آؤ کچھ سیکھیں !

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
آؤ کچھ سیکھیں !
علم حاصل کرنے والے بیشتر طلبا ایک عجیب وغریب بیماری میں مبتلا ہیں ،خصوصاً دینی علوم حاصل کرنے والے لوگ اس مرض کا زیادہ شکار ہیں ،اور اس میں طالب علم اور معلم دونوں شامل ہیں ،اور دونوں ہی اپنے اس مرض سے غافل بھی ہیں ،اور وہ مرض ہے علم کا استعمال نہ کرنا ، غالبا ً آپ یہ سمجھیں کہ یہ تو وہی گھسی پٹی تقریر ہے کہ علم پر عمل کرنا چاہئے،ہر گز نہیں ،اس سے میری مراد یہ نہیں ہے ،بلکہ اس سے میری مراد ہے بوقت ضرورت علم کا مستحضر نہ ہونا ہے،علم پر عمل نہ کرنا اور چیز ہے،ممکن ہے کسی شخص کو کسی لالچ،لذت طلبی ،جاہ طلبی وغیرہ بشری کمزوریوں نے عمل سے روک دیا ہو،لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا بلکہ یہاں توصرف یہ ہوتا ہے کہ علم نے بروقت رہنمائی نہیں کی ،یہاں میں ایک مثال دیکر اپنی اس بات کو واضح کرونگا،ایک مسجد میں جھگڑا ہو گیا ،جس کی بنا بالکل ذرا سی تھی ،نیم سردی کا موسم تھا بعض لوگوں کو پنکھے کی ضرورت تھی ،جبکہ بعض کو ٹھنڈ لگ رہی تھی ،وہ پنکھا چلانے پر بضد تھے،یہ بند رکھنے پر مصر ،ایک صاحب بصیرت نے کہا کہ کمزوروں کا خیال کرو، نہ کہ طاقت وروں کا ،معلوم ہوا کہ پنکھا چلانے کا موقف جوانوں اور قوی لوگوں کا تھا ،جبکہ ضعیف و کمزور بند رکھنا چاہتے تھے،ہماری زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں جب علم کی رہنمائی ہمیں بڑے خسارے سے بچا سکتی ہے ،لیکن نہیں بچاتی ،کیونکہ ہمارا علم ایسے کسی موقع پر بروقت حاضر نہیں ہوتا ، یہ نہایت ہی خطرناک بیماری ہے، خطرناک اس لئے ہے کہ اس کینسر کا ہمیں احساس ہی نہیں ۔
غور کرو اور سوچو کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے؟
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
بالکل درست بات ہے۔ اصل میں ہم کتابوں میں پڑھتے تو ہیں لیکن اس کا اطلاق نہ تو عملی زندگی میں کہیں ہوتا ہے اور نہ ہی تصوراتی زندگی میں۔ عملی زندگی میں تو اکثر مسائل کے اطلاق کا موقع کم آتا ہے لیکن اگر ہر مسئلہ پڑھنے کے ساتھ ذہن میں اس کی صورت مسئلہ متصور کر لی جائے تو وہ مسئلہ کافی حد تک پختہ ہو جاتا ہے ار بوقت ضرورت مستحضر بھی ہوتا ہے۔
دوسرا کام یہ کہ مسائل کو اگر اصول کے ساتھ اور اصول پر منطبق کر کے سیکھا جائے تو وہ بہت کم ذہن سے محو ہوتے ہیں۔
 

