یہ وہ مسلماں ہیں……!

وہ بڑا ہی عجیب منظر ہوتا ہے جب اچانک ہلا گلا سا ہونے لگتا ہے اور ہر بندہ اپنی اپنی پلیٹیں ہاتھوں میں لیے کھانے کی اس میز کی جانب بڑھنے کی کوشش میں ہوتا ہے جس میں مختلف قسم کے کھانے سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر، کیا پروفیسر، کیا سائنس دان، کیا سیاستدان۔ سب کا یہی حال ہوتا ہے۔
یہ منظر ہوتا ہے آج کل کے ترقی یافتہ مسلمانوں کے کھانے کی میزوں کا۔ جو مسلمان اپنے آپ کو عاشق رسول کہتے کہتے تھکتے نہیں۔ یہ تہذیب ہے اس مسلمان کی جس کے آباو اجداد نے تہذیب و تمدن کی مثالیں قائم کررکھی ہیں۔
جب سے ہم نے غیروں کے طریقوں کو اپنایا ہے ذلت ہی ہمارا مقدر بنی ہے۔ ہم نے ہر موقع پر اپنے محبوبﷺ کے طریقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسلام کے مبلغ اعظمﷺ نے تو یہ طریقہ سکھایا ہے کہ کھانا دستر خوان پر کھایا جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب تک دستر خوان بچھا رہتا ہے فرشتے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے کھانا پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین یا چٹائی پر رکھو۔[مجمع الزوائد]
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبیﷺ نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا۔
جبکہ آج ہر شادی غمی میں میزوں پر کھانا دیا جاتا ہے۔ اور اسی کو اپنی تہذیب سمجھا جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے کھڑے ہوکر کھانے سے منع فرمایا ہے۔
ادھر ہمارے معاشرے میں کھڑے ہوکر کھانے کو فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ یاد رکھیے یہ مغربی تہذیب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن ام حرام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص دستر خوان پر گرے ہوئے ٹکڑوں کو تلاش کرکے کھائے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیں گے۔ [مجمع الزوائد]
ابو الشیخ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ وہ تنگ دستی سے محفوظ رہے گا۔
اسی طرح دیلمی کی مسند فردوس میں ہے کہ اس کی اولاد اچھی ہوگی اور غربت دور ہوگی۔
احیاء العلوم میں امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ ایسا شخص وسعتِ رزق سے نوازا جائے گا، اس کی اولاد میں عافیت رہے گی، بیماریوں سے محفوظ رہے گی۔ نیز امام غزالی رحمہ اللہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ کھانے کے ریزوں کا چننا جنت کی حوروں کا مہر ہے۔
لیکن ہمارے ماحول میں کھانا منوں کے اعتبار سے ضائع کیا جاتا ہے کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: برکت کھانے کے درمیان میں اترتی ہے۔ لہٰذا کنارے سے کھائو درمیان سے مت کھائو۔
یہ ہیں تعلیمات معلم انسانیت کی اور آج ہم نے کن کے راستے کو اختیار کرلیا ہے۔
کیا معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ سکھایا ہے کیا یہی تہذیب ابھی تک ہم نے سیکھی ہے؟ کیا یہی ہے وہ طریقہ کہ
جس پہ ناز کرتی ہے مسلمانی
…٭…٭…٭…
تم وضع میں ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اللہ تعالی ہمیں سنت کو اپنانے اور غیروں کے طریقوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آمین ثم آمین
بہت خوبصورت تحریر۔۔۔۔۔ ماشاء اللہ
ہمارے پختونوں میں شادی کی تقریبات بہت کم شادی ہالوںمیں ہوتی ہیں اکثر گھروں پر ہوتی ہیں
اور ہم مہمانوں کو زمین پر دسترخواب بچھا کر بٹھاتے ہیں
اور گروپ کی شکل میں ایک ہی پلیٹ میں کئی لوگ ساتھ کھاتے ہیں
نا الگ الگ پلیٹیں
نا کھڑے ہو کھانا
اور نا ہی مہمان خود کھانا اپنے لیے اٹھا تے ہیں بلکہ اسے تو مہمان کی تذلیل سمجھتے ہیں
مہمان کے آگے ہم خود کھانا رکھتے ہیں
اور ان سے کہتے ہیں کہ کسی چیز کی کمی ہو تو بتائیے بار بار پوچھتے ہیں
بلکہ کچھ لوگوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ پانی کے جگ اور گلاس ہاتھ میں رکھتے ہیں اور جسے پانی کی طلب ہوتی ہے اسے ہاتھ میں گلاس تھما دیتے ہیں
اور کچھ لوگ کھانے کی اشیا بڑے بڑے برتنوں میں لے کر گھومتے ہیں
جب کسی کی کھانے میں کمی آتی ہے تو اپنے ہاتھ سے اس کے پلیٹ میں ڈال دیتے ہیں
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
آمین ثم آمین
بہت خوبصورت تحریر۔۔۔۔۔ ماشاء اللہ
ہمارے پختونوں میں شادی کی تقریبات بہت کم شادی ہالوںمیں ہوتی ہیں اکثر گھروں پر ہوتی ہیں
اور ہم مہمانوں کو زمین پر دسترخواب بچھا کر بٹھاتے ہیں
اور گروپ کی شکل میں ایک ہی پلیٹ میں کئی لوگ ساتھ کھاتے ہیں
نا الگ الگ پلیٹیں
نا کھڑے ہو کھانا
اور نا ہی مہمان خود کھانا اپنے لیے اٹھا تے ہیں بلکہ اسے تو مہمان کی تذلیل سمجھتے ہیں
مہمان کے آگے ہم خود کھانا رکھتے ہیں
اور ان سے کہتے ہیں کہ کسی چیز کی کمی ہو تو بتائیے بار بار پوچھتے ہیں
بلکہ کچھ لوگوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ پانی کے جگ اور گلاس ہاتھ میں رکھتے ہیں اور جسے پانی کی طلب ہوتی ہے اسے ہاتھ میں گلاس تھما دیتے ہیں
اور کچھ لوگ کھانے کی اشیا بڑے بڑے برتنوں میں لے کر گھومتے ہیں
جب کسی کی کھانے میں کمی آتی ہے تو اپنے ہاتھ سے اس کے پلیٹ میں ڈال دیتے ہیں
جی ہاں یہ پختوں بھائیوں کی اعلی مہمان داری ہے کئی بار دعوتیں کھانے کا اتفاق ہوا مزا اگیا
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
وہ بڑا ہی عجیب منظر ہوتا ہے جب اچانک ہلا گلا سا ہونے لگتا ہے اور ہر بندہ اپنی اپنی پلیٹیں ہاتھوں میں لیے کھانے کی اس میز کی جانب بڑھنے کی کوشش میں ہوتا ہے جس میں مختلف قسم کے کھانے سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیا ڈاکٹر، کیا پروفیسر، کیا سائنس دان، کیا سیاستدان۔ سب کا یہی حال ہوتا ہے۔
یہ منظر ہوتا ہے آج کل کے ترقی یافتہ مسلمانوں کے کھانے کی میزوں کا۔ جو مسلمان اپنے آپ کو عاشق رسول کہتے کہتے تھکتے نہیں۔ یہ تہذیب ہے اس مسلمان کی جس کے آباو اجداد نے تہذیب و تمدن کی مثالیں قائم کررکھی ہیں۔
جب سے ہم نے غیروں کے طریقوں کو اپنایا ہے ذلت ہی ہمارا مقدر بنی ہے۔ ہم نے ہر موقع پر اپنے محبوبﷺ کے طریقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
اسلام کے مبلغ اعظمﷺ نے تو یہ طریقہ سکھایا ہے کہ کھانا دستر خوان پر کھایا جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب تک دستر خوان بچھا رہتا ہے فرشتے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے کھانا پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین یا چٹائی پر رکھو۔[مجمع الزوائد]
