شاہ ولی اللہ محدث وہلوی رحمۃ اللہ علیہ

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
شاہ ولی اللہ محدث وہلوی رحمۃ اللہ علیہ
(1703ئ۔1762ئ)

( بنت میاں محمد الیاس)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ 1703ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شاہ عبد الرحیم اپنے عہد کے جید عالمِ دین اور بلند پایہ شیخ تھے۔ انہوں نے فتاویٰ عالمگیری کی تدوین میں حصہ لیا تھا۔ دہلی میں ان کا مدرسہ رحیمیہ علم و فن کا گہوارہ اور بہت بڑا دینی مرکز تھا۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمی زندگی پانچ سال کی عمر میں شروع ہوئی اورپندرہ سال کی عمر میں وہ تمام دینی علوم سے فارغ ہوئے۔ 1720ء میں جب کہ ان کی عمر صرف سترہ سال تھی ان کے والد کا انتقال ہوا اور وہ اپنے والد کی مسندِ تدریس پر بیٹھ کر درس دینے لگے۔ بارہ سال تک مسلسل قرآن و حدیث اور دوسری کتابوں کا درس دیا۔ 1730ء میں وہ سفرِ حج کو روانہ ہوئے اور ارضِ حرمین میں مسلسل دو سال قیام فرمایا۔ اس دوران انہوں نے مدینہ منورہ کے مشہور محدث شیخ ابو طاہر بن ابراہیم مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے سندِ حدیث لی اور دوسرے بہت سے محدثین اور علماء سے استفادہ کیا۔ ان کے اساتذہ میں ان کے والد شاہ عبد الرحیم اور شیخ ابو طاہر مدنی کے علاوہ شیخ محمد افضل سیالکوٹی، شیخ وفد اللہ مکی اور شیخ تاج الدین القلعی رحمۃ اللہ علیہم جیسے بلند مرتبہ شیوخ شامل ہیں۔
سفرِ حج اور ارضِ حرمین کا دو سالہ قیام شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوااور سفرِ حج سے واپسی کے بعد انہوں نے توجہ تدریس کی بجائے قرآن و حدیث کی اشاعت اور اصلاحِ امت اور امتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کے کام کے لیے خود کو وقف کر دیا جو ان کی وفات 1762ء تک جاری رہا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ان کے جانشین ہوئے اور ان کے کام کو آگے بڑھایا۔

اُس دور کے حالات کا مختصر جائزہ

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کے چار سال بعد1707 ء ہی میں اورنگزیب عالمگیر کا انتقال ہو گیا۔ عالمگیر ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے سلسلے کا آخری حکمران تھا۔ جس نے مرکزی حکومت کے غلبے اور مسلمانوں کے اقتدار کے استحکام کی کوشش کی اور تقریباً پچاس سالہ عہدِ حکومت میں خالص مسلمان حکمرانوں کی طرح زندگی بسر کی اور ہر غیر اسلامی تحریک کا قلع قمع کیا جو مسلم اقتدار کے لیے چیلنج ہو سکتی تھی، مگر افسوس کہ اس کے جانشینوں میں کوئی بھی اس کی سی بصیرت و شجاعت اور اوصافِ حکمرانی کا مالک نہ تھا، جس کے باعث مغل اقتدار بلکہ مسلم اقتدار کا زوال شروع ہو گیا اور اورنگزیب کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد ہندوستان میں مسلمانوں کا اقتدار و غلبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مسلم اقتدار کے زوال کا غائر نظری سے مطالعہ کیا اور امتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ کا انقلابی پروگرام پیش کیا۔
سیاسی اقتدار کے زوال کے علاوہ مسلمانوں کے عقائد و اعمال میں اضمحلال(کمزوری اور تنزل ) آگیا تھا۔ ان کا اخلاق و کردار کسی بھی طرح لائقِ تحسین نہ رہا تھا۔ احکامِ الہٰی اور سنتِ رسول اللہﷺ سے انحراف و غفلت عام ہو گئی تھی اور مشرکانہ عقائد و رسوم کا تو وہی حال ہو گیا تھا جس کے لیے عہدِ رسالت کے مشرکینِ مکہ بدنام تھے۔ مسلمان امراء عیش وعشرت میں مصروف تھے تو عوام بھی انہی کی راہ پر چل نکلے تھے۔ ان حالات میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے عہد آفریں کام کیا اور تجدید و احیائے دین کی تحریک کو سرد نہ پڑنے دیا یہاں تک کہ مستقبل کے مؤرخین نے انہیں اپنے عہد کا مجدد مانا ہے جیساکہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ابن تیمہ رحمۃاللہ علیہ اور ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ کے بعد بلکہ خود انہی کے زمانے میں جو عقلی تنزل شروع ہوا تھا اس کے لحاظ سے یہ امید نہ رہی تھی کہ پھر کوئی صاحبِ دل ودماغ پیدا ہو گا لیکن قدرت کواپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھانا تھاکہ اخیر زمانے میں جب کہ اسلام کا نفس بازبس تھا شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جیسا شخص پید اہوا جس کے علمی اور عملی کام کے آگے غزالی رازی اور ابن رشد رحمۃ اللہ علیہم کے کارنامے ماند پڑ گئے۔

شاہ ولی اللہ کے کارنامے

بادیٔ النظر میں شاہ صاحب رحمۃاللہ علیہ کے کار ہائے نمایاں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
(1)علمی کارنامے (2)اصلاحی کارنامے (3)سیاسی کارنامے۔

علمی کارنامے

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علمی کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے انہوں نے درس و تدریس، وعظ و ارشاد اور تصنیف و تالیف کے ذریعے دعوت و تبلیغ و اشاعتِ دین کا فریضہ سر انجام دیا، لیکن ان سب سے بڑا اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کارنامہ ترجمۂ قرآن ہے۔ ان کے زمانے میں مسلمانوں کے عقائد و اعمال کا جو حال تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ۔اب بھی شاید مزارات اور بزرگانِ دین کی قبور پر وہی ہوتا ہے جو اس دور میں ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے بے خوفی اور غیرِ خدا سے خوف وخشیت، غیر اللہ کے نام کی نذرو منت اور پکار و دہائی، ان سے استمداد و استعانت یہی کچھ تو تھا جس کے لیے مشرکینِ مکہ بد نام تھے۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے ایمانی، روحانی اور اخلاقی انحطاط کا اصل سبب قرآنی تعلیمات سے دوری ہے اور ان کے سیاسی زوال کا سبب بھی یہی ہے، چنانچہ انہوں نے بہت کچھ سوچ کر مسلمانوں کو قرآن پاک کے قریب لانے کے لیے اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا۔ علمی کارناموں کے عنوان پر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کام کی نوعیت حسبِ ذیل شعبہ جات میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔
(1)قرآنِ پاک کا فارسی زبان میں ترجمہ اور اس کی اشاعت
(2)علمِ حدیث کی اشاعت اور حدیث وفقہ میں تطبیق
(3)فقہی مسلک میں راہِ اعتدال کی تلاش
قرآن حکیم کا ترجمہ
مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی بد اعتقادی اور بد عملی اور اسلامی تعلیمات سے دوری کو محسوس کرتے ہوئے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں قرآن حکیم کے قریب تر کرنے کے لیے فارسی زبان میں ترجمہ کیا کیونکہ فارسی اس وقت کی سرکاری زبان تھی اور تمام علوم اسی زبان میں پڑھائے جاتے تھے۔
اس ترجمہ کی وجہ سے علماء کا بہت بڑا طبقہ ان کا مخالف ہو گیا اور ترجمہ کو قرآن حکیم کی توہین کے مترادف قرار دیا۔ اس مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے کے علماء فقہ کے رائج الوقت قانون کا علم ہونے کے باعث فقہ کی تفہیم و تدریس پر بہت زور دیتے تھے۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تفقہ فی الدین کے لیے قرآن پاک سے براہِ راست استفادہ کرنے پر زور دیا اور علماء و عوام کو سمجھایا کہ قرآن پاک ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر طاقوں کے اندر سجانے کے لیے نازل نہیں کیا گیا اور نہ ہی منتر پڑھنے یا طوطے کی طرح بن سمجھے رٹنے کے لیے اتارا گیا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کو سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے کیونکہ قرآن عقائد کی دستاویز اور دستو العمل ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہو۔
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بعد قرآن پاک کو براہِ راست سمجھنے اور سمجھانے کا سلسلہ چل نکلا اور اردو زبان جو کہ مسلمانوں کی عوامی زبان تھی کے بے شمار تراجم ہوئے اور شائع ہوئے۔ ان کے صاحبزادوں میں شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہما نے علی الترتیب بامحاورہ اور لفظی تراجم کرکے اردو دان طبقے کے لیے بنیاد فراہم کردی بلکہ شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمے کو تواردو زبان کا مستند ترین ترجمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

علم حدیث کی اشاعت

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے مدارس میں حدیث کی تدریس کا رواج نہ تھا۔ وہ بنیادی طور پر محدث تھے۔ اس لیے خوب جانتے تھے کہ ایک مسلمان کے لیے علمِ حدیث سے آگاہی کس قدر ضروری ہے چنانچہ 1732ء میں سفرِ حج سے واپسی پر خود کو علمِ حدیث کی تدریس و اشاعت کے لیے وقف کر دیا اور باقی تمام عمر اسی میں گزاردی۔ وہ کتبِ حدیث میں مؤطا امام مالک کے زبردست مداح تھے کیونکہ یہ اہلِ مدینہ کے مذہب و عمل کی عکاسی کرتی ہے، چنانچہ انہوں نے ’’المصطفیٰ‘‘کے نام سے اس کی شرح لکھی اور اسی کا خلاصہ ’’المسویٰ‘‘کے نام سے لکھا۔ اس کے علاوہ احادیث کے کئی چھوٹے چھوٹے مجموعے ترتیب دیے ، جن میں سے ’’الاربعین‘‘ سب سے زیادہ مشہور ہوئی۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک کے ترجمے میں احادیث وسنن کا خاص خیال رکھا اور رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ کو مشعلِ راہ بنانے پر خصوصی زور دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں بعد کی صدیوں میں علمِ حدیث سے جو خاص رغبت پیداہوئی اور اہلِ علم نے حدیث کی جو خدمت کی یہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کی کوششوں کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔

حدیث و فقہ کی تطبیق

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں فقہ کے آئمہ اربعہ کی تقلید میں بعض علماء اور عوام میں جمود آگیا تھا اور اپنے امام کے مقابلے میں بڑی سے بڑی دلیل کو رد کرنے کا رجحان عام ہو گیا تھا۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جن کی پرورش حنفی ماحول میں ہوئی تھی اس جمود کو توڑنے کی کوشش کی اور فقہ کے ان مسائل میں جو صحیح حدیث اور سنتِ ثابتہ سے متصادم نظر آتے تھے آپؒ نے حدیث کو فوقیت دے کر فقہی مسائل میں تطبیق پیدا کرنے کی طرح ڈالی اور حنفی ہونے کے باوجود دوسرے مسالک کی مضبوط دلیل کو قبول کیا اور اس تخالف کو دور کیا جو فقہی مسالک میں پیدا ہو گیا تھا۔

فقہی مسائل میں مسلکِ اعتدال

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فقہی مسائل میں مسلکِ اعتدال کے سب سے بڑے داعی تھے۔ انہوں نے اہلِ سنت اور اہلِ حدیث کے باہمی اختلافات کو دور کرنے کی سعی کی۔بعض مسائل قیاس پر حدیث کو ترجیح دی اور جن مسائلِ فقہ میں فقیہ کے پاس قرآنی دلیل تھی وہاں حدیث پر اصرار نہیں کرتے بلکہ حدیث کی تاویل کرتے ہیں۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تقلیدِ جامد کی سخت مذمت کی اور ایسے مسلکِ اعتدال کی نیو اٹھائی جسے تمام مسالک کا جامع کہا جا سکتا ہے۔ افسوس ان کے بعد اس سطح پر کام رک گیا اور تقلیدِ جامد کے جراثیم بڑھتے چلے گئے۔ دوسری طرف اہلِ حدیث بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید میں اس قدر بڑھتے چلے گئے ۔ ایسے اصحابِ علم بھی ہوئے جن کا عقیدہ تھا کہ حدیث قرآن کو منسوخ کر سکتی ہے، مگر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کا مکتبِ فکر اس قسم کی افراط و تفریط سے ہمیشہ گریزاں رہا۔
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں اندھی تقلید پر تنقید کی اور اجتہاد کے دروازے بند کرنے کی مخالفت کی وہاں انہوں نے ہر آدمی کو اجتہاد کرنے کا حق دینے کی بجائے اصولِ فقہ کے مطابق شرائط اور فقیہ و مجتہد کی مطلوبہ قابلیت کی بھی وضاحت کی۔ انہوں نے عام آدمی کے لیے کسی ایک امامِ فقہ کی پیروی کو لازم قرار دیا، بالفاظِ دیگر انہوں نے قرآن و سنت پر عمل کرنے پر زور دیا اورجن مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق تھا یعنی اجماعِ امت کو عام اور اسے لازم قرار دیا۔
شریعت و طریقت میں تطبیق
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا خاندان تصوف و سلوک سے گہرا شغف رکھتا تھا۔ ان کے والد راہِ طریقت کے بہت بڑے شیخ تھے وہ خود بھی سلوک وطریقت میں منصبِ امامت پر فائز تھے۔ ان کے والد ’’وحدۃ الوجودی‘‘تھے، مگر اس کے باوجود شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کسی ایسے نظریۂ تصوف کی حمایت نہیں کی جو قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے طریقت کو شریعت کے تابع کر دیا اور وحدۃ الوجود کی ایسی تشریح کی کہ وہ وحدۃ الشہود کے قریب تر ہو گیا۔شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں کشف و مراقبہ بھی ہے اور قرآن و حدیث کی روشنی، اصلاحِ معاشرہ کی عالمانہ نکتہ رسی بھی۔ ایک مفسر و محدث اور صوفی ہونے کی وجہ سے انہوں نے شریعت و طریقت میں مطابقت پیدا کی اور اسلامی تصوف کو غیر اسلامی نظریات کی عجمی آمیزشوں سے پاک کر دیا۔

شیعہ و سنی اختلافات اور راہِ اعتدال

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے درمیان بھی اعتدال کی راہیں تلاش کیں۔ ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفائ‘‘اس پر شاہدِ عادل ہے کہ انہوں نے جہاں خلفائے راشدین کی حقانیت ثابت کی ہے اور خلفائے ثلاثہ (حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم)کے فضائل و مناقب اور پیغمبرِ اسلامﷺ اور دینِ اسلام کے ساتھ ان کے شغف و انہماک اور استغراق کو قرآن و احادیث سے ثابت کر کے اہلِ تشیع کو سمجھایا ہے وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب بیان کرکے ان لوگوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے جو محض شیعوں کی ضد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہلِ بیت پر سب وشتم اور تنقید و تنقیص کرتے ہیں

تاہم یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ’ازالۃ الخفاء ‘‘کے کھلے دل سے مطالعہ کرنے والا شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کسی بھی قسم کی بد گمانی کرنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔

اسرار و رموزِقرآنی کی ترجمانی اور حکمت بیانی

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس زمانے میں شریعتِ اسلامی کے سب سے بڑے اور مستند ترجمان اور اسرار و مقاصدِ احکامِ الہٰیہ کے سب سے بڑے حکیم تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی جب کہ ان کی وفات کو ڈھائی صدیاں بیت چکی ہیں علم و حکمت کے سبھی سوتے انہی سے پھوٹتے ہیں۔ ان کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘احکامِ شریعت کی مربوط و مدلل ترجمان ہے۔جس میں انہوں نے ان کے اسرارو مقاصد کو حدیثِ طیبہ کی روشنی میں حل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے دینِ اسلام کے تمام شعبوں، عقائد واعمال، عبادات، سیاسیات، معاشیات، تجارت، عمرانیات، حدیث و سنت کا مقام، احسان و تزکیہ اور جہاد پر مدلل اور مفصل بحث کی ہے۔ اہلِ علم کے نزدیک ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ گذشتہ اڑھائی صدیوں میں لکھی جانے والی سب سے بڑی کتاب ہے۔

اصلاحی خدمات

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم مصلحِ امت تھے۔ ان کی اصلاحی کوششیں صرف اصلاحِ عقائد و اعمال تک ہی محدود نہیں بلکہ اصلاحِ رسوم وعادات، غیر مسلموں سے اختلاط سے پرہیز اور احیاء وفو تِ اسلام کے لیے جہاد اور تمام شعبہ جاتِ حیات مثلاً: اقتصادیات، معاشرت اور عمرانیات سے آگے تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اور اس باب میں وہ صحیح معنوں میں ایک ریفارمر تھے۔ انہوں نے عجمی نظریات و عقائد کے ساتھ ساتھ عجمی رسومات پر بھی کڑی تنقید کی اور مسلمانوں میں احیائے سنت کو رواج دینے کی کوشش کی۔

اصلاحِ رسوم و رواج

آپ نے ان تمام رسوم کو ختم کرنے کی مسلسل جد جہد کی جو ہندوئوں کے ساتھ رہتے ہوئے مسلمانوں میں بھی رواج پاگئی تھیں۔ مثلاً: مسلمان بیوہ کے نکاح کو معیوب سمجھنے لگے تھے۔ آپؒ نے اس نظریے کو خلافِ سنت قرار دیا اور مسلمانوں کو بار بار ہدایت کی کہ پیغمبرِ اسلامﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سے ایک کے سوا سبھی بیوہ تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باربار بیوگان سے نکاح کیے۔ اگر بیوہ سے نکاح پیغمبرِ اسلامﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک عیب نہیں تو دوسرے مسلمانوں کے لیے کیونکر عیب ہو سکتا ہے؟
آپ نے حق مہر کی رقم زیادہ کرنے اور بیاہ شادیوں اور خوشی کے دوسرے مواقع پر اسراف کرنے پر بھی تنقید کی۔ موت کے بعد قل، سوئم، چہلم اور برسی وغیرہ رسوم کی سختی سے مذمت کی اور تین دن سے زیادہ سوگ منانے سے بھی منع کیا۔ آپؒ نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری تہذیب و تمدن، ہمارے اخلاق وعادات اور ہماری رسومات و عبادات وہی ہونی چاہیں جو ہمیں ہمارے پیغمبرﷺ کے قریب تر کریں نہ کہ خلافِ سنت کام کریں۔

غلبۂ کفار کا مقابلہ

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مغل دربار میں ہندوئوں اور سکھوں کے بڑے بڑے مناصب پر فائز کرنے کو بھی سخت نفرت سے دیکھتے تھے۔ وہ اسے غلبۂ کفار کی ایک صورت خیال کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ کار سرکار میں ہندو ئوں کا مکمل عمل دخل ہو نے کی وجہ سے ہندوئوں کے گھرانوں میں مال و دولت کا ارتکاز ہوتا جا رہا ہے اور غربت و افلاس مسلمانوں کا مقدر ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسی حالت میں خدشہ ہے کہ مسلمان دین سے بیگانہ ہوجائیں گے اور وہ ایسی قوم بن جائیں گے جو اسلام و کفر کے فرق و امتیاز سے نا واقف ہوں گے جو بجائے خود مسلمانوں کے لیے بہت بڑی مصیبت ہو گی۔

غلبۂ کفار کا واحد حل۔۔جہاد

غلبۂ کفار کے خاتمے کا واحد حل شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسلمانوں میں جہاد کے جذبے کو بیدار کرنا تھا یعنی مسلمان اللہ کے لیے جینا سیکھیں اور اللہ کے لیے مرنا سمجھیں۔ وہ مسلمانوں کی کردار سازی پر ہمہ وقت کوشاں رہے اور ان کے دل و دماغ میں اسلام کے بنیادی عقائد کو راسخ کرکے ان کا قلبی تعلق پیغمبرﷺ کے ساتھ جوڑنے کے داعی بنے رہے۔ ان کے نزدیک تمام نظامِ مملکت میں پیغمبرﷺ کو مشعلِ راہ بنایا جائے۔ انہوں نے اپنے عہد کے مغل بادشاہوں کو مسلسل خطوط لکھے۔ جن میں جہاد کی برکات کا ذکر کیا اور کافروں کے ساتھ سختی کرنے کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ ان کا زور ٹوٹ جائے۔

