مترادفات القرآن (آ)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آباد ہونا(بسنا) رہنا

کے لیے سکن، تبوا، ثوی، بدا، حضرا، خلد، عاشر اور غنی کے الفاظ قرآن کریم میں مستعمل ہوئے ہیں۔
1:سکن:
سکون
کا لفظ اضطرار اور حرکت کی ضد ہے۔ لہذا آباد ہونا کے مفہوم میں جب سکن کا استعمال ہو گا تو اس کے معنی ہوں گے "کسی دوسرے مقام سے آ کر رہائش پذیر ہونا" اور قرآن کریم میں ہے:
وَقُلْنَا يَآ اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ (سورۃ البقرۃ آیت 35)
اور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو
تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی پیدائش جنت کے علاوہ کسی دوسرے مقام پر ہوئی تھی۔
حضرت ابراہیم نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو لا بسایا تو فرمایا:
رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ(سورۃ ابراہیم آیت 37)
اے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو میدان (مکہ) میں جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت (و ادب) والے گھر کے پاس لا بسائی ہے۔
2: تبوا:
اس کا مادہ (ب و ء) سے ہے۔ اس کے مفہوم میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ 1: رجوع الی الشئی اور برابر سرابر ہونا۔ اور اس لفظ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کسی رہائشی مقام کی فضا اور ماحول رہنے والے کی طبیعت کے موافق اور سازگار ہو یا کوئی شخص جس مقصد کے لیے کسی رہائشی جگہ کا انتخاب کرتا ہے وہ اس کے لیے موافق اور سازگار ہو۔ مثلاً
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوۡسُفَ فِىۡ الۡاَرۡضِ‌ۚ يَتَبَوَّاُ مِنۡهَا حَيۡثُ يَشَآءُ‌ؕ (سورۃ یوسف آیت 56)
اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے
اسی طرح اللہ تعالی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ( سورۃ آل عمران آیت 121)
اور اس وقت کو یاد کرو جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لئے مورچوں پر موقع بہ موقع متعین کرنے لگے اور اللہ سب کچھ سنتا ہے جانتا ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جنگ کے موقع و محل کے لحاظ سے ہر ایک کو مخصوص مقامات پر متعین فرماتے تھے۔
3: ثوی:
بمعنی دفن کیا جانا، کسی جگہ ٹھہرنا، آباد ہونا۔ ثوی الرجل آدمی کا مرنا (منجد) (لغت اضداد) اور بمعنی کسی جگہ کو مستقل طور پر اقامت گاہ بنا لینا۔ آباء و اجداد سے کسی ایک مقام پر ہی رہائش اختیار کیے رکھنا۔ اللہ تعالی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہیں:
وَلٰكِنَّـآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْـهِـمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِـىٓ اَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِنَاۙ وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ (سورۃ قصص آیت 45)
لیکن ہم نے (موسیٰ کے بعد) کئی اُمتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گذر گئی اور نہ تم مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے۔
4: خلد:
کسی جگہ پر ایک طویل عرصہ تک رہنا جہاں تغیر و فساد واقع نہ ہو۔ اللہ تعالی اہل جنت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
وَ لَہمۡ فِیۡہاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہرَۃٌ وَّ ھمۡ فِیۡہا خٰلِدُوۡنَ (سورۃ بقرۃ آیت 25)
اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔
5،6 حضرا، بدا:
کسی شہر میں مقیم ہونا۔ شہری رہائش اختیار کرنا اور حضر کی ضد بدو ہے۔
بدا (یبدؤا بداواۃ) کے معنی کسی گاؤں یا دور افتادہ جگہ کا باشندہ ہونا۔ بدا کے لغوی معنی (ظاہر ہونا) بھی ہے اور اس سے ایک مقام رہائش مراد ہوتا ہے جہاں بلند عمارتیں نہ ہونے کی وجہ سے سب کچھ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اس سے بادیۃ بمعنی صحرا، بادی صحرا نشین اور بدوی بمعنی دیہاتی کے الفاظ مشتق ہیں۔ اب ان کی قرآن کریم سے مثالیں دیکھئے۔
فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْؕ-تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ- (سورۃ بقرۃ آیت 196)
اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مکے میں نہ رہتے ہوں ۔
اور یوسف علیہ السلام اللہ تعالی کے احسانات کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
وَ قَدۡ اَحۡسَنَ بِیۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِیۡ مِنَ السِّجۡنِ وَ جَآءَ بِکُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّیۡطٰنُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَ اِخۡوَتِیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہ ھوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ (سورۃ یوسف آیت 100)
اور اس نے مجھ پر (بہت سے) احسان کئے ہیں کہ مجھ کو جیل خانے سے نکالا۔ اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا۔ آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بے شک میرا پروردگار جو چاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے۔
7: عاشر:
اس کا مادہ عشر ہے۔ جس کے دو بنیادی معنی ہیں۔ ایک دس کا عدد اور مخالطت اور مداخلت یعنی آپس میں مل جل کر رہنا۔ اسی سے لفظ عشیرۃ مشتق ہے جس کے معنی قبیلہ کے ہیں اور عاشر کے معنی ایک کنبہ کے ساتھ مل جل کر رہنا۔ قرآن کریم میں ایسے مردوں کو جنہیں اپنی بیویوں پر کچھ شکایات ہوں حکم دیا گیا ہے کہ:
وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ ۚ (سورۃ النساء آیت 19)
اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو
8: غنی بالمکان:
بمعنی کسی مقام پر طویل مدت تک آرام و اطمینان سے رہنا۔ گویا وہ دوسری جگہوں سے بے نیاز ہے قرآن میں ہے:
الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاۚۛ-اَلَّذِیْنَ كَذَّبُوْا شُعَیْبًا كَانُوْا هُمُ الْخٰسِرِیْنَ (سورۃ الاعراف آیت 92)
یہ لوگ جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ایسے برباد ہوئے تھے کہ گویا وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے غرض جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑ گئے
ماحصل:
  • سکن: کسی دوسرے مقام سے آ کر آباد ہونے کے لیے
  • تبوا: موافق اور سازگار ماحول میں آباد ہونے کے لیے
  • ثوی: موروثی طور پر کسی جگہ پر آباد ہونے کے لیے
  • خلد: طویل عرصہ کے لیے جس میں تغیر و فساد نہ ہو
  • حضر: کسی شہر میں رہنے کے لیے
  • بدا: کسی دیہات یا جنگ میں رہنے کے لیے
  • عاشر: اپنے خاندان میں مل جل کر رہنے کے لیے
  • غنی: طویل مدت تک آرام و اطمینان سے رہنے کے لیے
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آباد کرنا/بسنا

یہ مصدر آباد ہونا سے متعدی ہے۔ لہذا سکن سے اسکن اور بوء سے بوّا بھی قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں اور عمر اور اوی کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
1: اسکن
کسی ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جا کر آباد کرنا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں:
رَبَّنَاۤ اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ (سورۃ ابراہیم آیت 37)
اے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو میدان (مکہ) میں جہاں کھیتی نہیں
2: بوّا
کسی کو اس کی طبیعت اور پسند کے موافق جگہ پر آباد کرنا۔ قرآن کریم میں ہے:
وَلَقَدۡ بَوَّاۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ مُبَوَّاَ صِدۡقٍ وَّرَزَقۡنٰهُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ (سورۃ یونس آیت 93)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کو عمدہ جگہ دی اور کھانے کو پاکیزہ چیزیں عطا کیں
3: عمر
کا لفظ مکان بنانے، رونق بڑھانے اور بنجر زمین کو آباد کرنے کے معنی میں آتا ہے ابن الفارس کے نزدیک اس کے مفہوم میں بقا اور طویل مدت بھی شام ہے۔ اور عمر وہ مدت ہے جب تک روح جسم کے ساتھ آباد رہے۔ عمر کی ضد خرب ہے جس کے معنی مکانوں یا کھیتوں کو برباد کرنا، اجاڑنا اور بے آباد کرنا اور بے رونق بنانا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرب قیامت کی جو علامات بتلائیں تو ان میں ایک یہ بھی ہے:
مساجدھا عامرۃ و ھی خراب من الہدی
اس وقت مسجدیں آباد تو ہوں گی مگر ہدایت کے لحاظ سے اجڑی ہوں گی۔
اور قرآن کریم میں ہے:
اِنَّمَا يَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ (سورۃ توبہ آیت 18)
خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں
دوسرے مقام پر فرمایا:
كَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡهُمۡ قُوَّةً وَّاَثَارُوۡا الۡاَرۡضَ وَعَمَرُوۡهَاۤ اَكۡثَرَ مِمَّا عَمَرُوۡهَا (سورۃ روم آیت 9)
وہ اُن سے زورو قوت میں کہیں زیادہ تھے اور اُنہوں نے زمین کو جوتا اور اس کو اس سے زیادہ آباد کیا تھا جو اُنہوں نے آباد کیا۔
4: اوی
کسی کو اپنے ہاں رہائش کے لیے جگہ دینا، پناہ دینا۔ اس کا مادہ ا و ی ہے جس کے معنی کسی کے ساتھ مل جانا اور منظم ہو جانا کے ہیں۔ تا کہ کسی خطرہ وغیرہ سے پناہ حاصل ہو جیسا کہ قرآن میں اصحاب کہف کا قصہ مذکور ہے کہ وہ مشرک حکومت کے ڈر سے پہاڑ کی ایک کھوہ میں جا بیٹھے تھے۔ فرمایا:
اِذۡ اَوَى الۡفِتۡيَةُ اِلَى الۡـكَهۡفِ فَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً وَّهَيِّئۡ لَـنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا(سورۃ کہف آیت 10)
جب وہ نوجوان غار میں جا رہے تو کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر اپنے ہاں سے رحمت نازل فرما۔ اور ہمارے کام میں درستی کے سامان مہیا کر۔
اور جب حضرت نوح نے اپنے کافر بیٹے کو اسلام لانے اور کشتی میں سوار ہونے کو کہا کہ وہ طوفان سے ہلاک ہونے سے بچ جائے تو اس نے کہا:
قَالَ سَاَاوِىۡۤ اِلٰى جَبَلٍ يَّعۡصِمُنِىۡ مِنَ الۡمَآءِ (سورۃ ھود آیت 43)
اس نے کہا کہ میں (ابھی) پہاڑ سے جا لگوں گا، وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔
اور افعال باب ابواء کا معنی کسی کو اپنے ہاں جگہ دینا، ٹھہرانا سے مخصوص ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجٰهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيۡنَ اَاوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا‌ؕ لَّهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ(سورۃ انفال آیت 74)
اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
ماحصل:
  • اسکن: کسی دوسرے مقام پر آباد کرنے کے لیے۔
  • بوّا: مناسب ماحول میں آباد کرنے کے لیے۔
  • عمر: زمین آباد کرنے، مکان تعمیر اور آباد کرنے اور رونق بڑھانے کے لیے۔
  • اوی: کسی کو اپنے ہاں بطور پناہ رہائش دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آخرت

