پھاڑنا
کے لیے
خرق، قد، فَطَرَ، فَجر، مخر، شقّ، فلق، فرق، مزّق کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: خرق
کے معنی کسی چیز کو پھاڑنا اور خراب کر دینا، توڑ پھوڑ دینا یا بگاڑنے کے لیے توڑنا ہے۔ (مف) اور
خرقہ کپڑے کے چیتھڑے کو کہتے ہیں اور
خارق عادت کے خلاف بات کو کہتے ہیں (منجد) ارشاد باری ہے:
فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا (سورۃ الکہف آیت 71)
تو دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے کشتی کو پھاڑ ڈالا۔ موسٰی نے کہا کیا آپ نے اسکو اس لئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کر دیں۔ یہ تو آپ نے بڑی عجیب بات کی۔
2: قدّ
کسی چیز کو لمبائی کے رخ پھاڑنا، اور
قد بمعنی انسان کی لمبائی، قد و قامت (مف) اور
قدید خشک گوشت کی لمبی لمبی قاشوں کو کہتے ہیں (مف منجد ) قرآن میں ہے:
وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ ؕ قَالَتۡ مَا جَزَآءُ مَنۡ اَرَادَ بِاَہۡلِکَ سُوۡٓءًا اِلَّاۤ اَنۡ یُّسۡجَنَ اَوۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ یوسف آیت 25)
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے آگے یوسف پیچھے زلیخا اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے پکڑ کو جو کھینچا تو پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا تو عورت بولی کہ جو شخص تمہاری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اسکی اسکے سوا کیا سزا ہے کہ یا تو قید کیا جائے یا اسے دکھ کا عذاب دیا جائے۔
3: فطر
کسی چیز کو لمبائی میں یوں پھاڑنا کہ اس میں شگاف پڑ جائے ۔ تراش خراش کرنا ۔ اس لحاظ سے
فطر بنانے اور پیدا کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اور
فطور شگاف کو کہتے ہیں (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ (سورۃ الملک آیت 3)
اسی نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ اے دیکھنے والے کیا تو رحمٰن کی تخلیق میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھکو آسمان میں کوئی شگاف نظر آتا ہے؟
دوسرے مقام پر فرمایا:
فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ (سورۃ الروم آیت 30)
سو تو تم ایک طرف کے ہو کر دین الٰہی پر سیدھا رخ کئے چلتے رہو اور اللہ کی فطرت کو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اختیار کئے رہو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تغیروتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
4: فجر
کسی چیز کو وسیع پیمانے پر پھاڑنا۔ اور
فجر (پو پھٹنے کا وقت) کو اسی لیے فجر کہتے ہیں کہ وہ سارے افق پر نمودار ہوتی ہے۔ اور
فجور بمعنی دین کے احکام کی دیدہ دلیری سے پردہ دری کرنا۔ اور اسی سے
فاجر اور
فجّار ہے (مف) اور
فجر اور
فجّر کے معنی اسی لحاظ سے پانی کو وسیع علاقے تک چلانا یا جاری کرنا کے بھی آتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
اَوۡ تَکُوۡنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡہٰرَ خِلٰلَہَا تَفۡجِیۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 91)
یا تمہارا کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو اور اسکے بیچ میں نہریں بہا نکالو۔
اور
فجر کا لفظ صرف پانی بہانے کے لیے دور تک راستہ کھولنا کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
کِلۡتَا الۡجَنَّتَیۡنِ اٰتَتۡ اُکُلَہَا وَ لَمۡ تَظۡلِمۡ مِّنۡہُ شَیۡئًا ۙ وَّ فَجَّرۡنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا (سورۃ الکہف آیت 33)
دونوں باغ کثرت سے پھل لاتے۔ اور اسکی پیداوار میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی۔
5: مخر
پانی کے کٹاؤ اور چیر پھاڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں
مخر الماء الأرض بمعنی پانی کا زمین کو چیرنا پھاڑنا اور اس میں چکر لگانا۔ اور
مخر السفينة بمعنی کشتی کا اپنے سینہ سے پانی کو چیرنا اور پھاڑنا، اور آواز پیدا کرنا۔ اور
ماخر اس کشتی کو کہتے ہیں جو پانی کو پھاڑے اور اس میں آواز پیدا کر دے (م ا) اور
ماخر کی جمع
مواخر آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ ہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنۡہُ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡہُ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا ۚ وَ تَرَی الۡفُلۡکَ مَوَاخِرَ فِیۡہِ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 14)
اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت نکال کر کھاؤ۔ اور اس سے زیور موتی وغیرہ نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں سمندر میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس لئے بھی سمندر کو تمہارے اختیار میں کیا کہ تم اللہ کا فضل معاش حاصل کرو اور تاکہ اس کا شکر کرو۔
6: شقّ
کسی سخت چیز کا پھاڑنا۔ قرآن میں اس کا استعمال آسمان، زمین، چاند اور پتھر جیسی بڑی اور سخت چیزوں کے پھٹنے پر ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ شَقَقۡنَا الۡاَرۡضَ شَقًّا (سورۃ عبس آیت 26)
پھر ہم ہی نے زمین کو اچھی طرح پھاڑا۔
7، 8: فلق اور فرق
الفلق اور
الفرق دونوں قریب المعنی ہیں۔ اور دونوں میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ (۱) پھٹنا اور (۲) الگ ہونا۔ اور سر کے بالوں کے درمیانی حصہ یعنی مانگ کو
فرق بھی کہتے ہیں اور
فلق بھی چنانچہ قرآن کریم میں یہ الفاظ ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔
ایک مقام پر فرمایا:
وَ اِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 50)
اور جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا پھر تم کو تو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق کر دیا اور تم دیکھ رہے تھے۔
اسی واقعہ کو دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا :
فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡبَحۡرَ ؕ فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ (سورۃ الشعراء آیت 63)
اس وقت ہم نے موسٰی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو۔ تو سمندر پھٹ گیا سو ہر ایک ٹکڑا یوں ہو گیا کہ گویا بڑا پہاڑ ہے۔
البتہ ان دونوں میں تھوڑا سا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ
فلق عام طور پر اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کسی چیز کا ایک حصہ علیحدہ ہو جائے یعنی کل برابر دو حصوں میں سر کی مانگ کے لیے
فلق کا لفظ اسی لیے آتا ہے کہ وہ بالوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اور
فلق (ف زیر کے ساتھ) اور
فلقہ دونوں میں پھٹی ہوئی چیز کے ایک حصہ کو کہتے ہیں۔ لیکن
فرق کا لفظ اس لحاظ سے عام ہے۔ اس کا اطلاق دو اور دو سے زیادہ حصوں پر بھی ہوتا ہے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ
فلق کا اطلاق عموماً بے جان اشیاء پر ہوتا ہے جبکہ
فرق عام ہے۔ اس کا اطلاق بے جان اور جاندار خصوصاً انسان پر بھی ہوتا ہے۔ کسی جماعت سے الگ شدہ حصہ کو
فرق اور اگر یہ الگ شدہ حصہ بھی بڑی تعداد میں ہو تو اسے
فرقہ کہا جاتا ہے۔ اور کسی جھگڑا یا معاملہ کی صورت میں فریق۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی (سورۃ الانعام آیت 95)
بیشک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر (ان سے درخت وغیرہ اگا تا ہے)
بیشک اللہ ہے کہ پھوڑ ڈالتا ہے دانہ اور گٹھلی (عثمانیؒ)
یعنی دانہ اور گٹھلی درمیان سے پھٹ کر الگ ہوتے ہیں اور اس سے کونپل نکلتی ہے۔ اسی طرح
فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ ۚ وَ جَعَلَ الَّیۡلَ سَکَنًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ حُسۡبَانًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ (سورۃ الانعام آیت 96)
وہی رات کے اندھیرے سے صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے اور اسی نے رات کو موجب آرام ٹھہرایا اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنا دیا یہ اللہ کے مقرر کئے ہوئے اندازے ہیں جو غالب ہے علم والا ہے۔
پھوڑ نکالنے والا صبح کی روشنی (عثمانیؒ)
میں
فلق کا لفظ اس لحاظ سے موزوں ہے کہ صبح کی دھاری آسمان میں ہے، جیسے سر میں مانگ۔
9: مَزَّقَ
مَزَقَ (الثوب) بمعنی کپڑا پھاڑنا اور مزّق بمعنی پھاڑنا، بکھیرنا، تباہ کر دینا (منجد) گویا
مزق میں عمل کی شدت پیدا ہو جاتی ہے (منجد) ارشاد باری ہے:
فَقَالُوۡا رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ (سورۃ سبا آیت 19)
تو انہوں نے دعا کی کہ اے پروردگار ہماری مسافتوں میں دوری پیدا کر دے اور اس سے انہوں نے اپنے حق میں ظلم کیا تو ہم نے انہیں نابود کر کے داستان بنا دیا اور انہیں بالکل منتشر کر دیا اس میں ہر صابر و شاکر کے لئے نشانیاں ہیں۔
ماحصل:
- خرق: کسی چیز کو بگاڑنے کے لیے پھاڑنا۔
- قدّ: لمبائی میں پھاڑنا۔
- فطر: شگاف ڈالنا اور تراش خراش کرنا۔
- فجر: کسی چیز کو وسیع پیمانے پر پھاڑنا اور بہانا
- مخر: کشتی کا پانی کو پھاڑنا جس سے آواز بھی پیدا ہو۔
- شق: کسی سخت چیز کو پھاڑنا۔
- فلق: کسی بے جان چیز کو دو حصوں میں پھاڑنا اور الگ کرنا۔
- فرق: کسی چیز کو دو یا زیادہ حصوں میں علیحدہ کر دینا (عام ہے)۔
- مزّق: ٹکڑے ٹکڑے کر کے تباہ کر دینا۔