مترادفات القرآن (پ)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پناہ دینا – مانگنا

کے لیے اجار اور استجار- اعاذ اور استعاذ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: اجار اور استجار

جار بمعنی پڑوسی، ہمسایہ، حمایتی اور مدد گار (مف) اور استجار بمعنی دشمن سے بطور حمایت و امداد حفاظت اور پناہ چاہنا۔ اس کے دکھ اور سزا سے حفاظت کی طلب کرنا ۔ اور اجار بمعنی کسی کو دشمن سے حفاظت میں لینا یا پناہ دے دینا (مف منجد) ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 6)
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسکو پناہ دیدو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ کو سننے لگے۔ پھر اسکو امن کی جگہ واپس پہنچا دو اس لئے کہ یہ بیخبر لوگ ہیں۔

2: اعاذ اور استعاذ

عوذ بمعنی جائے پناہ اور معاذ بمعنی پناہ گاہ بھی اور جادو بھی (منجد)، گویا یہ پناہ بد روحوں خواہ وہ جن ہوں یا شیطان یا جادوگر قسم کے لوگ ہوں، سے متعلق ہے۔ اور تعویذ معنی دفیعہ منتر، دم جھاڑ بھی (مف) اور وہ اسماء و آیات بھی جو رفع مرض یا کسی دوسری تکلیف کے دفعیہ کے گلے وغیرہ میں باندھے جاتے ہیں (منجد) اور استعاذ بمعنی ایسی خبیث روحوں کے شر سے پنا ہے یا حفاظت چاہنا اور اعاذ بمعنی پناہ میں آنا اور چمٹے رہنا ہے (مف) قرآن میں ہے:
وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖۤ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تَذۡبَحُوۡا بَقَرَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ؕ قَالَ اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 67)
اور جب موسٰی نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو۔ وہ بولے کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو؟ موسٰی نے کہا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (سورۃ الاعراف آیت 200)
اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کسی طرح کا وسوسہ پیدا ہو تو اللہ سے پناہ مانگو۔ بیشک وہ سننے والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔

ماحصل:

  • اجار: دشمن سے پناہ اور حفاظت کے لیے۔
  • اعاذ ، تمام بد روحوں کے شر سے پناہ اور حفاظت کے لیے، آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پوچھنا

کے لیے سال، استفتا اور استنبا کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: سال

کے بنیادی معنی دو ہیں (1) استفسار یعنی کسی بات کا جواب لینے کے لیے پوچھنا (۲) کوئی چیز مانگنا اور جواب میں وہ چیز چاہنا۔ اس وقت پہلا معنی زیر بحث ہے۔ استفسار کے معنوں میں اس کا استعمال عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ کُلَّمَاۤ اُلۡقِیَ فِیۡہَا فَوۡجٌ سَاَلَہُمۡ خَزَنَتُہَاۤ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَذِیۡرٌ (سورۃ الملک آیت 8)
گویا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔ جب اس میں انکی کوئی جماعت ڈالی جائے گی تو دوزخ کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟

2: استفتاء

فتوی اور فتیا کسی مشکل مسئلہ کے جواب کو کہتے ہیں (مف) اور اس استفتاء، معنی فتوی مانگنا، کسی عالم سے کسی مشکل مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم پوچھنا، کسی مشکل مسئلہ میں مشورہ یا رائے دریافت کرنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
یَسۡتَفۡتُوۡنَکَ ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِی الۡکَلٰلَۃِ (سورۃ النسا آیت 176)
اے پیغمبر لوگ تم سے کلالہ کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ اللہ کلالہ کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے

3: استنباء

نبا ایسی خبر کو کہتے ہیں جو اہم بھی ہو اور پوچھنے یا جواب دینے والے سے تعلق بھی رکھتی ہو۔ خواہ کوئی واقعہ ہو چکا ہو یا ہونے والا ہو۔ لفظ نبوت اور نبی اس سے مشتق ہے نبی وہ ہستی ہے جو اللہ تعالیٰ سے بذریعہ وحی ایسی خبریں پا کر لوگوں تک پہنچائے خواہ یہ خبریں زمانہ ماضی سے تعلق رکھتی ہوں یا ما بعد الطبیعات اور آنے والے واقعات سے اور استنباء بمعنی خبر دریافت کرنا۔ خبر کی تحقیق کرنا (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ یَسۡتَنۡۢبِئُوۡنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ ؕؔ قُلۡ اِیۡ وَ رَبِّیۡۤ اِنَّہٗ لَحَقٌّ ۚؕؔ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ (سورۃ یونس آیت 53)
اور اے نبی تم سے دریافت کرتے ہیں کہ آیا یہ سچ ہے کہدو ہاں میرے رب کی قسم یہ سچ ہے اور تم بھاگ کر اللہ کو عاجز نہیں کر سکو گے۔
اور امام راغب کے نزدیک نبا وہ خبر ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو (مف) مگر یہ قید درست معلوم نہیں ہوتی ۔ کیونکہ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ (سورۃ الحجرات آیت 6)
مومنو! اگر کوئی گناہگار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تمکو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔
اسی طرح ہدہد پرندہ جو نب حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس لایا تھا تو آپ نے اسی کذب کے احتمال کی بنا پر تحقیق ضروری سمجھی تھی۔

ماحصل:

  • سال: "پوچھنا" کیلیے عام لفظ ہے۔
  • استفتاء کسی مشکل مسئلہ میں شرعی حکم کو پوچھنا۔
  • استنباء کسی اہم خبر کے تعلق پوچھنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پورا – سارا (سب)

کے لیے کلّ ، کامل، کافۃ اور سلم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: کلّ

بمعنی سب، پورے کا پورا، اس کی ضد جزء ہے۔ یعنی جس کے اجزاء پورے ہوں۔ اور کل کا استعمال اس کے پورے اجزاء کا احاطہ کرنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ گویا بمعنی ہر ایک، ہر کوئی، ہر چیز اور کل پر بھی۔ اور اس صورت میں اس کا معنی پوری طرح ہوتا ہے۔ اب ان کی مثالیں دیکھیے
کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ (سورۃ آل عمران آیت 185)
ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔
وَ قَاتِلُوۡھُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (سورۃ الانفال آیت 39)
اور ان لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ یعنی کفر کا فساد باقی نہ رہے اور دین سب اللہ ہی کا ہو جائے اور اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ انکے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔

2: کامل

(اس کی ضد ناقص ہے)، بمعنی وہ چیز جس کے اجزاء پورے ہوں۔ اور صفات مکمل ہوں۔ یعنی اپنی غرض و غایت کو پورا کرے (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَھُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 233)
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدّت تک دودھ پلوانا چاہے

3: كافة

الكاف، کسی چیز کے پورے گھیر کو کہتے ہیں۔ اور کاف اسم فاعل ہے اور اس سے مونث کافۃ ہے۔ کہا جاتا ہے، جاءَ النَّاسَ كَافةً یعنی سبھی لوگ آئے (منجد) یہ لفظ کامل سے بھی ابلغ ہے۔ کیونکہ صرف اجزا ہی نہیں جملہ پہلوؤں کو محیط ہوتا ہے۔ اب ان کی مثالیں دیکھیے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ (سورۃ البقرۃ آیت 208)
مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ سبا آیت 28)
اور اے محمد ﷺ ہم نے تمکو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
نیز دیکھیے "سب – سارے"۔

4: سلم

بمعنی بے گزند اور درست، صحیح و سالم (م ا) السلم کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنا۔ اور سلم ایسی چیز جو اپنی ذات میں درست بھی ہو اور اس پر کسی دوسرے کا بھی کوئی حق نہ ہو (مف) ارشاد باری ہے:
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ ھَلۡ یَسۡتَوِیٰنِ مَثَلًا ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ۚ بَلۡ اَکۡثَرُھُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ الزمر آیت 29)
اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی آدمی شریک ہیں۔ مختلف مزاج کے اور ایک آدمی پورے کا پورا ایک شخص کا غلام ہے۔ بھلا دونوں کی حالت برابر ہے؟ نہیں الحمدللہ مگر یہ اکثر لوگ نہیں جانتے۔
ایک مرد ہے کہ اس میں شریک ہے سب ضدی اور ایک مرد پورا ایک شخص کا کیا برابر ہوئی ہیں دونوں کی مثل (عثمانیؒ)

ماحصل:

  • کل: جز کے مقابلہ میں بھی آتا ہے اور کل اجزا کے احاطہ کے لیے بھی، پورا، سارا، ہر ایک۔
  • کامل: ناقص کے مقابلہ میں آتا ہے جس میں کوئی کسر یا کمی نہ رہ گئی ہو۔ اور غرض و غایت کو پورا کرے۔
  • کافۃ: جماعت کے سبھی افراد۔ یا کسی معاملہ کے جملہ پہلوؤں کے لیے آتا ہے۔ پورے کے پورے، سب کے سب۔ ان میں یہ کل سے ابلغ ہے۔
  • سلم: بے گزند اور درست، یعنی جس پر دوسرے کا کسی قسم کا کوئی حق نہ ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پورا کرنا – ہونا

کے لیے تم، اتمّ، اکمل، اوفی ، قضی اور اسبغ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اتمّ

تمّ یا تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد کسی اور خارجی چیز کی ضرورت باقی نہ رہے اور اس کی ضد نقص ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ وَ ھُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ (سورۃ الانعام آیت 115)
اور تمہارے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں اسکی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہ سنتا ہے جانتا ہے۔
اور اتمّ کے معنی ناقص اور نا تمام چیز کو پایہ تکمل تک پہنچانا ہے۔ اور اس کا استعمال عموماً گنتی، مقدار یا مدت کو پورا کرنے کے لیے آتا ہے۔ مثلاً :
گنتی کے لیے
فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِکَ ۚ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَیۡکَ ؕ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ (سورۃ القصص آیت 27)
پھر اگر دس سال پورے کر دو تو وہ تمہاری طرف سے احسان ہو گا اور میں تم پر تکلیف ڈالنی نہیں چاہتا۔ تم مجھے ان شاء اللہ نیک لوگوں میں پاؤ گے۔
مقدار کے لیے
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (سورۃ المائدۃ آیت 3)
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا
مدت کے لیے
ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ (سورۃ البقرۃ آیت 187)
پھر روزہ رکھ کر رات تک پورا کرو۔

2: اکمل

اس کی ضد بھی ناقص ہے۔ بمعنی کسی شروع کیے ہوئے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا یعنی جس غرض کے لیے وہ وجود میں آئی تھی وہ غرض پوری ہو جانا (مف) ارشاد باری ہے:
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (سورۃ المائدۃ آیت 3)
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا
تمام اور کمال کا فرق واضح کرنے کے لیے دوسری مثال ملاحظہ ہو:
وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَھُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ (سورۃ البقرۃ آیت 233)
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدّت تک دودھ پلوانا چاہے
اس آیت میں رضاعت کی مدت پوری کرنے کے لیے تمام اور رضاعت کی غرض پوری کرنے کے لیے کامل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