آخرت کے لیے آخرۃ، دار الاخرۃ، یوم الاخر، دار القرار اور الیوم البعث کے الفاظ آئے ہیں۔ جو آخرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں نیز یوم التغابن، یوم التناد، یوم الدین، یوم الفصل، یوم الجمع، یوم النشور کے لیے دیکھئے زیر عنوان "قیامت"۔
1: آخرۃ
کا معنی دار البقا ہے یعنی مرنے کے بعد انسانوں کو دوسرے جہان میں جو دائمی زندگی حاصل ہو گی اور اس زندگی میں روح اور جسم کا کلی طور پر اتصال ہو گا اور نیک اور بد کار لوگوں کو اپنے اپنے اعمال کے بدلہ میں جنت یا دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ (سورۃ البقرۃ آیت 4)
اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
یہاں آخرت سے مراد اسی قسم کی زندگی ہے۔ اسی لحاظ سے آخرت کی ضد عاجلہ، دنیا، ادنی، اولی سب قرآن میں مستعمل ہیں۔
2: دار الاخرت
دار کا معنی رہائش گاہ ہے اور دار (جمع دیار، دور) کا اطلاق بہت وسیع مفہوم پر ہوتا ہے۔ دار بمعنی گھر، حویلی، علاقہ، وطن، ملک حتی کہ یہ پوری دنیا بھی انسانوں کی رہائش گاہ ہونے کے لیے سے دار الدنیا ہے اور اس کی ضد دار الاخرت ہے۔ البتہ اس اخروی زندگی میں ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق دار عطا کیا جائے گا۔ قرآن میں ہے:
وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ (سورۃ النحل آیت 30)
اور پرہیز گاروں کا گھر بہت خوب ہے
اور کافروں کے لیے یہی ٹھکانہ
سُوءُ الدَّارِ ( سورۃ الرعد آیت 25)
اور
دَارَ الْبَوَارِ ( سورۃ ابراہیم آیت 28)
ثابت ہو گا اور دونوں سے مراد دوزخ ہے۔
3: دار القرار
قرار
بمعنی کسی جگہ جم کر رہنا ہے۔ چونکہ یہ زندگی ابدی اور دائمی ہو گی اس لحاظ سے اسے دار القرار کہا گیا۔ تاہم دار القرار کا لفظ اچھے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور دار القرار سے مراد نیک لوگوں کا ٹھکانا یعنی جنت ہو گا۔ کافروں کے لیے اسی زمانہ کی طوالت اور خلود کے لیے قرآن نے
جَهَنَّمَ يَصۡلَوۡنَهَاۖ وَبِئۡسَ ٱلۡقَرَارُ (سورۃ ابراہیم آیت 29)
(وہ گھر) دوزخ ہے۔ (سب ناشکرے) اس میں داخل ہوں گے۔ اور وہ برا ٹھکانہ ہے
کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
4: یوم الاخر
یوم سے مراد اس دنیا کا معروف دن نہیں جو 24 گھنٹے کا ہوتا ہے یا جو رات کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے آخرت کی زندگی کا طویل دور مراد ہے۔ جیسے فرمایا:
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ (سورۃ الاعراف آیت 54)
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا
اور یہ تو واضح ہے زمین اور آسمان کی پیدائش سے پہلے موجود دن، جو سورج کے وجود سے پیدا ہے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
5: یوم البعث
بعث سے مراد قبروں سے زندہ ہو کر کسی خاص مقصد کے لیے اٹھ کھڑے ہونا ہے، چونکہ آخرت کے اس طویل دور کا آغاز اسی "بعث" سے ہو گا لہذا اسے یوم البعث بھی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ اِلٰى یَوْمِ الْبَعْثِ٘ (سورۃ الروم آیت 56)
خدا کی کتاب کے مطابق تم قیامت تک رہے ہو
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آدمی (انسان)

آدمی کے لیے انس اور اس کے مشتقات مثلاً انسان، انسیا، ناس، اناسی وغیرہ کے علاوہ ادم اور بشر کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1:انس
غریب القرآن میں انس کے بہت سے معنی درج ہیں۔ ابن قیتیبہ لکھتے ہیں کہ انسان کو انسان اس لیے کہتے ہیں کہ ظاہر ہے اور آنکھوں سے اس کا ادراک کیا جا سکتا ہے اور دلیل قرآن کریم کی اس آیت سے لاتے ہیں:
اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًاؕ (سورۃ طہ آیت 10)
میں نے آگ دیکھی ہے
اور اس لحاظ سے انس کی ضد جن ہے۔ جس کے معنی استتار یا پوشیدگی کے لیں اور آنکھ ان کا ادراک نہیں کر سکتی اور یہ اس لحاظ سے قرین قیاس بھی ہے کہ انہیں دو مخلوقات کو اللہ تعالی نے ثقلان کہا ہے اور ایک دوسرے کے مقابل استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے فرمایا:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (سورۃ الذریات آیت 56)
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
2: ابن عباس سے یوں روایت ہے کہ انسان کو انسان یا (انسیا) اس لیے کہا گیا ہے کہ
لانّہ عہد الیہ فنسی
یعنی اس سے ایک عہد کیا گیا تھا جسے وہ بھول گیا۔
گویا اس لحاظ سے انسان یا انسیا کا مادہ ن س ی ہوا۔
3: امام راغب اسے انس سے مشتق بیان کرتے ہیں۔ یعنی ایسی مخلوق جو آپس میں انس و موانست اور باہم معاشرتی زندگی گزارنے کے لیے پیدا کی گئی۔ جو مانوس ہو اور ایک دوسرے سے جان پہچان رکھتی ہو۔ اس لیے سے اس کی ضد وحش ہو گی۔
4: اور ابن الفارس نے یہ دونوں چیزیں پیش کر دی ہیں۔(1) ظاہر ہونا (2) ہر وہ شے جو جنگلی اور وحشی طور طریقہ سے مختلف ہو۔
انس اسم جنس ہے یعنی انس سے مراد ایک شخص بھی ہو سکتا ہے اور تمام بنی نوع انسان بھی۔ یہی کیفیت لفظ انسان کی بھی ہے لیکن یہ بول کر عموماً بنی نوع انسان ہی مراد لی جاتی ہے۔ اس کا واحد انسی ہے۔ قرآن میں ہے:
فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًاۙ-فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا (سورۃ مریم آیت 26)
اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے اللہ کے لئے روزے کی منت مانی تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز گلام نہیں کروں گی۔
اور اس کی جمع ناس، اناس، اور اناسی آتی ہے۔
ناس کے لفظ میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ اگر یایہا الناس کہا جائے تو اس سے مراد موجودہ دور یعنی حال اور مستقبل کے سب انسان مخاطب ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ (سورۃ البقرۃ آیت 21)
لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو پیداکیا ۔
اناس: انسانوں کے ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جو تقسیم کار یا قبیلہ یا کسی دوسری وجہ سے دوسرے سے مختلف ہو۔ جیسے فرمایا:
قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ (سورۃ البقرۃ آیت 60)
تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا
اور اناسی: انسانوں کے ایک بہت بڑے گروہ کو کہا جاتا ہے جیسے:
لِّنُحۡیِۦَ بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا وَّ نُسۡقِیَہ مِمَّا خَلَقْنَآ أَنْعَٰمًا وَأَنَاسِىَّ كَثِيرًا (سورۃ الفرقان آیت 49)
تاکہ اس سے شہر مردہ یعنی بنجر زمین کو زندہ کر دیں اور تاکہ ہم وہ پانی بہت سے اور آدمیوں کو جو ہم نے پیدا کئے ہیں پلائیں۔
2: آدم:
آدم کا مادہ ا د م ہے جس کے بنیادی معنی موافقت اور ملائمت کے ہیں۔ اور ادام ہر موافق اور ملائم چیز کو کہتے ہیں۔ اور اس پر دلیل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو آپ نے مغیرہ بن شعبہ کو ایک عورت کو پیغام نکاح کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا:
اذهب فانظر إليها، فإنه أجدرُ أن يُؤدمَ بينكما (سنن الترمذي, ت: محمد فؤاد عبد الباقي, مكتبة ومطبعة مصطفى البابي، الطبعة الثانية، 1395هـ)
اگر تو اسے ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
اس توجیہ کے علاوہ اور بھی کئی توجیہات بیان کی جاتی ہیں لیکن راجح یہی مذکورہ توجیہ ہے کیونکہ اس کی تائید حدیث سے بھی ہو جاتی ہے۔
آدم: ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کا نام ہے۔ تاہم افراد جنس پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اور جب بنی آدم کہا جائے تو اس سے تمام نوع انسانی مراد ہوتی ہے۔
اور آدم یا بنی آدم کا استعمال جہاں کہیں بھی قرآن کریم میں مذکور ہے وہ انسان کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ مثلاً آدم کی مٹی سے پیدائش، عہد الست، فرشتوں کا سجدہ کرنا، اس کا اشرف المخلوقات ہونا، شیطان کا آدم اور بنی آدم کو گمراہ کرنا اور اس کا خدا سے مکالمہ وغیرہ وغیرہ۔
3: بشر
بشر کے بنیادی معنی کسی چیز کا حسن و جمال کے ساتھ ظہور ہے۔ جبکہ انس کے معنی محض ظہور کے ہیں۔ البشرۃ انسان کی جلد کی اوپر کی سطح کو کہتے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے:
لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ (سورۃ مدثر آیت 29)
اور بدن کو جھلس کر سیاہ کر دے گی۔
اور اس کی جمع بشر اور ابشار آتی ہے اور انسان کو بشر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی جلد بمقابلہ دوسرے حیوانات کے اون، پشم اور بالوں وغیرہ سے بہت حد تک پاک و صاف ہوتی ہے اور ظاہر دکھائی دیتی ہے
بشر کا لفظ واحد، جمع، مذکر، مونث سب کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ اس کی تثنیہ بشرین ہے۔ جیسے فرمایا:
اَنُؤۡمِنُ لِبَشَرَيۡنِ مِثۡلِنَا (سورۃ المؤمنون آیت 47)
کیا ہم ان اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ؟
اور بشر کا لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب انسان کے طبعی اور مادی پہلو، اس کی جسمانی بناوٹ، فطری حوائج اور کمزوریوں کا ذکر کرنا مقصود ہو۔ جیسا کہ مندرجہ بالا آیت سے واضح ہے۔ اور بشر کے مقابلہ میں ملک (بمعنی فرشتہ) کا لفظ ہے جو مادی، یعنی ظاہری جس اور فطری حوائج سے یکسر پاک ہوتا ہے۔ کفار کا ہمیشہ یہی اعتراض رہا کہ ہم اپنے ہی جیسے ایک بشر جو ہماری طرح ہی پیدا ہوتا ہے اور مرتا ہے، کھاتا پیتا، بازاروں میں چلتا پھرتا اور اپنی حاجات ہماری طرح ہی پوری کرتا ہے۔ تو اس میں آخر کیا فوقیت ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے۔ ہاں اگر کوئی فرشتہ ہوتا، جو ان حوائج سے پاک ہوتا تو کوئی بات بھی تھی۔ درج ذیل آیات میں خدا تعالی نے اسی اعتراض کا جواب دیا ہے:
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَهُمُ الۡهُدٰٓى اِلَّاۤ اَنۡ قَالُـوۡۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوۡلاً قُل لَّوۡ كَانَ فِىۡ الۡاَرۡضِ مَلٰۤٮِٕكَةٌ يَّمۡشُوۡنَ مُطۡمَٮِٕنِّيۡنَ لَـنَزَّلۡنَا عَلَيۡهِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَـكًا رَّسُوۡلاً‏ (سورۃ بنی اسرائیل آيت 94،95)
اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ گئی تو انکو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کہ کیا اللہ نے آدمی کو پیغمبر کر کے بھیجا ہے۔کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے کہ اس میں چلتے پھرتے اور رہتے بستے تو ہم ان کے پاس کسی فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے۔
ماحصل:
جب انسان کے معاشرتی پہلو کا تذکرہ مقصود ہو تو انس اور اس کے مشتقات اور جب تاریخی پہلو کا ذکر ہو تو آدم اور بنی آدم اور جب اس کے طبعی اور فطری حوائج کا ذکر مقصود ہو تو بشر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آرام کرنا

آرام کرنا کے لیے سکن، سبت اور ارتفق (ر ف ق) کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
1: سکن
حرکت اور اضطراب کے بعد ٹھہراؤ کو سکون کہتے ہیں اور سکون کا لفظ ظاہری و معنوی دونوں طرح سے مستعمل ہوتا ہے جسمانی تھکاوٹ کے بعد آرام کرنے کے لیے بھی، جیسے فرمایا
مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ (سورۃ القصص آیت 72)
تو اللہ کے سوا کون معبود ہے کہ تم کو رات لا دے جس میں تم آرام کرو۔
اور ذہنی تفکرات سے سکون حاصل کرنے کے لیے بھی۔ جیسے فرمایا
وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ (سورۃ التوبہ آیت 103)
اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے۔
2: سبت
اس کے بنیادی معنی راحت اور سکون ہے۔ یعنی ایسا آرام جس کے بعد راحت بھی حاصل ہو جیسے فرمایا:
وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (سورۃ النبا آيت 9)
اور نیند کو تمہارے لئے موجب آرام بنایا۔
اور طبی تحقیق یہ ہے کہ دن بھر کام کرنے سے جسم کے جو خلیے ختم ہو جاتے ہیں نیند کی حالت میں ان کی تلافی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری نیند لینے کے بعد انسان جب بیدار ہوتا ہے تو تازہ دم اور مسرور ہوتا ہے اور یہی سبت کا مفہوم ہے ۔
3: ارتفق
اس کا مادہ رفق ہے۔ درشتی اور سختی سے پاک باہم موافقت اور قرب کو رفق کہتے ہیں۔ بعد ازاں جو شے راحت اور موافقت کا سبب بنے اسے رفق کہا جاتا ہے۔ اسی لحاظ سے مرفق کہنی کو کہتے ہیں کہ اس سے ٹیک لگائی جاتی ہے اور انسان آرام محسوس کرتا ہے اور مرفقہ چھوٹے تقیہ کو کہتے ہیں اور ارتفاق ایسی رفاقت کو کہتے ہیں جو موجب راحت اور موافقت ہو۔ اور فرتفق ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں آرام بھی میسر ہو اور کوئی چیز خلل انداز نہ ہو۔ جیسے ارشاد باری ہے:
نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقاً (سورۃ الکہف آيت 31)
کیا خوب بدلہ اور کیا خوب آرام گاہ ہے۔
ماحصل:
  • سكن: جسمانی اور ذہنی آرام کے لیے۔
  • ارتفق: ایسے آرام کے لیے جس میں کوئی دوسری چیز حائل یا خلل انداز نہ ہو، استعمال ہوتا ہے۔
  • سبت: آرام اور اس کے بعد راحت کے لیے ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آرزو کرنا

آرزو کرنا کے لیے امل، امنیّۃ اور ودّ کے الفاظ آئے ہیں۔
1: امل
ایسی آرزو اور توقع جس کا پورا ہونا گو متوقع اور منتظر ہوتا ہے تاہم مشکل اور بعید ہوتا ہے چنانچہ ابن فارس نے اس کے معنی التثبت والانتظار درج فرمائے ہیں۔ یعنی کسی آرزو کی آس لگائے رکھنا اور اس کی تکمیل کا منتظر رہنا، زندگی کی بہاریں دیکھنے کا آرزو مند رہنا۔ جیسے کسی شاعر نے اپنے دوست سے وفا کی آرزو میں یہ مصرع کہہ یا جو امل کے مفہوم کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔
وفا فریب ہے طول امل ہے کچھ بھی نہیں
ارشاد باری تعالی ہے:
ذَرۡهُمۡ يَاۡكُلُوۡا وَيَتَمَتَّعُوۡا وَيُلۡهِهِمُ الۡاَمَلُ‌ فَسَوۡفَ يَعۡلَمُوۡنَ‏ (سورۃ الحجر آیت 3)
آپ (غمگین نہ ہوں) انہیں چھوڑ دیجیے وہ کھاتے (پیتے) رہیں اور عیش کرتے رہیں اور (ان کی) جھوٹی امیدیں انہیں (آخرت سے) غافل رکھیں پھر وہ عنقریب (اپنا انجام) جان لیں گے
2: امنیّۃ
ایسی آرزو جس کی کوئی مضبوط بنیاد موجود نہ ہو۔ حسن ظن و تخمین پر کوئی خیال باندھنا پھر اس کی آرزو رکھنا۔ گویا یہ لفظ باطل اور جھوٹی خواہشات اور توقعات کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَقَالُوۡا لَنۡ يَّدۡخُلَ الۡجَـنَّةَ اِلَّا مَنۡ كَانَ هُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰى‌ؕ تِلۡكَ اَمَانِيُّهُمۡ‌ؕ قُلۡ هَاتُوۡا بُرۡهَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ(سورۃ البقرۃ آیت 111)
اور یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی بہشت میں نہیں جانے کا یہ ان لوگوں کے خیالات باطل ہیں اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔
اور بعض علماء نے درج ذیل آیت:
وَ مِنۡهُمۡ اُمِّيُّوۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ الۡكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِىَّ وَاِنۡ هُمۡ اِلَّا يَظُنُّوۡنَ(سورۃ البقرۃ آیت 78)
اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنی آرزؤں کے سوا اللہ کی کتاب سے واقف ہی نہیں اور وہ صرف اٹکل سے کام لیتے ہیں۔
میں امانی سے مراد وہ روایات لی ہیں جو انہوں نے پنی طرف سے دین میں شامل کر لی تھیں یا تحریف کر لی تھی اور مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کیا ہے اور بعض نے امانی سے مراد بے سوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے۔ جیسا کہ اس خیال کی تائید بعض دوسری آیات بھی کرتی ہیں اور تمنی بمعنی جھوٹی بات کرنا ہے۔ تمنی الرجل بمعنی اس نے جھوٹ بولا۔ قرآن میں ہے:
اَمۡ لِلۡاِنۡسَانِ مَا تَمَنّٰى (سورۃ النجم آیت 24)
کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے؟
3: ودّ
اس کے بنیادی معنی میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ 1) کسی چیز سے محبت کرنا۔ 2) اس کے حصول کی آرزو کرنا۔ پھر یہ لفظ کبھی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے کبھی کسی ایک معنی میں۔ مثلاً درج ذیل آیت:
رُّبَمَا يَوَدُّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡ كَانُوۡا مُسۡلِمِيۡنَ‏ (سورۃ الحجر آيت 2)
کفار (آخرت میں مومنوں پر اللہ کی رحمت کے مناظر دیکھ کر) بار بار آرزو کریں گے کہ کاش! وہ مسلمان ہوتے
میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں اور درج ذیل آیت:
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجۡعَلُ لَهُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا (سورۃ مریم آيت 96)
اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے رحمٰن انکی محبت مخلوقات کے دل میں پیدا کر دے گا۔
میں صرف پہلا مفہوم پایا جاتا ہے۔
ماحصل:
  • امل: بظاہر غیر متوقع اور دیر سے وقوع پذیر ہونے والی آرزو۔
  • امنیّۃ: باطل اور بے بنیاد آرزو کو کہتے ہیں۔ (اور جس آرزو کی بنیاد موجود ہو وہ رجاء ہے)
  • ودّ: کسی بھی چیز کی محبت اور آرزو کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آڑ

آڑ کے لیے برزخ، حجر، حجز اور حدّ کے الفاظ آئے ہیں۔
1: برزخ
دو چیزوں کے درمیان کوئی حائل چیز جبکہ ان دونوں چیزوں کے درمیان کافی وسعت ہو تو یہ حائل چیز برزخ ہے (م ل) جیسے دنیا اور آخرت کے درمیان یا مرنے سے لے کر قیامت تک کا درمیانی وقفہ برزخ کہلاتا ہے۔
لیکن ابن الفارس نے جو کافی وسعت کی قید لگائی ہے یہ صحیح نہیں کیونکہ قرآن کریم اس کی تائید نہیں کرتا ارشاد باری ہے:
مَرَجَ الۡبَحۡرَيۡنِ يَلۡتَقِيٰنِۙ‏۝ بَيۡنَهُمَا بَرۡزَخٌ لَّا يَبۡغِيٰنِ‌ۚ(سورۃ الرحمن آيت 19، 20)
اسی نے دو سمندر رواں کئے جو باہم مل جاتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے وہ (اپنی اپنی) حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔
البتہ اگر "کافی کھلی جگہ" کے بجائے کافی فرق (خواص وغیرہ کا) ہوتا تو موزوں تر تھا۔
برزخ دراصل دو چیزوں کے درمیان ایک تیسری چیز ہوتی ہے جو آڑ کا کام بھی دیتی ہے مگر اس تیسری چیز یعنی برزخ میں دونوں چیزوں کے خواص بھی موجود ہوتے ہیں خواہ ایک چیز کے دوسری سے زیادہ ہوں یا برابر۔ عالم برزخ کی بھی یہی صورت ہے کہ مومن کے لیے راحت اور کافر کے لیے عذاب یہیں سے شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ اخروی راحت یا عذاب سے کم تر درجہ کا ہوتا ہے۔
اور دو دریاؤں کا درمیانی برزخ یوں ہوتا ہے کہ سمندر ایک گرم رو چل رہی اور دوسری سرد رو ہے تو اس برزخ کا پانی معتدل ہو گا۔ اسی طرح اگر ایک طرف میٹھا پانی اور دوسری طرف کڑوا اور کھاری تو اس برزخ کا پانی درمیانی کیفیت کا حامل ہو گا اور اس برزخ کی چند مثالیں دی جا سکتی ہیں جن میں درمیانہ قسم کے خواص موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً جنت اور دوزخ کے درمیان اعراف کہ یہاں نہ عذاب ہو گا نہ راحت۔ انسان اور حیوان کے درمیان بن مانس، انسان اور مچھلی کے درمیان جل پری، حیوانات اور جمادات کے درمیان مرجان، ٹھوس اور مائع اشیا کے درمیان پارہ وغیرہ وغیرہ۔
2: حجر
حجارۃ کا عام معنی پتھر ہے جو سخت اور ٹھوس ہے۔ پھر حجر ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو سخت بھی ہو اور ایسی آڑ یا روک کا کام دے جو کسی چیز کو دوسری چیزوں سے الگ کر سکے (م ف) ابن فارس کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے: المنع والاحاطۃ علی الشیء (م ل) گاؤں کی حفاظت کے لیے گاؤں کے گرد حصار کھینچ لینا، پتھروں کا احاطہ کرنا، کوٹ یا حویلی سے احاطہ کرنا۔ یہ سب کچھ حجر کے مفہوم میں شام ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَوۡمَ يَرَوۡنَ الۡمَلٰٓٮِٕكَةَ لَا بُشۡرٰى يَوۡمَٮِٕذٍ لِّـلۡمُجۡرِمِيۡنَ وَ يَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا‏ (سورۃ الفرقان آیت 22)
جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے (تو) اس دن مجرموں کے لئے چنداں خوشی کی بات نہ ہوگی بلکہ وہ (انہیں دیکھ کر ڈرتے ہوئے) کہیں گے: کوئی روک والی آڑ ہوتی (جو ہمیں ان سے بچا لیتی یا فرشتے انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ تم پر داخلۂ جنت قطعاً ممنوع ہے)
حجرا محجورا کا لفظ اہل عرب کسی دشمن یا آفت کے نازل ہونے کے وقت محاورتاً استعمال کرتے تھے جیسے ہم کہتے ہیں "اس سے خدا کی پناہ"۔ تو سننے والا اس کو عموماً کوئی تکلیف نہ پہنچاتا۔
پھر حجر کا لفظ ایسی عقل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو غلط اور باطل نظریات اور بیہودہ باتوں کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ گویا ایسی محتاط عقل کو بھی جو اپنا بچاؤ سوچ لے حجر کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
هَلۡ فِىۡ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِىۡ حِجۡرٍؕ‏ (سورۃ الفجر آیت 5)
بیشک ان میں عقل مند کے لئے بڑی قسم ہے۔
پھر حجر کا لفظ ممنوع، ناجائز اور حرام چیز کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
وَقَالُوۡا هٰذِهٖۤ اَنۡعَامٌ وَّحَرۡثٌ حِجۡرٌ‌ۖ لَّا يَطۡعَمُهَاۤ اِلَّا مَنۡ نَّشَآءُ بِزَعۡمِهِمۡ (سورۃ الانعام آیت 138)
اور اپنے خیال سے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مویشی اور کھیتی منع ہے۔ اسے اس شخص کے سوا جسے ہم چاہیں کوئی نہ کھائے
3: حجز
دو چیزوں کے درمیان ایک تیسری چیز جو دونوں کے درمیان حائل ہو جائے۔ الحول بین الشیئین (م ل) اور حاجز بمعنی اوٹ، پردہ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَجَعَلَ بَيۡنَ الۡبَحۡرَيۡنِ حَاجِزًا‌ؕ (سورۃ النمل آیت 61)
اور (کھاری اور شیریں) دو سمندروں کے درمیان آڑ بنائی
پھر حاجز کا لفظ درمیان میں حائل ہو کر کسی ایک چیز کو روک لینے یا دوسری کو بچا لینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جیسے:
فَمَا مِنۡكُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡهُ حَاجِزِيۡنَ‏ (سورۃ الحاقۃ آیت 47)
پھر تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اِس سے روکنے والا نہ ہوتا۔
4: حدّ
ہر چیز کی انتہا اور آخری کنارا جو اسے دوسری چیزوں سے الگ کر دے (م ا) گویا اس کے بنیادی معنی میں 1)روک 2) کنارا، کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ گویا حدّ کوئی تیسری چیز نہیں ہوتی وہ ایک ہی چیز کا آخری کنارا ہے جو اسے دوسروں چیزوں سے ملنے نہیں دیتا (م ف) ہمارے ہاں حدود اربعہ کا لفظ عام مستعمل ہے جو اس مفہوم کی وضاحت کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوۡدَهٗ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَالِدًا فِيۡهَا (سورۃ النساء آيت 14)
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو اللہ دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ذلت کا عذاب ہو گا۔
ماحصل:
  • برزخ: دو چیزوں کے درمیان ایک تیسری چیز جس میں دونوں کے کم و بیش برابر برابر خواص پائے جائیں اور روک کا کام دے۔
  • حجر: ایسی روک جو کسی چیز کو دوسری چیزوں سے محفوظ رکھے۔
  • حجز: دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ایک چیز کو دوسری چیز سے محفوظ اور بچائے رکھے۔
  • حدّ: ایک ہی چیز کو آخری انتہا یا آخری کنارا جو اسے دوسری چیزوں سے ملنے سے روک دے۔ نیز دیکھیے "پردہ" اور "دیوار"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آزاد

آزاد کے لیے حرّ، محصن اور محصنات اور سدی کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔
1: حرّ
بمعنی آزاد (ضد عبد یعنی غلام) یعنی ایسا شخص جو کسی کا غلام نہ ہو۔ قرآن کریم میں ہے:
الۡحُرُّ بِالۡحُـرِّ وَالۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَالۡاُنۡثَىٰ بِالۡاُنۡثٰىؕ (سورۃ البقرۃ آیت 178)
اس طرح پر کہ آزاد کے بدلے آزاد مارا جائے اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔
2: محصن
حصن کے معنی قلعہ یا پناہ گاہ کے ہیں اور ابن الفارس کے نزدیک اس میں تین باتیں پائی جاتی ہیں۔ حفاظت، احاطہ اور پناہ۔ اور احصار میں بھی بنیادی طور پر انہی باتوں کا تصور پایا جاتا ہے۔ احصان بھی دو قسم پر ہے ایک یہ کہ آزادی اور اس کا شرف غلامی کے مقابلے میں بذات خود ایک قلعہ کا کام دیتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ محصن یا محصنات اگر عفیف یا عفیفہ کے معنی میں تو ص کو زبر اور زیر دونوں کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں اور اگر حرمت کے بعد یہ لفظ تو ص پر زبر ہی پڑھا جائے گا اور اس کا معنی صرف شادی شدہ ہو گا (م ف) لونڈی اور غلام کے مقابلہ میں آزاد مرد اور عورت اپنی عصمت کی حفاظت کرنے میں بہت حد تک آزاد ہیں۔ ایک تو لونڈی غلام کو کام کاج کے لیے باہر جانا پڑتا ہے اور وہ معاشرہ میں کمتر درجہ رکھنے کے باعث فحاشی کے زیادہ مرتکب یا شکار ہو جاتے تھے۔ دوسرے اس وقت کا یہ دستور بھی تا کہ مالک محض لالچ کی خاطر اپنی لونڈی سے پیشہ کرواتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس مکروہ کاروبار سے بشدّت منع فرما دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تُكۡرِهُوۡا فَتَيٰتِكُمۡ عَلَى الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّـتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ؕ (سورۃ النور آيت 33)
اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن (یا حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں
نیز فرمایا:
وَمَنۡ لَّمۡ يَسۡتَطِعۡ مِنۡكُمۡ طَوۡلاً اَنۡ يَّنۡكِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ مِّنۡ فَتَيٰتِكُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ (سورۃ النساء آیت 25)
ور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن باندیوں ہی سے جو تمہارے قبضے میں آ گئ ہوں نکاح کر لے
اس آیت میں محصنات کا لفظ آزاد اور کنواری عورتوں کے استعمال ہوا ہے۔ شادی شدہ عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کے اور بھی زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ نکاح کے بعد شہوت کی تسکین اور مرد کی غیرت عورت کو فحاشی سے بچانے کے لیے مضبوط قلعہ کا کام دیتی ہے۔ درج ذیل آیت میں محصنات کا لفظ صرف شادی شدہ عورت کا مفہوم واضح کر رہا ہے۔
وَّالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ (سورۃ النساء آیت 24)
ور شوہر والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر وہ جو قید ہو کر باندیوں کے طور پر تمہارے قبضے میں آ جائیں
گویا احصان کا لفظ اپنی عصمت و عفت کی حفاظت میں آزاد ہونے کے مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔
3: سُدًى
سدی الناقة بمعنی اونٹنی نے اپنی چال میں فراخ قدم رکھا اور سادی اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو اپنی چال میں کھلے کھلے قدم رکھے (منجد) اور سدی بمعنی شتر بے مہار جس پر کوئی پابندی نہ ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَيَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَنۡ يُّتۡرَكَ سُدًىؕ‏ (سورۃ قیامۃ آیت 36)
کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گا
ماحصل:
  • حر: عبد کے مقابلے میں آزاد
  • محصن: اپنی عصمت کی حفاظت کرنے میں آزاد
  • سدی: شتر بے مہار
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آزاد کرنا

