میلاد اور آپ کی کنفیوزن

محمد یوسف

وفقہ اللہ
رکن
ایک جگہ پر "میلاد" کے حوالے سے ایک تحریردیکھی ۔۔۔ وہ پیش خدمت ہے امید ہے کہ اس تحریر سے آپ کی کنفیوزن دور ہوگی ۔
عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کبھی عید میلاالنبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے عوام الناس کو کچھ امور کی نشادہی کی جاتی ہے تو جوابا میلاد کے حامی حضرات کی طرف سے سب سے پہلے کچھ وضاحت کے بعد یہی الزام لگایا جاتا ہے کہ (معاذ اللہ) ان امور سے روکنے والو کو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں ؟؟؟
حالانکہ اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو کوئی بھی شخص باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ خاص 12 ربیع الاول کو میلاد منانے سے منع کرنے والے مسلمان بھائیوں کے علماء اور اکابرین کی تصانیف تقاریر اور دیگر مواد جناب رسول اللہ صلیٰٰ اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ملتا ہے۔۔۔۔ اور یقینا اس میں کسی کو شک نہیں کہ کوئی بھی مسلمان جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت سے انکار تو بہت دور کی بات بلکہ اکابرین نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص یوں بھی کہہ دے کہ نبی علیہ السلام کی کملی مبارک میلی ہے تو اس کا ایمان گیا
تو خود سوچیں پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مسلمان اپنے تصور میں بھی ایسا خیال لاکر اپنے ایمان کو سلامت سمجھے ؟؟؟
تو میرے دوستوں پہلے تو معاملہ سمجھیں کہ اصل معاملہ ہے کیا ۔۔۔ اور سمجھانے والے کیا بات سمجھانا چاہتے ہیں ؟؟؟
آسانی کے لئے یوں سمجھیں کہ ایک شخص چار رکعت نماز کے بجائے ایک سلام میں پانچ رکعت پڑھے ۔۔۔یا ایک رکعت میں دو سجدوں کی جگہ تین سجدے کرے ۔۔۔۔ اور کوئی اس کو سمجھائے کہ بھائی ایسے نماز نہیں پڑھتے ۔۔۔یہ نماز باطل ہوگئی ہے
اب یہ شخص معاملہ سمجھنے کے بجائے ساری دنیا میں یہ کہتا پھرے کہ فلاں نے مجھے نماز سے روک دیا ۔۔۔۔ فلاں نے نماز کو (معاذ اللہ) باطل کہہ دیا ۔۔۔۔ یاس فلاں شخص کو نماز سے محبت نہیں ؟؟؟؟
تو ایمانداری سے بتائیں کہ کیا اس شخص کا یہ الزام لگانا درست ہوگا ؟؟؟
یقینا تھوڑا بھی دین کا علم رکھنے والا یہی کہے گا کہ اس شخص کو نہ تو نماز سے روکا گیا ۔۔۔۔ نہ نماز کو باطل کہا گیا ۔۔۔ اور نہ ہی منع کرنے والے کو نماز کی محبت سے انکاری کہا جاسکتا ہے
بس میرے دوستوں میلاد کے حوالے سے یہی فرق ہے ۔۔۔ جو عام طور پر سمجھا نہیں جاتا اور روکنے والوں پر الزام در الزام لگا دیا جاتا ہے
یعنی روکنا میلاد (یعنی ذکر ولادت صلیٰ اللہ علیہ وسلم ) سے نہیں ہوتا ۔۔۔بلکہ غلط طریقے کی نشادہی کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ نبی علیہ السلام کا ذکر ولادت یا سیرت طیبہ یا رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ بیان کرنا اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں اشعار کہنا( یعنی نعت پڑھنا) باعث اجر ثواب اور یقینا ایمان کی تازگی اور بہت بابرکت ہے ۔۔۔اور اس سے کسی بھی مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی مسلمان اس سے منع کرتا ہے ۔
اصل معاملہ صرف اتنا ہے کہ روکا اس عمل سے جاتا ہے جو لوگوں سے اپنے قیاس سے خود بنا لیا ہے ۔۔۔ یعنی خاص 12 ربیع الاول کو حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت بطور عید یا عیدوں کی عید تعین کرکے مختلف امور کا اہتمام کرنا
اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اس میں کیا قباحت ہے ۔۔۔ ہم تو ایک اچھا کام ہی کررہے ہیں یعنی رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کررہے ہیں ؟؟
تو دوستوں ۔۔۔ بظاہر اچھا کام تو وہ پانچ رکعت نماز پڑھنے والا بھی کررہا ہے ۔۔۔ یا دو کی جگہ تین سجدے والا بھی بظاہر اچھا ہی کام کررہا ہے ۔۔۔۔ لیکن اُس شخص کا یہ بظاہر اچھا کام اس لئے غلط ہوجاتا ہے کیوں کہ یہ عمل خود جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔۔۔۔۔ یعنی نبی علیہ السلام نے اگر ایک سلام میں چار رکعت کا تعین فرمایا ہے تو یہ چار ہی رہیں گی ۔۔۔۔ پانچ رکعت والا غلط ہوگا ۔۔۔۔ اسی طرح اگر نماز میں دو سجدے تعین ہیں تو تین سجدے والا غلط ہوگا ۔۔۔۔اسی طرح جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے دو عیدیں مقرر فرمادیں ۔۔۔۔ پھر خود اپنے قیاس سے تیسری عید تعین کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟؟؟