3: اوفی

وفی کا لفظ عہد، ماپ تول، زندگی یا شرط اور اجر کو پورا کرنے کے لیے آتا ہے۔ اور اس کی ضد غدر (بے وفائی کرنا) ہے (مف) اب ان کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
عہد کے لیے:
یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡھَبُوۡنِ (سورۃ البقرۃ آیت 40)
اے آل یعقوب! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا میں اس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھی سے ڈرتے رہو۔
ماپ تول کے لیے:
قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ الۡمِیۡزَانَ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَھُمۡ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا (سورۃ الاعراف آیت 85)
تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی آچکی ہے تو تم ناپ اور تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو
منت، نذر، شرط کے لیے:
ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَھُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ (سورۃ الحج آیت 29)
پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور منتیں پوری کریں اور اس قدیم گھر یعنی بیت اللہ کا طواف کریں۔
اجر یا اجرت کی ادائیگی کے لیے اور یہ باب وفّی سے آئے گا۔
وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیۡہِمۡ اُجُوۡرَھُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 57)
اور جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے ان کو اللہ پورا پورا صلہ دے گا اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔

4: قضی

جب اس کی نسبت انسان کی طرف ہو تو اس کے معنی ذمہ داری پورا کرنا اور اس سے فارغ ہونا (مف، م ق) ہوں گے۔ ارشاد باری ہے:
فَاِذَا قَضَیۡتُمۡ مَّنَاسِکَکُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ (سورۃ البقرۃ آیت 200)
پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو تو منٰی میں اللہ کو یاد کرو جس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو جو دینا ہے دنیا ہی میں دیدے اور ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصّہ نہیں۔
اسی طرح دوسرے مقام پر ہے:
مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا (سورۃ الاحزاب آیت 23)
مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار انہوں نے اللہ سے کیا تھا اسکو سچ کر دکھایا پھر ان میں بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نذر پوری کر دی یعنی جان دیدی اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں۔ اور انہوں نے اپنے قول کو ذرا بھی نہیں بدلا۔

5: اسبغ

سبغ کا لفظ کسی چیز کے تمام اور کمال پر دلالت کرتا ہے۔ (م ل) اور امام راغب کے نزدیک اس میں وسعت اور آسانی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اور سابغ کھلی زرعہ کو کہتے ہیں (مف) اور اسبغ کے معنی کسی کام کو اس طرح پورا کرنا کہ اس میں کچھ کسر یا کمی بھی نہ رہے اور غرض و غایت بھی پوری ہو جائے۔ اور اس لفظ کا استعمال عموماً وضو اور نعمتوں کے پورا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاھِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً ؕ (سورۃ لقمان آیت 20)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اللہ نے تمہارے قابو میں کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں۔

ماحصل:

  • اتمّ: کسی چیز کو اس طرح پورا کرنا کہ اس میں کوئی کسر یا کمی نہ رہ جائے اور اس کا استعمال مدت، مقدار یا گنتی پورا کرنے کے لیے ہے۔
  • اکمل: کسی چيز کو اس طرح پورا کرنا کہ اس کی غایت پوری ہو جائے۔
  • اوفی: عہد، ماپ تول، اجرت، قدر اور زندگی پورا کرنے کے لیے آتا ہے۔
  • قضی: جب اس کی نسبت انسان کی طرف ہو تو ذمہ داری پوری کرنا اس سے فارغ ہونے کے لیے آتا ہے۔
  • اسبغ: کسی چیز کو اس طرح پورا کرنا کہ اس میں کمی بھی نہ رہے اور غایت بھی بطریق احسن پوری ہو جائے۔
پوشیدہ ہونا کے لیے دیکھیے "چھپنا"
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پوشاک

کے لیے لباس اور کسوۃ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: لبس

لبس یلبس فعل ماضی میں ب مکسور اور مضارع میں مفتوح بمعنی کپڑا یا لباس پہننا اور لباس بمعنی کسی کی اپنی پوشاک۔ ارشاد باری ہے:
جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَھَبٍ وَّ لُؤۡلُؤًا ۚ وَ لِبَاسُہُمۡ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ (سورۃ فاطر آیت 33)
ان لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے۔ وہاں انکو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے۔ اور انکی پوشاک ریشمی ہو گی۔

2: کسوۃ

کسا یکسوا بمعنی کسی دوسرے کو کپڑا پہنانا اور کسوۃ بمعنی کسی دوسرے کی پوشاک یا لباس۔ ارشاد باری ہے:
وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (سورۃ البقرۃ آیت 233)
اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمّے ہو گا۔

ماحصل:

جو پوشاک اپنے لیے وہ لباس ہے اور جو دوسرے کے لیے تیار کی جائے وہ کسوۃ ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پہاڑ

کے لیے جبل، رواسی، طود، صخرۃ اور اعلام کے الفاظ آئے ہیں۔

1: جبل

اسم جنس ہے۔ اس لفظ کا اطلاق ہر طرح کے پہاڑ پر چھوٹا ہو یا بڑا، بلند ہو یا پست، سب پر ہوتا ہے (فل ۲۶۶) اور اس کی جمع جبال آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ؕ قَالَ اَوَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ ؕ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنۡ لِّیَطۡمَئِنَّ قَلۡبِیۡ ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرۡہُنَّ اِلَیۡکَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنۡہُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعۡیًا ؕ وَ اعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 260)
اور جب ابراہیم نے اللہ سے عرض کیا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ اللہ نے فرمایا کیا تم نے اس بات کا یقین نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں لیکن میں دیکھنا اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کر لے فرمایا کہ چار پرندے لے لو پھر انکو اپنے سے ہلا لو اور انکے ٹکڑے ٹکڑے کر دو پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے اور جان رکھو کہ اللہ غالب ہے صاحب حکمت ہے۔

2: رواسی

(راسیہ کی جمع) رسو بمعنی کسی چیز کا جما ہوا اور گڑا ہوا ہونا، ثابت اور استوار ہونا، رسا السّفینۃ بمعنی جہاز کا لنگر انداز ہونا۔ اور مرسی بندر گاہ کو کہتے ہیں (منجد) اور راسی اس بڑی دیگ کو بھی کہتے ہیں جو بڑی ہونے کی وجہ سے ایک ہی جگہ نصب کی گئی ہو۔
یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا ؕ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ (سورۃ سبا آیت 13)
وہ جو چاہتے یہ انکے لئے بناتے یعنی قلعے اور تصویریں اور بڑے بڑے لگن جیسے تالاب اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی رہیں اے آل داؤد شکر کرتے رہو اور میرے بندوں میں شکرگذار تھوڑے ہیں۔
اور راسیہ کے معنی مضبوط اور مستحکم پہاڑ (م ا، منجد) اور رواسی بمعنی سلسلہ ہائے کوہ۔ یہ عموماً جمع ہی استعمال ہوتا ہے۔ دور تک پھیلے ہوئے پہاڑ۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَعَلۡنَا فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِہِمۡ ۪ وَ جَعَلۡنَا فِیۡہَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 31)
اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ وہ لوگوں کو لیکر ڈولنے نہ لگے اور اس میں کشادہ رستے بنائے تاکہ لوگ ان پر چلیں۔

3: طود

بہت بڑا پہاڑ۔ جو بلند بھی ہو اور پھیلاؤ‎ میں بھی بڑا ہو (فل ۲۶۷) اور صاحب منتہی الارب کے نزدیک بڑے پہاڑ کے علاوہ بہت بڑے تودہ ریگ پر اس کا استعمال عام ہوتا ہے (م ا) ارشاد باری ہے:
فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡبَحۡرَ ؕ فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ (سورۃ الشعراء آیت 63)
اس وقت ہم نے موسٰی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو۔ تو سمندر پھٹ گیا سو ہر ایک ٹکڑا یوں ہو گیا کہ گویا بڑا پہاڑ ہے۔

4: صخرة

بمعنی چٹان۔ چھوٹا سا بلند پہاڑ، سخت پتھر (مف) دراصل صخرة ایک ہی بہت بڑا پتھر ہوتا ہے جو کافی بلندی تک چلا گیا ہو۔ ابن فارس اس کے معنی حجر عظیم لکھتے ہیں (م ل) ارشاد باری ہے:
وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ (سورۃ الفجر آیت 9)
اور ثمود کے ساتھ کیا کیا جو وادی قرٰی میں چٹانیں تراشتے تھے۔

5: اعلام

علم کی جمع ہے۔ اور علم کے معنی نشان، نشان منزل، جھنڈا، روشنی کا مینار اور پہاڑ سب آتے ہیں۔ اور اعلام ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے ہمسروں میں ممتاز ہو ۔ نامور ہستیاں، پہاڑ وغیرہ- اعلام کے ساتھ ایسا قرینہ موجود ہو تو پھر اس کے معنی یقیناً پہاڑ ہو گا۔ ارشاد باری ہے۔
وَ لَہُ الۡجَوَارِ الۡمُنۡشَئٰتُ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ (سورۃ الرحمن آیت 24)
اور جہاز بھی اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے ہوتے ہیں۔

ماحصل:

  • جبل: اہم جنس۔ اس کا استعمال عام ہے۔
  • رواسی: مضبوط اور مستحکم پہاڑ، سلسلہ ہائے کوہ۔
  • طور: بہت بڑا اور بلند پہاڑ یا تودہ ریت۔
  • صخرۃ: چھوٹا اور بلند پہاڑ۔ بہت بڑا سا اونچا پتھر، چٹان۔
  • اعلام: پہاڑ کے لیے مجازاً استعمال ہوا ہے۔ اصل معنی ہر وہ چیز جو اپنے ہمسروں سے ممتاز ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پہچاننا

پہچاننا کے لیے عرف اور توسم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عرف

بمعنی کسی چیز کی علامات و آثار پر غور کرکے اس کا ادراک کر لینا (ضد نکر) یہ علم سے کم درجہ رکھتا ہے (مف) ارشاد باری ہے:
وَ جَآءَ اِخۡوَۃُ یُوۡسُفَ فَدَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَعَرَفَہُمۡ وَ ہُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 58)
اور یوسف کے بھائی کنعان سے مصر میں غلہ خریدنے کے لئے آئے تو یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے انکو پہچان لیا اور وہ انکو نہ پہچان سکے۔

2: توسّم

وسم بمعنی نشان زد کرنا، داغ لگانا (مف) اور بمعنی جسم پر نقش و نگار اور تل وغیرہ کھودنا (م ل) اور وسم اور وسام وہ چیز جس سے داغ لگایا یا رنگا جائے۔ اور وسیم بمعنی خوبصورت (م ق) اور توسم بمعنی فراست سے کوئی چیز بیان کرنا، علامت طلب کرنا، پہچاننا (منجد) ارشاد باری ہے:
اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلۡمُتَوَسِّمِیۡنَ (سورۃ الحجر آیت 75)
بیشک اس قصے میں اہل فراست کے لئے نشانی ہے۔

ماحصل:

  • عرف: علامات و آثار سے کسی چیز کو پہچاننا۔
  • توسّم: اپنی فہم و فراست سے پہلے علامات و قرائن معلوم کرنا پھر پہچاننا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پہلا – پہلی – پہلے

کے لیے اوّل، اولی، سابق اور قبل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اوّل

بمعنی پہلا اور اس کا مونث اولی بمعنی پہلی ہے۔ اور اوّل کا استعمال تین طرح سے ہوتا ہے:
(1) عددی ترتیب کے لحاظ سے: یعنی وہ عدد جس سے پہلے کوئی عدد نہیں۔ اس لحاظ سے اوّل کے بعد ثانی پھر ثالث وغیرہ آئے گا۔
(۲) ترتیب کار یا نظام صناعی کے لحاظ سے جیسے الاسّ اولا ثم البناء یعنی پہلے بنیاد رکھی جائے گی پھر تعمیر ہو گی۔
(۳) ترتیب زمانی کے لحاظ سے۔ اس لحاظ سے اوّل کی ضد اخر بمعنی پچھلا ہے۔ اور اولی (پہلی دنیا) کی ضد آخرت (پچھلی۔ اخروی زندگی) ہے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ اِنَّ الۡاَوَّلِیۡنَ وَ الۡاٰخِرِیۡنَ لَمَجۡمُوۡعُوۡنَ ۬ۙ اِلٰی مِیۡقَاتِ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ (سورۃ الواقعہ آیت 49، 50)
کہدو کہ بیشک پہلے اور بعد والے۔ سب ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کئے جائیں گے۔

2: سبق

کا اصل معنی خود آگے بڑھ جانا اور دوسروں کو پیچھے چھوڑ دینا ہے۔ یعنی سابق کا لفظ مسبوق کا مقتضی ہوتا ہے۔ جبکہ اوّل کا لفظ آخر کا مقتضی نہیں ہوتا۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں، فلاں کا پہلا لڑکا ہے خواہ اس کے بعد دوسرا تیسرا کوئی بچہ نہ ہو لیکن سابق نہیں کہہ سکتے (فق ل ۹۷) ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ الحشر آیت 10)
اور انکے لئے بھی جو ان مہاجرین کے بعد آئے اور دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ و حسد نہ پیدا ہونے دے اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا ہے مہربان ہے۔

3: قبل

(ضد بعد) ہر طرح کے تقدم زمانی، مکانی، ترتیبی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر قرآن میں یہ لفظ صرف تقدم زمانی کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 4)
اور جو کتاب اے پیغمبر تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے پیغمبروں پر نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔

ماحصل:

  • اول اور اولی: بمعنی پہلا صرف ترتیب عددی صناعی اور زمانی کے لیے۔
  • سبق: مسبوق کا بھی مقتضی ہوتا ہے۔
  • قبل کسی بھی کام میں تقدیم زمانی کے لیے آتا ہے۔ اور اول کے مقابلہ میں اخص ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پہلو

کے لیے جنب، جناح اور عطف کے الفاظ آئے ہیں۔

1: جنب

بمعنی پہلو، طرف، جانب، کروٹ۔ اور جنب کسی چیز کی کوئی ایک طرف یا پہلو بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے:
وَ اِذَا مَسَّ الۡاِنۡسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنۡۢبِہٖۤ اَوۡ قَاعِدًا اَوۡ قَآئِمًا ۚ فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُ ضُرَّہٗ مَرَّ کَاَنۡ لَّمۡ یَدۡعُنَاۤ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ یونس آیت 12)
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹھا اور کھڑا ہر حال میں ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کر دیتے ہیں تو بے لحاظ ہو جاتا اور اس طرح گزر جاتا ہے کہ گویا کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کو انکے اعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں۔
اور اس کے علاوہ پاس یا پہلو والی کوئی اور چیز بھی۔ جیسے صاحب بالجنب بمعنی پاس بیٹھنے والا ساتھی اور جانب یا طرف بھی جیسے جنب الحائط بمعنی دیوار کی جانب (مف) اور جنب بنیادی طور پر بھی دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (1) پہلو، (2) دور ہونا (م ل) درج آیت میں:
وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا (سورۃ النساء آیت 36)
اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور ناداروں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور پاس بیٹھنے والوں اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ حسن سلوک کرو بیشک اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
اور جار الجنب سے مراد دور کا ہمسایہ اور صاحب بالجنب کے معنی پاس رہنے والا ہے۔ اور اسی نسبت سے کسی کے حق میں " کے بارے میں " کی بابت" کے لیے بھی یہ لفظ آتا ہے۔ قرآن میں ہے
اَنۡ تَقُوۡلَ نَفۡسٌ یّٰحَسۡرَتٰی عَلٰی مَا فَرَّطۡتُّ فِیۡ جَنۡۢبِ اللّٰہِ وَ اِنۡ کُنۡتُ لَمِنَ السّٰخِرِیۡنَ (سورۃ الزمر آیت 56)
ایسا نہ ہو کہ اس وقت کوئی شخص کہنے لگے کہ ہائے اس کوتاہی پر افسوس ہے جو میں نے اللہ کا حق ماننے میں کی اور میں تو ہنسی ہی کرتا رہا۔

2: جناح

عموماً پرندوں کے پر کے معنی میں آتا ہے۔ اس کی تثنیہ جناحین
وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمۡثَالُکُمۡ ؕ مَا فَرَّطۡنَا فِی الۡکِتٰبِ مِنۡ شَیۡءٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمۡ یُحۡشَرُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 38)
اور زمین میں جو چلنے پھرنے والا حیوان یا اپنے پروں سے اڑنے والا پرندہ ہے انکی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔ ہم نے کتاب یعنی لوح محفوظ میں کسی چیز کے لکھنے میں کوتاہی نہیں کی پھر سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائیں گے۔
اور جمع اجنحة
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیۡۤ اَجۡنِحَۃٍ مَّثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ؕ یَزِیۡدُ فِی الۡخَلۡقِ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (سورۃ فاطر آیت 1)
سب تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جنکے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں وہ اپنی مخلوقات میں جو چاہتا ہے بڑھاتا ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
آتی ہے۔ پھر یہ لفظ انسان کے بازو کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جس سے مراد کندھا، اور ہتھیلی تک کا حصہ ہے (منجد) اور جنح بمعنی مائل ہونا۔ اگر یہ میلان اچھائی کی طرف ہو، تو جناح اور برائی کی طرف ہو تو جناح (پیش کے ساتھ) کا استعمال ہو گا (مف) درج ذیل آیات ہیں جناح کا معنی بازو یا پہلو ہی ہے مگر اس کا جھکاؤ بھلائی کی طرف ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ الشعراء آیت 215)
اور جو مومن تمہارے پیرو ہو گئے ہیں ان سے تواضع سے پیش آؤ۔
اور جو مومن تمہارے پیرو ہو گئے ہیں ان کے لیے اپنے بازو نیچے رکھ۔ (عثمانیؒ)
دوسرے مقام پر فرمایا :
وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 24)
اور عجزونیاز سے انکے آگے جھکے رہو اور انکے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں شفقت سے پرورش کیا ہے تو بھی انکے حال پر رحمت فرما۔
اور عجز و نیاز سے ان (والدین کے لیے) اپنے کندھے نیچے رکھ (عثمانیؒ)
لفظ جناح بھلائی کے میلان کے لیے نہیں آتا بلکہ گناہ یا اس کی طرف میلان کے معنی دے گا۔

3: عطف

عطف بمعنی کسی چیز کا ایک سرا دوسرے کی طرف موڑنا، دوہرا کرنا اور عطاف دو تہوں والی چادر کو کہتے ہیں (مف) اور عطف کجی اور جھکاؤ کو بھی کہتے ہیں (منجد) اور عطف بمعنی پہلو اور کنارہ۔ اور عطف الرجل بمعنی مرد کے دونوں پہلو ہیں۔ اور تنا عطیفہ بمعنی منہ موڑ لینا اور زیادتی کرنا۔ اور مرّ ثانی عطفہ بمعنی تکبر کی چال چلنا ہے (منجد) گویا عطف کا لفظ جب پہلو کے معنی استعمال ہو تو زیادتی اور تکبر کی حالت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثَانِیَ عِطۡفِہٖ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ لَہٗ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ نُذِیۡقُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ (سورۃ الحج آیت 9)
اور تکبر سے گردن موڑ لیتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے رستے سے گمراہ کر دے۔ اس کے لئے دنیا میں ذلت ہے۔ اور قیامت کے دن ہم اسے عذاب آتش سوزاں کا مزہ چکھائیں گے۔

ماحصل:

  • جنب: جاندار اور بے جان دونوں کے پہلو، پاس والی اور دور والی چیز کے لیے یکساں آتا ہے۔
  • جناح: جانداروں کے پہلو کے لیے اور تواضع و انکساری کی کیفیت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔
  • عطف: زیادتی اور تکبر کی حالت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پہنچنا

کے لیے بلغ، اصاب (صوب) افضی (فضی) نال (نیل) ناوش، تعاطى (عطو) وصل، مسّ اور ورد کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بلغ

بمعنی کسی مقصد کے منتہی کو پہنچنا، آخری حد کو پہنچنا (مف) ارشاد باری ہے:
وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ (سورۃ النساء آیت 6)
اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو اور جانچتے رہو پھر بالغ ہونے پر اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو

2: اصاب

صوب کے معنی کسی چیز کے اترنے اور قرار پکڑنے کے ہیں۔ اور الصوب بارش برسنے کو بھی کہتے ہیں۔ اور اصاب بمعنی تیر وغیرہ کا ٹھیک نشانے پر لگنا۔ اور صواب معنی درست اور ٹھیک۔ اور اس کی ضد خطا ہے (منجد) اور مصیلبۃ اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر لگ جائے۔ پھر عرف عام میں مصیبت کا لفظ عموماً برے مفہوم میں استعمال ہونے لگا۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 156)
کہ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
کہ جب پہنچے ان کو کچھ مصیبت تو کہیں ہم تو اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں (عثمانیؒ)
گویا اصاب کا اطلاق خدا کی طرف سے انسان کو پہنچنے والی تنگی ترشی پر ہوتا ہے۔ گو اس کا استعمال زیادہ تر برے مفہوم میں ہوتا ہے۔ تاہم اچھے معنی میں بھی آ سکتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَئِنۡ اَصَابَکُمۡ فَضۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوۡلَنَّ کَاَنۡ لَّمۡ تَکُنۡۢ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہٗ مَوَدَّۃٌ یّٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ مَعَہُمۡ فَاَفُوۡزَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا (سورۃ النساء آیت 73)
اور اگر اللہ تم پر فضل کرے تو اس طرح سے کہ گویا تم میں اس میں دوستی تھی ہی نہیں افسوس کرتا اور کہتا ہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو مقصد عظیم حاصل ہوتا۔
اور اگر تم کو پہنچے فضل اللہ کی طرف سے (عثمانیؒ)

