کیا یہ سچ ہے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
علم جعفر وجامع​
حضرت امام علی رضی اللہ عنہ کو جس وقت خلیفہ مامون نے زہر آلود انگور کھلائے تو وہ جانتے تھے کہ وہ انگور زہر آلود ہیں اور وہ اسی دن فوت ہو جائیں گے ۔اس وقت ان کے سات سالہ بیٹے امام محمدتقی رضی اللہ عنہ بغداد میں تھے ۔ایک لمحے میں انہیں بغداد پہنچادیا اور وصیت کی کہ فلاں جگہ سے مٹی ہٹانا ایک پتھر بر آمد ہو گا۔ اس پر کچھ لکھا ہوگا ۔مجھے اس پتھر کے نیچے دفن کرنا ،اس کے بعد فرمایا کہ جب تم بلوغ کو پہنچو تو میں نے فلاں درخت کے نیچے امانت رکھی ہے تم وہاں سے جا کر لے لینا ۔وہ امانت ایک کتاب ہے جو علم جفر وجامع پر ہے اور یہ وہ جامع ہے جو حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ نے لکھی ہے اور جس میں انہوں نے اسرار غیب فرمان فرمائے ہیں اس کتاب کو صرف وہی دیکھ سکے گا جو امام ہو گا اور امام کے لیے ضروری ہیں کی ہر وقت وہ ظاہر ہو اور یہ کتاب اس وقت موقوف رہے گی جب تک امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزندان میں سے ایک فرزند اس درجہ کو پہنچے گا اور وہ امام سلسلہ حسینی کےبغیر کوئی نہ ہو گا اور اس وقت وہ کتب اور چند نصائح جو انبیاء علیہ السلام سے مو صول ہو ئے ہیں ۔پو شیدہ ہیں جس وقت امام مہدی ظاہر ہوں گے ان کو ملے گی ۔چنانچہ میر سید شریف جرجانی جو کہ خلیفہ ہیں حضرت خواجہ علاء الدین عطار نقشبندی کے اپنی کتاب شرح مواقف میں فرماتے ہیں " یعنی جفر وجامع دو کتا بیں ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جس میں علم الحروف کے طریق سے وہ تمام واقعات درج ہیں جو تمام دنیا اختیتام اور قیام قیامت تک اس دنیا میں واقع ہو نے والے ہیں اور ائمہ اہل بیت جو ساری دنیا میں مشہور ومعروف ہیں ،ان دونوں کتا بوں سے واقف ہوں گے اور ان کے اسرار ورموز کے مطابق حکم دیں گےَ ( مرآۃ الاسرار ص: ۱۱۱ تا ۱۱۲ شیخ عبد الرحمن چشتی حنفی)
اہل علم حضرات وضاحت فرمائیں کہ
۱۔ واقعی حضرت علی ؓ نے یہ کتاب تصنیف فرمائی تھی؟
۲۔ کیا قیام قیامت تک وقوع پذیر سارے واقعات درج ہیں؟
۳۔ قرآن وحدیث کےبجائے حضرت اما م مہدی اس کتاب سے کیونکرمطابق فیصلہ فرمائیں گے؟
یا یہ کہ یہ شیعی روایت ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اکثرو بیشتر اہل تشیع سے یہ ذکر سامنے آتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اسمائے ملائکہ ، اسمائے ملائکہ ایام ۔ اسمائے ملائکہ ساعات ۔ اسمائے ملائکہ بروج ۔ اسمائے ملائکہ منازل ۔ اسمائے ملائکہ کواکب ۔ اسمائے ملائکہ اشیاء ۔ اور تمام بنیادی اسرار و نکات کو ایک لغت کی شکل میں مرتب کر دیا جو “سفیر آدم ” کے نام سے مشہور ہوا ۔ بعض جفارین کے مطابق یہ نسخہ حضرت شیث علیہ السلام کو منتقل ہوا پھر جناب ابراہیم خلیل اللہ تک پہنچا اور دیگر انبیاء کے سینوں سے گزرتا ہوا ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملا اور آپ نے یہ علم حضرت علی رضی اللہ عنہہ کو عطا کیا ۔ اور اہل دنیا کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہہ نے اس علم کو باقاعدہ طور پر پیش کیا حضرت علی رضی اللہ عنہہ کی ذات با برکات کی بدولت ، جفر جامع ، جفر کبیر ، جفر احمر ، جفر خافیہ اور مصحف فاطمہ (س)۔جیسے بیش بہا نسخے اور قاعدے جو علم و حکمت کے بحر ناپیدا کنار ہیں ظہور میں آئے ۔
--------------------------