آزاد کرنا کے لیے تحریر، طلاق اور تسریح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
1:تحریر
اس کا اصل حرّ ہے اور اس کے مادہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ (1) آزاد ہونا (2) عیب و نقص سے پاک ہونا (م ل) حر کی ضد "عبد"، معنی غلام ہے۔ اور حرر ( تحریرا) کے معنی غلام کو آزاد کرنا۔ گویا یہ لفظ صرف غلام کو آزاد کرنے کے لیے مخصوص ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَمَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـــًٔا فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖۤ (سورۃ النساء آیت 92)
اور کسی مومن کو شایاں نہیں کہ دوسرے مومن کو مار ڈالے مگر غلطی سے ایسا کر بیٹھے۔ اور جو غلطی سے بھی مومن کو مار ڈالے تو وہ ایک تو ایک مسلمان غلام آزاد کر دے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے۔
2: طلاق
اس کے مادہ طلق، میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (۱) تخلیه (۲) ارسال (م ل) - گویا کسی ذی حیات کو، جو اپنے کنٹرول اور نگہداشت میں ہو ، اس سے کنٹرول اٹھا لینا اور اپنے ہاں سے روانہ کر دینا اس کا معنی ہے اور اس لفظ کا استعمال بالعموم اپنی بیوی کو نکاح کے بندھن سے آزاد کرنے اور رخصت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ دونوں باتیں ایک ساتھ ہی پائی جائیں۔ ارشاد باری ہے:
الطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ (سورۃ البقرۃ آیت 229)
طلاق دو بار ہے
اب یہ تو ظاہر ہے کہ ایک یا دو مرتبہ کی طلاق میں تخلیہ تو پایا جاتا ہے لیکن رخصتی نہیں ہے۔ اسی طرح قیدی کو آزاد کرنے کے لیے بھی طلاق کا لفظ استعمال ہوتا ہے اگر قرآن کریم میں اس کی مثال موجود نہیں تو یہاں بھی تخلیہ یا اپنے حق سے دستبرداری کی شرط موجود ہے لیکن ارسال کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ شرط جس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق میں اصل شرط تخلیہ کی ہے۔ اور ارسال کی شرط بعض اوقات جیسے تیسری مرتبہ کی طلاق میں یہ شرط لازمی ہے اور بعض اوقات معدوم ہوتی ہے جیسے پہلی یا دوسری بار کی طلاق میں۔
3: تسریح
سرح سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں مویشی کا چرنے کے لیے لے جانا اور اسرح بمعنی اونٹ یا مویشیوں کو چرنے کے لیے بھیجنا (منجد) بعد میں اس کا اطلاق مویشیوں کو چرا گاہوں میں کھلا چھوڑ دینے پر ہونے لگا (م ا) چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
وَلَكُمۡ فِيۡهَا جَمَالٌ حِيۡنَ تُرِيۡحُوۡنَ وَحِيۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 6)
اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو اور جب صبح کو جنگل چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت و شان کا اظہار ہوتا ہے۔
گویا تسریح کا بنیادی معنی رخصت میں سہولت کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے اور اس میں بندھن کی گرفت ایسی مضبوط نہیں ہوتی جیسی طلاق کے مفہوم میں پائی جاتی ہے۔ نیز تسریح کا لفظ عام ہے جبکہ طلاق کا لفظ قریباً عورت ہی سے مختص ہو کر رہ گیا ہے۔ البتہ یہ تسریح اگر عورت سے متعلق ہو (تسریح المراة) تو پھر اس کے معنی عورت کو طلاق دے کر رخصت میں آسانی ملحوظ رکھنا (م ا) ہوں گے۔ ارشاد باری ہے:
فَاِمۡسَاكٌۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِيۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ‌ (سورۃ البقرۃ آیت 229)
تو پھر عورتوں کو یا تو بطریق شائستہ نکاح میں رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا۔
دوسرے مقام پر فرمایا
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِّاَزۡوَاجِكَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَتَهَا فَتَعَالَيۡنَ اُمَتِّعۡكُنَّ وَاُسَرِّحۡكُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلاً‏ (سورۃ الاحزاب آیت 28)
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہدو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اسکی زینت و آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔
ماحصل:
  • تحریر کا لفظ صرف غلام کو آزاد کر نے کے لیے مخصوص ہے۔
  • الطلاق اور تسریح دونوں لفظ صورت کی جدائی یا عام مفہوم میں "طلاق" کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ الطلاق میں تخلیه ضروری اور ارسال جزوی شرط ہے جبکہ تسریح میں لازمی جز ارسال ہے اور وہ بھی آسانی و سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آزمائش کرنا

آزمائش کے لیے امتحن (محن) بلی اور ابتلی (بلو) اور فتن کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
1: امتحن:
امتحان ایسی آزمائش کو کہتے ہیں جو سختی کے بجائے نرمی سے کی جائے اور اس میں کشائش کا پہلو بھی شامل ہو (م ا) اور بسا اوقات اس آزمائش سے پیشتر امتحان دہندہ کو زیر تعلیم و تربیت بھی رکھا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَكُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡهُنَّ‌ؕ اللّٰهُ اَعۡلَمُ بِاِيۡمَانِهِنَّ‌ۚ فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡهُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ فَلَا تَرۡجِعُوۡهُنَّ اِلَى الۡكُفَّارِ‌ؕ (سورۃ ممتحنۃ آيت 10)
اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو انہیں اچھی طرح جانچ لیا کرو، اللہ اُن کے ایمان (کی حقیقت) سے خوب آگاہ ہے، پھر اگر تمہیں اُن کے مومن ہونے کا یقین ہو جائے تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو
2: بلى (یبلو، بلاء)
بلاء
ایسی آزمائش ہے جس میں سختی اور شدت پائی جائے صاحب منتہی الارب اس کے معنی "سختی و دریا فتن چیزے و کشف آں" بتلاتے ہیں (م ا) اور یہ آزمائش خیر و شر دونوں صورتوں میں ہو سکتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَبَلَوۡنٰهُمۡ بِالۡحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ (سورۃ اعراف آیت 168)
اور ہم آسائشوں اور تکلیفوں دونوں سے انکی آزمائش کرتے رہے تاکہ ہماری طرف رجوع کریں۔
تاہم آزمائش چونکہ عموماً تکلیف دہ ہوتی ہے اس لیے شر کے پہلو میں استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً
وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 155)
اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے اور صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دو۔
اور ابتلی کے معنی کسی چیز کو الٹ پلٹ کرنا یا حالات کو دگر گوں کر کے جانچنا ہوتا ہے، ارشاد باری ہے:
اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَةٍ اَمۡشَاجٍۖ نَّبۡتَلِيۡهِ فَجَعَلۡنٰهُ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا‏ (سورۃ الدھر آیت 2)
بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا فرمایا جسے ہم (تولّد تک ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ کی طرف) پلٹتے اور جانچتے رہتے ہیں، پس ہم نے اسے (ترتیب سے) سننے والا (پھر) دیکھنے والا بنایا ہے۔
پھر ابتلاء عموماً کسی اتفاقی حادثہ سے ہوتا ہے۔ ایسے واقعہ سے جسے دوسرے لوگ بھی دیکھ سکیں (مف) دیکھیے درج ذیل آیت:
وَاِذِ ابۡتَلٰٓى اِبۡرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ‌ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 124)
اور جب ابراہیم کی اس کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے۔
اور ظاہر ہے کہ یہ باتیں ترک وطن، اولاد کو بے آب و گیاہ میدان میں بے آسرا چھوڑ دینا، بیٹے کی قربانی پر تیار ہو جانا ، یا آگ میں داخل ہو جانا وغیرہ تھے جنہیں دوسرے سب لوگ دیکھ سکتے تھے۔
3: فتن
ابتلاء
کی طرح اس آزمائش میں بھی سختی پائی جاتی ہے۔ فتن کے معنی سونا چاندی کو کٹھیالی میں ڈال کر تپانا گلانا اور کھوٹ معلوم کرنا ہے (منجد) ارشاد باری ہے
يَوۡمَ هُمۡ عَلَى النَّارِ يُفۡتَنُوۡنَ‏ (سورۃ الذریات آیت 13)
اُس دن (ہوگا جب) وہ آتشِ دوزخ میں تپائے جائیں گے۔
اور فتنہ کا لفظ اکثر بڑے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ فتنہ کے معنی آزمائش، دکھ، رنج، رسوائی، دیوانگی، عبرت، عذاب، مرض ہیں (منجد) اسی طرح فتان کے معنی شر انگیز انسان، چور، شیطان ہیں۔ (منجد) جبکہ ابتلاء میں انسان کی آزمائش ذاتی برائی اور خباثت کے سبب سے نہیں آتی۔ دور ابتلاء اور دور فتن میں جو فرق ہے وہ بالکل واضح ہے۔ ابتلاء میں برا پہلو عموماً قدرتی حوادث سے متعلق ہوتا ہے جبکہ فتنہ میں برا پہلو بسا اوقات انسان کا اپنا پیدا کردہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اِلَّا تَفۡعَلُوۡهُ تَكُنۡ فِتۡنَةٌ فِى الۡاَرۡضِ وَفَسَادٌ كَبِيۡرٌؕ‏ (سورۃ انفال آیت 73)
تو مومنو اگر تم یہ کام نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ برپا ہو جائے گا اور بڑا فساد مچے گا۔
ابتلاء اور فتنہ میں ما بہ الامتیاز فرق یہ ہے کہ فتنہ میں عام طور پر آزمائش ایسی چیزوں سے ہوتی ہے جن سے انسان محبت کرتا ہے اور ان سے اس کا دلی لگاؤ ہوتا ہے۔ (م ا) چنانچہ قرآن کریم کی یہ آیت
وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوٰلُكُمۡ وَاَوۡلٰدُكُمۡ فِتۡنَةٌ (سورۃ انفال آیت 28)
اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے۔
اسی پر قوی دلیل ہے۔ سورہ بقرہ میں ہاروت اور ماروت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَةٌ فَلَا تَكۡفُرۡؕ (سورۃ البقرۃ آیت 102)
اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو ذریعہ آزمائش ہیں۔ تم کفر میں نہ پڑھو۔
ماحصل:
  • امتحان: اس آزمائش میں سختی کے بجائے نرمی ہوتی ہے اور اس میں سابقہ تعلیم تربیت کی آزمائش ہوتی ہے۔
  • بلاء اور ابتلاء یہ آزمائش سخت قسم کی ہوتی ہے اور بالعموم ایسے واقعات سے ہوئی جسے دوسرے بھی دیکھ سکیں یعنی حوادث سے ہوتی ہے۔
  • فتنه: فرات خود سخت مگر دل کشی سے ہوتی ہے۔ یعنی بالعموم ایسی چیزوں سے ہوتی ہے جن سے انسان کا دلی لگاؤ ہو۔ دوسرے تو کیا بسا اوقات خود مفتون کو بھی اس آزمائش کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ اس میں مبتلا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آسان