طاہر شیخ

وفقہ اللہ
رکن
عملی زندگی میں اطلاق تو جب ہو گا نہ جب اس پر گھر یا مدرسہ سکول میں تربیت کی گئی ہو گی ۔ عام طور پر دنیا کمانا ہی بتایا جاتا ہے دونوں جگہوں پر
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
عملی زندگی میں اطلاق تو جب ہو گا نہ جب اس پر گھر یا مدرسہ سکول میں تربیت کی گئی ہو گی ۔!
غالباً میں اپنی بات کو واضح نہیں کر پایا ،دراصل دنیا کمانے میں بھی بہت سے مواقع آتے ہیں جہاں ہمارا علم ہماری بہت بہتر رہنمائی کر سکتا تھا ،مگر وہ عین وقت پر خاموش ہو بیٹھا ،اور بعد میں جب مکافات شروع ہوئی تو ہاتھ ملتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ دیکھو! ہم بھی کیسے پاگل نکلے،حالانکہ ہم نے یہ بات فلاں جگہ پڑھ رکھی تھی ،فلاں استاذ سے سن رکھی تھی ،لیکن پھر بھی عقل پر پردہ پڑا رہا ،ہم نے بارہا پڑھا کہ بے وقوف کی دوستی سے بچو،کہ یہ عقل مند کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے،لیکن پھر بیوقوف سے معاملہ کر بیٹھے ،وغیرہ، اس کا ایک حل میں نے دریافت کر لیا ہے،آپ بھی غور فرمائیں
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
بالکل درست بات ہے۔ اصل میں ہم کتابوں میں پڑھتے تو ہیں لیکن اس کا اطلاق نہ تو عملی زندگی میں کہیں ہوتا ہے اور نہ ہی تصوراتی زندگی میں۔ عملی زندگی میں تو اکثر مسائل کے اطلاق کا موقع کم آتا ہے لیکن اگر ہر مسئلہ پڑھنے کے ساتھ ذہن میں اس کی صورت مسئلہ متصور کر لی جائے تو وہ مسئلہ کافی حد تک پختہ ہو جاتا ہے ار بوقت ضرورت مستحضر بھی ہوتا ہے۔
دوسرا کام یہ کہ مسائل کو اگر اصول کے ساتھ اور اصول پر منطبق کر کے سیکھا جائے تو وہ بہت کم ذہن سے محو ہوتے ہیں۔
ہاں ،یہ بھی ایک حل ہے،اور خصوصاً ذہین لوگوں کے لئے تو بڑا ہی اچھا ہے،البتہ میرے تجربہ میں اس کا دوسرا حل ہے۔
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
ارشاد فرمائیے۔ آپ کا تجربہ تو ہمارے لیے مشعل راہ ہوگا۔

میں خود اس مرض کا بیمار ہوں ،جب مجھے اپنی اس بیماری کا احساس ہوا تو بہت سوچا ،اللہ تعالیٰ نے اس کا جو حل سجھایا وہ بہت سادہ ہے ،میرا معمول گیارہ بجے سونے کا ہے،دس بجے کا ایک الارم میں نے سیٹ کیا ،اس کا نام ’’ آج کا عمل ‘‘رکھا ،جب یہ الارم مجھے ہوشیار کرتا ہے تو میں پچھلے چوبیس گھنٹوں پر نگاہ دوڑاتا ہوں کہ آج کہاں کہاں ایسا موقع آیا جہاں علم کی رہنمائی موجود ہونے کے باوجود جہالت کے ساتھ فیصلے لئے ،اس عمل سے مجھے اتنا فائدہ ہوا کہ بیان نہیں کر سکتا،چند ہی روز میں الحمد للہ ایسا استحضار شروع ہو گیا کہ کیا کہنے!
 

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
ابہی تک انتطار ھے مظاہری صاحب
جلسوں کی آج کل بھر مار ہے،بعض جلسوں میں جانے کا مجھے بھی موقع مل جاتا ہے ،لہذا فرصت نہیں مل سکی ابھی ،کل سے آج تک کا سفر سات سو کلومیٹر کا کیا ،خود ہی ڈرائیونگ اتنی لمبی کی ،اب بمشکل فورم پر آیاکہ چند منٹ ہی سہی دوستوں سے مل تو لوں ،امید ہے در گذر فرمائیں گے۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
میں خود اس مرض کا بیمار ہوں ،جب مجھے اپنی اس بیماری کا احساس ہوا تو بہت سوچا ،اللہ تعالیٰ نے اس کا جو حل سجھایا وہ بہت سادہ ہے ،میرا معمول گیارہ بجے سونے کا ہے،دس بجے کا ایک الارم میں نے سیٹ کیا ،اس کا نام ’’ آج کا عمل ‘‘رکھا ،جب یہ الارم مجھے ہوشیار کرتا ہے تو میں پچھلے چوبیس گھنٹوں پر نگاہ دوڑاتا ہوں کہ آج کہاں کہاں ایسا موقع آیا جہاں علم کی رہنمائی موجود ہونے کے باوجود جہالت کے ساتھ فیصلے لئے ،اس عمل سے مجھے اتنا فائدہ ہوا کہ بیان نہیں کر سکتا،چند ہی روز میں الحمد للہ ایسا استحضار شروع ہو گیا کہ کیا کہنے!
واہ بہت عمدہ حل ہے۔ ان شاء اللہ میں بھی اس کا اہتمام کرتا ہوں۔
 
Top