مترادفات القرآن (آ)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگاہ ہونا

اس کے لیے شعر، ظہر، عثر، عَلِمَ اور خَبَر کے الفاظ آتے ہیں۔
1: شعر
شعر
بال کو کہتے ہیں لہذا شعر کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرنا ہے (مف) کسی معاملہ کی باریکی اور لطافت کو سمجھ لینا یا حالات و واقعات سے نتیجہ اخذ کرنا اور معاملہ کی تہ تک پہنچ جانے کو شعر کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
اَلَآ اِنَّهُمۡ هُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَلٰـكِنۡ لَّا يَشۡعُرُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 12)
دیکھو یہ بلاشبہ مفسد ہیں لیکن خبر نہیں رکھتے۔
2: ظہر
اس کے بنیادی معنی دو ہیں (1) قوّۃ (2) عیاں ہونا (م ل) یہاں دوسرے مفہوم سے تعلق ہے جس کی ضد بطن ہے تو ظہر سے مراد ایسا علم ہے جو بالکل ظاہری حالات و واقعات سے حاصل ہو قرآن میں ہے:
اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِيۡنَ لَمۡ يَظۡهَرُوۡا عَلٰى عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ‌ (سورۃ النور آیت 33)
یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے۔
3: عثر
ایسی بات کی واقفیت جو بغیر ارادہ کے باتوں باتوں میں حاصل ہو جائے (مف) ارشاد باری ہے۔
فَاِنۡ عُثِرَ عَلٰٓى اَنَّهُمَا اسۡتَحَقَّاۤ اِثۡمًا (سورۃ المائدۃ آیت 107)
پھر اگر معلوم ہو جائے کہ ان دونوں نے جھوٹ بول کر گناہ حاصل کیا
4: علم
کسی چیز کی حقیقت کے متعلق واقفیت اگر یقین کی حد تک پہنچ جائے تو یہ واقفیت علم کہلائے گی اور اس کی ضد جہل ہے۔ ارشاد ہے:
وَلَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰٮهُ مَا لَهٗ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ مِنۡ خَلَاقٍ‌ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 102)
اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں یعنی سحر اور منتر وغیرہ کا خریدار ہو گا اس کا آخرت میں کچھ حصّہ نہیں ۔
5: خبر:
خبر
کسی چیز کی حقیقت و ماہیت سے واقف اور باخبر ہونا اور اس کے دوسرے معنی خبر الشی، کسی چیز کو تجربہ سے جان لینا۔ تجربہ کرنا۔ آزمانا (منجد) ان سے واضح ہے کہ علم کے مقابلہ میں خبر میں واقفیت واضح تر ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ (سورۃ الحشر آیت 18)
بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
ماحصل:
  • شعر: کسی معاملہ کی باریکی اور لطافت کو سمجھنے پر
  • ظہر: ظاہری واقعات و حالات سے واقفیت بہم پہنچنے پر
  • عثر: باتوں باتوں میں کسی چیز کا پتہ چل جانے پر
  • علم: کسی چیز کی حقیقت کے متعلق یقین حاصل ہونے پر
  • خبر: جب علم کے ساتھ اس کی جانچ بھی ہو چکی ہو تب استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگاہ کرنا

یہ لفظ آگاہ ہونا سے متعدی ہے۔ لہذا شعر سے اشعر، ظہر سے اظہر اور علم سے علّم کے الفاظ آتے ہیں۔ پہلے ان کی مثالیں دیکھئے۔
1: اشعر
فَابۡعَثُوۡۤا اَحَدَكُمۡ بِوَرِقِكُمۡ هٰذِهٖۤ اِلَى الۡمَدِيۡنَةِ فَلۡيَنۡظُرۡ اَيُّهَاۤ اَزۡكٰى طَعَامًا فَلۡيَاۡتِكُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡهُ وَلۡيَتَلَطَّفۡ وَلَا يُشۡعِرَنَّ بِكُمۡ اَحَدًا‏ (سورۃ الکہف آیت 19)
تو اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر بھیجو وہ دیکھے کہ نفیس کھانا کون سا ہے تو اس میں سے کھانا لے آئے اور احتیاط سے آئے جائے اور تمہارا حال کسی کو نہ بتائے۔
2: اظہر
عٰلِمُ الۡغَيۡبِ فَلَا يُظۡهِرُ عَلٰى غَيۡبِهٖۤ اَحَدًاۙ‏ (سورۃ جن آیت 26)
(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی (عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا
3: علّم
قُلۡ اَتُعَلِّمُوۡنَ اللّٰهَ بِدِيۡنِكُمۡؕ (سورۃ حجرات آیت 16)
فرما دیجئے: کیا تم اﷲ کو اپنی دین داری جتلا رہے ہو
ان کے علاوہ اس مفہوم میں ادری، حدّث، عرّف اور اطلع، انبا یا نبّا (نبی) اور دلّ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔
4: ادری (دری)
بمعنی کسی حیلہ یا تدبیر یا کسی اور چیز کے ذریعہ سے کسی چیز کا علم حاصل ہونا (مف) دری سے مصدر درایۃ ہے جو بکثرت مستعمل ہے۔ ادری اس سے فعل متعدی ہے اس پر ہمیشہ لا، ما یا ان نافیہ، یا ما استفہامیہ داخل ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا هِيَهۡؕ‏ نَارٌ حَامِيَةٌ (سورۃ القارعہ آیت 10، 11)
‏ اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ ہاویہ کیا ہے؟ (وہ جہنم کی) سخت دہکتی آگ (کا انتہائی گہرا گڑھا) ہے
5: حدّث
حدث
بمعنی کسی امر کا وقوع پذیر ہونا۔ نیا ہونا یا نئی چیز یا بات کا پیدا ہونا (منجد) اور ابن الفارس کے مطابق کون الشئ لم یکن۔ پس ایسی چیز کا پیدا ہونا یا وجود میں آنا جو پہلے نہ تھی (م ل) اور حدّث کے معنی کسی کو ایسی بات بتلانا جو وہ پہلے وہ جانتا وہ یا کم از کم بتلانے والا ایسا ہی گمان کرتا ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَاِذَا لَـقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡآ اٰمَنَّاۚ وَاِذَا خَلَا بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ قَالُوۡآ اَتُحَدِّثُوۡنَهُمۡ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَيۡكُمۡ لِيُحَآجُّوۡكُمۡ بِهٖ عِنۡدَ رَبِّكُمۡ‌ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ‏(سورۃ البقرۃ آیت 76)
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اور جس وقت تنہائی میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں جو بات اللہ نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو اس لئے بتائے دیتے ہو کہ قیامت کے دن اسی کے حوالے سے تمہارے پروردگار کے سامنے تم کو الزام دیں۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
6: عرّف
عرف
کے معنی کسی چیز کے علامات و آثار پر غور و فکر کر کے اس کا ادراک کر لینا یا پہچاننا ہے (مف) اور ظاہر ہے کہ پہچاننے میں انسان بعض دفعہ غلطی بھی کر سکتا ہے لہذا معرف یا عرفان کا درجہ علم سے کمتر ہے اور عرفان کی ضد انکار ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَجَآءَ اِخۡوَةُ يُوۡسُفَ فَدَخَلُوۡا عَلَيۡهِ فَعَرَفَهُمۡ وَهُمۡ لَهٗ مُنۡكِرُوۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 58)
اور یوسف کے بھائی کنعان سے مصر میں غلہ خریدنے کے لئے آئے تو یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے انکو پہچان لیا اور وہ انکو نہ پہچان سکے۔
پر عرف کے معنی خوشبو لگانا اور عرّف کے معنی خوشبو سے معطر کرنا اور خوشبو چھوڑ دینا بھی (مف، منجد) جبکہ عرّف کا عام مفہوم واقف کرانا، تعارف کرنا یا مطلع کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ درج ذیل آیت:
وَيُدۡخِلُهُمُ الۡجَـنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمۡ‏ (سورۃ محمد آیت 6)
کا ترجمہ امام راغب نے یوں کیا ہے:
اور اللہ تعالی نے ان کے لیے جنت کو خوشبو سے بسا دیا ہے (مف)
7: اطلع
طلع
کے بنیادی معنی نمودار ہونا اور سامنے آنا ہے (م ل) اور طلع الکواکب بمعنی سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کا طلوع ہونا ہے اور اطلع کے معنی کسی کو حقیقت حال سے واقف کرنا (منجد) ارشاد باری ہے:
وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطۡلِعَكُمۡ عَلَى الۡغَيۡبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَجۡتَبِىۡ مِنۡ رُّسُلِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌ (سورۃ آل عمران آیت 179)
اور اللہ تم کو غیب کی باتوں سے بھی مطلع نہیں کرے گا۔ البتہ اللہ اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے۔
8: انبا اور نبّا
نبا کے بنیادی معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا ہے اور سیل نابی ایسے سیلاب کو کہتے ہیں جو ایک شہر سے دوسرے شہر تک جا پہنچنے (م ل) پھر اس بنا پر نبا کا لفظ خبر کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ صاحب منتہی الارب نے انبا کے معنی خبر دادن (آگاہ کردن) ( م ل) لکھے ہیں۔ خبر اور نبا کا فرق یہ ہے کہ خبر عام ہے اور نبا کسی خاص واقعہ کی خبر کو کہتےہیں جو سننے والے کے لیے مفید بھی ہو۔ علاوہ ازیں نبا کا تعلق ماضی، حال، مستقبل حتی کہ ما بعد الطبیعات یعنی مرنے کے بعد اور دوبارہ زندگی کی خبروں سے بھی ہوتا ہے جبکہ خبر کا دائرہ صرف ماضی اور حال تک محدود ہوتاہے۔ گویا اہمیت، افادیت اور زمانہ کی وسعت تین چیزیں نبا کو عام خبر سے ممتاز کرتی ہیں۔ نبا میں چونکہ مستقبل کی خبر یا پیشین گوئی بھی شامل ہے۔ اسی بنا پر کافر انبیا کو کاہن بھی کہتے رہے۔ امام راغب نے نبا کی تعریف میں یہ بھی لکتا ہے کہ اس میں کذب کا احتمال نہ ہو اور اس سے علم یا مفید ظن حاصل ہو جیسا کہ وحی الہی سے اور خبر متواتر وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ قید درست نہیں۔ کیونکہ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَكُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوۡۤا (سورۃ حجرات آیت 6)
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو
اور یہ تو ظاہر کہ فاسق کی نبا میں کذب کا احتمال موجود ہے جبھی تو اللہ تعالی نے تحقیق کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح ہدہد پرندے نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو خبر (نبا) دی تھی اس سے انہیں بھی علم یا مفید ظن حاصل نہیں ہوا تھا۔ (نیز دیکھیے خبر دینا)
9: دلّ
بمعنی رہنمائی کرنا، راستہ دکھانا، کسی چیز کا پتہ بتلانا اور دلالتر بمعنی جس کے ذریعہ کسی چیز کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرنا۔ یا جیسے کوئی چیز حرکت کرنے لگے تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ یہ کوئی زندہ جانور ہے۔ گویا اس کی حرکت جاندار کی زندگی پر دلالت کرتی ہے (مف) اور دلّ کا لفظ مادی اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ تَمۡشِىۡۤ اُخۡتُكَ فَتَقُوۡلُ هَلۡ اَدُلُّـكُمۡ عَلٰى مَنۡ يَّكۡفُلُهٗ‌ؕ (سورۃ طہ 40)
اور جب تمہاری بہن (اجنبی بن کر) چلتے چلتے (فرعون کے گھر والوں سے) کہنے لگی: کیا میں تمہیں کسی (ایسی عورت) کی نشاندہی کر دوں جو اس (بچہ) کی پرورش کر دے،
دوسرے مقام پر ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا هَلۡ اَدُلُّكُمۡ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنۡجِيۡكُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِيۡمٍ‏ (سورۃ الصف آیت 10)
اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتا دوں جو تم کو دردناک عذاب سے بچا لے؟
ماحصل:
  • ادری: کسی حیلہ اور تدبیر سے بات سمجھانا
  • حدّث: کوئی نئی بات بتلانا
  • عرف: علامات اور نشانات سے بات سمجھانا
  • اطلع: کسی چیز کی حقیقت سے مطلع کرنا
  • نبا: کسی اہم واقع کی خبر دینا جس کا تعلق خبر پانے والے کی ذات سے خواہ یہ ماضی سے متعلق ہو یا حال سے یا مستقبل سے اور اس پر متنبہ کرنا
  • دلّ: راہنمائی کرنا، کسی چیز سے دوسری کا پتہ بتلانا یا راہ سمجھانا
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگے/ سامنے

اس کے لیے قبل، قبل اور بین ایدی کے الفاظ آئے ہیں
1: قبل
اور قبل (ضد دبر اور دبر) ہر چیز کا آگے کا حصہ جو پہلے نظر آئے (منجد) ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَوۡ اَنَّـنَا نَزَّلۡنَاۤ اِلَيۡهِمُ الۡمَلٰٓٮِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الۡمَوۡتٰى وَ حَشَرۡنَا عَلَيۡهِمۡ كُلَّ شَىۡءٍ قُبُلاً مَّا كَانُوۡا لِيُؤۡمِنُوۡۤا (سورۃ الانعام آیت 111)
اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی اتار دیتے اور مردے بھی ان سے گفتگو کرنے لگتے اور ہم سب چیزوں کو ان کے سامنے لا موجود بھی کر دیتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے۔
اور قبل بمعنی طاقت اور قدرت بھی ہے (منجد) اور قبل کسی ایسی چیز کے سامنے آنے کو کہتے ہیں جس کے مقابلہ کی طاقت اور سکت نہ ہو۔ ارشاد باری ہے:
بَاطِنُهٗ فِيۡهِ الرَّحۡمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنۡ قِبَلِهِ الۡعَذَابُؕ‏ (سورۃ الحدید آیت 13)
اس کے اندر کی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب اُس طرف سے عذاب ہوگا
دوسرے مقام پر ہے:
اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمۡتَ عَلَيۡنَا كِسَفًا اَوۡ تَاۡتِىَ بِاللّٰهِ وَالۡمَلٰۤٮِٕكَةِ قَبِيۡلاًۙ‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 92)
یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دو یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ۔
2: بین یدی
بین یدی
اور بین ایدی (لفظی معنی ہاتھوں کے درمیان) کنایۃ اور محاروتا معنی آگے یا سامنے۔ (ضد خلف) اس کا استعمال ظرف زمان اور مکان دونوں طرح ہوتا ہے۔ زمانی صورت میں اس کا معنی اس وقت کے موجود لوگ یا اس دور کے لوگ ہو گا لیکن عام طور پر اس کا معنی اگلے کر لیا جاتا ہے۔
فَجَعَلۡنٰهَا نَكٰلاً لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهَا وَمَا خَلۡفَهَا وَمَوۡعِظَةً لِّلۡمُتَّقِيۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 66)
اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لئے اور جو انکے بعد آنے والے تھے عبرت اور پرہیز گاروں کے لئے نصیحت بنا دیا۔
اور مکانی کی صورت میں اس کا معنی آگے یا آگے آگے ہو گا۔ ارشاد باری ہے:
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهٖ يَحۡفَظُوۡنَهٗ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ‌ؕ (سورۃ رعد آیت 11)
اسکے آگے اور پیچھے اللہ کے چوکیدار ہیں جو اللہ کے حکم سے اسکی نگرانی کرتے ہیں۔
ماحصل:
قبل
اور اس کے مشتقات میں دو چیزوں کا آمنے سامنے یا آگے اور سامنے ہونا یا رو برو ہونا ضروری ہے جبکہ بین یدی خواہ زمانی ہو یا مکانی میں چیزوں کا آمنے سامنے ہونا ضروری نہیں ہوتا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگے بڑھنا

اس کے لیے قدم اور استقدم، سبق اور استبق، اقبل اور استقبل کے الفاظ آئے ہیں۔
1: قدم
قدم
کے معنی چلنا، قدموں پر چلنا اور کسی کے آگے چلنا ہے (مف) قرآن میں ہے:
يَقۡدُمُ قَوۡمَهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ فَاَوۡرَدَهُمُ النَّارَ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡوِرۡدُ الۡمَوۡرُوۡدُ‏ (سورۃ ھود آیت 98)
وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا پھر انکو دوزخ میں جا اتارے گا۔ اور جس مقام پر وہ اتارے جائیں گے وہ برا ہے۔
اور استقدم آگے بڑھنے کا ارادہ رکھنا (مف) اور اس کی ضد استاخر ہے (مف) ارشاد باری ہے:
اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمۡ فَلَا يَسۡتَـاخِرُوۡنَ سَاعَةً‌ وَّلَا يَسۡتَقۡدِمُوۡنَ‏ (سورۃ یونس آیت 49)
جب وہ وقت آ جاتا ہے تو ایک گھڑی بھی دیر نہیں کر سکتے اور نہ جلدی کر سکتے ہیں۔
2: سبق
سبق
کے معنی آگے بڑھنا، پیش پیش ہونا، سبقت کرنا۔ السبق شرط جو آگے نکل جانے پر رکھی جاتی ہے اور سابق بمعنی دوڑ سے جیتنے والا گھوڑا اور سبّق کے معنی شرط لینا دینا ہوتا ہے (منجد) گویا سبق میں مقابلۃ آگے نکل جانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ (سورۃ الحشر آیت 10)
اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی، جو ایمان لانے میں ہم سے آگے بڑھ گئے
اور استبق کے معنی جلد آگے بڑھنے کی کوشش کرنا (منجد) یا آگے بڑھنے کے لیے دوڑ لگانا (مف) کے لیے آتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَاسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَقَدَّتۡ قَمِيۡصَهٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّاَلۡفَيَا سَيِّدَهَا لَدَا الۡبَابِ (سورۃ یوسف آیت 25)
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے آگے یوسف پیچھے زلیخا اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے پکڑ کو جو کھینچا تو پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا
3: اقبل
اقبال
اور استقبال دونوں کے معنی کسی کے رو برو اور اس کی طرف متوجہ ہو جانے اور آگے بڑھنے کے ہیں (مف) یعنی کسی کی جانب آگے بڑھنا۔ ارشاد باری ہے:
فَاَقۡبَلَ بَعۡضُهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ يَّتَلَاوَمُوۡنَ‏ (سورۃ القلم آیت 30)
سو وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم ملامت کرنے لگے۔
دوسرے مقام پر ہے:
فَلَمَّا رَاَوۡهُ عَارِضًا مُّسۡتَقۡبِلَ اَوۡدِيَتِهِمۡۙ قَالُوۡا هٰذَا عَارِضٌ مُّمۡطِرُنَا (سورۃ الاحقاف آیت 24)
پھر جب انہوں نے اس (عذاب) کو بادل کی طرح اپنی وادیوں کے سامنے آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے: یہ (تو) بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے۔
ماحصل:
قدم
میں صرف آگے چلنے یا آگے بڑھنے، سبق میں دوسروں کے مقابلہ میں آگے بڑھنے اور اقبل میں کسی شخص یا کسی چیز کے طرف منہ کر کے آگے بڑھنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آگے بھیجنا

اس کے لیے دو الفاظ قدّم اور اسلف (سلف) آئے ہیں۔
1: قدم
اس کے اصل معنی آگے بڑھنا، آگے چلنا اور آگے نکل جانا ہے (م ل) اور قدّم بمعنی کوئی کام وقت ضرورت سے پہلے کرنا اور اس کی ضد اخّر یعنی کسی کام کو مناسب وقت پر نہ کرنا اور پیچھے ڈال دینا (مف) اور یہ مناسب وقت موت ہے یعنی موت سے پہلے اپنی زندگی میں جو اعمال انسان نے کیے وہ گویا سب اس نے اپنے اخروی زندگی کے لیے آگے بھیجے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَنۡ يَّتَمَنَّوۡهُ اَبَدًاۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ‌ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 95)
