ابتدائیہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ابتدائیہ​
ماخوذ: فتح الرحمن فی اثبات مذہب النعمان (اردو ترجمہ) تائید مذہب حنفی احادیث مبارکہ کی روشنی میں ۔
[size=x-large]مصنف : شیخ محقق امام اہل سنت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ​

تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہیں جس نے حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبیین اور تمام رسولوں کا سردار بنا کر بھیجا۔آپ ﷺ کی شریعت کو کامل ترین شریعت اور آپ ﷺ کے دین کو قوی دلائل اور روشن کتاب کے ساتھ تمام ادیان کا نساسخ بنایا ۔ نیز آپ ﷺ کے اصحاب اور پیرو کا ر بھی پیدا کئے ۔
آپ ﷺ کے اصحاب رضوان علیھم اجمعین آپ علیہ السلام کی مدد کرتے ، آپ علیہ السلام کی سنت کی حفاظت کرتے ،اس کا خیال رکھتے اور خیر خواہی اور ذمہ داری کے ساتھ اسے امت تک پہنچاتے ۔اس کو مضبوط کرتے ،اس میں غور وفکر کرتے ،اس کو بڑھاتے اور پھیلاتے یہاں تک کہ نعمت الہیہ تمام ہوئی اور دین مکمل ہوگیا اور اللہ تعالی کی حجت تمام جہانوں پر ظاہر ہو گئی ۔اللہ تبارک وتعالی آپ ﷺ پر جو حق کے راستے کی رہنمائی کرنے والے اور دین کے علوم زندہ کرنے والے ہیں ،آپ کی آل ، آپ کے اصحاب پر اور آپ کے پیرو کاروں ، سب پر درود وسلام نازل فر مائے ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ا جمعین آپ ﷺ سے شرف صحبت کی برکت ۔۔۔ایمان کے نور کے باعث اپنے باطن کی روشنی ۔۔۔۔صدق ویقین کی خوبی کے باعث اپنے عقیدے کی صفائی ۔۔۔۔کتاب وسنت کے انوار کی روشنی ۔۔۔بغیر کسی گمان اور شک کے زمانہ نزول وحی میں ان کی موجودگی ۔۔۔۔نبی کریم ﷺ سے بغیر کسی واسطے کے علوم کا حصول ۔۔۔ آپ ﷺؑ کے ساتھ مضبوط ترین تعلق ۔۔۔۔ نئے پیش آمدہ حوادث وواقعات میں آپ کی ذات گرامی کی طرف رجوع ،،،اور نئے احکام ومسائل کے وجود کی کمی کے باعث عمومی اعتبار سے قیاس اور اجتہاد سے مستغنی وبے نیاز تھے ۔۔۔۔ان کے یہاں اشتباہ اور التباس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ان میں سے ہر ایک نبی کریم ﷺ کے علوم کے سمندر میں سے ایک دریا، جھیل یا نہر کی مانند تھا۔۔۔گویا کہ یہ حضرات علوم اور بر کات سر چشمے تھے ۔
تا ہم یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ حضرات ہر وقت خدمت اقدس میں حاضر نہیں رہتے تھے ۔۔۔۔ اور آپ ﷺ کی عادت مبارکہ نوافل ومستحبات میں دائمی نہیں تھی جس طرح کی فرائض وواجبات کو ایک مخصوص نظم کے ساتھ ادا فر ماتے ۔۔۔مبادا کہ وہ امت پر فرض ہو جائے ۔۔۔۔ اور یہ سب کچھ صرف آپ ﷺ کی شفقت اور ہر تنگی دور کر کے تمام امور میں اس امت کو وسعت اور آسانی فر اہم کر نے کیلئے تھا۔
لہذا ان حضرات نے جو احادیث ان کے علم میں تھیں انہیں نقل کر دیا ِخواہ ان کی نقل کردہ روایت دیگر صحابہ کرام کی نقل کر دہ روایت کے مخالف ہو یا موافق۔۔۔۔ اور یہیں سے اعمال میں اختلاف کا آغاز ہوا ۔۔یعنی یہ اختلاف روایت کے اعتبار سے تھا ۔۔۔قدیم وجدید کے بارے میںاجتہاد کے اعتبار سے نہیں تھا ۔۔۔۔ پھر صحابہ کرام مختلف شہروں اور علاقوں میں پھیل گئے ۔۔۔ان سے ایک اور جماعت ملی ۔۔۔۔جنہوں نے ان کی صحبت اختیار کی جنہیں تا بعین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔۔۔ان کا تعلق عرب سے بھی تھا اور عجم سے بھی ۔۔۔۔۔ تا ہم یہ عجم میں عام اور زیادہ تھے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس فر مان کے مصداق ہیں ۔واخرین منھم لما یلحقوا ۔اور ان میں سے بعد میں آنے والے جب ان سے ملیں گے