اور آسانی کے لئے سمجھیں کہ اسی طرح اگر کوئی شخص یا جماعت آج مختلف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی ولادت کی تاریخیں تعین کرکے چوتھی ،پانچویں اور چھٹی عیدیں تعین کرے تو ایسے لوگوں کو کس طرح روکا جائے گا ۔۔۔۔ بے شک ہمارے پیارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم امام الانبیاء ہیں ۔۔۔ اور یقینا ہم مسلمانوں کے لئے تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بھی انتہائی قابل احترام ہیں ۔۔۔۔ تو جب کوئی شخص یا جماعت کسی بھی نبی یا پیغمبر سے منسوب کردہ مزید عیدوں کا تعین کرے گا ۔۔۔۔ تو ایسے شخص یا جماعت کو کس طرح روکا جائے گا ۔۔۔۔ کیا یہ شخص یا جماعت آپ پر بھی اسی طرح انبیاء کرام کی توہین کا الزام نہیں لگائے گی ؟؟؟؟
میرے دوستو یہ نکتہ سمجھ لیں کہ علماء اسلام نے تصریح فرمائی ہے کہ جیسے عزائم سے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت و خشنودی کی جاتی ہے اسی طرح رخصتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی متعلق ہے اور جس طرح جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو کرنا سنت ہی طرح کسی کام کا چھوڑنا بھی سنت ہے ۔ لہذا آپ کے ترک فعل کی اتباع بھی سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے ۔۔۔چناچہ ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ایک حدیث شریف یوں پیش فرماتے ہیں :
"اللہ تعالیٰ جیسے عزائم کی ادائیگی کو پسند کرتا ہے اسی طرح وہ اس کو بھی پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر بھی عمل کیا جائے (مرقات ج 2 ص 15)(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 128)
نیز حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث "انما الاعمال بالنیات"کی شرح میں یہ نقل کرتے ہیں کہ "متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی متابعت ہوتی ہے ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے"(مرقات ج 1 ص 41)
اور اسی موقع پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " اتباع جیسے فعل میں واجب ہے اسی طرح ترک میں بھی اتباع ہوگی ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا وہ بدعتی ہوگا ۔اسی طرح محدثین کرام نے فرمایا ہے "(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 20)
یعنی جس چیز کا محرک اور داعیہ اور سبب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں موجود تھا مگر وہ دینی کام آپ نے نہیں کیا اور حضرات صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کرام نے بھی باوجود کمال عشق و محبت اور محرکات و اسباب کے نہیں کیا تو وہ کام بدعت ہے
باقی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ہم دین کا حصہ سمجھ کا نہیں کرتے ۔۔۔ بلکہ دنیاوی رسم و رواج یا وقت کی ضروریات یا جدتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں ۔۔۔۔ وہ لغوی بدعت (یعنی نیا کام کرنا) تو کہلا سکتا ہے ۔۔۔۔ لیکن شرعی بدعت (یعنی وہ نیا کام جو دین کا حصہ سمجھ کر کیا جائے) نہیں کہلائے گا(جیسا کہ اوپر اشماریہ بھائی نے وضاحت کی)
کیوں کہ کسی ایسی چیز کو دین کا حصہ سمجھنا جو اسباب و محرکات کے ہوئے ہوئے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو ۔۔۔۔۔۔اسی طرح صحابہ کرام ، تابعین کرام تبع تابعین کرام نے بھی نہ کیا ہو اُس کام کو دین کا حصہ سمجھنا گویا ایسا ہے کہ (معاذ اللہ ) یہ چیز رہ گئی ہے اور ہم نے اپنی عقل سے اس کو سمجھ لیا ؟؟؟
میرے دوستوں رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے ۔۔۔اس کے بغیر ہمارا ایمان نہیں ۔۔۔۔۔ لیکن محبت کا تقاضہ ہماری ذاتی پسند نا پسند سے تعلق نہیں رکھتا ۔۔۔ کہ جو ہمیں اچھا لگ رہا ہے وہ عمل شریعت میں بھی پسندیدہ ہوگا ۔۔۔۔ بلکہ سچی محبت کا تقاضہ تو محبوب کی اطاعت و فرمابرداری پر محنصر ہے ۔۔۔ کون شخص کتنا فرمابردار اور اطاعت کرنے والا ہے ۔۔۔۔ جب اس کا جواب ڈھونڈیں گے تو ہمیں خود معلوم ہوجائے گا کہ ہمیں اپنے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت ہے
باقی لوگ اس عید کے جواز میں کبھی دنیاوی رنگ رنگینیوں کی مثالیں دیتے ہیں تو کبھی سالگرہ وغیرہ کی تو کبھی اپنی خوشیوں کی ۔۔۔۔ تو میرے دوستو ۔۔۔۔ اگر دنیا میں لوگ شریعت کو نظر انداز کرکے اپنی ذاتی پسند سے رسم و رواج ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔ تو لوگوں کے ایسا کر نے سے یہ کام شرعی دلیل نہیں بن جاتا ہے ۔۔۔۔ شریعت کی حدود و قیود ویسی ہی رہیں گی جیسی اللہ رب العزت نے متعین فرمائیں اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ جن کی تفصیل واضح فرمائی ۔۔۔ اور صحابہ کرام اور دیگر ائمہ کرام کی تشریحات فرمائیں ۔۔۔۔ اب چاہے لوگ دینی یا دنیاوی زندگی میں ان پر عمل کریں یا نہ کریں ہر شخص خود اپنا حساب دے گا ۔۔۔۔۔ لیکن کسی فرد واحد کا یا کسی قوم کا غلط عمل دلیل نہیں بن سکتا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
ماخوذ ۔
 
Top