مولانا محمد اعزاز علی امروہیؒ صاحبِ نفحۃ العرب کی اردو شاعری

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مولانا محمد اعزاز علی امروہیؒ صاحبِ نفحۃ العرب کی اردو شاعری
تحریر:امن جنید نسیمی​
امروہہ قدیم، سے ہی مردم خیز زمین ہے بڑے بڑے گو ہر آبدار اس خاکِ تابدار سے ہو یدا ہوئے انہیں عظیم شخصیات میں سے ایک عظیم شخصیت حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ کی ہے۔ آپ کے نام کی تاثیر نے آپ کے اور آپ کی شخصیت کو سراپا اعزاز بنا دیا ۔زمانے نے آپ کے نام نامی کے اعزاز سے چمک لے کر آپ کے القاب تراشے اور انھیں جلا بخشی۔ صاحب ظفر المحصلین مولانا حنیف گنگوہی دامت بر کاتہم آپ کے احوال میں لکھتے ہیں "نام محمد اعزاز علی اور لقب اعزاز العلماء ہے (۱۳۰) مولانا مفتی نسیم احمد فریدی نے " استاذ العلماء اعزاز الملت والدین شیخ الادب والفقہ" تحریر فر ماتے ہیں(مقالات فریدی ۳۳۶) بیشک آپ اپنے علم وفضل کی وجہ سے اعزاز العلماء اور اعزاز الملت تھے تو یقینا اپنے وطن کیلئے وجہ صد اعزاز ہیں ۔اس لئے احقر کے دل میں اس جذبے نے انگڑائی لی کہ آپ کو اعزازِ امروہہ لکھوں ۔آپ کی سکونت اگر چہ امروہہ میں نہیں رہی لیکن آپ کو اپنے وطن سے بڑی انسیت تھی اور اپنے آپ کو اسی کی طرف منسوب کرتے تھے۔ مولانا فر یدی ؒ کو آپ سے شرف تلمذ حاصل تھا وہ لکھتے ہیں ۔" امروہہ سے کتنا تعلق تھا یہ نہ پو چھئے بدایوں میں پیدا ہوئے تعلیم میرٹھ کے شاہجہاں پور اور دیوبند میں پائی امروہہ میں ذاتی مکان تک باقی نہ تھا لیکن آبائی وبن ہو نے کی وجہ سے نسبت امروہہ ہی طرف کرتے رہے" (ایضاً) آپ نے مولانا فریدیؒ کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے " امروہہ کوئی معمولی جگہ نہیں ہے" (ایضاً ۲۴۶) مؤرخ امروہہ محمود احمد عباسی آپ کے ابتدائی احوال میں لکھتے ہیں ۔حافظ محمد اعزاز علی بن منشی محمد مزاج علی بن حسن علی بن خیر اللہ بن مبارک علی ،قوم کنبوہ ،آباء واجداد امروہہ کے قدیم با شندے ،نواب وقار الملک کے خاندان سے قرابتِ قریبہ رکھتے تھے ۔( تذکرۃ الکرام ۳۰۱) آپ کے والد کا قیام بسلسلۂ ملازمت بدایوں میں تھا وہیں یکم محرم ۱۳۰۰ ھ کو آپ کی ولادت با سعادت ہو ئی ۔عباسی صاحب کے الفاظ میں " چودہویں صدی ہجری کی پہلی تاریخ کو غروب شمس کے بعد مولانا محمد اعزاز علی پیدا ہوئے ۔(ایضاً) کسے خبر تھی کہ چودہویں صدی ہجری کی پہلی تاریخ کو غروب شمس کے بعد پیدا ہو نے والا یہ بچہ آسمانِ علم وادب پر چو دہویں کے چاند کی طرح چمکے گا۔آپ نے گیارہ سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کیا ۔ شاہجہاں پور کے مدرسہ عین العلم میں ابتدائی عربی وفارسی درسیات کی تکمیل کی اس زمانے میں یہاں مفتی کفایت اللہ صاحب مفتی اعظم ہند بھی مدرس تھے کچھ عرصہ میرٹھ میں بھی تعلیم حاصل کی فراغت دار العلوم دیوبند سے کی ۔فراغت کے بعد مختلف مقامات پر تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد مستقل اپنے مافر علم دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہو گئے ۔تا عمر یہیں درس وتدریس میں مشغول رہے دارا لعلوم کے نا ئب مہتمم اور صدر مفتی کے منصب پر بھی فا ئز رہے اور یہیں ۱۳۷۴ میں وفات پائی اور خطۂ صالحین میں دفن ہوئے۔ مولانا اعزاز علی ؒ کو عربی زبان وادب اور علم فقہ پر کامل عبور حاصل تھا اسی عبور کامل کی وجہ سے اہل علم نے آپ کو شیخ الادب والفقہ کے خطاب سے نوازاتھا ۔ مولانا حنیف گنگوہی صاحب لکھتے ہیں " حضرت مولانا نے ادب کی کتابوں کے پڑھانے میں بیاِ ن لغت، ترتیب نحوی، علم ِ صرف علمِ اشتقاق ، علم ِ معانی ، علمِ بیان کا ایسا کامیاب اضافہ فر مایا جو پہلے کسی کے درس میں نہ تھا لوگ آپ کو شیخ الادب کہتے ہیں لیکن آپ بنا بر مناسبتِ طبعی فن فقہ پر جس حد تک قابو یافتہ تھے کہ عقل حیران رہ جاتی تھی ،ہدایہ آخرین جو علم فقہ میں چوٹی کی کتاب ہے اس کا درس تقریباً چالیس سال تک نہایت کا میابی کے ساتھ اس طرح دیتے رہے کہ مسئلہ کو مسئلہ کی طرح سلجھا کر جملہ اشکالات رفع کرتے ہو ئے فن کی گہری باتیں بھی ساتھ لے کر اسی طرح چلتے تھے" (ظفر المحصلین ۳۰۴) ا سی طرح آپ کو حدیث پڑھانے پر بھی عبور کلی حاصل تھا ۔ مولانا موصوف لکھتے ہیں "ابو داؤد کے درس میں روایت ودرایت کے اعتبار سے حدیث کا کوئی گو شہ تشنہ نہیں رہتا تھا سند کے جھگڑے ابو داؤد کی اپنی تحقیق اور دیگر لا ینحل عقدے اس طرح حل ہو تے تھے کہ عام طلبہ ان کو سہل اور عام فہم سمجھنے لگتے تھے"۔درس وتدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف کا ذوق بھی کمال درجے کا تھا آپ کی تالیف " نفحۃ العرب" عربی ادب میں ممتاز درجہ رکھتی ہے اور درس نظامی میں شامل ہو کر بر صغیر کے تمام مدارس اسلامیہ میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ درسی کتب پر آپ نے بڑے معرکۃ الآ را حواشی تحریر کئے ہیں جن میں فقہ میں نور الایضاح ،قدوری، کنز الدقائق ،ادب میں مفیدالطالبین ، دیوان متنبی ،دیوان حماسہ ،تلخیص المفتاح، نفحۃ العرب وغیرہ پر شاندار آپ نے حواشی تحریر کئے ہیں ، نیز ملا علی قاری کی مشہور تا لیف " شرح نقایہ " پر بھی آپ نے حاشیہ لکھا ہے ۔ آپ کی علمی خدمات کے اعتراف میں نواب حیدرآباد نے تا حیات پچاس روپئے ماہوار آپ کا وظیفہ مقرر کیا تھا۔ عباس ی لکھتے ہیں :اعلیٰ حضرت خسرو دکن نے اس علمی خدمت پر ۴ ذی قعدہ ۱۳۴۳ھ سے پچاس روپئے ما ہانہ کا وظیفہ مولویہ صاحب کے نام تا حیات مقرر فر مایا۔ ( تذکرۃ الکرام ۳۵۳)

