تقلید کی تعریف اور غیر مقلدوں کی شرارت

شرر

وفقہ اللہ
رکن افکارِ قاسمی
تقلید کی تعریف اور غیر مقلدوں کی شرارت​
کھسیانی بلّی کھمبا نو چے کے مصداق علمائے غیر مقلدین نفس مسئلہ میں زیادہ دیر بحث نہیں کر سکتے تو اپنی جان بچانے کے لئے اِدھر اُدھر کی بکواس شروع کر دیتے ہیں ۔
ان کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مسئلہ شروع کریں گے ۔پھر اس کا کوئی غلط نتیجہ نکالیں گے پھر اصل مسئلہ پر نہیں بلکہ اپنے نکالے ہو ئے اس غلط نتیجہ پر قرآن وحدیث سنانا شروع کر دیں گے ۔
علماء سمجھتے ہیں کہ یہ موضوع سے بھٹک رہیں ہیں۔ اور عوام قرآن وحدیث دیکھ اور سن کر ڈر جاتے ہیں لیکن خود علمائے غیر مقلدین اپنی تحریف پر خدا سے ذرا بھی نہیں ڈرتے۔
تقلید کے مسئلہ میں جب جان گلے میں اٹکتی ہے تو تقلید کی تعریف میں کیڑیے نکالنے لگتے ہیں ۔
زیرِ نظر مضمون میں غیر مقلدوں کی اسی شرارت کا پول کھولا گیا ہے ۔چنانچہ غیر مقلد وں کا طر یقہ کاریہ ہے کہ و ہ تقلید کی تعر یف کر تے
(یا لکھتے )ہیں تو اس میں مقلد کے جاہل ہو نے کی بات ضر ور کر تے ہیں ۔ان کی رگ شر ارت کو اسی وقت سکو ن ملتا ہے جب و ہ مقلد و ں کو جانو ر ۔جاہل ۔اند ھا ۔نابینا ۔نادان ۔بے علم اور تقلید کو جہالت پٹہ ۔اند ھا پا (صحیح لفظ اند ھا پن ہے مگر یہ غیر مقلد ہیں جو چاہے لکھ اور کہہ سکتے ہیں )اور نابینگی کہہ لیتے ہیں ۔
کفر سازکارخانے ان کے ہیں تقلید کو کفر و شر ک وضلالت و گمر اہی او ر مقلد و ں کو ضال گمر اہ و مضل (گمر اہ کر نے والا)اور کافر و مشر ک کہتے ہو ئے ان کے علماء و عوام کی زبانیں نہیں سو کھتیں ۔
ا ن کے دل میں ایمان ہو تا ۔خد اکاخو ف ہو تا۔قبر کے عذ اب کااور قیامت کے دن حساب وکتاب کاخو ف ہو تا رسو ل خد ااور اصحاب رسو ل صلی اللہ علیہ و سلم کا ذرابھی ادب واحتر ام ہو تا تووہ سید ھے تقلید کو بر انہ کہتے ۔کیو نکہ صحابہ کر ام میں بھی بہت سے لو گ بڑے عالمو ں کی تقلید کر تے تھے ۔غیر مقلد ین حقیقت میں نہ تقلید کر تے ہیں نہ اتباع کر تے ہیں ۔مگر بعض لو گ ان میں سے اتباع کر نے کے مد عی ہیں لہٰذ ا’’اتباع ‘‘ کی حقیقت قر آن و حد یث کی روشنی میں واضح کی جائے گی تقلید اور اتباع کے درمیان وہ فر ق کر تے ہیں ان کے مزعو مہ اور مو ہو مہ فرق کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا ۔تہذ یب و اخلاق ۔شر م و حیا اور دین وایمان کو کس کس طر ح انھو ں نے شر مند ہ کیا ہے ۔
قر آن کے ترجمہ و تفسیر میں جس قدربے ایمانی ان کے علماء کر تے ہیں اس کے بھی نمو نے آپ دیکھیں گے ۔مقلد علماء وائمہ کی کتابو ں میں تقلید کی تعر یفیں درج ہیں وہ ان کے غلط معنی ومطلب بیان کر تے ہیں ۔ان کا ٹھیک ٹھیک حساب لیا جائے گا ۔اللہ حسن تو فیق عطا کر ے۔
تقلید کی اصطلا حی تعر یف قر آن و حد یث میں نہیں ہے صحابہ کر ام اور تابعین سے بھی تقلید و اتباع کی تعریف منقو ل نہیں ۔جہاں تک ناچیز کو معلو م ہے کسی امام سے بھی اس کی تعر یف منقول نہیں ۔لہٰذ اتقلید کی ہر تعریف قابل قبول نہیں چاہے وہ کسی مقلد ہی نے کیو ں نہ کی ہو ؟
تقلید کی وہی تعر یف قابل قبو ل ہو گی جو تقلید کی غر ض و غایت کے مو افق و مطابق ہو مخالف نہ ہو
تقلید کی غر ض و غایت :۔قر آن و حد یث پر صحیح صحیح عمل کر نا اور جہاں تک ہو سکے قر آن و حد یث کا
حکم معلو م کر نے میں احتیا ط کر نا ۔اور اپنی رائے اور اپنے قیاس سے قر آن وحد یث کی تفسیر کر نے کی بجائے اسلاف کی تفسیر و تشریح حد یث پر عمل کر نا ۔اور کسی مدّعی (خود ساختہ مفسر و محد ث )کو اپنا امام نہ بنالے اس بار ے میں بہت زیادہ احتیاط اور اجتہاد کر نا ۔
حکیم الامت حضر ت تھا نو ی فرماتے ہیں ’’اصل دین قر آن وحد یث ہے اور تقلید سے یہی مقصود ہے کہ قر آن و حد یث پر سہولت و سلامتی سے عمل ہو (ص:۱۱۰ہد یہ اہل حد یث )
اہل حد یث کامطلب غیر مقلدین کے نزدیک:
