فقاہت راوی کی شرط اوربعض علماء احناف کا موقف

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
موقف سمجھے بغیر اعتراض:

غیرمقلدین حضرات کا یہ اکثروطیرہ رہاہے کہ وہ احناف کا موقف سمجھے بغیر احناف پر اعتراض شروع کردیتے ہیں۔اگرکسی کو اس دعوے میں شک ہوتوان کی مختلف کتابیں دیکھ لے جو احناف پر اعتراض کی خاطر لکھی گئی ہیں۔ جیسے حقیقۃ الفقہ، نتائج التقلید ،اوراسی قسم کی دوسری کتابیں۔ حد تویہ ہے کہ ان کے بعض افراد جو بڑے ثقہ اورمعتدل مزاج سمجھے جاتے ہیں وہ احناف پر اعتراض کرنے میں اس روش عام سے الگ نہیں ہیں۔ اس بھیڑ چال میں وہ بھی شامل ہیں۔ اگرکسی کو شک ہے تونتائج التقلید میں مولانااسماعیل کی تقریظ پڑھ لے جس میں انہوں نے نتائج التقلید کے مصنف سے پوری موافقت کااظہار کیاہےاس کے علاوہ تحریک آزادی فکر اورحضرت شاہ ولی اللہ پڑھ لے جس کے سطور سے اعتدال اوربین السطور سے احناف پر طعن وتعریض جھلکتی ہے۔ جس کے بعض مباحث کا مولانا تقی عثمانی نے "تقلید کی شرعی حیثیت میں"جائزہ لیاہے اورعمدہ جواب دیاہے۔

صحابہ پر طعن کا اعتراض

انہی اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ احناف نےبعض صحابہ کرام کو غیرفقیہہ کہہ کر ان کی توہین کی ہے۔ چونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی قدر کو بعض مستشرقین اورآزاد خیال افراد نے تنقید کا نشانہ بنایاہے اس طرح یہ تاثردیاجاتاہے کہ ایسے تمام لوگ جنہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر غیرمناسب تنقید کی ہے ان کو یہ ہمت اورحوصلہ احناف سے ہی ملاہے یاپھر احناف نے حضرت ابوہریرہ کو غیرفقہہ کہہ کر دشمنان دین کے مقصد کو پوراکیاہے۔ اوراس طرح پورے ذخیرہ احادیث کو مشتبہ بنادیاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتراضات کم علمی بلکہ لاعلمی اورجہالت کی پیداوار ہیں اوراحناف کے موقف کو صحیح طورپر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اگراحناف کے موقف کو صحیح طورپر سمجھاجاتاتوپھر یہ اعتراض نہ کیاجاتاکہ حضرت ابوہریرہ کو غیرفقہہ کہہ کر ان کی توہین کی گئی ہے یاغیرفقیہہ کی روایت کو قبول نہ کرنے کی بات کہہ کر پورے ذخیرہ احادیث کو مشتبہ بنایاگیاہےیااسی قسم کی کچھ مزید دوسری باتیں۔ویسے بھی اس مسئلہ میں جنہوں نے احناف پر طعن کیاہے انہوں نے مسئلہ کو علمی لحاظ سے سمجھنے اوربیان کرنے کے بجائے دل کاغبارنکالنازیادہ اہم سمجھاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور حنفی فقیہہ ابوالفضل الکرمانی نے اس کو شوافع حضرات کاعنادبتایاہے ۔
ذكَرَ الشَّيْخُ أَبُو الْفَضْلِ الْكَرْمَانِيُّ فِي إشَارَاتِ الْأَسْرَارِ أَنَّ بَعْضَ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ شَنَّعَ عَلَيْنَا وَنَسَبَ أَصْحَابَنَا إلَى الطَّعْنِ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَمْثَالِهِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَكَانَ ذَلِكَ مِنْهُ سُلُوكًا لِلْمُعَانَدَةِ(کشف الاسرار2/383)
شیخ ابوالفضل الکرمانی نے اشارات الاسرار میں ذکر کیاہے کہ بعض شافعیہ نے ہم پر اس مسئلہ میں طعن وتشنیع کی اورہمارے ائمہ کو ابوہریرہ پر طعن سےاوراسی جیسی دوسری باتوں سے منسوب کیا۔ان کاایساکرنا (علمی تحقیق نہیں بلکہ)بطور عناد تھا۔
چونکہ یہ نظریہ امام عیسی بن ابان نے تخریج کیاہے۔ لہذا ان کی ذات پر بھی مخالف صحابہ ہونے اورصحابہ کی توہین کاالزام لگایاگیا۔بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان پر بے بنیاد جھوٹے الزامات اورتہمتیں بھی لگائی گئیں جس کی وجہ سے امام جصاص رازی نے الفصول میں ان کا پرزور دفاع کیا ۔

حَكَى بَعْضُ مَنْ لَا يَرْجِعُ إلَى دِينٍ، وَلَا مُرُوءَةٍ، وَلَا يَخْشَى مِنْ الْبَهْتِ وَالْكَذِبِ: أَنَّ عِيسَى بْنَ أَبَانَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - طَعَنَ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وَأَنَّهُ رَوَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ - كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ - أَنَّهُ قَالَ: " سَمِعْت النَّبِيَّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - يَقُولُ: إنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي ثَلَاثُونَ دَجَّالًا، وَأَنَا أَشْهَدُ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنْهُمْ وَهَذَا كَذِبٌ مِنْهُ عَلَى عِيسَى - رَحِمَهُ اللَّهُ -، مَا قَالَهُ عِيسَى، وَلَا رَوَاهُ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى ذَلِكَ عَنْ عَلِيٍّ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ وَإِنَّمَا أَرَدْنَا بِمَا ذَكَرْنَا: أَنْ نُبَيِّنَ عَنْ كَذِبِ هَذَا الْقَائِلِ، وَبَهْتِهِ، وَقِلَّةِ دِينِهِ.

بعض ایسے لوگوں نے کہ جن کے اندر نہ دینداری ہے اورنہ مروت اورنہ وہ کسی پر بہتان اورجھوٹاالزام لگانے سے بازرہتے ہیں عیسی بن ابان کے بارے میں نقل کیاہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن کیاہے اوریہ روایت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے نقل کی ہے کہ میں نے سناہے کہ میری امت میں تیس دجال ہوں گے اورمیں گواہی دیتاہوں کہ ان میں سے ایک ابوہریرہ ہے۔یہ حضرت عیسی بن ابان پر گڑھاہواجھوٹ ہے۔نہ عیسی بن ابان نے یہ بات کہی اورنہ ایسی کوئی روایت کی ۔اورنہ ہم جانتے ہی کہ کسی نے بھی اس مکذوب روایت کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیاہو ۔ہماراارادہ اس کےذکر سے صرف اتناہے کہ ہم اس جھوٹے اوردروغ گو شخص کاپول کھولیں ،اس کے بہتان کو نمایاں کریں اوربتائیں کہ وہ دین کے اعتبار سے کس کمتر حیثیت کاہے۔
http://rehmaani.blogspot.in/
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
میں نے کوشش کی ہے کہ اس بارے میں ذرا کتب اصول فقہ کائزہ لیاجائے اودیکھاجائے کہ احناف میں سے جوحضرات فقہ راوی کو شرط قراردیتے ہین اوراس کی وجہ سے خبرواحد کو رد کرتے ہیں یاقبول کرتے ہیں توکیاوہ راوی کے فقیہہ نہ ہونے کی صورت میں مطلقا خبر کو رد کردیتے ہیں؟یاپھر اس کیلئے انہوں نے کچھ مزید شرائط اورضوابط ملحوظ رکھے ہیں اوراجن کی موجودگی میں یہ اختلاف صرف لفظی اختلاف ہوکر رہ جاتاہے۔

احناف کا موقف واضح کردیاجائے تاکہ بات صاف ہوجائے اوراگرکسی کو غلط فہمی رہی ہے تو وہ غلط فہمی دور ہوجائے۔ ہاں جن لوگوں کو یہ شوق ہے کہ وہ احناف کو متہم اورمطعون کریں چاہے اس کیلئے بہتان اورکذب وجور سے کیوں نہ کام لیناپڑے توان پر یہ تحریر اثر کرے گی اورنہ کوئی اورچیز یہاں تک کہ اللہ ہی ان کوہدایت دے۔

حضرت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا موقف:

حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا مسلک صاف سیدھا اورواضح رہاہے کہ اولاکتاب اللہ سے استدلال کیاجائے، ثانیارسول پاک کے اقوال وفرمودات اوراعمال وتقریر کو دلیل بنایاجائے۔ ثالثا اگرصحابہ کسی قول پرمتفق ہیں تواس متفق علیہ قول کو اختیار کیاجائے۔ رابعا اگرصحابہ میں کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تواس کو لیاجائے جو زیادہ مدلل ہو۔ہاں اگربات تابعین جیسے مجاہد،سعید بن جبیر ،سعید بن المسیب اوردیگر کی ہوتوان کے اقوال کو امام ابوحنیفہ حجت نہیں مانتے۔اورکہتے ہیں جس طرح انہوں نے اجتہاد کیاہے اسی طرح ہمیں بھی اجتہاد کاحق حاصل ہے۔
يَحْيَى بْنَ الضُّرَيْسِ، يَقُولُ: شَهِدْتُ الثَّوْرِيَّ وَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: مَا تَنْقِمُ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ: قَالَ: وَمَالَهُ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «آخُذُ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَمَا لَمْ أَجِدْ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ وَالآثَارِ الصِّحَاحِ عَنْهُ الَّتِي فَشَتْ فِي أَيْدِي الثِّقَاتِ عَنِ الثِّقَاتِ، فَإِنْ لَمْ أَجِدْ، فَبِقَوْلِ أَصْحَابِهِ آخُذُ بِقَوْلِ مَنْ شِئْتُ، وَأَمَّا إِذَا انْتَهَى الأَمْرُ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، وَالشَّعْبِيَّ، وَالْحَسَنِ، وَعَطَاءٍ، فَأَجْتَهِدُ كَمَا اجْتَهَدُوا»(مناقب ابوحنیفہ وصاحبیہ34)
یحیی بن الضریس کہتے ہیں کہ میں امام سفیان ثوری کی مجلس میں حاضر تھاکہ ایک شخص آیا،اوراس نے کہاکہ آپ کو امام ابوحنیفہ پر کیااعتراض ہے یاپھر کیوں نکتہ چینی کرتے ہیں۔سفیان ثوری نے پوچھا،اس اعتراض کا مقصد کیاہے؟اس شخص نے جواب دیامیں نے ابوحنیفہ کو کہتے ہوئے سناہے ۔میں کسی مسئلہ میں اولا کتاب اللہ سے دلیل حاصل کرتاہوں پھر اللہ کے رسول کی سنت اوران آثار سے جو ثقات سے ثقات تک منتقل ہوکر ہم تک پہنچتی ہے اگرکتاب اللہ اورسنت وآثاررسول میں دلیل نہ ملے تومیں صحابہ کرام میں سے کسی ایک کاقول لے لیتاہوں ۔ہاں جب معاملہ ابراہیم، شعبی،حسن،عطاء،تک پہنچتاہے تومیں ان کا پابند نہیں رہتا بلکہ میں بھی اسی طرح اجتہاد کرتاہوں جیساان لوگوں نے کیاہے۔
اس مین دیکھاجاسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے اختصار کے ساتھ اپنااصولی منہج بیان کیاہے لیکن اس میں سنت وحدیث میں فقہ راوی کاکوئی ذکر موجود نہیں ہے۔علاوہ ازیںامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ سے کہیں بھی منقول نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ نے یہ کہاہو کہ فلاں صحابی چونکہ غیرفقیہہ ہے اس لئے اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔

وَلَمْ يُنْقَلْ هَذَا الْقَوْلُ عَنْ أَصْحَابِنَا أَيْضًا بَلْ الْمَنْقُولُ عَنْهُمْ أَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ مُقَدَّمٌ عَلَى الْقِيَاسِ وَلَمْ يُنْقَلْ التَّفْضِيلُ)کشف الاسرار2/383)
(ابوالحسن الکرخی کہتے ہیں)یہ قول(کہ خلاف قیاس کی صورت مین غیرفقیہہ راوی کی روایت پر قیاس مقدم کیاجائے گا)ہمارے اصحاب سے منقول نہیں ہے بلکہ ان سے تویہ منقول ہے کہ خبرواحد قیاس پر مقدم ہوگی اوراس سلسلے یں کوئی تفصیل منقول نہیں ہے۔


علامہ ابن ہمام کی رائے:

علامہ ابن ہمام اوران کے شارحین نے تو(التقریر والتحبیر علی تحریرالکمال ابن الھمام 2/298)میں صاف سیدھالکھاہے کہ امام ابوحنیفہ مطللقا قیاس پرخبرواحد کو مقدم کرتے ہیں۔چاہے خلاف قیاس ہونے کی صورت میں حدیث کا راوی فقیہہ ہویاغیرفقیہہ،اوراس مسئلے میں ان کو امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کا ہم نواقراردیاہے۔

مسْأَلَةٌ إذَا تَعَارَضَ خَبَرُ الْوَاحِدِ وَالْقِيَاسُ بِحَيْثُ لَا جَمْعَ) بَيْنَهُمَا مُمْكِنٌ (قُدِّمَ الْخَبَرُ مُطْلَقًا عِنْدَ الْأَكْثَرِ) مِنْهُمْ أَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ
مسئلہ:جب خبرواحد اورقیاس میں تعارض ہو کہ دونوں کے درمیان تطبیق کی کوئی صورت نہ نکل سکتی ہو تو اکثرائمہ کے نزدیک ہرحال میں خبر کو قیاس پر مقدم کیاجائے۔ ان ائمہ میں سے امام ابوحنیفہ،امام شافعی اورامام احمد بھی ہیں۔

فقیہہ راوی کی روایت کو غیرفقیہہ پر ترجیح :

ہاں امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کایہ طریق کار ضرور تھاکہ وہ دوراویوں کی روایت میں اس کو اختیار کرتے تھے جس کا راوی فقیہہ ہو غیرفقیہہ پر اس کو ترجیح دیتے۔لیکن یہ امام ابوحنیفہ کااختراع نہیں تھابلکہ محدثین کرام بھی اسی روش اورطرز کے قائل تھے۔جیساکہ حازمی نے بھی کتاب الاعتبار می وجوہ ترجیحات میں سے اس کو ذکر کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

الْوَجْهُ الثَّالِثُ وَالْعِشْرُونَ: أَنْ يَكُونَ رُوَاةُ أَحَدِ الْحَدِيثَيْنِ مَعَ تَسَاوِيهِمْ فِي الْحِفْظِ وَالْإِتْقَانِ فُقَهَاءَ عَارِفِينَ بِاجْتِنَاءِ الْأَحْكَامِ مِنْ مُثَمِّرَاتِ الْأَلْفَاظِ، فَالِاسْتِرْوَاحُ إِلَى حَدِيثِ الْفُقَهَاءِ أَوْلَى. وَحَكَى عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَ: قَالَ لَنَا وَكِيعٌ: أَيُّ الْإِسْنَادَيْنِ أَحَبُّ إِلَيْكُمْ؛ الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَوْ سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ؟ فَقُلْنَا: الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ: يَا سُبْحَانَ اللَّهِ، الْأَعْمَشُ شَيْخٌ وَأَبُو وَائِلٍ شَيْخٌ،وَسُفْيَانُ فَقِيهٌ، وَمَنْصُورٌ فَقِيهٌ، وَإِبْرَاهِيمُ فَقِيهٌ، وَعَلْقَمَةُ فَقِيهٌ، وَحَدِيثٌ يَتَدَاوَلُهُ الْفُقَهَاءُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَدَاوَلَهُ الشُّيُوخُ. (الاعتبارفی الناسخ والمنسوخ من الآثارللحازمی(15)
23ویں وجہ روایت کی ترجیح کی یہ ہے کہ حفظ اورضبط میں راوی برابر ہوں لیکن ایک روایت کا راوی فقیہہ ہو الفاظ سے احکام کے استنباط کا طریقہ جانتاہو توفقیہہ راوی کی روایت کواختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔ علی بن خشرم کہتے ہیں ہم سے وکیع نے کہا تمہیں کون سے سند زیادہ محبوب ہے؟اعمش عن ابی وائل عن عبداللہ (اس میں حضرت عبداللہ تک صرف دوراوی ہیں)یاپھر سفیان عن منصور عن علقمہ عن عبداللہ ،اس پر ہم نے کہاکہ اعمش والی سند توفرمایا سبحان اللہ اعمش شیخ ہیں،ابووائل شیخ ہیں جب کہ اس کے بالمقابل سفیان فقیہہ ہیں، منصور فقیہہ ہیں ابراہیم فقیہہ ہیں علقمہ فقیہہ ہیں اورفقہاء کی سند والی حدیث شیوخ کی سند والی حدیث سے بہتر ہے۔

امام ابوحنیفہ کے اجتہادات سے یہ قول نکالاگیاہے:

ہاں یہ ضرور ہے کہ امام ابوحنیفہ نے احادیث کے ردوقبول میں بعض اصول کو اختیار کیاہے ان اصول کو دیکھ کر بعد کے اہل علم نے ان کے اجتہادات سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ جس راوی کی روایت قبول کی جائے اس کیلئے فقیہہ ہونا ضروری ہے یانہیں، اوراگرغیرفقیہہ کی روایت قیاس کے خلاف ہو توقیاس کو ترک کرکے حدیث پر عمل کیاجائے یاغیرفقیہہ راوی کی روایت کو ترک کرکے قیاس پر عمل کیاجائے۔
امام ابوحنیفہ کے بعد کے عہد میں اصول فقہ پر لکھنے والی دوشخصیتں ایک ہی زمانہ کی ہیں۔ ایک ابوالحسن الکرخی اوردوسرے امام عیسی بن ابان۔عیسی بن ابان کے بارے میں یہ کہاگیاہے کہ وہ معتزلہ کے خیالات رکھتے تھے لیکن ایساکہنے والے نے کوئی ثبوت اوردلیل پیش نہیں کی۔ لہذا کسی کامحض کہنا کافی نہیں ہے کہ ہم ایک جلیل القدر عالم پر یہ تہمت گواراکرلیں۔

امام ابوالحسن الکرخی کا موقف

امام ابوالحسن الکرخی کی کتاب اگرچہ اصول فقہ پر نہیں بلکہ قواعد فقہ پر ہے۔لیکن چونکہ اصول اورقواعد کا فرق بہت سے ناواقفوں کو معلوم نہیں ہوتا لہذا ان کی رعایت سے ہم نے اصول فقہ کا ہی جملہ استعمال کیاہے۔ ویسے بھی اصول فقہ اورقواعد میں بعض وجوہات سے اشتراک بھی ہے۔لہذا قواعد فقہ پر اصول فقہ کا اطلاق کیاجاناگواراہوناچاہئے۔

امام ابوالحسن الکرخی توصاف سیدھی یہ بات کہتے ہیں کہ راوی کی روایت قبول کرنے کیلئے فقاہت کوئی شرط نہیں ہے اورراوی فقیہہ ہویانہ ہو اس کی روایت بہرحال قبول کی جائے اوراس روایت کی موجودگی میں چاہے راوی غیرفقیہہ ہو قیاس کو ترک کردیاجائے گا۔چنانچہ امام کرخی اس تعلق سے وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

"عیسی بن ابان کا نظریہ ہمارے اصحاب سے منقول نہیں ہے۔بلکہ ان سے یہ قول روایت کی گئی ہے کہ خبرواحد علی الاطلاق قیاس سے مقدم ہے ۔اس ضمن میں کوئی تفصیل مذکور نہیں کہ راوی فقیہہ ہے یاغیرفقیہہ""

اس کے بعد عیسی بن ابان کے دلائل کامثلا حدیث مصراۃ اورحدیث عرایا پر عمل نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
""ہمارے اصحاب ان احادیث پر اس لئے عمل نہیں کرتے کہ یہ کتاب اللہ اورسنت مشہورہ کے خلاف ہیں نہ کہ اس لئے کہ راوی فقیہہ نہیں۔حدیث مصراۃ کتاب وسنت دونوں کے خلاف ہے جیساکہ قبل ازیں بیان ہوچکاہے۔ حدیث عریہ سنت مشہورہ کے خلاف ہے۔راوی کا فقیہ نہ ہونا اس کا سبب نہیں اور وہ سنت مشہور ہے التمربالتمر مثل بمثل کیل بکیل ۔ہم یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہہ نہیں تھے آپ یقیناًایک بڑے فقیہہ تھے اورآپ میں پوری طرح اسباب اجتہاد جمع تھے ۔صحابہ کے زمانہ میں آپ فتویٰ دیاکرتے تھے ۔حالانکہ اس زمانہ میں ایک مجتہد فقیہہ کو ہی فتویٰ نویسی کا اہل سمجھاجاتاتھا۔ آپ رسول اکرم کے جلیل القدر صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے ان کے حق میں دعائے خیرفرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ نے دعاقبول فرمائی ۔آپ نے بڑانام پایااورآپ سے روایت کردہ احادیث کا بڑاچرچاہوا""۔(حیات امام ابوحنیفہ اردو ص 502-503،بحوالہ کشف الاسرار 2/703)

اس نتیجہ سے بات صاف ہوگئی کہ امام ابوالحسن الکرخی جو فقہ حنفی کے ایک معتبر امام ہیں وہ اپناااوراپنے اصحاب کے بارے میں یعنی ائمہ احناف کے بارے میں صاف سیدھے لفظوں میں یہ بات کہتے ہیں کہ ان سے راوی کی عدم فقاہت کے وقت قیاس کو خبر پر مقدم کرنے کی کوئی نص موجود نہیں ہے۔
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
امام عیسی بن ابان کا موقف:

ہاں امام عیسی بن ابان سے اوران سے متاثردیگر کچھ فقہائے احناف نے یہ بات ضرور کہی ہے کہ جب خبرواحد اورقیاس میں تعارض ہوگاتو راوی کی فقاہت کو دیکھاجائے گا۔بعض لوگ توکہتے ہیں کہ عیسی بن ابان علیہ الرحمہ کایہ قول ایجادبندہ ہے۔لیکن یہ کہنادرحقیقت لاعلمی اورجہالت ہے۔ماقبل مین یہ بات کہی گئی ہے کہ امام ابوحنیفہ اوردیگر کبارائمہ احناف سے اس بارے مین کچھ بھی منقول نہیں ہے۔نہ نفی میں اورنہ اثبات میں۔

عیسی بن ابان نے یہ نظریہ تخریج کیاہے:

امام عیسی بن ابان علیہ الرحمہ نے جب امام ابوحنیفہ کے اجتہادات میں غورکیاتوبعض نظائر سے ان کو یہ لگاکہ امام ابوحنیفہ فقہ راوی کوشرط مانتے ہیں جب کہ خبرواحد قیاس کے خلاف ہو۔توعیسی بن ابان کایہ کہنادرحقیقت امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے اجتہادات میں غوروفکر کے بعد ممکن ہوسکاہے۔یہ ان کی اپنی گڑھی ہوئی بات نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے غوروفکر کے بعد جونتیجہ نکالا وہ درست ہے یانہیں ہے۔لیکن اس کو عیسی بن ابان کا اختراع کہناظلم ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام جصاص رازی لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو بَكْرٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: قَدْ حَكَيْت جُمْلَةَ مَا ذَكَرَهُ عِيسَى فِي هَذَا الْمَعْنَى، وَهُوَ عِنْدِي مَذْهَبُ أَصْحَابِنَا، وَعَلَيْهِ تَدُلُّ أُصُولُهُمْ،(الفصول فی الاصول3/122)

امام جصاص رازی کہتے ہیں اس مفہوم کی بات کا کچھ حصہ جوعیسی بن ابان نے ذکر کیاہے اس کو میں نے نقل کیاہے اوروہ میرے نزدیک ائمہ احناف کا موقف ہے اوراسی پران کے اصول دلالت کرتے ہیں۔

یہاں امام جصاص رازی نے دوباتیں کہی ہیں۔اولاتویہ کہ میرے نزدیک ،میری رائے میں،اوریہ اس وقت بولاجاتاہے جب بات پوری طرح واضح اورغیرمبہم نہ ہو۔ بات جب کسی حد تک مبہم اورغیرواضح ہوتی ہےتوانسان کہتاہے کہ یہ معاملہ میری رائے میں ایساہے۔دوسرے امام جصاص رازی یہ بھی مان رہے ہیں کہ اس سلسلے میں امام ابوحنیفہ سے کوئی واضح بات منقول نہیں ہے بلکہ ان کے اجتہادات کو دیکھ کر غوروفکر کرکے یہ اصول اخذ کیاہے ۔

عیسی بن ابان کافقہ راوی میں کیاموقف ہے:

باوجود اس قیل وقال کے عیسی بن ابان سے بھی یہ بات مطلقا مروی نہیں ہے کہ اگرراوی غیرفقیہہ ہے تواس کی روایت ہرحال میں رد کردی جائے گی اوراس کی روایت کو کسی حال میں قبول نہیں کیاجائے۔ بلکہ اس کیلئے انہوں نے جو شروط اورقیود لگائے ہیں۔اس کو دیکھنے کے بعد میراتوخیال یہی ہے کہ یہ صرف لفظی بحث رہ جاتی ہے۔ کیونکہ ان شروط وضوابط کے بعد کسی روایت کو محض اس لئے رد کردیناکہ اس کا راوی غیرفقیہہ ہے ناممکن سے رہ جاتاہے اورذخیرہ حدیث میں ایسی روایت باوجود تلاش کے نہیں ملتی میرے علم کی حد تک اوراگرہوگی بھی تومجھے امید ہے کہ محدثین کرام نے پہلے ہی اس پر سندی اعتبار سے جرح کررکھی ہوگی۔ ھذاماعندی واللہ اعلم بالصواب

ایک اہم بات کی طرف توجہ :
(نوٹ)امام عیسی بن ابان نےتعارض کے وقت غیرفقیہہ راوی کی روایت رد کرنے کیلئے جن شرائط کا ذکر کیاہے اس پر تفصیلی کلام کرنے سے پہلے ہم یہ واضح کردیناچاہتے ہیں کہ جن مصنفین نے چاہے اصول الشاشی کے مصنف کی طرح قدیم ہو یاپھر ہمارے زمانے سے قریب تر ۔اگران کی عبارت میں فقاہت کا ذکر مطلقا ہے توبھی وہ ساری قیود اورشرائط جوامام عیسی بن ابان نے خبر کے رد کیلئے ٹھہرائی ہیں ان کو شامل ماناجائے۔ کیونکہ اکثرکتبِ اصول ِ فقہ متون کے طورپرلکھی گئیں اورمتون میں اختصار ملحوظ ہوتاہے۔مثلااصول الشاشی(1/275) کے مصنف لکھتے ہیں:

وَالْقسم الثَّانِي من الروَاة هم المعروفون بِالْحِفْظِ وَالْعَدَالَة دون الِاجْتِهَاد وَالْفَتْوَى كَأبي هُرَيْرَة وَأنس بن مَالك،فَإِذا صحت رِوَايَة مثلهمَا عنْدك،فَإِن وَافق الْخَبَر الْقيَاس فَلَا خَفَاء فِي لُزُوم الْعَمَل بِهِ،وَإِن خَالفه كَانَ الْعَمَل بِالْقِيَاسِ أولى
راویوں کی دوسری قسم وہ ہے جو حفظ اورعدالت میں تو مشہور ہیں لیکن بطور مجتہد اورمفتی مشہور نہیں تھے جیسے حضرت ابوہریرہ اورانس بن مالک رضی اللہ عنہما،توجب ان کی روایت صحیح ہو تواگران کی روایت قیاس کے موافق ہو تواس پر عمل کیاجائےاوراگرقیاس کے مخالف ہو تو قیاس پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے۔

یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اصول الشاشی کے مصنف نظام الدین ابوعلی احمد بن محمدبن اسحاق الشاشی(متوفی344)نے بغیر کسی شرط کے راوی کے عدم فقیہہ ہونے کی صورت مین قیاس پر عمل کرنے کی بات کہی ہے۔اسی طرح کچھ دوسری کتابوں میں بھی یہ بات ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تمام کتابیں یاتومتون کے طورپر لکھی گئی ہیں لہذا اس میں شرائط کا ذکر نہیں کیاگیا۔یاپھر امام جصاص رازی کی کتاب جس میں انہوں نے عیسی بن ابان کی کتاب سے براہ راست نقل کیاہے ان کی رسائی نہ ہوسکی اس لئے وہ ان شرائط سے آگاہ نہ ہوسکے۔

اسی لئے ہم نے کوشش کی ہے کہ عیسی بن ابان علیہ الرحمہ کے خیالات خود ان کے اپنے الفاظ مین ذکر کردیئے جائیں کیونکہ مصنف اپنے مقصد سے زیادہ واقف ہوتاہے۔ کوئی شخص اپنے مراد اورمطلب کو جس طرح واضح کرسکتاہے دوسرانہیں کرسکتا۔اورچونکہ متقدمین کی بات اس باب میں زیادہ لائق اعتماد ہے اس لئے ہم نے اولا امام جصاص رازی کی کتاب الاصول فی الفصول اورامام سرخسی علیہ الرحمہ کی کتاب اصول السرخسی کو اپنے بحث کی بنیاد بنایاہے۔


امام سرخسی کی وضاحت:
امام سرخسی کے نزدیک روات کی اقسام:

چونکہ امام سرخسی بھی اس مسئلہ پر امام عیسی بن ابان کے ہم خیال ہیں۔ لہذا بہتر ہے کہ اولاامام سرخسی کی رائے نقل کی جائے۔امام سرخسی اصول السرخسی(1/339) لکھتے ہیں۔
اعْلَم بِأَن الروَاة قِسْمَانِ مَعْرُوف ومجهول،فالمعروف نَوْعَانِ من كَانَ مَعْرُوفا ،الفقه والرأي فِي الِاجْتِهَاد وَمن كَانَ مَعْرُوفا بِالْعَدَالَةِ وَحسن الضَّبْط وَالْحِفْظ وَلكنه قَلِيل الْفِقْه
جان لو کہ راویوں کی دوقسمیں ہیں۔ معروف اورمجہول،پھر معروف کی دوقسمیں ایک تویہ کہ راوی فقہ اوراجتہاد میں مشہور ہودوسری قسم یہ ہے کہ عدالت اورضبط وحفظ میں تومشہور ہو لیکن فقہ مین اس کا حصہ تھوڑاہو۔
امام سرخسی معروف کی پہلی قسم پر کلام کرنے کے بعد اوراس میں خلفاء اربعہ اوردیگر ممتاز فقہائے صحابہ کرام کو گنوانے کے بعد لکھتے ہیں۔
فَأَما الْمَعْرُوف بِالْعَدَالَةِ والضبط وَالْحِفْظ كَأبي هُرَيْرَة وَأنس بن مَالك رَضِي الله عَنْهُمَا وَغَيرهمَا مِمَّن اشْتهر بالصحبة مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَالسَّمَاع مِنْهُ مُدَّة طَوِيلَة فِي الْحَضَر وَالسّفر فَإِن أَبَا هُرَيْرَة مِمَّن لَا يشك أحد فِي عَدَالَته وَطول صحبته مَعَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حَتَّى قَالَ لَهُ (زر غبا تَزْدَدْ حبا) وَكَذَلِكَ فِي حسن حفظه وَضَبطه
ایسے راوی جو عدالت اورضبط وحفظ میں مشہور ہیں جیسے کہ حضرت ابوہریرہ وانس بن مالک رضی اللہ عنہما جن کا رسول پاک کاصحابی ہونامشہور ہے اورانہوں نے رسول پاک سے ایک مدت تک ان کے اقوال وفرامین سنے سفر وحضر میں سنے بھی ہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عدالت اوررسول پاک کے ساتھ طویل وقت گزارنے میں کسی کو شک نہیں ہے یہاں تک کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہاایک دن ناغہ کرکے ملاکر تاکہ محبت زیادہ ہو،اسی طرح ان کے حافظہ اورباتوں کو یاد رکھنے کے بارے میں بھی کسی کو شک نہیں ہے۔

فقہ راوی کی شرط کی بنیاد کیاہے:
رہ گئی یہ بات کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو قلیل الفقہ کیوں کہاگیاہے۔اوران کی روایت کیوں مطلقا قابل قبول نہیں ہے تواس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام سرخسی کہتے ہیں۔
مَعَ هَذَا قد اشْتهر من الصَّحَابَة رَضِي الله عَنهُ وَمن بعدهمْ مُعَارضَة بعض رواياته بِالْقِيَاسِ هَذَا ابْن عَبَّاس رَضِي الله عَنْهُمَا لما سَمعه يروي (توضؤوا مِمَّا مسته النَّار) قَالَ أَرَأَيْت لَو تَوَضَّأت بِمَاء سخن أَكنت تتوضأ مِنْهُ أَرَأَيْت لَو ادهن أهلك بدهن فادهنت بِهِ شاربك أَكنت تتوضأ مِنْهُ فقد رد خَبره بِالْقِيَاسِ حَتَّى رُوِيَ أَن أَبَا هُرَيْرَة قَالَ (لَهُ) يَا ابْن أخي إِذا أَتَاك الحَدِيث فَلَا تضرب لَهُ الْأَمْثَال،وَلَا يُقَال إِنَّمَا رده بِاعْتِبَار نَص آخر عِنْده وَهُوَ مَا رُوِيَ أَن النَّبِي عَلَيْهِ السَّلَام أَتَى بكتف مؤربة فَأكلهَا وَصلى وَلم يتَوَضَّأ لِأَنَّهُ لَو كَانَ عِنْده نَص لما تكلم بِالْقِيَاسِ وَلَا أعرض عَن أقوى الحجتين أَو كَانَ سَبيله أَن يطْلب التَّارِيخ بَينهمَا ليعرف النَّاسِخ من الْمَنْسُوخ أَو أَن يخصص اللَّحْم من ذَلِك الْخَبَر بِهَذَا الحَدِيث فَحَيْثُ اشْتغل بِالْقِيَاسِ وَهُوَ مَعْرُوف بالفقه والرأي من بَين الصَّحَابَة على وَجه لَا يبلغ دَرَجَة أبي هُرَيْرَة فِي الْفِقْه ودرجته عرفنَا أَنه استخار التَّأَمُّل فِي رِوَايَته إِذا كَانَ مُخَالفا للْقِيَاس،وَلما سَمعه يروي من حمل جَنَازَة فَليَتَوَضَّأ قَالَ أيلزمنا الْوضُوء فِي حمل عيدَان يابسة وَلما سَمِعت عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا أَن أَبَا هُرَيْرَة يروي أَن ولد الزِّنَا شَرّ الثَّلَاثَة،قَالَت كَيفَ يَصح هَذَا وَقد قَالَ الله تَعَالَى {وَلَا تزر وَازِرَة وزر أُخْرَى}
(المصدرالسابق)
باوجود اس کے کہ حضرت ابوہریرہ شرف صحابیت میں مشہور ہیں حضورپاک کے ساتھ سفر وحضر میں طویل وقت گزاراہے،صحابہ کرام اوربعد کےلوگوں نے ان کی روایتوں کا قیاس کے ساتھ معارضہ کیاہے۔یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماہیں جب انہوں نے سناکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جس چیز کو آگ نے چھولیاہے اس کو استعمال کرنے کے بعد وضو کرو توانہوں نے کہااگرمیں گرم پانی سے وضو کرو توکیامیں پھر سے وضو کروں،اس کے علاوہ دیکھئے اگرآپ کی بیوی کو کوئی تیل ہدیہ کرے اوروہ یہ تیل آپ کی مونچھوں کو لگادیں توکیاآپ اس سے وضو کریں گے۔خلاصہ کلام کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کی روایت کو قیا س سے رد کردیا اس پر ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ نہ نے کہااے بھتیجے جب تم سے کوئی حدیث بیان کی جائے تواس کیلئے مثالیں نہ بیان کرو۔اس مثال پر کوئی یہ نہ کہے کہ حضرت ابن عباس نے اس کو دوسری حدیث سے رد کیاہے اوروہ حدیث یہ ہے کہ حضورپاک کے ساتھ دست کا گوشت لایاگیاتواس کو کھایا اوروضو نہیں کیا کیونکہ اگران کے پاس نص ہوتاتووہ قیاس سے کام نہ لیتے۔اوردوحجتوں میں سے زیادہ مضبوط حجت سے اعراض نہ کرتے یاپھر وہ یہ کرتے کہ دوحدیثوں کی تاریخ معلوم کرتے تاکہ ناسخ اورمنسوخ کو جان سکیں یااس حدیث سے گوشت کو خاص قراردیں لیکن یہ سب نہ کرکے جب انہوں نے قیاس سے کام لیااورحضرات صحابہ کے درمیان حضرت ابن عباس فقہ وافتاء میں جتنے مشہور تھے اس مقام تک حضرت ابوہریرہ نہیں پہنچتے ہیں تواس سے ہم نے یہ بات جان لیاکہ انہوں نے روایت سننے کے بعد جب کہ وہ قیاس کے خلاف تھا غوروفکر سے کام لیا۔اسی طرح حضرت ابن عباس نے جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے سناکہ جو کوئی جنازہ کو کاندھادے تو وہ وضو کرے اس پر انہوں نے کہاکہ کیاخشک لکڑیوں کو بھی ڈھونے سے ہم پر وضو لازم ہوگا۔اسی طرح جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے سناکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں زناسے پیداہونے والا تیسرابراہے توانہوں نے کہایہ کیسے درست ہوسکتاہے جب کہ اللہ کاارشاد ہے کہ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

کچھ مزید دلائل
اس کے علاوہ امام سرخسی اس کو بھی ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کثرت حدیث سے سختی سے منع کیاتھا اورتنبیہ کی تھی بلکہ خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی اعتراف ملتاہے کہ اگراس دور میں ہم نے حدیث کثرت سے بیان کی ہوتی تو ہم کو عمر کے درہ کا خوف تھا۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر کثرت سے حدیث بیان کرنے پر انکار کیاہے ۔علاوہ ازیں خود حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا اعتراف تھاکہ ان کی جانب سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سےکثرت سے احادیث بیان کرنے پر لوگ متعجب ہیں۔ اس پر انہوں نے وضاحت بیان کی کہ میں چونکہ کسی اورمشغلہ میں الجھاہوانہیں تھا جب کہ مہاجرین کو تجارت اورانصار کو کھیتی باڑی کا مشغلہ رہتاتھااورمیں ہروقت حضورپاک کے ساتھ چمٹارہتاتھا۔اسی بناء پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں مجھ کو زیادہ یاد ہیں۔

حضرت ابوہریرہ پر حضرت عائشہ کے استدراکات
واضح رہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے اس کے علاوہ بھی استدراکات ہیں۔جس میں انہوں نے ان پر اعتراض کیاہے اورجواب میں کوئی حدیث نہیں بیان کی ہے بلکہ کبھی توقیاس سے کام لیاہے اورکبھی عمومات قرآن سے کام لیاہے۔اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے استدراکات کا دائرہ صرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر نہیں بلکہ اس کے علاوہ دیگر صحابہ کرام پر بھی ہواہے جس کو زرکشی نے الاجابہ لایراد مااستدرکتہ عائشہ علی الصحابہ میں جمع کردیاہے۔اس سے بھی منجملہ امام سرخسی اورامام عیسی بن ابان کے قول کی تائید ہوتی ہے۔

فقہ راوی کے ساتھ دیگر شرائط:
یہ سب بیان کرنے کے بعد امام سرخسی کہتے ہیں۔
فلمكان مَا اشْتهر من السّلف فِي هَذَا الْبَاب قُلْنَا مَا وَافق الْقيَاس من رِوَايَته فَهُوَ مَعْمُول بِهِ وَمَا خَالف الْقيَاس فَإِن تَلَقَّتْهُ الْأمة بِالْقبُولِ فَهُوَ مَعْمُول بِهِ وَإِلَّا فَالْقِيَاس الصَّحِيح شرعا مقدم على رِوَايَته فِيمَا ينسد بَاب الرَّأْي فِيهِ
اسی وجہ سے جو ہم نے ماقبل میں بیان کی ہے کہ سلف نے حضرت ابوہریرہ کی بعض روایات پر انکار کیاہے۔ ہم نے کہاکہ ان کی جوروایتیں قیاس کے موافق ہوں گی اس پر عمل کیاجائے گا اورجوروایتیں خلاف قیاس ہوں گی۔ تواگرخلاف قیاس روایت ایسی ہے جس کو امت نے قبول کرلیاہے تواس پر عمل کیاجائے ورنہ قیاس صحیح جو شریعت کے موافق ہو ان کی ایسی روایت پر مقدم کیاجائے جوبالکلیہ قیاس اوررائے کے خلاف ہو اوراس میں قیاس اوررائے کی کوئی بھی گنجائش نہ رہ گئی ہو۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بات کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ ایک چیز ایک لحاظ سے خلاف قیاس ہوتی ہےاوردوسرے لحاظ سے موافق قیاس ۔ توحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کوئی ایسی روایت جس پر امت نے عمل نہ کیا ۔وہ خلاف قیاس ہو ۔صرف ایک پہلو سے نہیں بلکہ ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو۔تواس وقت قیاس کو ان کی حدیث پر مقدم کیاجائے گا۔

آپ نے غورکیاانہوں نے چار شرطیں بیان کی ہیں
1:وہ روایت صرف حضرت ابوہریرہ کے واسطے سے مروی ہو،
2:ثانیاامت نے اس پر عمل نہ کیاہو
3:ثالثاوہ خلاف قیاس ہو۔اورہرلحاظ سے خلاف قیاس ہو، قیاس اوررائے کی ا س میں کوئی گنجائش نہ ہو۔
4:خلاف قیاس ہونابالبداہت ثابت ہوجائے۔
اگریہ تمام شرطیں پائی جائیں تب اس وقت قیاس کو مقدم کیاجائے گا۔ (ہم آگے چل کر اس پر بھی بات کری گے کہ قیاس سے کون ساقیاس مراد ہے۔)

بدگمانوں کی خدمت میں:
چونکہ بہت سار ےلوگوں کی نفسیات کچھ اس طریقہ کی ہوتی ہے کہ جہاں ان کے مزعوم کےخلاف بات ہوتی ہے توفوراان کو اسلام خطرے میں اوربولنے والا دشمن دین نظرآنے لگتاہے لہذاجب امام عیسی بن ابان نے فقیہہ اورغیرفقیہہ کی بات توان پر بھی اتہام تراشی ہوئی اوران کو صحابہ کرام کی توہین کرنے والا بتایاگیا۔امام سرخسی نے ایسے ہی لوگوں کے جواب میں کہتے ہیں۔
لَعَلَّ ظَانّا يظنّ أَن فِي مقالتنا ازدراء بِهِ ومعاذ الله من ذَلِك فَهُوَ مقدم فِي الْعَدَالَة وَالْحِفْظ والضبط كَمَا قَررنَا
شایدکسی کو یہ بدگمانی کہ ہماری بات میں مذکورہ صحابہ کرام جن کو غیرفقیہہ قراردیاگیاہے اس میں ان کی توہین ہے تواس سے اللہ کی پناہ۔یہ حضرات صحابہ کرام حفظ اورعدالت کے لحاظ سےہرشک وشبہ سے بالاتر ہیں۔جیساکہ ہم نے پہلے ہی ذکر کردیاہے۔

عدل وضبط کے بعد فقہ کی شرط کیوں:
ایک سوال پھر پیداہوتاہے کہ جب وہ عادل ہیں اورجوسنتے ہیں وہ یاد رکھتے ہیں توپھر آپ ان کی روایت کومطلقاقبول کیوں نہیں کرتے۔خلاف قیاس اورموافق قیاس کے پھیر میں کیوں پڑتے ہیں۔کیوں اس کے لئے کچھ الگ شرائط اورضوابط بناتے ہیں۔اس کا جواب دیتے ہوئے امام سرخسی علیہ الرحمہ کہتے ہیں۔
وَلَكِن نقل الْخَبَر بِالْمَعْنَى كَانَ مستفيضا فيهم وَالْوُقُوف على كل معنى أَرَادَهُ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بِكَلَامِهِ أَمر عَظِيم فقد أُوتِيَ جَوَامِع الْكَلم على مَا قَالَ أُوتيت جَوَامِع الْكَلم وَاخْتصرَ لي اختصارا وَمَعْلُوم أَن النَّاقِل بِالْمَعْنَى لَا ينْقل إِلَّا بِقدر مَا فهمه من الْعبارَة وَعند قُصُور فهم السَّامع رُبمَا يذهب عَلَيْهِ بعض المُرَاد وَهَذَا الْقُصُور لَا يشكل عِنْد الْمُقَابلَة بِمَا هُوَ فقه (لفظ) رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فلتوهم هَذَا الْقُصُور قُلْنَا إِذا انسد بَاب الرَّأْي فِيمَا رُوِيَ وتحققت الضَّرُورَة بِكَوْنِهِ مُخَالفا للْقِيَاس الصَّحِيح فَلَا بُد من تَركه لِأَن كَون الْقيَاس الصَّحِيح حجَّة ثَابت بِالْكتاب وَالسّنة وَالْإِجْمَاع فَمَا خَالف الْقيَاس الصَّحِيح من كل وَجه فَهُوَ فِي الْمَعْنى مُخَالف للْكتاب وَالسّنة الْمَشْهُورَة وَالْإِجْمَاع
بات یہ ہے کہ حدیث کو لفظ کے بجائے معنی کےساتھ روایت کرناحضرات صحابہ کرام میں جاری وساری تھا۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد میں کیاکیامراد لیاہے اس کااحاطہ کرنا مشکل اوربڑاکام ہے کیونکہ ان کو جوامع الکلم (بات مختصر لیکن مختصر بات میں معنی کی ایک دنیا فروزاں ہو)دیاگیاتھااوریہ سب کو معلوم ہے کہ جب بات کو معنی کے ساتھ نقل کیاجائے توآدمی اپنے عقل اورفہم کے اعتبار سے ہی نقل کرتاہے اورکبھی کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ سننے والے کو سمجھنے میں غلطی ہوتی اورمطلب کا بعض پہلو اس سے اوجھل ہوتاہے ۔اوریہ بات تب ظاہرہوتی ہے جب روایات کا مقابلہ کیاجائے اس کی روایت سے جس نے اس کو بہتر طورپر سمجھاہے ۔اسی بناء پر کہ بعض دفعہ مطلب اورمراد کے کچھ پہلو وہم کی بنیاد پر یاکسی اوروجہ سے چھوٹ جاتے ہیں جب کوئی ایسی روایت سامنے آئے جس سے قیاس ورائے کا ہرپہلوختم ہوجائےاوریہ بات بالبداہت ثابت ہوجائے کہ مذکورہ روایت خلاف قیاس ہے۔توایسی صورت میں روایت کو ترک کردیاجائے گا۔ کیونکہ قیاس صحیح کا حجت اوردلیل ہوناکتاب اللہ،سنت رسول اللہ ،اوراجماع سے ثابت ہے۔توجب کوئی روایت ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو توگویا وہ کتاب اللہ، سنت مشہور اورجماع کے خلاف ہے۔

امام سرخسی نے جوبات کہی ہے۔وہ امام عیسی بن ابان سے ہی مستفاد ہے۔ عیسی بن ابان علیہ الرحمہ نے اپنی بات تفصیل سے کہی ہے اوراپنی رائے کودلائل سے بیان کیاہے اس کے علاوہ انہوں نے راوی کی عدم فقاہت کے سبب قیاس کےخلاف اس کی روایت کورد کرنے میں مزید شرائط بیان کئے ہیں۔یہ افسوس کی بات ہے کہ امام عیسی بن ابان کی کوئی کتاب ہم تک نہیں پہنچ سکی یاتاحال نہیں پہنچی ہے۔ اگرکسی مکتبہ میں ہے تواللہ اس کی نشرواشاعت کے جلد انتظام کرے۔بہرحال اس مسئلہ پر ان کے خیالات کا بڑاحصہ امام جصاص رازی نے اپنی تالیف الفصول فی الاصول میں نقل کردیاہے لہذا اس بارے میں امام عیسی بن ابا ن کی رائےہم ان کے الفظ میں اوران کے عہد سے بہت قریب امام جصاص رازی کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
عیسی بن ابان کا موقف

امام عیسی بن ابان خلاف قیاس ہونے کی صورت میں راوی کے فقیہہ ہونے کے قائل ہیں اورغیرفقیہہ کی مثال میں انہوں نے حضرت ابوہریرہ کانام پیش کیاہے۔حضرت ابوہریرہ کا نام اس لئے پیش کیاہے کہ انہوں نے دیکھاکہ متعدد صحابہ کرام نے ان کی روایت غوروفکر کے بعد لی ہیں۔یاان پر قیاس کے ذریعہ اعتراض کیاہے۔اس کے علاوہ انہوں نے دیکھاکہ ان پر امام ابراہیم نخعی نے بھی اعتراض کیاہے۔امام نخعی کہتے ہیں کہ لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بعض حدیث پر عمل کرتے اوربعض پر نہ کرتے۔ ایک دوسرے موقعہ سے امام ابراہیم نخعی زیادہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ لوگ یعنی تابعین کرام ان کی وہ روایتیں جو جنت وجہنم کے تعلق سے ہوتیں اس کو تولیتے اورجواس کے علاوہ ہوتیں اس کو نہ لیتے۔(الفصول فی الاصول)

ابراہیم نخعی کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قول:

نوٹ:امام نخعی کا یہ قول ثابت شدہ ہے اس کو مشہور محدث ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں(67/360) بھی ذکر کیاہے اورحافظ ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں بھی ذکر کیاہے۔ابن عساکر نے اس مفہوم کی متعدد روایتیں ذکر کی ہیں۔ امام اعمش سے مروی ہے۔
وكان أبو صالح يحدثنا عن أبي هريرة قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فكنت آتي إبراهيم فأحدثه بها فلما أكثرت عليه قال لي ما كانوا يأخذون بكل حديث أبي هريرة
ابوصالح ہم سے حضرت ابوہریرہ کے واسطےسے حدیث بیان کرتے تھے کہ رسول پاک نے فرمایارسول پاک نے فرمایا تومیں ابراہیم کے پاس آتااوران سے وہ حدیث بیان کرتا(امام اعمش کا ہی قول ہے کہ ابراہیم حدیث کے پرکھنے والے تھے الفاظ ہیں(کان ابراہیم صیرفیافی الحدیث)جب میں ایسازیادہ کرنے لگایعنی حضرت ابوہریرہ کی احادیث ان کو زیادہ سنانے لگاتوانہوں نے مجھ سے کہا،ماقبل کے لوگ یعنی حضرات صحابہ وتابعین عظام حضرت ابوہریرہ کی تمام احادیث پر عمل نہیں کرتے تھے۔
سفيان عن منصور عن ابراهيم قال ما كانوا يأخذون من حديث ابي هريرة الا ما كان من حديث جنة أو نار
ابراہیم نخعی کہتے ہیں حضرات صحابہ وتابعین عظام حضرت ابوہریرہ کی وہی احادیث قبول کرتے تھے جس میں جنت اورجہنم کا ذکر ہوتا(حلال وحرام کے متعلق ان کی احادیث قبول نہ کرتے۔)
عن الأعمش قال كان إبراهيم صيرفيا في الحديث فكنت إذا سمعت الحديث من أحد من أصحابه أتيته به فأعرضه عليه فحدثته ذات يوم بحديث من حديث أبي صالح عن أبي هريرة فقال إبراهيم كانوا يتركون شيئا من قوله
اس کا مفاد بھی وہی ہے ماقبل میں ذکر کیاجاچکاہے۔ بس اتنااضافہ ہے کہ ماقبل کے لوگ ان کے اقوال میں سے کچھ چھوڑ بھی دیاکرتے تھے۔
حافظ ذہبی سیراعلام النبلاء(2/608) میں نقل کرتے ہیں
شرِيْكٌ: عَنْ مُغِيْرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيْمَ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُنَا يَدَعُوْنَ مِنْ حَدِيْثِ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب یعنی فقہائے کوفہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث کو یاحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث مین سے کچھ کو چھوڑدیتے تھے۔
وضاحت:من حدیث ابوہریرہ میں دوبات ہوسکتی ہے یاتومن کو تبعیضیہ ماناجائے یعنی من بعضے افراد کوبتانے کیلئے ہے یاپھر من کو زائد ماناجائے۔اگرمن کوزائد ماناجائے توترجمہ ہوگاکہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث کو مطلقا رد کردیاکرتے تھے۔ اوراگرتبعیض کے معنی میں لایاجائے تومعنی ہوگاکہ بعض احادیث کو رد کرتے تھے۔میری رائے میں من یہاں حدیث کے بعض جزء پر دلالت کرنے کیلئے ہے۔ اوراس کی دلیل یہ ہے کہ کتاب العلل میں امام احمد بن حنبل کے واسطہ سے یہ روایت مذکور ہے جس میں واضح ہوجاتاہے کہ یہاں پر من تبعیض کیلئے ہے۔ زائد نہیں ہے۔
حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش، قال: كان إبراهيم صيرفيا في الحديث أجيؤه بالحديث، قال: فكتب مما أخذته عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال: كانوا يتركون أشياء من أحاديث أبي هريرة.( وفي كتاب " العلل لأحمد " ص 140واللہ اعلم بالصواب

ان اقوال کو حافظ ذہبی نے بھی سیراعلام النبلاء میں ذکر کیاہےاورپھر رد کیاہے ۔حافظ ذہبی یہ قول اوردوسرے اقوال امام ابراہیم نخعی سے نقل کرنےکے بعد کہتے ہیں۔
قُلْتُ: هَذَا لاَ شَيْءَ، بَلْ احْتَجَّ المُسْلِمُوْنَ قَدِيْماً وَحَدِيْثاً بِحَدِيْثِهِ، لِحِفْظِهِ، وَجَلاَلَتِهِ، وَإِتْقَانِهِ، وَفِقْهِهِ، وَنَاهِيْكَ أَنَّ مِثْلَ ابْنِ عَبَّاسٍ يَتَأَدَّبُ مَعَهُ، وَيَقُوْلُ: أَفْتِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ.
میں کہتاہوں ،یہ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ مسلمان ہمیشہ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادث سےا ستدلال کرتے چلے آئے ہیں اوران کے حفظ،جلالت قدر ،پختگی اورفقہ کے قائل رہے ہیں۔ ان کی فقاہت کیلئے صرف اتناکافی ہوناچاہئے کہ حضرت ابن عباس جیسافقیہہ ان کے ساتھ ادب کا معاملہ کرتاتھااورکہتاتھااے ابوہریرہ فتوی دیجئے۔

یہ بحث اگرچہ طویل ہورہی ہے لیکن اسی کے ساتھ اس کوبھی یاد کرلیجئے جوکچھ ابن قیم نے اعلام الموقعین کی ابتداء میں کہاہے۔اورحضرت ابن عباس کے مقابلہ میں حضرت ابوہریرہ کی ذات کو فقہ وفتاوی میں ناقابل حیثیت گرداناہے۔

عیسی بن ابان کے دلائل:

بہرحال اس وقت ہماراموضوع حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کی فقاہت نہیں بلکہ امام عیسی بن ابان ہے۔لہذا پھر سے اصل بحث کی جانب رخ کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کوفقہ وفتوی میں غیرمعروف کہنے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت خلاف قیاس ہونے کی صورت میں مطلقا رد کردی جائے گی بلکہ اس کیلئے کچھ شرائط ہیں ۔کچھ ضوابط ہیں اوران شرائط وضوابط کے بعد بمشکل ان کی کوئی روایت ایسی بچ جاتی ہے جس کو ہم صرف اس بنیاد پررد کردینے کا دعویٰ کریں کہ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ہےمذکورہ تمام شرائط کی جامع ہے لہذااس کو خلاف قیاس ہونے اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہونے کی بناء پر رد کیاجاتاہے۔

امام عیسی بن ابان کہتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عدالت اورحفظ وضبط میں کوئی شک نہیں ہےہاں لیکن یہ بات ہے کہ ان کا فقہی مقام ومرتبہ وہ نہیں تھا جودیگر فقہ واجتہاد میں معروف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاتھا۔علاوہ ازیں بعض صحابہ کرام نے ان کی روایت کو قیاس کے ذریعہ رد کیاہے جیسے حضرت عباس سے جب یہ بات کہی گئی کہ آگ کو مس کی ہوئی چیز استعمال کرنے سے وضو کرو تواس کا رد انہوں نے قیاس کے ذریعہ کیا۔

جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیاکہ زناسے پیدابچہ تیسرابراہے (ماں باپ کے بعد)توحضرت عائشہ نے فرمایاکہ اگربات ایسی ہی ہے توپھر بدکاری کے الزام میں قابل حد حاملہ عورت کو بچہ جننے کی مہلت کیوں دی جاتی ہے۔اس موقع سے حضرت عائشہ نے کوئی دوسری روایت نہ پیش کرکے قرآن کی آیت لاتزروازرۃ وزر آخری کا عموم سے استدلال کیا۔

اسی طرح روایت میں آتاہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےایک پائوں میں موزہ پہن کر چلنے سے ممانعت کی روایت کی توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے اس کو تسلیم نہیں کیا۔اس کے علاوہ عیسی بن ابان دوسرے نظائر پیش کرتے ہیں جہاں صحابہ کرام نے ان کی کثرت روایت پر انکار کیااورتعجب کیا اورحضرت عائشہ نے توٹوکابھی کہ رسول پاک تمہاری طرح جلدی جلدی بات نہیں کرتے تھے وہ تواتنے ٹھہر کر بیان کرتے تھے کہ کوئی ان کی باتوں کو شمار کرناچاہے توشمار کرلے۔

یہ سب مثالیں عیسی بن ابان سے نقل کرنے کے بعد امام جصاص رازی عیسی بن ابان رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
قالَ أَبُو بَكْرٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: جَعَلَ عِيسَى - رَحِمَهُ اللَّهُ - مَا ظَهَرَ مِنْ مُقَابَلَةِ السَّلَفِ لِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ بِقِيَاسِ الْأُصُولِ، وَتَثْبِيتِهِمْ فِيهِ، عِلَّةً لِجَوَازِ مُقَابَلَةِ رِوَايَاتِهِ بِالْقِيَاسِ. فَمَا وَافَقَ الْقِيَاسَ مِنْهَا قَبِلَهُ، وَمَا خَالَفَهُ لَمْ يَقْبَلْهُ، إلَّا أَنْ يَكُونَ خَبَرًا قَدْ قَبِلَهُ الصَّحَابَةُ فَيُتَّبَعُونَ فِيهِ (الفصول فی الاصول3/129)
امام جصاص رازی کہتے ہیں سلف سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کاقیاس کے اصول سے معارضہ کرنے اوراس میں مزید غوروفکر نے اس پر آمادہ کیاکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا قیاس سے مقابلہ کیاجائے توان کی جوروایت قیاس کے موافق ہوئی اسے انہوں نے قبول کرلیااورجوروایت قیاس کے خلاف ہوئی اسے قبول نہیں کیا۔ہاں اگر ان کی کسی خلاف قیاس خبر کو صحابہ وتابعین نے قبول کیاہے تواس کو قبول کیاجائے گا۔

غیرفقیہہ راوی کی روایت کو رد کرنے کیلئے مزید شرائط:
عیسی بن ابان کے نزدیک کسی روایت کے خلاف قیاس ہونے کی صورت میں رد کیلئے حسب ذیل شرائط وضوابط ہیں۔
يُقْبَلُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَا لَمْ يَرُدَّهُ الْقِيَاسُ، وَلَمْ يُخَالِفْ نَظَائِرَهُ مِنْ السُّنَّةِ الْمَعْرُوفَةِ، إلَّا أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ قَبِلَهُ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ، وَلَمْ يَرُدُّوهُ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سے وہ حدیث قبول کی جائے گی جو قیاس کے خلاف نہ ہواوراس حدیث کے خلاف اس کی نظیر دوسری مشہور احادیث نہ ہوں۔ہاں اگران سب کےباوجود ایسی روایت کو صحابہ اورتابعین نے قبول کیاہوگاتوخلاف قیاس ہونے کے باوجود اس روایت کو قبول کیاجائے ۔

ایک دوسرے مقام پر عیسی بن ابان کہتے ہیں۔
وَيُقْبَلُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَا لَمْ يَتِمَّ وَهْمُهُ فِيهِ، لِأَنَّهُ كَانَ عَدْلًا.
اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث قبول کی جائے گی صرف وہ حدیث اس سے مستثنی ہوگی جس کے بارے میں مکمل طورپر پتہ چلے کہ ان کو وہم لاحق ہواہے۔تو وہ حدیث قبول نہیں کی جائے گی ۔کیونکہ حضرت ابوہریرہ کی عدالت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ عادل تھے۔
اگریہ تمام شرائط پائی جائیں گی تب جاکر ایسی روایت خلاف قیاس ہونے کی وجہ سے رد کردی جائے گی۔

1:راوی فقہ اوراجتہاد میں معروف نہ ہو
2:اس مفہوم کی تائید کرنے والی دیگر روایات نہ ہو
3:صحابہ اورتابعین نے مذکورہ راوی کی دیگر روایات پر انکار کیا یاپھر زیر بحث خبر پر اعتراض کیاہو
4:دیگر مجتہدین صحابہ کرام اورتابعین نے اس پرعمل نہ کیاہو۔
ان چارشرائط کے اجتماع کے بعد ہی کسی روایت کو محض اس لئے رد کردیاجائے گاکہ وہ خلاف قیاس ہے۔

