بلندی پر سانس لینے میں دُشواری جدید سائنس اور قرآن مجید کی روشنی میں

محمد یوسف

وفقہ اللہ
رکن
بلندی پر سانس لینے میں دُشواری جدید سائنس اور قرآن مجید کی روشنی میں

سانس جانداروں کے لیے اس قدر ضروری ہے کہ اگر دماغ کو چند منٹ آکسیجن نہ ملے تو یہ فقظ ایک مشت خاک سے زیادہ کچھ نہیں رہتا ۔ بدن کا تمام نظام ریت کے محل کی طرح زمین بوس ہو جائے گا۔سانس جسم میں آکسیجن دینے کا واحد ذریعہ ہے ۔ ضرورت کےمطابق سانسوں کا زیرو بم آکسیجن کی مقدار گھٹاتا بڑھاتا ہے ۔ پھر خون اس آکسیجن کو دل کے پمپ ہاوس سے بدن کے ہر ہر عضو کو پہنچاتا ہے ۔ سانس جسم سے گندے مادوں کو کاربن ڈائی آکسائڈ کی صورت اخراج کا کام بھی کرتی ہے ۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ سانس کتنی اہم ہے ۔ اگر یہ ڈوری ٹوٹ جائے تو رُوح کا جسم سے سے رشتہ یوں ٹوٹ جاتا ہے جیسے کبھی شناسائی ہی نہ تھی۔

جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہو ا، لوگوں کا خیال تھا کہ جو شخص بلندی کی طرف جائے گا اسے زیادہ تازہ ہوا ،زیادہ فرحت اور زیادہ خوشی حاصل ہوگی ،لیکن جدید دور میں جب انسان نے ہوائی جہاز ایجاد کیا اور وہ تیس چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے لگاتو اسے پتہ چلاکہ بلندی پر جاتے ہوئے نسبتاً کم آکسیجن مہیا ہوتی ہے اور سانس لینے میں بہت دشواری پیش آتی ہے ۔اس شدید گھٹن سے بچنے کے لیے ہوائی جہازوں میں مصنوعی آکسیجن لے جانے کا انتظام کیا جاتا ہے ۔

نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اس قدر بلندی پر جانے کا تصور تھا نہ آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈکا ، لیکن قرآن مجید میں سورۃ الانعام کی یہ آیت ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہے :

فَمَن يُرِ‌دِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَ‌حْ صَدْرَ‌هُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِ‌دْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَ‌هُ ضَيِّقًا حَرَ‌جًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّ‌جْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿125﴾

"پس (یہ حقیقت ہے کہ ) اللہ جسے ہدایت بخشنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے او ر جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ اور گھُٹا ہوا کر دیتا ہے

گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے (بلندی کو جارہا ہے )"۔











بلندی پر چڑھتے ہوئے سینہ تنگ ہونے کی مثال اعجازِ قرآنی کی معرکة الآراءمثال شمار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ طب جدید کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دَم گھٹنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آج سے سوا چودہ سو سال پہلے اس سائنسی حقیقت کی طرف اشارہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے

ماخذ:۔

http://ur.wikipedia.org/wiki/آکسیجن

2۔قرآن سائنس اور ٹیکنالوجی از شفیع حیدر دانش صدیق

3۔اسلا کی سچائی اور سائنس کے اعترافات از محسن فارانی

4۔آئینہ جنرل سائنس از چوہدری بہار علی
 
Top