فضائل اعمال کی احادیث کی تخریج

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فضائل اعمال کی احادیث کی تخریج

حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ نے فضائل اعمال میں مختلف ابواب کے تحت عربی متن کے ساتھ جو احادیث ذکر کی ہیں جن کتابوں سے وہ احادیث ماخوذ ہیں ،اس کتاب کی وضاحت کے ساتھ اس سے لی گئی احادیث کی تعداد یہاں بیان کی جاتی ہیں۔

۱۔ بخاری ومسلم دونوں کی بیک وقت ذکر کردہ ان احادیث کی تعداد جو فضائل اعمال میں ہے باون ۵۲ ہے۔

۲۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف بخاری میں پائی جاتی ہیں ان کی تعداد تریسٹھ ۶۳ ہے ۔

۳۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف مسلم میں ہیں ان کی تعداد بیانوے ۹۲ ہے ۔

۴۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث صحیحہ جو صحیحین کےعلاوہ میں مذکور ہیں اور وہ حسن لذاتہ کے درجے کی ہیں ایک سو چو نتیس ۱۳۴ ہیں

۵۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صحیح لغیرہ ہیں ایک سو انسٹھ ۱۵۹ ہیں ۔

۶ ۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لذاتہ ہیں ان کی تعداد ایک سو انسٹھ ۱۵۹ ہیں

۷۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لغیرہ ہیں ان کی تعداد دو سو بیالیس ۲۴۲ ہے ۔

۸۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو ضعیف ہیں تین سو ستھتر ۳۷۷ ہیں ۔

(کتب فضائل حقائق ۔۔غلط فہمیاں ۔ مزید تفصیل دیکھیں ( تلخیص الخیال ،تلخیص وترجمہ تحقیق المقال۔



 
Last edited:

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
t-1.JPG

لنک
 

محمد عثمان بن خاور

وفقہ اللہ
رکن
سب سے زیادہ تعداد میں ضع
فضائل اعمال کی احادیث کی تخریج
حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ نے فضائل اعمال میں مختلف ابواب کے تحت عربی متن کے ساتھ جو احادیث ذکر کی ہیں جن کتابوں سے وہ احادیث ماخوذ ہیں ،اس کتاب کی وضاحت کے ساتھ اس سے لی گئی احادیث کی تعداد یہاں بیان کی جاتی ہیں۔

۱۔ بخاری ومسلم دونوں کی بیک وقت ذکر کردہ ان احادیث کی تعداد جو فضائل اعمال میں ہے باون ۵۲ ہے۔

۲۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف بخاری میں پائی جاتی ہیں ان کی تعداد تریسٹھ ۶۳ ہے ۔

۳۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف مسلم میں ہیں ان کی تعداد بیانوے ۹۲ ہے ۔

۴۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث صحیحہ جو صحیحین کےعلاوہ میں مذکور ہیں اور وہ حسن لذاتہ کے درجے کی ہیں ایک سو چو نتیس ۱۳۴ ہیں

۵۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صحیح لغیرہ ہیں ایک سو انسٹھ ۱۵۹ ہیں ۔

۶ ۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لذاتہ ہیں ان کی تعداد ایک سو انسٹھ ۱۵۹ ہیں

۷۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لغیرہ ہیں ان کی تعداد دو سو بیالیس ۲۴۲ ہے ۔

۸۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو ضعیف ہیں تین سو ستھتر ۳۷۷ ہیں ۔

(کتب فضائل حقائق ۔۔غلط فہمیاں ۔ مزید تفصیل دیکھیں ( تلخیص الخیال ،تلخیص وترجمہ تحقیق المقال۔
سب سے زیادہ تعداد میں ضعیف روایات ہیں یعنی وہ روایات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سب سے زیادہ تعداد میں ضع

سب سے زیادہ تعداد میں ضعیف روایات ہیں یعنی وہ روایات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں؟
بخاری ومسلم دونوں کی بیک وقت ذکر کردہ ان احادیث کی تعداد جو فضائل اعمال میں ہے باون ۵۲ ہے۔

۲۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف بخاری میں پائی جاتی ہیں ان کی تعداد تریسٹھ ۶۳ ہے ۔

۳۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف مسلم میں ہیں ان کی تعداد بیانوے ۹۲ ہے ۔