سیاسی خدمات

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جہاد میں کامیابی کے بعد ایک سیاسی نظام تجوید کرتے ہیں۔ اس میں ہر تین چار روز کی مسافت پر ایک ایسے حاکم کی تقرری کی تجویز دیتے ہیں جو مسلم کردار کا نمونہ اور عدل و انصاف کا مجسمہ ہو۔ قوی اور طاقتور ہو جو ظالم سے مظلوم کا حق وصول کرسکے۔ خداوند تعالیٰ کی حدود قائم کر سکے اور ایسا سخت منتظم ہو کہ لوگوں میں بغاوت و سرکشی کا مادہ نہ پیدا ہونے دے اور اسلامی شعائر کا نفاذ کر سکے۔
احمد شاہ ابدالی کو دعوت اور مرہٹوں کی سیاسی طاقت کا خاتمہ

مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے محسوس کیا کہ وہ مسلمانوں کو ہندوستان کے اقتدارِ اعلیٰ سے معزول کردیں گے۔ جس کے بعد مسلمان قوم برصغیر سے ناپید ہوجائے گی۔ ان حالات میں انہوں نے افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ کر کے مرہٹوں کا زور توڑنے اور مسلمانوں کو ان کے تسلط سے آزاد کرانے پر آمادہ کیا۔ آپؒ نے ہندوستان کے اندر ردہیلہ قوم کے سردار نجیب الدولہ کو سکھوں اور جاٹوں کا زور توڑنے پر اکسایا ،نیز احمد شاہ ابدالی کی آمد پر دونوں کو اتحادی بنایا۔ ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ احمد شاہ ابدالی اور نجیب الدولہ کی افواج نے پانی پت کی تیسری لڑائی (14جنوری 1761؁)میں مرہٹوں کو شکستِ فاش دی اور مرہٹہ طاقت کو کچل کر رکھ دیا۔ جس کی وجہ سے ہندو حکومت کے قیام کا خواب مزید دو صدیوں کے لیے پریشان ہو کر رہ گیا۔ افسوس احمد شاہ ابدالی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اصرار کے باوجود افغانستان واپس چلا گیا اور مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی دہلی واپس آکر حکومت کی تنظیمِ کر لیتا تو بھی وہ سیاسی خلا پیدا نہ ہوتا جس سے فائدہ اٹھا کر انگریزوں نے اپنی حکومت قائم کر لی۔

