یہ غزل اعجاز عبید صاحب کی ''اپنی برہنہ پائی پر'' غزلوں کے مجموعہ لی گئی ہے۔محترم بزرگ اعجاز عبید صاحب کون ہیں ،کیا ہیں۔سچ کہتا ہوں مجھے زیادہ نہیں معلوم ۔جو کچھ معلوم ہے شیئر کرتا ہوں ۔کاش بطور تحدیث با النعمۃ محترم الغزالی کے قارئین سے اپناتعارف کر ادیتے۔ اعجاز عبید صاحب حیدرآباد شہر کے رہنے والے تاریخ ساز شخصیت ہیں،اکیلے دم پر وہ کام کیا شاید ایک اکاڈمی کےبھاری بھر کم عملہ کے بس کی بات ہو یقین نہ آئے ''اردو کی برقی کتابیں ویب ''پر ملاحظہ فرمالیں۔مزید کچھ پوچھنا ہو موصوف الغزالی کی سر پرستی کیلئے اعجاز عبید کے نام سے رجسٹرڈ ہوئے ہیں اپنی تشنگی بجھا سکتے ہیں۔
محترم بزرگ سے معذرت کے ساتھ والسلام
محترم بزرگ سے معذرت کے ساتھ والسلام
اب کتنی فصلیں بیت گئیں ۔۔ اب یاد وہ کیا ہمیں آئیں بھی
وہ زخم جو اب کی بھر بھی گئے ، اب آؤ انہیں سہلائیں بھی
یہ آنکھیں خزاں میں زرد رہیں ۔ یہ آنکھیں بہار میں سرخ رہیں
جب پھول کھلیں تو جل جائیں ۔ جب چاند بجھے مرجھائیں بھی
وہ قافلے شاہ سواروں کے اب دھول اڑاتے گزر گئے
یہ شہر پناہ کھلی رکھو شاید کہ وہ واپس آئیں بھی
اب اور ہمیں دکھ دینے کو وہ شخص نہیں آنے والا
اب بیٹھے اپنے زخم گنیں، اپنے دل کو سمجھائیں بھی
اب تو یہ چاند بھی ڈوب چلا، اب آؤ عبیدؔ ادھر آؤ
دیکھو ۔ یہ الاؤ جلا ہے ادھر ۔۔ بیٹھو ۔۔ کچھ دل بہلائیں بھی
1976ء
***
وہ زخم جو اب کی بھر بھی گئے ، اب آؤ انہیں سہلائیں بھی
یہ آنکھیں خزاں میں زرد رہیں ۔ یہ آنکھیں بہار میں سرخ رہیں
جب پھول کھلیں تو جل جائیں ۔ جب چاند بجھے مرجھائیں بھی
وہ قافلے شاہ سواروں کے اب دھول اڑاتے گزر گئے
یہ شہر پناہ کھلی رکھو شاید کہ وہ واپس آئیں بھی
اب اور ہمیں دکھ دینے کو وہ شخص نہیں آنے والا
اب بیٹھے اپنے زخم گنیں، اپنے دل کو سمجھائیں بھی
اب تو یہ چاند بھی ڈوب چلا، اب آؤ عبیدؔ ادھر آؤ
دیکھو ۔ یہ الاؤ جلا ہے ادھر ۔۔ بیٹھو ۔۔ کچھ دل بہلائیں بھی
1976ء
***