آج کل کے اصول حدیث؟

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
آج کل اصول حدیث کے جو معیار قائم ہو چکے ہیں ۔۔۔دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ۔۔۔صحیح معنوں میں محسوس ہوتا ہے کہ۔۔۔علم اس کے اہل کے پاس نہیں ہے ۔۔۔

اس کے جو عملی مظاہرے میرے سامنے ظاہر ہوئے ۔۔۔ان کی تفصیل تو بہت طویل ہے ۔۔۔۔بس اشارے دیتا ہوں ۔۔۔

۔ مثلاََ

۱۔مرسل حدیث ۔۔۔جمہور علما کے نزدیک ۔۔۔قابل عمل تھی ۔۔۔اگر بعض شوافع محدثین اس بارے میں خلاف بھی تھے تو الفاظ کی حد تک۔۔۔عملی طور پہ وہ بھی اس پر عمل کرتے ہی تھے ۔۔۔
لیکن آج کل کوئی حنفی ، مالکی ، حنبلی بھی اس بارے میں اپنے کو مغلوب ہی سمجھتا ہے ۔۔۔او راس کا ذہن اس کو شاید قبول نہیں کرتا۔۔۔

۲۔ حدیث کی قسمیں ۔۔۔۔صحیح ، حسن ، ضعیف ، موضوع۔۔پہلے ہوتی تھیں ۔۔۔
اب آج کل عملی طور پہ دوہی ۔۔رہ گئیں ۔۔۔ایک صحیح ۔۔۔۔اور دوسری موضوع۔۔۔
حسن کہنے کا تو تکلف ہی ہے ۔۔۔وہ صحیح ہی مطلب ہوتا ہے ۔۔۔آج کل۔۔۔
ضعیف کا بھی تکلف ہی ہے ۔۔۔۔دراصل موضوع ہی سمجھی جاتی ہے ۔۔۔عملی طور پہ ۔۔۔یعنی کہیں قابل عمل نہیں سمجھی جاتی ۔۔۔اور ہر طبقے میں ۔۔۔

۳۔ تلقی بالقبول ۔۔۔۔۔آج کل کوئی چیز نہیں ۔۔۔۔یہ سلف کی کتب میں ایک فضیلت کا لفظ ہوتا ہوگا۔۔۔

۴۔آج کل سلف و خلف محدثین کی تصحیح ، ضعیف کی کوئی خاص حیثیت نہیں ۔۔۔۔۔۔بس راوی کے ذریعے خود پتا چلانا ہے ۔۔۔اگر کوئی تصحیح نقل بھی کرے تو اعتماد کسی کا نہیں ۔۔۔عملی طور پہ ۔۔۔۔یہ تو محدثین ہوئے ۔۔۔فقہا تو کسی شمار میں نہیں ۔۔۔

آج کل یہ طے شدہ بات ہے ۔۔۔۔فقہا اور محدثین بالکل مختلف چیزیں ہیں ۔۔۔فقہا کا حدیث سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔اور محدثین کو فقہ کی ضرورت ہی نہیں ۔۔۔۔۔

چاہے کسی بھی مسلک کے علما ہوں ۔۔۔زبانی تو بہت فضیلت بیان ہوگی ۔۔۔لیکن عملی طور پہ ذہن قبول نہیں کرتا ۔۔۔

۵۔سند دین ہے ۔۔۔آج کل بہت مشہور جملہ ہے ۔۔۔صحیح ہے ۔۔۔لیکن تعامل بھی کچھ دین ہے ۔۔۔اس کے بارے میں خاموشی ۔۔۔۔نہ صرف خاموشی ۔۔بلکہ کوئی حیثیت نہیں ۔۔۔براہ راست اس کا انکار نہیں ۔۔۔بلکہ یہ بھی فضائل کا جملہ بن گیا ہے ۔۔۔عملی طور پہ اس کا کوئی وزن نہیں ۔۔۔

اور اس میں اہم بات یہ ہے میں واقعتاََ کسی خاص متشدد مزاج کے بارے میں ہی نہیں کہہ رہا ۔۔۔آج کل تمام علما و طلبا کا مزاج یہی بن چکا ہے ۔۔۔

۶۔ جرح و تعدیل میں ۔۔۔جرح مفسر ۔۔۔ کی اصطلاح کا کہاں استعمال ہے ۔ ۔۔معلوم نہیں ۔۔ عام عددی جمہوریت سے معاملہ طے کیا جاتاہے ۔
7۔ مسئلہ تدلیس سلف سے پوری طرح حل نہیں ہو سکا۔ ابھی اس پہ مزید تحقیق باقی ہے ۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
۸۔ جس راوی پہ کوئی جرح ہے ۔چاہے وہ بہت بڑا محدث اور فقیہ بھی ہے ۔ اگر اس پہ جرح ہے تو اس کی احادیث چاہے ہزاروں میں ہوں کہیں بھی صحیح نہیں ہوسکتی ۔
مثلاََ کوفہ کے فقہا محدثین حماد بن ابی سلیمانؒ کی روایات ۳۰۰۰ سے بھی زیادہ ہوں گی ۔اور ابن ابی لیلیؒ کی ۱۵۰۰ سے بھی زیادہ ہوں گی ۔
لیکن موجودہ محققین عجیب لکیر کے فقیر ہیں ۔ بس ایک نتیجہ نکال چکے ۔۔کہیں ان کی روایت کو حسن بھی نہیں کہہ پاتے ۔
ان دونوں کی تو مثال ہے ۔ اور بہت سے راوی ہیں ۔ بس مزاج کا ذکر کر رہا ہوں ۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
۸۔ جس راوی پہ کوئی جرح ہے ۔چاہے وہ بہت بڑا محدث اور فقیہ بھی ہے ۔ اگر اس پہ جرح ہے تو اس کی احادیث چاہے ہزاروں میں ہوں کہیں بھی صحیح نہیں ہوسکتی ۔
مثلاََ کوفہ کے فقہا محدثین حماد بن ابی سلیمانؒ کی روایات ۳۰۰۰ سے بھی زیادہ ہوں گی ۔اور ابن ابی لیلیؒ کی ۱۵۰۰ سے بھی زیادہ ہوں گی ۔
لیکن موجودہ محققین عجیب لکیر کے فقیر ہیں ۔ بس ایک نتیجہ نکال چکے ۔۔کہیں ان کی روایت کو حسن بھی نہیں کہہ پاتے ۔
ان دونوں کی تو مثال ہے ۔ اور بہت سے راوی ہیں ۔ بس مزاج کا ذکر کر رہا ہوں ۔
اس بات کی اگر تھوڑی وضاحت ہو جائے۔ جابر جعفی کی احادیث بھی ہزاروں میں ہیں لیکن انہیں صحیح نہیں کہا گیا۔ کیا وہ بھی حسن کے درجے کو پہنچ جائیں گی؟
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
اس بات کی اگر تھوڑی وضاحت ہو جائے۔ جابر جعفی کی احادیث بھی ہزاروں میں ہیں لیکن انہیں صحیح نہیں کہا گیا۔ کیا وہ بھی حسن کے درجے کو پہنچ جائیں گی؟
ادھر زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ بس ایک اجمالی تبصرہ کرنا ہے ۔ ورنہ ان پوائنٹس پہ پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔

میں نے اسی لئے مثال ہی ان دو کی چنی ہے جو بہت اونچے درجے کے فقہا اور محدثین ہیں ۔ ان دونوں کے بارے میں شاید کوئی مجھ پہ مسلکی حمایت کا الزام نہ لگا دے ۔ آج کل ایک اور مسئلے میں ایک راوی کی تحقیق کرنی پڑی۔۔۔ ان کا ترجمہ مختصراََ پیش ہے ۔
شهر بن حوشبؒ
کبار تابعین میں سے ہیں ۔ایک صحابیہؓ کے (مولی)آزاد کردہ غلام ہیں۔ بہت سے جلیل القدر صحابہؓ سے روایت کرتے ہیں ۔
مثلاََ ام المؤمنین عائشہؓ و ام سلمۃؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، ابی سعید خدریؓ ، ابو ہریرۃؓ اور بہت سے صحابہؓ۔۔
انہوں نے قرآن ابن عباس ؓ سے پڑھا۔
بقول ذہبی ؒ حضرت بلالؓ ، ابو ذرؓ ، سلمانؓ اور کئی اورصحابہؓ سے مرسلاََ بھی روایت کرتے ہیں ۔
امام احمدؒ ان کی توثیق کرتے ہیں ۔امام یحیی بن معین ؒثبت کہتے ہیں۔
امام ترمذیؒ ۔۔امام بخاریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ حسن الحدیث ہیں۔
صحیح مسلم میں بھی ان کی حدیث ہے ۔
معمولی جرح بھی ہے ان پر۔ذہبیؒ فرماتے ہیں
الرجل غير مدفوع عن صدق وعلم والاحتجاج به مترجح
ذہبیؒ خود بھی سیر اعلام النبلا ۲۔۳۰۹ پہ شھر من حوشبؒ کی سند سے روایت کر کے فرماتے ہیں
وهو حديث حسن صحيح الإسناد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن آپ سیر اعلام النبلا کے محققین جو سلفیین میں متشدد نہیں سمجھے جاتے (بلکل شیخ البانی وغیرہ تو انہیں حنفی متعصب بھی کہہ جاتے ہیں )۔ یعنی شیخ شعیب ارنووط اور ان کی رفقا۔۔
وہ نتیجہ قائم کر چکے ہیں کہ شہر بن حوشبؒ ضعیف ہیں ۔ اور سیر میں جہاں کہیں ان کی روایت ہو اسے اسناد ضعیف کہتے جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

جابر جعفی کی مثال تو ظاہر ہے یہاں نہیں دی جاسکتی ۔ اس پہ تو بڑی سخت جرح ہے ۔
ہاں لیکن میں اپنی ذاتی رائے جو مجھے نظر آتی ہے ( جس میں غلطی کا قوی امکان ہے ) ۔ وہ امام سفیانؒ ، شعبہؒ اور احمدؒ سے حسن ظن رکھتے ہوئے یہ ہے کہ ان ائمہ نے اس کی وہی روایات لی ہوں گی ۔۔۔جن کی صحت کا انہیں معلوم ہوگا۔ یا دوسرے تائید کرتے ہوں ۔ جیسے ہم صحیح بخاریؒ کے روات کو پل سے پار سمجھتے ہیں ۔ لیکن نعیم بن حماد۔۔۔۔۔
اسی طرح امام مالکؒ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے عبد الکریم بن ابی المخارق۔۔۔سے روایت کی جو ضعیف۔۔۔
عبد الکریم سے امام ابو حنیفہؒ کتاب الآثار میں بھی روایت کرتے ہیں ۔
یا حسن بن عمارہؒ کے سارے ہی خلاف ہیں ۔ائمہ احناف ان کی توثیق کرتے ہیں ۔ لیکن کتب جرح و تعدیل میں یہ مشہور نہیں ۔
عبد الکریم ؒ اور حسن بن عمارہؒ دونوں کے بارے میں امام قدوریؒ نے التجرید میں ثقاہت کے لئے بس یہی کہا کہ ہمارے ائمہ ان سے حدیث لیتے ہیں ۔
 
Last edited:

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
۹۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا ایک زبردست جملہ ہے وہ بھی آج کل کے اصول حدیث پہ صادق آتا ہے ۔
’’اسانید کا نظام اس لئے ہے کہ کچھ ایسی بات جو دین میں سے نہیں ۔۔۔۔دین میں نہ گھس آئے
نہ کہ اس لئے کہ ثابت شدہ دین کی بات کو ۔۔۔۔۔دین سے باہر نکالا جائے ‘‘(مفہوم)
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
ایک اور مشہور راوی کی مثال ہے ۔محمد بن اسحاقؒ
ان کی بارے میں متفق علیہ ہوگیا ہے آج کل کہ وہ ثقہ ہیں ۔ چلو ٹھیک ہے ۔
لیکن ان کی واضح غلطی کا کیا کریں ۔۔ فاتحہ خلف الامام میں چلو بفرض ہم قرآن مجید کو مقید کر لیتے ہیں ۔
لیکن مسند احمد میں ایک روایت میں ایک میں وہ منفرد ہیں کہ ام المومنینؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات پر منہ پیٹا تھا جو کہ ماتم جیسا ہی ہوا ۔ اس کا کیا کریں ۔ اور ان پہ کئی علما نے واضح تشیع کی جرح بھی کی ہے ۔
لیکن آج کل وہ بھی اسناد صحیح۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
ایک اور مشہور راوی کی مثال ہے ۔محمد بن اسحاقؒ
ان کی بارے میں متفق علیہ ہوگیا ہے آج کل کہ وہ ثقہ ہیں ۔ چلو ٹھیک ہے ۔
لیکن ان کی واضح غلطی کا کیا کریں ۔۔ فاتحہ خلف الامام میں چلو بفرض ہم قرآن مجید کو مقید کر لیتے ہیں ۔
لیکن مسند احمد میں ایک روایت میں ایک میں وہ منفرد ہیں کہ ام المومنینؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات پر منہ پیٹا تھا جو کہ ماتم جیسا ہی ہوا ۔ اس کا کیا کریں ۔
لیکن آج کل وہ بھی اسناد صحیح۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا
اگر بات حوالہ کے ساتھ ہو تو کیا خوب ہوگا۔ بوقت ضرورت بجائے نئے سرے سے تلاش کرنے کے یہاں سے دیکھ لینا کافی ہوگا۔
مثال کے طور پر اوپر جو نکات بیان کیے گئے ہیں وہ مسائل یقینا بہت سے آج کل کے علماء میں ہوں گے لیکن اس کا استحضار تو کسی کو نہیں رہتا کہ کہاں کس نے ایسی بات کی ہے۔ پھر جب مجالس میں یا ابحاث میں بات کرنی ہو تو مثال پیش کرنی پڑتی ہے۔ تو اگر ساتھ ساتھ البانیؒ و دیگر کی کتب سے حوالہ جات بھی ہو جائیں تو ان شاء اللہ بہت نافع ہوں گے۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
ابن اسحاق والی بات کا حوالہ یہ ہے ۔ مسند ۴۳۔۳۶۸
26348 - حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادٍ، قَالَ:
سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: " مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَحْرِي، وَنَحْرِي وَفِي دَوْلَتِي، لَمْ أَظْلِمْ فِيهِ أَحَدًا، فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي أَنَّ رَسُولَ اللهِ قُبِضَ وَهُوَ فِي حِجْرِي، ثُمَّ وَضَعْتُ رَأْسَهُ عَلَى وِسَادَةٍ، وَقُمْتُ أَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَاءِ، وَأَضْرِبُ وَجْهِي " (1)
آگے محترم محقق کا تکلف بھی دیکھیں ۔
(1) إسناده حسن من أجل ابن إسحاق: وهو محمد، وقد صرح بالتحديث هنا، فانتفت شبهة تدليسه. وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين غير يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير أخرج له أصحاب السنن، وهو ثقة، يعقوب: هو ابن إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف.
وأخرجه أبو يعلى (4586) ، والبيهقي في "الدلائل" 7/213 من طريقين عن ابن إسحاق، بهذا الإسناد.
وأخرجه مختصراً ابن سعد 2/261-262 و262 من طريق عيسى بن معمر، وأبي الأسود، كلاهما عن عباد بن عبد الله، عن عائشة، به. قلنا: لكن في طريقهما الواقدي، وهو متروك.
وأخرجه ابن سعد 2/262 من طريق زيد بن أبي عتاب، عن عروهَ، عن عائشة، به. قلنا: وفي طريقه الواقدي كذلك، وهو متروك.
وقد سلف نحوه برقم (24039) و (24216) .
قلنا: وقولها: وقمت ألتدم مع النساء وأضرب وجهي. فيه نكارة ولم نجده إلا في هذه السياقة، والسيدة عائشة زوجة النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يخفى عليها حديث ابن مسعود مرفوعاً: ليس منا من ضرب الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية" وهو حديث صحيح سلف في مسند ابن مسعود برقم (3658) ، وقال السندي في تفسيره هناك: ليس منا، أي: ليس من أهل طريقتنا وسنتنا.

یعنی ابن اسحاقؒ کی روایت میں سب سے اہم چیز بس ان کی تحدیث دیکھنا ہے ۔ جس پہ آج کل کے اصول حدیث کا سب سے اہم مسئلہ ہے ۔ باقی یہ کہ ان پہ تشیع کی جرح بھی ہے اور کئی علما نے کی ہے ۔ اس پہ توجہ نہیں ۔
ٹھیک ہے آگے کچھ دبی دبی وضاحت کی ہے ۔ کیا اس مسئلہ میں یوں ترتیب ہونی چاہیے ۔ کہ شروع اسناد حسن سے ہو ۔۔کافی آگے جاکہ فیہ نکارہ کہو۔ بلکہ اگر آپ کے نزدیک ثقہ بھی ہے تو یوں کہیں ۔۔متن منکر ۔۔ہذا اسناد حسن ۔۔۔
حالانکہ اس کی بھی ضرورت نہیں ۔ بلکہ جب ان کی عن والی روایت کو ضعیف کہتے ہیں تو تشیع والی بدرجہ اولی ضعیف کہنی چاہیے ۔ اور اس کا تو آخری حصہ وَأَضْرِبُ وَجْهِي موضوع سے کم نہیں ۔
اور میں نے کئی شیعہ فورم پہ اس کو اسناد صحیح کے پروپیگنڈے کے ساتھ دیکھا بھی ہے ۔
 
Last edited:

مظاہری

نگران ای فتاوی
ای فتاوی ٹیم ممبر
رکن
ابن اسحاق والی بات کا حوالہ یہ ہے ۔ مسند ۴۳۔۳۶۸
۔
بات اپنی اصل اور موضوع سے دور ہوتی جارہی ہے،سو کی ایک ہی بات ہے کہ بے امامے مقتدیوں نے فن فقہ کو تو الوداع کہا ہی تھا حدیث کے فن کو بھی لے ڈوبے،لیکن یہاں اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جس کی بنا پر شیخ البانی ہی امام کل قرار پا گئے ،جس کو وہ ضعیف کہدیں وہ ضعیف ،جسے صحیح قرار دیدیں سو صحیح؟
پیارو اگر اس نکتہ پر غور کر سکو اور تشخیص کے بعد اس کا کوئی مداوا کر و تو بات بنے،ورنہ اس سے صرف اس بات کا اظہار ہو گاکہ آپ واقعی ایک زبردست عالم ہیں ،آپ کی نگاہ تیز ہے،یقیناً یہ بھی اچھی بات ہے ،لیکن اس سے اصل نفع کی امید نہیں ۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
مظاہری بھائی ۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ میں شیخ البانی وغیرہ کی فی الحال بات نہیں کررہا ۔
بلکہ جیسا کہ اوپر واضح کیا کہ الشيخ شعيب الارنؤوط اور ان كے شاگردوں کی بات کر رہا ہوں ۔ جن کو بعض جگہہ حنفی بھی کہا جاتا ہے ۔
اور دوسری بات آپ کی ۔۔۔اس کے بارے میں عرض ہے کہ ہم جیسے جاہل تو اپنے دل کا غبار ہی نکال سکتے ہیں ۔
البتہ دل سے دعا سے ہے اور امید بھی ہے کہ ۔۔کئی سالوں سے جامعہ دار العلوم کراچی میں مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی نگرانی میں جو احادیث کا موسوعہ تیار ہو رہا ہے ۔۔وہ اسلاف کی اصل سے جڑا ہو۔ سلف و خلف کے محقق علماء کے طرز پہ تحقیق ہو۔ ۔۔آمین
 
Last edited:

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب کے مقدمہ میں ایک جگہہ قاعدہ بتایا کہ جس راوی کو وہ مقبول کہیں ۔۔وہ راوی متابعت کا محتاج ہوتاہے ۔ اس قاعدہ کا اطلاق اکثر حضرات کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن کئی جگہہ یہ صحیح نہیں لگتا۔۔اور پھر ان کے اقوال کا تتبع کیا جائے تو حافظ ؒ خود اس پر قائم نہیں رہے ۔۔۔اور یہ تعارض ہے ۔۔۔۔لیکن اگر ان کا اجتہاد تسلیم کریں تو تعارض نہیں لگے گا یہ ان کا اجتہاد ہے ۔

تقريب التهزيب بہت بنیادی مرجع ہے ۔۔اس لئے کے اس میں خلاصہ اور نتیجہ پیش کیا گیا ہے ۔ لیکن صرف اسی کو مد نظر رکھ کر حافظؒ کے خیالات کے ہم اصول و قواعد نہیں بنا سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور بات یاد آئی ۔۔۔۔کہ تقریب چونکہ مشہور اور بہت زیادہ رجوع کرنے والی کتاب ہے اس پر دور حاضر کے دو مشہور محققین نے تحرير تقريب التهذيب کے نام سے کام کیا ہے ۔ دکتور بشار اور دکتور شعیبؒ ۔۔۔۔اور یہ کتاب مشہور بھی بہت ہو گئی ہے ۔ کہ انہوں نے حافظ ؒ کے نتیجے پر نتیجہ نکالا ہے ۔۔۔کہیں اختلاف ہے کہیں اتفاق۔۔۔اس کی ایک چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

حافظؒ کی مقبول کی ایک اصطلاح ہے ۔ جو انہوں نے مقدمہ میں کچھ بیان کی ہے ۔۔۔اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کا اطلاق ہر جگہہ نہیں ہوسکتا ۔ خود حافظؒ اس پر قائم نہیں رہے ہر جگہہ ۔ بہر حال اکثر جگہہ وہ ایسے راوی جن کی توثیق و تضعیف منقول نہیں ہوتی ۔۔یا بہت کم نادر الفاظ سے ان کا تعارف ہو ۔۔۔لیکن اس راوی کا طبقہ ایسا ہو یا کچھ خارجی وجوہات کی بنا پر وہ راوی مجہول کہلانے کا حق دار نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔وہ اسے مقبول کہتے ہیں ۔۔ہر جگہہ نہیں کئی جگہہ اور یہ بھی میرے کچھ تتبع کے مطابق ۔۔اور یہ انداز بالکل صحیح ہے ۔۔یہی ایک صاحب علم اور وسیع النظر محدث بلکہ کسی درجہ میں اپنا اجتہادی نظریہ رکھنے والے امام کے شایان شان ہے ۔۔۔

لیکن ان دو باقیوں کی نسبت کچھ معتدل محققین یعنی تحرير تقريب التهذيب کے مصنفین اکثر جگہہ حافظؒ کے قرار دئے ہوئے مقبول راویوں کو مجہول کہتے جاتے ہیں ۔

اب یہ تو ہو سکتا ہے کہ حافظؒ کے پاس ایک خبر نہ پہنچی اور دور حاضر کے محققین تک پہنچ گئی تو ۔۔۔نیا علم حاصل ہونے پر تو ان کی رائے پر اضافہ یا اختلاف کیا جانا چاہیے ۔

بھلا عدم علم بھی کوئی دلیل ہے خصوصاََ آج کل جب اکثر کتب مفقود ہیں۔۔۔کہ حافظ ؒ ایک راوی کو مقبول کہیں ۔اور ہم کہیں کہ نہیں بھئی ان کے تعدیلی اقوال ہمیں نہیں ملے تو یہ مجہول ہے ۔
واللہ اعلم۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب کے مقدمہ میں ایک جگہہ قاعدہ بتایا کہ جس راوی کو وہ مقبول کہیں ۔۔وہ راوی متابعت کا محتاج ہوتاہے ۔ اس قاعدہ کا اطلاق اکثر حضرات کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن کئی جگہہ یہ صحیح نہیں لگتا۔۔اور پھر ان کے اقوال کا تتبع کیا جائے تو حافظ ؒ خود اس پر قائم نہیں رہے ۔۔۔اور یہ تعارض ہے ۔۔۔۔لیکن اگر ان کا اجتہاد تسلیم کریں تو تعارض نہیں لگے گا یہ ان کا اجتہاد ہے ۔

تقريب التهزيب بہت بنیادی مرجع ہے ۔۔اس لئے کے اس میں خلاصہ اور نتیجہ پیش کیا گیا ہے ۔ لیکن صرف اسی کو مد نظر رکھ کر حافظؒ کے خیالات کے ہم اصول و قواعد نہیں بنا سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور بات یاد آئی ۔۔۔۔کہ تقریب چونکہ مشہور اور بہت زیادہ رجوع کرنے والی کتاب ہے اس پر دور حاضر کے دو مشہور محققین نے تحرير تقريب التهذيب کے نام سے کام کیا ہے ۔ دکتور بشار اور دکتور شعیبؒ ۔۔۔۔اور یہ کتاب مشہور بھی بہت ہو گئی ہے ۔ کہ انہوں نے حافظ ؒ کے نتیجے پر نتیجہ نکالا ہے ۔۔۔کہیں اختلاف ہے کہیں اتفاق۔۔۔اس کی ایک چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

حافظؒ کی مقبول کی ایک اصطلاح ہے ۔ جو انہوں نے مقدمہ میں کچھ بیان کی ہے ۔۔۔اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس کا اطلاق ہر جگہہ نہیں ہوسکتا ۔ خود حافظؒ اس پر قائم نہیں رہے ہر جگہہ ۔ بہر حال اکثر جگہہ وہ ایسے راوی جن کی توثیق و تضعیف منقول نہیں ہوتی ۔۔یا بہت کم نادر الفاظ سے ان کا تعارف ہو ۔۔۔لیکن اس راوی کا طبقہ ایسا ہو یا کچھ خارجی وجوہات کی بنا پر وہ راوی مجہول کہلانے کا حق دار نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔وہ اسے مقبول کہتے ہیں ۔۔ہر جگہہ نہیں کئی جگہہ اور یہ بھی میرے کچھ تتبع کے مطابق ۔۔اور یہ انداز بالکل صحیح ہے ۔۔یہی ایک صاحب علم اور وسیع النظر محدث بلکہ کسی درجہ میں اپنا اجتہادی نظریہ رکھنے والے امام کے شایان شان ہے ۔۔۔

لیکن ان دو باقیوں کی نسبت کچھ معتدل محققین یعنی تحرير تقريب التهذيب کے مصنفین اکثر جگہہ حافظؒ کے قرار دئے ہوئے مقبول راویوں کو مجہول کہتے جاتے ہیں ۔

اب یہ تو ہو سکتا ہے کہ حافظؒ کے پاس ایک خبر نہ پہنچی اور دور حاضر کے محققین تک پہنچ گئی تو ۔۔۔نیا علم حاصل ہونے پر تو ان کی رائے پر اضافہ یا اختلاف کیا جانا چاہیے ۔

بھلا عدم علم بھی کوئی دلیل ہے خصوصاََ آج کل جب اکثر کتب مفقود ہیں۔۔۔کہ حافظ ؒ ایک راوی کو مقبول کہیں ۔اور ہم کہیں کہ نہیں بھئی ان کے تعدیلی اقوال ہمیں نہیں ملے تو یہ مجہول ہے ۔
واللہ اعلم۔
درست بات ہے۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
اوپر ابن اسحاق کی ایک منکر روایت پر گفتگو کرتے ہوئے ۔۔۔شیخ شعیب الارنؤوط ؒ کے بارے میں انجانے میں بہت

غیر مناسب انداز میں تبصرہ ہوگیا ہے ۔۔۔کیونکہ دوسرے اکثر حضرات کے مقابلے میں ان کا حکم لگانا باقیوں کی نسبت بہت بہتر ہے ۔۔کہ انہوں نے نکارت کی باقاعدہ وضاحت کی ہے ۔۔اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے ۔۔۔دوسرے محققین اسنادہ حسن کہہ کر خاموشی سے آگے گزر جاتے ہیں ۔۔

اور اِنہوں نے بہت اچھی وضاحت کی ہے اس عبارت میں ۔۔۔

قلنا: وقولها: وقمت ألتدم مع النساء وأضرب وجهي. فيه نكارة ولم نجده إلا في هذه السياقة، والسيدة عائشة زوجة النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يخفى عليها حديث ابن مسعود مرفوعاً: ليس منا من ضرب الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية" وهو حديث صحيح سلف في مسند ابن مسعود ؓ

اور اس کی مزید تائید کے لئے مصنف عبد الرزاق میں یہ حدیث ام المؤمنین ؓ سے خود بھی مروی ہے ۔
یہ بھی سارے راوی مشہور اور ثقہ ہیں۔

6683 - عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الْجُيُوبَ، وَضَرَبَ الْخُدُودَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ»
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
ابن اسحاق والی بات کا حوالہ یہ ہے ۔ مسند ۴۳۔۳۶۸
26348 - حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادٍ، قَالَ:
سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: " مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَحْرِي، وَنَحْرِي وَفِي دَوْلَتِي، لَمْ أَظْلِمْ فِيهِ أَحَدًا، فَمِنْ سَفَهِي وَحَدَاثَةِ سِنِّي أَنَّ رَسُولَ اللهِ قُبِضَ وَهُوَ فِي حِجْرِي، ثُمَّ وَضَعْتُ رَأْسَهُ عَلَى وِسَادَةٍ، وَقُمْتُ أَلْتَدِمُ مَعَ النِّسَاءِ، وَأَضْرِبُ وَجْهِي " (1)
آگے محترم محقق کا تکلف بھی دیکھیں ۔
(1) إسناده حسن من أجل ابن إسحاق: وهو محمد، وقد صرح بالتحديث هنا، فانتفت شبهة تدليسه. وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين غير يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير أخرج له أصحاب السنن، وهو ثقة، يعقوب: هو ابن إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف.
وأخرجه أبو يعلى (4586) ، والبيهقي في "الدلائل" 7/213 من طريقين عن ابن إسحاق، بهذا الإسناد.
وأخرجه مختصراً ابن سعد 2/261-262 و262 من طريق عيسى بن معمر، وأبي الأسود، كلاهما عن عباد بن عبد الله، عن عائشة، به. قلنا: لكن في طريقهما الواقدي، وهو متروك.
وأخرجه ابن سعد 2/262 من طريق زيد بن أبي عتاب، عن عروهَ، عن عائشة، به. قلنا: وفي طريقه الواقدي كذلك، وهو متروك.
وقد سلف نحوه برقم (24039) و (24216) .
قلنا: وقولها: وقمت ألتدم مع النساء وأضرب وجهي. فيه نكارة ولم نجده إلا في هذه السياقة، والسيدة عائشة زوجة النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يخفى عليها حديث ابن مسعود مرفوعاً: ليس منا من ضرب الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية" وهو حديث صحيح سلف في مسند ابن مسعود برقم (3658) ، وقال السندي في تفسيره هناك: ليس منا، أي: ليس من أهل طريقتنا وسنتنا.

یعنی ابن اسحاقؒ کی روایت میں سب سے اہم چیز بس ان کی تحدیث دیکھنا ہے ۔ جس پہ آج کل کے اصول حدیث کا سب سے اہم مسئلہ ہے ۔ باقی یہ کہ ان پہ تشیع کی جرح بھی ہے اور کئی علما نے کی ہے ۔ اس پہ توجہ نہیں ۔
۔۔۔۔اس مسئلہ میں یوں ترتیب ہونی چاہیے ۔ کہ شروع اسناد حسن سے ہو ۔۔کافی آگے جاکہ فیہ نکارہ کہو۔ بلکہ اگر آپ کے نزدیک ثقہ بھی ہے تو یوں کہیں ۔۔متن منکر ۔۔ہذا اسناد حسن ۔۔۔
حالانکہ اس کی بھی ضرورت نہیں ۔ بلکہ جب ان کی عن والی روایت کو ضعیف کہتے ہیں تو تشیع والی بدرجہ اولی ضعیف کہنی چاہیے ۔ اور اس کا تو آخری حصہ وَأَضْرِبُ وَجْهِي موضوع سے کم نہیں ۔
اور میں نے کئی شیعہ فورم پہ اس کو اسناد صحیح کے پروپیگنڈے کے ساتھ دیکھا بھی ہے ۔

ابن اسحاق ہی کی ایک اور روایت متعصب شیعہ حضرات نے دلیل طور پہ طنز کرتے ہوئے پیش کی ہے جو ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے ۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَقَدْ نَزَلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَاعَةُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، وَلَقَدْ كَانَ فِي صَحِيفَةٍ تَحْتَ سَرِيرِي، فَلَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَتَشَاغَلْنَا بِمَوْتِهِ، دَخَلَ دَاجِنٌ فَأَكَلَهَا
یعنی آیت رجم اور رضاعت کبیر والی آیت ایک کاغذ پر تھی جسے بکری کھا گئی ۔۔۔
یہ انتہائی ضعیف اور منکر روایت ہے اور صحیح احادیث کے خلاف ہے ۔
لیکن دور حاضر کے محققین کو پھر مشکل پیش آئی ہے ۔جس سے مخالف کو دلیل ملتی ہے ۔ شیخ البانی مرحوم نے اسے حسن کہہ دیا ہے ۔
البتہ یہاں پر مسند احمد کے حاشیہ میں شیخ شعیب ارنوؤطؒ نے اسےضعیف قرار دیا ہے ۔
إسناده ضعيف لتفرد ابن إسحاق - وهو محمد - وفي متنه نكارة
اور ابن ماجہ کی تحقیق میں
لا يصح، تفرد به محمَّد بن إسحاق -وهو المطلبي- وفي متنه نكارة
یعنی یہ حدیث ضعیف ہے اور اس میں ابن اسحاق منفرد ہے اور اس کے متن میں نکارت پائی جاتی ہے ۔
لیکن شیخ شعیب اس سے پچھلی اور اگلی بعض احادیث میں ابن اسحاق کی احادیث کو حسن کہتے جاتے ہیں ۔
ٹھیک ہے کسی ثقہ کی روایت بھی ضعیف ہو سکتی ہے ۔ اور متن میں نکارت اور دوسروں کی مخالفت بھی وجہ ہے ۔
لیکن اس کے ساتھ ابن اسحاق جن پر تشیع کی واضح جرح ہے۔ اس کا واضح ذکر کرنا چاہیے ۔
تدلیس کی طرح تشیع کا اصول ان پر لاگو کردیا جائے تو شیخ البانی کو بھی حسن نہ کہنا پڑتا ۔
اور نہ کسی کو تناقض کا الزام دینے کا موقع ملے ۔
حافظ ابن حجرؒ نے تقریب جیسی مختصر کتاب میں ان پر مختصر حکم لگانے میں بھی ان کے تشیع کا ذکر کیا ہے
محمد ابن إسحاق ابن يسار أبو بكر المطلبي مولاهم المدني نزيل العراق إمام المغازي صدوق يدلس ورمي بالتشيع والقدر
اور حافظذہبیؒ نے بھی سیر اعلام النبلا میں ان پر جروح میں پہلے پر ذکر کیا ہے ۔
وقد أمسك عن الاحتجاج بروايات ابن إسحاق غير واحد من العلماء لأشياء ، منها : تشيعه ، ونسب إلى القدر ، ويدلس في حديثه ، فأما الصدق ، فليس بمدفوع عنه
واللہ اعلم۔
 
Top