لیکن علم جفر کے بارے میں علماء کا موقف ہے کہ:

علم جفر ایک علم ہے جس میں اسرار حروف سے بحث کی جاتی ہے جس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی مدد سے آئندہ حالات و واقعات کا پتا لگا لیتے ہیں، (مصباح اللغات)

علم جفر کے ذریعے بہت سی چیزیں معلوم کی جاتی ہیں، لیکن علم جفر کے ذریعے کسی چیز کا معلوم کرنا شرعی حجت نہیں ہے اور یہ سب لغو اور بے کار ہے، اس علم کو سیکھنا، سیکھانا حرام ہے، اور اس کے مدعی کے پاس کوئی بات پوچھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے، اور اس کے نتائج کو یقینی سمجھنا کفر ہے ۔(فتاوی محمودیہ20/84۔احسن الفتاوی 8/231)

مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے جس شخص نے کسی "عراف" (غیب کی باتیں بتلانے والے) کے پاس جاکر کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک جگہ کسی بریلوی صاحب نے لکھا ہے کہ علم جفر پر امام غزالی رح نے بھی کتاب لکھی ہے جس کا نام "زائرجات و اشرف المربعات" ہے اور یہ حوالہ یہ علم حرام نہ ہونے کی دلیل ہے
 