3: نال:

اس چیز تک پہنچنا یا حاصل کرنا جس کی انسان خواہش رکھتا ہو (مف) آڑے ہاتھوں لینا (ق ج) اور نیل مطلب اور مراد کو اور نیلۃ مطلوبہ چیز کو کہتے ہیں (منجد) ارشادِ باری ہے:
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (سورۃ آل عمران آیت 92)
مومنو! جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم خرچ کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔

4: ناوش

ناش بمعنی کسی چیز کو پکڑنا طلب کرنا (منجد) اور بمعنی تناول کرنا۔ اور ناش فلانا بمعنی اس کا سر اور داڑھی پکڑنے کو لپکا (م ق) نال اور ناش تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں یعنی بڑھ کر ہاتھ سے پکڑ لینا یا ہاتھ کا کسی چیز تک پہنچ پانا۔ فرق صرف یہ ہے کہ نال صرف کسی مرغوب چیز کے حصول کے لیے آتا ہے جبکہ ناش عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَّ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِہٖ ۚ وَ اَنّٰی لَہُمُ التَّنَاوُشُ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ (سورۃ سبا آیت 52)
اور کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے اور اب اتنی دور سے ان کا ہاتھ ایمان کے لینے کو کیسے پہنچ سکتا ہے؟

5: تعاطی

(عطو) کسی مطلوبہ چیز تک پہنچے اور اسے پکڑنے کے ہیں۔ ابن فارس کے الفاظ میں اس کے معنی "تناول بالید" ہیں۔ اور جو چیز حاصل ہو وہ عطاء اور عطیہ ہے۔ اور تعاطی کے معنی ایسی چیز پر ہاتھ ڈالنا ہے جس پر کوئی حق نہ ہو (م۔ ل) اور بمعنی ایڑیاں اٹھا کر انگلیوں کے بل کھڑا ہوا اور ہاتھ اٹھا کر کوشش سے ایک ناحق چیز کو پکڑا (م - ق) ارشاد باری ہے:
فَنَادَوۡا صَاحِبَہُمۡ فَتَعَاطٰی فَعَقَرَ (سورۃ قمر آیت 29)
تو ان لوگوں نے اپنے رفیق کو بلایا اور اس نے اونٹنی کو پکڑ لیا پھر اسے مار ڈالا۔

6: وصل

کے معنی کسی چیز کا دوسری چیز تک پہنچ کر اس میں مل جاتا ہے۔ جیسے دائرہ کا قطر دونوں سروں پر محیط سے مل یا جڑ جاتا ہے (مف) لہذا اس کے معنی پہنچنا، ملانا اور جوڑنا سب آتے ہیں (منجد، م ق ) پھر یہ لفظ ان تینوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً:
بمعنی پہنچنا:
قَالُوۡا یٰلُوۡطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنۡ یَّصِلُوۡۤا اِلَیۡکَ فَاَسۡرِ بِاَہۡلِکَ بِقِطۡعٍ مِّنَ الَّیۡلِ وَ لَا یَلۡتَفِتۡ مِنۡکُمۡ اَحَدٌ اِلَّا امۡرَاَتَکَ ؕ اِنَّہٗ مُصِیۡبُہَا مَاۤ اَصَابَہُمۡ ؕ اِنَّ مَوۡعِدَہُمُ الصُّبۡحُ ؕ اَلَـیۡسَ الصُّبۡحُ بِقَرِیۡبٍ (سورۃ ھود آیت 81)
فرشتوں نے کہا کہ اے لوط ہم تمہارے پروردگار کے فرشتے ہیں یہ لوگ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکیں گے تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ مگر تمہاری بیوی کہ جو آفت ان پر پڑنے والی ہے وہی اسپر بھی پڑے گی۔ انکے عذاب کے وعدے کا وقت صبح ہے اور کیا صبح کچھ دور ہے؟
بمعنی ملانا۔ جوڑنا:
الَّذِیۡنَ یَنۡقُضُوۡنَ عَہۡدَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مِیۡثَاقِہٖ ۪ وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 27)
جو اللہ کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز یعنی رشتہ قرابت کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اسکو قطع کئے ڈالتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
اور قطع کرتے ہیں اس چیز کو جس کو اللہ نے فرمایا ملانے کو (عثمانیؒ)

7: افضی

فضا کے معنی زمین و آسمان کے درمیان کھلی اور خالی جگہ ہے۔ (مف، م -ل) اور مقام فاض ایسی جگہ کو کہتے ہیں جو کھلی، کشادہ اور خالی پڑی ہو (منجد) اور افضی الیه بسرّہ کسی کو راز کی بات بتا دینا۔ اور افضی بفلان کسی کو کشادہ میدان کی طرف لے جانا (منجد) اور افضی الى امراتہ اپنی عورت سے صحبت کرنا کے معنوں میں محاورتا استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ کَیۡفَ تَاۡخُذُوۡنَہٗ وَ قَدۡ اَفۡضٰی بَعۡضُکُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ وَّ اَخَذۡنَ مِنۡکُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا (سورۃ النساء آیت 21)
اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جبکہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کر چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد بھی لے چکی ہیں۔
اور تم کیونکر اس (دیئے ہوئے حق مہر) کو (واپس) لے سکتے ہو اور پہنچ چکا ہے تم میں ایک دوسرے تک (عثمانیؒ)

8: مسّ

کا اصل معنی ایک چیز کا دوسری کو چھونا ہے لیکن ترجمہ میں بعض دفعہ یہ لفظ پہنچنا کا معنی دے جاتا ہے۔ مثلاً ارشاد باری ہے:
ثُمَّ بَدَّلۡنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الۡحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوۡا وَّ قَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 95)
پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ مال و اولاد میں زیادہ ہوگئے تو کہنے لگے کہ اسی طرح کا رنج و راحت ہمارے بڑوں کو بھی پہنچتا رہا ہے تو ہم نے انکو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اپنے حال میں بیخبر تھے۔

9: ورد

کا لغوی معنی کسی شخص کا پانی پینے کے لیے پانی کی تلاش میں کنویں یا گھاٹ پر آ پہنچنا ہے اور اس کی ضد صدر ہے یعنی پانی لے کر یا پی کر یا سیراب ہو کر واپس چلے جانا ہے (مف) ارشاد باری تعالی ہے:
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُکُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ ٜ وَ اَبُوۡنَا شَیۡخٌ کَبِیۡرٌ (سورۃ القصص آیت 23)
اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہو رہے اور اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے ہیں اور انکے ایک طرف دو عورتیں اپنی بکریوں کو روکے کھڑی ہیں۔ موسٰی نے ان سے کہا تمہارا کیا کام ہے۔ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے اپنے جانوروں کو لے نہ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔

ماحصل:

  • بلغ: کسی مقصد کے منتہی یا آخری حد کو پہنچنا۔
  • اصاب: خدا کی طرف سے انسان کو تنگی یا بھلائی پہنچنا۔
  • نال: اس چیز تک پہنچنا اور حاصل کرنا جس کی انسان خواہش رکھتا ہو۔
  • ناوش: ہاتھ بڑھا کر کسی چیز تک پہنچ کر اسے پکڑنا۔ نال سے عام ہے۔
  • تعاطی: کسی ایسی چیز تک پہنچ کر ہاتھ چلانا جس پر اس کا حق نہ ہو۔
  • وصل: کسی چیز تک پہنچنا اور مل جانا۔
  • افضی: محاورتا میاں بیوی کے ایک دوسرے کے پاس پہنچنے یا صحبت کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔
  • مسّ: کا اصل معنی چھونا ہے۔ ترجمہ کی ضرورت سے بعض دفعہ پہنچنا کر لیا جاتا ہے۔
  • ورد: پانی کے گھاٹ یا کنویں پر پہنچنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پہنچانا

کے لیے ابلغ اور بلّغ ، اورد ، جبا (جبو/جبی) اور دلی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بلّغ اور ابلغ

بلغ اور ابلغ دونوں کوئی چیز یا پیغام وغیرہ اصل منتہی تک پہنچانے کے معنی میں آتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 6)
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسکو پناہ دیدو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ کو سننے لگے۔ پھر اسکو امن کی جگہ واپس پہنچا دو اس لئے کہ یہ بیخبر لوگ ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 67)
اے پیغمبر جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔ بیشک اللہ منکروں کو ہدایت نہیں کرتا۔

2: اورد

بمعنی دوسرے شخص کو گھاٹ پر پہنچانا (مف) ارشاد باری ہے:
یَقۡدُمُ قَوۡمَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فَاَوۡرَدَہُمُ النَّارَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡوِرۡدُ الۡمَوۡرُوۡدُ (سورۃ ھود آیت 98)
وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا پھر انکو دوزخ میں جا اتارے گا۔ اور جس مقام پر وہ اتارے جائیں گے وہ برا ہے۔

3: جبا

کے بنیادی معنی میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ (1) کسی چیز کو جمع کرنا یا اکٹھا کرنا (2) پھر اسے دوسرے مقام تک پہنچانا۔ جببت الخراج جباية محاورہ جو اموال خراج کو اکٹھا کرنے پھر اسے اصل مقام کی طرف بھیجنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ قَالُوۡۤا اِنۡ نَّتَّبِعِ الۡہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفۡ مِنۡ اَرۡضِنَا ؕ اَوَ لَمۡ نُمَکِّنۡ لَّہُمۡ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجۡبٰۤی اِلَیۡہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیۡءٍ رِّزۡقًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ القصص آیت 57)
اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں۔ کیا ہم نے انکو حرم میں جو امن کا مقام ہے جگہ نہیں دی۔ جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائے جاتے ہیں بطور رزق ہماری طرف سے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

4: ادلی

دلو بمعنی پانی کا خالی ڈول اور ادلی بمعنی اس خالی ڈول کو بھرنے کے لیے کنویں میں لٹکانا (مف) جو آہستہ آہستہ پانی تک پہنچ جاتا ہے۔ اور ادلی الی فلان کے معنی ہیں اپنے معاملہ یا جھگڑا وغیرہ کو کسی دوسرے شخص کے پاس فیصلہ کے لیے پہنچانا یا لے جانا اور رشتہ داری یا سفارش کا وسیلہ پکڑنا ہے۔ (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 188)
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو رشوۃً حاکموں کے پاس پہنچاؤ تا کہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور اسے تم جانتے بھی ہو۔

ماحصل:

  • ابلغ اور بلّغ: کوئی چیز یا پیغام منتہی تک پہنچانا۔ بلّغ عام طور پر پیغام پہنچانے کے لیے آتا ہے جبکہ ابلغ عام ہے۔
  • اورد: کسی کو گھاٹ پر پہنچانا۔
  • جبا: کسی چیز کو جمع کر کے دوسرے مقام تک پہنچانا۔
  • ادلی الی فلان: اپنا قضیہ کسی دوسرے شخص تک پہنچانا۔ اور قرابت، رشوت اور سفارش سے کام لینا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پھاڑنا

