گزشتہ دنوں میں علاقے کا ایک بچہ غیر مقلد ہوگیا تھا۔ مجھے میرے مسلک کے حوالے سے بہت کٹر سمجھتا تھا (جو حقیقت بھی ہے) تو مجھ سے کہنے لگا کہ تم دیوبندی لوگ نماز میں سنتیں ترک کرتے ہو، رفع یدین کی ایک ہزار احادیث ہیں اس پر عمل نہیں کرتے اور ترک رفع یدین کی (اس کے نزدیک) ضعیف حدیثوں پر عمل کرتے ہو۔اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہتا رہا کہ تمھاری نماز حدیث سے ثابت نہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اس وقت تو خامشی اختیار کی کہ اگر مقابلے پر اتر آیا تو یہ بچہ کہیں گمراہ یا بدظن نہ ہوجائے۔ گھر آکر چار سوالات نماز کے متعلق لکھ کر اس بچے کے ہاتھ میں پرنٹ تھما کر جواب لانے کو کہہ دیا۔آج اس بات کو دو ماہ گزرنے والے ہیں۔ حالانکہ ہر شب جمعہ پابندی سے وہ اہل حدیثوں کی مسجد میں قیام کرتا ہے مگر کوئی جواب اب تک نہیں ملا۔ اب میں اس سے جوابات کا مطالبہ کروں تو کہتا ہے کہ مجھے بحث نہیں کرنی۔ سوالات کا پیٹرن اس طرح ہے:
اسلام علیکم۔
ایک دیوبندی کے چند سوالات ہیں جن کے جوابات میں رہنمائی درکار ہے۔ مہر بانی فرما کر جواب قران یا صحیح اور صریح حدیث سے عنایت فرمائیں:-
با جماعت نماز کے حوالے سے سوالات کے جوابات درکار ہیں:
سوال ۱: باجماعت نماز میں مقتدی کی تکبیر تحریمہ کی کیا حیثیت ہے؟ اگر کوئی مقتدی تکبیر تیز آواز سے کہے تو سنت ہےیا ہلکی آواز سے کہے تو سنت ہے ؟ آیت یا صحیح حدیث درکار ہے۔
سوال ۲: نماز میں مقتدی پر فاتحہ پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، کیا دو مرتبہ آمین کہنا بھی فرض یا سنت ہے؟ ایک مرتبہ اونچی آواز سے اور ایک آہستہ۔ یعنی اگر کوئی امام فاتحہ پڑھ چکا اور مقتدی کی فاتحہ ختم نہیں ہوئی تو وہ اپنی فاتحہ چھوڑ کر پہلے امام کی آمین کے ساتھ آمین کہے پھر اپنی فاتحہ ختم کرکے بھی آمین کہے کیا یہ سنت ہے یا فرض؟ آیت یا صحیح حدیث درکار ہے۔
سوال ۳: جہری نمازوں میں امام قرات اونچی آواز سے کرتا ہے اور مقتدی دل میں کرتا ہے لیکن آمین پر مقتدی اور امام دونوں اتفاق کر کے اونچی آواز سے کہتے ہیں۔ کیا جہری نمازوں میں پہلی دو رکعت کے علاوہ بقیہ رکعتوں میں فاتحہ نہیں پڑھی جاتی؟ اگر پڑھی جاتی ہے تو ان میں آمین آہستہ کہنا فرض ہے یا سنت؟ کوئی آیت یا صحیح حدیث درکار ہے۔
سوال ۴: قران میں سورہ الاعراف میں آیا ہے:
واذا قرئ القران فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون (۲۰۴ )
ترجمہ: ”اور جب قران پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو“
اس آیت سے ثابت ہوا کہ امام قرات کر رہا ہو تو خاموش رہ کر سننا چاہئے تو کیا وجہ ہے کہ اہل حدیث حضرات نماز میں امام کے پیچھے قرات کرتے ہیں؟
واضح رہے کے یہ آیت نمازکے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے جیسا کہ:
۱۔ حضرت یسیرؒ بن جابر سے تفسیر طبری میں۔
۲۔ ابن عباسؓ سے بیہقی میں۔
۳۔ انہی سے الدر المنثور فی التفسیر بالماثور میں۔
۴۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے بیہقی میں۔