احمدچشتی

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
رکن
( مرآۃ الاسرار ص: ۱۱۱ تا ۱۱۲ شیخ عبد الرحمن
کتاب اور صاحب کتاب کا تفصیلی تعارف اھل علم ودانش دے سکتے ہیں؟
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
علم جعفر وجامع​
حضرت امام علی رضی اللہ عنہ کو جس وقت خلیفہ مامون نے زہر آلود انگور کھلائے تو وہ جانتے تھے کہ وہ انگور زہر آلود ہیں اور وہ اسی دن فوت ہو جائیں گے ۔اس وقت ان کے سات سالہ بیٹے امام محمدتقی رضی اللہ عنہ بغداد میں تھے ۔ایک لمحے میں انہیں بغداد پہنچادیا اور وصیت کی کہ فلاں جگہ سے مٹی ہٹانا ایک پتھر بر آمد ہو گا۔ اس پر کچھ لکھا ہوگا ۔مجھے اس پتھر کے نیچے دفن کرنا ،اس کے بعد فرمایا کہ جب تم بلوغ کو پہنچو تو میں نے فلاں درخت کے نیچے امانت رکھی ہے تم وہاں سے جا کر لے لینا ۔وہ امانت ایک کتاب ہے جو علم جفر وجامع پر ہے اور یہ وہ جامع ہے جو حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ نے لکھی ہے اور جس میں انہوں نے اسرار غیب فرمان فرمائے ہیں اس کتاب کو صرف وہی دیکھ سکے گا جو امام ہو گا اور امام کے لیے ضروری ہیں کی ہر وقت وہ ظاہر ہو اور یہ کتاب اس وقت موقوف رہے گی جب تک امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزندان میں سے ایک فرزند اس درجہ کو پہنچے گا اور وہ امام سلسلہ حسینی کےبغیر کوئی نہ ہو گا اور اس وقت وہ کتب اور چند نصائح جو انبیاء علیہ السلام سے مو صول ہو ئے ہیں ۔پو شیدہ ہیں جس وقت امام مہدی ظاہر ہوں گے ان کو ملے گی ۔چنانچہ میر سید شریف جرجانی جو کہ خلیفہ ہیں حضرت خواجہ علاء الدین عطار نقشبندی کے اپنی کتاب شرح مواقف میں فرماتے ہیں " یعنی جفر وجامع دو کتا بیں ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جس میں علم الحروف کے طریق سے وہ تمام واقعات درج ہیں جو تمام دنیا اختیتام اور قیام قیامت تک اس دنیا میں واقع ہو نے والے ہیں اور ائمہ اہل بیت جو ساری دنیا میں مشہور ومعروف ہیں ،ان دونوں کتا بوں سے واقف ہوں گے اور ان کے اسرار ورموز کے مطابق حکم دیں گےَ ( مرآۃ الاسرار ص: ۱۱۱ تا ۱۱۲ شیخ عبد الرحمن چشتی حنفی)
اہل علم حضرات وضاحت فرمائیں کہ
۱۔ واقعی حضرت علی ؓ نے یہ کتاب تصنیف فرمائی تھی؟
۲۔ کیا قیام قیامت تک وقوع پذیر سارے واقعات درج ہیں؟
۳۔ قرآن وحدیث کےبجائے حضرت اما م مہدی اس کتاب سے کیونکرمطابق فیصلہ فرمائیں گے؟
یا یہ کہ یہ شیعی روایت ہے۔
شیعی تو ذرا چھوٹا لفظ ہے ۔۔۔یہ رافضی روایت ہے ۔
جس طرح دنیاوی معلومات کے لئے نیٹ پر وکی پیڈیا بنا ہوا ہے ۔ ۔۔شیعہ حضرات کا ۔۔وکی شیعہ ۔ ہے ۔ اس میں حضرت علیؓ کے ترجمہ میں اس کتاب کا ذکر ہے ۔ اور اصول کافی وغیرہ کتب سے ہے ۔
دوسرا یہ کتاب ((مراۃ الاسرار)) بالکل غیر مستند کتب میں سے ہے ۔ ایسی کتب صرف عقائد پر رسوخ رکھنے والے حضرات کو ہی مطالعہ کرنی چاہیے ۔
اور اس طرح کی کتب سے نقل نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ عوام صحیح و ضعیف میں تمیز نہیں کرسکتے۔
اس کتاب کے تو ماخذ میں بھی شیعہ کتب ہیں ، مثلاََ روضۃ الشہدا وغیرہ ۔۔اور بعض کتب شواہد النبوۃ ۔۔۔اگرچہ حضرت جامیؒ کی ہے لیکن یہ پکی بات ہے کہ
اُس میں روافض نے ملاوٹ کی ہے ۔ تو یہ بھی ماخذ میں سے ہے۔
اس کتاب میں تھوڑے تھوڑے وقفہ سے شیعیت بلکہ رافضیت یوں گھسی ہوئی ہے کہ کیا کہا جائے ۔
ایسی کتب کے بارے میں علماء نے کچھ تنبیہات کی ہیں ۔
۱۔ ممکن ہے کہ مصنف سُنی ہوں ۔۔۔اور اُن کی کتب میں روافض نے ملاوٹ کردی ہو۔
۲۔ یا مصنف اصل میں شیعہ ہو۔۔۔تقیہ سے سنی بنا ہو۔
۳۔ یا ایسے سادہ ہوں جنہیں صحیح و ضعیف کا معلوم نہ ہوتا ہو۔ یعنی اُن کا یہ فن نہ ہو۔
اس کتاب کے بارے میں ۱، ۳ والی بات صحیح لگتی ہے ۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
الشيخ عبد الرحمن الدنيتهوي (1005ھ - 1094ھ)