۴۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث صحیحہ جو صحیحین کےعلاوہ میں مذکور ہیں اور وہ حسن لذاتہ کے درجے کی ہیں ایک سو چو نتیس ۱۳۴ ہیں

۵۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صحیح لغیرہ ہیں ایک سو انسٹھ ۱۵۹ ہیں ۔

۶ ۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لذاتہ ہیں ان کی تعداد ایک سو انسٹھ ۱۵۹ ہیں

۷۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لغیرہ ہیں ان کی تعداد دو سو بیالیس ۲۴۲ ہے ۔

۸۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو ضعیف ہیں تین سو ستھتر ۳۷۷ ہیں ۔
(کتب فضائل حقائق ۔۔غلط فہمیاں ۔ مزید تفصیل دیکھیں ( تلخیص الخیال ،تلخیص وترجمہ تحقیق المقال۔
نوٹ: آپ کے مطابق مذکورہ کتب سے لی گئی احادیث مبارکہ یا ان کتب کے علاوہ سے کونسی کونسی من گھڑت ( موضوع) ہیں نشاندھی فرمائیں .یہ ذہن میں رکھیں جو بات ہوگی اصلاح کے طریق سے ہوگی۔خواہ مخواہ کی بحث یہاں پسند نہیں کی جاتی ۔ویسے قرآن وحدیث کی روشنی میں اصلاحی پوسٹ کریں وہ زیادہ بہتر اور مفید ہوگی۔
 
Last edited:

محمد عثمان بن خاور

وفقہ اللہ
رکن
بخاری ومسلم دونوں کی بیک وقت ذکر کردہ ان احادیث کی تعداد جو فضائل اعمال میں ہے باون ۵۲ ہے۔

۲۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف بخاری میں پائی جاتی ہیں ان کی تعداد تریسٹھ ۶۳ ہے ۔

۳۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف مسلم میں ہیں ان کی تعداد بیانوے ۹۲ ہے ۔

۴۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث صحیحہ جو صحیحین کےعلاوہ میں مذکور ہیں اور وہ حسن لذاتہ کے درجے کی ہیں ایک سو چو نتیس ۱۳۴ ہیں

۵۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صحیح لغیرہ ہیں ایک سو انسٹھ ۱۵۹ ہیں ۔

۶ ۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لذاتہ ہیں ان کی تعداد ایک سو انسٹھ ۱۵۹ ہیں

۷۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لغیرہ ہیں ان کی تعداد دو سو بیالیس ۲۴۲ ہے ۔

۸۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو ضعیف ہیں تین سو ستھتر ۳۷۷ ہیں ۔
(کتب فضائل حقائق ۔۔غلط فہمیاں ۔ مزید تفصیل دیکھیں ( تلخیص الخیال ،تلخیص وترجمہ تحقیق المقال۔
نوٹ: آپ کے مطابق مذکورہ کتب سے لی گئی احادیث مبارکہ یا ان کتب کے علاوہ سے کونسی کونسی من گھڑت ( موضوع) ہیں نشاندھی فرمائیں .یہ ذہن میں رکھیں جو بات ہوگی اصلاح کے طریق سے ہوگی۔خواہ مخواہ کی بحث یہاں پسند نہیں کی جاتی ۔ویسے قرآن وحدیث کی روشنی میں اصلاحی پوسٹ کریں وہ زیادہ بہتر اور مفید ہوگی۔

وہ احادیث جو بخاری، مسلم اور دیگر کتب احادیث میں سے بیان کرتے ہیں جو کہ صحیح یا حسن لذاتہ درجے کی ہیں۔ ان پر تو قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن فضول قصے یقیناً ایسی چیز ہیں جن کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی۔ ایک بزرگ تھے جن کو کئی کئی دن چکھنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ ہزار ہزار نوافل، پورے دن میں قرآن مکمل کرنا جب کہ قرآن مجید پڑھنے کی کم از کم مدت بھی تین دن ہونی چاہیے (سنن ابو داؤد 1394)۔
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کئی کئی دن چکھنے کی نوبت نہ آئے کیوں کہ انسانی جسم کو کام کرنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وہ احادیث جو بخاری، مسلم اور دیگر کتب احادیث میں سے بیان کرتے ہیں جو کہ صحیح یا حسن لذاتہ درجے کی ہیں۔ ان پر تو قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن فضول قصے یقیناً ایسی چیز ہیں جن کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی۔ ایک بزرگ تھے جن کو کئی کئی دن چکھنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ ہزار ہزار نوافل، پورے دن میں قرآن مکمل کرنا جب کہ قرآن مجید پڑھنے کی کم از کم مدت بھی تین دن ہونی چاہیے (سنن ابو داؤد 1394)۔
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کئی کئی دن چکھنے کی نوبت نہ آئے کیوں کہ انسانی جسم کو کام کرنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
جناب والا عمومی طور پر تو یقنا مشکل ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ بطور خاص "کوئی خصوصیت عطا فر مادیں تو آپ کیا فرمائیں گے۔ اگر حضرت شیخ نے قصے گھڑ گھڑ کے لکھے ہیں تو لعن وطعن کیجئے ہاں اگر اسلاف کی کتابوں سے منقول ہیں تو جو جواب آپ کا ہوگا وہی میرا ہوگا ۔ جناب کیا یہ دنیا عجائب خانہ نہیں؟
 
