عربوں میں بت پرستی کے رواج کی ابتدا

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

عربوں میں بت پرستی کے رواج کی ابتدا

مورخ عبد الکریم شہرستانی اور ابن خلدون وغیرہ لکھتے ہیں کہ پہلے پہل جس نے کعبہ میں بنا کے ان کی رسم ڈالی (اور اس کے ساتھ عرب نے بھی اُسکی موافقت کی اور اسی طریقہ پر اسلام کے آنے تک باقی رہے ) عمر بن لحی بن حارثہ امرء القیس بن ثعلبی بن مازن بن ازو بن کہلان بن سبا کی اولاد میں سے ہے ( جوکہ حجاز کا بادشاہ تھا اور خزاعہ کی قوم اسی سے منسوب ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ خزاعہ کعب بن عمرو مذکور الصدر کی اولاد میں سے ہیں)

عمر و کے بت پرست ہو جانیکا یہ سبب تھا کہ جب یہ بلقا میں (یہ ملک شام میں ہے) گیا تو ایک قوم کو دیکھا کہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں ان سے سبب اس کا دریافت کیا ۔انہوں نے کہا کہ یہی ہمارے پرور دگا ر ہیں ہم نے انکی صورتِ علویہ کو جسم بشری میں بنالیا ہے ۔جب ان سے کسی کی مدد ما نگتے ہیں تو یہ مدد دیتے ہیں ،جب پانی مانگتے ہیں تو یہ ہمیں سیراب کرتے ہیں ۔اس نے یہ بات جو سنی تو بہت ہی بھلی معلوم ہو ئی اور ایک بت کی ان سے درخواست کی ۔انہوں نے ھُبل نامی ایک بت اس کو دے دیا ۔یہ اسے لئے ہو ئے مکہ میں آیا اور خانہ کعبہ کے چھت لے کر رکھ دیا ۔اس کے ساتھ اور بت ( جن کے نام اساف اور نا ئلہ تھے ) لایا تھا ان کو مقام زمزم پر رکھ دیا ۔اور عام جاہلوں کو اُن پتھروں کی پہچان مورتوں کی تعظیم وتکریم کے کے واسطے بلایا ۔سب نے قبول کیا ۔ یہ واقعہ ۴۰۰؁ برس قبل اسلام سے سابور بادشاہ فارس کے زمانہ میں ہوا ہے ۔

عمرو کی حکایات میں لکھا ہے کہ اسی نے "بحیرہ" کا نام بحیرہ رکھا اور "سائبہ" کا سائبہ اور "حامی"کا حامی ۔اور قیامت کا منکر تھا جس کی بابت خود کہتا ہے " حیاۃ ثم موت ثم حشر کلام خرافۃ یا ام عمر " زندگی سے مرنا مرکے پھر زندہ ہو نا اے ام عمر حماقت اور خرافت کا کلام ہے ( اپنی ماں سے مخاطب ہو کے کہتا ہے )

بعض مورخین کا یہ خیال ہے اساف ( ابن عمر مذکور) اور نائلہ بنت سہل یہ دونوں کسی بد فعل کے مر تکب ہوئے ان کو خدائے تعالیٰ نے دو پتھروں کی صورت میں مسخ کر دیا جبکی عبادت قریش کر نے لگے ۔

بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یغوث اور یعوق اور نسر آدم علیہ السلامم کے بیٹوں کے نام تھے یہ لوگ بڑے پر ہیز گار عابد وزاہد تھے جب یہ مر گئے تو حضرتِ شیطان تشرلف لائے اور لوگوں کو بہکا کے ان کی مورتیاں بنا کے مسجد میں رکھوا دیں اور پھر دوسرے حلہ سے ان مورتوں کی عبادت کر نے کی رائے دی ۔اور جاہلوں نےیہ بھی کرنا شروع کر دیا۔

اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ "وُدْ"مرد کی صورت میں بنایا گیا تھا اور "سواع" عورت کی صورت میں تھا اور "یغوث"شیر کی صورت پر اور "یعوق گھوڑے کی صورت پر۔ گھوڑے کی صورت پر"نسر "گد کی صورت پر ۔ یہ تمام بت اور ان کی مثل دس ،بیس اور بھی عرب کے معبود تھے ۔ مگر قبیلے قبیلے میں بٹے ہوئے تھے ۔بعض قبیلے کسی بت کی پرستش کرتے بعض کسی اور کے ۔

طعم اور حدیس تو "کثریٰ" کی عبادت کرتے اور کلب " وُدْ" کی ( بمقام دومۃ الجندل ) بنی تمیم " تیم" کی ۔ ہذیل "سواع" کی ۔ مذحج اور یمن کے قبائل " یغوث" کی ۔ذی الکلاع "نسر" کی ( مقام حمیر میں ) ہمدان " یعوق" کی ۔ بنی ثقیف " لات" کی شہر طائف میں ( اس بت کے دربان بنی مغیث تھے جو کہ قبیلہ ثقیف میں سے تھے ) قریش اور بنی کنانہ ظ عزیٰ" کی ۔(اس کے دربان بنو شیبہ تھے ) اوس اور خزرج "منات وغیرہ کی ۔بنی ہوزان "مہار کی بکر وتغلب "اوال " کی بنی بکر بن وائل "محرق" کی بنی ملکان بن کنانہ " سعد " کی بنی عنزہ "سعیر" کی ۔خولان "عمیانس" کی ( خولان اپنے چو پایوں اور ذراعتوں اور روپئے پیسوں سے اپنے بت عمیانس" کا بھی حصہ نکالتے تھے ) بنی طے " رضا" کی ۔ قبیلہ دوس " ذو الکفلین" کی ۔

الشبیہی نے لکھا ہے کہ عرب کے ہر گھر میں ایک بت رکھا ہوتا تھا جس کی وہ عبادت کیا کرتے تھے ۔جب مالکانِ مکان کہیں جانے لگتا تو سوار ہو نے کے وقت اپنا جسم اس سے مس کر لیتا اور جب سفر سے واپس آتا تو قبل اس کے کہ اپنے اہل وعیال میں داخل ہو اس کے پاس حاضر ہو تا اور رسمِ تعظیم ادا کرتا ۔( آئینہ عرب)



 
Top