الشيخ العالم الصالح عبد الرحمن بن عبد الرسول بن قاسم بن بدها العباسي العلوي الدينتهوي
الأودي أحد المشايخ الجشتية،
ولد تاسع ربيع الآخر سنة خمس بعد الألف بقرية دنيتهي، وهي التي
يسمونها رسولبور على اسم أبيه، لأنه انتقل إلى تلك القرية وسكن بها، وكان عبد الرحمن قرأ العلم
على أساتذة عصره بمدينة أميتهي، ثم أخذ الطريقة عن الشيخ حسن بن مراد عن الشيخ عبد الجليل
الأويسي اللكهنوي ولازمه أربعين سنة، وأخذ عن السيد حسن الشريف الكجهوجهوي وعن الشيخ
حميد بن الشيخ قطب الجشتي الردولوي على طريق الأويسية من روحانية الشيخ الكبير معين الدين
حسن السجزي الأجميري والشيخ أحمد عبد الحق الردولوي والسيد سالار مسعود الغازي.
له مرآة الأسرار كتاب حافل بالفارسي في سير المشايخ الجشتية ومعاصريهم من أهل الطرق، صنفه
سنة خمس وأربعين وألف في أيام شاهجهان بن جهانكير، أوله الحمد لله رب المشرق والمغرب فأينما
تولوا فثم وجه الله إلخ وله مرآة مداري في أخبار الشيخ بديع الدين المدار المكنبوري، وله مرآة
مسعودي في أخبار السيد سالار مسعود الغازي، ومرآة الولاية في أخبار الشيخ عبد الجليل اللكهنوي
وأصحابه، والأوراد الجشتية صنفه سنة 1032 وعمره قارب مائة سنة.
مات سنة أربع وتسعين وألف فدفن بقرية دنيتهه في بيته وهي قرية من أعمال لكهنؤ، كما في تأليف
محمدي.
(نزهة الخواطر ج۵ص۵۵۹)
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
مصنف سُنی صوفی بزرگ ہیں ۔ کتاب کو غیر مستند اس لئے کہا گیا ہے کہ اُس میں صحیح چیزوں کے ساتھ انتہائی ضعیف چیزیں ۔۔اس کے علاوہ ملاوٹ و تحریف بھی نظر آتی ہے ۔
ان باتوں میں ان صوفی بزرگ ؒ کا کوئی قصور نہیں ۔۔۔رافض نے احادیث میں جھوٹی روایات مکس کرنے میں کسر نہیں چھوڑی ۔ تو صوفیاء کی کتب تو زیادہ مشہور بھی نہیں ہوتیں ۔یہ تنبیہ اس لئے کہ ہمارے چند دوست ایسی باتوں سے اِ ن صوفیاء کے ہی خلاف ہوجاتے ہیں ، جوکہ ناانصافی ہے ۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مصنف سُنی صوفی بزرگ ہیں ۔ کتاب کو غیر مستند اس لئے کہا گیا ہے کہ اُس میں صحیح چیزوں کے ساتھ انتہائی ضعیف چیزیں ۔۔اس کے علاوہ ملاوٹ و تحریف بھی نظر آتی ہے ۔
ان باتوں میں ان صوفی بزرگ ؒ کا کوئی قصور نہیں ۔۔۔رافض نے احادیث میں جھوٹی روایات مکس کرنے میں کسر نہیں چھوڑی ۔ تو صوفیاء کی کتب تو زیادہ مشہور بھی نہیں ہوتیں ۔یہ تنبیہ اس لئے کہ ہمارے چند دوست ایسی باتوں سے اِ ن صوفیاء کے ہی خلاف ہوجاتے ہیں
، جوکہ ناانصافی ہے ۔
اس کتب میں دس ایسے بزرگوں کا تذکرہ ہے جن کے بارے میں مجھے اچھی طرح علم ہے رافضیت سے دور دور ان کا واسطہ نہیں تھا۔ردولی۔لکھنؤ۔امیٹھی ۔کچھوچھہ یہ سب علاقے ہمارے آبا ئی وطن سے قریب کے ہیں ۔یہ با ت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ:
"ان باتوں میں ان صوفی بزرگ ؒ کا کوئی قصور نہیں ۔۔۔روافض نے احادیث میں جھوٹی روایات مکس کرنے میں کسر نہیں چھوڑی"
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ا
ور اس طرح کی کتب سے نقل نہیں کرنا چاہیے ۔ کیونکہ عوام صحیح و ضعیف میں تمیز نہیں کرسکتے۔
میں اس بات سے متفق نہیں اگر علماء اس کتاب سے) یا اس جیسی کتب) سے نقل نہیں کریں گے اور تبصرے نہیں کئے جائیں گے تو بیچاری عوام انٹر نٹ کے اس دور خرافاتی میں گمراہ ہو گی۔ ابن عثمان صاحب کی پوسٹ سے کتنی تحقیقی باتیں معلوم ہو ئیں۔ جزاک اللہ
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک لمحے میں انہیں بغداد پہنچادیا اور وصیت کی کہ فلاں جگہ سے مٹی ہٹانا ایک پتھر بر آمد ہو گا۔ اس پر کچھ لکھا ہوگا ۔مجھے اس پتھر کے نیچے دفن کرنا ،اس کے بعد فرمایا کہ جب تم بلوغ کو پہنچو تو میں نے فلاں درخت کے نیچے امانت رکھی ہے تم وہاں سے جا کر لے لینا ۔وہ امانت ایک کتاب ہے جو علم جفر وجامع پر ہے اور یہ وہ جامع ہے جو حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ نے لکھی ہے