کے لیے خرق، قد، فَطَرَ، فَجر، مخر، شقّ، فلق، فرق، مزّق کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: خرق

کے معنی کسی چیز کو پھاڑنا اور خراب کر دینا، توڑ پھوڑ دینا یا بگاڑنے کے لیے توڑنا ہے۔ (مف) اور خرقہ کپڑے کے چیتھڑے کو کہتے ہیں اور خارق عادت کے خلاف بات کو کہتے ہیں (منجد) ارشاد باری ہے:
فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا (سورۃ الکہف آیت 71)
تو دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے کشتی کو پھاڑ ڈالا۔ موسٰی نے کہا کیا آپ نے اسکو اس لئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کر دیں۔ یہ تو آپ نے بڑی عجیب بات کی۔

2: قدّ

کسی چیز کو لمبائی کے رخ پھاڑنا، اور قد بمعنی انسان کی لمبائی، قد و قامت (مف) اور قدید خشک گوشت کی لمبی لمبی قاشوں کو کہتے ہیں (مف منجد ) قرآن میں ہے:
وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ ؕ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا اِلَّاۤ اَنۡ یُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ یوسف آیت 25)
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے آگے یوسف پیچھے زلیخا اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے پکڑ کو جو کھینچا تو پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا تو عورت بولی کہ جو شخص تمہاری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اسکی اسکے سوا کیا سزا ہے کہ یا تو قید کیا جائے یا اسے دکھ کا عذاب دیا جائے۔

3: فطر

کسی چیز کو لمبائی میں یوں پھاڑنا کہ اس میں شگاف پڑ جائے ۔ تراش خراش کرنا ۔ اس لحاظ سے فطر بنانے اور پیدا کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اور فطور شگاف کو کہتے ہیں (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ (سورۃ الملک آیت 3)
اسی نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ اے دیکھنے والے کیا تو رحمٰن کی تخلیق میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھکو آسمان میں کوئی شگاف نظر آتا ہے؟
دوسرے مقام پر فرمایا:
فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ الروم آیت 30)
سو تو تم ایک طرف کے ہو کر دین الٰہی پر سیدھا رخ کئے چلتے رہو اور اللہ کی فطرت کو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اختیار کئے رہو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تغیروتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

4: فجر

کسی چیز کو وسیع پیمانے پر پھاڑنا۔ اور فجر (پو پھٹنے کا وقت) کو اسی لیے فجر کہتے ہیں کہ وہ سارے افق پر نمودار ہوتی ہے۔ اور فجور بمعنی دین کے احکام کی دیدہ دلیری سے پردہ دری کرنا۔ اور اسی سے فاجر اور فجّار ہے (مف) اور فجر اور فجّر کے معنی اسی لحاظ سے پانی کو وسیع علاقے تک چلانا یا جاری کرنا کے بھی آتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
اَوۡ تَکُوۡنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡہٰرَ خِلٰلَہَا تَفۡجِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 91)
یا تمہارا کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو اور اسکے بیچ میں نہریں بہا نکالو۔
اور فجر کا لفظ صرف پانی بہانے کے لیے دور تک راستہ کھولنا کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
کِلۡتَا الۡجَنَّتَیۡنِ اٰتَتۡ اُکُلَہَا وَ لَمۡ تَظۡلِمۡ مِّنۡہُ شَیۡئًا ۙ وَّ فَجَّرۡنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا (سورۃ الکہف آیت 33)
دونوں باغ کثرت سے پھل لاتے۔ اور اسکی پیداوار میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی۔

5: مخر

پانی کے کٹاؤ اور چیر پھاڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں مخر الماء الأرض بمعنی پانی کا زمین کو چیرنا پھاڑنا اور اس میں چکر لگانا۔ اور مخر السفينة بمعنی کشتی کا اپنے سینہ سے پانی کو چیرنا اور پھاڑنا، اور آواز پیدا کرنا۔ اور ماخر اس کشتی کو کہتے ہیں جو پانی کو پھاڑے اور اس میں آواز پیدا کر دے (م ا) اور ماخر کی جمع مواخر آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنۡہُ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡہُ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۚ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ مَوَاخِرَ فِیۡہِ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 14)
اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت نکال کر کھاؤ۔ اور اس سے زیور موتی وغیرہ نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں سمندر میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس لئے بھی سمندر کو تمہارے اختیار میں کیا کہ تم اللہ کا فضل معاش حاصل کرو اور تاکہ اس کا شکر کرو۔

6: شقّ

کسی سخت چیز کا پھاڑنا۔ قرآن میں اس کا استعمال آسمان، زمین، چاند اور پتھر جیسی بڑی اور سخت چیزوں کے پھٹنے پر ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ شَقَقۡنَا الۡاَرۡضَ شَقًّا (سورۃ عبس آیت 26)
پھر ہم ہی نے زمین کو اچھی طرح پھاڑا۔

7، 8: فلق اور فرق

الفلق اور الفرق دونوں قریب المعنی ہیں۔ اور دونوں میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ (۱) پھٹنا اور (۲) الگ ہونا۔ اور سر کے بالوں کے درمیانی حصہ یعنی مانگ کو فرق بھی کہتے ہیں اور فلق بھی چنانچہ قرآن کریم میں یہ الفاظ ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔
ایک مقام پر فرمایا:
وَ اِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 50)
اور جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا پھر تم کو تو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق کر دیا اور تم دیکھ رہے تھے۔
اسی واقعہ کو دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا :
فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡبَحۡرَ ؕ فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ (سورۃ الشعراء آیت 63)
اس وقت ہم نے موسٰی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو۔ تو سمندر پھٹ گیا سو ہر ایک ٹکڑا یوں ہو گیا کہ گویا بڑا پہاڑ ہے۔
البتہ ان دونوں میں تھوڑا سا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ فلق عام طور پر اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کسی چیز کا ایک حصہ علیحدہ ہو جائے یعنی کل برابر دو حصوں میں سر کی مانگ کے لیے فلق کا لفظ اسی لیے آتا ہے کہ وہ بالوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اور فلق (ف زیر کے ساتھ) اور فلقہ دونوں میں پھٹی ہوئی چیز کے ایک حصہ کو کہتے ہیں۔ لیکن فرق کا لفظ اس لحاظ سے عام ہے۔ اس کا اطلاق دو اور دو سے زیادہ حصوں پر بھی ہوتا ہے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ فلق کا اطلاق عموماً بے جان اشیاء پر ہوتا ہے جبکہ فرق عام ہے۔ اس کا اطلاق بے جان اور جاندار خصوصاً انسان پر بھی ہوتا ہے۔ کسی جماعت سے الگ شدہ حصہ کو فرق اور اگر یہ الگ شدہ حصہ بھی بڑی تعداد میں ہو تو اسے فرقہ کہا جاتا ہے۔ اور کسی جھگڑا یا معاملہ کی صورت میں فریق۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی (سورۃ الانعام آیت 95)
بیشک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر (ان سے درخت وغیرہ اگا تا ہے)
بیشک اللہ ہے کہ پھوڑ ڈالتا ہے دانہ اور گٹھلی (عثمانیؒ)
یعنی دانہ اور گٹھلی درمیان سے پھٹ کر الگ ہوتے ہیں اور اس سے کونپل نکلتی ہے۔ اسی طرح
فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ ۚ وَ جَعَلَ الَّیۡلَ سَکَنًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ حُسۡبَانًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ (سورۃ الانعام آیت 96)
وہی رات کے اندھیرے سے صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے اور اسی نے رات کو موجب آرام ٹھہرایا اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنا دیا یہ اللہ کے مقرر کئے ہوئے اندازے ہیں جو غالب ہے علم والا ہے۔
پھوڑ نکالنے والا صبح کی روشنی (عثمانیؒ)
میں فلق کا لفظ اس لحاظ سے موزوں ہے کہ صبح کی دھاری آسمان میں ہے، جیسے سر میں مانگ۔

9: مَزَّقَ

مَزَقَ (الثوب) بمعنی کپڑا پھاڑنا اور مزّق بمعنی پھاڑنا، بکھیرنا، تباہ کر دینا (منجد) گویا مزق میں عمل کی شدت پیدا ہو جاتی ہے (منجد) ارشاد باری ہے:
فَقَالُوۡا رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ (سورۃ سبا آیت 19)
تو انہوں نے دعا کی کہ اے پروردگار ہماری مسافتوں میں دوری پیدا کر دے اور اس سے انہوں نے اپنے حق میں ظلم کیا تو ہم نے انہیں نابود کر کے داستان بنا دیا اور انہیں بالکل منتشر کر دیا اس میں ہر صابر و شاکر کے لئے نشانیاں ہیں۔

ماحصل:

  • خرق: کسی چیز کو بگاڑنے کے لیے پھاڑنا۔
  • قدّ: لمبائی میں پھاڑنا۔
  • فطر: شگاف ڈالنا اور تراش خراش کرنا۔
  • فجر: کسی چیز کو وسیع پیمانے پر پھاڑنا اور بہانا
  • مخر: کشتی کا پانی کو پھاڑنا جس سے آواز بھی پیدا ہو۔
  • شق: کسی سخت چیز کو پھاڑنا۔
  • فلق: کسی بے جان چیز کو دو حصوں میں پھاڑنا اور الگ کرنا۔
  • فرق: کسی چیز کو دو یا زیادہ حصوں میں علیحدہ کر دینا (عام ہے)۔
  • مزّق: ٹکڑے ٹکڑے کر کے تباہ کر دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پھٹنا

کے لیے فطر سے انفطر اور تفطّر، شقّ سے شقّق اور انشقّ، فلق سے انفلق، صَدَع اور تصدّع اور تمیّز کے الفاظ آئے ہیں۔ اب اُن کی مثالیں دیکھیے:

1: انفطر

اِذَا السَّمَآءُ انۡفَطَرَتۡ (سورۃ الانفطار آیت 1)
جب آسمان پھٹ جائے گا۔

2: تفطر اور انشق

جیسے:
تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا (سورۃ مریم آیت 90)
قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں۔
شقق جیسے:
وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ (سورۃ البقرۃ آیت 74)
اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے​

3: فلق سے انفلق

مثال بھی اوپر گزر چکی۔

4: صدع

کسی چیز کا اس طرح پھٹنا کہ ٹکڑا جدا نہ ہو (منجد) اور بقول امام راغب ٹھوس اجسام، جیسے لوہا شیشہ وغیرہ میں شگاف پڑنا۔ (مف) اور ایسی سر درد کو جس سے سر درد کی وجہ سے پھٹ رہا ہو صداع کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے،
وَ الۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِ (سورۃ الطارق آیت 12)
اور زمین کی قسم جو پھٹ جاتی ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
لَّا یُصَدَّعُوۡنَ عَنۡہَا وَ لَا یُنۡزِفُوۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 19)
اس سے نہ تو سر میں درد ہوگا اور نہ انکی عقلیں زائل ہوں گی۔
اور تصدع کے معنی کسی چیز کا پھٹ کر کئی حصے ہو جانا ہے۔ تصدّع القوم بمعنی قوم کا منتشر ہونا (منجد) ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (سورۃ الحشر آیت 21)
اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم اسکو دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے دبا اور پھٹا جاتا ہے۔ اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔

5: تميّز

ماز (میز) کے معنی کسی چیز کو دوسری سے کسی فوقیت کی بنا پر الگ کرنا۔ اور امتاز اور تمیّز کے معنی دوسروں سے جدا ہونا ہے۔ اور تمیّز بمعنی الگ ہونا اور پھٹ کر پارہ پارہ ہو جانا (م - ق) اور تمیز فلان من الغيظ محاورہ ہے۔ بمعنی فلاں شخص غصہ سے پھٹ پڑا۔ (منجد) ارشاد باری ہے:
تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الۡغَیۡظِ ؕ کُلَّمَاۤ اُلۡقِیَ فِیۡہَا فَوۡجٌ سَاَلَہُمۡ خَزَنَتُہَاۤ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَذِیۡرٌ (سورۃ الملک آیت 8)
گویا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔ جب اس میں انکی کوئی جماعت ڈالی جائے گی تو دوزخ کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟
ماحصل:
  • تفطر اور انفطر: لمبائی میں کسی چیز میں پھٹ کر شگاف پڑنا۔
  • تشفق اور انشق: کسی سخت چیز کا پھٹ کر دو حصے ہو جانا۔
  • انفلق: کسی نرم یا چھوٹی چیز کا پھٹ کر دو حصے ہو جانا۔
  • تصدّع: پھٹ کر کئی حصوں میں بٹ جانا۔
  • تمیّز: کسی چیز کا اندر کے جوش سے پھٹنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پھرنا

کے لیے دار، طاف، حار، تقلّب اور انقلب، نکص علی عقبہ، انصرف، ولّی، تولّی، ارتدّ اور ادبر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: دار

(دور) گولائی میں پھرنا، گھومنا، چکر کھانا، زمانہ کا پلٹا کھانا (منجد) اور دائرہ مشہور لفظ ہے۔ اس کی جمع دوائر بمعنی گردش ایام، زمانہ کی آفتیں اور مصیبتیں (منجد) یہ لفظ برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ دورہ کی ضد دولۃ ہے جس سے مراد خوشحالی کا زمانہ ہوتا ہے۔ (مف) ارشاد باری ہے:
فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَیۡتَہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ تَدُوۡرُ اَعۡیُنُہُمۡ کَالَّذِیۡ یُغۡشٰی عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ (سورۃ الاحزاب آیت 19)
پھر جب ڈر کا وقت آئے تو تم انکو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں اور انکی آنکھیں اسی طرح پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آ رہی ہو

2: طاف

(طوف) کسی چیز کا دوسری چیز کے گرد چکر کاٹنا (م ل) کسی چیز کے چاروں طرف گھومنا یا چکر لگانا۔ اور مطاف چکر لگانے کی جگہ کو کہتے ہیں (منجد) ارشاد باری ہے:
یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ (سورۃ الواقعہ آیت 17)
نوجوان خدمت گذار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھریں گے۔

3: حار

بمعنی گھوم پھر کر اسی جگہ واپس آنا جہاں سے ابتدا ہوئی۔ ابن فارس کے نزدیک اس کے بنیادی معنی دو ہیں (۱) رجوع (۲) ان يدور الشئ دورا(م ا) کہا جاتا ہے حار الماء فی الغدیر بمعنی پانی حوض میں گھومنے لگا۔ اور محور اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کے گرد چرخی گھومتی ہے۔ یعنی چرخی کا دھرا (مف) قرآن میں ہے :
اِنَّہٗ ظَنَّ اَنۡ لَّنۡ یَّحُوۡرَ (سورۃ الانشقاق آیت 16)
وہ تو خیال کرتا تھا کہ اللہ کی طرف لوٹ کر نہ جائے گا۔

4: تقلب اور انقلب

قلب حالت کا رخ موڑنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کسی چیز کے اوپر کے حصہ کو نیچے یا اندر کے حصہ کو باہر کر دینا (منجد) اور امام راغب کے الفاظ میں ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلنا پلٹنا ہے (مف) اور تقلب اور انقلاب کے معنی خود پھرنا یا پہلی حالت کو بدلنا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجۡہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰہَا (سورۃ البقرۃ آیت 144)
اے پیغمبر ﷺ ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ اٹھانا دیکھ رہے ہیں سو ہم تم کو اسی قبلے کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو منہ کرنے کا حکم دیں گے
اور انقلاب کا لفظ خیر و شر دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً:
ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ (سورۃ الملک آیت 4)
پھر بار بار نظر کر تو نظر ہر بار تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی۔
اور شر کے لیے یا خیر سے واپس پھرنے کے لیے انقلب على عقبہ اور على وجھہ دونوں محاورے سے استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 144)
اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو اللہ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور اللہ شکرگذاروں کو بڑا ثواب دے گا۔
وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ (سورۃ الحج آیت 11)
اور اگر کوئی آفت آ پڑے تو منہ کے بل لوٹ جائے یعنی پھر کافر ہو جائے اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی یہی تو صاف نقصان ہے۔

5: نکص علی عقبہ

نکص بمعنی ہٹنا اور نکص عن الامر بمعنی کسی کام سے باز رہنا۔ رک جانا ۔ اور نکص علی عقبہ الٹے پاؤں پھرنا، پہلے کام سے ہٹ جانا (منجد) اور اس کا استعمال صرف نیک کاموں سے پھرنے کے لیے ہوتا ہے۔ (م - ل) گویا یہ لفظ انقلاب سے اخص ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ کَانَتۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تَنۡکِصُوۡنَ (سورۃ مؤمنون آیت 66)
میری آیتیں تمکو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں اور تم الٹے پاؤں پھر پھر جاتے تھے۔

6: انصرف

صَرَفَ کا لفظ نَكَبَ (ٹیڑھا ہونا) اسے اعم ہے ۔ نکب پوری تبدیلی کے لیے آتا ہے۔ یعنی الٹ دینا، پلٹ دینا، پھیر دینا۔ جبکہ صرف رُخ تبدیل کرنے اور پوری تبدیلی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ تصریف الرّیاح بمعنی ہواؤں کا رخ بدلنا ہے۔ خواہ یہ تبدیلی بالکل تھوڑی سی ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ نَّظَرَ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ ؕ ہَلۡ یَرٰىکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ ثُمَّ انۡصَرَفُوۡا ؕ صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ (سورۃ التوبہ آیت 127)
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ بھلا تمہیں کوئی دیکھتاہے؟ پھر پیٹھ پھیر جاتے ہیں۔ اللہ نے انکے دلوں کو پھیر رکھا ہے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ سمجھ سے کام نہیں لیتے۔

7: ولی اور تولى

الشیء یا عن الشئ بمعنی اعراض کرنا، منہ پھیرنا، الٹا پھرنا، دور ہونا (منجد) اور ولى الدبر پیٹھ دے کر پھر جانا۔ یا بھاگ جانا مثلاً:
وَ اَلۡقِ عَصَاکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہۡتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدۡبِرًا وَّ لَمۡ یُعَقِّبۡ ؕ یٰمُوۡسٰی لَا تَخَفۡ ۟ اِنِّیۡ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الۡمُرۡسَلُوۡنَ (سورۃ النمل آیت 10)
اور اپنی لاٹھی ڈال دو۔ سو جب اسے دیکھا تو اس طرح حرکت کر رہی تھی گویا سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا فرمایا اے موسٰی ڈرو مت۔ میرے پاس پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔
فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 79)
پھر صالح ان سے ناامید ہو کر پھرے اور کہا کہ میری قوم! میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیرخواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیرخواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے۔

8: ارتدّ

ردّ کے معنی کسی چیز کو قبول نہ کرنا اور واپس موڑ دنیا (م ق) اور مردود وہ چیز ہے جو نا قابل قبول ہونے کی وجہ سے واپس لوٹا دی جائے۔ اور ارتد بمعنی کسی چیز سے ناپسندیدگی کی بنا پر پھرنا، واپس ہونا اور ارتد عَنْ دِینِہ دین سے پھر جانا یا مرتد ہونا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبۡغِ ٭ۖ فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا (سورۃ الکہف آیت 64)
موسٰی نے کہا یہی تو وہ مقام ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ مَنۡ یَّرۡتَدِدۡ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتۡ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 217)
اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر کافر ہو جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہو جائیں گے اور یہی لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔

9: ادبر

دبر جمع ادبار بمعنی پشت، مقعد (ضد قبل) اور دبر فلان بمعنی فلاں شخص نے پیٹھ پھیری (مف) اور ادبر بمعنی پیٹھ پھیر کر چلے جانا۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ نَظَرَ ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ ثُمَّ اَدۡبَرَ وَ اسۡتَکۡبَرَ (سورۃ مدثر آیت 21 تا 23)
پھر اس نے نگاہ کی۔ پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔ پھر پیٹھ کر چلا اور تکبر کیا۔
نیز "لوٹنا" بھی ملاحظہ فرمائيے۔

ماحصل:

  • دار: گھومنا، چکر کاٹنا، گولائی میں پھرنا۔
  • طاف: کسی چیز کے چاروں طرف پھرنا۔
  • حار: گھوم پھر کر اصل مقام پر آنا۔
  • تقلب و انقلب: ایک حالت سے اس کے مخالف حالت میں مکمل تبدیلی۔
  • نکص علی عقبہ: اچھے کاموں سے بری طرف پھرنا۔
  • انصرف: رخ موڑ دینا۔ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی، تھوڑی ہو یا زیادہ۔
  • ولّی یا تولّی (عن) پھرنا، اعراض کرنا اور دور ہو جانا۔
  • ارتدّ: کسی بات کو ناقابل قبول سمجھتے ہوئے پھرنا۔
  • ادبر: پیٹھ دے کر پھر جانا، اعراض کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پھیرنا

کے لیے اقلب اور قلّب، صرف، ولّی، ردّ، لفت اور افک کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اقلب، قلّب

قلب ایک حالت سے دوسری حالت میں مکمل تبدیلی کو کہتے ہیں۔ اور یہ افعال قلب سے متعدی ہیں ارشاد باری ہے:
یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَرۡحَمُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ اِلَیۡہِ تُقۡلَبُوۡنَ (سورۃ العنکبوت آیت 21)
وہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم کرے۔ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّھُمۡ رُقُوۡدٌ ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ (سورۃ الکہف آیت 18)
اور تم ان کے متعلق خیال کرو کہ وہ جاگ رہے ہیں۔ حالانکہ وہ سوتے ہیں۔ اور ہم انکو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے تھے۔

