کامیابی کا راز، مستقل مزاجی ـ

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
بہت سے افراد کو دیکھا ہے کہ وہ کسی کام کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں ، پھران کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کام کو کریں ـ پھر اسباب اور ذرائع پرغور کرکے انہیں بھی اکٹھا کر لیتے ہیں اور اس کام کا آغاز ہو جاتا ہے۔چند دن تک تو وہ کام بہت خوش و خروش سے کیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اس میں کمی واقعی ہوجاتی ہے ، پہلے سا شوق نہیں رہتا اور پھر ایک دن آتا ہے جب یہ تمام اسباب و وسائل اپنے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے کی بجائے سرد مہری کا شکار ہو جاتے ہیں ـ ان پر گرد جمنے لگتی ہے اور جو کام بہت خوش و خروش سے شروع کیا گیا تھا ـ اس کا انجام بجز خسارے کے اور کچھ نہیں نکلتا ـ یہ تعمیری کام مطلوبہ نتائج تک نہیں پہنچتے ! آخر کیوں ؟

اس لیے کہ کسی بھی کام کو اس کے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کے لیے صرف یہی ضروری نہیں کہ انسان میں شوق اور ہمت ہو ، ایک بہت ضروری چیز تسلسل کے ساتھ محنت کرنا بھی ضروری ہے ـ جو لوگ کسی کام کو تسلسل کے کرتے رہتے ہیں وہ اپنی ناؤ کو ایک دن ضرور ساحل تک پہنچا کر رہتے ہیں ـ
بہت سے بچے اپنی تعلیم کے لیے ضروری سامان مہیا کرتے ہیں ، چند دن تک شوق سے پڑھتے ہیں لیکن چند دن بعد ہی ان کا شوق کسی اور میدان کو طلب کرتا ہے ـ اپنی تعلیم سے اکتا کر کسی اور وادی میں اترجاتے ہیں اور انجام کار امتحان میں ناکامی کا داغ لگ جاتا ہے ـ

اس کے برعکس کتنے ہی طالب علم ایسے ہوتے ہیں جنہیں اگرچہ تعلیم کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہوتا لیکن چونکہ ان کی محنت میں تسلسل ہوتا ہے اور وہ تمام سال پڑھتے رہتے ہیں اس لیے کامیابی بھی ان کے قدم چومتی ہے ـ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے علاوہ اس محنت میں پوشیدہ ہے جس محنت میں تسلسل پایا(continuous struggle)جائےـ

حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (463-392) لکھتے ہیں :
عن الفضل بن سعيد ين أسلم قال:" كان رجل يطلب العلم فلا يقدر عليه . فعزم على تركه , فمر بماء ينحدر من رلأس جبل على صخرة، قد أثر الماء فيها ، فقال: الماء على لطافتة قد أُثرفي صخرة على كثافتها ، والله لأطلبن العلم ، فطلب فأدرك ".
(الجامع لأخلاق الراوي و آداب السامع ، فصل ، رقم 1545,ج:2 ، ص 179).
''فضل بن سعید نے کہا کہ'' ایک آدمی کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا ، لیکن وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا ، چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب علم حاصل نہیں کرے گا ، اس کا گزر ایک پہاڑ کے پاس سے ہوا جسکی چوٹی سے پانی ایک چٹان پر مسلسل گررہا تھا اور اس تسلسل نے چٹان میں شگاف پیدا کردیا تھا ـ وہ بولا: پانی نے اپنی لطافت کے باوجود مسلسل بہہ کر چٹان کی کثافت میں یہ شگاف پیدا کردیا ـ سو اللہ کی قسم ! میں بھی ضرور علم حاصل کروں گا ـ پھر وہ علم کی دھن میں لگ گیا اور علم کو حاصل کر لیا ''

اس کی طلب علم میں صرف ایک چیز کی کمی تھی اور وہ تھا محنت کا تسلسل ـ
اس کی نگاہِ بینا نے چٹان کے شگاف کو دیکھ کر اس راز کو جان لیا کہ طالب علم صرف وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنی محنت میں تسلسل پیدا کر لے ، یہ کمی دور ہوئی اور وہ بھی عالم بن گیا ـ

بشکریہ ۔ ماہنامہ ''الندوہ ۔ اسلام آباد ''
 
Top