تصوف اور ذکرالٰہی
تصوف اور صوفیائے کرام کے متعلق عوام بلکہ علماء کے دلوں میں بھی کچھ شبہات پائے جاتے ہیں اور بعض اوات وہ حضرات اس قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں کہ طریقت اور شریعت دو الگ چیزیں ہیں یا یہ کہ تصوف تکلیفات شرعیہ سے آزادی کا نام ہے۔
تبلیغ و اشاعت دین کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفوس کا کام انبیاء علیہم السلام سے لیا جاتا رہا مگر نبی آخر الزماںﷺ کی اس آخری امت میں اس کی ذمہ داری علمائے ربانیین پر عائد ہوتی ہے جو ورثۃ الانبیاء ہیں اور ہر مادی اور الحادی دور کی تاریکیوں میں روشن چراغ کی مانند ہوتے ہیں۔ موجودہ دورِ پرفتن میں اس ذمہ کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ اس دور میں اسلام کی زبوں حالی اور مسلمانوں کی دینی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور نبی اکرمﷺ سے ان کا ایمانی اور روحانی تعلق برائے نام ہی رہ گیا ہے۔ ان کی اعتقادی خرابیوں اور عملی بے اعتدالیوں اور بدعنوانیوں کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ انہیں شریعت مطہرہ کے اباع‘ تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کی طرف توجہ دلاتا ہے تو اس کی آواز پر لبیک کہنے کی بجائے الٹا اپنے آپ کو اوہام و تشکیک کی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حق کی حفاظت اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اس کی رحمت یہ کب گوارہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دے۔ چنانچہ ہر دور میں وہ اپنے خاص بندوں کے ذریعے حق کی حمایت اور اصلاح خلق کی خدمت لیتا رہا اور صوفیائے کرام نے جس خلوص اور للہیت سے یہ خدمت انجام دی ہے اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔
صوفیائے کرام کے ہاں تعلیم و ارشاد اور تزکیہ و اصلاح باطن کا طریقہ القائی اور انعکاسی ہے اور یہ تصوف کا عملی پہلو ہے جس کا انحصار صحبت شیخ پر ہے۔ بقول امام ربانیؒ مجدد الف ثانی ’’تصوف کا تعلق احوال سے ہے‘ زبان سے بیان کرنے والی چیز نہیں‘‘ مگر جہاں تک تصوف کے عملی پہلو کا تعلق ہے‘ صحیح اسلام ی تصوف کے خدوخال کا تعین اور اس کی حیثیت سے علمی حلقوں کو روشناس کرانا بہت ضروری ہے کیونکہ آج کل جس چیز کو تصوف کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پیش کیا جاتا ہے اس کا اسلامی تصوف سے دور کا تعلق بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ صحیح اسلامی تصوف کو بھی شک و شبہ کی نظر دے دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ عامۃ المسلمین کو صحیح اسلامی تصوف سے روشناس کرایا جائے۔ جس کی اساس کتاب و سنت پر ہے تاکہ اس کی روشنی میں اپنی فکری اور عملی اصلاح کر کے ابدی فلاح حاصل کر سکیں۔
لغت کے اعتبار سے تصوف کی اصل خواہ صوف ہو اور حقیقت کے اعتبار سے اس کا رشتہ چاہے صفا سے جا ملے‘ اس میں شک نہیں کہ یہ دین کا ایک اہم شعبہ ہے۔ جس کی اساس خلوص فی العمل اور خلوص فی النیت پر ہے اور جس کی غایت تعلق مع اللہ اور حصول رضائے الٰہی ہے۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ‘ نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ اور آثار صحابہؓ سے اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے۔