۔
ان حضرات کے درمیان اجتہاد اور قیاس عام ہوا ۔انہوں نے علوم کی بنیادیں مستحکم کیں اور انہیں بلند کرنا شروع کیا ۔
پھر اور ایک جماعت آئی ۔۔۔جنہوں نے ان نفوس قدسیہ کا زمانہ پایا اور ان سے علم حاصل کیا ، انہیں تبع تا بعین کہا جاتا ہے ۔۔۔اور یہی وہ آخری تیسرا گروہ ہے جس کی سچائی اور یقین کے اعتبار سے اس امت کا بہترین طبقہ ہونے کی گواہی آپ ﷺنے خود ان الفاظ میں فر مائی ہے ۔خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم ۔ سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے ۔پھر اس کے بعد والا زمانہ یعنی صحابہ کا اور پھر اس کے بعد والا زمانہ یعنی تا بعین اور تبع تابعین کا ۔اور یہ تما م حضرات اللہ تعالیٰ کے اس فر مان میں شامل ہیں : والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ( التوبہ : ۱۰۰) اور سب میں اگلے پہلے مہاجر وانصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔
جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے ۔
ان حضرات کے زمانے میں مسائل اور واقعات کثرت سے رونما ہونا شروع ہوئے ۔۔۔۔ احادیث اور فقہی آرا میں اختلاف بھی سامنے آنا شروع ہوا ۔۔۔۔تو کتب ورسائل کی تصنیف وتالیف کا آغاز ہوا ۔۔۔۔۔۔ انہیں نفوس قدسیہ میں سے حضرات ائمہ اربعہ کو لا زوال شہرت حاصل ہوئی ۔۔۔۔۔حالانکہ ان کے علاوہ بھی کئی حضرات مجتہدین اس زمانہ میں مو جود تھے لیکن اطراف واکناف عالم میں انہیں کے پیرو کار باقی رہے ۔۔۔۔ھو لاء الاربع اعلام االدین واساطین الاسلام ۔۔۔۔جن کے مناقب سے ہر شخص آگاہ ہے ۔۔۔مذاہب اربعہ کے علماء نے اپنے اپنے امام کے ساتھ اپنی محبت اور حسن اعتقاد کے مطابق ان حضرات ائمہ کا تذکرہ کیا ہے اور تفصیل کے ساتھ ان کی تعریف اور مناقب گنوائے ہیں
اما م اعظم ابو حنیفہ الکوفی کے بھی بے حد وحساب مناقب نقل کئے گئے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کا تذکرہ تاریخ محفوظ نہ رکھ سکی ۔ان کے معاصر ائمہ اور متا خرین اہل علم ان کی مدح وتوصیف میں رطب اللسان ہیں۔۔۔۔۔اور ایسا کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔فقہ میں پیش رو۔۔۔اور نعمت میں مکمل تھے۔۔۔۔یہ حضرات ان کی علو شان اور رفعت مکان کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔
امام سفیان ثوریؒ فر ماتے ہیں :کما بین ایدی ابی حنیفہ کما یکون البازی من العصا فیر ۔ہم ابو حنیفہ ؒ کے سامنے ایسے ہیں جیسے چڑیاں باز کے سامنے ہوں۔
یہ آپ کی تواضع تھی کہ آپ امام ابو حنیفہ کے مقابلے میں خود کو فرو تر شمار کرتے تھے۔
امام عبد اللہ بن مبارکؒ سے جب کبھی کوئی مسئلہ پو چھا جاتا تو فر ماتے ـ"اس کے بارے میں سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ اور امام ابو حنیفہؒ یو ں فر ماتے ہیں " عرض کی گئی " آپ ابو حنیفہؒ کو سیدنا ابن مسعود ؓ کے ساتھ ذکر کرے ہیں "فر مایا: لو رأیت ابا حنیفہ لرئیتہ رجل کبیرا ۔ ابو حنیفہ ؒ میری نظر میں بہت بڑے آدمی ہیں ۔۔
آپ یہ بھی فر مایا کرتے تھے : ابو حنیفہ افقہ اھل الارض ولیس احد احق منہ ان یقتدی منہ ۔ ابو حنیفہؒ روئے زمین کے سب سے بڑے مجتہد ہیں اور ان سے زیادہ دنیا میں کوئی اس بات کا زیادہ حق دار نہیں کہ اس کی اقتدا کی جائے ۔