یہ جو بات ہے بہت بڑی بات ہے اور ایک کثیر تعداد لوگوں کی علم جفر سے واقف ہے تو کیا یہ بات کسی اور کتاب سے ثابت ہے؟
اور کتاب لکھنے والے نے کسی کتاب کا حوالہ دیا ہے؟
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
علم جعفر وجامع​
حضرت امام علی رضی اللہ عنہ کو جس وقت خلیفہ مامون نے زہر آلود انگور کھلائے تو وہ جانتے تھے کہ وہ انگور زہر آلود ہیں اور وہ اسی دن فوت ہو جائیں گے ۔اس وقت ان کے سات سالہ بیٹے امام محمدتقی رضی اللہ عنہ بغداد میں تھے ۔ایک لمحے میں انہیں بغداد پہنچادیا اور وصیت کی کہ فلاں جگہ سے مٹی ہٹانا ایک پتھر بر آمد ہو گا۔ اس پر کچھ لکھا ہوگا ۔مجھے اس پتھر کے نیچے دفن کرنا ،اس کے بعد فرمایا کہ جب تم بلوغ کو پہنچو تو میں نے فلاں درخت کے نیچے امانت رکھی ہے تم وہاں سے جا کر لے لینا ۔وہ امانت ایک کتاب ہے جو علم جفر وجامع پر ہے اور یہ وہ جامع ہے جو حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ نے لکھی ہے اور جس میں انہوں نے اسرار غیب فرمان فرمائے ہیں اس کتاب کو صرف وہی دیکھ سکے گا جو امام ہو گا اور امام کے لیے ضروری ہیں کی ہر وقت وہ ظاہر ہو اور یہ کتاب اس وقت موقوف رہے گی جب تک امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزندان میں سے ایک فرزند اس درجہ کو پہنچے گا اور وہ امام سلسلہ حسینی کےبغیر کوئی نہ ہو گا اور اس وقت وہ کتب اور چند نصائح جو انبیاء علیہ السلام سے مو صول ہو ئے ہیں ۔پو شیدہ ہیں جس وقت امام مہدی ظاہر ہوں گے ان کو ملے گی ۔چنانچہ میر سید شریف جرجانی جو کہ خلیفہ ہیں حضرت خواجہ علاء الدین عطار نقشبندی کے اپنی کتاب شرح مواقف میں فرماتے ہیں " یعنی جفر وجامع دو کتا بیں ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جس میں علم الحروف کے طریق سے وہ تمام واقعات درج ہیں جو تمام دنیا اختیتام اور قیام قیامت تک اس دنیا میں واقع ہو نے والے ہیں اور ائمہ اہل بیت جو ساری دنیا میں مشہور ومعروف ہیں ،ان دونوں کتا بوں سے واقف ہوں گے اور ان کے اسرار ورموز کے مطابق حکم دیں گےَ ( مرآۃ الاسرار ص: ۱۱۱ تا ۱۱۲ شیخ عبد الرحمن چشتی حنفی)
اہل علم حضرات وضاحت فرمائیں کہ
۱۔ واقعی حضرت علی ؓ نے یہ کتاب تصنیف فرمائی تھی؟
۲۔ کیا قیام قیامت تک وقوع پذیر سارے واقعات درج ہیں؟
۳۔ قرآن وحدیث کےبجائے حضرت اما م مہدی اس کتاب سے کیونکرمطابق فیصلہ فرمائیں گے؟
یا یہ کہ یہ شیعی روایت ہے۔
علم جفر اہل تشیع ہی کیطرف منسوب ہے یہ عقیدہ بھی کہ حضرت علی کے پاس علیحدہ علم تھا
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک لمحے میں انہیں بغداد پہنچادیا اور وصیت کی کہ فلاں جگہ سے مٹی ہٹانا ایک پتھر بر آمد ہو گا۔ اس پر کچھ لکھا ہوگا ۔مجھے اس پتھر کے نیچے دفن کرنا ،اس کے بعد فرمایا کہ جب تم بلوغ کو پہنچو تو میں نے فلاں درخت کے نیچے امانت رکھی ہے تم وہاں سے جا کر لے لینا ۔وہ امانت ایک کتاب ہے جو علم جفر وجامع پر ہے اور یہ وہ جامع ہے جو حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ نے لکھی ہے
یہ جو بات ہے بہت بڑی بات ہے اور ایک کثیر تعداد لوگوں کی علم جفر سے واقف ہے تو کیا یہ بات کسی اور کتاب سے ثابت ہے؟
اور کتاب لکھنے والے نے کسی کتاب کا حوالہ دیا ہے؟
چنانچہ میر سید شریف جرجانی جو کہ خلیفہ ہیں حضرت خواجہ علاء الدین عطار نقشبندی کے اپنی کتاب شرح مواقف میں فرماتے ہیں " یعنی جفر وجامع دو کتا بیں ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جس میں علم الحروف کے طریق سے وہ تمام واقعات درج ہیں جو تمام دنیا اختیتام اور قیام قیامت تک اس دنیا میں واقع ہو نے والے ہیں اور ائمہ اہل بیت جو ساری دنیا میں مشہور ومعروف ہیں ،ان دونوں کتا بوں سے واقف ہوں گے اور ان کے اسرار ورموز کے مطابق حکم دیں گےَ
 