اور ان اعمال کی وجہ سے جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں یہ کبھی اس کی آرزو نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔
پھر کسی شخص کو کوئی کام کرنے سے بیشتر اس کے نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے بھی قدّم کا لفظ آتا ہے۔ مثلاً:
قَالَ لَا تَخۡتَصِمُوۡا لَدَىَّ وَقَدۡ قَدَّمۡتُ اِلَيۡكُمۡ بِالۡوَعِيۡدِ‏ (سورۃ ق آیت 28)
ارشاد ہوگا: تم لوگ میرے حضور جھگڑا مَت کرو حالانکہ میں تمہاری طرف پہلے ہی (عذاب کی) وعید بھیج چکا ہوں۔
2: اسلف
سلف کے معنی کسی چیز یا کام کا گزر جانا (م ا) بیع سلف وہ بیع ہے جس میں قیمت پیشگی ادا کر دی جاتی ہے اور اسلاف گزشتہ دور میں گزری ہوئی نسلوں کو کہتے ہیں۔ گزشتہ آبا ؤ اجداد (منجد) قرآن میں ہے:
اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ (سورۃ النساء آیت 23)
سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا
پھر سلف کے دوسرے معنی "آگے بڑھنا" کے بھی آتے ہیں (م ل، منجد) سلیف کے معنی آگے ہونے والا، آگے چلنے والا۔ اسلاف بمعنی متقدمین (منجد) اور اسلف کے معنی زمانہ ماضی میں کوئی کام کرنا ہوتا ہے۔
هُنَالِكَ تَبۡلُوۡا كُلُّ نَفۡسٍ مَّاۤ اَسۡلَفَتۡ‌ (سورۃ یونس آیت 30)
وہاں ہر شخص اپنے اعمال کی جو اس نے پہلے کئے ہوں گے جانچ کر لے گا
ماحصل:
قدم اور اسلف میں وہی فرق ہے جو ارتفاع اور عمق میں ہے اگر نیچے کے کنارے پر ہوں تو اسی راسی فاصلہ کو بلندی کہتے ہیں اور اوپر کے کنارے کھڑے ہوں تو وہی فاصلہ گہرائی یا عمق کہلاتا ہے۔ وہی بات یا کام جو قدم کا مفہوم ہے موقع کے لحاظ سے وہی اسلف بن جاتا ہے۔ جیسے قیامت کے دن اللہ تعالی مومنوں سے فرمائیں گے:
كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا هَنِيۡٓــًٔاۢ بِمَاۤ اَسۡلَفۡتُمۡ فِىۡ الۡاَيَّامِ الۡخَـالِيَةِ‏ (سورۃ الحاقۃ آيت 24)
(اُن سے کہا جائے گا خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ (زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آلات جنگ

آلات جنگ کے لیے اسلحۃ، اوزار، حذر اور شوکۃ کے الفاظ آئے ہیں۔
1: اسلحۃ
سلاح کی جمع ہے اور ہر وہ چیز سلاح ہے جس سے جنگ کی جا سکے (م ل) گویا یہ لفظ جنگی ہتھیاروں سے مخصوص ہے خواہ وہ چاقو اور نیزہ تک موقوف ہو یا رائفل اور میزائل تک۔
‌وَدَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡ تَغۡفُلُوۡنَ عَنۡ اَسۡلِحَتِكُمۡ وَاَمۡتِعَتِكُمۡ فَيَمِيۡلُوۡنَ عَلَيۡكُمۡ مَّيۡلَةً وَّاحِدَةً (سورۃ النساء آیت 102)
کافر تو چاہتے ہی ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ کہ تم پر یکبارگی حملہ کر دیں۔
2: اوزار
وزر کی جمع ہے جس کے معنی بوجھ، ہتھیار اور آلہ کے ہیں۔ اور جب وزر الحرب کا استعمال ہو تو یہ جنگی آلات سے مخصوص ہوجاتا ہے۔ (مف)تاہم صرف لفظ وزر سے بھی جنگی ہتھیار مراد لیا جاتا ہے۔(و کذا الوزر: السلاح و الجمع اوزار) (م ل) قرآن میں ہے:
حَتّٰى تَضَعَ الۡحَـرۡبُ اَوۡزَارَهَا (سورۃ محمد آیت 4)
یہاں تک کہ جنگ (کرنے والی مخالف فوج) اپنے ہتھیار رکھ دے
3: حذر
اس کے اصلی معنی بچاؤ کرنا، محتاط اور چوکنا رہنے کے ہیں (م ل) یہ لفظ عام ہے۔ اگر جنگ کے سلسلہ میں استعمال ہو تو اس کا مطلب دفاعی سامان جنگ ہو گا۔ ا س سے جہاں بچاؤ کی جگہ مراد لی جا سکتی ہے جیسے مورچے وغیرہ، بعینہ اس ی طرح ڈھال سے لے کر ریڈار تک بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ یعنی ہر وہ چیز اور ہر ہو تدبیر جس سے بچاؤ اور مدافعت کی جا سکے وہ حذر ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ اِنۡ كَانَ بِكُمۡ اَذًى مِّنۡ مَّطَرٍ اَوۡ كُنۡتُمۡ مَّرۡضٰىۤ اَنۡ تَضَعُوۡۤا اَسۡلِحَتَكُمۡ‌ۚ وَ خُذُوۡا حِذۡرَكُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابًا مُّهِيۡنًا‏ (سورۃ النساء آیت 102)
اور اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں ہو یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر اپنا بچاؤ ضرور کر رکھو۔ اللہ نے کافروں کیلئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اس آیت میں خذوا کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں حذر سے مراد صرف ہوشیار رہنا نہیں (جیسا کہ فتح محمد صاحب نے لکھا ہے) بلکہ دفاعی سامان پر حالت میں اپنے ساتھ رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن نہتّا دیکھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
4: شوکۃ
شوک ب
معنی کانٹا۔ در مشاک بمعنی کانٹا چبھونا اور شوکۃ بمعنی ایک کانٹا (جمع شواک) بچھو کا ڈنگ، ہتھیار، تیزی، قوت، لڑائی، دبدبہ اور ذو شوکۃ بمعنی باہتھیار، مسلح اور شوک سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے جارحانہ ہتھیار مراد ہیں جن سے حملہ کیا جا سکے (منجد) قرآن میں ہے:
تَوَدُّوۡنَ اَنَّ غَيۡرَ ذَاتِ الشَّوۡكَةِ تَكُوۡنُ لَـكُمۡ (سورۃ الانفال آیت 7)
تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے
ماحصل:
  • اسلحۃ: ہر قسم کا جنگی سامان، جنگی سامان کے ساتھ مخصوص لفظ۔
  • اوزار: بمعنی ہتھیار، اگر جنگ سے نسبت ہو تو آلات جنگ ورنہ نہیں۔
  • حذر: دفاعی جنگ اور ہتھیار۔
  • شوکۃ: جارحانہ لڑائی کے ہتھیار۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آنا

اس کے لیے جاء (جیء)، اتی، ھیت، ھلم، تعال (علو) کے الفاظ آئے ہیں۔
1: جاء
آنا کے لیے جاء کا لفظ عام ہے۔ تاہم اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ آنے کا عمل فی الواقعہ ظہور میں آ چکا ہو (مف) ارشاد باری ہے:
وَجَآءُوۡۤ اَبَاهُمۡ عِشَآءً يَّبۡكُوۡنَؕ‏ (سورۃ یوسف آیت 16)
اور یہ حرکت کر کے وہ رات کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔
2: اَتٰۤى
کسی دوسرے کام کے نتیجہ میں آنے یا بسہولت آنے کو کہتے ہیں جیسے دودھ بلونے سے اوپر مکھن آجاتا ہے تو اس مکھن کو اتوۃ کہتے ہیں اور اتی سیلاب (مف، فل) کہتےہیں۔
جاء اور اتی میں دوسرا فرق یہ ہے کہ اتی میں (بخلاف جاء کے ) یہ ضروری نہیں ہوتا کہ فی الواقعہ آنے کا عمل واقعہ ہو چکا ہو۔ مثلاً درج ذیل آیت:
اَتٰۤى اَمۡرُ اللّٰهِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡهُ‌ ؕ سُبۡحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ (سورۃ النحل آیت 1)
اللہ کا حکم یعنی عذاب گویا آ ہی پہنچا تو کافرو اس کے لئے جلدی مت کرو۔اور یہ لوگ جو اللہ کا شریک بناتے ہیں وہ اس سے پاک اور بالاتر ہے۔
میں امر سے مراد قیامت اور جزا و سزا کا عمل ہے جو ابھی واقع ہونے والا ہے۔
3:ھیت
یہ لفظ دراصل اتی کے صیغہ امر حاضر کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس کے صیغے ضمائر منفصل سے تبدیل ہوتے ہیں۔ مثلاً ھیت لک، ھیت لکما، ھیت لکم۔ ابن فارس کے لیے نزدیک ھیت اصل میں "چیخنے" پر دلالت کرتا ہے۔ (کلمۃ تدل علی الصیحۃ) (م ل) بعض نے اس کے معنی یہاں آنے، ادھر آنے اور جلدی آنے کے بھی لکھے ہیں ہیں۔ قرآن میں ہے:
وَغَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ وَقَالَتۡ هَيۡتَ لَـكَ (سورۃ یوسف آیت 23)
اور دروازے بند کر کے کہنے لگی یوسف جلدی آؤ
4: ھلم
اسماء الافعال سے ہے۔ ھلم بمعنی پکار یعنی کسی کو پکار پکار کر بلانا (م ل) یہ لفظ بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَدۡ يَعۡلَمُ اللّٰهُ الۡمُعَوِّقِيۡنَ مِنۡكُمۡ وَالۡقَآٮِٕلِيۡنَ لِاِخۡوٰنِهِمۡ هَلُمَّ اِلَيۡنَا (سورۃ الاحزاب آیت 18)
اللہ تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو لوگوں کو منع کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ۔
5: تعال
علو
بمعنی بلند اور تعال بمعنی کسی کو بلند جگہ یا بلند مقصد کی طرف بلانا (مف) کسی کو تعظیم سے بلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور صرف امر حاضر کے صیغے استعمال ہوتے ہیں:
قُلۡ يٰۤاَهۡلَ الۡكِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمۡ اَلَّا نَـعۡبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهٖ شَيۡـًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ‌ؕ (سورۃ آل عمران آیت64)
کہدو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں تسلیم کی گئ ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کارساز نہ سمجھے۔
ماحصل:
  • جاء: کا استعمال عام ہے اور واقع شدہ امر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
  • اتی: بسہولت یا کسی دوسرے کام کے نتیجہ میں آنا۔ نیز یہ پیش آئندہ واقعہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
  • ھیت: کسی کو چیخ پر اپنے پاس بلانے کے لیے۔
  • ھلم: پکار پکار کر بار بار کہنے کے لیے۔
  • تعال: کسی بلند مقصد کے لیے یا تعظیم سے بلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آنکھ

آنکھ کے لیے عین، عین، حور اور بصر کے الفاظ آئے ہیں۔
1: عین
مشہور عضو انسانی جس سے دیکھتے ہیں اور بمعنی چشمہ کہ ان دونوں میں کئی لحاظ سے مناسبت ہے۔ (جمع اعین اور عیون) لیکن قرآن میں عین (آنکھ) کی جمع اکثر اعین اور بمعنی چشمہ کی جمع عیون ہی آئی ہے۔ لفظ عین کا اطلاق محض ظاہری آنکھ پر ہوتا ہے جیسے
وَالۡعَيۡنَ بِالۡعَيۡنِ (سورۃ المائدۃ آیت 45)
اور آنکھ کے بدلے آنکھ (قصاص ہے)
اور صفات کے لحاظ سے عین کی دو قسمیں قرآن میں مذکور ہیں:
2: عِيۡنٌ
بمعنی موٹی موٹی یا بڑی بڑی آنکھوں والی۔ اعین اس مرد کو کہا جاتا ہے جس کی آنکھیں موٹی اور خوبصورت ہوں اور عیناء ایسی ہی عورت کو اور اعین اور عیناء دونوں کی جمع عین آتی ہے۔ وحشی گائے کی آنکھیں بھی چونکہ موٹی موٹی اور خوبصورت ہوتی ہیں لہذا اسے بھی اعین اور عیناء کہا جاتا ہے (مف) قرآن میں ہے:
وَعِنۡدَهُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ عِيۡنٌۙ‏ (سورۃ الصافات آیت 48)
اور ان کے پہلو میں نگاہیں نیچی رکھنے والی، بڑی خوبصورت آنکھوں والی (حوریں بیٹھی) ہوں گی۔
3: حور
حورت العین
یعنی آنکھ کی سفیدی بہت سفید اور سیاہی خوب سیاہ ہو گئی۔ اور جس قدر آنکھ کی سفیدی میں سفیدی اور پتلی کی سیاہی میں سیاہی زیادہ ہو اسی قدر خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ احور اور حوراء اس مرد اور عورت کو کہتے ہیں جو اسی صفت سے موصوف ہو اور ان دونوں کی جمع حور آتی ہے (مف، م ق) قرآن میں ہے:
حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِىۡ الۡخِيَامِ‌ۚ‏ (سورۃ الرحمن آیت 72)
ایسی حوریں جو خیموں میں پردہ نشین ہیں
ایک دوسرے مقام پر آنکھ کی ان دونوں صفات کا اکٹھا ذکر بھی آیا ہے:
وَحُوۡرٌ عِيۡنٌۙ‏ كَاَمۡثَالِ اللُّـؤۡلُـوٴِالۡمَكۡنُوۡنِ‌ۚ‏ (سورۃ الواقعہ 22،23)
اور خوبصورت کشادہ آنکھوں والی حوریں بھی (اُن کی رفاقت میں ہوں گی) جیسے محفوظ چھپائے ہوئے موتی ہوں
4: بصر
بصر
میں ظاہری آنکھ کے علاوہ قلبی رویت کا بھی لحاظ ہوتا ہے (مف) علاوہ ازیں بصر کا اطلاق ظاہری آنکھ کے عمل یعنی دیکھنے اور نگاہ پر بھی ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔
ظاہری آنکھ کے لیے:
وَاقۡتَرَبَ الۡوَعۡدُ الۡحَـقُّ فَاِذَا هِىَ شَاخِصَةٌ اَبۡصَارُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡاؕ (سورۃ الانبیاء آیت 97)
اور (قیامت کا) سچا وعدہ قریب ہو جائے گا تو اچانک کافر لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔
نگاہ کے لیے:
لَّقَدۡ كُنۡتَ فِىۡ غَفۡلَةٍ مِّنۡ هٰذَا فَكَشَفۡنَا عَنۡكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الۡيَوۡمَ حَدِيۡدٌ‏ (سورۃ ق آیت 22)
حقیقت میں تُو اِس (دن) سے غفلت میں پڑا رہا سو ہم نے تیرا پردۂ (غفلت) ہٹا دیا پس آج تیری نگاہ تیز ہے۔
قلبی رویت کے لیے:
وَعَلٰٓى اَبۡصَارِهِمۡ غِشَاوَةٌ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 7)‏
اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پرمہر لگا رکھی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہےاور ان کے لئے بڑا عذاب تیار ہے۔
بصر سے مصدر بصارۃ بھی ہے اور بصیرت بھی۔ بصارت کا اطلاق ظاہری نگاہ پر ہوتا ہے۔ ضعف بصارت سے اسی ظاہری نظر کی کمزوری مراد ہوتی ہے اور بصیرت سے مراد قلبی نگاہ ہے۔ کسی شاعر نے بصیرت اور بصارت کے فرق کو یوں واضح کیا:
دل بینا بھی خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
ماحصل:
عین کا لفظ دیکھنے کے ظاہری عضو کے لیے آتا ہے۔ عین اور حور آنکھوں کی صفات ہیں۔ عین موٹی موٹی آنکھوں والی اور حور نہایت سفید اور پتلی نہایت سیاہ رنگ کی آنکھوں والی۔ بصر کا لفظ ظاہری عضو کے علاوہ آنکھ کے عمل یعنی نگاہ اور پھر اس سے دیکھی ہوئی چیز پر غور کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آوارہ پھرنا

اس کے لیے تاہ (تیہ) اور ھام (ھیم) کے الفاظ آئے ہیں۔
1: تاہ
حیران و سراسیمہ پھرنا۔ گمراہی کی حالت میں ادھر ادھر بھٹکتے پھرنا (مف) اور ابن فارس کے نزدیک جنس من الحیرۃ (م ل) یعنی یہ حیرانگی ایک خاص قسم ہے اور التیہ کے معنی ایسا چٹیل میدان جس میں چلنے والا بھٹک جائے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيۡهِمۡ‌ اَرۡبَعِيۡنَ سَنَةً‌‌ۚ يَتِيۡهُوۡنَ فِىۡ الۡاَرۡضِ‌ؕ فَلَا تَاۡسَ عَلَى الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِيۡنَ (سورۃ المائدۃ آیت 26)
‏اللہ نے فرمایا کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کیلئے حرام کر دیا گیا کہ وہاں جانے نہ پائیں گے یہ اسی علاقے میں جہاں اب ہیں سرگرداں پھرتے رہیں گے تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کرو۔
3: ھام
بمعنی مجنونانہ کیفیت سے پھرنا۔ عاشق قسم کے لوگوں کی آوارگی (مف) صاحب منجد اس کے معنی محبت کرنا اور آوارہ پھرنا لکھتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
وَالشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ الۡغَاوٗنَؕ‏ اَلَمۡ تَرَ اَنَّهُمۡ فِىۡ كُلِّ وَادٍ يَّهِيۡمُوۡنَۙ‏ (سورۃ الشعراء آیت 224، 225)
اور شاعروں کی پیروی بہکے ہوئے لوگ ہی کرتے ہیں۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ (شعراء) ہر وادئ (خیال) میں (یونہی) سرگرداں پھرتے رہتے ہیں (انہیں حق میں سچی دلچسپی اور سنجیدگی نہیں ہوتی بلکہ فقط لفظی و فکری جولانیوں میں مست اور خوش رہتے ہیں)
ماحصل:
تاہ، حیرانگی اور سراسیمگی میں گمراہی کے رستوں پر سرگرداں پھرنے کے لیے اور ھام عشق و محبت اور آوارگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

آواز اور اس کی اقسام

عربی میں ہر قسم کی آواز کے لیے صوت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ وہ خواہ بولنے سے پیدا ہو یا چیزوں کے ٹکرانے سے۔ صوت کی ایک تعریف یہ کی گئی ہے
"منہ سے نکلی ہوئی شے اگر الفاظ اور حروف پر مشتمل نہ وہ تو وہ صوت ہے"
یہ تعریف قابل اعتبار نہیں۔ قرآن میں ہے:
یٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِىِّ(سورۃ الحجرات آیت 2)
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو
ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی حضور اکرمﷺ سے بامعنی کلام ہوتی تھی۔ بے معنی آوازیں نہ ہوتی تھیں۔ البتہ ابن فارس سے صوت کی جامع تعریف کی ہے۔ وہ کہتے ہیں
" ہر وہ کچھ جو سننے والے کے کان سے ٹکرائے وہ آواز (صوت) ہے''
قرآن کریم میں کچھ تو جانداروں کی آوازیں مذکور ہیں اور کچھ بے جان چیزوں کی۔ ہم اسی ترتیب سے انہیں بیان کرتے ہیں۔
جانداروں کی آوازیں:
صَدّ، صرخ، ہمْس، حَسِیْس، مُکَاءً، تَصْدِیَۃ، ضَبَح، خُوَار، زَفِیْر، شَہیْق، لہث
1) صَدّ (یَصِدُّ صَدِیْدًا):

کسی انسان کے گرنے کے وقت کی چیخ و پکار اور کراہنے کی آواز۔ لیکن یہ لفظ قرآن کریم میں محض چیخنے چلانے کے معنوں میں آیا ہے۔
وَلَمَّا ضُرِبَ ابۡنُ مَرۡيَمَ مَثَلاً اِذَا قَوۡمُكَ مِنۡهُ يَصِدُّوۡنَ‏(سورۃ زخرف آیت 57)
اور جب (عیسٰی) ابنِ مریم (علیہما السلام) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ چلا اٹھتے تھے۔
2) صرخ:
مصیبت اور گھبراہٹ میں چلانے کی آواز، فریاد، ارشاد باری تعالی ہے۔
وَهُمۡ يَصۡطَرِخُوۡنَ فِيۡهَا ‌ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَـعۡمَلۡ صَالِحًـا غَيۡرَ الَّذِىۡ كُـنَّا نَـعۡمَلُؕ (سورۃ فاطر آیت 37)
اور وہ اس دوزخ میں چِلّائیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں (یہاں سے) نکال دے، (اب) ہم نیک عمل کریں گے ان (اَعمال) سے مختلف جو ہم (پہلے) کیا کرتے تھے۔
3) ھمْس:
انسان کی کسی بھی حرکت کی آواز، کھسر پھسر یا کانا پھوسی کی آواز (منجد)۔ گویا اس سے مراد انسان کی کوئی بھی دھیمی اور قابل محسوس آواز ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَوۡمَٮِٕذٍ يَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِىَ لَا عِوَجَ لَهٗ‌ؕ وَخَشَعَتِ الۡاَصۡوَاتُ لِلرَّحۡمٰنِ فَلَا تَسۡمَعُ اِلَّا هَمۡسًا(سورۃ طہ آیت 108)
اس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلتے جائیں گے اس (کے پیچھے چلنے) میں کوئی کجی نہیں ہوگی، اور (خدائے) رحمان کے جلال سے سب آوازیں پست ہوجائیں گی پس تم ہلکی سی آہٹ کے سوا کچھ نہ سنوگے۔
4) حَسِیْس:
قدموں کی آہٹ، چاپ، خفیف سی آواز (منجد) آگ بھڑکنے کی آواز۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لَا يَسۡمَعُوۡنَ حَسِيۡسَهَا‌ۚ وَهُمۡ فِىۡ مَا اشۡتَهَتۡ اَنۡفُسُهُمۡ خٰلِدُوۡنَ‌ۚ‏ (سورۃ انبیاء آیت 102)
وہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور وہ ان (نعمتوں) میں ہمیشہ رہیں گے جن کی ان کے دل خواہش کریں گے
5) مَکَاءً:
منہ سے سیٹی بجانا (منجد) اور اس میں موسیقی کے تمام سر تال بھی شامل ہیں۔
6) تَصْدِیَۃ:
دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجانا اور اس میں تمام ساز و مضراب شامل ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِنۡدَ الۡبَيۡتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصۡدِيَةً‌ ؕ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏ ( سورۃ انفال آیت 35)
اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔ تو تم جو کفر کرتے تھے اب اسکے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔
7) ضَبَحَ:
گھوڑے کے تیز دوڑنے کی وجہ سے اس کے ہانپنے کی آواز۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَالۡعٰدِيٰتِ ضَبۡحًا (سورۃ العادیات آیت 1)
(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں
8) خُوَار:
بیل، گائے یا بچھڑے کی آواز۔ قرآن کریم میں ہے:
وَاتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰى مِنۡۢ بَعۡدِهٖ مِنۡ حُلِيِّهِمۡ عِجۡلاً جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ (سورۃ الاعراف آیت 148)
اور موسٰی کے بعد انکی قوم نے اپنے زیور سے ایک بچھڑا بنا لیا وہ ایک جسم تھا جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی
9) زَفِیْر:
زفر
بمعنی لمبا سانس باہر نکالنا اور زفیر بمعنی گدھے کے رینگنے کی ابتدائی آواز جو آہستہ آواز سے اونچی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
10) شَہیْق:
گدھا جب رینگنے کو ختم کرنے لگے تو آخر کی آواز جو اونچی آواز سے پست ہونا شروع ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَاَمَّا الَّذِيۡنَ شَقُوۡا فَفِىۡ النَّارِ لَهُمۡ فِيۡهَا زَفِيۡرٌ وَّشَهِيۡقٌۙ‏ ( سورۃ ھود آیت 106)
تو جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے اس میں ان کو چلانا اور دھاڑنا ہو گا۔
یہ آوازیں یا تو جہنم کی آگ سے پیدا ہوں گی جو انہیں سننا پڑیں گی یا گرمی اور پیاس کی شدت سے خود ان کے اندر سے منہ کے راستہ ایسی آوازیں نکلیں گی۔
11) لہث:
کتے کے ہانپنے کی آواز جس کی وجہ گرمی یا پیاس کی شدت ہوتی ہے اور وہ زبان باہر نکال کر ہانپنے یا ہونکنے لگتا ہے (منجد)۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰهُ بِهَا وَلٰـكِنَّهٗۤ اَخۡلَدَ اِلَى الۡاَرۡضِ وَاتَّبَعَ هٰوٮهُ‌ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الۡـكَلۡبِ‌ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ اَوۡ تَتۡرُكۡهُ يَلۡهَث (سورۃ الاعراف آیت 176)
اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس کے درجے کو بلند کر دیتے۔ مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔ تو اسکی مثال کتے کی سی ہو گئ کہ اگر اس پر حملہ کرو زبان نکالے رہے یا اسے یونہی چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے۔
بے جان چیزوں کی آوازیں:
12) رِکْز:
خفیف اور دھیمی آواز اور بعض کے نزدیک بھنک، مکھی کی بھنبھناہٹ، ارشاد باری تعالی ہے:
وَكَمۡ اَهۡلَكۡنَا قَبۡلَهُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍؕ هَلۡ تُحِسُّ مِنۡهُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَوۡ تَسۡمَعُ لَهُمۡ رِكۡزًا‏ (سورۃ مریم آیت 98)
اور ہم نے ان سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کر دیا ہے بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یا کہیں انکی بھنک سنتے ہو۔
13) صَیْحَۃً:
آواز پھاڑ پھاڑ کر چلانا، صور پھونکنے کی آواز، ایسی آواز جس سے دل دہل جائیں، گرج دار آواز، دھماکہ، یعنی جب کسی بھی آواز میں شدت پیدا ہو جائے۔ ہر بے معنی اور بلند آواز کو صیحۃ کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فَاَخَذَتۡهُمُ الصَّيۡحَةُ مُشۡرِقِيۡنَۙ‏ (سورۃ الحجر آیت 73)
پس انہیں طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی سخت آتشیں کڑک نے آلیا
14) صَاخّۃ:
ایسی کرخت آواز جو کانوں کو بہرا کر دے۔ کان پھوڑنے والی آواز، سخت قسم کا شور و غل۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ (سورۃ عبس آیت 33)
پھر جب کان پھاڑ دینے والی آواز آئے گی
15) تَغَیُّظ:
جوش غیظ و غضب میں جھنجھلاہٹ (منجد) مجازًا جہنم کی آگ میں تیز اور جوش کی وجہ سے پیدا شدہ آوازیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
اِذَا رَاَتۡهُمۡ مِّنۡ مَّكَانٍۢ بَعِيۡدٍ سَمِعُوۡا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيۡرًا‏ (سورۃ الفرقان آیت 12)
جب وہ (آتشِ دوزخ) دور کی جگہ سے (ہی) ان کے سامنے ہوگی یہ اس کے جوش مارنے اور چنگھاڑنے کی آواز کو سنیں گے
16) ہدّ:
کسی عمارت یا دیوار یا ستون وغیرہ کے گرنے کی آواز، دھڑام کی آواز، ارشاد باری تعالی ہے:
تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡهُ وَتَـنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَتَخِرُّ الۡجِبَالُ هَدًّاۙ‏ (سورۃ مریم آیت 90)
قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں۔
17) غَلْی:
ہنڈیا کے ابلنے اور جوش مارنے کی آواز، کھولنے کی آواز۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
كَالۡمُهۡلِ يَغۡلِىۡ فِىۡ الۡبُطُوۡنِۙ‏ (سورۃ الدخان آیت 45)
پگھلے ہوئے تانبے کی طرح وہ پیٹوں میں کَھولے گا
18) صَلصَال:
خشک اور پختہ مٹی کے کھنکنے کی آواز، اصل میں یہ صلّال تھا۔ ایک لام ص سے بدل گیا۔ خشک مٹی جو لوہے کی طرح بجے (منجد) یعنی وہ آواز جو کسی چیز میں میخ یا کیل کے ٹھونکنے سے پیدا ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ كَالۡفَخَّارِۙ‏ (سورۃ الرحمن آیت 14)
اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا
19) قَارِعَۃ:
قرع
کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر مارنا، قرع الباب بمعنی دروازہ کھکھٹانا (منجد) یعنی جب اس کے ایک پٹ کو دوسرے پٹ سے ٹکرائے یا ہاتھ مار کر یا کسی اور چیز سے آواز پیدا کی جائے۔ قیامت کو اللہ تعالی نے قارعۃ کہا ہے کہ اس وقت ایک دوسرے سے ٹکرا کر آوازیں پیدا ہوں گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
اَلۡقَارِعَةُۙ‏ مَا الۡقَارِعَةُ‌ۚ‏ (سورۃ القارعۃ آیت 1،2)
کھڑکھڑا ڈالنے والی۔ کیا ہے وہ کھڑکھڑا ڈالنے والی
ماحصل:
  • صوت: عام ہے، ہلکی ہو بلند جاندار کی ہو یا بے جان کی ہو، بے معنی ہو یا بامعنی ہو۔
  • صدّ: چیخنا چلانا یا کراہنا۔
  • صرخ: فریاد کی صورت میں چلانے کی آواز
  • ہمس: انسان کی کسی بھی حرکت کی ہلکی سی آواز
  • حسیس: قدموں کی آہٹ کی طرح خفیف آواز
  • مکاء: سیٹی کی قسم کی آواز
  • تصدیۃ: تالی کی قسم کی آواز
  • ضبح: دوڑتے وقت ہانپنے کی آواز
  • خوار: بچھڑے کی آواز
  • زفیر: گدھے کے رینگنے کی ابتداء
  • شہیق: گدھے کےرینگنے کی انتہا
  • لہث: کتے کے ہونکنے کی آواز
  • رکز: مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی ہلکی آواز
  • صیحۃ: بلند اور بے معنی آواز
  • صاخّۃ: کان پھوڑنے والی کرخت اور بلند آواز
  • تغّیظ: غیظ و غضب میں جھنجھلاہٹ
  • ھدّ: دھڑام کی آواز
  • غلی: ہنڈیا کے ابلنے کی آواز
  • صلصال: پختہ مٹی کے کھنکنے کی آواز
  • قارعۃ: کھڑکھڑانے کی آواز
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
آہستہ آہستہ
اس کے لیے روید (رود) رخاء (رخو) عرف، یسر، استدراج اور دلی کے الفاظ آئے ہیں اور ان تمام الفاظ میں آہستگی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
1: روید
الرود
سے مشتق ہے اور ارود کا مصدر مصغر ہے۔ کہتے ہیں امش علی الرود آہستہ چلو اور ساروا سیرا رویدا۔ وہ نرمی سے اور آہستہ آہستہ چلے اور ارود بمعنی اپنے کام میں آہستگی کرنے والا۔ نیز کہتے ہیں الدہر اورد ذو غیر یعنی زمانہ چپکے چپکے کام کرتا رہتا ہے۔ پتہ نہیں لگنے دیتا۔ نیز کہتے ہیں روید زیدا۔ زید کو مہلت دو (منجد) گویا روید کا مفہوم آہستہ آہستہ اور چپکے چپکے رسی دراز کرتے جانا یا تھوڑی تھوڑی مہلت دینے جانا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَمَهِّلِ الۡكٰفِرِيۡنَ اَمۡهِلۡهُمۡ رُوَيۡدًا (سورۃ طارق آیت 17)
پس آپ کافروں کو (ذرا) مہلت دے دیجئے، (زیادہ نہیں بس) انہیں تھوڑی سی ڈھیل (اور) دے دیجئے۔
2: رخاء
اتنی نرم اور آہستہ چلنے والی ہوا جو کسی چیز کو نہ ہلائے (منجد) ہوا کا نرمی اور دھیرے دھیرے سے چلانا (ف ل 46) ارشاد باری ہے:
فَسَخَّرۡنَا لَهُ الرِّيۡحَ تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖ رُخَآءً حَيۡثُ اَصَابَۙ‏ (سورۃ ص آیت 36)
پھر ہم نے اُن کے لئے ہوا کو تابع کر دیا، وہ اُن کے حکم سے نرم نرم چلتی تھی جہاں کہیں (بھی) وہ پہنچنا چاہتے۔
3: عرفا
دھیمی دھیمی چلنے والی راحت بخش ہوا۔ العرف بمعنی بو۔ اکثر اس کا استعمال خوشبو کے ہوتا ہے۔ (منجد) اور ایسی ہوائیں عموماً دھیمی رفتار سے چلتی ہیں۔ جیسے نسیم سحر۔ قرآن میں ہے:
وَالۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًاۙ‏ (سورۃ مرسلت آیت 1)
نرم و خوش گوار ہواؤں کی قَسم جو پے در پے چلتی ہیں۔
4: یسر
بمعنی آسانی اور سہولت اور اس کی ضد عسر (تنگی) ہے اور یسرا کا لفظ اس حالت کو بھی ظاہر کرتا ہے جب کوئی کام آسانی اور سہولت کے ساتھ بلا تکلف سر انجام دیا جائے اور اس میں کسی قسم کا جھول واقع نہ ہو۔ ارشاد باری ہے۔
فَالۡجٰرِيٰتِ يُسۡرًاۙ‏ (سورۃ الذریات آیت 3)
اور خراماں خراماں چلنے والیوں کی قَسم۔​
تو یہاں یسر سے مراد رفتار کی کمی نہیں بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ تیز رفتاری سے چلنے کے باوجود ان میں کوئی ہچکولہ، جھول، ڈھلک یا آواز پیدا نہیں ہوتی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آہستہ اور نرمی سے چل رہی ہیں۔
5: استدراج
درجۃ
سیڑھی کے زینہ کو کہتے ہیں جبکہ اوپر کو چڑھا جائے اور استدرج کے معنی آہستہ آہستہ اور بتدریج ایک چیز کو دوسری چیز کے قریب کرنے کے ہیں (مف) تا کہ اسے کچھ معلوم نہ ہو سکے۔ گویا استدراج میں تدریج اور آہستگی دو چیزوں کی رعایت ضروری ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَالَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا سَنَسۡتَدۡرِجُهُمۡ مِّنۡ حَيۡثُ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‌ۖ‌ۚ‏ (سورۃ الاعراف آیت 182)
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا انکو ہم بتدریج اس طرح پکڑیں گے کہ انکو معلوم ہی نہیں ہو گا ۔
6: دلّی
دلو
کے معنی ایسا ڈول ہے جو پانی سے خالی ہو اور ادلی کے معنی خالی ڈول کو پانی بھرنے کے لیے کنویں میں لٹکانا ہے جو آہستہ آہستہ پانی تک پہنچ جاتا ہے اور دلی کے معنی آہستہ آہستہ کسی کام کو سر انجام دینے اور مقصد تک پہنچنے کے ہیں۔ (مف) ارشاد باری ہے:
فَدَلّٰٮهُمَا بِغُرُوۡرٍ (سورۃ الاعراف آیت 22)
غرض مردود نے دھوکا دے کر انکو معصیت کی طرف کھینچ ہی لیا ۔
ماحصل:
1) روید:
کسی کی رسی آہستہ آہستہ چھوڑتے جانا تا کہ وہ اپنے انجام کو پہنچے۔
2) رخاء: ہوا کا آہستگی اور نرمی سے کام کرنا جس سے کچھ مزاحمت نہ ہو۔
3) عرفا: ہوا کا آہستگی کے ساتھ چلنا جبکہ راحت بھی شامل ہو۔
4) یسرا: بلا تکلف اور بسہولت کسی کام کو بغیر کسی مزاحمت کے سر انجام دینا۔
5) استدراج: تدریج اور آہستگی سے کسی دوسری چیز کے قریب ہونا۔
6) دلی: تدریج اور آہستگی سے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے آتا ہے۔
 
Top