مولانا انطڑ شاہ کشمیریؒ نے آپ کی سوانح میں " تذکرہ الا عزاز " لکھی تھی ۔ عربی زبان وادب کے مذاق اور اسلامی علوم وفنون کا مزاج اور ان میں انہماک رکھتے ہو ئے آپ نے اپنی مادری زبان اردو کو فر اموش نہیں کیا اور اپنی علمی ( تدریسی وتالیفی ) مصروفیات کے با وجود گا ہے گاہے ریختے میں اشعار کہے جو یقیناً اردو زبان کیلئے باعثِ صد فخر ونا ز ہے ۔ صاحب ِ تذکر ۃ المصنفین لکھتے ہیں : آپ اردو عربی دونوں زبانوں شاعری کا بہت پا کیزہ ذوق رکھتے ہیں ۔ (۱۳۱) لیکن اہل اردو شاید آپ کے اس ذوق سے با خبر نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شعراء امروہہ کے مؤلف مصباح صدیقی نے آپ کا ذکر نہیں کیا جبکہ انہوں نے بعض ان غیر معروف حضرات کا ذکر کیا ہے جن کا ایک ہی شعر دستیاب ہے۔ کراچی سے شائع ہو نے والے نقوش نقوی کے تذکرہ شعراء امروہہ میں بھی آپ کا ذکر نہیں ہے ۔ ظفر المحصلین سےہم یہاں آپ کے چیدہ چیدہ اشعار نقل کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو کہ ایک عربی زبان وادب میں ڈوبی ہو ئی ذی علم ہستی اردو غزل کے مزاج کس طر پا سدار کرتی ہے۔

مانا کہ تا کنا مرا فسق وفجور تھا*زلفوں کا دام تم کو بچھانا ضرورتھا
افسوس ہے کہ تو، کے بھی قابل نہیں رہا *جو آپ کی زبان پہ کل تک حضور تھا
کس نے کہا کہ ودادیٔ غربت میں تھے جدا*دل سے بہت قریب تھا گو جسم دورتھا
اس دل میں حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا * جو دل کہ تم کو دیکھ کے وقفِ سرور تھا
ہلچل زمیں پہ مث گئی افلاک ہل گئے *یا رب کسی کی آہ تھی یا نفخ صورتھا
عفو اور صلح سے نہ لیا آپ نے بھی کام *مانا کہ عشق آپ سے میرا قصور تھا
تیری نشیلی آنکھ نے بے خود بنا دیا * اعزاز ورنہ صاحبِ عقل وشعور تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

کچھ ہوش ہے اے ساقیٔ فرزانہ کسی کا*لبریز ہوا جا تا ہے پیمانہ کسی کا
ہم آپ سے جاتے رہے سنتے ہو ئے جس کو*افسوس تھا الٰہی کہ وہ افسانہ کسی کا
اعزازؔ ترا حال سنادے کوئی اس کو *ہم دیکھتے ہیں حوصلہ ایسا نہ کسی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل ہی نہیں وہ دل کہ تری، جس میں جا نہیں *سر ہی نہیں وہ جس میں کہ سودا ترا نہیں
اے غیرت مسیح! تو اپنے مریض کو*جا دیکھ کہ اس میں کچھ اب ہے بھی یا نہیں
حسنِ بیان میں نہیں اعزازؔ کا نظیر*آصف سا ملک میں کوئی فرمانروا نہیں ۔​
 

اکبرکبیر

وفقہ اللہ
رکن
اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے شیخ الادب اعزاز الملة والدین مولانا اعزاز علی امروہی پر
رحمه اللہ تعالی رحمة واسعه

 
Top