آسان کے لیے یسیر (یسر) اور ہیّن (ہون) کے الفاظ آتے ہیں۔
1: یسیر
اس کے مادہ یسر میں انفتاح اور خفیف ہونا داخل ہے (م ل) اور یسیر وہ کام ہے جو آسانی اور سہولت کے ساتھ سر انجام پا جائے (ضد: عسیر) ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰلِكَ عُدۡوَانًا وَّظُلۡمًا فَسَوۡفَ نُصۡلِيۡهِ نَارًا‌ؕ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا‏ (سورۃ النساء آیت 30)
اور جو زیادتی کرتے ہوئے اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل کریں گے۔ اور یہ اللہ کو آسان ہے۔
2: هَيِّن
اس کا مادہ ہون ہے۔ جس میں آسانی کے علاوہ نرمی کا پہلو بھی شامل ہے (م ا) بشرطیکہ اس نرمی میں سبکی نہ ہو۔ بلکہ نرمی کے ساتھ ساتھ سکینت اور وقار شامل ہو اور یہ صفت قابل ستائش ہے،ارشاد باری ہے:
وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِيۡنَ يَمۡشُوۡنَ عَلَى الۡاَرۡضِ هَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الۡجٰهِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا‏ (سورۃ الفرقان آیت 63)
اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں
اور اگر یہ نرمی کسی کو کمتر کر دے تو یہ ذلت اور رسوائی کی بات ہوتی ہے اور یہ مذموم فعل ہے اور اس کے لیے ھون کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا:
فَالۡيَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡهُوۡنِ (سورۃ احقاف آیت 20)
پس آج کے دن تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی
لہذا ہیّن ایسا کام ہے جو کرنے والے کی طاقت اور قدرت کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہو۔ کیونکہ اس کے مادہ کے مفہوم میں فروتنی کے ساتھ ساتھ کمتری و ذلت کا پہلو بھی شامل ہے ۔ ( بالکل معمولی اور تحقیر بات) سورۃ مریم میں ہے کہ جب فرشتے نے حضرت مریم کو بن باپ بیٹے کی پیدائش کی اطلاع دی تو وہ حیران ہو کہ بولیں:
قَالَتۡ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ غُلٰمٌ وَّلَمۡ يَمۡسَسۡنِىۡ بَشَرٌ وَّلَمۡ اَكُ بَغِيًّا‏۔ قَالَ كَذٰلِكِ‌ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ (سورۃ مریم آیت 20،21)
مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہو گا جبکہ مجھے کسی مرد نے بطور شوہر چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں۔فرشتے نے کہا کہ یونہی ہو گا تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے
ماحصل:
  • یسیر: بات یا کام جو فاعل سے بسہولت سر انجام پائے۔
  • ہیّن: وہ بات یا کام جو فاعل کی قوت و قدرت کے مقابلہ میں بہت کم درجہ کا ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آسمان

آسمان کے لیے سماء (سمو) اور فلک کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
1: سماء
سمو
اور سماء کے بنیادی معنی بلندی کے ہیں۔ لیکن اس بلندی کی کوئی حد نہیں۔ صاحب فقه اللغۃ نے سماء کی تعریف ہی یہ کی ہے: ہر وہ چیز جو ہمارے اوپر اور ہم پر سایہ فگن ہو (ف ل) سماء ہے۔ قرآن میں ہے:
وَّاَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً (سورۃ البقرۃ آیت 22)
اور آسمانوں کی طرف سے پانی برسایا
یہاں سماء سے مراد بادل ہیں جو سطح زمین سے عموماً میل ڈیڑھ میل کی بلندی پر اڑتے پھرتے ہیں۔ اس معمولی سی بلندی کے لیے بھی سماء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور درج ذیل آیت میں:
اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡيَا بِزِيۡنَةِ اۨلۡكَوَاكِبِۙ‏ (سورۃ صافات آیت 6)
بے شک ہم نے آسمانِ دنیا (یعنی پہلے کرّۂ سماوی) کو ستاروں اور سیاروں کی زینت سے آراستہ کر دیا
اتنی زیادہ بلندی مراد ہے جتنی دوری پر ستارے چمکتے ہیں خواہ وہ لاکھوں میلوں کی بلندی پر ہوں جیسے چاند یا کروڑوں میلوں پر جیسے سورج یا ارب یا میل کی بلندی جیسے العقرب وغیرہ۔
سماء کا لفظ اسمائے نسبیہ میں سے ہے اور اس کی ضد ارض ہے۔ یعنی ہر چیز اپنے ماتحت کے لحاظ سماء اور وہی چیز اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض بھی ہے (م ف) گویا ایک ہی چیز اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے اور وہی اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض ہے۔ چنانچہ :
اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَهُنَّؕ (سورۃ الطلاق آیت 12)
اللہ (ہی) ہے جس نے سات آسمان پیدا فرمائے اور زمین (کی تشکیل) میں بھی انہی کی مِثل (تہ بہ تہ سات طبقات بنائے)
اس آیت میں یہی معنی پائے جاتے ہیں۔
پھر میں طرح سماء بلندی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ارض بھی پستی کے معنوں میں آتا ہے۔ مثلاً:
وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰهُ بِهَا وَلٰـكِنَّهٗۤ اَخۡلَدَ اِلَى الۡاَرۡضِ وَاتَّبَعَ هٰوٮهُ (سورۃ الاعراف آیت 176)
اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس کے درجے کو بلند کر دیتے۔ مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔
2: فلک
فلک
کا معنی عموماً آسمان ہی کیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتا فضا میں سیاروں کے مدار یا اجرام فلکی کے گھومنے کے راستوں کو فلک کہتے ہیں (م ا) ( م ل، م ف) ارشاد باری ہے:
وَهُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ‌ؕ كُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ‏ (سورۃ الانبیاء آیت 33)
اور وہی (اﷲ) ہے جس نے رات اور دن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں
ان راستوں کو فلک کہنے کی توجیہ یہ ہے کہ سیارے فضا میں پورے دائرہ کی شکل میں نہیں گھومتے بلکہ بعض قوانین حرکت کے تحت بیضوی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ پھر ان کے کشی نما ہونے کی وجہ سے انہیں فلک کہا گیا ہے۔ ایسی کشتی کو عربی میں فلک کہتے ہیں۔
ماحصل:
  • سماء سے مراد معنی بلندی بھی ہے۔
  • فلك: فلک سے مراد سیاروں کے مدار ہیں۔ وہ مخصوص اجسام بھی جن کا قرآن و احادیث میں ذکر ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آسیب زدہ کرنا

