جب خشکی پر بحری جہاز چلے

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
"جب خشکی پر بحری جہاز چلے.."
22 اپریل 1453ء ایک ایسا تاریخی دن ہے جب دنیا نے اک ایسی جنگی حکمت عملی دیکھی جس پر وہ آج بھی انگشت بدنداں ہے جب محاصرۂ قسطنطنیہ کے دوران "سلطان محمد فاتح" نے بحری جہازوں کو خشکی پر چلوا دیا..
آبنائے باسفورس سے شہر قسطنطنیہ کے اندر جانے والی خلیج "شاخ زریں" کے دہانے پر بزنطینی افواج نے اک زنجیر لگا رکھی تھی جس کی وجہ سے عثمانی بحری جہاز شہر کی فصیل کے قریب نہ جا سکتے تھے.. سلطان نے شہر کے دوسری جانب غلطہ کے علاقے سے جہازوں کو خشکی پر سے گزار کر اس خلیج میں اتارنے کا عجیب و غریب منصوبہ پیش کیا اور 22 اپریل 1453ء کو عثمانیوں کے عظیم جہاز خشکی پر سفر کرتے ہوئے شاخ زریں میں داخل ہو گئے..
سلطان کے اس خیال کو حقیقت بنانے کے لیے عثمانی افواج نے خشکی پر راستہ بنایا اور درختوں کے بڑے تنوں پر چربی مل کر جہازوں کو ان پر چڑھا دیا گیا.. علاوہ ازیں موافق رخ سے ہوا کی وجہ سے جہازوں کے بادبان بھی کھول دیے گئے اور رات ہی رات میں عثمانی بحری بیڑے کا ایک قابل ذکر حصہ شاخ زریں میں منتقل کر دیا.. صبح قسطنطنیہ کی فصیل پر کھڑے بزنطینی فوجی آنکھیں ملتے رہ گئے کہ آیا یہ خواب ہے یا حقیقت کہ زنجیر اپنی جگہ قائم ہے اور عثمانی جہاز شہر کی فصیل کے قریب کھڑے ہیں..
بہرحال یہ حکمت عملی قسطنطنیہ کی فتح میں سب سے اہم رہی کیونکہ اسی کی بدولت عثمانیوں کو جنگ میں پہلی بار حریف پر نفسیاتی برتری حاصل ہوئی.. بعد ازاں 29 مئی کو انہوں قسطنطنیہ کو فتح کر لیا اور صدیوں کی کشت و خون کا حاصل "اسلام بول (استنبول)" امت مسلمہ کا مرکز و محور بن گیا..
 
Top