احمدچشتی

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
رکن
ایک لمحے میں انہیں بغداد پہنچادیا اور وصیت کی کہ فلاں جگہ سے مٹی ہٹانا ایک پتھر بر آمد ہو گا۔ اس پر کچھ لکھا ہوگا ۔مجھے اس پتھر کے نیچے دفن کرنا ،اس کے بعد فرمایا کہ جب تم بلوغ کو پہنچو تو میں نے فلاں درخت کے نیچے امانت رکھی ہے تم وہاں سے جا کر لے لینا ۔وہ امانت ایک کتاب ہے جو علم جفر وجامع پر ہے اور یہ وہ جامع ہے جو حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ نے لکھی ہے

یہ جو بات ہے بہت بڑی بات ہے اور ایک کثیر تعداد لوگوں کی علم جفر سے واقف ہے تو کیا یہ بات کسی اور کتاب سے ثابت ہے؟
اور کتاب لکھنے والے نے کسی کتاب کا حوالہ دیا ہے؟
بزرگوںکے یہاں طیے الارض مسلمات میں سے ہے ۔یہ کوئی حیران کن بات نہیں۔ کہ آن کی آن میں کیسے پہنچ جاتے ہیں۔البتہ کیا واقعی روافض نے کچھ ملاوٹ کی ہے ۔ویسے بھی اہل سنت کے پاس بہت آسان تیر ہے جب بات نہ بنے تودھڑلے سے چلادویہ تو اسرائیلیات وروافضیات میں سے ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آپ نے اس پوسٹ میں فرمایا کہ
"یہ وہ جامع ہے جو حضرت علی کرمہ اللہ وجہہ نے لکھی ہے اور جس میں انہوں نے اسرار غیب فرمان فرمائے ہیں اس کتاب کو صرف وہی دیکھ سکے گا جو امام ہو گا اور امام کے لیے ضروری ہیں کی ہر وقت وہ ظاہر ہو اور یہ کتاب اس وقت موقوف رہے گی جب تک امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزندان میں سے ایک فرزند اس درجہ کو پہنچے گا اور وہ امام سلسلہ حسینی کےبغیر کوئی نہ ہو گا اور اس وقت وہ کتب اور چند نصائح جو انبیاء علیہ السلام سے مو صول ہو ئے ہیں ۔پو شیدہ ہیں جس وقت امام مہدی ظاہر ہوں گے ان کو ملے گی ۔"

اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام مہدی کے ظہور کے بعد ان کو ملےگی وہ کتاب تو پھر امام محمد تقی کو جو ملی تھی وہ کہاں ہے؟
امام صادق کے حوالے سے جو دو کتابوں کا ذکر ہے وہ کیا ہے؟
اور یہ جو لوگ کتابیں چھاپ چھاپ کر علم جفر بیان کرتے ہیں تو یہ علم کہاں سے آیا اگر وہ ابھی تک مدفون ہے؟
اور وہ چالیس پاروں والا قرآن بھی ابھی تک غائب ہے و ہ بھی شاید امام مہدی کو ملنے والا تھا؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بزرگوںکے یہاں طیے الارض مسلمات میں سے ہے ۔یہ کوئی حیران کن بات نہیں۔ کہ آن کی آن میں کیسے پہنچ جاتے ہیں۔البتہ کیا واقعی روافض نے کچھ ملاوٹ کی ہے ۔ویسے بھی اہل سنت کے پاس بہت آسان تیر ہے جب بات نہ بنے تودھڑلے سے چلادویہ تو اسرائیلیات وروافضیات میں سے ہے۔
آپ کیا ہو اہل تشیع ہو یا اہل حدیث ہو بہرحال آپ اگر کسی بات سے اختلاف رائے رکھو تو اپنی رائے بھی پیش کرو اور صرف سوالات نہیں رد کے لیے حوالے بھی شئیرکیجیے؟
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
البتہ کیا واقعی روافض نے کچھ ملاوٹ کی ہے ۔ویسے بھی اہل سنت کے پاس بہت آسان تیر ہے جب بات نہ بنے تودھڑلے سے چلادویہ تو اسرائیلیات وروافضیات میں سے ہے۔
میرے محترم چشتی بھائی ۔۔۔دلائل اور جزبات کی دنیا الگ الگ ہے ۔
آسان تیرتو وہ چلاتا ہے جس کے پاس دلیل نہ ہو۔اور دلیل آسان تیر نہیں ہوتا ۔
بھائی سیدھی سی بات ہے کہ کچھ اسرائیلیات ہوتی ہیں تو ۔۔رد ہوتی ہیں ناں۔۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیاء علیہم السلام کے متعلق ایسی گری ہوئی اسرائیلیات اس لٹریچر میں موجود ہیں ۔۔ایسی اسرائیلیات جو عام شریف آدمی سے سرزد نہیں ہوسکتیں ۔ اُن کو سب سے مقدس ہستیوں سے منسوب کیا گیا ہے ۔۔۔تو بھائی یہ ہوتی ہیں تو تبھی رد کی جاتی ہیں ناں ۔۔
اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے بعد دوسری مقدس ہستیاں صحابہ ؓ ہیں ۔۔اُن کو بدنام کرنے کے لئے ۔۔روافضیات ۔۔ہیں ناں میرے بھائی ۔۔۔ان کا انکار اب جزبات سے تو نہیں کیا جاسکتا۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
اکثرو بیشتر اہل تشیع سے یہ ذکر سامنے آتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اسمائے ملائکہ ، اسمائے ملائکہ ایام ۔ اسمائے ملائکہ ساعات ۔ اسمائے ملائکہ بروج ۔ اسمائے ملائکہ منازل ۔ اسمائے ملائکہ کواکب ۔ اسمائے ملائکہ اشیاء ۔ اور تمام بنیادی اسرار و نکات کو ایک لغت کی شکل میں مرتب کر دیا جو “سفیر آدم ” کے نام سے مشہور ہوا ۔ بعض جفارین کے مطابق یہ نسخہ حضرت شیث علیہ السلام کو منتقل ہوا پھر جناب ابراہیم خلیل اللہ تک پہنچا اور دیگر انبیاء کے سینوں سے گزرتا ہوا ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملا اور آپ نے یہ علم حضرت علی رضی اللہ عنہہ کو عطا کیا ۔ اور اہل دنیا کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہہ نے اس علم کو باقاعدہ طور پر پیش کیا حضرت علی رضی اللہ عنہہ کی ذات با برکات کی بدولت ، جفر جامع ، جفر کبیر ، جفر احمر ، جفر خافیہ اور مصحف فاطمہ (س)۔جیسے بیش بہا نسخے اور قاعدے جو علم و حکمت کے بحر ناپیدا کنار ہیں ظہور میں آئے ۔
--------------------------


