حضرت نوح علیہ السلام

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
حضرت نوح علیہ السلام

آدم علیہ السلام کے وفات پاجانے کے تقریباً ایک ہزار سال بعد جبکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید سے نا آشنا ہو گئے تھے۔ حقیقی معبود کی جگہ ان کے خود ساختہ معبودوں نے لے لی تو اللہ رب العزت نے ان کی رشد و ہدایت کے لیے نوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔
اصل نام نوح
نوح علیہ السلام کا اصل نام شاکر، سَکَن یا عبد الغفار تھا۔ آپ کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔(معارف القرآن )
آپ کا نسب آٹھویں پشت میں آدم علیہ السلام سے جا کر ملتا ہے۔ آپ کا وطن عراق اور موصل کے شمال میں آرمینیہ کی سرحد پر واقع ہے۔ آدم علیہ السلام کے بعد آپ پہلے نبی تھے کہ جن کو رسالت سے نوازا گیا اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی۔
نبی اور رسول
شریعت اسلامیہ میں نبی اس ہستی کو کہتے ہیں جسے حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے چن لیا ہو اور وہ براہ راست اللہ سے ہم کلام ہوتی ہو۔ رسول اس نبی کو کہا جاتا ہے جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے نئی شریعت اور کتاب بھیجی گئی ہو۔ یاد رہے! کہ ہر رسول کا نبی ہونا ضروری ہے مگر ہر نبی کا رسول ہونا ضروری نہیں۔
نبی اور رسول کی یہ تقسیم ہم انسانوں کو سمجھانے کے لیے ہے ورنہ جو فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کر آتا ہے اس کو رسول کہہ دینا اس کے منافی نہیں ہے۔
توحید کی دعوت
حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت سے قبل قوم خدا کی توحید یعنی ہدایت کے رستے سے ہٹ چکی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی بجائے خود ساختہ بت معبود، حاجت روا اور مشکلات پڑنے پر مشکل کشا سمجھے جانے لگے۔ غیر اللہ کی پرستش ان کا شعار تھا۔ اس زمانے میں پانچ بزرگ جو اللہ کی توحید کے پرستار تھے جن کے نام یہ ہیں: وَدْ، سواع، یغوث، یعوق، نسر، جب یہ فوت ہوئے تو لوگوں نے ان کی قبروں پر نشان کھڑے کر دیئے۔ پھر آستانے بنا دیئے جب ان مشرکوں کی نسل بھی ختم ہوگئی تو نئے آنے واے لوگوں نے ان اہل قبور کو مشکل کشا اور حاجت روا یقین کرتے ہوئے ان سے مرادیں مانگنی شروع کردیں۔ اور شرک کی دلدل میں دھنستے ہی چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان لوگوں کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا۔ آپ کمرکس کر میدان میں آئے اور مشرکوں کو سمجھانا شروع کیا۔ نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں کئی جگہ پر آیا ہے بلکہ ایک مکمل سورت (سورت نوح ) آپ کے نام سے منسوب بھی ہے۔ اسی سورت میں ذکر ہے کہ آپ دن رات مشرکوں کو شرک سے باز آجانے اور ایک اللہ کے آگے جھکنے کی دعوت میں ایک کر دیئے۔ ابلیس بھی اپنے لائو لشکر سمیت تو پہلے ہی موجود تھا نے آپ کی تبلیغ سے ان لوگوں کو دور رکھنے میں توانائیاں صرف کر دیں۔ نوح علیہ السلام جب مشرکوں کو وعظ فرماتے تو وہ لوگ اپنے آپ کو کپڑوں میں لپیٹ لیتے۔ کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے مگر آپ اللہ کی توحید سنانے سے باز نہ آئے حتی کہ مشرک انگلیوں پر کپڑے لپیٹ کر کانوں میں ٹھونس لیتے۔ نوح علیہ السلام صدیوں تک لوگوں کو سمجھایا ۔ مشرک آپ کی تکذیب کرتے رہے۔
رب العالمین نے قوم نوح پر بارش روک لی۔ ان کی عورتوں کو بانجھ کر دیا۔ مویشی ہلاک ہو گئے، اب نوح علیہ السلام نے قوم کو استغفار کا حکم دیا تاکہ مشکلات ختم ہوں، سورت نوح کی آیت نمبر 10اس پر شاہد ہے سرکش قوم اپنے کفر و شرک پر اڑی رہی۔ نوح علیہ السلام نے انتہائی کوشش کی کہ بد بخت قوم سمجھ جائے اور رحمت الٰہی کی آغوش میں آجائے مگر قوم نے نہ مانابغض و عناد میں ڈوبی رہی۔ آپ کو ہر طرح سے ستایا گیا۔ قوم کے سرداروں نے عوام سے صاف صاف کہہ دیا کہ تم ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر جیسے بتوں کی پرستش سے پیچھے نہ ہٹنا۔
المختصر جب نوح علیہ السلام قوم کو نو سو پچاس سال تک دن رات سمجھانے کے بعد مایوس ہو گئے۔ دعوت تبلیغ کا ان پر کوئی اثر نہ دیکھا، اللہ تعالیٰ نے بھی وحی کی کہ جنہوں نے اہمان لانا تھا لا چکے اب مزید کوئی ایمان لانے والا نہیں اور آپ ان کی حرکات پر غم نہ کریں۔ اب اللہ تعالیٰ کے اس اولو العزم پیغمبر نے رب کے حضور دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے۔۔۔۔ سورت نوح آیت نمبر 20.27۔۔۔۔۔۔اے اللہ! کافروں میں سے کسی کو بھی زمین پر نہ چھوڑ اگر تو ان کو یونہی چھوڑ دے گا تو یہ بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل بھی ان ہی کی طرح نا فرمان ہو گی۔
