محفل میلاد وقیام حقیقت کے آئینہ میں

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محفل میلاد وقیام حقیقت کے آئینہ میں​

استاذی حضرت مولانا مقبول احمد صاحب مظاہری کا یہ قیمتی مضمون ریاض الجنۃ دسمبر ۲۰۱۳ منقول ہے۔


نفسِ ذکر ولادت اور مروجہ مجلس مولود یا میلاد دونوں الگ الگ دو چیزیں ہیں ، بلکہ دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے ، نفس ذکر ولادت کے متعلق کسی کا بھی اختلاف نہیں ، بلکہ سب کا اتفاق ہے کہ بلا شبہ جائز، بلکہ باعثِ خیرو ثواب ہے ، نیز موجب از دیاد محبت ہے ، ایسا مقدس ذکر یا ایسی پاک محفل اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو نصیب کرے ، البتہ مروجہ مجلس میلاد میں علماء کا اختلاف ہے ، واقعہ یہ ہے کہ آغاز اسلام سے چھ سو برس تک اس محفل کا پتہ نہیں چلتا ،اس پر سب کا اتفاق ہے کہ چھ سو ہجری تک اس مجلس کا وجود امت میں نہیں تھا ۔

مجلس میلاد کا پہلا بانی کون ؟
مجلس میلاد سے عام طور پر لوگوں کو آج کل جو حسن ظن ہے ، اس کا مقتضیٰ تو یہ تھا کہ اس کے موجد اور بانی کی حیثیت سے حضور پر نور ْﷺ کا یا خلفا ء راشدین میں سے کسی خلیفہ کا یا ائمہ مجتہدین میں سے کسی امام کا نام زبان پر آتا مگر ان کے وقت میں جب محفل مولود کا وجود ہی نہ تھا تو ان کا نام کیونکر لیا جا سکتا ہے ، پھر کس نے اس کو ایجاد کیا ؟ تو موافقین ومخالفین سب نے ہی اس کو تسلیم کیا کہ عمر بن محمد موصلی ہیں ، جنہوں نے دنیا میں سب سے پہلے شہر موصل میں مجلس میلاد کو ایجاد کیا ۔

