نماز میں مسنون قرأت
حضراتِ ائمہ مساجد کی خدمت میں ایک اہم گذارشنماز کی اصل اوراس کی روح قروآن کریم کی قرأت ہے بقیہ تمام ارکان وافعال جیسے صف بندی، رکوع وسجود، جلسہ وقومہ ، قیام وقعود اور ہا تھ باندھنا وغیرہ یہ سب بمنزلہ آداب شاہی ہیں ۔
قرآن کریم کی تلاوت نماز کا ایک اہم رک ہے ، جس کے ذریعہ مومن بندے کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی شرف ھاصل ہوتا ہے ۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم نماز میں کلام الہی کی تلاوت ، تمام احکام اور نبی پاک ﷺ ی سنت کے مطابق کریں۔
ہماری نماز میں قرآن کی تلاوت کے احکام کی خلاف ورزی تو نہیں ہوتی اور اگر کبھی ہو بھی تو فورا اس پرتنبہ ہو جاتا ہے، اور تلافی کر لی جاتی ہے، لیکن سنت کی خلاف ورزی اور افضل صورت کو ترک کرنا عام طور پر ہماری نماز میں دیکھا جاتا ہے، مثلا یہ چیز بہت زیادہ عام ہو گئی ہے کہ ہمارے ائمہ کرام( ظہر اور عصر کا علم نہیں) مغرب ، عشاء اور فجر کی نماز میں قرات کی سنت اور افضل صورت کو چھوڑ کر غیر افضل صورت اختیار کرتے ہیں ، ایسے اماموں کی ایک بڑی تعداد ا ہے جو یک رکعت میں مکمل سورت نہیں پڑھتے ؛ بلکہ بڑی سورتوں میں سے تین یا چار آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے ہیں یا ایک سورت کو دو رکعت میں پڑھتے ہیں یا کوئی سورت آدھی پڑھ کر چھوڑ دیتے ہیں اوردوسری رکعت میں دوسری سورت شروع کر دیتے ہیں ، نماز میں اس طرح قرآن کریم پڑھنے سے نماز تو ادا ہو جائے گی لیکن عمومی احوال میں ایسا کرنا سنت کے خلا ف اور غیر اولیٰ ہے ،اس طرح قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں اکثر مضمون کا لحاظ نہیں کیا جاتا مضمون ناقص اور بات ادھوری رہ جاتی ہے ۔جیسے کسی کتاب کے درمیان سے دو چار سطریں پڑھنے کی سورت میں ہو تی ہے ۔
مختلف مقامات سے نماز میں قرأت کرنا
قرآن کریم کی آیتیں معنی و مضمون کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں لہذا مختلف مقامات سے نماز میں چند آیات تلاوت کرنے سے بسا اوقات ایسا ہو تا ہے کہ مضمون پورا نہیں ہو تا ، کبھی کبھی قرأت کی ابتدا وانتہا ایسی ّیات پر ہو تی ہے کہ بات بالکل بےمعنیٰ سی لگتی ہے ، اور ہمارے ائمہ کی اکثریت غیر علماء کی ہے ، جو عالم ہیں ان میں بھی بہت کم درس وتدریس سے جڑے ہیں ، اس کی وجہ سے معنیٰ ومضمون کی پوری رعایت وہ بھی نہیں کر پاتے ، لہذا اس طرح قرأت کرنا خلاف اولیٰ ہے ۔
بخاری کی شرح فتح الباری میں لکھا ہے
وسبب الکراہۃ فیما یظھر أن السورۃ مرتبط بعضھا ببعض ؛فأی موجع قطع فیہ لم یکن کانتھا ئہ الیٰ آخر السورۃ : فا نہ ان قطع فی وقف غیر تام کانت الکراھۃ ظاھرۃ وان قطع فی وقف تام فلا یخفی أنہ خلاف الأولیٰ
اور( درمیان صورت میں قرات روکنے میں) کراہت کا سبب بظاہریہ ہے کہ ایک سورت کی آیتیں معنی کے لحاظ سے آپس میں مربو ط رہتی ہیں، تو جس جگہ قرأۃ ختم کی ہے اس کا حکم آخر سورت تک پڑھنے جیسا نہ ہوگا ؛کیونکہ اگر قاری نے قرآت وقف غیرتام پر ختم کی ہے ، تب تو کراہت ظاہر ہے ، اور اگر وقف تام پر قرأت ختم کی ہے تب بھی یہ خلاف اولیٰ ہے جیسا کہ اہل علم حضرات سے مخفی نہیں ہے۔
(فتح الباری ۲ / ۳۳۳۔۴۳۳،دارالسلام، ریاض)
نیز احسن الفتاویٰ میں مذکورہ مسئلے سے متعلق ایک سوال و جواب ہے ،جسے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
سوال: آج کل عام طور پر ائمہ مساجد نمازوں میں پوری سورت پڑھنے کے بجائے درمیان سے کوئی رکوع پڑھتے ہیں کیا یہ صحیح ہے، یا کہ اس میں کوئی کراھت ہے؟ بینوا وتوجرو ۔