عیسی بن ابان نے جب یہ بات کہی کہ راوی کا فقیہہ ہونا روایت میں ایک طرح کی علت کا موجب ہے اوریہ کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ کو غیرفقیہہ کہاتواس پر بعض لوگوں نے ان پر نارواالزامات لگاناشروع کردیا۔یہ الزامات ویسے ہی تھے جیسے کہ آج بھی مسلکی مخالفین لگاتے رہتے ہیں۔ کبھی توتحریف اورجھوٹی باتیں کہنے سے بھی باز نہیں آتے اوراس کے نمونے مختلف کتابوں میں ملتے ہیں۔عیسی بن ابان بھی اس طرح کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ ان الزامات سے عیسی بن ابان کی ذات کادفاع کرتے ہوئے امام جصاص رازی لکھتے ہیں۔
حَكَى بَعْضُ مَنْ لَا يَرْجِعُ إلَى دِينٍ، وَلَا مُرُوءَةٍ، وَلَا يَخْشَى مِنْ الْبَهْتِ وَالْكَذِبِ: أَنَّ عِيسَى بْنَ أَبَانَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - طَعَنَ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وَأَنَّهُ رَوَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ - كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ - أَنَّهُ قَالَ: " سَمِعْت النَّبِيَّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - يَقُولُ: إنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي ثَلَاثُونَ دَجَّالًا، وَأَنَا أَشْهَدُ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنْهُمْ وَهَذَا كَذِبٌ مِنْهُ عَلَى عِيسَى - رَحِمَهُ اللَّهُ -، مَا قَالَهُ عِيسَى، وَلَا رَوَاهُ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى ذَلِكَ عَنْ عَلِيٍّ فِي أَبِي هُرَيْرَةَ وَإِنَّمَا أَرَدْنَا بِمَا ذَكَرْنَا: أَنْ نُبَيِّنَ عَنْ كَذِبِ هَذَا الْقَائِلِ، وَبَهْتِهِ، وَقِلَّةِ دِينِهِ.
بعض ایسے لوگوں نے کہ جن کے اندر نہ دینداری ہے اورنہ مروت اورنہ وہ کسی پر بہتان اورجھوٹاالزام لگانے سے بازرہتے ہیں عیسی بن ابان کے بارے میں نقل کیاہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن کیاہے اوریہ روایت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے نقل کی ہے کہ میں نے سناہے کہ میری امت میں تیس دجال ہوں گے اورمیں گواہی دیتاہوں کہ ان میں سے ایک ابوہریرہ ہے۔یہ حضرت عیسی بن ابان پر گڑھاہواجھوٹ ہے۔نہ عیسی بن ابان نے یہ بات کہی اورنہ ایسی کوئی روایت کی ۔اورنہ ہم جانتے ہی کہ کسی نے بھی اس مکذوب روایت کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیاہو ۔ہماراارادہ اس کےذکر سے صرف اتناہے کہ ہم اس جھوٹے اوردروغ گو شخص کاپول کھولیں ،اس کے بہتان کو نمایاں کریں اوربتائیں کہ وہ دین کے اعتبار سے کس کمتر حیثیت کاہے۔

اس کے بعد امام جصاص رازی بتاتے ہیں کہ عیسی بن ابان نے اپنی مختلف کتابوں میں متعدد بار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو عادل اورثقہ ماناہے۔ ان کی روایتوں کو قابل اعتماد تسلیم کیاہے ہاں صرف اتنی بات ہے کہ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ سے بھی بتقاضائے بشری ہوئیں اورچونکہ ان سے زیادہ روایتیں منقول ہیں اس لئے ان پر بعض صحابہ کرام نے نکیر بھی کیا۔لہذا انہی صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم بھی ان کی بعض روایات کو مطلقا نہیں بلکہ غوروفکر کے بعد قبول کریں گے۔

بَلْ الَّذِي ذَكَرَ عِيسَى فِي كِتَابِهِ الْمَشْهُورِ: هُوَ مَا قَدَّمْنَا ذِكْرَهُ، مَعَ تَقْدِيمِهِ الْقَوْلَ فِي مَوَاضِعَ مِنْ كُتُبِهِ بِأَنَّهُ عَدْلٌ، مَقْبُولُ الْقَوْلِ وَالرِّوَايَةِ، غَيْرُ مُتَّهَمٍ بِالتَّقَوُّلِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إلَّا أَنَّ الْوَهْمَ وَالْغَلَطَ لِكُلِّ بَنِي آدَمَ مِنْهُ نَصِيبٌ، فَمَنْ أَظْهَرَ مِنْ السَّلَفِ تَثَبُّتًا فِي رِوَايَةٍ تَثَبَّتْنَا فِيهَا، وَاعْتَبَرْنَاهَا بِمَا وَصَفْنَا.
بلکہ عیسی بن ابان نے اپنی مشہور کتاب(کتاب الحجج)میں جوکچھ کہاہے وہ وہی ہے جو ہم نے ماقبل میں ذکر کیاہے(کہ حضرت ابوہریرہ عادل اورحفظ وضبط میں ممتاز ہیں)یہ بات انہوں نے اپنی مختلف کتابوں میں متعد د مقام پر کہی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عادل ہیں، قول اورروایت میں مقبول ہیں۔ رسول پاک پر جھوٹی بات گڑھنے والے نہیں ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ وہم اورغلطی بنی آدم کا خاصہ ہے توان کی جن روایتوں پر سلف نے انکار کیاہے اورتثبت سے کام لیاہے ہم بھی انہی اسلاف کے نقش قدم پر چلیں گے۔

ایک اعتراض کا جواب:
اب یہاں پر ایک اعتراض ہوسکتاہے ۔وہ اعتراض یہ ہے کہ کتب حدیث میں ایک روایت ملتی ہے
إِنْ قِيلَ، قَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ: " يَزْعُمُونَ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إنِّي كُنْت امْرَأً مِسْكِينًا، أَصْحَبُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ يَشْغَلُهُمْ الْقِيَامُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ يَشْغَلُهُمْ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَإِنِّي شَهِدْت مِنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَجْلِسًا وَهُوَ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ: «مَنْ يَبْسُطُ رِدَاءَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي، ثُمَّ يَقْبِضُهُ إلَيْهِ، وَلَا يَنْسَى شَيْئًا سَمِعَهُ مِنِّي، فَبَسَطْت بُرْدَةً كَانَتْ عَلَيَّ، حَتَّى قَضَى النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَقَالَتَهُ، فَقَبَضْتهَا، فَمَا نَسِيت شَيْئًا بَعْدَهُ» سَمِعْته مِنْهُ.
وَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ قَدْ حَفِظَ مَا سَمِعَهُ، وَقَدْ شَهِدَ لَهُ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِذَلِكَ، فَلِذَلِكَ كَانَتْ رِوَايَتُهُ أَكْثَرَ مِنْ رِوَايَاتِ غَيْرِهِ.
اگریہ کہاجائے کہ حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رسول اللہ سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتاہے بات یہ ہے کہ میں مسکین آدمی تھا ہمیشہ رسول پاک سے چمٹارہتاتھا۔ انصار کو اپنے مشاغل تھے اورمہاجرین کو بازاروں کی مشغولیت رہتی تھی اورمیں ایک مرتبہ رسول پاک کی مجلس میں حاضر تھا۔اور وہ فرمارہے تھے۔کون اپنی چادر پھیلائے گا تاکہ میں اپنی بات پوری کرلوں پھر وہ اس کو لے لے تووہ کوئی ایسی بات نہ بھولے جومجھ سے سناہو۔تومیں نے اپنے اوپرپڑی چادر کو بچھایا یہاں تک کہ نبی پاک نے اپنی بات پوری کرلی پھر میں نے چادر کولیاتواس کے بعد میں کچھ بھی نہیں بھولا
توحضرت ابوہریرہ نے حضورپاک کی باتوں کو یاد رکھاتھااوراس کی گواہی نبی پاک نے بھی دی ہے اسی لئے ان کی روایتیں دوسروں سے زیادہ ہیں تواس کو ان پر وجہ طعن اوروہم کی بنیاد نہیں بناناچاہئے۔

اس کا جواب دیتے ہوئے امام جصاص رازی کہتے ہیں کہ اگرایسی ہی بات ہوتی کہ حضرت ابوہریرہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی بات نہ بھولنے والے ہوتے توان کی روایات تمام صحابہ کرام میں امتیازی شان کی مالک ہوتی ۔کیونکہ تمام صحابہ کرام پر بہرحال بھول چوک اوروہم ونسیاں کا خطرہ برقرارتھاسوائے حضرت ابوہریرہ کے اوراس کاتقاضہ یہ ہوناچاہئے تھا کہ ان کی روایتیں زیادہ قبول کی جاتی بہ نسبت دیگر صحابہ کے۔اورتمام صحاہ کرام کی روایتوں پر ان کی روایت کو ترجیح ہوتی ۔لیکن ہم صحابہ کرام اورتابعین عظام کے حالات کاجب مطالعہ کرتے ہیں توپاتے ہیں کہ بات یہ نہیں تھی انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایتوں کو اکابرصحابہ پر کبھی ترجیح نہیں دی بلکہ بسااوقات ایسابھی ہواہے کہ ان کی روایتوں کا معارضہ کیاگیاہے۔ خود ان پر رد کیاگیاہے۔حضرت عباس نے رد کیا۔ حضرت عائشہ نے رد کیا۔ابراہیم نخعی نے رد کیا ۔اس سے پتہ چلتاہے کہ بات وہ نہیں ہے جو معترض نے سمجھاہے بلکہ یہ ہے کہ نہ بھولنے کی بات صرف اورصرف اس ایک مجلس کی تھی جس میں یہ واقعہ پیش آیا نہ کہ پوری زندگی پر محیط اورکسی بھی بات کے نہ بھولنے کی ضمانت۔

امام جصاص رازی لکھتے ہیں۔
أَمَّا قَوْلُهُ: إنَّهُمْ يَزْعُمُونَ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، فَإِنَّهُ يَدُلُّ: عَلَى أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا أَنْكَرُوا كَثْرَةَ رِوَايَتِهِ
بہرحال حضرت ابوہریرہ کا یہ قول کہ "لوگ یہ گمان کرتے ہیں"یہ خود بتارہاہے کہ ان کے ہم عصروں نے ان کی کثرت روایت کو عجیب بات سمجھاہے۔

وَأَمَّا حِفْظُهُ لِمَا كَانَ سَمِعَهُ حَتَّى لَا يَنْسَى مِنْهُ شَيْئًا، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ كَذَلِكَ لَكَانَتْ هَذِهِ فَضِيلَةً لَهُ قَدْ اُخْتُصَّ بِهَا، وَفَازَ بِحَظِّهَا مِنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، وَلَوْ كَانَتْ هَذِهِ لَعَرَفُوا ذَلِكَ لَهُ، وَاشْتَهَرَ عِنْدَهُمْ أَمْرُهُ، حَتَّى كَانَ لَا يَخْفَى عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَنْزِلَتُهُ، وَلَرَجَعَتْ الصَّحَابَةُ إلَيْهِ فِي رِوَايَتِهِ، وَلَقَدَّمُوهَا عَلَى رِوَايَاتِ غَيْرِهِ، لِامْتِنَاعِ جَوَازِ النِّسْيَانِ عَلَيْهِ، وَجَوَازِهِ عَلَى غَيْرِهِ، وَلَكَانَ هَذَا التَّشْرِيفُ وَالتَّفْضِيلُ الَّذِي اُخْتُصَّ بِهِ مُتَوَارَثًا فِي أَعْقَابِهِ، كَمَا " خُصَّ جَعْفَرٌ بِأَنَّ لَهُ جَنَاحَيْنِ فِي الْجَنَّةِ " وَخُصَّ " حَنْظَلَةَ بِأَنَّ الْمَلَائِكَةَ غَسَّلَتْهُ ".
یہ کہناکہ ان کاحافظہ ایساہوگیاہے کہ پھر وہ کچھ نہیں بھولتے تھے تواگرایساہی ہوتا تویہ ان کی خاص فضیلت ہوتی جس میں وہ دیگر تمام صحابہ کرام سے ممتاز ہوتے اوراس کی شہرت ہوتی یہاں تک کہ سبھی اس کو جان لیتے اورصحابہ کرام کے درمیان جب کوئی اختلاف ہوتاتووہ حضرت ابوہریرہ کی جانب رجوع کرتے اوران کی روایات کو دیگرتمام کی روایات پر ترجیح دیتے کیونکہ وہ نسیان اوربھول چوک سے بری ہوگئے تھے۔اوران کی یہ فضیلت خاص کاذکر ہردور میں جاری رہتا اورلوگوں میں شہرہ ہوتا جیساکہ حضرت جعفر ذوالجناحین کے لقب سے مشہور ہیں اورحضرت حنظلہ کو غسیل الملائلہ کہاجاتاہے۔