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبیﷺ نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا۔
جبکہ آج ہر شادی غمی میں میزوں پر کھانا دیا جاتا ہے۔ اور اسی کو اپنی تہذیب سمجھا جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے کھڑے ہوکر کھانے سے منع فرمایا ہے۔
ادھر ہمارے معاشرے میں کھڑے ہوکر کھانے کو فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ یاد رکھیے یہ مغربی تہذیب ہے۔
حضرت عبد اللہ بن ام حرام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جو شخص دستر خوان پر گرے ہوئے ٹکڑوں کو تلاش کرکے کھائے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیں گے۔ [مجمع الزوائد]
ابو الشیخ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ وہ تنگ دستی سے محفوظ رہے گا۔
اسی طرح دیلمی کی مسند فردوس میں ہے کہ اس کی اولاد اچھی ہوگی اور غربت دور ہوگی۔
احیاء العلوم میں امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ ایسا شخص وسعتِ رزق سے نوازا جائے گا، اس کی اولاد میں عافیت رہے گی، بیماریوں سے محفوظ رہے گی۔ نیز امام غزالی رحمہ اللہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ کھانے کے ریزوں کا چننا جنت کی حوروں کا مہر ہے۔
لیکن ہمارے ماحول میں کھانا منوں کے اعتبار سے ضائع کیا جاتا ہے کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: برکت کھانے کے درمیان میں اترتی ہے۔ لہٰذا کنارے سے کھائو درمیان سے مت کھائو۔
یہ ہیں تعلیمات معلم انسانیت کی اور آج ہم نے کن کے راستے کو اختیار کرلیا ہے۔
کیا معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ سکھایا ہے کیا یہی تہذیب ابھی تک ہم نے سیکھی ہے؟ کیا یہی ہے وہ طریقہ کہ
جس پہ ناز کرتی ہے مسلمانی
…٭…٭…٭…
تم وضع میں ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ وہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اللہ تعالی ہمیں سنت کو اپنانے اور غیروں کے طریقوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!
یہ وہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
 
ہمارے پختونوں میں شادی کی تقریبات بہت کم شادی ہالوںمیں ہوتی ہیں اکثر گھروں پر ہوتی ہیں
اور ہم مہمانوں کو زمین پر دسترخواب بچھا کر بٹھاتے ہیں
اور گروپ کی شکل میں ایک ہی پلیٹ میں کئی لوگ ساتھ کھاتے ہیں
نا الگ الگ پلیٹیں
نا کھڑے ہو کھانا
اور نا ہی مہمان خود کھانا اپنے لیے اٹھا تے ہیں بلکہ اسے تو مہمان کی تذلیل سمجھتے ہیں
مہمان کے آگے ہم خود کھانا رکھتے ہیں
اور ان سے کہتے ہیں کہ کسی چیز کی کمی ہو تو بتائیے بار بار پوچھتے ہیں
بلکہ کچھ لوگوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ پانی کے جگ اور گلاس ہاتھ میں رکھتے ہیں اور جسے پانی کی طلب ہوتی ہے اسے ہاتھ میں گلاس تھما دیتے ہیں
اور کچھ لوگ کھانے کی اشیا بڑے بڑے برتنوں میں لے کر گھومتے ہیں
جب کسی کی کھانے میں کمی آتی ہے تو اپنے ہاتھ سے اس کے پلیٹ میں ڈال دیتے ہیں
جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے اسی لیے تو پختون تہذیب مغرب کی جدید دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے، اور ان کی کوشش ہے کہ ہماری تہذیب یہ لوگ بھی اختیار کرلیں ورنہ ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
