الله و رسول سے عشق

ارشاد احمد غازی

وفقہ اللہ
رکن
Mazmoon No-10

٭
آخری صفحہ
مولانا محمد کلیم صدیقی

اسلام کے دستر خوان کے یہ نووارد مہمان

مدرسہ سے چلے وہ دونوں نوجوان گاڑی کے قریب آئے، کہا مفتی صاحب نے حکم دیا ہے کہ ہم آپ سے اجازت لے کر آپ کی گاڑی میں بیٹھ کر آپ کے ساتھ کچھ وقت گذاریں، اس حقیرنے کہا : شوق سے تشریف لائیے، دو تین منٹ کے سکوت کے بعد ایک نوجوان بولا : ہم آپ سے کوئی سوال کرسکتے ہیں ؟ میں نے کہا، ضرور کیوں نہیں ! بولا : اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ہم سے وعدہ کیا ہے، مجھ سے سوال کرو میں پورا کروں گا، تو کیا ہم اللہ سے جو خواہش ہو، اس کا سوال کرسکتے ہیں ؟ اس حقیر نے عرض کیا ہاں ضرور! بس عادت اللہ کے خلاف سوال نہیں کرنا چاہئے۔ وہ بولے : عادت اللہ کے خلاف تو نہیں بس یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ جنت میں تشریف لے جائیں گے، اونٹنی پر سوار ہوکر تشریف لے جائیں گے، آپ کی نکیل پکڑنے والا تو طے ہے، مگرپیچھے بیٹھنے والا توطے نہیں ہے، اگرہم اللہ سے دعا کریں کہ ہمارے نبی جو جنت میں تشریف لے جائیں تو اللہ میرے لئے یہ مقدر کردیں کہ آپ ﷺ فرمائیں کہ آبیٹے عبد اللہ تو میرے پیچھے سوار ہوجا، تو کیااللہ یہ بات پوری فرمادیں گے؟ میں نے عرض کیا بالکل دعا کرسلتے ہو، پھر بولا اچھا جس سے بہت محبت ہو، آدمی اس کے ساتھ جنت میں رہے گا، تو انشاء اللہ ہمارے نبی ﷺ کے قدموں میں ہمیں جنت میں جگہ ملے گی نا؟ میں نے عرض کیا جب محبت ہے تو ضرور ملے گی، اچھا حضرت ہمارے نبی ﷺ وہاں ہم سے کچھ خدمت بھی لے لیں گے نا؟ عرض کیا یہ جو دعوت کا کام کررہے ہو اس خدمت کے بدلہ میں جنت میں ہر خواہش انشا ء اللہ پوری ہوگی، یہ دونوں نوجوان مندروں کے شہر جموں کے برہمن خاندان کے ہیں جنھیں چند سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطا فرمائی ہے۔دو گھنٹے اس حقیر کے ساتھ رہے، وہ بس جنت، اللہ اور اس کے رسول کا ذکرکرتے رہے، مجھے خیال آیا کہ صحابہ کے بارے میں یہ پڑھتے آئے ہیں کہ وہ جسم سے دنیا میں رہتے تھے مگر دل و دماغ سے ہر وقت آخرت میں رہتے تھے، اور جنت و دوزخ کا یقین ان کا اس طرح کا تھا کہ آنکھوں سے دیکھ لیں تو کوئی اضافہ نہ ہو۔ ہم بے جان مسلمانوں اور پھسپھسے ایمان والوں میں یہ نیا خون بالکل صحابہ کی یاد تازہ کررہا ہے، بار بار وہ عاشقانہ طور پر معلوم کرتے کہ کیا ہمارے نبی ﷺ کو علم ہو گا کہ ہم ان کو کس طرح چاہتے ہیں ؟ ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہو تاہے؟ ایک بولا حضرت !میرے والد میرے بھائی دونوں مجھے نیچے لٹاتے ہیں، ایک ایک طرف سے پاؤں میں دباتا ہے، دوسری طرف بڑے بھائی میرے سینہ پر پاؤں رکھ کر میرے نبی کی سنت (داڑھی)کے ساتھ ظلم کرتے ہیں، مجھے رات کو تہجد پڑھتے دیکھتے ہیں تو کوئی چیز سر پر دے مارتے ہیں، میں تو صرف آپ کے حکم کی وجہ سے گھررہتا ہوں، دعوت ہمارے نبی کی سب سے بڑی سنت ہے، ورنہ میرے لئے میراگھردوزخ ہے جہاں میرے نبی ﷺکی سنت کے مطابق زندگی گذارنا نصیب نہ ہو، تھوڑی دیر میں بولا، یہ تو سنا ہے کہ پرانے بزرگوں سے بڑے درجہ کی تمنا اور دعا نہیں کرنی چاہئے، مگر پیارے نبی ﷺ کی محبت میں آ پ ﷺکی نقل تو کرسکتے ہیں، اگر میں اپنے دو دانت نکلوادوں تو کیساہے، میرا دل بہت چاہتا ہے، ہم اتنا تو کرسکتے ہیں ۔ فلائٹ کا وقت قریب تھا مجھے پکڑ کر کمرے میں لے گیا اور دروازہ بند کرکے بولا، پیارے نبی کے صحابہ اس طرح کرتے تھے، آپ پہلے ہمارے لئے دعا کیجئے میں آمین کہوں، پھر میں دعا کروں گا آپ آمین کہیں، میں نے کہا بتاؤ کیا دعا کروں ؟ بولا یہ دعا کیجئے اللہ تعالی مجھے ایسا نورانی مسلمان بنادے کہ جو مجھے دیکھ لے وہ مسلمان ہوجائے، میں نے دعاکی اللہ تعالی کرے جس کو تم دیکھو وہ داعی بن جائے، اور جو تم کو دیکھ لے وہ داعی بن جائے، دل کی گہرائی سے آمین کہہ کر سبحان اللہ کہا پھر دیر تک الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرتا رہا میرے اللہ اپنی ایسی محبت ایسا عشق ایسی دیوانگی عطا فرمادے کہ بس آپ کے علاوہ کوئی دکھائی نہ دے۔
ان دونوں نوجوانوں کے ساتھ کچھ وقت گذار کر ایسا لگا جیسے ایمان پر آب آگئی ہو، پراناخون جب مردہ اور خراب ہوجائے تو اس کو نئی زندگی نیا خون ہی عطا کرسکتا ہے، اسلام کے دستر خوان کے ان نووارد مہمانوں میں سے ہر ایک کا حال ایک سے بڑھ کر ایک دکھائی دیتا ہے، ہم پرانے مسلمان جہاں مرکزی سنتوں کو اپنی غفلت کا نشانہ بناتے ہیں، وہاں ایک ایک سنت کا جذبہ رکھنے والے، دنیا کو نبی رحمۃ للعالمین کی سنتوں کے سایہ میں لانے والے روز آتے جا رہے ہیں، کاش ہم نگاہ عبرت کھول کر اس سے سبق حاصل کریں ۔
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
طب
Mazmoon No-10

