طلبہ سے چند باتیں- از مفتی ابو لبابہ شاہ منصور دامت برکاتہم

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
talba-sy-chand-batain.jpg

طالب علمی کی زندگی میں چندباتیں ایسی ہوتی ہیں کہ دورانِ تعلیم طلبہ ان کی اہمیت نہیں جانتے۔ چند چیزیں بہت نقصان دہ ہوتی ہیں، لیکن طلبہ ان سے آگاہ نہیں ہوتے۔ کچھ چیزیں انتہائی مضر ہوتی ہیںاور طلبہ کو ان میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے۔کچھ چیزیں بہت مفید ہوتی ہیں، لیکن طلبہ کو ان سے بہت گریز ہوتا ہے۔ یہ ’’کرب اور شوق‘‘، ’’کشش اور گریز‘‘، یہ دو چیزیں انسان کے اندرایسی ہوتی ہیں کہ انہیں صحیح رُخ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کو کوئی چیز اچھی لگ رہی ہے تو کِھچا چلا جارہا ہے۔ ہوا جدھر کو ہانکے چلی جارہی ہے، ادھر کو رُخ کرلینے کے لیے محض اتنا ہی کافی نہیں ہونا چاہیے کہ اپنی عقل اور سوچ اسے اچھا سمجھ رہی ہے، اچھا دکھا رہی ہے۔

کسی چیز کو اختیار کرنے کے لیے محض یہ بات کافی نہیں ہے، جن حضرات کی عقل اور خیرخواہی پر اعتماد ہو یا خود انسان کے اندر کسی کی عقل اور خیرخواہی پرکھنے کی صلاحیت نہ ہو تو جنہوں نے پرکھ کرایسا بتا یا ہو، ان کی عقل اور خیرخواہی پر اعتماد کرتے ہوئے، ان سے پوچھ کر چلنا چاہیے کہ حضرت! فلاں چیز میں بڑے فائدے بتائے جارہے ہیں۔ اس سے انشاء اللہ! طلبہ کو فائدہ ہوجائے گا۔ علمی استعداد بڑھ جائے گی۔ آیندہ جاکر میدانِ عمل میں آسانی رہے گی، تو آپ فرمائیے کہ یہ کیسا ہے؟ جس چیز کی طرف دعوت دی جارہی ہو، تحریک پیدا کی جارہی ہو، اس چیز کی جانب بڑوں سے پوچھے بغیر چل پڑیں۔ ایسا کبھی نہ کریں، اپنی عقل سے فیصلہ نہ کریں اور نہ ہی صرف اپنی فہم و بصیرت پر مکمل اعتماد کریں۔ دراصل یہاں دونوں باتیں غلط ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے چلنا بھی غلط ہے اور سوچنے سمجھنے کے عمل میں اپنے اوپر اعتماد بالکفایہ کرلینا بھی غلط ہے۔

جس راستے پر انسان کبھی چلا نہ ہو، اس کے لیے رہنما لے لینا، یہ صرف انسان کی عقل نہیں، بلکہ سعادت کی علامت ہے ایسا انسان خوش بخت ہے۔ اسے کسی کی دعا لگ گئی ہے کہ اللہ کی طرف سے نیک بختی اس کے لیے لکھ دی گئی ہے۔ تب جاکر یہ توفیق ملتی ہے۔ کچھ چیزیں بہت مضر ہوتی ہیں۔ اساتذہ اور سرپرستوں کی طرف سے ان سے ممانعت کی تاکید ہوتی رہتی ہے۔ اب جن چیزوں کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے، ان سے گریز پایا جاتا ہے، کش مکش ہوتی ہے۔کبھی نفس کی طرف سے، کبھی شیطان کی طرف سے۔ وہ اس راستے پر نہیں چلنے دیتے جس چیزکی اہم تاکیدی نصیحت کی جائے۔ اور جس چیز کی طرف نصیحت نہ کرنے کی اہلیت رکھنے والے لوگ رخ دکھادیں، ادھر چل پڑنے کا شوق ہوتا ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں یہ دونوں خطرناک چیزیں ہیں۔آدمی اس سے افراط و تفریط میں پڑ جاتا ہے۔ انہی دونوں چیزوں کو اگر اعتدال میں نہ لائے، تو افراط تفریط میں پڑے گا۔ نقصان کر بیٹھے گا یا پیچھے رہ جائے گا۔ اعتدال میں لانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جن کے فہم وبصیرت میںاعتدال اور میانہ روی تھی تب ہی تو اللہ نے انہیں یہ مقام دیا کہ وہ ہمارے اساتذہ اور بڑے بن سکیں۔ جس بڑے تک آپ کی پہنچ ہے، اعتدال اسی سے سیکھیں۔ جیسے اصلاح میںشیخ ہونا چاہیے، یعنی اصلاحی شیخ۔ اسی طرح تعلیمی شیخ بھی ہونا چاہیے۔ جس سے سبقی زندگی کے دوران پوچھ پوچھ کر چلا جائے۔ درسِ نظامی کا جو نصاب اور نظام ہے۔ نصاب کا معنیٰ ایک طالب علمی منہج۔ نظام کو معنی ایک تربیتی طریقۂ کارہے جو چلا آرہا ہے۔ آپ یقین کیجیے کہ اگر دنیا میں اگر کہیں ٹھیٹھ علمی کام ہورہا ہے بمع انسانی ذہن کو اصلاحی سانچے میں ڈھالنے کے، یہ صرف اسی جگہ ہورہا ہے جہاں پر ہمارے طریقے کو لیا گیایا تو ہمارے بڑوں میں سے کوئی بیٹھا ہے یا ہمارے بڑوں کا کوئی مسترشد کہیں بیٹھ اسی نصاب کو چلا رہا ہے۔ ورنہ بے تحاشا وقت، بے تحاشا وسائل ضائع ہورہے ہیں اور نتائج آدھے بھی نہیں آرہے۔

ہمارے ایک سعادت سے محروم حکمران نے پوری قوم کو سعادت سے محروم کیا اور بیرون ملک سے طلبہ کے آنے پر پابندی لگائی تو پوری دنیا کے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے وہاں رخ کرنے لگے جہاں ہمارے بڑوں سے پڑھ کر لوگوں نے مشعلیں روشن کررکھی تھیں۔ جنوبی افریقہ اور انگلینڈ، یہ دو ایسی جگہیں ہیں کہ وہاں پر وہ لوگ مدارس کا نظام چلارہے تھے جو یہاںبرصغیر میں تربیت پاکر گئے تھے۔ وہاں علمی استعداد بھی دیکھنے میں نظر آتی ہے اور کام کرنے کا جذبہ اور خدمت بھی۔ کچھ نہ مانگ کر بھی سب کچھ جھونک دینا۔ یہ وصف بھی وہاں نظر آتا ہے۔ یہاں پابندی لگی ہے تو کوئی حرج نہیں، جو پڑھ کر آیا ہے تو کافی مسائل ساتھ لے کر آیا ہے۔ ہمارا بھی نصاب ونظام ہے۔ اس سے ہٹ کر، بڑوں کے مشورے کے بغیر کوئی چیز اس لیے کرنا کہ وہ اچھی لگ رہی ہے یا اہلیت رکھے بغیراس نصاب ونظام پر بے جا تنقید کرنا۔ اس لیے کہ وہ اس کی سمجھ میں آرہی ہے۔ دونوں باتیں افراط وتفریط ہیں۔
یہ خصوصاً اس دور میں ہوتا ہے جب انسان ناپختہ ہوتا ہے۔ تجربہ تو اس کے پاس ہے ہی نہیں۔ عقل و صلاحیت پر اگر کسی کو اعتماد ہے تو اتنا تو اپنی عقل سے وہ بھی مانتا ہے کہ تجربہ اس کے پاس نہیں ہے۔ محض عقل بغیر تجربے کے دنیا کے کسی بھیشعبے میں کامیا ب ہوہی نہیں سکتی۔ عقلمند ہے ہی وہ جو دوسرے کے تجربے سے استفادہ کرے۔ اس عمر میں تجربہ تو ہوتا ہی نہیںہے۔کسی کو اگر تھوڑا سوچنا آگیا، بولنا آگیا، ذرا سا ہلنا جلنا آگیا تو اس میں انانیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی بات، اپنی سوچ، کہیں سے لی ہوئی سوچ پر آجاتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ ہر ایک کی سوچ لینے کی نہیں ہے۔ جب تک کہ کسی کے علم وعمل پر،نسبت وطریقِ کار پر ہمارے بڑوں کو اعتماد نہ ہو۔ ہم اس کو یہ مقام نہیں دے سکتے کہ اس سے فیض حاصل کریں، اس سے رہنمائی لیں۔ اس کو اپنا بڑا بنالیں۔اس کے دیے ہوئے رخ پر چل پڑیں۔ ایسا نہیں کرسکتے۔ بس! یہ ذہن بنا نا چاہیے کہ نصاب ونظام جو سب کے لیے وضع ہوا اس کے ہر ہر جز میں خیر ہے، جو علم اور جس علم کی جو بھی کتاب ہمارے بڑوں نے طے کردی، بقیہ علوم جن کے حصول کی خواہش میںبے تاب ہوکر دوڑرہے ہیں۔

