حضرت عمرؓ کا تاریخ میں یہ اعزاز ہے کہ انہیں انصاف اور عدل کی علامت سمجھا جاتا ہے اور وہ فی الواقع عدل اور انصاف کا سیمبل تھے۔ آج مغرب کے مؤرخ بھی عدل و انصاف، گڈ گورننس اور ویلفئیر اسٹیٹ کے حوالہ سے حضرت عمرؓ کے دور حکومت کا تذکرہ بطور آئیڈیل اور مثال کرتے ہیں۔
متحدہ ہندو ستان کے دور میں ایک الیکشن کے بعد جب بعض صوبوں میں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوئیں تو کانگریس کے سب سے بڑے راہنما مہاتما گاندھی نے اپنے اخبار ’’ہریجن‘‘ میں کانگرسی وزراء کے نام ہدایات تحریر کیں جن میں یہ بھی تھا کہ اگر انصاف اور عدل کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے ہو تو ابو بکرؓ و عمرؓ کی زندگیوں اور طرز حکومت کو سامنے رکھو اور ان کی پیروی کرو۔
برطانیہ کو ویلفیئر اسٹیٹ کی شکل دینے کے لیے ناداروں، مریضوں، کم آمدنی والوں، معذوروں، دیگر کمزور افراد، اور خاندانوں کو وظیفے دینے کا جو سسٹم وہاں شروع کیا گیا تھا، اور وہ ابھی تک جاری ہے، اس کے بارے میں خود برطانوی راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ حضرت عمرؓ کے بیت المال کے نظام سے لیا گیا ہے۔
جبکہ ناروے کے بارے میں روایت ہے کہ وہاں بچوں کو دیے جانے والے سرکاری وظیفے کا نام ہی ’’عمر الاؤنس‘‘ ہے، ان کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ تصور حضرت عمرؓ سے لیا گیا ہے اس لیے وظیفے کا نام بھی وہی رکھا گیا ہے۔
متحدہ ہندو ستان کے دور میں ایک الیکشن کے بعد جب بعض صوبوں میں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوئیں تو کانگریس کے سب سے بڑے راہنما مہاتما گاندھی نے اپنے اخبار ’’ہریجن‘‘ میں کانگرسی وزراء کے نام ہدایات تحریر کیں جن میں یہ بھی تھا کہ اگر انصاف اور عدل کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے ہو تو ابو بکرؓ و عمرؓ کی زندگیوں اور طرز حکومت کو سامنے رکھو اور ان کی پیروی کرو۔
برطانیہ کو ویلفیئر اسٹیٹ کی شکل دینے کے لیے ناداروں، مریضوں، کم آمدنی والوں، معذوروں، دیگر کمزور افراد، اور خاندانوں کو وظیفے دینے کا جو سسٹم وہاں شروع کیا گیا تھا، اور وہ ابھی تک جاری ہے، اس کے بارے میں خود برطانوی راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی ڈھانچہ حضرت عمرؓ کے بیت المال کے نظام سے لیا گیا ہے۔
جبکہ ناروے کے بارے میں روایت ہے کہ وہاں بچوں کو دیے جانے والے سرکاری وظیفے کا نام ہی ’’عمر الاؤنس‘‘ ہے، ان کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ تصور حضرت عمرؓ سے لیا گیا ہے اس لیے وظیفے کا نام بھی وہی رکھا گیا ہے۔