۵۔ ابن تیمیہ امام احمد بن حنبل سے فتاوی کبری میں نقل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ امام احمد بن حنبلؒ اس آیت کا نماز کے بارے میں ہونا امت کا اجماع بتاتے ہیں۔
اس کے علاوہ صحاح ستہ (جس میں مسلم، نسائی اور ابن ماجہ بھی شامل ہے) اور دیگر مسانید میں صحیح احادیث میں بھی قرات کے وقت خاموش رہنے کا ذکر ہے تو کیا وجہ کے قران کی آیت سمیت صحیح احادیث کے باوجود اس پر عمل نہ کیا جائے؟ کوئی آیت یا حدیث صحیح و صریح درکار ہے۔
سائل: محمد مزمل شیخ
اسلام علیکم۔
ایک دیوبندی کے چند سوالات ہیں جن کے جوابات میں رہنمائی درکار ہے۔ مہر بانی فرما کر جواب قران یا صحیح اور صریح حدیث سے عنایت فرمائیں:-
با جماعت نماز کے حوالے سے سوالات کے جوابات درکار ہیں:
سوال ۱: باجماعت نماز میں مقتدی کی تکبیر تحریمہ کی کیا حیثیت ہے؟ اگر کوئی مقتدی تکبیر تیز آواز سے کہے تو سنت ہےیا ہلکی آواز سے کہے تو سنت ہے ؟ آیت یا صحیح حدیث درکار ہے۔
سوال ۲: نماز میں مقتدی پر فاتحہ پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، کیا دو مرتبہ آمین کہنا بھی فرض یا سنت ہے؟ ایک مرتبہ اونچی آواز سے اور ایک آہستہ۔ یعنی اگر کوئی امام فاتحہ پڑھ چکا اور مقتدی کی فاتحہ ختم نہیں ہوئی تو وہ اپنی فاتحہ چھوڑ کر پہلے امام کی آمین کے ساتھ آمین کہے پھر اپنی فاتحہ ختم کرکے بھی آمین کہے کیا یہ سنت ہے یا فرض؟ آیت یا صحیح حدیث درکار ہے۔
سوال ۳: جہری نمازوں میں امام قرات اونچی آواز سے کرتا ہے اور مقتدی دل میں کرتا ہے لیکن آمین پر مقتدی اور امام دونوں اتفاق کر کے اونچی آواز سے کہتے ہیں۔ کیا جہری نمازوں میں پہلی دو رکعت کے علاوہ بقیہ رکعتوں میں فاتحہ نہیں پڑھی جاتی؟ اگر پڑھی جاتی ہے تو ان میں آمین آہستہ کہنا فرض ہے یا سنت؟ کوئی آیت یا صحیح حدیث درکار ہے۔
سوال ۴: قران میں سورہ الاعراف میں آیا ہے:
واذا قرئ القران فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون (۲۰۴ )
ترجمہ: ”اور جب قران پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم ہو“
اس آیت سے ثابت ہوا کہ امام قرات کر رہا ہو تو خاموش رہ کر سننا چاہئے تو کیا وجہ ہے کہ اہل حدیث حضرات نماز میں امام کے پیچھے قرات کرتے ہیں؟
واضح رہے کے یہ آیت نمازکے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے جیسا کہ:
۱۔ حضرت یسیرؒ بن جابر سے تفسیر طبری میں۔
۲۔ ابن عباسؓ سے بیہقی میں۔
۳۔ انہی سے الدر المنثور فی التفسیر بالماثور میں۔
۴۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے بیہقی میں۔
۵۔ ابن تیمیہ امام احمد بن حنبل سے فتاوی کبری میں نقل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ امام احمد بن حنبلؒ اس آیت کا نماز کے بارے میں ہونا امت کا اجماع بتاتے ہیں۔
اس کے علاوہ صحاح ستہ (جس میں مسلم، نسائی اور ابن ماجہ بھی شامل ہے) اور دیگر مسانید میں صحیح احادیث میں بھی قرات کے وقت خاموش رہنے کا ذکر ہے تو کیا وجہ کے قران کی آیت سمیت صحیح احادیث کے باوجود اس پر عمل نہ کیا جائے؟ کوئی آیت یا حدیث صحیح و صریح درکار ہے۔
سائل: محمد مزمل شیخ