فَلَمَّا وَجَدْنَا أَمْرَهُ عِنْدَ الصَّحَابَةِ بِضِدِّ ذَلِكَ، لِأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا كَثْرَةَ رِوَايَتِهِ: عَلِمْنَا: أَنَّ مَا رَوَى: فِي أَنَّهُ لَا يَنْسَى شَيْئًا سَمِعَهُ - غَلَطٌ. وَكَيْفَ يَكُونُ كَذَلِكَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ حَدِيثٌ رَوَاهُ عَنْ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - وَهُوَ قَوْلُهُ فِيمَا أَخْبَرَ «لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ» ثُمَّ رَوَى «لَا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ» . فَقِيلَ لَهُ: قَدْ رَوَيْت لَنَا عَنْ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - قَبْلَ ذَلِكَ «لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ» . فَقَالَ: مَا رَوَيْته.
لیکن جائزہ کے بعد معاملہ برعکس ملتاہے کیونکہ متعدد صحابہ کرام نے ان کی کثرت روایت پر انکار کیاہے۔اس سے ہم نے جان لیاکہ یہ بات کہ وہ کچھ نہیں بھولیں گے غلط ہے اور ایساکیسے ہوسکتاہے جب کہ ان سے ہی منقول ہے کہ انہوں نے لاعدوی ولاطیرہ کی حدیث نقل کی پھر یہ حدیث نقل کی لایوردن ممرض ۔پھر جب لوگوں نے کہاکہ آپ نے توپہلے ایسی حدیث بیان کی تھی توکہاکہ نہیں میں نے ایسی کوئی حدیث بیان نہیں کی تھی۔
كَانَ مَحْمُولًا عَلَى مَا سَمِعَهُ فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ خَاصَّةً، دُونَ غَيْرِهِ،
یہ حدیث اس پر محمول ہوگی کہ اس مجلس میں جوکچھ سناہے وہ نہیں بھولیں گے۔

امام جصاص رازی کی یہ تاویل کوئی بے جا اوردورازکار تاویل نہیں ہے کیونکہ اسی حدیث کے متعدد دیگر طرق میں اس کا ذکر موجود ہے کہ بات صرف اسی ایک مجلس کی تھی۔ہم بحث کو زیادہ نہ پھیلاتے ہوئے صرف بخاری اورنسائی کی روایت پیش کرتے ہیں جس میں تصریح ہے کہ اس ایک خاص مجلس کی بات نہ بھولنے کے بارے میں حضورپاک نے فرمایاتھا۔

حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّكُمْ تَقُولُونَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُونَ مَا بَالُ المُهَاجِرِينَ، وَالأَنْصَارِ لاَ يُحَدِّثُونَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ المُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمْ صَفْقٌ بِالأَسْوَاقِ، وَكُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، فَأَشْهَدُ إِذَا غَابُوا، وَأَحْفَظُ إِذَا نَسُوا، وَكَانَ يَشْغَلُ إِخْوَتِي مِنَ الأَنْصَارِ عَمَلُ أَمْوَالِهِمْ، وَكُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا مِنْ مَسَاكِينِ الصُّفَّةِ، أَعِي حِينَ يَنْسَوْنَ، وَقَدْ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَدِيثٍ يُحَدِّثُهُ: «إِنَّهُ لَنْ يَبْسُطَ أَحَدٌ ثَوْبَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي هَذِهِ، ثُمَّ يَجْمَعَ إِلَيْهِ ثَوْبَهُ، إِلَّا وَعَى مَا أَقُولُ»، فَبَسَطْتُ نَمِرَةً عَلَيَّ، حَتَّى إِذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ جَمَعْتُهَا إِلَى صَدْرِي، فَمَا نَسِيتُ مِنْ مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ مِنْ شَيْءٍ
(بخاری)
خْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِنَّكُمْ تَقُولُونَ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَقُولُونَ: مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ لَا يُحَدِّثُونَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَّ إِخْوَانِي مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَكَانَ يَشْغَلُ إِخْوَانِي مِنَ الْأَنْصَارِ عَمَلُ أَمْوَالِهِمْ، وَكُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا مِنْ مَسَاكِينِ الصُّفَّةِ أَلْزَمُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، فَأَحْضُرُ حِينَ يَغِيبُونَ، وَأَعِي حِينَ يَنْسَوْنَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَدِيثٍ يُحَدِّثُهُ يَوْمًا إِنَّهُ: «لَنْ يَبْسُطَ أَحَدٌ ثَوْبَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي هَذِهِ، ثُمَّ يَجْمَعُ إِلَيْهِ ثَوْبَهُ إِلَّا وَعَى مَا أَقُولُ»، فَبَسَطْتُ نَمِرَةً عَلَيَّ حَتَّى إِذَا قَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ جَمَعْتُهَا إِلَى صَدْرِي فَمَا نَسِيتُ مِنْ مَقَالَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ شَيْئًا
(نسائی)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن حضرات نے یہ موقف اختیار کیاہے کہ غیرفقیہہ صحابہ کرام کی روایت خلاف قیاس ہونے کی صورت میں رد کردی جائے گی ۔انہوں نے اسے مطلقا قابل رد نہیں کہاہے بلکہ اس کیلئئے کچھ دیگر شرائط اورضوابط کابھی لحاظ رکھاہے۔امام عیسی بن ابان اورامام سرخسی سے مستفاد اصولوں کو ہم ترتیب وار پیش کرتے ہیں۔اورسبھی کی مختصر تشریح بھی کردیتے ہیں تاکہ سمجھنےمیں آسانی ہو۔

http://rehmaani.blogspot.in/
 

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
شرائط کا ترتیب وارذکر:

1:وہ روایت صرف اسی ایک غیرفقیہہ راوی کے واسطے سے منقول ہو،
مثلاایک روایت صرف حضرت ابوہریرہ ہی سےمروی ہے۔وہ حضرات جن کےنزدیک فقاہت راوی بھی ایک شرط ہے ۔اگرغیرفقیہہ راوی کی روایت کے ساتھ دوسرے صحابی کی روایت مل جائے تواس وقت یہ روایت خبرواحد نہ رہ کر مشہور ہوجائے گی اورایسی روایت کو قیاس پر مطلقا مقدم کردیاجائے گا

2:ثانیاامت نے اس پر عمل نہ کیاہو۔
اگرفقہاء اورمجتہدین نے اس سے استدلال کیاہے اوراس روایت پر عمل کیاہے توبھی روایت قیاس پر مقدم ہوگی ۔

3:صحابہ کرام اورتابعین عظام نے اس پرنکیر کیاہو۔
اس کی ایک مثال لیجئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جن احادیث پر حضرت صحابہ کرام نے اعتراض کیاہے۔اس کی وجہ سے وہ حدیث اب اس لائق ہوگئی ہے کہ ایک مجتہد اس مین غوروفکر کرے اورغوروفکر کے بعداس کو قبول کرنے اورقبول نہ کرنے کا فیصلہ کرے۔

4:اس مفہوم کی دوسری روایات اس کی تائید نہ کرتی ہوں
اس میں اورشرط نمبر1 میں باریک سافرق ہے کہ اگرکسی دوسری روایت کے عموم سےیامفہوم سےبھی غیرفقیہہ راوی کی روایت کی تائید ہوتی تو اس روایت کو قیاس پر مقدم کردیاجائے گا۔

5:کتاب وسنت کے دوسرے نظائر اس مروی حدیث کے خلاف ہوں۔
مثلاایک حدیث ہے۔ہم حدیث مصراۃ کو ہی لیتے ہیں۔اب دوسری مشہور اورمقبول احادیث کا جومفہوم اورعموم ہے۔وہ اس حدیث کے خلاف ہے۔ مثلاالخراج بالضمان یاپھر اس مفہوم کی احادیث کہ سامان اورقیمت میں توازن ہوناچاہئے۔

6: ہرپہلوسے خلاف قیاس ہو، قیاس اوررائے کی ا س میں کوئی گنجائش نہ ہو۔
فقہ میں ہی قیاس کی دوبنیادی قسمیں ہیں۔ قیاس جلی اورقیاس خفی۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ صرف ایک پہلو ہی اپنے اندر نہیں رکھتا بلکہ متعدد پہلواپنے اندر رکھتاہے۔خلاف قیاس ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ قیاس ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو۔کسی بھی پہلو سے اس حدیث کا موافق قیاس ہونا ثابت نہ ہو۔علامہ فناری لکھتے ہیں۔
والمعروف بالرواية فقط؛ كأبي هريرة، وأنس بن مالك يقبل إن وافق القياس مطلقًا أو خالف من وجه وإن خالف من كل وجه وهو المراد بانسداد باب الرأي يضطر إلى تركه.(فصول البدائع فی اصول الشرائع 2/251)
اورروایت میں معروف سے مراد جیسے حضرت ابوہریرہ اورانس بن مالک ہیں توان کی روایت قبول کی جائے اگرمطلقا قیاس کے موافق ہو یاایک پہلو سے خلاف قیاس اوربقیہ پہلو سے موافق قیاس ہو توان کی روایت قیاس پر مقدم ہوگی۔اوراگران کی روایت ہرپہلو سے خلاف قیاس ہو اوروہی مراد ہے رای کے باب کے مطلقا بند ہوجانے سے تواس وقت ان کی روایت پر قیاس کو مقدم کرنا مجبوری ہوگی ۔
7:خلاف قیاس ہونابالبداہت ثابت ہوجائے۔
ایک چیز ہے کسی چیز کا نظریاتی طورپر ثابت ہونا۔دوسراہے اس چیز کا ظاہری طورپر ثابت ہونا۔مثلادنیا ایک دن فناہوجائے گی اس کیلئے ہمیں نظریاتی دوڑلگانی پڑے گی کہ دنیامتغیر ہے اورہرتغیر پذیرچیز کوفناہے ثابت ہواکہ دنیاایک دن فناہوجائے گی لیکن ہم شکر کو زبان پر رکھتے ہی معلوم کرلیتے ہیں کہ شکر میٹھی ہوتی ہے،نیم کڑواہوتاہے۔ املی کٹھی ہوتی ہے۔اسی طرح جو چیز خلاف قیاس ثابت ہو اس کا خلاف قیاس ہونانہایت واضح ہو اوریہ کہ اس کا خلاف قیاس ہونا بالکل سامنے کی بات ہو۔ڈھیر سارے مقدمات ترتیب دے کر نتیجہ نکالنے کی ضرورت نہ پڑے۔

8:قیاس عقلی نہیں بلکہ قیاس شرعی کے خلاف ہو۔
قیاس کی دوقسمیں ہیں قیاس عقلی اورقیاس شرعی۔ قیاس عقلی تو عقل سے اندازہ لگاناہے یہ دنیاوی چیزوں کے بارے میں ہوتاہے۔فلاں چیز ایسی ہے اور وہی خصوصیات فلاں چیز میں ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی یاہونی چاہئے۔جب کہ قیاس شرعی کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک مسئلہ ایک مجتہد کے سامنے آتاہے تو وہ دیکھتاہے کہ آیا یہ حکم کتاب اللہ میں ہے۔ اگرہے توٹھیک ،نہیں ہے توسنت رسول مین دیکھتاہے۔ اگروہاں بھی نہیں ہے توحضرات صحابہ کرام اورماقبل کے مجتہدین کا متفقہ قول تلاش کرتاہے اگرنہیں ملتاتووہ دیکھتاہے کہ اس مسئلہ کی بنیادی علت کیاہے۔پھر اس علت کو دیکھناشروع کرتاہے کہ قرآن کریم کی آیتوں، فرامین رسول پاک اوراجماع صحابہ وتابعین میں میں سے کسی میں یہ علت پائی جارہی ہے یانہیں اگرپائی جارہی ہے تو وہ اس علت کو اس مسئلہ کی بنیاد بناکروہی حکم اس مسئلہ میں بھی جاری کرتاہے۔ اس کوقیاس شرعی کہتے ہیں کیونکہ یہ صرف کتاب اللہ ،سنت رسول اوراجماع پر ہی ہوتاہے۔

خبر پر قیاس کے مقدم کرنے کیلئے کیساقیاس معتبر ہے۔

قارئین کو ہم بتاتے چلیں کہ بات صرف قیاس شرعی تک ہی محدود نہیں ہے کہ قیاس شرعی ہوگاتو خبر پر مقدم ہوگا ورنہ نہیں بلکہ قیاس شرعی میں بھی کچھ اقسام ہیں اوریہ اقسام علت کے اعتبار سے ہیں کہ قیاس کیلئے جس علت کو بنیاد بنایاگیاہےاس علت کی خود پوزیشن کیاہے۔ کبھی علت منصوص ہوتی اوردلیل پر قطعی ہوتی ہے ۔کبھی علت منصوص ہوتی ہے اوردلالت پر ظنی ہوتی ہے لیکن یہ علت جو منصوص اورظنی ہے یہ اس خبر پر جس کے خلاف ہے راجح ہوتی ہے۔ کبھی منصوص علت ظنی ہوتی ہے اورخبر کے مقابلے میں مرجوح ہوتی ہے۔کبھی ایساہوتاہے کہ دلیل کی قوت کے لحاظ سے منصوص علت اورخبردونوں ہی برابرہوتے ہیں ۔