امام مالک ؒ سے جب امام شافعی ؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں پو چھا تو انہوں نے جواب دیا رأیت رجلا لو کلمک فی الساریہ یجعلھا ذھبا لقام با لحجۃ الباہرہ۔ وہ ایسے شخص ہیں کہ اگر تم ان کے ساتھ بحث کرنے بیٹھو تو وہ دلیل کے ذریعے اس لکڑی کے ستون کو سونے کا ثابت کر دیں گے ۔
ان کلمات سے امام مالکؒ کا مقصد امام ابو حنیفہؒ کی جودتِ فکر ، قوت علم ، ذہانت اور رائے کی درستگی بیان کرنا ہے ۔

امام شافعی ؒ فر ماتے ہیں : الناس عیال لابی حنیفہ فی الفقہ ۔ لوگ فقہ میں ابو حنیفہ ؒ کے محتاج ہیں ۔

امام احمد بن حنبل ؒ فر ماتے ہیں َ انہ من العلم والورع والزھد بمحل لا یوجد لہ فی زمانہ مثال ؛ وہ علم ، تقوی اور زہد کے ایسے مقام پر فائز ہیں جس کی نظیر ان کے زمانے میں نہیں ملتی ۔

بعض حضرات کے ذہن میں اپنی کم علمی کے باعث یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ شاید امام شافعی علیہ الرحمہ کا مذہب حدیث کے زیادہ قریب ہیں اور ان کے یہاں حدیث کی اتباع پر نسبتاً زیادہ زور دیا جاتا ہے ، جبکہ اس کے مقابلے میں امام ابو حنیفہ ؒ کے یاں حدیث کے مقابلے میں اپنے رائے اور اجتہاد کو تر جیح دی جاتی ہے ۔۔۔۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ۔۔امام ابو حنیفہ ؒ حدیث کی مختلف اقسام کو قیاس پر تر جیح دیتے ہیں اور حدیث اگر چہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو اس پرعمل کرتے ہیں ۔۔۔۔جیسے نماز میں قہقہ کالگانے سے وضو ٹوٹنے والی حدیث ۔۔۔۔بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے نزدیک حدیث مشہور کے ساتھ کتاب اللہ کے حکم کو منسوخ کر نا بھی جائز ہے ۔۔۔۔آپ بغیر کسی توقف اور تاویل کے مراسل پر بھی عمل کرتے ہیں ۔۔۔۔اور قیاس صرف وہاں استعمال کرتے ہیں جہاں کوئی واضح روایت تووجود نہ ہو ،البتہ کسی حکم کی علت منقول ہو۔۔۔۔۔۔نہ یہ خالی خولی اپنی مرضی کے تحت فتوی دیتے،بلا شبہ قیاس کی یہ قسم ان کے نزدیک بھی متروک اور غیر مقبول ہے۔۔۔۔جس کی تفصیل اصول فقہ حنفی کی کتب موجود ہے۔۔۔۔۔پھر یہ کہ آپ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ان کے اقوال کو صحیح اور درست تسلیم کرتے ہیںجبکہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں"ہم بھی انسان ہیں اور وہ بھی انسان ہیں "۔اور امام شافعی قیاس اور استدلال کے ذریعے صحابہ کرام سے قولی اور فعلی دونوں طرح کے مسائل میں اختلاف کرتے ہیں۔

امام عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں ،میں نے امام ابو حنیفہ کو کہتے ہوئے سنا "جب بھی آقائے نامدار ﷺ کی کوئی حدیث ہمارے سامنے آجائے تو سر آنکھوں پر اور اگر صحابہ کرامؓ کے اقوال میں سے کسی ایک کا قول مل جائے تو بغیر حیل وحجت کے اسے قبول کریں گے ،البتہ جب تابعین کی بات ہوگی تو یہاں ہم ان سے مزاحمت کریں گے کیونکہ ہم تو حق کے طلب گار ہیں"
شیخ فضیل بن عیاض جو بڑے بڑے زاہدوں میں سے ایک ہیں ، خراسان میں پیدا ہوئے ، پھر کوفہ تشریف لائے اور امام ابو حنیفہؒ کی شاگردی اختیار کی ،ان سے منقول ہے ، فر ماتے ہیں،"جب امام ابو حنیفہ کے سامنے کوئی حدیث آتی تو اس کی پیروی کرتے ،اگر صحابہ کرام یا قدماء تا بعین میں سے کسی کا قول مل جاتا تو اس کی اتباع کرتے اور اگر یہ بھی نہ ہوتا تو اجتہاد کر تے اور غور وفکر سے کام لیتے "۔
جب بھی امام صاحب کے سامنے کوئی مسئلہ آتا تو مدت مدید تک اس کے بارے میں اپنے اصحاب کے ساتھ غور وفکر کرتے اور ان کے اصحاب میں سے بعض تا بعین تھے اور بعض تبع تا بعین ۔۔۔۔اور یہ سب کے سب حدیث، فقہ زہد، تقویٰ کے حامل اور ماہر اور صحیح العقیدہ تھے ۔۔۔۔ حافظ محمد ابن حزم ظاہری کہتے ہیں " جملہ اصحاب ابو حنیفہؒ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حدیث خواہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہی کیوں نہ ہو ، بہر حال قیاس پر مقدم اور قابل تر جیح ہو گی "۔
حدیث کا قیاس پر مقدم ہونا یا قیاس کا حدیث پر مقدم ہونا ، اس بارے میں کلام بہت طویل ہے ۔ صحب کشف سے منقول ہے کہ یہ اختلاف اور تفصیل نئی ایجاد ہے ، ورنہ خبر واحد بہر حال قیاس پر مقدم ہو گی ۔
مورخین نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے پاس بہت سے صندوق تھے جن میں انہوں نے اپنے اساتذہ سے سنی ہوئی احادیث کا ذخیرہ تحقیق وتدقیق کے ساتھ محفوظ رکھا تھا ۔۔۔۔آپ کے مشائخ جن سے آپ نے احادیث کا سماع کیا ان میں تین سو صرف تا بعین ہی تھے ۔۔۔۔۔اسی طرح آپ سے روایت کر نے والوں میں پانچ سو کے قریب حضرات شامل ہیں ۔۔۔۔

امام ابو حنیفہ ؒ کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ احادیث کی نقل وروایت کی بجائے ،ان میں سے مسائل واحکام کے استخراج اور استنباط کے لئے فقہ واجتہاد کے کام میں مشغول ہوئے ۔آپ پر اور آپ کے اصحاب پر یہی رنگ غالب رہا ۔۔۔۔۔اور شروع میں اور بعد میں بہت کم احادیث کی نقل کا اہتمام کیا گیا ۔ان کی رائے میں یہ کام زیادہ اہم اور ضروری تھا ۔۔۔۔کیو نکہ روایت کی بنیاد محض سننا اور یاد رکھنا تھی اور یہ کام ہر شخص کر سکتا تھا جبکہ احادیث سے مسائل واحکام کا استنباط واستخراج ۔۔۔۔۔ان میں موجود اختلاف میں تطبیق پیدا کرنا ۔۔۔ناسخ ومنسوخ کی وضاحت وغیرہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں تھا۔