آسیب زدہ کرنا کے لیے قرآن میں تخبّط اور اعترای (عری) کے الفاظ آئے ہیں
1: تخبط
خبط
بمعنی کسی کو مار مار کر بد حواس کردینا (مف) اور مخبوط بمعنی فاتر العقل یعنی ایسا شخص جس میں کی عقل ٹھیک کام نہ کرتی ہو۔ اہل عرب کے خیال کے مطابق یہ کام جنوں اور شیطانوں سے متعلق تھا۔ جیسے کہ وہ دیوانہ کو بھی مجنون کہتے تھے۔ یعنی جس کو چن پڑ گئے ہوں اور اس نے اسے دیوانہ بنا دیا ہو۔ مجنون اور مخبوط میں فرق صرف یہ تھا کہ جو شخص فتور عقل کے عارضہ سے بیمار ہوتا اسے مجنون کہہ دیتے تھے اور جسے وقتی اور عارضی طور پر یہ مرض لاحق ہوتا اُسے مخبوط کہتے تھے۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ الَّذِىۡ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ (سورۃ البقرۃ آیت 275)
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قبروں سے اس طرح حواس باختہ اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو ۔
2: اعتری
(عری، عرو)
بمعنی ننگا ہونا اور اعری بمعنی کسی کے کپڑے اتار کر اسے ننگا کر دینا اور اعری فلانا صدیقہ بمعنی کسی شخص کا اپنے دوست کی مدد نہ کرنا اور اسے چھوڑ کر دور ہو جانا اور عری بمعنی بخار کی سردی لگنا اور خوف سے کپکپانا اور عروا بمعنی بخار کی سردی (منجد) اور اعتری بمعنی کسی کو اس قسم کے عارضہ سے دو چار کر دینا ہے۔ قرآن میں ہے:
اِنۡ نَّقُوۡلُ اِلَّا اعۡتَرٰٮكَ بَعۡضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوۡٓءٍ‌ؕ (سورۃ ھود آیت 54)
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں تکلیف پہنچا کر دیوانہ کر دیا ہے۔
ماحصل:
عارضہ اگر عقل سے تعلق رکھتا ہو تو تخبط اور اگر جسم سے تعلق ہو تو اعتری کا لفظ استعمال ہو گا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگ

آگ کے لیے قرآن کریم میں نار اور لظی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
نار کا لفظ عام ہے۔ آگ چاہے بھڑک رہی ہو ، تیزی میں ہو یا بجھنے والی ہو، اس میں شعلہ ہو یا نہ ہو سب پر لفظ نار کا اطلاق ہوتا ہے جبکہ لظی ایسی شدید گرم اور بھڑکنے والی آگ کو کہتے ہیں جس میں شعلہ نہ ہو (الخالص من اللہب ف ل ۵۶) قرآن میں ہے:
كَلَّاؕ اِنَّهَا لَظٰىۙ‏ نَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى‌ ۖ‌ۚ‏ (سورۃ معارج آیت 15، 16)
ایسا ہرگز نہ ہوگا، بے شک وہ شعلہ زن آگ ہے۔ سر اور تمام اَعضائے بدن کی کھال اتار دینے والی ہے
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگ کا انگاره

اس کے لیے شہاب، جذوۃ اور قبس کے الفاظ آئے ہیں۔
1: شہاب
ایسے انگارہ کو کہتے ہیں جس میں چمک اور شعلہ موجود ہو، خواہ وہ آگ کا ہو یا فضا میں پایا جائے (مف) اور اس کی جمع شہب آتی ہے۔ قرآن میں ہے :
وَّاَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰهَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِيۡدًا وَّشُهُبًاۙ‏ (سورۃ الجن آیت 8)
اور یہ کہ ہم نے آسمانوں کو چھوا، اور انہیں سخت پہرہ داروں اور (اَنگاروں کی طرح) جلنے اور چمکنے والے ستاروں سے بھرا ہوا پایا۔
2: جذوة
ایسا انگارہ جس میں چمک ختم ہو چکی ہو اور اوپر راکھ آ گئی ہو (مف) قرآن میں ہے:
اِنِّىۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا‌ لَّعَلِّىۡۤ اٰتِيۡكُمۡ مِّنۡهَا بِخَبَرٍ اَوۡ جَذۡوَةٍ مِّنَ النَّارِ (سورۃ القصص آیت 29)
مجھے آگ نظر آئی ہے شاید میں وہاں سے رستے کا کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارہ لے آؤں
3: قبس
مانگا ہوا آگ کا انگارہ یا شعلہ۔ تفصیل آگ جلانا میں دیکھیے۔
ماحصل:
  • شہاب: شعلہ والا چمکتا ہوا انگارہ
  • جذوۃ: ایسا انگارہ جس پر راکھ آ رہی ہو اور چمک ختم ہو گئی ہو۔
  • قبس: مانگا ہوا آگ کا انگارہ یا شعلہ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگ کا جلنا-جلانا

اس کے لیے قرآن کریم میں قدح، اوری (وری)، استوقد اور اوقد، قبس، سعر، سجر اور تلظی کے الفاظ آئے ہیں۔
1: قدح
قدح بالزند
بمعنی چقماق سے آگ نکالنے کا ارادہ کرنا (منجد) گویا قدح کا لفظ صرف آگ نکالنے کی کوشش اور ارادہ تک محدود ہے۔
2: اوری (وری)
وری الزند
محاورہ ہے یعنی چقماق سے آگ کا شعلہ نکالنا (مف) اور وری یری کے معنی آگ کا شعلہ برآمد ہونا (ف ل ۲۸۸) چنانچہ قرآن کریم کی اس آیت:
فَالۡمُوۡرِيٰتِ قَدۡحًاۙ‏ (سورۃ العادیات آیت 2)
پھر جو پتھروں پر سُم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں
میں قدح سے مراد پتھر پر نعل مارنا کہ اس سے شعلہ پیدا ہوا اور اری سے مراد شعلہ پیدا ہونا ہے۔
بعد ازاں لفظ اوری آگ جلانے کے معنوں میں عام استعمال ہونے لگا۔ خواہ وہ نباتاتی ایندھن سے ہو یا کسی دوسری چیز سے۔ قرآن میں ہے :
اَفَرَءَيۡتُمُ النَّارَ الَّتِىۡ تُوۡرُوۡنَؕ‏ ءَاَنۡتُمۡ اَنۡشَاۡتُمۡ شَجَرَتَهَاۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡمُنۡشِـُٔـوۡنَ‏ (سورۃ الوقعۃ آیت 71،72)
بھلا یہ بتاؤ جو آگ تم سُلگاتے ہو۔ کیا اِس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم (اسے) پیدا فرمانے والے ہیں۔
3: اوقد
وقد
بمعنی آگ کا بھڑک اٹھنا (منجد) ابن فارس نے اس کے معنی کلمہ بدل علی اشتعال النار بیان کیے ہیں (م ل)
اور اوقد آگ جلانے کے معنی میں آتا ہے جبکہ اس میں شعلے پیدا ہونے لگیں۔ جیسے
فَاَوۡقِدۡ لِىۡ يٰهَامٰنُ عَلَى الطِّيۡنِ فَاجۡعَل لِّىۡ صَرۡحًا (سورۃ القصص آیت 38)
اے ہامان! میرے لئے گارے کو آگ لگا (کر کچھ اینٹیں پکا) دے، پھر میرے لئے (ان سے) ایک اونچی عمارت تیار کر
أوقد کا استعمال معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے:
كُلَّمَاۤ اَوۡقَدُوۡا نَارًا لِّلۡحَرۡبِ اَطۡفَاَهَا اللّٰهُ‌ۙ (سورۃ المائدۃ آیت 64)
جب کبھی انہوں نے لڑائی کی آگ جلائی اللہ نے اسکو بھجا دیا۔
اور استوقد کے معنی ایندھن وغیرہ اٹھا کر کے بہ تکلف آگ یا چراغ روشن کرنے کے ہیں (مف) ارشاد باری ہے:
مَثَلُهُمۡ كَمَثَلِ الَّذِىۡ اسۡتَوۡقَدَ نَارًا‌ۚ فَلَمَّآ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوۡرِهِمۡ وَتَرَكَهُمۡ فِىۡ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبۡصِرُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 17)
انکی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے شب تاریک میں آگ جلائی۔ جب آگ نے اسکے اردگرد کی چیزیں روشن کیں تو اللہ نے ان لوگوں کی روشنی زائل کر دی اور انکو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے۔
4: قبس
بمعنی آگ کی چنگاری جو شعلہ سے لی جائے (مف) اور بمعنی آگ کو بصورت شعلہ لینا اور قبس بمعنی آگ کا وہ شعلہ جو بڑی آگ سے لیا جائے۔ اور قابس بمعنی آگ کا طالب اور قبسه النار بمعنی کسی کے واسطے آگ لانا اور اقبس فلانا یعنی کسی کو آگ دینا (منجد) ارشاد باری ہے:
اِذۡ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهۡلِهِ امۡكُثُوۡۤا اِنِّىۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّىۡۤ اٰتِيۡكُمۡ مِّنۡهَا بِقَبَسٍ اَوۡ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى‏ (سورۃ طہ آیت 10)
جب موسٰی (علیہ السلام) نے (مدین سے واپس مصر آتے ہوئے) ایک آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم یہاں ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا میں نے ایک آگ میں انس و محبت کا شعلہ پایا ہے) شاید میں اس میں سے کوئی چنگاری تمہارے لئے (بھی) لے آؤں یا میں اس آگ پر (سے وہ) رہنمائی پا لوں (جس کی تلاش میں سرگرداں ہوں)
اس آیت میں قبس کا لفظ جذوة من النار کے عوض آیا ہے اور مانگی ہوئی آگ کے لیے بھی۔
پھر قبس کا لفظ آگ کے علاوہ آگ سے آگ جلانے، بڑی روشنی سے روشنی حاصل کرنے اور بڑے علم والے سے علم حاصل کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ قبس العلم یعنی علم حاصل کرنا ۔ علم سے فائدہ اٹھانا اور اقتباس منه النار والنور والعلم بمعنی کسی سے آگ، روشنی یا علم حاصل کرنا (منجد) ارشاد باری ہے:
يَوۡمَ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا انْظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِكُمۡ‌ۚ (سورۃ الحدید آیت 13)
جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے: ذرا ہم پر (بھی) نظرِ (التفات) کر دو ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں۔
اور ہمارے ہاں جو اقتباس کا لفظ مستعمل ہے تو اس کا معنی کسی کی علمی تحریر یا کتاب سے کوئی حصہ یا ٹکڑا لینا اور اس کو پیش کرنا ہے۔
5: سعّر
سعر
کا معنی آگ کا جلنا بھڑکنا اور بند ہونا ہے(م ل) گویا یہ وقد سے اگلا درجہ ہے۔اور سعر بمعنی آگ کو خوب بھڑکانا (منجد) اور سعیر بمعنی بھڑکتی ہوئی آگ۔ قرآن کریم میں ہے:
وَاِذَا الۡجَحِيۡمُ سُعِّرَتۡ (سورۃ التکویر آیت 12)
اور جب دوزخ (کی آگ) بھڑکائی جائے گی۔
6: سجّر
سجّر
میں کسی چیز کے بھرے ہوئے ہونے اور اس میں مخالطت یا تلاطم کا مفہوم پایا جاتا ہے (م ل) سجّر النور کے معنی تنور کو ایندھن سے بھر کر گرم کرنا (منجد) تا کہ آگ پوری شدت سے بھڑک سکے۔ نیز سجر بادل کی گرج اور رعد کی آواز کو بھی کہتے ہیں (منجد) قرآن کریم کے الفاظ
وَالۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِ (سورۃ الطور آیت 6)
اور اُبلتے ہوئے سمندر کی قَسم۔
سے مراد ہے کہ سمندر بھرا ہوا بھی ہو اور جوش تلاطم سے ابل بھی رہا ہو اور سجور اس ایندھن کو کہتے ہیں جس سے تنور گرم کیا جائے (منجد) گو یا ہر وہ چیز جو آگ میں شدت پیدا کرنے کے لیے تنور میں جھونک دی جائے وہ سجور ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے:
فِىۡ الۡحَمِيۡمِۙ ثُمَّ فِىۡ النَّارِ يُسۡجَرُوۡنَ‌ۚ‏ (سورۃ مؤمن آیت 72)
کھولتے ہوئے پانی میں، پھر آگ میں (ایندھن کے طور پر) جھونک دیئے جائیں گے۔
7: تلظی
لظی
میں ایسی آگ جو بھڑک رہی ہو مگر اس میں شعلہ نہ ہو (ف ل 56) اور لظی النار بمعنی آگ بھڑکانا اور تلظی بمعنی آگ کا بھڑک اٹھنا۔ قرآن میں ہے:
فَاَنۡذَرۡتُكُمۡ نَارًا تَلَظّٰى‌ۚ‏ (سورۃ اللیل آیت 14)
سو میں نے تمہیں (دوزخ کی) آگ سے ڈرا دیا ہے جو بھڑک رہی ہے۔
ماحصل:
  • قدح: آگ نکالنے کی ابتدائی کوشش
  • اوری: شعلہ پیدا کرنا
  • اوقد: ایندھن سے آگ جلانا
  • قبس: آگ سے آگ جلانا
  • سعر: آگ کا بھڑکانا
  • سجّر: اس بھڑک میں شدت پیدا کرنا
  • تلظی: جب آگ میں بھڑک ہی بھڑک ہو شعلہ نہ ہو
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگ کا دوسری چیزوں کو جلانا

