور تین دن کے بعد گئے کہا کہ جب میں وہاں گیا تو اس نے مٹی میں لگا ہوا ایک کاغذ اور کتھا چونا لگا ہوا ایک کپڑا مجھے دیا جس میں گیار سوئیاں چبھی ہوئی تھیں اور اس کے اندر ایک کاغذ تھا جس میں تین مرتبہ لکھا تھا کاروبار ٹھپ، کاروبار ٹھپ، کاروبار ٹھپ اور میرا نام بھی لکھا ہوا تھا اور صاحب میری اماں کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ پانچ سو روپے جو اُس نے آپ سے لیے تو معلوم بھی ہے کہ اس کے بعد اس کو کیا کرنا پڑا۔ کاروبار ٹھپ تو اس نے آپ سے پوچھ ہی لیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ نے ایک دفعہ کہا تھا۔ اس نے تین جگہ لکھ دیا کاروبار ٹھپ، کاروبار ٹھپ، کاروبار ٹھپ۔ اور آپ سے آپ کا اور آپ کی والدہ کا نام بھی پوچھ لیا تھا، اس میں بھی اس کے مؤکل کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اب آپ سے جو پانچ روپیہ لیا ہے یہ صرف گیارہ سوئوں کا دام ہے۔ ایسا نفع بخش بزنس کہاں ملے گا؟ آپ بے کار عاملوں کے پاس جارہے ہیں۔ آپ بھی یہی کام شروع کردیں جو آئے اس سے پوچھئے کیا شکایت ہے؟ کیا کاروبار ٹھپ ہے؟ وہ کہے گا: ہاں! پھر آپ اس سے اس کا نام پوچھئے اور اس کی والدہ کا نام پوچھئے بس کاغذ پر تین دفعہ لکھ دیا کاروبار ٹھپ اور گملہ میں مٹی ڈال کر اس کاغذ اور ذرا سے کپڑے پر مٹی لگاکر گیارہ سوئیاں چبھو دو۔ بس ایک دعہ دس ہزار سوئیاں خرید لو۔ دس ہزار سوئیوں سے دس لاکھ کمالو۔ گیارہ سوئیوں پر پانچ سو روپے کا جو نفع ہے اس کا ذرا آپ تصور کیجئے۔ تب وہ ہنسے اور کہا کہ افوہ! بے وقوف بن گئے۔ توبہ توبہ! آج سے میں کسی عامل کے پاس نہیں جائوں گا۔ واقعی ان میں اکثر ٹھگ ہیں۔ اتنا ڈرا دیتے ہیں کہ بے چارہ کی آدھی جان وہیں سوکھ جاتی ہے کہ اوہو! تمہارے اوپر بڑا خطرناک کالاعمل کیا گیا ہے، اس طرح ڈراکر پیسے لے لیتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں ہمارے لیے سب وظیفے موجود ہیں۔ اس کو پڑھتے رہیں پھر کسی عامل کی ضرورت نہیں۔ البتہ کامل کی ضرورت ہے۔ یعنی شیخ کامل کی اللہ والوں کی جن کی صحبتوں سے اللہ کی محبت عطا ہوتی ہے۔ دین کی دولت ملتی ہے، اس لیے عامل کو نہ تلاش کرو، کامل کو تلاش کرو۔
میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ تم لوگ اللہ والوں کے پاس کب جاتے ہو؟ جب کوئی بیمار ہوگی تو شفاء کے لیے دم کرانے جائوگے۔ نوکری خطرہ میں ہوگی تو تعویذ لینے جائوگے۔ فیکٹری ڈوبتی نظر آئے گی تو ان سے تعویذ مانگوگے، لیکن یہ بتائو مٹھائی والوں سے تم مٹھائی لیتے ہو، امرود والوں سے امرود لیتے ہو، کپڑے والوں سے کپڑا خریدتے ہو۔ کبھی تم نے کپڑوالوں سے مٹھائی نہیں مانگی اور مٹھائی والوں سے کپڑا نہیں مانگا۔ تم اللہ والوں سے اللہ کو کیوں نہیں مانگتے ہو۔ وہاں جاکر تم دنیا ہی مانگتے ہو۔
شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب ہمارے سلسلہ کے اکابر اولیاء اللہ میں سے ہیں۔ انگریزوں سے جنگ لڑی تھی۔ اسی عذر کے زمانہ میں ہجرت فرمائی۔ کعبہ شریف میں غلافِ کعبہ پکڑ کر یہ شعر پڑھا تھا ؎
کوئی تجھ سے کچھ کوئی کچھ مانگتا ہے
الٰہی میں تجھ سے طلب گار تیرا​
اے خدا! میں آپ سے آپ ہی کو مانگ رہا ہوں کیونکہ جو اللہ کو پاگیا سب کچھ پاگیا۔
جو تُو میرا تو سب میرا فلک میرا زمیں میری
اگر اک تُو نہیں میرا تو کوئی شئے نہیں میری​
حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ جس نے دنیا میں اللہ کو نہ پایا وہ خالی ہاتھ آیا، خالی ہاتھ گیا ؎
تجھی کو جویاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا​
اے خدا! اگر دنیا میں آپ کو نہ پایا، آپ کی عبادت نہ کی، آپ کا نام نہ لیا تو دنیا میں میرا آنا نہ آنا برابر ہوگیا۔ کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ دنیا کی فیلڈ عبادت کے لیے ہے، اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے ہے، یہ کمائی کی جگہ ہے جس کی کمائی وطنِ آخرت میں کھائی جائے گی۔ اگر ہم دنیا کے لیے پیدا ہوتے تو ہم کو موت ہی نہ آتی۔ یہ ہماری کمائی اگر صرف یہاں کے لیے ہوتی تو پردیس سے ہمیں رخصت نہ ہونا پڑتا۔ کوئی کتنا ہی علاج کرالے لیکن جب وقت آگیا تو ذرا کوئی روک کر دکھائے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
مکمل وعظ پی ڈی ایف میں آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دی گئی تصویر پر کلک کیجئے

 

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ،جزاک اللہ،حیاک اللہ، ایدک اللہ۔اخی ارمغاں
اللہ آپ کو خوش رکھیے، آپ نے کمال کردیا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت والا دامت برکاتہم کا درد دل کا ایک ذرہ عطا فرمائے۔
والسلام:
 
Top