٭
آخری صفحہ
مولانا محمد کلیم صدیقی

اسلام کے دستر خوان کے یہ نووارد مہمان

مدرسہ سے چلے وہ دونوں نوجوان گاڑی کے قریب آئے، کہا مفتی صاحب نے حکم دیا ہے کہ ہم آپ سے اجازت لے کر آپ کی گاڑی میں بیٹھ کر آپ کے ساتھ کچھ وقت گذاریں، اس حقیرنے کہا : شوق سے تشریف لائیے، دو تین منٹ کے سکوت کے بعد ایک نوجوان بولا : ہم آپ سے کوئی سوال کرسکتے ہیں ؟ میں نے کہا، ضرور کیوں نہیں ! بولا : اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ہم سے وعدہ کیا ہے، مجھ سے سوال کرو میں پورا کروں گا، تو کیا ہم اللہ سے جو خواہش ہو، اس کا سوال کرسکتے ہیں ؟ اس حقیر نے عرض کیا ہاں ضرور! بس عادت اللہ کے خلاف سوال نہیں کرنا چاہئے۔ وہ بولے : عادت اللہ کے خلاف تو نہیں بس یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ جنت میں تشریف لے جائیں گے، اونٹنی پر سوار ہوکر تشریف لے جائیں گے، آپ کی نکیل پکڑنے والا تو طے ہے، مگرپیچھے بیٹھنے والا توطے نہیں ہے، اگرہم اللہ سے دعا کریں کہ ہمارے نبی جو جنت میں تشریف لے جائیں تو اللہ میرے لئے یہ مقدر کردیں کہ آپ ﷺ فرمائیں کہ آبیٹے عبد اللہ تو میرے پیچھے سوار ہوجا، تو کیااللہ یہ بات پوری فرمادیں گے؟ میں نے عرض کیا بالکل دعا کرسلتے ہو، پھر بولا اچھا جس سے بہت محبت ہو، آدمی اس کے ساتھ جنت میں رہے گا، تو انشاء اللہ ہمارے نبی ﷺ کے قدموں میں ہمیں جنت میں جگہ ملے گی نا؟ میں نے عرض کیا جب محبت ہے تو ضرور ملے گی، اچھا حضرت ہمارے نبی ﷺ وہاں ہم سے کچھ خدمت بھی لے لیں گے نا؟ عرض کیا یہ جو دعوت کا کام کررہے ہو اس خدمت کے بدلہ میں جنت میں ہر خواہش انشا ء اللہ پوری ہوگی، یہ دونوں نوجوان مندروں کے شہر جموں کے برہمن خاندان کے ہیں جنھیں چند سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطا فرمائی ہے۔دو گھنٹے اس حقیر کے ساتھ رہے، وہ بس جنت، اللہ اور اس کے رسول کا ذکرکرتے رہے، مجھے خیال آیا کہ صحابہ کے بارے میں یہ پڑھتے آئے ہیں کہ وہ جسم سے دنیا میں رہتے تھے مگر دل و دماغ سے ہر وقت آخرت میں رہتے تھے، اور جنت و دوزخ کا یقین ان کا اس طرح کا تھا کہ آنکھوں سے دیکھ لیں تو کوئی اضافہ نہ ہو۔ ہم بے جان مسلمانوں اور پھسپھسے ایمان والوں میں یہ نیا خون بالکل صحابہ کی یاد تازہ کررہا ہے، بار بار وہ عاشقانہ طور پر معلوم کرتے کہ کیا ہمارے نبی ﷺ کو علم ہو گا کہ ہم ان کو کس طرح چاہتے ہیں ؟ ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہو تاہے؟ ایک بولا حضرت !میرے والد میرے بھائی دونوں مجھے نیچے لٹاتے ہیں، ایک ایک طرف سے پاؤں میں دباتا ہے، دوسری طرف بڑے بھائی میرے سینہ پر پاؤں رکھ کر میرے نبی کی سنت (داڑھی)کے ساتھ ظلم کرتے ہیں، مجھے رات کو تہجد پڑھتے دیکھتے ہیں تو کوئی چیز سر پر دے مارتے ہیں، میں تو صرف آپ کے حکم کی وجہ سے گھررہتا ہوں، دعوت ہمارے نبی کی سب سے بڑی سنت ہے، ورنہ میرے لئے میراگھردوزخ ہے جہاں میرے نبی ﷺکی سنت کے مطابق زندگی گذارنا نصیب نہ ہو، تھوڑی دیر میں بولا، یہ تو سنا ہے کہ پرانے بزرگوں سے بڑے درجہ کی تمنا اور دعا نہیں کرنی چاہئے، مگر پیارے نبی ﷺ کی محبت میں آ پ ﷺکی نقل تو کرسکتے ہیں، اگر میں اپنے دو دانت نکلوادوں تو کیساہے، میرا دل بہت چاہتا ہے، ہم اتنا تو کرسکتے ہیں ۔ فلائٹ کا وقت قریب تھا مجھے پکڑ کر کمرے میں لے گیا اور دروازہ بند کرکے بولا، پیارے نبی کے صحابہ اس طرح کرتے تھے، آپ پہلے ہمارے لئے دعا کیجئے میں آمین کہوں، پھر میں دعا کروں گا آپ آمین کہیں، میں نے کہا بتاؤ کیا دعا کروں ؟ بولا یہ دعا کیجئے اللہ تعالی مجھے ایسا نورانی مسلمان بنادے کہ جو مجھے دیکھ لے وہ مسلمان ہوجائے، میں نے دعاکی اللہ تعالی کرے جس کو تم دیکھو وہ داعی بن جائے، اور جو تم کو دیکھ لے وہ داعی بن جائے، دل کی گہرائی سے آمین کہہ کر سبحان اللہ کہا پھر دیر تک الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرتا رہا میرے اللہ اپنی ایسی محبت ایسا عشق ایسی دیوانگی عطا فرمادے کہ بس آپ کے علاوہ کوئی دکھائی نہ دے۔
ان دونوں نوجوانوں کے ساتھ کچھ وقت گذار کر ایسا لگا جیسے ایمان پر آب آگئی ہو، پراناخون جب مردہ اور خراب ہوجائے تو اس کو نئی زندگی نیا خون ہی عطا کرسکتا ہے، اسلام کے دستر خوان کے ان نووارد مہمانوں میں سے ہر ایک کا حال ایک سے بڑھ کر ایک دکھائی دیتا ہے، ہم پرانے مسلمان جہاں مرکزی سنتوں کو اپنی غفلت کا نشانہ بناتے ہیں، وہاں ایک ایک سنت کا جذبہ رکھنے والے، دنیا کو نبی رحمۃ للعالمین کی سنتوں کے سایہ میں لانے والے روز آتے جا رہے ہیں، کاش ہم نگاہ عبرت کھول کر اس سے سبق حاصل کریں ۔
طبیعت باغ باغ ہو گئی، جئیو پیارے
 
Top