وہ بڑا ہی عجیب منظر ہوتا ہے جب اچانک ہلا گلا سا ہونے لگتا ہے اور ہر بندہ اپنی اپنی پلیٹیں ہاتھوں میں لیے کھانے کی اس میز کی جانب بڑھنے کی کوشش میں ہوتا ہے جس میں مختلف قسم کے کھانے سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر، کیا پروفیسر، کیا سائنس دان، کیا سیاستدان۔ سب کا یہی حال ہوتا ہے۔
یہ منظر ہوتا ہے آج کل کے ترقی یافتہ مسلمانوں کے کھانے کی میزوں کا۔ جو مسلمان اپنے آپ کو عاشق رسول کہتے کہتے تھکتے نہیں۔ یہ تہذیب ہے اس مسلمان کی جس کے آباو اجداد نے تہذیب و تمدن کی مثالیں قائم کررکھی ہیں۔
جب سے ہم نے غیروں کے طریقوں کو اپنایا ہے ذلت ہی ہمارا مقدر بنی ہے۔ ہم نے ہر موقع پر اپنے محبوبﷺ کے طریقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسلام کے مبلغ اعظمﷺ نے تو یہ طریقہ سکھایا ہے کہ کھانا دستر خوان پر کھایا جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب تک دستر خوان بچھا رہتا ہے فرشتے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے کھانا پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین یا چٹائی پر رکھو۔[مجمع الزوائد]
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبیﷺ نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا۔
جبکہ آج ہر شادی غمی میں میزوں پر کھانا دیا جاتا ہے۔ اور اسی کو اپنی تہذیب سمجھا جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے کھڑے ہوکر کھانے سے منع فرمایا ہے۔
ادھر ہمارے معاشرے میں کھڑے ہوکر کھانے کو فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ یاد رکھیے یہ مغربی تہذیب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن ام حرام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص دستر خوان پر گرے ہوئے ٹکڑوں کو تلاش کرکے کھائے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیں گے۔ [مجمع الزوائد]
ابو الشیخ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ وہ تنگ دستی سے محفوظ رہے گا۔
اسی طرح دیلمی کی مسند فردوس میں ہے کہ اس کی اولاد اچھی ہوگی اور غربت دور ہوگی۔
احیاء العلوم میں امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ ایسا شخص وسعتِ رزق سے نوازا جائے گا، اس کی اولاد میں عافیت رہے گی، بیماریوں سے محفوظ رہے گی۔ نیز امام غزالی رحمہ اللہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ کھانے کے ریزوں کا چننا جنت کی حوروں کا مہر ہے۔
لیکن ہمارے ماحول میں کھانا منوں کے اعتبار سے ضائع کیا جاتا ہے کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: برکت کھانے کے درمیان میں اترتی ہے۔ لہٰذا کنارے سے کھائو درمیان سے مت کھائو۔
یہ ہیں تعلیمات معلم انسانیت کی اور آج ہم نے کن کے راستے کو اختیار کرلیا ہے۔
کیا معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ سکھایا ہے کیا یہی تہذیب ابھی تک ہم نے سیکھی ہے؟ کیا یہی ہے وہ طریقہ کہ
جس پہ ناز کرتی ہے مسلمانی
…٭…٭…٭…
تم وضع میں ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اللہ تعالی ہمیں سنت کو اپنانے اور غیروں کے طریقوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!
یہ منظر ہوتا ہے آج کل کے ترقی یافتہ مسلمانوں کے کھانے کی میزوں کا۔ جو مسلمان اپنے آپ کو عاشق رسول کہتے کہتے تھکتے نہیں۔ یہ تہذیب ہے اس مسلمان کی جس کے آباو اجداد نے تہذیب و تمدن کی مثالیں قائم کررکھی ہیں۔
جب سے ہم نے غیروں کے طریقوں کو اپنایا ہے ذلت ہی ہمارا مقدر بنی ہے۔ ہم نے ہر موقع پر اپنے محبوبﷺ کے طریقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسلام کے مبلغ اعظمﷺ نے تو یہ طریقہ سکھایا ہے کہ کھانا دستر خوان پر کھایا جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب تک دستر خوان بچھا رہتا ہے فرشتے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے کھانا پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین یا چٹائی پر رکھو۔[مجمع الزوائد]
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبیﷺ نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا۔
جبکہ آج ہر شادی غمی میں میزوں پر کھانا دیا جاتا ہے۔ اور اسی کو اپنی تہذیب سمجھا جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے کھڑے ہوکر کھانے سے منع فرمایا ہے۔
ادھر ہمارے معاشرے میں کھڑے ہوکر کھانے کو فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ یاد رکھیے یہ مغربی تہذیب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن ام حرام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص دستر خوان پر گرے ہوئے ٹکڑوں کو تلاش کرکے کھائے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیں گے۔ [مجمع الزوائد]
ابو الشیخ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ وہ تنگ دستی سے محفوظ رہے گا۔
اسی طرح دیلمی کی مسند فردوس میں ہے کہ اس کی اولاد اچھی ہوگی اور غربت دور ہوگی۔
احیاء العلوم میں امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ ایسا شخص وسعتِ رزق سے نوازا جائے گا، اس کی اولاد میں عافیت رہے گی، بیماریوں سے محفوظ رہے گی۔ نیز امام غزالی رحمہ اللہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ کھانے کے ریزوں کا چننا جنت کی حوروں کا مہر ہے۔
لیکن ہمارے ماحول میں کھانا منوں کے اعتبار سے ضائع کیا جاتا ہے کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: برکت کھانے کے درمیان میں اترتی ہے۔ لہٰذا کنارے سے کھائو درمیان سے مت کھائو۔
یہ ہیں تعلیمات معلم انسانیت کی اور آج ہم نے کن کے راستے کو اختیار کرلیا ہے۔
کیا معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ سکھایا ہے کیا یہی تہذیب ابھی تک ہم نے سیکھی ہے؟ کیا یہی ہے وہ طریقہ کہ
جس پہ ناز کرتی ہے مسلمانی
…٭…٭…٭…
تم وضع میں ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اللہ تعالی ہمیں سنت کو اپنانے اور غیروں کے طریقوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!
Last edited: