حضرت مخدوم شیخ علی اوباز درحمۃ اللہ علیہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت مخدوم شیخ علی اوباز درحمۃ اللہ علیہ​
آپ کی ولادت افغانستان میں بمقام ہرات ہو ئی ۔ابھی آپ کمسن ہی تھے کہ اپنے والد محترم شیخ خیر الدین دریا نثار کے ہمراہ ہندوستان ہجرت فرمائی بچپن ہی سے والد محترم کے زیرِ سایہ تعلیم حاصل کرتے رہے اور بہت جلد تمام علوم ظاھری وباطنی پر عبور حاصل کیا ۔ حضرت مخدوم خیر الدینؒ کے دست حق پرست پر بیعت ہو ئے اور خر قہ خلافت وولایت حاصل کیا ۔ اور صوفیانہ اصطلاح تصوف میں مخدوم کے درجہ پر فائز ہو ئے ۔اُ س وقت کے صوفیاء اور علماٗ میں آپ کا بڑا نام ہوا ۔اور دور دور سے لوگ آپ سے علوم ظاہری وباطنی حاصل کر نے کے لئے آتے تھے اور فیضیاب ہو تے تھے ۔
اپنے والد محترم شیخ خیر الدین انصاریؒ کے وصال کے بعد آپ نے سدھور میں امہٹ تا لاب کے پاس سے رہائش ترک کردی اور قصبہ سدھور کی مشرقی جانب سکونت اختیار کی ۔ یہ جگہ اب محلہ انصاریان کے نام سے موسوم ہے ۔آپ تو کل ، قناعت اور ریاضت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ۔آپ نے اپنے والد محترم کی طرح تبلیغ دین اور درس وتدریس کو اپنا شعا ر بنا یا ْآپ نے اس نئی جگہ پر ایک مسجد ، مدرسہ اور خانقاہ تعمیر فر مائی ۔ مدرسہ کسی نہ کسی صورت میں اب بھی مو جود ہے ۔ خا ندان میں موجودہ دور میں آکر ولایت وبزرگی کا سلسلہ قریب قریب ختم ہو رہا ہے ۔اس لئے لنگڑ اور خانقاہ کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔
کرامات: ۱۔حضرت علی اوبار ایک بار بارہ بنکی ضلع کے قصبہ میلا رائے گنج تشریف لے لئے ۔ وہاں لوگوں نے از راہِ مذاق ایک شخص جو کہ زندہ تھا مثل جنازہ کے تیار کیا اور حضرت کے سامنے لائے کہ نماز جنازہ پڑھ دیں ۔ حضرت نے کشف باطنی سے معلوم کر لیا کہ یہ جنازہ نہیں ہے اس لئے نماز پڑھنے سے انکار کیا لیکن شر پسندوں نے بے حد اسرار کیا جس پر آپ کو بہت نا گوارہوا اور آپ نے فر ما یا نماز پڑھ دوں گا لیکن نقصان کے ذمہ دار تم لو گ ہو گے ۔ شر پسندوں نے سوچا تھا کہ جب آپ نماز پڑھانا شروع کر یں گے تو وہ آدمی اٹھ کر چل دے گا اور ہم لوگ آپ کا مزاق اڑایئں گے ۔ مخدوم علی اوباز نے نا اہلوں کے اسرا پر مجبور ہو کر نماز جنازہ ادا فرمائی ۔ وہ شخص آپ کی کرامات با طنی سے انتقال کر گیا ۔ یہ دیکھ کر لوگ عذر دار ہوئے اور اس کی زندگی کے لئے خوشامد کر نے لگے آپ نے فر مایا کہ اب تیر کمان سے نکل چکا ہے اب مجھے کو ئی اختیار نہیں ہے یہ کہہ کر اہالیان قصبہ سے مکدر ہو کر آپ سدھور واپس آگئے ۔
۲۔ ایک دن آپ وضو فر ما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ہیضہ کی وباء سدھور کی جانب آرہی ہے ۔باکرامات باطنی جوش وجذبہ میں آکر وضو کا پانی ہا تھ میں لے اچھالا اور فر مایا بعوض سدھور تم کو میلا رائے گنج دیا گیا ۔ کہتے ہیں کہ میلا رائے گنج اُس وقت بڑ ا آباد قصبہ تھا بہت سے امراء وکواس وہاں آباد تھے ۔آپ کے حکم کے بموجب فورا وباء سدھور سے میلا رائے گنج پہو نچ گئی اور ہزاروں آدمی اس وباء سے جاں بحق ہو ئے اور موضع ویران ہو گیا ۔اس واقعہ کے بعد جناب سر کار دوعالم ﷺ کے در بارسےاوبازدی کے خطاب سے سر فراز فر مایا ۔
آپ بھی اچھا لذید کھانا نہ کھاتے تھے آپ کی غذا گیہوں کا آتا پانی ملا ہوا ہوتا تھا ۔
وفات :آپ نے بتاریخ ۲۷ ربیع الثانی وفات پا ئی ۔ آپ کا مزار محلہ انصاری میں ہر خاص وعام کی زیارت گاہ ہے ۔
آپ کے دو بیٹے تھے ۔ ایک شیخ شیخ سعدیؒ جو کمسنی میں انتقال کر گئے ۔ان کا مزار مخدوم شیخ علی اوبازد کے مزار سے متصل ہے ۔ آپ کے دوسرے بیٹے مخدوم علی خواجگی کٹہ نواز تھے جو آپ کے وصال کے بعد آپ کے خلیفہ اور جانشین ہو ئے ۔
 
Last edited:
Top