ہندوستان کے مولود کی مثال :
مولانا اشرفعلی تھانویؒ نے وعظ شکر النعمہ میں فر مایا ہے کہ “ہندوستان کے مولود کی مثال تو شیعوں کی مجلس جیسی ہے لکھنؤ میں محرم کے مہینہ میں جا بجا مجلس حسین ہوتی ہے ، ایک شیعی شخص نے ایک سنبی وکیل سے کہا کہ آپ مجلس حسین میں شریک نہیں ہوتے ، انہوں نے کہا کہ مجلس حسین تو میں نے آج تک یہاں کہیں ہوتے ہوئے نہیں سنی ،اس نے کہا کہ واہ صاحب لکھنؤ میں خدا جھوٹ نہ بلاوے ،روز آنہ پچاس جگہ تو مجلس حسین آج کل محرم میں ہوتی ہے ،ان وکیل صاحب نے کہا کہ صاحب میں نے تو کہیں بھی مجلس حسین نہیں سنی ،اور اگر آپ کو میرا اعتبار نہیں تو تھوڑی دیر آپ یہاں تشریف رکھئے،ابھی معلوم ہو جائیگا ، تھوڑی دیر میں ایک شخص دعوت دینے آیا کہ فلاں صاحب کے یہاں آج مجلس ہے ، وکیل صاحب نے پوچھا بھائی کا ہے کی ہے ؟ اس نے کہا : شیرینی کی ، اس کے بعد دوسرا شخص آیا کہ فلاں رئیس کے یہاں رات کو مجلس ہے انہوں نے پو چھا کہ میاں کا ہے کی ؟ اس نے کہا شیر مال کی ، تیسرا آیا ،اس نے کہا شیرینی کی ، وکیل صاحب نے ان سے کہا کہ آپ نے سن لیا ،امام حسین کا تو کہیں بھی ذکر نہیں ، کہیں شیر مال کی مجلس ہے ، کہیں فیرنی کی ہے ، کہیں شیرینی کی ہے ، یہی حال آج کل ہماری مجلس میلاد کا ہے کہ اکثر مٹھائی کی بدولت مجمع ہوتا ہے ،اگر مٹھائی نہ تقسیم ہو تو نہ کوئی پڑھے اور نہ کوئی سننے آوے ، خدا کو بھی دھوکہ دینا چاہتے ہیں کہ ہم رسول کا ذکر کررہے ہیں ۔
اس زمانہ میں خیر خیرات کا پتہ نہیں ، ہاں صرف شیرینی تقسیم کر نے کی رسم جاری ہے ،اور اب مولود کر نے والے کے ذمہ مٹھائی کا ٹیکس ایسا واجب الاداء ہے کہ بلا مٹھائی کے مولود ہی نہیں ہو سکتا ، وہ غریب چاہے خود فاقہ مست ہو اور اسے قرض ہی لینا پڑے ، مگر رواج اور شر ما حضوری کا ناس ہو کہ اس کی بدولت مٹھائی ضرور تقسیم کرنا ہے ، دولت مندوں کو دیکھا ہے کہ دیگر دینی ضروری کام درپیش ہیں ، لیکن وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور بڑے دھوم دھام سے مولود کی مٹھائی تقسیم کرتے ہیں۔
مولود خواں: معلوم نہیں عمر بن محمد موجد اول کے یہاں موصل والی مجلس مولود میں میلاد خواں کون اور کس حیثیت کے تھے ، ہاں اس زمانے میں اس ترقی کی حد ہو گئی کہ میلاد خوانی کے لئے عموماً شریعت کی پا بندی اور دینداری کی ضرورت ہے ، نہ علم کی کی ضرورت ہے نہ مرد کی خصوصیت اور نہ خلوص کی ضرورت ہے ، یہی وجہ ہے کہ پڑھنے والوں کی صورت اور سیرت اکثر خلاف شریعت نظر آتی ہے ، کسی کی دڑھی صاف ہے تو کسی مونچھیں بڑی ہیں ، کوئی بے نمازی ہے تو کوئی تارک جماعت غرض طرح طرح کے فسق وفجور میں مبتلا ہیں ، مگر مجلس میلاد میں بڑے شان وفخر کے ساتھ تخت پر بیٹھتے ہیں۔
جہالت کا یہ عالم ہے کہ نہ عربی بھی آتی ہے،نہ فارسی مولود خوانی کیلئے بس اردو دانی کافی ہے ، یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں جاہل نا خواندہ حرف نا شناس بھی بڑی شان سے مولود خوانی کر تے ہیں ، بعض ایسے کورے ہو تے ہیں کہ ٹھیک سے انہیں اردو بھی نہیں آتی ، لیکن اردو رسالوں کا ایک بستہ لے کر مجلس میں بڑے شوق کے ساتھ مولود پڑھنے بیٹھ جاتے ہیں خلوص کی یہ حالت ہے کہ بنتے تو ہیں محب نبی ، عاشق رسول ، مداح نبی ، مداح رسول ، لیکن مولود خوانی کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے ، تنہا پڑھنے والے تو بلا شرکتِ غیر ے اجرت پاتے ہیں اور ٹولی والے آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں ، یہ لو گ اپنا پیشہ چمکانے کی غرض سے سارے ہندوستان کا اپنے آپ کو کبھی طوطی ہند مشہور کرتے ہیں ، کبھی بلبل ہند کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ ،اگر ان کا تما شا دیکھنا ہو تو ماہ محرم میں دیکھ لیجئے کہ کیسے اس موسم میں بر ساتی مینڈکوں کی طرح کثرت سے ابل پڑتے ہیں ، کاش مولود خوانی کی اجرت اور مٹھائی بند ہو جاتی تو ان پیشہ ور میلا خوانوں کے دعویٰ محبت اور عشق رسول کا پتہ چل جاتا ۔

میلاد کے سامعین حضرات
معلوم نہیں عمر بن محمد موصلی کی مجلس میں کون اور کس قسم کے لوگ شریک ہوا کرتے تھے ، آج علماء صلحاء مشائخ کے بجائے عموماً دین وشریت کے نا واقف آزاد عوام ہی کی تعداد ہوتی ہے ،زیادہ تر لوگ مٹھائی کی لالچ سے آتے ہیں ، یہ لوگ عموماً قریب ختم کے پہنچتے ہیں ،ان کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ مولود کرنے والا امیر ہے یا غریب ، مٹھائی حلال روپئے کی ہے یا حرام کی ، ان کو صرف مٹھائی سے مطلب ہوتا ہے ، عورتیں الگ بچے لئے بیٹھی رہتی ہیں ، نو خیز لڑکوں کے علاوہ مرد دو چار بار حصہ حاصل کر نے کے مشتاق ہو تے ہیں ، بعض مہذب لوگ بھی دو چار بار حصہ لینے سے نہیں چو کتے ۔

کتب میلاد : مولود کی پہلی کتاب عربی میں ابن دحیہ اندلسی نے ۶۰۴ھ میں لکھی تھی ، جس پر سلطان اربل سے انھیں ایک ہزار اشرفیاں انعام ملی تھیں ، بعد میں بہتوں نے عربی فارسی تر کی اور اردو وغیرہ میں بہت سی چھوٹی بڑی کتا بیں تصنیف وتالیف کر دیں، یقین نہ آئے تو مولدِ سعیدی ، مولودِ شہیدی وغیرہ رسائل میلادیہ ملا حظہ ہوں، ابتداء عالموں نے کی تھی اور انتہا جا ہلوں پر ہو گئی ،ان رسالوں میں غیر مستند روایات بلکہ چھوٹی اور سرمناک روایتیں موجود ہیں ، جن نقل کرنا عبث اور فضول ہے ، آج میلاد کی مجلسوں میں جس مولود خواں کو دیکھئے مولود سعیدی اور مولود شہیدی جیسے اردو رسائل کا پٹارہ لئے ہو ئے شوق سے پڑھتے ہیں چند اشعار ملا حظہ ہوں۔
خد ا رخ سے پرتا اٹھاتا ہے آج۔۔۔۔محمد کو جلوہ دکھاتا ہے آج
دکھاتا ہے کیا مر تبہ قرب کا۔۔۔۔ کہ زانو سے زانو ملاتا ہے آج​
روز آنہ پڑھ کر حضور ﷺ کو خدا کا ہمنشین بنایا جاتا ہے ،اور کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ، یہ تو حضور ﷺ کو نہایت بد تمیزی کے ساتھ خدا کا ہم نشین بنانے کا شعر تھا ،اب حضور ﷺ کو خدا بنانے کا شعر بھی سن لیجئے ۔
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر ۔۔۔ اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفیٰ ہو کر​
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تبلیغ کے تیسرے وعظ میں شکر النعمۃ میں بیان فر مایا ہے کہ کسی شاعر نے آپ کی نعت لکھنے کے لئے خیالی سیاہی تیار کی ہے ، تو اس کے لئے دیدہ یعقوب کھرل بنایا ہے ، وہ شعر یہ ہے ۔
روشنائی بنا لیجئے اگر ہے منظور ۔۔۔۔پھر نہیں ملنے کا جبریل امیں سا مزدور
پیسنے کے لئے ہو دیدہ یعقوب کِھرل​
استغفر اللہ یعقوب علیہ السلام کی شان میں کس قدر گستاخی ہے ، کسی دوسرے شاعر نے اس کا خوب جواب دیا ہے
ابھی تو اس آنکھ کو ڈالے کوئی پتھر سے کچل ۔۔۔۔ نظر آتا ہے جسے دیدہ یعقوب کِھِرل​