2: صرف

موڑ دینا کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذَا صُرِفَتۡ اَبۡصَارُھُمۡ تِلۡقَآءَ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۙ قَالُوۡا رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ (سورۃ الاعراف آیت 47)
اور جب انکی نگاہیں پلٹ کر اہل دوزخ کی طرف جائیں گی تو عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کیجیو۔

3: ولّی

منہ موڑنا، اعراض کرنا، دور ہونا اور دور کر دینا۔ ارشاد باری ہے:
قَدۡ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجۡہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰہَا (سورۃ البقرۃ آیت 144)
اے پیغمبر ﷺ ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ اٹھانا دیکھ رہے ہیں سو ہم تم کو اسی قبلے کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو منہ کرنے کا حکم دیں گے

4: ردّ

نا قابل قبول ہونے کی وجہ سے پھیر دینا، لوٹانا، دفع کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَمَّا فَتَحُوۡا مَتَاعَہُمۡ وَجَدُوۡا بِضَاعَتَہُمۡ رُدَّتۡ اِلَیۡہِمۡ (سورۃ یوسف آیت 65)
اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو دیکھا کہ ان کا سرمایہ واپس کر دیا گیا ہے۔

5: لفت:

بمعنی کسی چیز کو دائیں یا بائیں موڑنا۔ اور لفت اور التفت بمعنی متوجہ ہونا، مڑ کر دیکھنا۔ چہرے کا رخ پھیر کر نظر کرنا (منجد) ارشاد باری ہے:
قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا لِتَلۡفِتَنَا عَمَّا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا وَ تَکُوۡنَ لَکُمَا الۡکِبۡرِیَآءُ فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا نَحۡنُ لَکُمَا بِمُؤۡمِنِیۡنَ (سورۃ یونس آیت 78)
وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس راہ پر ہم اپنے باپ دادا کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیر دو۔ اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہو جائے؟ اور ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
6: افک
بمعنی صحیح اور درست سمت سے پھیر دینا (مف) اور افک جھوٹ اور بہتان کے معنی میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا لِتَاۡفِکَنَا عَنۡ اٰلِہَتِنَا ۚ فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ (سورۃ الاحقاف آیت 22)
کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہمکو ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ اگر سچے ہو تو جس چیز سے ہمیں ڈراتے ہو اسے ہم پر لے آؤ۔

ماحصل:

  • تقلّب: پہلی والی حالت کی پوری تبدیل اور پہلے کام سے الٹ کام کرنا۔
  • صرف: محض رخ پھیرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
  • ولّی: اعراض کرنا، منہ موڑنا اور دور کرنا۔
  • ردّ: نا قابل قبول ہونے کی وجہ سے کوئی چیز پھیر دینا۔
  • لفت: دائیں یا بائیں موڑنا۔
  • افک: صحیح رخ سے غلط رخ کی طرف پھیرنا۔
نیز دیکھیے "منہ پھیرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پھسلنا – پھسلانا

کے لیے زلق اور ازلق، زلّ اور ازلّ، دحض اور ادحض، هَال (هيل) اور راود کے الفاظ آئے ہیں۔

1: زلق

بمعنی پھسلنا۔ اور اس کی ضد ثبت آتی ہے (م ل) زَلَقَتِ الْقَدَمُ - پاؤں پھیل گیا اور زلق بدن بمعنی بدن پر تیل وغیرہ مل کر پھسلاہٹ پیدا کرنا اور مزلق ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں پھسلن ہو جائے اور قدم جم نہ سکے۔ قرآن میں ہے:
فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِیۡدًا زَلَقًا (سورۃ الکہف آیت 40)
تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے اس باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہو جائے۔
اور ازلق کے معنی کسی کو ڈرا کر یا مکر و فریب ہے پھسلانا۔ اور ازلق ببصرہ محاورہ ہے یعنی کسی کو غصہ اور تیز نظروں سے گھورنا۔ (منجد) ارشاد باری ہے:
وَ اِنۡ یَّکَادُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَیُزۡلِقُوۡنَکَ بِاَبۡصَارِھِمۡ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکۡرَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّہٗ لَمَجۡنُوۡنٌ (سورۃ القلم آیت 51)
اور کافر جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو یوں لگتے ہیں کہ تمکو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔

2: زلّ

زلّ بمعنی پھسلنا اور اپنی جگہ سے ہل جانا۔ اور اس کی ضد رسخ ہے (م ل) اور بعض کے نزدیک اس کے معنی پھسلنا اور گر پڑنا (م ۔ ق) ہیں۔ اور اس کی ضد ثبت بھی آتی ہے اور قرآن کریم اسی کی تائید کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ دَخَلًۢا بَیۡنَکُمۡ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعۡدَ ثُبُوۡتِہَا وَ تَذُوۡقُوا السُّوۡٓءَ بِمَا صَدَدۡتُّمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ لَکُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ النحل آیت 94)
اور اپنی قسموں کو آپس میں اس بات کا ذریعہ نہ بناؤ کہ لوگوں کے قدم جم چکنے کے بعد لڑکھڑا جائیں اور اس وجہ سے کہ تم نے لوگوں کو اللہ کے رستے سے روکا۔ تم کو سزا چکھنی پڑے۔ اور تمہیں بڑا سخت عذاب ملے۔
اور ازلّ بمعنی کسی دوسرے کو یوں پھسلانا کہ وہ اپنی جگہ سے اکھڑ جائے اور زلّ اور ازلّ دونوں ظاہری اور معنوی دونوں طرح استعمال ہوتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ (سورۃ البقرۃ آیت 36)
پھر شیطان نے دونوں کو اس طرف کے بارے میں پھسلا دیا اور جس عیش و نشاط میں تھے اس سے انکو نکلوا دیا۔ تب ہم نے حکم دیا کہ بہشت بریں سے چلے جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانہ اور معاش مقرر کر دیا گیا ہے۔

3: دحض اور ادحض

دحض ہر وہ چیز جو زوال پذیر اور پھسل جانے والی ہو (م ل) اور دحض بمعنی مذبوح جانور کی طرح پٹخنا اور دحض الرجل بمعنی آدمی کا پاؤں پھسلایا، اس نے ٹھوکر کھائی (مف) اور دَحَضَتِ الحُجَّة بمعنی کسی دلیل کا باطل ہونا (منجد) اور ادحض بمعنی کسی کو پھسلا دینا۔ ڈگمگا دینا۔ ارشاد باری ہے:
وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ وَ یُجَادِلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِالۡبَاطِلِ لِیُدۡحِضُوۡا بِہِ الۡحَقَّ وَ اتَّخَذُوۡۤا اٰیٰتِیۡ وَ مَاۤ اُنۡذِرُوۡا ھُزُوًا (سورۃ الکہف آیت 56)
اور ہم جو پیغمبروں کو بھیجا کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ لوگوں کو اللہ کی نعمتوں کی خوشخبریاں سنائیں اور عذاب سے ڈرائیں اور جو کافر ہیں وہ باطل کی مدد سے جھگڑا کرتے ہیں تاکہ اس سے حق کو پھسلا دیں اور انہوں نے ہماری آیتوں کو اور جس چیز سے انکو ڈرایا جاتا ہے اسے ہنسی بنا لیا ہے۔

4: هال

(هیل) ریت یا مٹی کے تودہ سے ریت کا اوپر سے نیچے کو پھسلنا۔ اور الہیل اور الهیال گری ہوئی ریت کو کہتے ہیں (منجد ) ارشاد باری ہے:
یَوۡمَ تَرۡجُفُ الۡاَرۡضُ وَ الۡجِبَالُ وَ کَانَتِ الۡجِبَالُ کَثِیۡبًا مَّہِیۡلًا (سورۃ المزمل آیت 14)
جس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں اور پہاڑ ایسے بھر بھرے ہو جائیں گے جیسے ریت کے ٹیلے۔

5: راود

(رود) راد بمعنی کسی شے کی تلاش میں گھومنا اور آنا جانا۔ اور اراد دل میں کسی خیال کا آنا۔ اور راود معنی دوسرے کو ہم خیال یا ہم ارادہ بنانا جبکہ پہلے ہم آہنگی نہ ہو۔ اور اس لفظ کا استعمال بدی اور بد کاری کی ترغیب کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی بد کاری کے لیے کسی کو پھسلانا اور بہکانا (مف) ارشاد باری ہے:
قَالَ مَا خَطۡبُکُنَّ اِذۡ رَاوَدۡتُّنَّ یُوۡسُفَ عَنۡ نَّفۡسِہٖ ؕ (سورۃ یوسف آیت 51)
بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا کہ تمہارا کیا قصہ تھا جب تم نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا؟

ماحصل:

  • زلق: قدم پھسلنا۔
  • زلّ: قدم پھسلنا اور اکھڑ جانا یا گر پڑنا۔
  • دحض: پھسلنا اور کمزور ہونا، زائل ہونا۔
  • ھال: ریت وغیرہ کا تودے سے نیچے پھسلنا۔
  • راود: کسی کو بد کاری کے لیے اس کے ارادہ سے پھسلانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پھل

کے لیے ثمر، فاکھہ، جنی اور اکل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ثمر

بمعنی پھل۔ اس لفظ کا استعمال عام ہے ۔ پھل تازہ ہو یا خشک اور کوئی بھی ہو سب پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اس کی جمع اثمار اور ثمرات آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ ۚ فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا وَّ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 22)
جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کئے۔ پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ۔ اور تم جانتے تو ہو۔
پھر نکالے اس (زمین) سے میوے تمہارے کھانے کے واسطے (عثمانیؒ)

2: فاکھہ

کھجور، انگور اور انار کے علاوہ باقی سب پھلوں کو فاکھہ کہتے ہیں اور اس کی جمع فواکہ ہے (م- ل) اور بعض علماء کے نزدیک صرف کھجور اور انار کے علاوہ باقی سب پھل انگور سمیت فاکھہ ہیں۔ اور اس پر قرآن کریم کی درج ذیل آیت دلیل لاتے ہیں:
فِیۡہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّ نَخۡلٌ وَّ رُمَّانٌ (سورۃ الرحمن آیت 68)
ان میں میوے اور کھجوریں اور انار ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ کھجوریں اور انار فواکہ سے الگ چیزیں ہیں بعض فواکہ سے خشک میوے مراد لیتے ہیں اور فكہ کے معنی خوش طبعی، ہنسنے ہنسانے والا ہونا۔ اور فکّہ کے معنی میوہ کھلانا بھی ہے۔ اور شیریں کلام سے کسی کو خوش کرنا بھی (منجد ) اسی لیے ابن فارس کے نزدیک فاکھۃ وہ پھل ہے جس سے لذت اور سرور حاصل ہو۔ (م ل) (واللہ اعلم)