عہد رسالت میں اور صحابہ کرامؓ کے دور میں جس طرح دین کے دوسرے شعبوں‘ تفسیر‘ اصول فقہ‘ کلام وغیرہ کے نام اور اصطلاحات وضع نہ ہوئی تھیں ہر چند کہ ان کے اصول و کلیات موجود تھے اور ان عنوانات کے تحت یہ شعبے بعد میں مدون ہوئے‘ اسی طرح دین کا یہ اہم شعبہ بھی موجود تھا۔ کیونکہ تزکیہ باطن خود پیغمبرﷺ کے فرائض میں شامل تھا۔ صحابہ ث کی زندگی بھی اسی کا نمونہ تھی لیکن اس کی تدوین بھی دوسرے شعبوں کی طرح بعد میں ہوئی۔ صحابیت کے شرف اور لقب کی موجودگی میں کسی علیحدہ اصطلاح کی ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ ث کے لئے متلکلم‘ مفسر‘ محدث‘ فقیہ اور صوفی کے القات استعمال نہیں کئے گئے۔ اس کے بعد جن لوگوں نے دن کے اس شعبہ کی خدمت کی اور اس کے حامل اور مستحق قرار پائے گئے‘ ان کی زندگیاں زہد و اتقاء اور خلوص و سادگی کا عمدہ نمونہ تھیں۔ ان کی غذا بھی سادہ اور لباس بھی موٹا جھوٹا اکثر صوف وغیرہ کا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے وہ لوگوں میں صوفی کے لقب سے یاد کئے گئے اور اس نسبت سے ان کے متعلق شعبہ دین کو بعد میں تصوف کا نام دیا گیا۔
قرآن حکیم میں اسے تقویٰ‘ تزکیہ اور خشتیہ اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور حدیث شریف میں اسے احسان سے موسوم کیا گیا اور اسے دین کا ماحصل قرار دیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل حدیث جبریلؑ میں موجود ہے۔ مختصر یہ کہ تصوف‘ احسان‘ سلوک اور اخلاص ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں۔ نبوت کے دو پہلوں ہیں اور دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ کما قال تعالیٰ:
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم
حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا ہے
رسولا من انفسھم یتلو علیہم آیاتہ ویزکیھم
جبکہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو ان کی اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے
ویعلمھم الکتاب والحکمۃ (آل عمران:آیت 146)
اور انہیں پاک و صاف کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے
نبوت کے ظاہری پہلو کا تلاوت آیات و تشریخ کتاب سے اور اس کے باطنی پہلو کا تعلق تزکیہ باطن سے ہے۔ جن نفوس قدسیہ کو نبوت کے صرف ظاہری پہلو سے حصہ وافر ملا وہ مفسر‘ محدث‘ فقیہہ اور مبلغ کے ناموں سے موسوم ہوئے اور جنہیں اس کے ساتھ ہی نبوت کے باطنی پہلو سے بھی سرفراز فرمایا گیا۔ ان میں سے بعض غوثیت‘ قطبیت‘ ابدالیت اور قیومیت وغیرہ کے مناسب پر فائز ہوئے مگر ان سب کا سرچشمہ کتاب و سنت ہی ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان علاقہ قائم رکھنے والی چیز اعتصام بالکتاب و السنہ ہے۔ یہی مدارِ نجات ہے۔ قبر سے حشر تک اتباع کتاب و سنت کے متعلق ہی سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ محققین‘ صوفیائے کرامؒ نے شیخ یا پیر کے لئے کتاب و سنت کا عالم ہونا لازم قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص ہوا میں اڑتا ہوا آئے مگر اس کی عملی زندگی کتاب و سنت کے خلاف ہے تو وہ ولی اللہ نہیں بلکہ جھوٹا ہے‘ شعبدہ باز ہے کیونکہ تعلق مع اللہ کے لئے اتباع سنت لازمی ہے۔
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ
آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع کرو‘
خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے
اتباع سنت کا پورا پورا حق ان اللہ والوں نے ادا کیا جنہوں نے نبوت کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں کی اہمیت کو محسوس کیا اور تبلیغ و اشاعت دین کو تزکیہ نفوس سے کبھی جدا نہ ہونے دیا۔ تمام کمالات اور سارے مناصب صرف حضورﷺ کی اتباع کی بدولت ہی حاصل ہوتے ہیں اور تصوف کا اصل سرمایہ اتباع سنت ہے۔
کتب احادیث میں ’’حدیث جبریل‘‘ کو اصول دین کے بیان میں بنیادی حیثیت حاصل ہے جس میں دین کو اسلام‘ ایمان اور احسان سے مرکب بیان فرمایا گیا۔ احسان کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے:
قال اخبرنی عن الاحسان قال ان تعبد اللہ
کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک
جبریل ؑ نے کہا مجھے احسان کے متعلق بتائے۔ رسول خداﷺ نے فرمایا‘ اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: خوب سمجھ لو دین کی بنیاد اور اس کی تکمیل کا انحصار فقہ‘ کلام اور تصوف پر ہے اور اس حدیث شریف میں ان تینوں کا بیان ہوا ہے۔ اسلام سے مراد فقہ ہے کیونکہ اس میں شریعت کے احکام اور اعمال کا بیان ہے اور ایمان سے مراد عقائد ہیں جو علم کلام کے مسائل ہیں اور احسان سے مراد تصوف ہے جو صدق دل سے توجہ الی اللہ سے عبارت ہے۔ مشائخ طریقت کے تمام ارشادات کا حاصل یہی احسان ہے کیونکہ کوئی عمل بغیر اخلاص نیت کے مقبول نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ تیسرا فن مقاصد شرعیہ کے ماخذ کے لحاظ سے بہت باریک اور گہرا ہے اور تمام شریعت کے لئے اس فن کی وہی حیثیت ہے جو جسم کے لئے روح کی ہے اور لفظ کے لئے معنی کی ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ تصوف کے بغیر نہ شریعت زندہ رہ سکتی اور نہ دین سلامت رہ سکتا ہے۔ قاضی ثناء اللہؒ پانی پتی تصوف کے مقام اور اہمیت کی وضاحت اس طرح فرماتے ہیں:
تصوف اور صوفیائے کرام کے متعلق عوام بلکہ علماء کے دلوں میں بھی کچھ شبہات پائے جاتے ہیں اور بعض اوات وہ حضرات اس قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں کہ طریقت اور شریعت دو الگ چیزیں ہیں یا یہ کہ تصوف تکلیفات شرعیہ سے آزادی کا نام ہے۔
تبلیغ و اشاعت دین کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفوس کا کام انبیاء علیہم السلام سے لیا جاتا رہا مگر نبی آخر الزماںﷺ کی اس آخری امت میں اس کی ذمہ داری علمائے ربانیین پر عائد ہوتی ہے جو ورثۃ الانبیاء ہیں اور ہر مادی اور الحادی دور کی تاریکیوں میں روشن چراغ کی مانند ہوتے ہیں۔ موجودہ دورِ پرفتن میں اس ذمہ کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ اس دور میں اسلام کی زبوں حالی اور مسلمانوں کی دینی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور نبی اکرمﷺ سے ان کا ایمانی اور روحانی تعلق برائے نام ہی رہ گیا ہے۔ ان کی اعتقادی خرابیوں اور عملی بے اعتدالیوں اور بدعنوانیوں کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ انہیں شریعت مطہرہ کے اباع‘ تزکیہ نفس اور اصلاح باطن کی طرف توجہ دلاتا ہے تو اس کی آواز پر لبیک کہنے کی بجائے الٹا اپنے آپ کو اوہام و تشکیک کی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حق کی حفاظت اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اس کی رحمت یہ کب گوارہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دے۔ چنانچہ ہر دور میں وہ اپنے خاص بندوں کے ذریعے حق کی حمایت اور اصلاح خلق کی خدمت لیتا رہا اور صوفیائے کرام نے جس خلوص اور للہیت سے یہ خدمت انجام دی ہے اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔
صوفیائے کرام کے ہاں تعلیم و ارشاد اور تزکیہ و اصلاح باطن کا طریقہ القائی اور انعکاسی ہے اور یہ تصوف کا عملی پہلو ہے جس کا انحصار صحبت شیخ پر ہے۔ بقول امام ربانیؒ مجدد الف ثانی ’’تصوف کا تعلق احوال سے ہے‘ زبان سے بیان کرنے والی چیز نہیں‘‘ مگر جہاں تک تصوف کے عملی پہلو کا تعلق ہے‘ صحیح اسلام ی تصوف کے خدوخال کا تعین اور اس کی حیثیت سے علمی حلقوں کو روشناس کرانا بہت ضروری ہے کیونکہ آج کل جس چیز کو تصوف کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پیش کیا جاتا ہے اس کا اسلامی تصوف سے دور کا تعلق بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ صحیح اسلامی تصوف کو بھی شک و شبہ کی نظر دے دیکھا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ عامۃ المسلمین کو صحیح اسلامی تصوف سے روشناس کرایا جائے۔ جس کی اساس کتاب و سنت پر ہے تاکہ اس کی روشنی میں اپنی فکری اور عملی اصلاح کر کے ابدی فلاح حاصل کر سکیں۔
لغت کے اعتبار سے تصوف کی اصل خواہ صوف ہو اور حقیقت کے اعتبار سے اس کا رشتہ چاہے صفا سے جا ملے‘ اس میں شک نہیں کہ یہ دین کا ایک اہم شعبہ ہے۔ جس کی اساس خلوص فی العمل اور خلوص فی النیت پر ہے اور جس کی غایت تعلق مع اللہ اور حصول رضائے الٰہی ہے۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ‘ نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ اور آثار صحابہؓ سے اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے۔
عہد رسالت میں اور صحابہ کرامؓ کے دور میں جس طرح دین کے دوسرے شعبوں‘ تفسیر‘ اصول فقہ‘ کلام وغیرہ کے نام اور اصطلاحات وضع نہ ہوئی تھیں ہر چند کہ ان کے اصول و کلیات موجود تھے اور ان عنوانات کے تحت یہ شعبے بعد میں مدون ہوئے‘ اسی طرح دین کا یہ اہم شعبہ بھی موجود تھا۔ کیونکہ تزکیہ باطن خود پیغمبرﷺ کے فرائض میں شامل تھا۔ صحابہ ث کی زندگی بھی اسی کا نمونہ تھی لیکن اس کی تدوین بھی دوسرے شعبوں کی طرح بعد میں ہوئی۔ صحابیت کے شرف اور لقب کی موجودگی میں کسی علیحدہ اصطلاح کی ضرورت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ ث کے لئے متلکلم‘ مفسر‘ محدث‘ فقیہ اور صوفی کے القات استعمال نہیں کئے گئے۔ اس کے بعد جن لوگوں نے دن کے اس شعبہ کی خدمت کی اور اس کے حامل اور مستحق قرار پائے گئے‘ ان کی زندگیاں زہد و اتقاء اور خلوص و سادگی کا عمدہ نمونہ تھیں۔ ان کی غذا بھی سادہ اور لباس بھی موٹا جھوٹا اکثر صوف وغیرہ کا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے وہ لوگوں میں صوفی کے لقب سے یاد کئے گئے اور اس نسبت سے ان کے متعلق شعبہ دین کو بعد میں تصوف کا نام دیا گیا۔
قرآن حکیم میں اسے تقویٰ‘ تزکیہ اور خشتیہ اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور حدیث شریف میں اسے احسان سے موسوم کیا گیا اور اسے دین کا ماحصل قرار دیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل حدیث جبریلؑ میں موجود ہے۔ مختصر یہ کہ تصوف‘ احسان‘ سلوک اور اخلاص ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں۔ نبوت کے دو پہلوں ہیں اور دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ کما قال تعالیٰ:
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم
حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا ہے
رسولا من انفسھم یتلو علیہم آیاتہ ویزکیھم
جبکہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو ان کی اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے
ویعلمھم الکتاب والحکمۃ (آل عمران:آیت 146)
اور انہیں پاک و صاف کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے
نبوت کے ظاہری پہلو کا تلاوت آیات و تشریخ کتاب سے اور اس کے باطنی پہلو کا تعلق تزکیہ باطن سے ہے۔ جن نفوس قدسیہ کو نبوت کے صرف ظاہری پہلو سے حصہ وافر ملا وہ مفسر‘ محدث‘ فقیہہ اور مبلغ کے ناموں سے موسوم ہوئے اور جنہیں اس کے ساتھ ہی نبوت کے باطنی پہلو سے بھی سرفراز فرمایا گیا۔ ان میں سے بعض غوثیت‘ قطبیت‘ ابدالیت اور قیومیت وغیرہ کے مناسب پر فائز ہوئے مگر ان سب کا سرچشمہ کتاب و سنت ہی ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان علاقہ قائم رکھنے والی چیز اعتصام بالکتاب و السنہ ہے۔ یہی مدارِ نجات ہے۔ قبر سے حشر تک اتباع کتاب و سنت کے متعلق ہی سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ محققین‘ صوفیائے کرامؒ نے شیخ یا پیر کے لئے کتاب و سنت کا عالم ہونا لازم قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص ہوا میں اڑتا ہوا آئے مگر اس کی عملی زندگی کتاب و سنت کے خلاف ہے تو وہ ولی اللہ نہیں بلکہ جھوٹا ہے‘ شعبدہ باز ہے کیونکہ تعلق مع اللہ کے لئے اتباع سنت لازمی ہے۔
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ
آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع کرو‘
خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے
اتباع سنت کا پورا پورا حق ان اللہ والوں نے ادا کیا جنہوں نے نبوت کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں کی اہمیت کو محسوس کیا اور تبلیغ و اشاعت دین کو تزکیہ نفوس سے کبھی جدا نہ ہونے دیا۔ تمام کمالات اور سارے مناصب صرف حضورﷺ کی اتباع کی بدولت ہی حاصل ہوتے ہیں اور تصوف کا اصل سرمایہ اتباع سنت ہے۔
کتب احادیث میں ’’حدیث جبریل‘‘ کو اصول دین کے بیان میں بنیادی حیثیت حاصل ہے جس میں دین کو اسلام‘ ایمان اور احسان سے مرکب بیان فرمایا گیا۔ احسان کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے:
قال اخبرنی عن الاحسان قال ان تعبد اللہ
کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک
جبریل ؑ نے کہا مجھے احسان کے متعلق بتائے۔ رسول خداﷺ نے فرمایا‘ اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
شاہ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: خوب سمجھ لو دین کی بنیاد اور اس کی تکمیل کا انحصار فقہ‘ کلام اور تصوف پر ہے اور اس حدیث شریف میں ان تینوں کا بیان ہوا ہے۔ اسلام سے مراد فقہ ہے کیونکہ اس میں شریعت کے احکام اور اعمال کا بیان ہے اور ایمان سے مراد عقائد ہیں جو علم کلام کے مسائل ہیں اور احسان سے مراد تصوف ہے جو صدق دل سے توجہ الی اللہ سے عبارت ہے۔ مشائخ طریقت کے تمام ارشادات کا حاصل یہی احسان ہے کیونکہ کوئی عمل بغیر اخلاص نیت کے مقبول نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ تیسرا فن مقاصد شرعیہ کے ماخذ کے لحاظ سے بہت باریک اور گہرا ہے اور تمام شریعت کے لئے اس فن کی وہی حیثیت ہے جو جسم کے لئے روح کی ہے اور لفظ کے لئے معنی کی ہے۔‘‘ مطلب یہ کہ تصوف کے بغیر نہ شریعت زندہ رہ سکتی اور نہ دین سلامت رہ سکتا ہے۔ قاضی ثناء اللہؒ پانی پتی تصوف کے مقام اور اہمیت کی وضاحت اس طرح فرماتے ہیں: