رھوڈز کا مجسمہ

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
رھوڈز ایک یونانی جزیرے کا نام ہے، جو جنوب مشرقی ترکی سے اندر کی طف شمالی بحیرہ روم میںواقع تھا۔ اس کا کل رقبہ زمانے میں 1110 کلو میٹر اور آبادی ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ یہ اپنے زمانے میں امیر ترین علاقہ تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے باشندے بڑے کامیاب تاجر اور جہاز راں ہوا کرتے تھے۔
اسی جزیرے پر وہ مشہور مجسمہ تعمیر کیا گیا تھا جو دنیا کےساتھ عجائبات میں سے ایک قرار پایا۔ اس مجسمے کی تعمیر کی کہانی کچھ یوں ہے کہ 312 قبل مسیح میں مصر کے حکمراں ولے می اور مقدونیہ (جہاں سکندر اعظم پیدا ہوا تھا) کے حکمراںاینٹی گونس کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔ رھوڑز کے باشندوں نے ٹولے می کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
ان کی اس مدد کی وجہ سے مقدونیوں کو شکست ہوئی۔ اینٹی گونس اس شکست کو نہ بھول سکا اور بدلہ لینے کے لیے اپنے بیٹے ڈیمی ٹرائس کی کمان میں تین سو سات جنگی جہازوں اور چالیس ہزار پیدا فوجیوں کا زبردشت لشکر رھوڈز پر حملے کے لے روانہ کیا۔
ڈیمی ٹرائس کے فوجی تعداد کے اعتبار سے اس وقت کے رھوڈز کی کل آبادی سے بھی زیادہ تھے اور اس طرح مقدونیوں کی فوجی ناقابل تسخیر نظر آتی تھی۔ خود ڈیمی ٹرائس جنگ کے دوران محاصرے کی اعلیٰ ترین تکنیک کا ماہر تھا اور بے شمار ماہرین بھی اس مقصد کے لیے اس فوج میں اس کے ساتھ موجود تھے۔ اس تمام جنگی برتری کے باوجود ڈیمی ٹرائس رھوڈز والوں کو نیچا نہ دکھا سکا۔
انہوں نے ایک سال تک ڈٹ کر مقدنیوں کے محاصرے کا مقابلہ کیا، یہاں تک کہ رھوڈز کی عورتوں نے بھی دن رات ہتھیار بنانے کے لیے کام کیا اور اپنے سر کے بال تک کمان میں استعمال کرنے کے لیے دے دیے۔ اس کے علاوہ عبادتگاہوں کو مسمار کرکے ان کے پتھروں کو شہر کی دیواروں کو مضبوط بنانے اور مرمت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
رھوڈز والے ڈیمی ٹرائس کے مسلسل خوفناک حملوں کا جان توڑ مقابلہ کررہے تھے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لگتا تھا کہ اب کسی وقت بھی مقدونی فوج شہر میں داخل ہوجائے گی کہ شہنشاہ ٹولے می ایک زبردست فوج لے کر اپنے دوست رھوڈز والوں کی مدد کو آپہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے مقدونیوں کو مار بھگایا۔
یہی وہ تاریخی واقع ہے، جس کی یاد میں رھوڈز والوں نے اپنے محافظ دیوتا ہیلیوس کا ایک بہت ہی بڑا اور شاندار مجسمہ بنایا۔ ہیلیوس رھوڈز والوں کا سورج دیوتا تھا۔ ہیلیوس کی شان میں کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوا کرتے تھے اور گائے، بکرے اور ان کے بچھڑوں کی قربانیاں پیش کی جاتی تھیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس دیوتا کی خدمت میں نذرانے کے طور پر پیش کرنے کے لے سات بہت ہی اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کو سمندر میں ہانک دیا جاتا تھا۔
اس مجسمے کی تیاری کے لیے رھوڈز کے باشندوں نے ایک انتہائی ماہر مجسمہ ساز چارس کو مقرر کیا۔ یہ اس کام میں ماہر ہونے کے ساتھ ستھ بہت ہی بہادر شخص تھا اور جنگ کے دوران بہت ہی بے جگری سے لڑا تھا۔ اس شخص نے شکست کھائی ہوئی مقدونی فوج سے چھینے ہوئے ہتھیاروں کو پگھلا کریہ مجسمہ ڈھالا تھا۔
اس دھات میں سب سےز یادہ تانبا موجود تھا۔ مجسمے کو کئی ٹکڑوں کی شکل میں ڈھالا گیا تھا۔ یہ اندر سے کھوکھلا تھا۔ جب ان ٹکڑوں کو جوڑلیا گیا تو اندر کے بعض کھوکھلے حصے کوپتھروں سے بھردیا گیا، تاکہ اس کی مضبوطی میں اضافہ ہو۔ اس کی بلندی تقریباً ایک سو دس فیٹ تھی۔ یہ رھوڈز کی بندرگاہ کے داخلی راستے پر بنایا گیا تھا۔
کہتے ہیں کہ یہ اتنی بڑی جسامت کا تھا کہ اس کے دونوں پیر اس بندرگاہ کے دونوں جانب پھیلے ہوئے تھے اور تمام جہاز اس کے پھیلے ہوئے پیروں کے درمیان سے ہو کر گزرتے تھے، لیکن اس بیان میں سچائی معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ اس بندر گاہ میں داخلے کے راستے کی چوڑائی تقریباً ایک ہزار تین سو فیٹ ہے اور اتنے بڑے فاصلے کے دونوں طرف پیر رکھنے والے دیو ہیکل مجسمے کی تیاری عقل نہیں مانتی۔
اس مجسمے میں نیچے سے اوپر تک آنے جانے کے لے ایک چکر دار زینہ تھا اور اس کی آنکھوں کی روشنی کا انتظام کیا گیا تھا، تاکہ رات کے اندھیرے میں یہ لائٹ ہاوس کا بھی کام دے۔ اسے مکمل کرنے میں بارہ سال کا عرصہ لگ گیا۔ کہتے ہیں کہ یہ مجسمہ صرف چھپن سال قائم رہا۔224 قبل مسیح یا 226 قبل مسیح میں آنے والے زلزلے میں یہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔
دنیا کے اس وقت کے ساتوں عجوبوں میں سب سے کم عرصہ یہ مجسمہ قائم رہا، جس کی وجہ سے بہت ہی کم تاریخ دانوں نے اسے دیکھا اور اس کے بارے میں لکھا۔
پہلی صدی عیسوی میں ایک رومی مصنف نے اس کے تباہ شدہ ٹکڑوں کو زمین پر بکھرے دیکھا تو لکھا کہ صرف اس کا بازو ہی اتنا کشادہ ہے کہ اس کے کھوکھلے حصے سے ایک آدمی بہت آسانی سے گزر سکتا ہے۔ اسی طرح رومی جغرافیہ داں استرابو بھی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ مجسمہ بہت ہی بڑی جسامت کا تھا۔
زلزلے کی وجہ سے اس کے حصے جہاں ٹوٹ کر گرے تھے وہیں بہت عرصے تک پڑے رہے۔ تباہی کے بعد کئی بار اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ہر بار ناکامی ہوئی، بار بار ناکامی کی وجہ سے رھوڈز والوں نے آخر اس زمانے کے مشہور یونانی ہیشن گوئی کرنے والے مندر "ڈیلفی" سے رابطہ کیا۔
قدیم یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ دیوتا اس جگہ ان کی رہنمائی کرتے ہیں، لہٰذا جب اس مندر میں بتایا گیا کہ اس مجسمے کو اب دوبارہ تعمیر نہ کیا جائے تو رھوڈز والوں نے اس پر مکمل عمل کیا اور اسے اسی حالت میں پڑا رہنے دیا۔ 672 عیسوی میں مسلمانوں نے رھوڈز کو فتح کیا تو انہوں نے اس مجسمے کے بے شمار بکھرے ہوئے دھات کے ٹکڑوں کو فروخت کردیا۔
ان سارے ٹکڑوں کو نوسو اونٹوں پر لاد کر لے جایا گیا اور ان کا وزن تقریباً تین سو ٹن تھا۔ اس طرح ایک اور عجوبہ بھی دنیا کی نظروں سے غائب ہوگیا۔
 
Top