3: جنی

تازہ پھل یعنی وہ پھل جو پک کر چننے کے لیے بالکل تیار ہو۔ خواہ وہ ابھی درخت پر ہو یا اتارا جا چکا ہو (مف) جنی کے معنی پھل چننا یا تازہ پھل توڑنا بھی ہے (منجد) ارشاد باری ہے:
مُتَّکِـِٕیۡنَ عَلٰی فُرُشٍۭ بَطَآئِنُہَا مِنۡ اِسۡتَبۡرَقٍ ؕ وَ جَنَا الۡجَنَّتَیۡنِ دَانٍ (سورۃ الرحمن آیت 54)
اہل جنت ایسے بچھونوں پر جنکے استر اطلس کے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ اور دونوں باغوں کے میوے قریب جھک رہے ہیں۔

4: اکل

درختوں اور پودوں کی ہر پیداوار کا وہ حصہ جو انسان کی خوراک بنے (مف) صاحب منجد کے نزدیک اس کے معنی پھل، خوراک اور کشادہ روزی ہے۔ قرآن میں ہے:
کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (سورۃ البقرۃ آیت 265)
ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو جب اس پر زور کا مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے پھر اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔

ماحصل:

  • ثمر: پھل کے لیے عام لفظ ہے۔
  • فاکھۃ: کھجور اور انار کے سوا باقی پھل اور بعض کے نزدیک لذیذ پھل یا خشک میوے۔
  • جنی: تازہ بہ تازہ اترے ہوئے یا لٹکتے ہوئے پھل۔
  • اکل: پھل دار درخت یا پودے کا وہ حصہ جو انسانی خوراک کا کام دے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پھل پکنا

کے لیے ینع اور جنی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ینع

بمعنی پھل کا بالکل پک کر تیار ہو جانا۔ اور پختہ پھل کو یانعۃ یا مونعۃ کہتے ہیں۔ (مف) ارشاد باری ہے:
اُنۡظُرُوۡۤا اِلٰی ثَمَرِہٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَ یَنۡعِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکُمۡ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ (سورۃ الانعام آیت 99)
تو ان کے پھلوں پر اور جب پکتی ہیں تو ان کے پکنے پر نظر کرو۔ ان میں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں اللہ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔

2: جنی

جنا یجنی لغوی طور پر پکے ہوئے پھل کو توڑنے اور اسے چننے کے معنوں میں آتا ہے (مف منجد) لیکن قرآن میں یہ لفظ دو دفعہ استعمال ہوا ہے۔ تو درختوں پر لگے ہوئے پکے اور اترنے کے قابل پھل کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
مُتَّکِـِٕیۡنَ عَلٰی فُرُشٍۭ بَطَآئِنُہَا مِنۡ اِسۡتَبۡرَقٍ ؕ وَ جَنَا الۡجَنَّتَیۡنِ دَانٍ (سورۃ الرحمن آیت 54)
اہل جنت ایسے بچھونوں پر جنکے استر اطلس کے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ اور دونوں باغوں کے میوے قریب جھک رہے ہیں۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذۡعِ النَّخۡلَۃِ تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا (سورۃ مریم آیت 25)
اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ وہ تم پر تازہ عمدہ کھجوریں گرائے گا۔

ماحصل:

  • ینع: پھل کا پک کر تیار ہو جانا۔
  • جنی: اتنا پک جانا کہ اگر چنا نہ جائے تو از خود درخت سے گر پڑے یا پھل کو توڑنا اور چننا۔
پھوٹنا کے لیے دیکھیے "چشمہ پھوٹنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پھونکنا - پھونک مارنا

کے لیے نفخ ، نقر، نفث اور اطفا (طفا) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: نفخ

نفخ بمعنی پیٹ کا پھولنا اور منفوخ بڑے پیٹ والے یا موٹے آدمی کو کہتے ہیں اور نفخ معنی کسی جسم میں پھونک مار کر ہوا داخل کرنا (م ا) اور صاحب منجد کے نزدیک نفخ کے معنی صرف پھونک مارنا ہے۔ اور منفاخ لوہار کی دھونکنی کو کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
اَنِّیۡۤ اَخۡلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیۡنِ کَہَیۡـَٔۃِ الطَّیۡرِ فَاَنۡفُخُ فِیۡہِ فَیَکُوۡنُ طَیۡرًۢا بِاِذۡنِ اللّٰہِ (سورۃ آل عمران آیت 49)
وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے سچ مچ پرندہ ہو جاتا ہے۔

2: نقر

بمعنی کسی بجنے والی چیز میں پھونک مار کر بجانا۔ اور ناقور ہر وہ چیز ہے جو کھرکھری اور اندر سے خالی ہو۔ مثلاً نرسنگا، بگل، صور یا کوئی بجانے کی چیز (مف) قرآن میں ہے:
فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوۡرِ (سورۃ مدثر آیت 8)
پھر جب صور پھونکا جائے گا۔

3: نفث

کے معنی تھتکارنا، تھوڑا سا اُگلنا (فل 190) جھاڑ پھونک کرنا یا زہر اگلنا (مف) اور نفث الدم اس بیماری کو کہتے ہیں جس میں تھوک کے ساتھ کچھ خون بھی آئے۔ قرآن میں ہے:
وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ (سورۃ الفلق آیت 4)
اور گنڈوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کی برائی سے۔

4: اطفا

طَفَئَتِ النّار بمعنی آگ کا بجھنا۔ اور اطفا بمعنی پھونک سے بجھانا (مف) اور چراغ یا روشنی گل کرنے کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے (ف ل ۱۳۳) ارشاد باری ہے:
یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاھِہِمۡ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ (سورۃ الصف آیت 8)
یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے چراغ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کافر ناخوش ہی ہوں۔

ماحصل:

  • نفخ: پھونک مانا ۔ عام استعمال ہے۔ اور بعض کے نزدیک کسی جسم میں پھونک مارنا۔
  • نقر: کسی بجنے والی یا اندر سے خالی چیز میں پھونک مارنا۔
  • نفث: تھتکارنا، جھاڑ پھونک کرنے والے کا پھونک مارنا۔
  • اطفا: پھونک مار کر چراغ گل کرنا یا آگ بجھانا۔
پھیلنا کے لیے دیکھے "بکھرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

پھیلانا

پھیلانا کے لیے ذرا، مدّ، دحی اور طحی، نشر، بسط اور بثّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ذرا

ذرء ہر وہ چیز جو بوئی جائے اور کھیتی باڑی کی جائے (م - ل) اور ذرا الأرض بمعنی زمین میں بیج ڈالنا (منجد) اور صاحب منتہی الارب اس کے معنی پیدا کرنا اور بڑھانا یا پھیلانا لکھتے ہیں (م ا) اور اسی سے ذرّیّۃ ہے جس کا اطلاق جن اور انسان دونوں کی اولاد پر ہوتا ہے۔ اور قرآن کریم بھی صاحب منتہی الارب کے معنی کی تائید کرتا ہے مثلاً:
(1) صرف پیدا کرنے کے معنی میں:
وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ (سورۃ الاعراف آیت 179)
اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں۔
(۲) پھیلانا یا بڑھانا کے معنی میں:
قُلۡ ہُوَ الَّذِیۡ ذَرَاَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ (سورۃ الملک آیت 24)
کہدو کہ وہی ہے جس نے تمکو زمین میں پھیلایا اور اسی کے روبرو تم جمع کئے جاؤ گے۔

2: مدّ

کسی چیز کو لمبائی میں کھینچ کر پھیلانا اور لمبا کر دینا (م ل، مف) گویا مدّ کے معنی لمبا کرنا اور پھیلانا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیۡفَ مَدَّ الظِّلَّ ۚ وَ لَوۡ شَآءَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ۚ ثُمَّ جَعَلۡنَا الشَّمۡسَ عَلَیۡہِ دَلِیۡلًا (سورۃ الفرقان آیت 45)
بھلا تم نے اپنے پروردگار کی قدرت کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر کے پھیلا دیتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسکو بےحرکت ٹھہرا رکھتا پھر ہم سورج کو اسکا راہنما بنا دیتے ہیں۔

3: دحی اور طححی

یہ دونوں حقیقتاً ایک ہی لفظ ہیں ۔ صرف لہجہ یا علاقائی لغت کا فرق ہے۔ اور اس کا معنی دور دور تک پھیلا دیتا ہے۔ اس کی تفصیل بچھانا میں گزر چکی ہے۔

4: نشر

کے معنی کسی چیز کو پھیلانا، خبر مشہور کرنا (م ا) اور اس کی ضد طوی بمعنی لپیٹنا ہے۔ کہتے ہیں نشرت الكتاب ثم طویتہ میں نے کتاب کھولی پھر بند کر دی۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا قَنَطُوۡا وَ یَنۡشُرُ رَحۡمَتَہٗ ؕ وَ ھُوَ الۡوَلِیُّ الۡحَمِیۡدُ (سورۃ الشوری آیت 28)
اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامید ہو جانے کے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت یعنی بارش کی برکت کو پھیلا دیتا ہے۔ اور وہ کارساز ہے لائق حمدوثنا ہے۔

5: بسط

کے معنی کسی چیز کو کھولنا، پھیلانا اور وسیع کرنا ہے۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین بھی ہے اور وسعت بھی (مف) اور اس کی ضد قبض بھی آتی ہے (سورۃ البقرۃ آیت 245) اور قدر بھی (سورۃ الرعد آیت 26)۔ ارشاد باری ہے:
اَللّٰہُ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَیَبۡسُطُہٗ فِی السَّمَآءِ کَیۡفَ یَشَآءُ وَ یَجۡعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ فَاِذَاۤ اَصَابَ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اِذَا ھُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ (سورۃ الروم آیت 48)
اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں۔ پھر اللہ اسکو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا اور تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اسکے بیچ میں سے بارش کی بوندیں نکلنے لگتی ہیں پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے تو اسی وقت وہ خوش ہو جاتے ہیں۔

6: بثّ

بمعنی پراگندہ کرنا اور بکھیرنا۔ اور بثّ پراگندگی حال اور سخت غم کو بھی کہتے ہیں (منجد) گویا بثّ پھیلانا کے معنوں میں یوں استعمال ہوتا ہے کہ اس چیز کے اجزاء بکھرے ہوئے ہوں۔ جیسے گردو و غبار (سورۃ الواقعہ آیت 6) یا شمع کے پروانے (سورۃ القارعۃ آیت 4) اللہ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَبَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا(سورۃ النساء آیت 1)
لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا یعنی اوّل اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پیدا کر کے روئے زمین پر پھیلا دئیے۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے حقوق کا مطالبہ کرتے ہو اور قطع رحمی سے بچو کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

ماحصل:

  • ذرا: بمعنی پیدا کرنا اور پھیلانا۔
  • مدّ: پھیلانا اور لمبا کرنا۔
  • دحی اور طحی: دور دور تک پھیلانا۔
  • نشر: اٹھانا، پھیلانا اور مشہور کرنا۔
  • بسط: کھولنا، پھیلانا اور وسیع کرنا۔
  • بثّ: اس طرح پھیلانا کہ اس کے اجزا پراگندہ اور بکھرے ہوں۔
 
Top