بیت بازی کا کھیل

سیما

وفقہ اللہ
رکن



اسلام علیکم
آج میں آپ سب کے لیے ایک کھیل لے کر آئی ہوں ، جس لفظ‌ سے شعر ختم ہو گا اسی لفظ سے شعر شروع کرنا ہیں
تو میں سب سے پہلے شعر لکھتی ہوں

تمھارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں‌بھیگ جاتی ہیں

(ن)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے
کبھی روئے کبھی سجدےکئے خاک نشیمن پر
(ر)​
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
رسمٍ الفت ہی اجازت نہیں‌دیتی ورنہ
ہم بھی ایسا تمھیں بھولیں کہ سدا یاد کرو


(و)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وہ رات رات کا مہماں تو عمر بھر کیلئے
چلا گیا مجھے یادوں کو سلسلہ دے کر
(ر)​
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن

رات کے خواب سنائیں کس کو، رات کے خواب سہانےتھے
دھندلے دھندلے چہرے تھے، پر سب جانے پہچانے تھے

(ی)​
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
یہ قربتیں تو بڑے امتحاں لیتی ہیں فراز
کسی سے واسطہ رکھنا تو دور کا رکھنا

اب
الف سے
 

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
اسے تو اپنی خوشیوں سے ذرا فرصت نہیں ملتی
میرے غم کے ابھرنے سے اسے کیا فرق پڑتا ہے

(ی)
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
یوں نقش ہوا آنکھ کی پتلی پے وہ چہرا
پھر ہم نے کسی اور کی صورت نہیں دیکھی


(ی)
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن

آنکھوں سے نہ پڑھ لے کوئی چہرے کی اداسی
اس ڈر سے ذکر کبھی وہ میرا نہیں کرتے


(ی)
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
یاد تو ہوں‌گی تجھے وہ باتیں بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح

کون جانے تو نئے سال میں کس کو پڑھے
تیرا میعار بدلتا ہے نصابوں کی طرح


(ح)
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
حرفِ غلط سمجھ کے جو مجھکو مٹا گیا
اُس جیسا اُس کے بعد نہ کوئی لگا مجھے

یہ زندگی کہ موت بھی ہے جس پہ نوحہ خواں
کس جرم کی نہ جانے ملی ہے سزا مجھے


اب "ی"
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
یہ شہرِ‌دل نہیں ہے شہرِ‌آثارِ قدیمہ ہے
سماعت ہو تو یاں‌ایک ایک پتھر بات کرتا ہے

کوئی سنتا نہیں پیہم صدا ٹکرائے جاتی ہے
میں باہر چیختا ہوں کوئی اندر بات کرتا ہے


،،ی،،
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست
اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو


احسان دانش

اگلا شعر "و" سے
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
وہ ملا تو صدیوں‌کے بعد بھی مرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا



،،ا،،
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
اک تیرا دھیان سفر میں نہیں رکنے دیتا
یوں تو ہر گام پہ رستے میں شجر آتا ہے

سلیم فوز

اگلا شعر " ی " سے
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
یہ ہم ہیں جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
یہ پتا نہن کون سا ہے
ن ہوگا کیا؟؟؟
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
نئے نئے ہیں‌عزائم نئی نئی ہے تلاش
جمال دوست سے دل مطمئن کہاں ہے ابھی

قابل اجمیری

اگلا شعر " ی " سے
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
یہ نہ کہو کہ شمعیں نہ جلاؤ ہمیں اندھیروں سے محبت ہے
شمعیں کرو روشن ، مگر وہ ! جن سے دل کے اندھیرے چھٹ جائیں گے
 
Top