الجواب : مروج دستور میں بڑی قباحت یہ ہے کہ نمازوں میں سنت کے مطابق مفصل سورتیں نہیں پڑھی جاتیں ؛ حالانکہ یہ سنت ہے
مفصل سورتوں کو پڑھے میں یہ تفصیل ہے کہ ایک سورت کے آخر سے دونوں رکعتوں میں قرأت کر نے میں کوئی کراہت نہیں ؛ اس کے سوا دوسری صو رتیں مثلا :اول سورت یا وسط سورت سے پڑھنا یا ایک رکعت میں ایک سورت میں ایک سورت کا آخر اور دوسری رکعت میں دوسری رکعت کا آخر پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے ۔(احسن الفتاویٰ ۳ؕ/ ۸۵، ،باب القرأۃ والتجوید ،دار الاشاعت ، دیو بند،)
محقق علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
قال فی النھر وینبغی أن یقرأ فی الرکعتین آخر سورۃ واحد لا آخر سورتین : فانہ مکروہ عند الاکثر
نہر الفائق میں لکھا ہے کہ مناسب یہ ہے کہ دو رکعتوں میں ایک ہی سورت کی آکری آیتوں کو پڑھا جائے نہ کہ دو سورتوں کی آکری آیتوں کو ؛ کیوں کہ اکچر فقہاٗ کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ ( تنزیہی ) ہے ۔ ( شامی ۲/ ۲۶۸ ،مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایہ ،زکریا ،دیوبند)
وکذا لو قرأ فی الأولیٰ من وسط سورۃ أو من سورۃ أولھا ،ثم قرأ فی الثانۃ من وسط سورۃ أو اخریٰ أومن أولھا أو سورۃ قصیرۃ الأصح أنہ لا یکرہ ،لکن الأولیٰ أن لا یفل من غیر ضرورۃ
نیز اگر پہلی رکعت میں ایک سورت کے درمیان سے پڑھےیا سورت کی ابتداء سے پڑھے پھر دوسری رکعت میں دو سری سورت کے درمیان سے ابتدا سے پڑھے یا کوئی چھوٹی سورۃ پڑھے، تو صحیح یہ ہے کہ میں مکر وہ نہیں ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ بلا ضرورت ایسا نہ کیا جائے( شامی جلد۲/۲۶۸۔۲۶۹)
ان تمام عبارتوں سے بات بالکل واضح ہو گئی کہ مختلف جگہوں سے تلاوت کرنے کی بعض صورتیں مکروہ ہیں اور دیگر صورتیں اگرچہ مکروہ نہیں ، لیکن خلاف اولی وہ بھی ہیں ،لہذا سے عادت نہیں بنانا چاہیے۔
ایک سورت دو رکعتوں میں پڑھنا :
با رہا ایسا بھی مشاہدہ ہوتا ہے کہ بہت سے حضرا ت ائمہ کرام پہلی رکعت میں ایک سورت کی نصف قرات کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں اسی سورت کےنصف آخر کے قرأت کرتے ہیں، یعنی ایک سورت دو رکعت میں مکمل کرتے ہیں ؛ حتی کہ بعض اوقات بہت چھوٹی سورت کو بھی آدھا آدھا پڑھتے ہیں، اس طرح قرأۃ کر نےسے بھی نماز تو ہو جائے گی ؛کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ثابت
ہے( سنن النسأئی ، القرأۃ فی المغرب المص ، رقم الحدیث : ۹۹۲) لیکن آپ ﷺ نے کبھی کبھار کیا ہے ، یہ آپﷺ کی عادت مستمرہ نہیں تھی؛ اس لیے کبھی کبھی ایسا کرنا درست ہے ، اکثر ایسا کرنا یااسکو معمول اور عادت بنا لینا یہ خلاف افضل ہے۔
عن ابي العاليه قال: اخبرني من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:لکل سورۃ حظها من الركوع والسجود۔
حضرت ابو العالیہ کہتے ہیں مجھے ایک شخص نے خبر دی ہے جس نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے کہ:ہر سورۃ کا رکوع اور سجدے میں سے حصہ ہے۔( اعلاء السنن ۴/ ۳۳۱۔۱۳۴، با ب استحباب سورۃ فی رکعۃ ۔۔۔رقم الحدیث : ۱۰۸۱، اشرفیہ ، دیوبند )
تشریح : شارحین اس حدیث کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رکعت میں مکمل ایک سورت کی تلاوت کی جائے، نہ ایک سورت کو دو رکعتوںپر تقسیم کیا جائے اور نہ ایک سورت ک کچھ حصہ کوپڑھا جائے اور کچھ حصہ چھوڑ دیا جائے۔( اعلاء السنن ۴؍ ۱۳۳،فتح الباری ۲؍ ۳۳۳)
عن سعيد بن المسيب أن رسول الله صلى الله عليه و سلم مرببلال ؓوهو يقرأ من هذه السورۃ ومن هذه السورۃ، فقال :يا بلال ؓ!مررت بک و انت تقرأمن هذه السورۃ ، فقال :اخلط الطيب بالطيب فقال: أقرأالسورۃ على وجههاأ وقال على نحو ھا۔
حضرت سعید بن مسیب ؓ سے روایت ہے کہ کہ رسول اللہ ﷺ کا گذر اس حال میں ہوا کہ وہ نماز میں اس طرح قرأۃ کر رہے تھے کہ کچھ آیتیں ایک سورت کی پڑھتے اور پھ کچھ آیتیں دوسری سورتکہ پڑھتے ، جب نبی پاک ﷺ نے دیکھا تو فرمایا اے بلال! میں مہارے پاس سے گذرا تھا اور تم کبھی اس سورت کی کچھ آیتیں تکلاوت کر رہے تھے اور کبھی دوسری سورتکی؟ تو حضرت بلالؓ نےجواب دیا کہ( قرآن کریم کی تما آییں پا کیزہ ہیں ) میں نے ایک پاکیزہ چیز کو دوسری پا کیزہ چیز کے ساتھ ملا یا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرما ( اس رح تلاوت نہ کرو بلکہ) ایک سورت کو مکمل پڑھو۔
بلکہ ایک سورت کو مکرر پڑھنا اسی روایت میں ہے ان النبي صلى الله عليه وسلم قال بلال اذا قراءه السوره فانفذها
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ے حضرت بلال سے فرمایا :جب تم سورت پڑھو مکمل پڑھو۔ )اعلاء السنن 4۔ 139۔ 140 باب استحباب سورۃ فی رکعۃ ۔۔رقم الحدیث 1088)
افتاوی تاتارخانیہ میں لکھا ہے کی
الافضل ان يقرا في كل ركعه فاتحه الكتاب وسورۃ طامۃولو قرأ بعض السورۃ في ركعۃوالبعض فی رکعۃ بعض مشايخنا رحمھم الله قالوا: يكره: لأنه خلاف ما جاء بہ الأثر۔
افضل یہ ہے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی مکمل سورت پڑھی جائے اور اگر سورت کا ایک حصہ ایک رکعت میں اور دوسرا حصہ دوسری رکعت میں پڑھا تو ہمارے بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ مکروہ ہے ؛ کیونکہ یہ منقول روایت کے خلاف ۔(تاتارخانیہ فصل فی القرأۃ ،نوع آخر ، ۱؍ ۳۳۲ ،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)
اسی کتا میں دوسری جگہ لکھا ہے :
وکذالک أن یختار قرأ ء ۃ وأخر السور دون أن یقرأء السورۃ علی الولاء فی الصلاۃ وخارج الصلاۃ لأنہ یکالف فعل السلف
نیز مکروہ ہے کہ سورتوں کے اواخر کا انتخاب کیا جائے اور کسی ایک سورت کو ترتیب کے ساتھ نہ پڑھا جائے ،چاہے نماز میںہو نماز سے باہر ؛ کیوں کہ یہ سلف صالحین کے معمول کے خلاف ہے ۔( فتاویٰ تاتار خانیہ ۱؍ ۳۳۳)
اور فتاویٰ شامی میں لکھا ہے
مع أنھم صرحو بأن الأفضل فی کل رکعہ الفاتحۃ وسورۃ تا مۃ ۔
فقہا نے پوری صراحت کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ افضل یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی مکمل سورے پڑھی جائے ۔ ( شامی ۲؍ ۲۶۱)
احسن الفتا ویٰ میں مرقوم ہے :
پوری سورۃ پڑھنا افضل ہے ، اور اگر جزوِ سورۃ پڑھنا چاہیے آخر سے پڑھے، آخر سورۃ کا ترک مکروہ تنزیہی ہے ۔( احسن الفتاویٰ ۳؍ ۷۳، با ب القرأۃ والتجوید)
التکریر أخف من قسم السورۃ فی رکعتین ۔
یعنی کرا ہت کے اعتبار سے ایک ہی سورۃ کو دو رکعت میں پڑھنا ہلکا ہے اس سے کہ ایک سورۃ کو دو رکعتوں میں تقسیم کیا جائے، یعنی آدھا آدھا کر کے پڑھا جائے ۔( فتح الباری ۲؍ ۳۳۳ ، با ب الجمع بین السورتین فی رکعۃ )
ان روایات ، فقہا ء کی عبارتوں اور اصحاب افتاء کے فتوے کی روشنی میں ہیں اپنا جا ئزہ لینا چاہیےکہ جو چیز اختلاف اولیٰ ہے وہ ہماری نمازوں کس کثرت سے پا ئی جاتی ہے اور ہمیں اپنے طرز عمل کا محاسبہ کرنا چاہیے اللہ ہمیں صحیح اور حق کے قبول کرنےکی تو فیق دے۔ ریاض الجنۃ(جاری