ہمارے ایک پٹھان استاذ محترم ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ ہمارے ایک دوست مولانا صاحب پنجاب میں تدریس کے لیے آئے ہوئے تھے اور چھٹیوں کے دوران انہوں نے اپنے علاقے میں اپنے سر پر رومال باندھا ہوا تھا، تو ایک مولانا نے فرمایا لگتا ہے کہ پنجاب میں پڑھا رہے ہو؟ یعنی پنجاب جانے کا یہ اثر ہوا ہے کہ پگڑی سر سے اتر گئی ہے اب پگڑی کی جگہ رومال نے لے لی ہے۔ اور یقینا پنجاب میں اس چیز کی بہت کمی ہے۔
باقی عام لوگوں کی بات تو بہت دور چلی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ، مسرت اور خوشی نصیب فرماکر سنتوں پر عمل کرنا ہمارے مقصد میں شامل فرمائے۔ آمین ثم آمین
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے اسی لیے تو پختون تہذیب مغرب کی جدید دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے، اور ان کی کوشش ہے کہ ہماری تہذیب یہ لوگ بھی اختیار کرلیں ورنہ ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
ہمارے ایک پٹھان استاذ محترم ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ ہمارے ایک دوست مولانا صاحب پنجاب میں تدریس کے لیے آئے ہوئے تھے اور چھٹیوں کے دوران انہوں نے اپنے علاقے میں اپنے سر پر رومال باندھا ہوا تھا، تو ایک مولانا نے فرمایا لگتا ہے کہ پنجاب میں پڑھا رہے ہو؟ یعنی پنجاب جانے کا یہ اثر ہوا ہے کہ پگڑی سر سے اتر گئی ہے اب پگڑی کی جگہ رومال نے لے لی ہے۔ اور یقینا پنجاب میں اس چیز کی بہت کمی ہے۔
باقی عام لوگوں کی بات تو بہت دور چلی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمان ہونے پر فخر ، مسرت اور خوشی نصیب فرماکر سنتوں پر عمل کرنا ہمارے مقصد میں شامل فرمائے۔ آمین ثم آمین
آمین ثم آمین
جب مہمان گھر میں داخل ہوتے ہیں تو ہم سب سے پہلے ان کے برقعے اتارتے ہیں اکثر ان کے سروں سے لے کر چادر دیتے ہیں یا وہ دوپٹہ سر پر کر لیتی ہیں
پھر ہم ان کو بہت ادب سے بٹھاتے ہیں۔ ان کے آگے کھانا رکھتے ہیں ۔ جب کھانا کھا کر اور ان کے جانے کا وقت آتا ہے تو ان سے پوچھتے ہیں کہ کوئی کمی تو نہیں رہی۔
بلکہ جو گھر کے لوگ نہیں آتے ہوتے ہیں ان کے لیے پارسل بھی بنوا کر دیتے ہیں۔ کیوں کہ جب خوشی کا موقع ہوتا ہے تو اپنی خوشی میں سب کو شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پٹھانوں کی کچھ چیزیں ہیں جوآزادی مارچ والوں کے خلاف جاتی ہیں۔ ایک پردہ دوسرا بیوی اور بچوں پر سختی۔اور نماز کی پابندی۔
بنیر کے علاقے میں اسے رواج سمجھ لو کہ چھوٹے بچے سے لیکر بڑوں تک سب نماز کی پابندی بہت زیادہ کرتے ہیں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آمین
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جی ہاں یہ پختوں بھائیوں کی اعلی مہمان داری ہے کئی بار دعوتیں کھانے کا اتفاق ہوا مزا اگیا
آپ یقین کریں ہمیں پلیٹیں ہاتھ میں اٹھا کر خود سے اٹھاتے شرم آتی ہے
میں تو ایسی دعوتوں میں نہیں جاتی کبھی بھی جس میں کھانے کے لیے قیدیوں کی طرح لائن میں کھڑا ہونا پڑے
عزت نفس بھی کوئی شے ہے
 
Top