ان حالات میں کہ اگر قیاس کی علت منصوص ہواوردلالت پر قطعی ہوتو پھر وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہواورظنی ہو لیکن دوسری وجوہات سے وہ خبرواحد پر رجحان رکھتی ہوتواس وقت بھی وہ خبرواحد پر مقدم ہوگی۔ اگرقیاس کی علت منصوص اورظنی ہےاورخبرواحد بھی ظنی ہے اوردلیل کی قوت کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں توایسے وقت میں مجتہد اس میں اجتہاد کرے گااوراس کا جس جانب رجحان ہواس کو مقدم کرے گا۔ اگرقیاس کی علت منصوص ہونے کے باوجود خبرواحد کے مقابلے میں مرجوح ہے توخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
علامہ ابن ہمام تحریر میں اوران کےشارح لکھتے ہیں۔
إنْ كَانَ ثُبُوتُ الْعِلَّةِ بِقَاطِعٍ) لِأَنَّ النَّصَّ عَلَى الْعِلَّةِ كَالنَّصِّ عَلَى حُكْمِهَا فَحِينَئِذٍ الْقِيَاسُ قَطْعِيٌّ وَالْخَبَرُ ظَنِّيٌّ وَالْقَطْعِيُّ مُقَدَّمٌ قَطْعًا (فَإِنْ لَمْ يُقْطَعْ) بِشَيْءٍ (سِوَى بِالْأَصْلِ) أَيْ بِحُكْمِهِ (وَجَبَ الِاجْتِهَادُي التَّرْجِيحِ) فَيُقَدَّمُ مَا يَتَرَجَّحُ إذْ فِيهِ تَعَارُضُ ظَنَّيْنِ: النَّصُّ الدَّالُّ عَلَى الْعِلَّةِ، وَخَبَرُ الْوَاحِدِ وَيَدْخُلُ فِي هَذَا مَا إذَا كَانَتْ الْعِلَّةُ مَنْصُوصًا عَلَيْهَا بِظَنِّيٍّ وَمَا إذَا كَانَتْ مُسْتَنْبَطَةً (وَإِلَّا) إنْ انْتَفَى كِلَا هَذَيْنِ (فَالْخَبَرُ) مُقَدَّمٌ عَلَى الْقِيَاسِ لِاسْتِوَائِهِمَا فِي الظَّنِّ وَتَرَجَّحَ الْخَبَرُ عَلَى النَّصِّ الدَّالِّ عَلَى الْعِلَّةِ بِأَنَّهُ يَدُلُّ عَلَى الْحُكْمِ بِدُونِ وَاسِطَةٍ بِخِلَافِ النَّصِّ الدَّالِّ عَلَى الْعِلَّةِ فَإِنَّهُ إنَّمَا يَدُلُّ عَلَى الْحُكْمِ بِوَاسِطَةِ الْعِلَّةِ
(التقریروالتحبیر علی تحریر الکمال ابن الھمام2/299)
اگرعلت کا ثبوت قطعی ہو کیونکہ علت کی نص ویسی ہی ہوتی ہے جیسے نص کسی حکم پر ہوتی ہے توایسی حالت میں علت کے قطعی ہونے کی صورت میں قیاس قطعی ہوگا اورخبرظنی ہوگی توقیاس کو خبرپرمقدم کیاجائے گا۔اوراگرقطعی نہ ہو اوراصل کے اعتبار سے دونوں برابر ہوںتواس وقت ترجیح کیلئے اجتہاد کیاجائے گا۔اوراس کو مقدم کیاجائے گا جو راجح ہو کیونکہ یہاں پر دوظن میں تعارض ہے۔ ایک خبرواحد اورایک قیاس کی منصوص علت ۔علت کے منصوص ہونے میں شامل ہے کہ وہ براہ راست نص سے ثابت ہو یانص سے مستنبط کیاگیاہو۔اگریہ دونوں صورتیں نہ ہوں یعنی نہ علت قطعی ہو اورنہ منصوص اورظنی ہوتو خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
علامہ ابن ہمام اک سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ خبرواحد کو آپ ظنی مانتے ہیں اورقیاس بھی ظنی ہے تو پھر آپ قیاس اورخبرواحد کے تعارض کی صورت مین مذکورہ دوبالاشرط کیوں لگارہے ہیں کہ ایساایساہوگاتو قیاس مقدم ہوگا اورایسانہیں ہوگاتو خبرمقدم ہوگی۔ اصول کا تقاضہ تویہ ہوناچاہئے تھاکہ جب دونوں ظنی ہیں توچاہے قیاس کی علت منصوص ہویانہ ہو قطعی ہو یانہ ہو ہرحال میں وجہ ترجیح دیکھی جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ قیاس میں کسی حکم کااثبات علت کے واسطے سے ہوتاہے اورخبرواحدمیں اسی حکم کااثبات بغیر علت کے اوربراہ راست ہوتاہے لہذا جب ایک جان صرف قیاس اورخبرواحد ہوتوخبرواحد کو مقدم کیاجائے گا۔
اوراسی کی جانب علامہ ابن ہمام نے اپنارجحان بھی ظاہر کیاہے۔
(وَالْمُخْتَارُ) (إنْ كَانَتْ الْعِلَّةُ) ث (بِنَصٍّ رَاجِحٍ عَلَى الْخَبَرِ ثُبُوتًا) (وَقُطِعَ بِهَا) (فِي الْفَرْعِ قُدِّمَ الْقِيَاسُ) (وَإِنْ ظُنَّتْ) (فَالْوَقْفُ) (وَإِلَّا تَكُنْ) (بِرَاجِحٍ) (فَالْخَبَرُ) (الصدرالسابق)
پسندیدہ یہ ہے کہ اگرعلت کاثبوت ایسے نص سے ہورہاہے جو خبرواحد پر راجح ہو اورفرع پر حکم کے اثبات میں قطعی ہو تو قیاس کو مقدم کیاجائے گا اوراگردونوں ظنی الدلیل ہوں تو توقف کیاجائے اوراگرایسابھی نہ ہوتو خبرکو مقدم کیاجائے گا۔

9:خبر سے حلال وحرام کی بات کا اثبات ہورہاہے۔ اگرصرف استحباب ،سنت یاافضل وغیرافضل کی بات ہو توبھی قیاس پر خبرواحد کو مقدم کیاجائے گا خواہ راوی فقیہہ ہویاغیرفقیہہ۔

إِنَّمَا قَصَدَ عِيسَى - رَحِمَهُ اللَّهُ - فِيمَا ذَكَرَهُ إلَى بَيَانِ حُكْمِ الْأَخْبَارِ الْوَارِدَةِ فِي الْحَظْرِ، أَوْ الْإِيجَابِ، أَوْ فِي الْإِبَاحَةِ، مَا قَدْ ثَبَتَ حَظْرُهُ بِالْأُصُولِ الَّتِي ذَكَرَهَا، أَوْ حَظْرُ مَا ثَبَتَ إبَاحَتُهُ، مِمَّا كَانَ هَذَا وَصْفَهُ، فَحُكْمُهُ جَارٍ عَلَى الْمِنْهَاجِ الَّذِي ذَكَرْنَاهُ فِي الْقَبُولِ، أَوْ الرَّدِّ.وَأَمَّا الْأَخْبَارُ الْوَارِدَةُ فِي تَبْقِيَةِ الشَّيْءِ عَلَى إبَاحَةِ الْأَصْلِ، أَوْ نَفْيِ حُكْمٍ لَمْ يَكُنْ وَاجِبًا فِي الْأَصْلِ، أَوْ فِي اسْتِحْبَابِ فِعْلٍ، أَوْ تَفْضِيلِ بَعْضِ الْقُرَبِ عَلَى بَعْضٍ، فَإِنَّ هَذَا عِنْدَنَا خَارِجٌ عَنْ الِاعْتِبَارِ الَّذِي قَدَّمْنَا، وَذَلِكَ لِأَنَّهُ لَيْسَ عَلَى النَّبِيِّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - بَيَانُ كُلِّ شَيْءٍ مُبَاحٍ، وَلَا تَوْقِيفُ النَّاسِ عَلَيْهِ بِنَصٍّ يَذْكُرُهُ، بَلْ جَائِزٌ لَهُ تَرْكُ النَّاسِ فِيهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ حَالُ الشَّيْءِ مِنْ الْإِبَاحَةِ قَبْلَ وُرُودِ الشَّرْعِ.وَكَذَلِكَ لَيْسَ عَلَيْهِ تَبْيِينُ مَنَازِلِ الْقُرَبِ وَمَرَاتِبِهَا بَعْدَ إقَامَةِ الدَّلَالَةِ لَنَا عَلَى كَوْنِهَا قُرَبًا، كَمَا أَنَّهُ لَيْسَ عَلَيْهِ أَنْ يُبَيِّنَ لَنَا مَقَادِيرَ ثَوَابِ الْأَعْمَالِ،(الفصول فی الاصول3/122)

عیسی بن ابان علیہ الرحمہ نےاحادیث کے قبول وعدم قبول کا ماقبل میں جو معیار بتایاہے وہ ان احادیث کیلئے ہے جوکسی چیز کو حرام کرتی یاحلال کرتی ہیں یاکسی چیز کو فرض وواجب کرتی ہیں۔جواحادیث ایسی ہوں گی تواس کو اسی معیار پر پرکھاجائے جس کو ہم نے ذکر کیاہے ۔باقی رہ گئی وہ حدیثیں جو کسی چیز کو اصل پر باقی رکھتی ہیں یعنی وہ پہلےبھی حلال تھی اورحدیث میں بھی اس کی حلت کا ذکر ہے یاکسی چیز سے منع کیاگیاہے جو پہلے بھی واجب نہیں تھی یاکسی فعل کے استحباب کے بارے میں یابعض اعمال کو بعض پر فضیلت دینے کے بارے میں تو وہ ہماری بحث سے خارج ہے یعنی ایسی حادیث پر ان شرائط کا اطلاق نہیں ہوگا۔ا س کی وجہ یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری نہی ہے کہ وہ تمام مباحات کو بتائیں اورنہ یہ کہ تمام لوگوں کو اس کے بارے میں نص کے ذریعہ باخبرکرائیں ۔بلکہ ان کیلئے جائز ہے کہ لوگوں کو اس حال پر چھوڑدیں جس پر وہ شریعت کے نزول سے پہلے تھے ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بھی ضروری نہیں کہ بعض اعمال کے درجات اورمراتب کے بارے میں بتائیں جب کہ آپ نے اس کےعبادت ہونے کو بیان کردیاہو جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعمال کے ثواب کے درجات کا بتاناضروری نہیں ہے۔


اب احناف پر طعن وتشنیع کرنے والے بتائیں کہ ذخیرہ احادیث سے روایات کی چھان پھٹک کے بعد کتنی روایتیں اس سخت شرائط پر پورااترنے کے بعد محض اس بناء پر رد کردی جائیں گی کہ وہ خلاف قیاس ہے اورراوی غیرفقیہہ ہے۔میراتوذاتی طورپر خیال یہی ہے کہ یہ صرف لفظی بحث رہ گئی ہے ۔ورنہ حقیقت یہ ہے کہ راوی کی روایت کو مطلقاقبول کرنے والوں اوران شرائط کا لحاظ کرنے والوں میں عملی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔جیساکہ محدثین اعمال کو ایمان کاجزء مانتے ہیں اوراحناف نہیں مانتے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ دونوں گنہ گار کو قابل مغفرت اوراللہ کی مشیت کے تحت مانتے ہیں کہ اللہ چاہے توعذاب دے چاہے تومعاف کردے لیکن گناہ کی وجہ سے کافرنہیں کہتے۔

بات صرف احناف کی نہیں ہے احناف نے جن وجوہات سےقیاس کو خبرواحد پر مقدم کیاہے سوائے فقاہت راوی کے شرط کے۔انہیں وجوہات سے شوافع اورمالکیہ نے بھی کیاہے۔ شوافع میں آمدی اور مالکیہ میں سے ابن الحاجب نے بھی قیاس کی علت کے منصوص ہونے نہ ہونے پر تفصیلی بحث کی ہے اورایسی صورت میں اس کو خبرواحد پرمقدم کیاہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://rehmaani.blogspot.in/
 
Top