ان سارے علوم میں سے کام کی چیز ہاتھ آجائے گی اگر اس نصاب میں رسوخ حاصل ہوگیا ہے۔ وہ چیز بھی مطالعے اور ممارست سے آجائے گی۔ اصحابِ فن سے گفت و شنید سے آجائے گی اور جن چیزوں سے منع کیا جارہا ہے، براکہاجارہا ہے، ان سے نقصان ہوگا اگرچہ بظاہر مفید اور برکتیں معلوم وہورہی ہیں، نیت بھی اچھی ہے اور تجربہ بھی بہت ہے۔کیونکہ ہماراجو نصابِ تعلیم ہے یہ کوئی حکومت کی سرپرستی میں طے ہوااور نہ ہی اس کے وسائل کے لیے کسی حکومت نے خزانے پیش کیے ہیں۔ اسے ان لوگوں نے وضع اور تدوین کیا ہے جنہوں نے بیسیوں دفعہ استخارے اور استشارے کیے، کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمانانِ برصغیر کی کشتی ڈانوا ڈول ہے۔ مغلیہ سلطنت گئی، ریاست ہاتھ میں نہیں ہے۔ غیرملکی، غیرمسلم، حربی معاند یہاں آکر قابض ہوگیا۔ رہاسہا، بچاکھچاجو تعلیمی نظام ہے۔ ریاستی نظام تو ہاتھ سے گیا۔ اس تعلیمی نظام کو کس طرح سے بچایا جائے؟ چونکہ وہ بہت دور دور تک دیکھ رہے تھے اور خالص اخلاص واحسان کے درجے سے پرخلوص جذبے کے ساتھ دیکھ رہے تھے، لہٰذا قدم قدم پر انہوں نے مشورہ بھی کیا، دعائیں بھی کیں، رونا دھونا بھی کیا، استخارے استشارے کیے۔

اللہ تعالیٰ سے خیر مانگ مانگ کرکہ کہیں ایسی چیز نہ آجائے کہ آیندہ نسل کو نقصان ہوجائے اور ایسی چیز رہ نہ جائے کہ آیندہ جس کا ارمان رہ جائے۔ ایک ایک چیز پر غوروفکر کر کے انہوں نے ایسا کیا۔ جس کو دنیابھر یا اس کاکچھ حصہ دیکھنے کا موقع ملا ہے اور تعمیری تنقید میں سے اس کے پاس کچھ حصہ تھاتو وہ اس کی تصدیق کرتا ہے کہ ان حضرات نے کم وقت میں، کم وسائل پر بہت قابلِ رشک نتائج حاصل کیے ہیں۔ اس سے ہٹ کر جو چلا تووہ ’’أَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبْ جُفَائً‘‘ شروع شروع میں پانی کا جو ریلا آتا ہے تو آدمی سمجھتا ہے پانی تو ختم ہے، یہ تو صرف جھاگ ہی جھاگ ہے۔ بس اسی کی طغیانی ہوگی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد’’غُثَائً، جُفَائً‘‘۔ وہاں کچھ بھی نہیں رہتا۔’’أمّاما ینفع الناس فیمکث فی الأرض‘‘اور جس چیز کے اندر حقیقی نفع ہوتا ہے، دیر پا نفع ہوتا ہے، وہ باقی رہتا ہے۔

دوستو! یہ اپنا ذہن خود بنانے کی بات ہے۔ ہمارا طالب علم کسی سے سن لیتا ہے کہ فلاں، فلاں یونیورسٹی میں چلا گیا تھا۔ فلاں ملک کے اسلامک چیئرپرسن سے اس کا رابطہ ہوگیا تھا۔ اس نے یہ کچھ بھی کر لیا…وغیرہ۔ اگر فلاں چیز دورۂ حدیث سے پہلے نہیں ہوئی تو بس پھر تو حسرت ہی حسرت ہے۔ جذبہ بھی بڑا اچھا ہے کہ آدمی کے اندر آگے بڑھنے کا شوق ہے، لیکن بے مہار، بے لگام کوئی چیز دنیا میں اچھی نہیں۔ اس جذبے کو مضبوط لگام اور صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے اکابر کی عمومی منشا اورمزاج سے اولاًاور خصوصی رائے اور دعاؤں سے ثانیاً۔ تب جاکر انسان کو یہ کامیابی ملتی ہے۔

’’إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتاً لِلّہِ حَنِیْفاً وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ اس میں اللہ نے چار ابراہیمی صفات گنوائی ہیں: ’’أُمَّۃً قَانِتاً لِلّہِ حَنِیْفاً وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘‘ یہ ایسی صفات ہیں جو طلبہ کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہییں۔’’ أُمَّۃٌ‘‘: فرد ہولیکن کام پوری جماعت جتنا کرے۔ ’’ قَانِتاً‘‘ فرمانبردار اور مطیع ہو، اطاعت ہو اس میں۔ ’’وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ ‘‘یہ حکم حضور علیہ السلام کے لیے تو آیا ہے، جو امیر تھے کہ اپنے مأمورین کے لیے اپنا رویہ نرم رکھا کریں۔ بچوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے والدین کے لیے اور مأمورین اپنے آمرین کے لیے رویہ نرم رکھیں۔ تواضع ہو، ماننے کا مزاج ہو، زیادہ کامیاب یہی ہوتا ہے۔ نجی زندگی میںجس کے اخلاقِ حسنہ ہوں، تعلق مع اللہ ہو،وہی کام کرسکتاہے۔ ظاہری چمک دمک اور رونق جتنی بھی ہو، کام حقیقت میںاسی نے کیا ہے جس نے ہمارے بڑوں کے مزاج کو سمجھ کرنامساعد حالات میں کیا اور ان مشکلات میں کیا۔ وسائل کی عدم دستیابی کے وقت میں رکاوٹوں کی بھرمار میں کیا۔ حضرت تھانویؒ کی چھوٹی سی تپائی یہاں آپ کے شہر میں رکھی ہے اور فیض کہاں تک پھیلا؟ ولایت کے اعلیٰ مقامات کتنی دنیا کو نصیب ہوئے؟دوسرے ان لوگوں کو جتنے وسائل ملے اس کے حساب سے تو ان کی کامیابی کا تناسب ہے ہی کچھ نہیں۔ ہم نے جس حالت میں کیا اس اعتبار سے تناسب کہاں سے کہاں پہنچا ہے؟