Last edited:

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
وہ احادیث جو بخاری، مسلم اور دیگر کتب احادیث میں سے بیان کرتے ہیں جو کہ صحیح یا حسن لذاتہ درجے کی ہیں۔ ان پر تو قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن فضول قصے یقیناً ایسی چیز ہیں جن کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی۔ ایک بزرگ تھے جن کو کئی کئی دن چکھنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ ہزار ہزار نوافل، پورے دن میں قرآن مکمل کرنا جب کہ قرآن مجید پڑھنے کی کم از کم مدت بھی تین دن ہونی چاہیے (سنن ابو داؤد 1394)۔
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کئی کئی دن چکھنے کی نوبت نہ آئے کیوں کہ انسانی جسم کو کام کرنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
میرے پیارے بھائی جن چیزوں کو بنیاد بنا کر آپ فضول قصہ کہہ رہے ذرا ان پر سلف صالحین کا معمول دیکھیں اور پھر دل کے میزان پر عدل سے فیصلہ فرمائیں۔۔۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا فرمان یہ واضح کرتا ہے کہ تکمیلِ قرآن کریم کے لیے دنوں کی کوئی خاص حد مقرر نہیں جس میں کمی یا اضافہ نہ ہوسکتا ہو۔ بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ عموماً دنیوی مشاغل کے ساتھ اتنے کم وقت میں قرآنِ مجید ختم کیا جائے تو تلاوت کا حق ادا نہیں ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے اس سے کم وقت میں قرآنِ پاک مکمل پڑھ لے تو اسے ممنوع نہیں کہا جائے گا، چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے باوجود امت کے اَکابرین سے بکثرت منقول ہے کہ وہ ایک یا دو دن میں قرآنِ پاک ختم فرمایا کرتے تھے جیسا کہ امام اسود سے منقول ہے۔

الطبقات الكبرى لابن سعد (6/ 73):
"عن إبراهيم عن الأسود أنه كان يختم القرآن في شهر رمضان في كل ليلتين، وكان ينام ما بين المغرب والعشاء".

بلکہ سات دن میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی روایت کو اکثر راویوں کی روایت قرار دینے کے باوجود خود امام بخاری رحمہ اللہ سے ایک رات میں مکمل قرآنِ مجید پڑھنا منقول ہے، نیز ابن سیرین، سعید بن جبیر رحمہم اللہ کے متعلق منقول ہے کہ یہ حضرات ایک رات بلکہ ایک رکعت میں پورا قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔

تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 84):
"عن ابن سيرين: أن تميماً الداري قرأ القرآن في ركعة .... عن سعيد بن جبير: أنه قال: قرأت القرآن في ركعة في البيت -يعني الكعبة-".

تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 85):
"وعن أبي عبد الله البخاري -صاحب الصحيح-: أنه كان يختم في الليلة ويومها من رمضان ختمةً. ومن غريب هذا وبديعه ما ذكره الشيخ أبو عبد الرحمن السلمي الصوفي قال: سمعت الشيخ أبا عثمان المغربي يقول: كان ابن الكاتب يختم بالنهار أربع ختمات، وبالليل أربع ختمات".

اسی طرح امام مجاہد کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مغرب اور عشاء کے درمیان پورا قرآن ختم فرما لیا کرتے تھے۔

تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 84):
"وقد روى ابن أبي داود عن مجاهد أنه كان يختم القرآن فيما بين المغرب والعشاء".

اب یہ کہنا مشکل ہے کہ امت کے ان اکابر کا عمل حدیث کے خلاف تھا، کیوں کہ یہ حضرات تو سنتِ نبویہ پر عمل کے حریص تھے، لہذا اس باب میں جو احادیث مروی ہیں اس کے مختلف مطالب بیان کیے گئے ہیں، انہی مطالب میں سے ایک مطلب مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، چنانچہ تین دن میں قرآن ختم کرنے کی حدیث سے متعلق اپنی کتاب ’’مقامِ ابی حنیفہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اس حدیث کے دیگر بیان کردہ مطالب کےعلاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد (تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم نہ کرو ) امت پر شفقت اور ترحم کے سلسلہ میں ہے، تاکہ ان دنوں میں غور وفکر سے قرآنِ کریم پڑھا جائے اور اس کے معانی کو سمجھا جاسکے۔ کیوں کہ ہر آدمی تو مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نہیں کہ مسئلہ اجماع کو سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآنِ کریم ختم کرے اور منتہائے نظر یہ ہو کہ مسئلہ استنباط کرنا ہے۔ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں نصیب ہو سکتا ہے ؟‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص 243 )

مذکورہ بالا تمام عبارتوں کو نقل کرنے کے بعد امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ وہ حضرات تھے جواس مختصر وقت میں ختم کرنے کے باوجود قرآن کو سمجھ کر پڑھ سکتے تھے، لہذا جو بھی ایسی قدرت پائے اس کے لیے اتنے عرصہ میں قرآن ختم کرنا قابلِ ملامت نہیں۔

"وهذا نادر جداً. فهذا وأمثاله من الصحيح عن السلف محمول إما على أنه ما بلغهم في ذلك حديث مما تقدم، أو أنهم كانوا يفهمون ويتفكرون فيما يقرؤونه مع هذه السرعة...
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
مصنف ابن ابي شيبه ميں باب موجود ہے جس میں صحابہ ؓ اور تابعین ؒ کا ذکر ہے ۔

786- من رخص أَنْ يُقْرَأَ الْقُرْآنُ فِي لَيْلَةٍ وَقِرَاءَتُهُ فِي رَكْعَةٍ.
۔۔۔۔۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں دو سندوں سے روایت ہے ۔
8678- حدثنا يزيد بن هارون ، عن محمد بن عمرو ، عن محمد بن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن عثمان ، قال : قمت خلف المقام أصلي وأنا أريد أن لا يغلبني عليه أحد تلك الليلة ، فإذا رجل من خلفي يغمزني فلم ألتفت إليه ، ثم غمزني فالتفت ، فإذا هو عثمان بن عفان فتنحيت وتقدم فقرأ القرآن كله في ركعة ، ثم انصرف.
8680- حدثنا وكيع ، عن يزيد ، عن ابن سيرين ، عن عثمان : أنه قرأ القرآن في ركعة في ليلة.


حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں فرمایا ہے کہ یہ صحیح سند سے ثابت ہے ۔
ففي كتاب محمد بن نصر وغيره بإسناد صحيح عن السائب بن يزيد أن عثمان قرأ القرآن ليلة في ركعة لم يصل غيرها
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
مصنف ابن ابي شيبه ميں باب موجود ہے جس میں صحابہ ؓ اور تابعین ؒ کا ذکر ہے ۔

786- من رخص أَنْ يُقْرَأَ الْقُرْآنُ فِي لَيْلَةٍ وَقِرَاءَتُهُ فِي رَكْعَةٍ.
۔۔۔۔۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں دو سندوں سے روایت ہے ۔
8678- حدثنا يزيد بن هارون ، عن محمد بن عمرو ، عن محمد بن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن عثمان ، قال : قمت خلف المقام أصلي وأنا أريد أن لا يغلبني عليه أحد تلك الليلة ، فإذا رجل من خلفي يغمزني فلم ألتفت إليه ، ثم غمزني فالتفت ، فإذا هو عثمان بن عفان فتنحيت وتقدم فقرأ القرآن كله في ركعة ، ثم انصرف.
8680- حدثنا وكيع ، عن يزيد ، عن ابن سيرين ، عن عثمان : أنه قرأ القرآن في ركعة في ليلة.


حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں فرمایا ہے کہ یہ صحیح سند سے ثابت ہے ۔
ففي كتاب محمد بن نصر وغيره بإسناد صحيح عن السائب بن يزيد أن عثمان قرأ القرآن ليلة في ركعة لم يصل غيرها
جزاک اللہ خیر
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
سنی فضائل اعمال بڑھیں۔اسمیں ساری احادیث صحیحہ ہیں۔
سبحان اللہ میرے بھائی ۔۔ میں قربان جاؤں۔۔ آپ نے غالبا ابتداء میں محترمی مکرمی @احمدقاسمی بھائی جان کی پوسٹ کا مطالعہ نہیں فرمایا۔۔ اگر اس کا مطالعہ فرما لیں تو آپ کا اشکال دور ہو سکتا۔ ہاں اگر بات مبنی بر تعصب ہو تو پھر سبھی بے بس ہیں۔ پھر کوئی علاج نہیں ماسوائے دعا کے کہ اللہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائیں ۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
میرے پیارے @چشتی بھائی صاحب ۔۔۔۔ بندہ عاجز کے لیے خصوصی دعا فرمائیے گا کہ اللہ دین کی عقل اور فہم عطا فرمائیں۔ آپ میرے مقتداء ، مرشد اور بڑے ہیں۔ کوئی بات خلاف مزاج ہو تو پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ذیل میں ایک تحریر نقل کر رہا اس کا مطالعہ فرما ئیے گا۔ جزاک اللہ خیر
فضائل اعمال اورانکارِضعیف احادیث