منقول ہے کہ امام اعمشؒ جو اکابرین محدثین میں سے ہیں ، انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے چند مسائل پو چھے جن کے جوابات امام ابو حنیفہ ؒ نے احادیث کی روشنی میں بیان کئے ۔اعمش نے کہا " اے گروہ فقہا ! بلا شبہ تم اطباء ہو ) تشخیص مرض تمہارا ہی کام ہے ( جبکہ ہم محض بو ٹیاں ڈھونڈھنے والے ہیں ( میڈیکل اسٹور والے) جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کونسی چیز ( مریض کے حق میں ) صحیح ہے اور کونسی غلط "۔

لوگوں کے اس وہم میں مبتلا ہونے اورمذہب حنفی کے مخالف حد یث گر داننے کی ایک وجہ وہ محدثین ہیں جو امام شافعی ؒ کے پیرو کار تھے ۔ جیسے صاحب مصابیح السنۃ اور صاحب مشکوٰۃ ہیں ان جیسے دیگر حضرات جنہوں نے جلد بازی اور غلو کے باعث صرف اپنے مذہب کی تائیدی دلائل نقل فر مائے اور احناف کی موید احادیث کو طعن اور جرح کا نشانہ بنایا ۔اور اکثر شافعی متاخرین ، خدا ان سے در گزر فر مائے ، تعصب سے خالی نہیں تھے ۔وہ انصاف کے راستے پر ثابت قدم نہ رہ سکے ، حالانکہ یہاں دیگر احادیث بھی ہیں جو ان کی نقل کردہ روایات کی مقابل ،ان سے زیادہ راجح اور ان کی ناسخ ہیں اور یہ بات ہمار ے مذہب پر تحریر شدہ کتب کا مطالعہ کرنے سے اچھی طر ح واضح ہو جاتی ہے ۔ان کتابوں میں سب سے بہترین اور مشہور کتاب " الھدایہ " ہے جو اس موضوع پر سب سے بہترین اور مشہور تصنیف ہے کیونکہ اس میں نہایت قوی عقلی اور نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ مذہب حنفی کا اثبات کیا گیا ہے ۔
اس وہم اور غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ مذہب حنفی کے اکثر دلائل عقلی اور قیاسی ہیں ۔بعض اوقات علما ء احناف ایسی روایت نقل کرتے ہیں جس میں ضعف اور کمزوری پائی جاتی ہے ۔لیکن در حقیقت وہ ایک حدیث کو دوسری حدیث پر تر جیح دینے کا معاملہ ہوتا ہے کیونکہ یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ جو حدیث قیاس کے مطابق ہو اسے قیاس کے مخالف حدیث پر تر جیح حاصل ہو گی ۔تو یہاں قیاس تر جیح کے لئے استعمال ہوا ہے نہ کہ نفس حدیث کے مقابلے میں ۔ جیسا کہ بعض لوگوں کو گمان ہوتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہماری جانب الشیخ الاجل الامام الفھام کمال الدین ابن ھمام رحمۃ اللہ تعالیٰ کو جزائے خیر عطا فر مائے ،انہوں نے اس بات کی تحقیق کی اور مذہب حنفی کو صحیح ترین احادیث کے ساتھ ثابت کیا اور ایسی حسن احادیث سے ثابت کیا جن سے حجت حاصل کی جا سکتی ہے ۔احادیث کے متن کا اثبات کیا اور بوقتِ ضرورت شوافع کے اعتراضات کے جوابات تحریر فر مائے ۔
دیار عرب میں مذہب حنفی کی تائید میں جو کتب مشہور ہیں ان میں ایک مواہب الرحمن اور اس کی شرح ہے ۔اس کتاب میں آیات قرآنیہ اور احادیث ,صحیح کے ذریعے حنفی کے اثبات کا التزام کیا گیا ہے ۔ بعض بعض مولفین نے اس بات کا التزام بھی کیا ہے کہ وہ صرف بخاری اور مسلم کی روایت کردہ احادیث سے استدلال کریں کیونکہ یہ دونوں کتا بیں احناب اور شوافع دونوں کے نزدیک قابل اعتماد ہیں۔

[/size]
 
Top