اسی طرح اور لوگوں کے بھی بہت سے اشعار ہیں مثلاً
اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے۔۔۔جو کچھ مجھے لینا ہے لے لوں گا محمد سے​
کسی شاعری گہی کا ایک نمونہ اور بھی ملاحطہ فر مائیے
اے رشکِ مسیحا تری رفتار کے قرباں۔۔۔۔۔ٹھو کر سے کئی بار مری لاش جِلادی
اے باد صبا ہم تجھے کیا یاد کریں گے۔۔۔۔اُس گل کی خبر تو نے کبھی ہم کو نہ لادی​
نعت گوئی کا یہ مختصر سا نمونہ ہے ، جس میں خدا کی تو ہین فر شتوں کی تو ہین حضور ﷺ کی تو ہین صاف مو جود ہے ۔
عقیدہ کے لحاظ سے مروجہ مجلس میلاد کے متعلق متعدد عقیدے ہیں :
عقیدہ(۱)مجلس میلاد میں حضور ﷺ تشریف لاتے ہیں؟ مجلس میلاد جب ایجاد ہوئی ،اس وقت یہ کسی کا عقیدہ نہیں تھا ، پھر معلوم نہیں کہ اس عقیدہ کی ابتدا کب ہو ئی ، مجھے اس وقت اس سے بحث نہیں کہ یہ عقیدہ صحیح ہے یا غلط ؟ لیکن معتقدین سے اتنی شکایت ضرور ہے کہ اس عقیدہ کو ثابت کر نے کیلئے وہ منکرین کا مقابلہ میں جو کہدد دیا کرتے ہیں ؟ کہ خدا نے جب شیطان کو اتنی قوت دی ہے کہ آن واحد میں دور ونزدیک پہنچ جاتا ہے تو حضور ﷺ میں بھی اس قوت کا ہونا اور ایک وقت میں اکثر جگہ مجالس میلاد میں پہنچنا کون سی بڑی بات ہے یہ دلیل کتنی لچر ہے اور قابل افسوس ہے کہ محبوب خدا ﷺ کی ذات اقدس کو، مردود خدا کی نجس ذات پر قیاس کیا جاتا ہے ، یہ بڑی جرأت کی بات ہے ۔

عقیدہ(۲) مجلس میلاد سے خیر وبر کت ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر اذکار کی طرح آپ ﷺ کا نفس ذکر ولادت بھی موجب خیر وبر کت ہے ، لیکن یہ مروجہ مجلس بھی باعث خیرو بر کت ہے ؟ غالباً ایجاد میلاد کے وقت یہ کسی کا خیال نہ تھا ، خیر وبر کت سمجھنے میں لوگوں نے اس حد تک ترقی کر لی ہے کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے وعظ النور میں فر مایا ہے کہ “بعض لوگف ایسے بھی ہیں کہ ان کو ضد نہیں ہے “مگر وہ اس لئے مولود کرتے ہیں کہ سال بھر تک بر کت رہے گی ، رشوت لیں گے تو اس کا وبال نہ ہو گا۔

عقیدہ (۴)مولود سے عذاب میں کمی ہوتی ہے ؟اس کا مآخذ غالباً ابو لہب کے تخفیفِ عذاب کا واقعہ ہے کہ آپ ﷺ جب تو لد ہوئے تو اس خوشی میں آپ ﷺ کے چچا ابو لہب نے ثوبیہ باندی کوآزاد کر دیا تھا ،اور مرنے کے بعد ابو لہب نے کسی سے خواب بیان کیا کہ اس کا ثمریہ ملا کہ مجھ پر دو شنبہ کے دن عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے لیکن یہ نہ قرآن کی آیت ہے نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ، بس زیادہ سے زیادہ ایک صحابی کا خواب ہے ،اور خواب میں ایک کافر ابو لہب کا قول ہے ۔

محفل میلاد میں قیام
مولود کی طرح قیام کا بھی حال مقتدی بلا امام والی بات ہےکہ عمل قیام میں بہت سے حضرات مقلد اور مقتدی تو ہیں لیکن ان کا امام وپیشوا غائب اور نا معلوم ہے ،اس لئے اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ عمل قیام قرون ثلاثہ کے بعد کی ایجاد ہے اور اتنے بعد کی ایجاد ہے کہ خود مولود کے ایجاد اور رواج کے وقت بھی اس کا وجود نہ تھا ، یعنی موصل میں عمر بن محمد نے جب پہلا میلاد ایجاد کیا تھ تو بلا قیام کیا اربل میں ملک مظفر الدین نے ۶۰۴؁ھ میں جب مولود کو رواج دیا اور مرتے دم تک تک ہر سال دھوم دھام سے مولود کراتا رہا ، تو اس میں بھی بہت کچھ تھا ، مگر قیام نہ تھا ، صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ آٹھویں صدی ہجری میں قیام کا وجود تھا ، مگر اس کی ابتدا کب ہوئی ؟ کچھ پتہ نہیں۔
 
Top