جوتوں کے لائق

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
نیک دل بادشاہ عوام سے تنگ آ گیا تھا اور ایک دن اپنی سلطنت کو چھوڑ کر جانے لگا وزیر سے بولا تم جانو اور یہ عوام میں جا رہا ہوں،
بادشاہ کے ساتھ اس سلطنت میں جھاڑوں پونچھ کرنے والا ایک خاکروب بھی ساتھ ہو لیا،

بادشاہ خاکروب سے بولا میں تو پتا نہیں کہاں کہاں دھکے کھاؤں گا تم کیوں میرے ساتھ ہو لئے ہو؟
خاکروب بولا بادشاہ سلامت آپ سلطنت کے مالک تھے تو خدمت کی آگے بھی جب تک سانس رہی خدمت کروں گا،

الغرض دونوں چلتے چلتے ایک دوسرے ملک پہنچے جہاں کا بادشاہ وفات پا چکا تھا اور نئے بادشاہ کا چناؤ ہونا تھا جس کا طریقہ کا یہ تھا کہ ملک کی ساری عوام ایک بہت بڑے گراؤنڈ میں جمع ہو جاتی اور ایک پرندہ اڑا دیا جاتا،
یہ پرندہ جس کے سر پر بیٹھ جاتا وہ ہی بادشاہ بن جاتا تھا،

بادشاہ نے خاکروب سے کہاچلو ہم بھی یہ تماشہ دیکھتے ہیں کہ کون بادشاہ بنتا ہے،

الغرض وہ دونوں بھی مجمع میں شامل ہوگئے،

پرندہ اڑایا گیا، گراؤنڈ کا چکر لگانے کے بعد پرندہ اس خاکروب کے سر پر آ بیٹھا،

اس ملک کی عوام اور وزراء نے خاکروب کے سر پر بادشاہت کا تاج رکھ دیا،

خاکروب جس بادشاہ کے ساتھ آیا تھا اس سے بولا بادشاہ سلامت آپ بھی میرے ساتھ سکون سے محل میں رہیں،
بادشاہ بولا نہیں بادشاہت والی زندگی سے میں اکتا چکا ہوں بس میں محل سے باہر ایک جھونپڑے میں رہ لوں گا،
تو خاکروب بولا ٹھیک ہے دن میں بادشاہت کروں گا اور رات کو آپ کے ساتھ رہوں گا،

خاکروب کی بادشاہت کا پہلا دن تھا،
دربار لگا ہوا تھا،
اتنے میں ایک فریادی آیا اور کہا فلاں بندے نے میری چوری کی،
خاکروب بادشاہ نے کہاں فورا" چوری کرنے والے کو حاضر کیا جائے جب مطلوبہ بندہ آیا تو خاکروب بادشاہ نے حکم
دیا کہ چور اور جس کی چوری ہوئی ہے دونوں کو 20,20 کوڑے مارے جائیں،
سب حیران ہوئے کے یہ سب کیا ہو رہا ہے لیکن بادشاہ کا حکم تھا،

تھوڑی دیر بعد ایک اور فریادی آیا اور بولا فلاں شخص نے مجھے مارا ہے تو خاکروب بادشاہ نے پھر وہی حکم دیا کہ ظالم اور مظلوم دونوں کو 20,20 کوڑے مارے جائیں،

الغرض دن میں جتنی فریادیں آئی اس نے ظالم اور مظلوم دونوں کو کوڑے مروائے،

رات کو جب وہ خاکروب بادشاہ کی جھونپڑی میں پہنچا تو بادشاہ نے کہا
او بھائی یہ سب کیا تماشہ تھا تم نے سب کو پٹوا دیا
لوگ کہ رہے ہیں کہ بہت ظالم بادشاہ ہے،



تو وہ خاکروب بولا
عالی جاہ اگر اس قوم کو ایک نیک اور اچھے بادشاہ کی ضرورت ہوتی تو وہ پرندہ میرے سر پر بیٹھنے کی بجائے آپ کے سر پے بیٹھتا،
یہ جیسی قوم ہے اسکو ویسا ہی حکمران ملا ہے،

کچھ قومیں واقعی جوتوں کے قابل ہوتی ہیں.

کچه ایسا ہی حال بد قسمتی سے ہم پا کستانیوں کا بھی ہے
وہی تصویریں پھر پارلیمنٹ میں سجا لیں جنھیں کئی بار آزمایا اور پر کھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ چلے جائیں گے دوسرے پھر آجائیں گے ۔۔۔۔۔۔ اور عوام کہیں گے ہماری قسمت نہیں بدلی ۔۔۔۔۔۔۔ جناب آپ خود اپنی قسمت بدلنا نہیں چاھتے مگر آپ کی وجہ سے آپ کے وزرا کی قسمت بدلتی بدلتی جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوش ہو جائے آپ کی وجہ سے کسی کی قسمت تو بدلی ۔۔۔۔۔۔۔ میرے بھائی ہمیں خود اپنی سوچ وفکر کو بد لنا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔ پھر سب کچھ بدلا بدلا محسوس ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر نہ بدلہ تو پھر خاکروب بادشاہ کےانصاف کا طریقہ ہم پر استعمال ہو تا رہے گا
 
Top