راکا پوشی

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
راکاپوشی کو مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کتاب "ہنزہ داستان" میں برف کا معبد اور خوبصورت ترین پہاڑ قرار دیا ہے۔ بلاشبہ راکاپوشی ایک غیر معمولی حد تک خوبصورت پہاڑ ہے۔ یہ ہنزہ کی وادی کے بالکل سامنے دریائے خنجراب (ہنزہ میں یہ دریائے ہنزہ بھی کہلاتا ہے) کے دوسری طرف واقع ہے۔ اگرچہ کہ راکاپوشی کا مکمل نظارہ ہنزہ سے کیا جا سکتا ہے، لیکن اصل میں راکاپوشی نگر کے علاقے میں واقع ہے۔
کوہِ قراقرم کے عظیم سلسلے میں واقع یہ خوبصورت چوٹی 25550 فٹ یا 7788 میٹر بلند ہے۔ یہ پاکستان میں 12ویں نمبر پر اور دنیا میں 27 ویں نمبر پر بلند چوٹی ہے۔ اسے سب سے پہلے 1958 میں دو برطانوی کوہ پیما مائیک بینکس اور ٹام پیٹی نے سر کیا۔
دلچسپی کے لئے یہ بتاتی چلوں کہ ہنزہ گلگت سے شاہراہِ قراقرم پہ تقریبا" دو گھنٹے کی مسافت پہ واقع ہے۔ گلگت سے نکلیں تو تقریبا" ایک گھنٹے سے کچھ اوپر تک باقی پہاڑوں کے پیچھے چھپے ہونے کی وجہ سے راکاپوشی بالکل بھی نظر نہیں آتی۔ لیکن جونہی ایک موڑ مڑیں تو راکاپوشی کا حیران کن حد تک خوبصورت منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
اس کے بعد ہنزہ تک تمام وقت یہ پہاڑ آپ کے دائیں جانب آپ کو دکھائی دیتا رہتا ہے، لیکن اس کے لئے موسم کا صاف ہونا بہت ضروری ہے ورنہ بادلوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ یہ دکھائی نہ دے۔
شاہراہِ قراقرم پہ ہی ہنزہ سے کچھ پہلے نلت نامی گاؤں کے قریب ایک جگہ آتی ہے جس کو راکاپوشی ویو پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ یہاں سے راکا پوشی کو اس کے بیس سے لے کر چوٹی تک سارا کا سارا دیکھا جا سکتا ہے۔
اس جگہ پہ عموما" سیاحوں کا کافی رش ہوتا ہے۔ کچھ ایڈوینچرس لوگ یہاں سے بھی پہاڑ کے کچھ اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہاں سے زیادہ اوپر تک جانا کافی مشکل ہے۔
ہنزہ پہنچیں تو آپ کو اپنے چاروں جانب بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں نظر آئیں گی۔ یہ دنیا میں واحد شہر ہے جس کے چاروں جانب سات ہزار میٹر سے بلند پہاڑ موجود ہیں۔ ایک طرف اُلتر پیکس ہیں تو دوسری طرف شِسپر اور پسو پیکس اور سامنے کی طرف ایک قطار میں دائیں سے بائیں راکاپوشی گروپ، دیرن پیک، گولڈن پیک، سپانٹک پیک وغیرہ جلوہ افروز ہیں۔
لیکن ان تمام پہاڑوں میں سے راکا پوشی کا منظر سب سے زیادہ سحر انگیز ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ راکاپوشی مکمل ایکسپوزڈ نظر آتی ہے یعنی اس کو آپ اس کی بیس سے ٹاپ تک دیکھ سکتے ہیں
 
Top