اس کے لیے لوّح، لفح، شوی، صہر، نضج، حرّق اور احترق کے الفاظ آئے ہیں۔
1: لوّح
لاح
سے مراد فقط جلد کی سیاہی مائل رنگت کی تبدیلی ہونا ہے خواہ یہ آگ سے ہو یا حرارت سے، دھوپ کے ہو یا پیاس یا سفر سے (منجد) یعنی آگ یا حرارت کا کسی کو چھونا کہ اس سے رنگت سیاہی مائل ہو جائے اور لوّح کے معنی آگ سے کسی چیز کو گرم کرنا ہے (منجد) قرآن میں ہے،
لَـوَّاحَةٌ لِّلۡبَشَرِ (سورۃ مدثر آیت 29)
(وہ) جسمانی کھال کو جھلسا کر سیاہ کر دینے والی ہے
2: لفح
لفح
کے معنی آگ یا باد سموم کا چہرے یا جلد کو جھلس دنیا (مف، منجد) ہے۔ جس سے حلیہ بگڑ جائے
تَلۡفَحُ وُجُوۡهَهُمُ النَّارُ وَهُمۡ فِيۡهَا كٰلِحُوۡنَ‏ (سورۃ المؤمنون آیت 104)
آگ انکے چہروں کو جھلس دے گی اور وہ اس میں بدشکل ہو رہے ہوں گے۔
3: شوی
شوی (یشوی)
آگ میں (گوشت کو) بھوننا اور بھنے ہوئے گوشت کو شواء کہتے ہیں (منجد) (یہ تیسرا درجہ ہوا) قرآن میں ہے:
وَاِنۡ يَّسۡتَغِيۡثُوۡا يُغَاثُوۡا بِمَآءٍ كَالۡمُهۡلِ يَشۡوِىۡ الۡوُجُوۡهَ‌ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ وَسَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا‏ (سورۃ الکہف آیت 29)
اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے انکی داد رسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہو گا اور جو انکے چہروں کو بھون ڈالے گا انکے پینے کا پانی بھی برا اور آرام گاہ بھی بری۔
4: صہر
الصّہر
بمعنی چربی وغیرہ کو گرم کر کے پگھلانا اور صہارۃ بمعنی پگھلائی ہوئی چیز۔ چربی کا ٹکڑا، ہڈی کا گودا اور صہور بمعنی پگھلانے والا، گوشت بھوننے والا(مف منجد) گویا صہر میں اتنی حرارت درکار ہے کہ جو پگھلنے والی اشیا بالخصوص چربی کے پگھلانے کے لیے اور گوشت کے گلنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
يُّصَبُّ مِنۡ فَوۡقِ رُءُوۡسِهِمُ الۡحَمِيۡمُ‌ۚ‏ يُصۡهَرُ بِهٖ مَا فِىۡ بُطُوۡنِهِمۡ وَالۡجُلُوۡدُؕ‏ (سورۃ الحج آیت 19،20)
ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا جس سے ان کے شکموں میں جو کچھ ہے پگھل جائے گا اور (ان کی) کھالیں بھی
5: نضج:
شدت حرارت سے گوشت کا گل جانا (مف) اس طرح کہ اس اجزاء الگ ہونے لگیں۔ (یہ چوتھا درجہ ہوا) قرآن میں ہے:
سَوۡفَ نُصۡلِيۡهِمۡ نَارًاؕ كُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُهُمۡ بَدَّلۡنٰهُمۡ جُلُوۡدًا غَيۡرَهَا لِيَذُوۡقُوۡا الۡعَذَابَ‌ؕ (سورۃ النساء آیت 56)
ان کو ہم عنقریب آگ میں داخل کریں گے۔ جب کبھی ان کی کھالیں گل جائیں گی تو ہم انکو اور کھالیں بدل کر دیں گے تاکہ ہمیشہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ بیشک اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔
6: حرّق
حرق
اور حرّق (بالنار) آگ کا جلا ڈالنا اور احترق بمعنی اس چیز کا جل کر راکھ ہو جانا ہے (مف) یہ گویا آخری درجہ ہوا۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡا حَرِّقُوۡهُ وَانْصُرُوۡۤا اٰلِهَتَكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ فٰعِلِيۡنَ‏ (سورۃ الانبیاء آیت 68)
وہ بولے: اس کو جلا دو اور اپنے (تباہ حال) معبودوں کی مدد کرو اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو
دوسرے مقام پر ہے
فَاَصَابَهَاۤ اِعۡصَارٌ فِيۡهِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ‌ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 266)
اس باغ پر ایک بگولا آجائے جس میں آگ ہو اور وہ باغ جل کر راکھ ہو جائے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگ کا بجھنا اور بجھانا

اس کے لیے خمد اور خبا (خبو) اور طفا (طفا) کے الفاظ آئے ہیں۔
1: خمد
آگ کے مدہم پڑ جانے کو کہتے ہیں جس سے شعلہ ختم ہو چکا ہو مگر انگارہ نہ بجھا ہو۔ اور خمِدَتِ الْحُمّی کے معنی بخار کا زور ٹوٹ جانا اور خمود کوئلہ کے معنی میں بھی آتا ہے اور بطور کنایہ موت کے معنی میں بھی (مف ، م- ق) ارشاد باری ہے:
اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ خٰمِدُوۡنَ‏ (سورۃ یس آیت 29)
(ان کا عذاب) ایک سخت چنگھاڑ کے سوا اور کچھ نہ تھا، بس وہ اُسی دم (مر کر کوئلے کی طرح) بُجھ گئے۔
2: خبا
یعنی آگ کا شعلہ افسردہ ہو جانا اور کوئلہ یا انگارہ پر راکھ کا پردہ چڑھ جانا۔ (مف) ارشاد باری ہے
اَلَّا يَسۡجُدُوۡا لِلّٰهِ الَّذِىۡ يُخۡرِجُ الۡخَبۡءَ فِىۡ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَيَعۡلَمُ مَا تُخۡفُوۡنَ وَمَا تُعۡلِنُوۡنَ‏ (سورۃ النمل آیت 25)
اور نہیں سمجھتے ہیں کہ اللہ کو جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کر دیتا اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے کیوں سجدہ نہ کریں۔
3: اطفا
طفا
یعنی آگ کا بالکل بجھ جانا، سرد پڑ جانا اور اطفا بھی آگ کو بجھا دینا۔ پھونک مار کر چراغ کو گل کر دینا (مف، منجد) پھر اس لفظ کا استعمال مادی اور معنوی دونوں صورتوں میں ہوتا ہے ۔ جیسے اطفا الْفِتْنَةَ او الحرب بمعنی فتنہ کو یا لڑائی کو بجھا دیا۔ ٹھنڈا کر دیا (منجد) ارشاد باری ہے:
يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّطۡفِــُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰهِ بِاَفۡوَاهِهِمۡ (سورۃ التوبہ آیت 32)
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔
ماحصل:
  • خمد: آگ کا شعلہ ختم ہونا
  • خبا: شعلہ کا ختم ہونا اور انگارہ پر راکھ کا پردہ آ جانا۔ یہ درمیانی صورت ہے۔
  • طفا: آگ کا بالکل بجھ جانا
 
Top