لیکن علم جفر کے بارے میں علماء کا موقف ہے کہ:

علم جفر ایک علم ہے جس میں اسرار حروف سے بحث کی جاتی ہے جس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی مدد سے آئندہ حالات و واقعات کا پتا لگا لیتے ہیں، (مصباح اللغات)

علم جفر کے ذریعے بہت سی چیزیں معلوم کی جاتی ہیں، لیکن علم جفر کے ذریعے کسی چیز کا معلوم کرنا شرعی حجت نہیں ہے اور یہ سب لغو اور بے کار ہے، اس علم کو سیکھنا، سیکھانا حرام ہے، اور اس کے مدعی کے پاس کوئی بات پوچھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے، اور اس کے نتائج کو یقینی سمجھنا کفر ہے ۔(فتاوی محمودیہ20/84۔احسن الفتاوی 8/231)

مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے جس شخص نے کسی "عراف" (غیب کی باتیں بتلانے والے) کے پاس جاکر کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔
میرے پاس جو اصول کافی ہے اسکا ترجمہ الشافی کے نام سے سید منیر حسین رضوی نے کیا ہے مصباح ٹرسٹ لاھور کی چھپی ہے 230 جلد 2 امام جعفرنے اپنے شاگرد ابو بصیر کو ب تا یا ہمارے پاس ایک جامعہ ہے جو 70 ہاتھ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا ہے حضرت علی نے لکھا ہے اس میں ہر حلال وحرام بلکہ ہر وہ چیز جسکا انسان مھتاج ہے حتی ایک خراش کی دیت بھی موجود ہے ایک چٹکی کاٹنے کی دیت بھی موجود ہے ہمارے پاس قال وعندنا الجفر ومایدریھم ماالجفر علم جفر بھی ہے یہ ایک ایسا خزانہ ہے جوس میں آدم سے لیکر تمام انباء ورسل کا علم موجود ہے بنی اسرائیل کے تمام علماء گزشتہ کاعلم موجود ہے ہمارے پاس مصھف فاطمی بھی ہے قال مصحف فیہ مثل قرآنکم ۔۔۔ مافیہ من قرآن کم حرف واحد تمھارے قرآن کی طرح ہے مگر قرآن کا کوئی حرف اس میں نہیں ہے ہمارے پاس علم ماکان وعلم مایکون بھی ہے ۔۔۔ آگےمصحف فاطمی کی کہانی لکھی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ غمگین رہتیں خدا نے تسلی کے لئے فرشتہ بھیھجا حضرت علی کو بتایا آپ نے فر مایا جب آپ اسکی آواز سنیں تو مجھے بتانا بی بی فاطمہ بتاتی جاتیں حضرت علی لکھتے جاتے اس سے ایک مصحف تیار ہو گیا اسمیں حلال وحرام کاعلم نہیں اسکے علاوہ علم ہے ۔۔۔۔۔
 
Last edited by a moderator:
Top