برادرانِ اسلام میں سے بعض دوست ریحانۃ الہند، محدثِ کبیر، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا سہارن پوری ثم مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ رحمۃً واسعۃً کی مقبولِ عام کتاب ’’فضائلِ اعمال‘‘کی مقبولیتِ عامہ سے خائف ہیں۔ علمی اعتبار سے اس معاملہ میں یتیم ہونے کی وجہ سے وہ کتاب ’’فضائلِ اعمال‘‘ پر اعتراض کرتے ہیں کہ: ’’فضائلِ اعمال‘‘ نامی کتاب ضعیف وموضوع احادیث پر مشتمل ہے۔‘‘ حالانکہ یہ اعتراض وہ اصولِ احادیث سے کم علمی کی بنا پر کرتے ہیں۔ محدثین کے نزدیک ضعیف احادیث فضائل کے باب میں قابلِ قبول ہیں، ہاں! عقائدکے باب میں قبول نہیں ہیں، جیسا کہ امام اہلِ سنۃ والجماعۃ، محقق عالم ڈاکٹر علامہ خالد محمود لکھتے ہیں کہ:
’’ ضعیف حدیث سے عقائد ثابت کرنا علم کے لیے ایک بہت بڑی آفت ہے ،علم سے ناآشنا لوگ ضعیف روایات سے عقائد کا اثبات کرتے ہیں۔ ‘‘ (آثارالحدیث ،ج:۲،ص:۱۴۶)
لیکن بُرا ہو تعصب کا کہ جس کی وجہ سے یہ اعتراض قائم کیا گیا اور عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ’’فضائلِ اعمال‘‘ میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ سب ضعیف ہیں اور ضعیف احادیث قابلِ قبول نہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو ضعیف حدیث کی تعریف جان لیں۔ مفکرِ اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب تحریر فرما ہیں:
’’وہ حدیث ضعیف ہے جس کی سند موجود ہو (یعنی موضوع اور من گھڑت نہ ہو) لیکن اس کے راوی باعتبار یادداشت یا عدالت کے کمزور ہوں، لیکن اگر اُسے دوسری سندوں سے تائید حاصل ہو تو یہ قبول کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں کہ صرف فضائلِ اعمال میں اُنہیں لے لیا جائے گا، بلکہ ان سے بعض حالات میں استخراجِ مسائل بھی کیا جاسکتا ہے۔ قیاس استنباطِ مسائل کے لیے ہی ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ ضعیف حدیث کو قیا س پر تر جیح دیتے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات احکام میں ہی چل سکتی ہے ، فضائل میں نہیں ، سو اس بات سے چارہ نہیں کہ حدیث ضعیف کا بھی اپنا ایک وزن ہے، یہ من گھڑت نہیں ہوتی۔ ‘‘ (آثارالحدیث، ج:۲، ص:۱۴۵)
اس سے معلوم ہوا کہ ضعیف احادیث صرف فضائل ہی میں نہیں، بلکہ بعض اوقات مسائل میں بھی قابلِ قبول ہوتی ہے، اس لیے جو لوگ احناف کی ضد میں اس کی مخالفت کررہے ہیں‘ انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ احناف کی ضد میں کہیں محدثین ِامت کے مسلک وفیصلے سے ہی رُوگردانی تو نہیں کررہے ہیں۔ الشیخ محمود طحان لکھتے ہیں:
’’یجوزعند أھل الحدیث وغیر ھم روایۃ الأحادیث الضعیفۃ والتساھل في أسانید ھا من غیر بیان ضعیفھا بخلاف الأحادیث الموضوعۃ فإنّہٗ لایجوز روایتھا إلا مع بیان وضعھا۔‘‘ (تیسیر مصطلح الحدیث، ار دو،ص:۱۱۰)
’’اہلِ حدیث کے نزدیک ضعیف احادیث اور جن کی سندوں میں تساہل ہے ان کا ضعف بیان کیے بغیر روایت کرنا جائز ہے ،بخلاف موضوع احادیث کے کہ ان کو روایت کرنا ان کے موضوع ہونے کی وضاحت کے بغیر جائز نہیں۔ ‘‘
نوٹ: اہلِ حدیث حضرات محدثین کرام کا لقب ہے، جیسا کہ غیر مقلد عالم حافظ زبیر علی زئی مرحوم نے بھی اپنی کتاب ’’فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد:۲،صفحہ:۲۹۴‘‘ پر تسلیم کیا ہے کہ: ’’أھل حدیث ‘‘ حضراتِ محدثین کا لقب ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر علامہ خالد محمود ضعیف احادیث کوبیان کرنے کے بارے میں تحریرفرماہیں کہ :
’’علماء نے صرف پند ونصیحت، بیانِ قصص اور فضائلِ اعمال کے مواقع پر احادیثِ ضعیفہ کے بیان کرنے کو بلا اس کے ضعف بیان کیے جائز رکھا ہے ،یہی وجہ ہے کہ کتبِ سِیَر میں آپ کو احادیثِ ضعیفہ بغیر تصریح کے بہت ملیں گی، بخلاف احادیثِ موضوعہ کے کہ ان کا بیان کرنا حرام ہے۔‘‘ (آثارالحدیث،ج:۲،ص:۱۴۸)
درج بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ضعیف احادیث کا بیان کرنا فضائل میں جائز ہے اور اسے محدثین کرام (اہلِ حدیث) قبول فرماتے ہیں۔ یہیں سے ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ خود کو طریقِ محدثین کے راہی کہلوانے سے کوئی اہلِ حدیث (جو محدثین کا لقب ہے) نہیں بنتا، جب تک اُس میں وہ شرائط وصفات نہ پائی جائیں جو ایک محدث کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ آپ غور فرمائیے !کہ حضرات محدثین کرام تو ضعیف احادیث کو قبول فرمائیں اور دامنِ محدثین تھامنے کے مدعی انکاری ہوں، فیا للعجب

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

حافظ ابن حزم اندلسی ؒ (۷۵۷ھ) امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق لکھتے ہیں :
’’امام ابوحنیفہ ؒ کے تمام شاگرد اس پر متفق ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒ کا طریقہ یہی تھا کہ آپ ضعیف حدیث کو قیا س پر ترجیح دیتے تھے۔ ‘‘ (ابطال الرائے والقیاس والاستحسان،ص:۶۸،آثار الحدیث،ج:۲،ص:۱۴۵)
حافظ ابن قیم حنبلی ؒ (۷۵۱ھ) لکھتے ہیں :
’’امام ابوحنیفہ ؒ کے سب شاگرد اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ آپ کے ہاں حدیث ضعیف قیاس اور رائے پر مقدم تھی اور آپ نے اسی پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے۔۔۔ سو حدیث ضعیف اور آثارِ صحابہ ؓ کو قیا س پر مقدم کرنا امام ابوحنیفہ ؒ اور امام احمد ؒ دونوںکا فیصلہ ہے۔‘‘ (اعلام الموقعین ،ج:۱،ص:۸۸۔ آثار الحدیث،ج:۲،ص:۱۴۶)
حافظ ابن قیم ؒ کا یہ فرمانا کہ: ’’ آپ نے اسی پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے‘‘ کا کوئی غلط مطلب اخذ نہ کرے ، اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب میں ضعیف احادیث کو قیاس ورائے اور آثارِ صحابہ ؓ پر ترجیح حاصل ہے۔ ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب لکھتے ہیں :
’’حضرت امام ابوحنیفہ ؒ (۱۵۰ھ) کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ وہ حدیث کے بجائے قیاس سے زیادہ کام لیتے تھے‘ یہ درست نہیں۔ جب وہ حدیث ضعیف کو بھی قیاس پر مقدم کرتے ہیں تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ صحیح حدیث کو چھوڑ کر قیاس پر مقدم کرتے ہوں۔ ضعیف حدیث کی سندیں گو وہ اپنی جگہ ضعیف ہوں، لیکن اس کے راویوں کا اگر ان پہلے راویوں سے مل کر روایت کرنے کا مظنہ نہ ہو تو اس تعددِ طرق حدیث ضعیف قوی ہوکر حسن لغیرہٖ تک پہنچ جائے گی ،لیکن اس کا فیصلہ حاذق محدثین ہی کرسکتے ہیں ،نہ کہ ہر ایک کو اس کا حق د یاجائے، نہ ہر ایک اس کا اہل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوْا الْأَمَانَاتِ إِلٰی أَھْلِھَا‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ امانتوں کو ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو۔ ‘‘
حدیث ’’أصحابیؓ کالنجوم‘‘ محدثین کے ہاں اسی طرق سے لائقِ قبول سمجھی گئی ، وہب بن جریر اپنے والد سے ، وہ حضرت اعمش سے ،وہ حضرت ابوصالح سے ، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں :
’’أصحابيؓ کالنجوم، من اقتدیٰ بشيء ومنہا اھتدیٰ۔‘‘
’’ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ،جو ان میں سے کسی کی پیروی کرگیا ہدایت پالی۔ ‘‘ (آثار الحدیث ،ج:۲،ص:۱۴۶)
نوٹ: مشکوٰۃ،صفحہ:۵۵۴ پر بھی یہ حدیث مختلف الفاظ سے موجود ہے، محدث گنگوہی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ حسن لغیرہٖ تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘
اسی طرح محقق عالم دین حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی ؒ لکھتے ہیں :
’’مواعظ ،قصص اور فضائلِ اعمال کی احادیث میں علماء کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل جائز ہے، یعنی اس کے ضعف کو بیان کیے بغیر روایت کرنا جائز ہے، البتہ صفاتِ باری تعالیٰ اور حلال وحرام کی احادیث میں جائز نہیں ہے۔ ‘‘
شیخ الاسلام محقق علیٰ الاطلاق علامہ ابن الھمام ؒ لکھتے ہیں :
’’الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فضائل الأعمال۔‘‘ (فتح القدیر لابن الہمامؒ ،ج:۱، ص:۳۰۳)
ترجمہ: ’’ضعیف جو کہ موضوع نہ ہو‘ فضائلِ اعمال میں اس پر عمل کرلیا جاتا ہے۔ ‘‘
ابن تیمیہ ؒ باوجود اپنی تشدد پسندانہ طبیعت کے امام احمد ؒ کا قول نقل کرتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’قول أحمد بن حنبل إذا جاء الحلال والحرام شددنا في الأسانید وإذا جاء الترغیب والترہیب تساھلنا في الأسانید وکذٰلک ماعلیہ العلماء من العمل بالحدیث الضعیف في فضائل الأعمال۔‘‘ (الفتاویٰ الکبریٰ لابن تیمیہؒ ،ج:۱۸،ص:۶۵)
ترجمہ: ’’امام احمد بن حنبل ؒ کا قول ہے کہ جب حلال وحرام کی بات آئے گی تو ہم اسانید کی جانچ پرکھ میں سختی سے کام لیں گے، جب ترغیب وترہیب کی بات آئے گی تو ہم اسانید میں تساہل برتیں گے، اسی طرح وہ ہے جس پر علماء ہیں۔ فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے سے۔ ‘‘
محقق ابن ہمام ؒ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
’’ولو ضعف فالمقام یکفی فیہ مثلہ۔ ‘‘ (فتح القدیر، ج:۱، ص:۳۱۸)
’’اور اگر ضعیف بھی ہو تو یہ مقام ایسا ہے جس میں اس کی مثل یعنی ضعیف ہی کافی ہے۔ ‘‘
امام نووی ؒ شارحِ مسلم لکھتے ہیں :
’’الرابع أنھم قد یروون عنھم أحادیث الترغیب والترھیب وفضائل الأعمال والقصص وأحادیث الزھد ومکارم الأخلاق ونحو ذٰلک لا یتعلق بالحلال والحرام وسائر الأحکام ، وھٰذا الضرب من الحدیث یجوز عند أھل الحدیث وغیر ھم التساھل فیہ۔ ‘‘ (شرح مسلم نووی ،ج:۱، ص:۲۱)
ترجمہ: ’’چوتھی بات یہ ہے کہ محدثین ضعیف راویوں سے ترغیب وترہیب، فضائل اعمال و قصص واحادیث، زہد ومکارمِ اخلاق اور ان جیسے موضوعات پر احادیث روایت کرتے ہیں، جن کا تعلق حلال وحرام اور احکام کے ساتھ نہ ہو اور حدیث کی اس قسم سے محدثین کے نزدیک روایت میں تساہل جائز ہے، جب کہ موضوع نہ ہو۔ ‘‘
امام نووی ؒ لکھتے ہیں :
’’ویجوز عند أھل الحدیث وغیر ھم التساھل في الأسانید وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ من غیر صفات اللّٰہ تعالٰی والأحکام کالحلال والحرام ومما لا تعلق لہٗ بالعقائد والأحکام۔ ‘‘ (تقریب، ص:۱۶۲،ج:۱)
ترجمہ:’’محدثین وغیرہم کے نزدیک تساہل اور ضعیف جو موضوع نہ ہو اس کو روایت کرنا، اس پرعمل کرنا اس کے ضعف کو بیان کیے بغیر جائز ہے۔ ہاں! اللہ تعالیٰ کی صفات او راحکام مثلاً: حلال وحرام اور وہ چیزیں جن کا تعلق عقائد اور احکام سے ہو‘ ان میں جائز نہیں ہے۔ ‘‘ (انواراتِ صفدر، افادات:حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی ؒ مرتب :مولانا محمود عالم صاحب ، ص:۲۱۴تا ۲۱۶)
یہاں تک ہم نے محدثین کرام ؒ کی عبارات سے ثابت کیا کہ ضعیف احادیث کو بیان کرنا جائز ہے، لیکن ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں ضعیف حدیث کو بیان کرنا جائز نہیں، اس کے متعلق ہم اوپر حضرت ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب کے حوالے سے درج کرآئے ہیں، ایک بار پھر ملاحظہ فرمالیجئے کہ علامہ صاحب رقم طر از ہیں کہ :
’’ ضعیف حدیث سے عقائد ثابت کرنا علم کے لیے ایک بہت بڑی آفت ہے۔ علم سے ناآشنا لوگ ضعیف روایات سے عقائد کا اثبات کرتے ہیں۔ ‘‘ (آثارالحدیث ،ج:۲،ص:۱۴۶)
غلط بات کو غلط ہی کہا جائے گا ،لیکن ناآشنا اورجاہل لوگوں کی ضد میں آکر ضعیف روایات کا سرے سے انکار کردینا بھی تو عقل مندی نہیں ہے۔ ان مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہو ا کہ محدثین کرام ؒ کے نزدیک ضعیف احادیث فضائلِ اعمال میں قابل قبول ہیں۔ لہٰذا مندرجہ بالا اعتراض کی کوئی آئینی وشرعی حیثیت نہیں ہے، بلکہ مندرجہ بالا اعتراض معترضین کی جہالت اوراُن کی اصولِ حدیث سے بے خبری کو نمایاں کرنے کے لیے کافی ہے۔ پھر دیکھئے! بہت سی ایسی کتب جن میں ضعیف احادیث بکثرت موجود ہوتی ہیں، فضائلِ اعمال کی تالیف سے ایک زمانہ قبل موجود ہیں اور بہت سی کتب اب عرب ممالک میں شائع ہورہی ہیں، جن میں خاص کر حافظ منذری ؒ کی مشہورِ عام کتاب ’’الترغیب الترہیب‘‘ بھی شامل ہے۔ فضائلِ اعمال پر معترض حلقہ اُس کتاب کے بارے میں خاموش ہے، اس کی کوئی خاص وجہ ۔۔۔۔؟ بہر حال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ :

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
 
Top