ذراایک آیت اور ایک صحیح حدیث تو پیش کر یں جسے اہل حد یث نہ مانتے ہو ں ۔اہل حد یث کا معنی ہی قرآن وحد یث کاماننے والا ہے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل حدیث ہو او رقر آن وحد یث کونہ مانے اہل حد یث کاتو دعو یٰ ہی یہ ہے کہ قر آن و حد یث کو مانتے ہیں ۔کو ئی بتائے تو کہ ہم کو ن سی آیت اور کو ن سی صحیح حد یث کو نہیں مانتے ۔قر آن وحد یث کے سامنے ہر اہل حدیث کاسر جھکا ہو ا
ہے اور جھکا رہے گا (ص:۱۹مذ ہب حنفی کادین اسلام سے اختلاف )
چو نکہ ا غیر مقلدین عرف اہل حدیث ہر بات قر آن وحد یث سے کہنے اور سب آیتو ں اور سب
حد یثوں پر عمل کر نے کے دعوید ار ہیں ۔لہٰذ اہم کسی غیر مقلّد سلفی اثر ی وغیرہ کاقو ل بھی پیش کر یں گے تو اس کو قر آن وحدیث ہو نے کی بنا پر غیر مقلّد ین سر جھکا کر قبو ل کر یں گے ۔اور اپنی جماعت کے کسی فر د عالم وغیر عالم کی بات پر سر جھکا نے کی بجائے رد اور انکار کر یں گے تو سمجھا جائے گا کہ قرآن وحد یث کاانکار کیا ۔اورقر آن وحد یث کاانکار کر نے والا بدعتی فاسق وفاجر اور جہنمی ہو تاہے ۔غیر مقلد وں کادعو یٰ یہ ہے کہ چاروں امام خاص کر امام ابو حنیفہ ؒ اہل حد یث تھے(دیکھئے ’’حد یث خیر و شر ‘‘ ۔اور مذہب حنفی کادین اسلام سے اختلاف وغیر ہ)
شاہ ولی اللہ ؒ اُن کے فر زند شاہ عبد العزیز محد ث دہلو یؒ ۔شاہ اسماعیل شہیدؒ اور شاہ اسحاقؒ رحمہم اللہ وغیر ہ کو غیرمقلدین اپنا ہم مسلک وہم
مذ ہب مانتے ہیں یہ سب اہل حد یث ہیں ۔اورقر آن
وحد یث پر عمل کرنے والے ہیں ۔ان کی کسی بات کاانکار غیر مقلد وں کی طر ف سے حقیقت میں قر آن و حدیث کاانکار مانا جائے گا۔اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ چاروں امام غیر مقلد وں کے نزدیک اہل حد یث تھے شاہ ولی اللّٰہی خاند ان اہل حد یث ہے اور اہل حد یث ہر بات قر آنوحد یث سے کہتے ہیں لہٰذ اان بزرگوں کے مخالف قر آن وحدیث کے بھی منکر ہو ں گے اب آگے پڑ ھئے ۔
تقلید کے معنی:
مناظر اسلام حضرت مو لانامحمد امین صفدر او کاڑو ی نور اللہ مر قد ہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٗ تقلیدکے معنی لغت میں پیر و ی ہے ، اور لغت کے اعتبار سے تقلید ۔اتباع ۔اطاعت اور اقتد اء سب ہم معنی ہیں ۔تقلید کے لفظ کا مادہ ’’ قلادہ ‘‘ ہے یہ قلادہ جب انسان کے گلے میں ڈا لا جائے تو ’’ہار ‘‘ کہلا تا ہے اورجب جانو ر کے گلے میں ڈالاجائے تو ’’ پٹہ ‘‘کہلا تاہے ۔ہم (مقلد ین )چو نکہ انسان ہیں اس لئے انسانو ں والامعنی (ہار )بیا ن کر تے ہیں ۔جانو ر وں کو جانو ر وں والامعنی پسند ہے (تجلیا ت صفدر )
سو ال چو نکہ جو اب دینے والے کی بات ماننے اور اس پر عمل کر نے کے لئے ہو تا ہے۔اس لئے تقلیداور سو ال میں فرق نہیں جیسا کہ بعض غیر مقلد وں نے لاعلمی سے سمجھ رکھاہے (دیکھئے طر یق محمد ی)
قر آن میں قلائد کالفظ آیا ہے سو رہ مائد ہ میں ۔حر م میں قر بان ہو نے والے جانور وں کو پٹہ ڈالنے کاذکر ہے ۔یہ قلادۃکی جمع ہے ۔حد یث میں بھی یہ لفظ آیاہے حضرت امام بخاری (متو فی۲۵۶ھ ؁)
نے باب القلائد اور استعارۃ القلائد کے مستقل ابو اب قائم کئے ہیں جن میں عو رتو ں کے ہار پہننے اور ضرورت کے وقت ایک دوسر ی عورت سے ہار مانگنے کاتذ کرہ ہے۔(بخار ی ص ۲۷۳؍۲ص۲۷۴؍۲)
حد یث میں ہے حضرت عائشہ نے اِسْتَعَارَتْ مِنْ اَسْمَاءَ قِلَادَۃًالحد یث (ص:۱۶۰۰)
حضرت اسماء سے ہار مانگاتھا (اور پہنا تھا ) (ص:۴۸؍۱ ۵۳۲؍۱بخاری ص۱۶۰۰؍۱مسلم )
تقلید کے معنی جو لو گ ’’پٹہ ‘‘بتاتے ہیں وہ خصوصاً ازواج مطہر ات اور عمو ماً صحابہ و تابعین اور
اماموں کے باغی و مجرم ہیں مصباح اللغات ص ۷۶۴ میں ہے قلّدہ فی کذ ا۔ اس نے اسکی فلاں بات میں بغیر غور و فکر کے پیر وی کی یعنی تقلید کی اسی معنی میں تقلید کالفظ بو لاجاتاہے ۔
نو اب صد یق حسن خان بھو پالی فر ماتے ہیں۔ قَالَ الشَّافَعِیُّ فِیْ مَوَ اضِعٍ مِّنَ اْلحُجَجِ قُلْتُہُ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تَقْلِیْدًا لِّعَطَا ءٍ ۔(الجنۃ ) حضرت امام شافعی نے بہت سے مقامات میں کہاہے کہ میں نے حضرت عطا کی تقلید کی ہے ۔ (بہت سے مقامات کالفظ یادرکھیں ۔)
امام شافعی ؒ سے یہ بھی قو ل منقو ل ہے قُلْتُہُ تَقْلِیْدً الِّعُمَرَ میں نے حضرت عمرؓ کے قو ل کی تقلید کی۔
حافظ ابن قیم سے بھی اسی طر ح کے جملے منقو ل ہیں ۔مو لو ی محمد حسین بٹالو ی کے مضمو ن میں بھی
اس کا ذکر ہے انشاء اللہ آگے آئے گا۔
کتابوں میں لکھا ہے وَھٰذَااَ بُوْحَنِیْفَۃَ قَالَ فِی الْمَسَاءِلِ الْآبَاِر وَ لَیْسَ مَعَہُ اِلَّا تَقْلِیْدَمَّنْ تَقَدَّ مَہٗ مِنَ التَّابِعِیْنَ یعنی ابو حنیفہ ؒ نے کنویں کے پا نی کے مسائل میں یہ
فر مایا کہ ان کے پاس اپنے تابعین جو گزر گئے ،ان کی تقلید کے سو ااور کو ئی چارہ نہیں (انمو ل حد یث )
حضرات غیر مقلد ین جو قلادہ کے معنی ’’ پٹے ‘‘کے کر تے ہیں وہ آزاد ہیں جو چاہیں پسند فر مائیں نظر اپنی اپنی، پسند ا پنی اپنی ۔اس سے ایک بات او ر ثابت ہو تی ہے وہ یہ کہ مجتہد ین کیلئے بھی
دوسر وں کی تقلید جائز ہے ۔حضرت مو لانا تھانویؒ فر ماتے تھے کہ ہمار ے امام ابوحنیفہ خود غیر مقلد یعنی مجتہد تھے دوسر وں کے مقلد نہ تھے ۔لیکن خو د یہ امام صاحب کا قو ل ہے اور یہی معتمد ہے حضرت شاہ صاحب نے بھی اس قو ل کی تائید کی ہے حضرت امام ابو حنیفہ اپنے پیش رووں(اگلو ں)کے اجتہاد کاانکار کر کے خو د اجتہاد نہیں کر تے اس کو قبو ل کر کے نئے مسائل میں اجتہاد کر تے ہیں ۔
نو اب صاحب لکھتے ہیں ۔ فلا تجد احد امّن الا ئمۃ اِلّا و ھو مُقلد من ھو اعلم منہ فی بعض الاحکام (الجنۃص۴۸) تم حضرات ائمہ کر ام میں سے کسی ایک کو بھی نہیں پاؤ گے کہ وہ بعض مسائل میں اپنے کسی بڑ ے عالم کی تقلید نہ کرتے ہوں ۔یعنی ائمہ کر ام بھی حصوصا امام بننے سے پیشتر اپنے بڑ وں کی تقلید کر تے تھے۔ لہٰذ اتقلید کو جہالت او جانو ر وں کے گلے کاپٹہ کہنا گویا چھو ٹے بڑے سب مجتہد وں کی تو ہین کرتاہے ۔
سوا ل :۔جب ائمہ کر ام اپنے بڑ وں کی تقلید کر تے تھے تو مقلدو ں کو بھی انھی ’’بڑ وں ‘ ‘ کی تقلید کرناچاہئے ۔
جو اب :۔ قر آن کی رُو سے یہ صحیح نہیں ہے ۔قر آن نے تقلید کاحکم دیتے ہو ئے کہا واتبع سبیل من اَناَبَ اِلیّ (سو رہ روم ص۱۵)
تر جمہ جو ناگڈ ھی :۔ اور اس کی راہ چلنا جو میر ی طر ف جھکا ہو اہو سبیل یعنی راہ سے مر اد عام اور بڑی شاہ راہ عام مرادہے چھو ٹی چھو ٹی گلیا ں او ر پگڈ نڈ یا ں اسی طر ح نامکمل ٹیر ھا میڑھا اور کچا ر استہ بھی مر اد نہیں چو نکہ چار اماموں کے علاوہ کسی اور کی راہ مکمل اور وسیع اور مر تب مد ون اور محفو ظ نہیں۔
اس لئے ائمہ ار بعہ ہی کی تقلید عام ہو گئی ۔ ع ؂ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ۔
اسی سے یہ بھی معلو م ہو گیا کہ تقلید کے بغیر چارہ کار نہیں ۔
جب اماموں نے تقلید کی اور انھیں خو ف و شر م نہیں آئی تو غیر مقلد ین کیو ں شر ماتے ہیں ۔ دین کے معاملہ میں اقتد اء و اتباع بہتر ہے استکبارْ(خو د کو محقق اور مجد د سمجھنا )براہے ۔اور شیطان بنناہے ۔تکبر سے بچو ۔
لفظ ’’ تقلید ‘‘ کو اختیار کر نے کی حکمت :
جیساکہ آگے آئے گا کہ اتباع اطاعت اور اقتد احالانکہ ہم معنی ہیں او ر اچھے بر ے دونوں مقامات پر ان کااستعمال قر آن و حد یث میں ہوا ۔پھر بھی یہ خیا ل کر کے کہ اللہ و ر سو ل کی پیر وی کے لئے مذکو رہ الفاظ استعمال ہو ئے ہیں اماموں کی پیر وی کے لئے ان الفاظ میں سے کسی کو پسند نہیں کیا۔
تاکہ اللہ ورسو ل کی پیر وی اور امامو ں کی پیروی کو ہر اعتبار سے ’’ ایک ہی ‘‘ خیال نہ کیا جائے ۔
مما ثلث سے بچنے کے لئے ایسا لفظ اماموں کی پیر وی کے لئے چُنا گیا جو اللہ ورسو ل کی پیر وی کے لئے بہت ہی کم نہیں کے بر ابر استعمال ہو اہے اور وہ لفظ ہے تقلید ۔مقلد ین اللہ اور انبیا ء کے لئے اتباع اطا عت واقتد ابو لتے ہیں اور اماموں کے لئے نہیں بو لتے تاکہ ادنی ٰشبہ بھی باقی نہ رہے ۔اور غیر مقلد ین کابہتان یہ ہے کہ مقلدوں نے اماموں کواحبارورُہبان اور بقو ل بعض اپنا رب بنا لیا ہے نعو ذ باللہ ۔آخر اللہ سے یہ لو گ ڈر تے کیوں نہیں ۔؟
جس کی فطر ت بری ہے کر ے گا بر ا* اور اس کے سو اکیا کر ے گا بھلا ؟
غیر مقلد وں میں یہ احتیاط کہاں؟
حکم :۔تقلید کو تقلید ہی کہنا کو ئی ضر وری نہیں اسے اتباع اقتد اء یا اطاعت کہہ سکتے ہیں ۔اگر تقلید کے لفظ سے کسی کو چڑ ہو تو وہ اتباع کہہ سکتاہے اور اس میں کو ئی قباحت نہیں محض لفظی فر ق کو لے کرفر قہ بازی کر نا اور فتنہ پھیلا نا حر ام ہے ۔
حکیم الا مت فر ما تے ہیں کہ تقلید کالفظ فنو ن شر عیہ میں اصطلا ح ہو نے کی و جہ سے لغو ی معنی میں استعما ل نہیں ہو تا ۔اور اتباع میں کو ئی اصطلا ح منقو ل نہیں ، اس لئے و ہ اپنے لغو ی معنی میں مستعمل ہے اور اس کے لغو ی معنی، ظاہر ہے کہ تقلید سے عام ہیں خلاصہ ) ص :۱۴۵ہد یہ اہل حدیث)یہ صحیح ہے رحمان اور شیطا ن اوراچھے بر ے انسا ن کی پیر و ی کو اتباع کہا جاسکتاہے مگر تقلید صر ف مجتہد کی پیر و ی کو کہاجائے گا۔علمائے غیر مقلد ین چو نکہ مجتہد ین میں نہیں لہٰذ اان کی تقلید کر نے والو ں کو (ہم مقلدین )غیر مقلد کہتے ہیں یعنی مجتہد ین کی پیر وی نہ کر نے والااور جو غیر مقلد تقلید اور مقلد کے لغوی معنی وہ بھی منفی معنی بیان کرتا ہے وہ بر خود غلط ہے۔
تقلید کے عر فی معنی
۱) حضرت شاہ صاحب دہلو ی ؒ نے تقلید کی دو قسمیں و اجب او ر حر ام کر کے تقلید واجب کی تعر یف یو ں بیا ن فر مائی ہے ۔’’اَنْ یَّکُوْ نَ اِتِّبَا عَ الرِّ وَایَۃِ دَلَا لَۃً ‘‘(عقد الجید)
یعنی بات ثبو ت کی ہو (ر وایۃ ) اور الفاظ مجتہد کے (دلالۃً ) ہو ں ۔ (انسا ئیکلو پیڈ یا آف اسلام )
چو نکہ شاہ صاحب کو اہل حد یث حضرات بھی اپنا یعنی اہل حدیث کہتے ہیں اورمو لو ی محمد جو ناگڈھی ان کوتو اللہ کی حجت ،ہند کی حجت اور امام کہتے ہیں اور نو اب صدیق حسنخان غیر مقلد بھی لکھتے ہیں کہ اگر شاہ صاحب پچھلے زمانہ میں ہو تے تو امام کہلاتے ۔
بنا بر یں ان کی تعر یف سے غیر مقلد و ں کو انکار کی گنجائش نہیں ۔ان کا دعو یٰ ہے کہ اہل حدیث ہر بات قر آن و حد یث سے بتا تے ہیں لہٰذ ایہ تعر یف بھی شاہ صاحب نے قر آن وحد یث سے بتا ئی ہو گی اور اس تعر یف کا انکار اصل میں قر آن و حد یث کا انکار ہو گا ۔فَاِنِّھَا لَا تَعْمَی ا لْاَ بْصَارُوَلَاکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الا یہ۔
تمھا ر ا مذ ہب اہل رائے کی مخالفت سکھا تا ہے یا اہل حدیثوں کی مخالفت بھی تم لو گ کر تے رہتے ہو ؟
۲) حکیم الامت مجد د الملت مولاناتھانو ی ؒ ؂
تقلید کہتے ہیں کسی کاقول محض اس حسن ظن پر (اسی کو بعض لو گ ’’علیٰ وجہ البصیر ت یعنی سمجھ بو جھ کر کہتے ہیں ‘‘ )مان لینا کہ یہ دلیل کے مو افق بتا سکے گااور اس سے دلیل کی تحقیق (پر اصر ار)نہ کر نا۔
تقلید کی اس تعر یف کے مطا بق راوی کی روایت کو قبو ل کر نا تقلید فی الر وایت ہے اور مجتہد کی روایت کو قبو ل کرنا تقلید فی الد رایت (فی الفقہ )ہی کسی محد ث کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے ۔اور کسی محد ث کی رائے سے کسی راوی کو ثقہ یا مجہو ل یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے کسی امتی کے بتا ئے ہو ئے اصو لِ تفسیر ، اصو لِ فقہ کو ماننا بھی تقلید ہے(ص:۹۵مطالعۂ غیر مقلد یت
عجو بہ :۔
غیر مقلدوں کی حالت عجیب ہے وہ تقلید فی الد رایت یعنی اماموں کی فقہ میں تقلید کو توتقلید کہتے ہیں اور اس پر فتنہ و فساد مچارکھا ہے باقی تقلید کو تقلید نہیں کہتے اور اس میں بری طر ح مبتلا ہیں یہ دھاند لی ہے
۳) قاضی محمد اعلیٰؒ صاحب تھا نوی حنفی
اَلتَّقْلِیْدُ اِتِّبَاعُ الْاِ نْسَانِ غَیْرَہٗ فِیْمَا یَقُوْل اَوْیَفْعَلُ مُعْتَقِدًالِلْحَقِّیَّۃِ مِنْ غَیْرِ نَظْرٍاِ لیَ الدَّ لِیْلِ
ُ کَانَ ھٰذَاالْمُتَّبِعَ جَعَلَ قَوْلَ الْغَیْرِاَوْ فِعْلَہُ قَلَادَۃً فِیْ عُنُقِہٖ مِنْ غَیْرِ مُطَالَبَۃٍ دَلِیْلٍ (ص۱۱۷۸)کشاف اصطلا حات الفنو ن ۔طبع کلکتہ )
تقلید کا معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کے قو ل یا فعل میں محض حسن عقید ت سے اس کی اتباع کر لے اس کو حق سمجھ کر (یعنی پوری بصیرت کے ساتھ )بغیر دلیل کے ملا حظہ کر نے کے ۔گو یا اس اتباع کر نے والے نے غیر کے قو ل یااس کے فعل کو بغیردلیل کے مطالبہ کے ، اپنے گلے کا ہار بنالیاہے ۔
نو ٹ :۔ ۱؂ اس تعر یف میں تقلید کا معنی اتباع اورمقلد کے معنی متبع کیا گیا ہے یعنی تقلید واتباع ایک ہیں۔
۲؂ معتقد اللحقیۃ یعنی مجتہد کی بات کو حق یقین کر تے ہو ئے اور اس کو صحیح سمجھتے ہوئے قبو ل کر نا۔
اس لئے یہ کہنا کہ کسی کی غلط سلط باتو ں کو یا قر آن وحد یث کے خلاف باتو ں کو مان لینا تقلید ہے غلط ا ور سر اسر غلط اوربہتا ن وافترا ہے۔آنکھ کان بند کر کے کسی کی بات قبول کرنا اعتقاد نہیں۔
۳ ؂ مِنْ غَیْرِ نَظْرٍاِلَی الدَّ لِیْلِ کا مطلب ہے مطا لبہ نہ کر نا ۔یعنی دلیل ہے مگر مقلد مطا لبہ نہیں کرتا۔ کیو ں؟ (الف )وہ خو دد لیل جانتا ہے (ب)وہ دلیل معلو م کر بھی سکتا ہے (ج)یاوہ مقلد جاہل ہے اس کو دلیل کے جانچنے پر کھنے کا ہُنر نہیں آتا ۔و ہ ضرور ی مسئلہ پراکتفا (بس) کر لیتا ہے ۔
۴ ) شیخ عبد العزیز بن احمد بن محمد البخاری الحنفی المتو فی ۷۳۰ ؁ھ
ان سے بھی انھی مذ کو رہ الفاظ میں تقلید کی تعریف منقو ل ہے ۔ ملا حظہ ہو تلاش حق (۱۶۰)
۵) علامہ ابن ملک
وَھُوَ عِبَارَۃٌمِنْ اِتِّبَاعِہِ فِیْ قَوْ لِہ وَفِعْلِہٖ مُعْتَقِدً الِلْحَقِّیَۃِ مِنْ غَیرِْ تَامُّلٍ فِی الدَّ لِیْلِ ص ۲۵۲ شر ح منا ر مصر ی
تقلید دوسرے کے قول یاا س کے فعل میں اس کی ’’اتباع ‘‘کانام ہے یہ اعتقاد کر تے ہوئے کہ وہ
(بات )حق ہے ۔بغیر اس کے کہ دلیل کی فکر میں پڑے (کہ اس کی دلیل کیا ہے ؟)
۶) علامہ ابن العینی ؒ ۔ ا ن سے بھی یہی تعر یف منقو ل ہے۔
۷) حُسامی میں تقلید کی تعر یف :۔
اَلتّقْلِیْدُ اِتِّبَاعُ الْغَیْرِعَلیٰ ظَنِّ اِنَّہُْ مُحِقٌّبِلَانَظَرٍفِی الدَّ لِیْلِ(ص۱۹۰)
تقلید غیر کی اتباع کانام ہے ۔دلیل کی طر ف دیکھے بغیر، اس خیال سے کہ وہ اہل حق میں سے ہے۔ ( نامی شر ح حسامی مطبو عہ مجتبائی دہلی)
تشریح:۔ مولانا خیر محمد صاحب جالند ھر ی ؒ ’’نامی ‘‘کی یہ عبارت نقل کر کے لکھتے ہیں کہ ’’یہ عبارت بھی تقلید اور اتباع کے ایک ہو نے پر صر احت سے دال (کھلی دلیل) ہے اوراس میں لفظ الد لیل پر الف لام عہدکے لئے ہے یعنی وہ خاص دلیل جس کو مجتہد نے پیش نظر رکھ کر اجتہادکیا ہے ۔
اور مِنْ غَیْرِنَظَرٍاِلٰی الدَّ لِیْلِ اورمِنْ غَیْرِ تَاَمُّلٍ فِی الدَّ لِیْلِ اورمِنْ غَیْرِ مُطَالَبَۃِ الدَّ لِیْلِ میں اسی خاص دلیل کی طر ف اشار ہ ہے ۔
اس دلیل سے وہ دلیل مراد نہیں جو مقلد اپنی طر ف سے پیش کر تاہے ۔لہٰذ ایہ کہنا کہ ہد ایہ وغیر ہ فقہ کی کتابو ں میں جنھو ں نے دلائل ذکر کئے وہ مقلد نہیں۔ غلط ہے
۸) حضرت مو لانا رشید احمد صاحب گنگو ہی ؒ فر ماتے ہیں ۔
اوراتباع وتقلید کے معنی واحد(ایک)ہیں (سبیل الرشاد (ص۲۷ماخو ذازخیر التنقید ص۱۱تاص۱۳)
۹) حضرت مولانا سید مر تضیٰ چاند ی پو ری ؒ متو فی ۱۳۷۱ ؁ھ
میں اسے تسلیم نہیں کر تا کہ تقلید کے معنی صرف یہی (تسلیم قول الغیر من غیرحجۃ)ہے،۔
بلکہ یہ معنٰی بھی ہے کہ غیر کاقو ل تسلیم کر نے میں دلیل کامحتاج نہ ہو ۔تسلیم قو ل دلیل پر مو قو ف نہ ہو جیسے صاحب ہد ایہ ،فتح القد یر ، عنایہ ، بنایہ ۔ اور امام طحاوی وغیر ہ سب مقلد ہیں حالانکہ ان کے دلائل بھی مشرّ ح (ظاہر )ہیں تو یہ لو گ باوجو د علم بالدلیل کے نہ تو تقلید سے خارج تھے اور نہ ہی لوگ ان کوغیر مقلد سمجھتے تھے وَلَامُسَاحَۃَ فِی الْاِصْطِلَاحِ (ص۲۹تنقیح القلید ماخود ازکلام المفید)
۱۰) حکیم الا سلام حضرت مو لانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کی ایک عبارت ہم ذیل میں در ج کر تے ہیں جس سے تقلید کی تعریف اور اس کی حقیقت معلو م ہو تی ہے آپ تحر یر فرما تے ہیں ۔
غیر مجتہد کے لئے بجز اس کے چارۂ کار ہی کیا ہے کہ اس اجتہاد کی متابعت اورپیر وی کر ے اور جب خود علم نہیں رکھتا تو علم والے کا اتباع کر ے خود ان مخفی دلائل اور علل تک نہیں پہنچ سکتا تو دانا نِ اسر ار وعِلل کے سامنے جھک جائے کیو نکہ مر تبے علم کے ،دو ہی ہیں ۔یا خو د سمجھنا یا فہمید ہ (سمجھنے والے)لوگوں کی اطاعت کرنا ۔چنانچہ یہی د و مر تبے بلاکسی وا سطے کے قر آن نے ہد ایت کے رکھے ہیں۔قیامت کے دن کفّار اسی پر افسو س کر یں گے کہ ہم نے دین کو نہ خو د اپنی عقل سے سمجھا اورنہ عقل والو ں کی سنی ۔ وَقَالُوْا لَوْکُنَّا نَسْمَعُ اَوْنَعْقِلُ مَاکُنَّا فِیْ اَصْحَابِ السَّعِیْرِ ۔
اورکہیں گے کفار ، اے کاش !ہم سنتے یا عقل سے سمجھتے تو ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے (سو ر ہ ملک آیت ۱۰؂)
’’بس یہی د رجۂ سمع وطاعت جو علم والے کے حق میں لاعلم یا ایک محقق کے سامنے ایک غیر محقق عمل میں لاتاہے ، تقلید کہلا تا ہے ، جو فی نفسہ بھی اوربہ ضرورت اجتہادبھی جائزاورمعقو ل ہے ور نہ اگر عوام اور نا اہلا نِ اجتہادکے حق میں اب بھی اہل اجتہاد کی تقلیدجائز نہ ہو تو اجتہاد کاحجت شر عیہ ہو نا لغو ہوجائے اور اس آیت کے کو ئی معنی ہی باقی نہ رہیں کہ
فَاسْءَلُوْااَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ اگر لاعلم ہو تو علم والو ں سے سو ال کر و ۔ (سو رہ نحل آیت ۴۳؂)
اور اس حد یث کاکو ئی مصد اق ہی باقی نہ رہے کہ اَلَمْ یَکُنْ شِفَاءُ الْعَیِّ السُّوَالُ کیا عاجز کی شفا سوال (پو چھنا )نہیں ہے ؟ (رواہ ابو داؤ د عن ابن عباسؓ ) (انتہی کلامہ ص:۵۳ ؂ اجتہاد اور تقلید )
اگر تقلید جائز نہ ہو تی توقر آن و حد یث میں علماء و فقہا ء کو اجتہاد کا حکم کیو ں دیا جاتا او ر فاسئلوا والی آیت میں سو ال یعنی تقلید کر نے کا حکم کیا بے کار دیا گیا ہے ؟
۱۳) حضرت مو لانا قار ی مفتی سید عبد الر حیم صاحب ؒ لا جپو ری نے مجتہد و مقلد او ر تقلید کی تعر یف ان لفظو ں میں بیا ن کی ہے ۔
مجتہدکی تعریف :۔ مجتہد و ہ شخص ہے جو بر اہِ راست اپنے خد ادادفہم و فر است کے ذریعے کتاب وسنت سے شر یعت کے اصو ل و فر وع کااور دین کے مقاصد کلّیہ وجزئیہ کا استنباط اور استخر اج کر سکے۔
اسی کے لئے چند شر ائط ہیں ۔مجتہد کے لئے پہلی شر ط یہ ہے کہ علو م عر بیت یعنی لغت ، صر ف ، نحو ،اور بلاغت و معانی میں حاذ ق او رماہر ہو دو سر ی شر ط یہ ہے کہ کتاب و سنت اوراقو ال صحابہؓ و تابعین پرپورامطلع ہو ، قر آن کر یم کی قر أت متو اتر ہ اور قر أت شاذہ سے بخو بی واقف ہو اور آیات کے اسباب نزول اور ناسخ و منسو خ سے باخبر ہو تا کہ قر آن مجید کی صحیح تفسیر کر سکے۔اور احادیث نبویہ سے بھی بخو بی واقف ہو کہ اس مسئلہ میں کس قد راحادیث اور مر ویات ہیں ۔نیز احادیث کی صحت و عدم اور صحیح ا ور ضعیف و غیر ہ سے بھی پو را واقف ہو ۔نیز راویو ں کے حالات بھی اچھی طر ح جانتاہو تیسر ی شر ط یہ ہے کہ من جانب اللہ اس کو نو ر فہم اور فر است ایمانی سے خاص حصہ ملاہو۔
ذکاوت اورذہانت میں ایسا ممتاز ہو کہ بڑ ے بڑ ے اذکیاء اور عقلاء کی گردنیں اس کے خدا داد فہم کے سامنے خم ہو ں ۔
چو تھی شر ط یہ ہے کہ ورع و تقو یٰ کامجسّمہ ہو ، حق پر ست ہو ، ہو اپر ست نہ ہو پانچو یں شر ط یہ ہے کہ اجتہاد اور استنباط کے طر یقو ں سے و اقف ہو ۔
جس شخص کے اند ر یہ شرائط مو جو د ہو ں وہ مجتہد ہے۔ایساشخص اپنے اجتہادپر عمل کرے اورجس
شخص کے اند ر یہ شر ائط مو جو د نہ ہو ں وہ غیر مجتہد ہے اور جمہو ر علمائامت کااجماع ہے کہ غیر مجتہد پر ائمہ شر یعت کی اتباع اور تقلید و اجب ہے (ص:۲۳۴فتاوی رحیمیہ ۔ج۱)
عقد الجید ص ۷ص۸میں علامہ بغو یؒ سے یہ شرائط منقول ہیں ۔غیر مقلدوں کے پیشوا امام شوکانی کے نزدیک اجتہاد کی تیسری شرط لغت عرب کا عالم ہونا چوتھی شرط اصول فقہ کا علم اور پا نچویں شرط ناسخ منسوخ کا علم ہے ۔( ارشاد الفحول ص ۲۵۱ ص۲۵۲)
اجتہاد و استنباط اورمسائل کے استخر اج اور تحقیق کی شر طیں مسلّمہ ہیں علامہ بغو یؒ نے یہی بیانکیا۔
حضرت شاہ صاحب نے اس پر صاد فر مایا یعنی تصدیق فر مائی او ر قبول کیا اسی کو مو لانا ادریس
کاند ھلوی نے بھی منظو ر فر مایا اور فر قۂ غیر مقلد ین نے اس کا انکار کیااور ہر ان پڑھ اجڈگنو ار جاہل شخص محقق و مجتہد بننے لگ گیا جو لو گ یہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی یا حنفی علماء کی حد یثیں بھی ضعیف اور من گھڑ ت ہیں کیونکہ حدیث کا پورا علم حاصل کئے بغیر مجتہد بننا نا ممکن ہے اور پھر فقہ حنفی کی بنیاد (بقول محمدجونا گڈھی)مو طامالک کی حد یثوں پر ہے۔اور امام مالک ؒ کو محد ثین کامام وسلسلہ مذہب کی پہلی کڑی مانا جاتا ہے ۔غیر مقلد ین امام ابو حنیفہ وامام محمد ہی کے دشمن نہیں۔محد ثین کے اور امام مالک ؒ کے بھی باغی ہیں ۔اب غیر مقلد وں کی حقیقت کھل گئی ۔انصاف پسند حق کو قبول کر یں گے ۔اور کسی کو خاطرمیں نہ لائیں گے اور باطل پر ست اپنی گمر اہی پر جمے رہیں گے ۔
جن لو گوں نے اپنے علماء کے تقر یری یا تحر یری بیان سے یہ عقید ہ بنا لیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کم علم اور جاہل تھے ا ن حضرات کو محدث دہلو ی ر حمتہ اللہ کایہ ارشاد گر امی سن لینااور سمجھ لینا چائیے۔ بالجملہ ایں چہار امامان اند کہ عالم را علم ایشاں احاطہ کر دہ ست، امام ابو حنیفہ امام مالک امام شافعی وامام احمدیعنی جن چار امامو ں کے علم نے دنیاکو گھیر رکھا ہے امام ابو حنیفہ وامام مالک وامام شا فعی اوروہ امام احمد رحمہم اللہ ہیں (ارشاد محمد ی ص۱۱۰)
تین حدیثوں یاسترہ حد یثوں سے کتنی بڑ ی دنیا گھیر ی جاسکتی ہے؟بکو اس کر نے والے کبھی سوچتے کیوں نہیں؟
مو لو ی جو ناگڈ ھی صاحب شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی ؒ کو امام الہند ، حجتہ اللہ فی الا رض، کہتے تھے ان کی یہ تحر یر یں پڑ ھتے اور اپنی کتابو ں میں لکھتے رہتے تھے لیکن یہ خود ساختہ محقق و مجدد صاحب ذرابھی نہیں سمجھتے تھے اور ان کی اند ھی تقلید میں مبتلاکوئی فر د آج تک نہیں سمجھ سکا لَاتَعْمَی الْاَبْصَارُوَلَاکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ۔
محدث دہلو ی ؒ کی مذ کو رہ بالا عبارت سے جو ناگڈھی اور ان کے ہم خیال سب افر اد جھو ٹے ثابت ہو گئے ۔ سبحان ربی
 

رفیق طاھر

وفقہ اللہ
رکن
تقلید کیا چیز ہے ؟ اور اسے ناجائز یا حرام کہنے کی کیا وجہ ہے ؟ کچھ علماء تقلید کو شرک یا کفر تک کہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ تقلید کی دو قسمیں بناتے ہیں تقلید مطلق اور تقلید شخصی , اور وہ تقلید شخصی کو ناجائز جبکہ تقلید مطلق کو جائز کہتے ہیں ؟ اور جس تقلید کو حرام یا ناجائز کہا جاتا ہے کیا اس طرح کی تقلید کرنے والے لوگ اس دنیا میں پائے بھی جاتے ہیں یا محض فرضی بات ہے ؟

الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

کتاب وسنت کے منافی کسی کی بات ماننے کو تقلید کہتے ہیں ۔ اس تعریف سے ہی تقلید کی حرمت کا سبب واضح ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ہر کلمہ گو جانتا ہے کہ کتاب وسنت کی مخالفت کرنا شریعت اسلامیہ میں حرام ہے, بلکہ بعض حالات میں یہ کفر بن جاتا ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اس موضوع پر بہت سے دلائل موجود ہیں جو وحی الہی کی مخالفت سے منع کرتے ہیں اور مخالفت کرنے والے کو وعید سناتے ہیں ۔ اور یہی وہ تقلید ہے جسے سلف وخلف میں سے ہر صاحب انصاف نے حرام یا کفر وشرک قرار دیا ہے۔ مگر صد افسوس کہ یہ تقلید ہمارے برصغیر پاک وہند میں بھی پائی جاتی ہے ۔ ایسے مقلدین کی بے شمار مثالیں ہیں جن کے سامنے حق بات کھل کر واضح ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے تقلیدی مزاج کے مطابق باطل پر ڈٹے رہتے ہیں , بطور نمونہ چند مثالیں پیش خدمت ہیں : بیع خیار کے مسئلہ میں مولوی محمود حسن صاحب دیوبندی نے لکھا ہے : " الحق والإنصاف أن الترجیح للشافعی فی هذه المسئلة لکن نحن مقلدون یجب علینا تقلید إمامنا أبی حنیفة رحمه الله " " حق اور انصاف کی بات یہی ہے کہ اس مسئلہ میں ترجیح امام شافعی کو ھے لیکن ہم مقلدین ہیں ہمارے اوپر ہمارے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید واجب ہے ۔ " [تقریر ترمذی: ص 36] اسی طرح نبی کریم ﷺ کی صحیح اور صریح حدیث ہے کہ : «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ العَصْرَ» " جس نے صبح کی ایک رکعت سورج کے طلوع ہونے سے پہلے پا لی اس نے لازماً صبح کی نماز پالی اور جس نے ایک رکعت عصر کی ، سورج غروب ہونے سے پہلے پالی تو اس نے لازماً نماز عصر پالی ۔ " [ صحیح البخاری : 579 ] یہ حدیث بڑی واضح ہے کہ فجر کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لی یا عصر کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھ لی تو اس نے صبح اور عصر کی نماز پالی ہے ، جبکہ احناف کے علماء کے نزدیک صبح کی نماز باطل ہو جاتی ہے جبکہ عصر کی نماز باطل نہیں ہوتی ۔ [ مختصر القدوری ص 97 ط مکتبہ البشری ، الھدایۃ : 1/85 ] حنفی علماء نے اس حدیث کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں : " حدیث باب حنفیہ کے بالکل خلاف ہے مختلف مشائخ حنفیہ نے اس کا جواب دینے میں بڑا زور لگایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی شافی جواب نہیں دیا جا سکا یہی وجہ سے کہ حنفیہ کے مسلک پر اس حدیث کو مشکلات میں سے شمار کیا گیا ہے ۔ " [درس ترمذی : 1/434 ] اور اس بحث کے آخر میں لکھتے ہیں : " حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں حنفیہ کی طرف سے کوئی ایسی توجیہ احقر کی نظر سے نہیں گزری جو کافی اور شافی ہو اس لئے حدیث کو توڑ موڑ کر حنفیہ کے مسلک پر فٹ کرنا کسی طرح مناسب نہیں ، یہی وجہ سے کہ حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ اس حدیث کے بارے میں حنفیہ کی تمام تاویلات باردہ ہیں اور حدیث میں کھنچ تان کرنے کی بجائے کھل کر یہ کہنا چاہیے کہ اس بارے میں حنفیہ کے دلائل ہماری سمجھ میں نہیں آ سکے اور ان اوقات میں نماز پڑھنا ناجائز تو ہے لیکن اگر کوئی پڑھ لے تو ادا ہو جائے گی ۔ " [درس ترمذی : 1/439-440 ناشر مکتبہ دار العلوم کراچی نمبر 14 ] مفتی تقی عثمانی صاحب کی اس وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ بڑے بڑے حنفی اکابر علماء نے صحیح صریح حدیث کو توڑ موڑ کر اپنے مذہب کے مطابق بنانے کی سعی لا حاصل کی ہے لیکن ان کی نظر میں کوئی تسلی بخش ، شافی و کافی جواب بن نہیں پڑا اور اسے حنفیہ کے ہاں مشکلات میں سے شمار کیا گیاجیسا کہ علامہ زیلعی بھی لکھا ہے ۔ [ دیکھیے نصب الرایۃ : 1/229 ] سو معلوم ہوا کہ کتنے ایسے مقلد علماء ہیں جنہیں حق کی معرفت ہو جاتی ہے مگر وہ تجمد تقلیدی اور تعصب مذہبی کی بناء پر صحیح احادیث رسول پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں ۔ اور یہی تقلید ہے جسے حرام, یا کفر, یا شرک, کہا جاتا ہے ! رہی بات تقلید مطلق کی , یعنی کتاب وسنت کے موافق کسی کی بات ماننا , تو ہم اسے تقلید ہی نہیں کہتے , بلکہ اسے اتباع سے تعبیر کرتے ہیں ۔ کیونکہ کتاب وسنت میں اس کے لیے "اتباع" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔

تحریر: محمد رفیق طاہر, بحوالہ: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-swal-603.html
 
Top