سفینۂ نوح
رب العالمین نے نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی یہ بھی فرمایا کہ لکڑی کی ایک کشتی تیار کریں۔ آپ نے ایک کھلے میدان میں جا کر جہاں پر دور دور تک کوئی سمندر یا دریانہ تھا کشتی تیار کرنی شروع کی تو کافر لوگ ادھر سے گذرتے ہوئے آپ کا ہنسی مذاق اڑاتے کہ جب ہم غرق ہونے لگیں گے تب تو اور تیرے پیرو اس کشتی میں محفوظ رہیں گے یہ تو کیسا احمقانہ خیال ہے، نوح علیہ السلام حقیقت حال کو تو جانتے تھے کیونکہ رب العزت کے اشارے پر سب کچھ ہو رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سورت ھود آیت نمبر 37۔۔۔۔۔اے نوح! تو ہماری حفاظت میں ہماری وحی کے مطابق کشی تیار کرتے رہو آپ ان کے متعلق کچھ نہ کہنا یہ بلا شبہ غرق ہونے والے ہیں۔
آخر کار سفینہ نوح تیار ہو گیا۔ لکھا ہے کہ کشتی در اصل تین منزلہ جہاز تھا جس کی لمبائی تین سو گز، چوڑائی پچاس گز اور اونچائی تیس گز تھی۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا کہ کشتی میں تمام مومنوں اور تمام جانداروں میں سے ہر ایک کا ایک ایک جوڑا بھی سوار کر لو جب وحی الٰہی کے مطابق سب لوگ اورجانور سوار ہو چکے تو آسمان سے پانی برسنا اور زمین سے چشمے ابلنا شروع ہو گئے۔ کشتی چھ ماہ طوفان میں چلتی رہی۔ بیت اللہ پر پہنچی تو سات مرتبہ طواف کیا۔ یاد رہے! اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو پانی میں غرق ہونے سے بچا لیا تھا۔ طوفان کا پانی اونچے پہاڑ سے چالیس گز بلند تھا۔ الغرض تمام منکرین غرق ہو گئے۔
پسرِ نوح
نوح علیہ السلام نے طوفانی عذاب کے وقت اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار کرنا چاہا مگر وہ سوار نہ ہوا۔ پانی کی ایک موج اسے بہا کر لے گئی۔ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی کہ اے اللہ! وہ میرے اہل سے تھا اور تو نے تو میرے اہل کو بچانے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔۔۔ سورت ھود آیت نمبر45۔۔۔ فرمایا یہ لڑکا تیرے اہل سے نہ تھا کیونکہ بد کردار تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو آئندہ کے لیے تنبیہ فرمائی کہ آئندہ ایسا سوال نہ کرنا جس کے بارے علم نہ ہو۔
کوہِ جودی
جب حکمِ الٰہی سے طوفان تھم گیا تو یہ کشتی کوہِ جودی پر ٹھہر گئی۔ یہ پہاڑی سلسلہ فرات اور دجلہ کے درمیان واقع ہے۔ پانی جب خشک ہو گیا تو سواران کشتی نے امن وسلامتی سے خدا کی زمین پرقدم رکھا۔اسی بنا پر نوح علیہ السلام کا لقب ابو البشر ثانی یا آدم ثانی مشہور ہوا۔ کیونکہ روئے زمین پر زندہ کوئی ذی روح نہ بچا بجز ان افراد اور جانوروں کے جو کشتی میں سوار تھے۔
نوح علیہ السلام نے ایک ہزار سال کی عمر پائی۔ چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی نو سو پچاس سال پیغمبرانہ جد و جہد میں مصروف رہے۔ طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے۔
علمی سوالات
طوفان نوح عام تھا یا خاص؟طوفان نوح کے متعلق دو رائے ہیں۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ یہ طوفان تمام کرۂ ارض پر نہیںآیا تھا بلکہ اس خطہ پر محدود تھا جہاں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم آباد تھی۔ اس زمانے میں انسانی آبادی بہت ہی محدود تھی۔ آدم علیہ السلام کی اولاد در اولاد کا سلسلہ اس سے زیادہ وسیع نہ ہوا تھاجو کہ اس علاقہ میں آباد تھے۔ صرف وہی مستحق عذاب تھے۔
دوسرے طبقہ کے نزدیک یہ طوفان تمام کرۂ ارض پر حاوی تھا۔ یہ طبقہ بھی کہتا ہے کہ اس زمین پرایسے متعدد طوفان آئے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جزیرۂ جودی یا عراق عرب کی اس سر زمین کے علاوہ بلند پہاڑوں پر ایسے حیوانات کے ڈھانچے اور ہڈیاں بکثرت پائی گئیں ہیں جو صرف پانی میں زندہ رہ سکتی ہیں۔
خلاصۂ کلام
حضرت نوح علیہ السلام کی آٹھویں پشت سے تھے۔ آپ کا وطن دجلہ اور فرات کی درمیانی وادی تھا۔ آپ کے زمانہ میں جب شرک عام ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا۔ آپ نے صدیوں تک لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف مائل کیا مگر بجز چند آدمیوں کے کوئی ایمان نہ لایا۔ آخر آپ کی بد دعا کے نتیجے میں پانی کا ایک عظیم طوفان آیا جس میں سارے کافر غرق ہو گئے صرف ہی بچے جو کشتی میں سوار تھے۔ دنیا میں اس وقت جتنی آبادی تھی یا قیامت تک جو بھی اس دنیا میں پیدا ہو گا سب ان کی اولاد ہے اور ہو گی۔
 
Top