ولی اللہٰی تحریک و دعوت کے اثرات

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک و دعوت محض کفار و مشرکین کا زور توڑنے اور ان کو دبا کر رکھنے کی تحریک نہ تھی بلکہ وہ ہندوستان کیا پورے عالمِ اسلام میں دینِ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور تعمیرِ ملت کا جامع پروگرام رکھتے تھے ، انہوں نے اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اسلام کے پورے فکری ، اخلاقی، شرعی، تمدنی، اقتصادی اور عمرانی نظام کو مرتب صورت میں پیش کیا اور ہر شعبۂ زندگی کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کی تجاویز پیش کیں۔ وہ ایک جامع الاوصاف شخصیت کے حامل تھے اور صحیح معنوں میں ایک ریفارمر، ایک مجدد اور مجتہد تھے۔ کاش! مسلمانانِ ہند ان کے پیش کردہ فلسفۂ حیات کو اپنا لیتے تو انہیں وہ دن نہ دیکھنے پڑتے جو بعد میں ان کا مقدر ہوئے۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہمہ جہت تجددی کام نے ہندوستان میں اٹھنے والی تمام تحریکوں کو متأثر کیا۔ان کے صاحبزادوں کے علمی کام اور دینِ متین کے لیے ان کی خدمات آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ پھر اسی خاندان کے تعاون سے چلنے والی تحریکِ مجاہدین نے جس کی قیادت سید احمد شہید نے کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عظمت و کردار اور جذبۂ جہاد کی یاد تازہ کرکے اسلام کو عزمِ نو عطا کیا بلکہ یہ تحریک تو براہِ راست شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک تھی۔
اس کے علاوہ بنگال کی اسلامی تحریکیں، دیوبند کی فروغِ علومِ اسلامی کی تحریک، سر سید کی تحریکِ علی گڑھ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ کی تحریکِ ریشمی رومال سبھی کے سوتے اسی چشمۂ فیض سے پھوٹے۔ اگر وقت، حالات، ماحول اور ذاتی رجحانات کے حوالے سے ان تحریکوں کے بانیوں نے الگ الگ میدان منتخب کیے لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے یہ سب تحریکیں اسی چشمۂ علم و فیضان سے بہنے والی نہریں ہیں جو مختلف میدانوں کی طرف بہہ نکلیں۔
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،دہلی میں نہیں بلکہ اپنے نانہال پھلت میں پیدا ہوئے،آپ کو اور تمام اراکین کو یہ جان کر یقیناً مسرت ہوگی کہ ابھی حال میں راقم السطور نے شاہ صاحب کی تالیف ’’انفاس العارفین ‘‘ کا نہایت سلیس ترجمہ کیا ہے،جو چھپنے کیلئے پریس میں جاچکا ہے ،اہل بدعات نے اس کتاب کو اپنا مستدل سمجھا ہوا تھا اور بد قسمتی سے اہل سنت والجماعت دیوبندی بھی اسے ایسی ہی سمجھتے تھے ،لیکن کتاب کو غور سے پڑھنے پر معلوم ہوا کہ جن چیزوں کو ان حضرات نے اپنا سمجھاتھا وہ تو صرف واقعات ہیں ،اور جن افکار و نظریات کو شاہ صاحب نے بطور مسلک بیان فرمایا ہے وہ ہمارے حق میں دلیل اور اہل باطل کے خلاف زبردست حجت ہیں ،فرق صرف یہ ہوا کہ اب تک جتنے بھی ترجمے ہوئے تھے وہ انہیں کے تھے ۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،دہلی میں نہیں بلکہ اپنے نانہال پھلت میں پیدا ہوئے،آپ کو اور تمام اراکین کو یہ جان کر یقیناً مسرت ہوگی کہ ابھی حال میں راقم السطور نے شاہ صاحب کی تالیف ’’انفاس العارفین ‘‘ کا نہایت سلیس ترجمہ کیا ہے،جو چھپنے کیلئے پریس میں جاچکا ہے ،اہل بدعات نے اس کتاب کو اپنا مستدل سمجھا ہوا تھا اور بد قسمتی سے اہل سنت والجماعت دیوبندی بھی اسے ایسی ہی سمجھتے تھے ،لیکن کتاب کو غور سے پڑھنے پر معلوم ہوا کہ جن چیزوں کو ان حضرات نے اپنا سمجھاتھا وہ تو صرف واقعات ہیں ،اور جن افکار و نظریات کو شاہ صاحب نے بطور مسلک بیان فرمایا ہے وہ ہمارے حق میں دلیل اور اہل باطل کے خلاف زبردست حجت ہیں ،فرق صرف یہ ہوا کہ اب تک جتنے بھی ترجمے ہوئے تھے وہ انہیں کے تھے ۔
حضرت بہت بہت مبارک ہو ۔ہمارے شیخ حضرت محب الامت خلیفہ حضرت مسیح الامت رحمۃ اللہ علیہ کو محدث دہلوی رحمۃ للہ کی کتابوں سے عشق ہے برائے کرم دو عدد کتابیں مجھے ارسال کر دی جائیں ۔ کتابوں کا ہدیہ مع ڈاک خرچ بتا دیا جائے ۔انشاء اللہ منی آرڈر کر دیا جائے گا ۔ دوسری بات اگر انپیچ فائل مل جائے تو الغزالی لائبریری پر استفادہ عام کیلئے اپلوڈ کر دی جائیگی۔
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
مج
حضرت بہت بہت مبارک ہو ۔ہمارے شیخ حضرت محب الامت خلیفہ حضرت مسیح الامت رحمۃ اللہ علیہ کو محدث دہلوی رحمۃ للہ کی کتابوں سے عشق ہے برائے کرم دو عدد کتابیں مجھے ارسال کر دی جائیں ۔ کتابوں کا ہدیہ مع ڈاک خرچ بتا دیا جائے ۔انشاء اللہ منی آرڈر کر دیا جائے گا ۔ دوسری بات اگر انپیچ فائل مل جائے تو الغزالی لائبریری پر استفادہ عام کیلئے اپلوڈ کر دی جائیگی۔
یہ کتاب مکتبہ شاہ ولی اللہ بٹلہ ہاؤس دہلی سے طبع ہو رہی ہے،انشاء اللہ کتاب کے طبع ہوتے ہی آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے گی۔
ان پیج فائل بھی انشاء اللہ آپ کو بذریعہ ای میل روانہ کردی جائیگی ،ظاہر ہیکہ افادۂ عام ہی اس کا مقصد ہے ،اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے،لیکن ایک عرض یہ ہے کہ کتاب میں فٹ نوٹس بکثرت ہیں ،جو اسکی تفہیم کے لئے بالکل ناگذیر ضرورت ہیں ،کیا الغزالی پر ایسا ممکن ہوگا کہ فٹ نوٹ اپنی جگہ باقی رہیں ،اگر یہ ممکن ہو تو آج یا کل آپ کو فائل بھیج دی جائیگی۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مج

یہ کتاب مکتبہ شاہ ولی اللہ بٹلہ ہاؤس دہلی سے طبع ہو رہی ہے،انشاء اللہ کتاب کے طبع ہوتے ہی آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے گی۔
ان پیج فائل بھی انشاء اللہ آپ کو بذریعہ ای میل روانہ کردی جائیگی ،ظاہر ہیکہ افادۂ عام ہی اس کا مقصد ہے ،اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے،لیکن ایک عرض یہ ہے کہ کتاب میں فٹ نوٹس بکثرت ہیں ،جو اسکی تفہیم کے لئے بالکل ناگذیر ضرورت ہیں ،کیا الغزالی پر ایسا ممکن ہوگا کہ فٹ نوٹ اپنی جگہ باقی رہیں ،اگر یہ ممکن ہو تو آج یا کل آپ کو فائل بھیج دی جائیگی۔
فورم کے ماہرین سے اس سلسلہ میں مشورہ کر لیا جائیگا ۔بصورت دیگر پی ڈی یف بناکر جس طرح الغزالی اپلوڈ کیا جاتا ہے ۔اس طرح اپلوڈ کر دیا جائیگا ۔
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
محترم جناب حضرت مولانا قاسمی صاحب
السلام علیکم
فائل الغزالی ایڈمن پر بھیج دی ہے، چیک کرکے مطلع فرمائیں.
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
مکرمی
حضرت بہت بہت مبارک ہو ۔ہمارے شیخ حضرت محب الامت خلیفہ حضرت مسیح الامت رحمۃ اللہ علیہ کو محدث دہلوی رحمۃ للہ کی کتابوں سے عشق ہے برائے کرم دو عدد کتابیں مجھے ارسال کر دی جائیں ۔ کتابوں کا ہدیہ مع ڈاک خرچ بتا دیا جائے ۔انشاء اللہ منی آرڈر کر دیا جائے گا ۔ دوسری بات اگر انپیچ فائل مل جائے تو الغزالی لائبریری پر استفادہ عام کیلئے اپلوڈ کر دی جائیگی۔
احمد قاسمی صاحب ،السلام علیکم
انفاس العارفین شائع ہو چکی ہے،اپنا پوسٹل ایڈریس تحریر فرمادیں تاکہ کتاب آپ کو بھیجی جا سکے۔
 
Top