اس وقت جو نصاب اور نظام ہے۔ آدمی کو ظاہری علم آجائے، باطنی تعمیر ہوجائے۔ اس کے حوالے سے وہ یکسو ہو۔ ’’شَاکِرًا لِأَنْعُمِہٖ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت دے دی ہے کہ مشفق اساتذہ مل گئے۔ آپ چلے جائیں ذرا اسکول میں، والدین کی کھال اتارتے ہیں۔ بعد ازاں بچے کوایک نئی کھال پہنادیتے ہیں۔ والدین کو بھی نچوڑ دیتے ہیں اور اتنا پیسا لیتے ہیں کہ اگر آپ والدین سے پوچھیں تو ہر وقت شکوہ کرتے ہیں کہ ’’ بچوں کی تعلیم، بچوں کی تعلیم‘‘۔ اسکول والے پہلے والدین کو نچوڑ لیتے ہیں، بعد ازاں اس بچے سے اصل رس کشید کرکے ایک فارمی قسم کا انسان بنا دیتے ہیں۔ جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے۔ یہ احماقانہ تبصرہ ہے کہ مدرسے والوں کا ذہن محدود ہوتا ہے۔ ان کی سوچ میں وسعت نہیں ہوتی۔ اسکول والوں کاذہن وسیع ہوتا ہے، بالکل غلط ہے۔ اسکول والے بے چاروں کا اپنا ذہن کوئی ہے ہی نہیں۔ ذہن اپنا کسی مفکر، محقق کا نہیں، بلکہ جو کسی فلم ساز کا ذہن ہے۔ وہ ان کا ذہن ہوتا ہے۔ اپنی سوچ ختم ہوجاتی ہے۔ ہم چونکہ کتاب وسنت کے منبع سے ہدایت حاصل کررہے ہوتے ہیں۔

اس لیے ہماری اپنی سوچ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کائنات میں فطری، شرعی اور حقیقی سوچ ہے، وہ ہمارے اندر پائی جاتی ہے۔ پھر ہم اپنے بڑوں کی نظر سے دنیا کو پرکھتے ہیں۔ ہمیں اتنی بڑی نعمت مل جاتی ہے کہ اول مشفق اساتذہ مل جاتے ہیں جو ہمارے والدین سے لیتے کچھ نہیں اور دیتے سب کچھ ہیںاور اسکولوں میں لیتے سب کچھ ہیں اور دیتے اتنا ہیں جتنا ان کی مجبوری ہو۔ زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مدرسے میں پڑھنے والا ’’شَاکِرًا لِأنْعُمِہٖ‘‘ اللہ کی نعمتوں کا شکر کرنے والا ہوتا ہے۔ ’’وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ ‘‘ وہ یک رنگاہوتا ہے۔ رنگ برنگا نہیں ہوتا۔ یکجائی ہوتا ہے، ہرجائی نہیں ہوتا۔ اس پر توحیدِحقیقی کا رنگ چڑھ چکا ہوتا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سعادت نصیب کردے۔ آپ کے جو بڑے موجود ہیں ان کا رنگ اپنے اوپر چڑھانے کا مزاج انسان کا بن جائے۔ پھربقیہ چیزیں وہ ایک ہی ہلے میں جس ماحول میں آپ جائیں گے اور جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایک نظر ڈالنے سے آجاتی ہے، تھوڑی سی محنت سے آجاتی ہے۔ اول اگر انسان نے اپنی علمی استعداد پرمحنت کی ہوئی ہو۔ دوسرے نمبر پر اپنے آپ کوبے توفیقانہ کیا ہو۔ بے ادبی سے، اپنے نظام کو ہلکا سمجھنے، اپنے بڑوں کا ادب نہ کرنے سے انسان بے توفیق سا ہوجاتا ہے اور جس سلسلے میں چلرہا ہے، مثلاً: طالب علمی کاسلسلہ، دعوت وتبلیغ کا سلسلہ، جہاد وقتال کا سلسلہ، تصوف وتزکیہ کا سلسلہ، یعنی جو بھی ہمارے سلسلے چل رہے ہیں ان کو ہلکا سمجھنے کی وجہ سے بے توفیق نہ ہوچکا ہو۔ان صفات کو حاصل کرنے کے بعد انسان جب مدرسے سے نکلتا ہے، جتنا علم یہاں ہے اور جتنی دعائیں یہاں ہیں، ان کو لے کر جب آدمی نکلتا ہے تو اللہ کی مدد دیکھتا ہے۔ ’’اِجْتَبٰہُ وَھَدَاہٗ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔‘‘ کا منظر دیکھتا ہے۔
 
Top