مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری نوراللہ مرقدہ

السلام علیکم
قارئین کی دلچسپی اور ان کی فرمائش سے حوصلہ پاکر میں اپنے والد محترم کی خود نوشت سوانح حیات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کررہاہوں مجھے اس فورم میں آکر ایسی اپنائیت اور محبت کا احساس ہوا جس کو میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔اللہ تعالیٰ آپ تمام حضرات کی خدمات اور اخلاص کو قبول فرمائے اٰمین لیجئے میرے والد مرحوم کی سوانح حیات ملاحظہ فرمائیں یہ چند قسطوں پر مشتمل ہوگی۔ اصل کتاب کانام ہے{ تذکرہ دیرو حرم} (قسط اول)
{ازتذکرہ دیروحرم}
فَتُشَبِّہُــوا إنْ لَــمْ تُکُــونُوا مِثلَہُم
إنَّ التشَبُّـــہَ بالکِـــرامِ فـــلاحُ

اگر ان (نیکوں) جیسے نہ بن سکو تو ان کی مشابہت اختیار کرو
اس لئے کہ نیکوں کے ساتھ مشابہت بھی کامیاب ہے۔


[align=center]چو من بخیر کنم یادِ رفتگاں دارم اُمید آنکہ مراکہ ہم بخیر یاد کنند
چوشاد می کنم ارواحِ دیگراں شاید کساں رسند مرا نیز روح شاد کنند

جب میں گذرے ہوئے لوگوں کو خیر کے ساتھ یاد کروں گا
تو اُمید ہے کہ دوسرے بھی مجھے خیر کے ساتھ یاد کریں گے۔
جب میں دوسرے کی روح کو خوش کروں گا تو ہوسکتا ہے
کہ لوگ میری روح کو بھی خوش کریں گے
۔[/align]

مقدمہ از عابد الرحمٰن
ألحمـــدُ للّٰہِ الحیِّ القیّومِ الَّذِی تفرَّدَ بالبَقَائِ والدَّوامِ، وَ کَتَبَ المَوتَ والفَنــائَ علیٰ جمیعِ الأنامِ، والصَّلوٰۃُ والسلاَمُ علیٖ حبیبہٖ ورسُولِــہٖ محمَّدٍ أفضلِ الأنبیائِ وإمـامِ الأصفِیائِ إلیٰ یومِ القیامِ، وصلیَّ اللّٰہُ تعالیٰ علیٰ خیرِ خلقِہٖ محمَّـــدٍ وآلــہٖ وأزواجہٖ وذُرِّیاتِہٖ وأہلِ بیتِہٖ وخُلفائہٖ وأصحابہٖ وبارک وسلِّم ـ اما بعد!
ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک ہر دور میں اللہ بزرگ وبرتر نے انسان کی فلاح وبہبود و رشد وہدایت کے لئے مخصوص وبرگزیدہ اشخاص کو پیدا فرمایا۔ تکمیل دین تک اس کام کو انبیاء ورسل علیہم السلام نے انجام دیا ان کے بعد ان کے نائبین یعنی صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے اس فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ ان کے بعد تابعین، تبع تابعینؒ نے تمام تر تکالیف، مصائب وآلام کے باوجود اس اہم ذمہ داری کو ادا کیا۔ ان کے بعد اس کارِ رسالت اور بارِ امانت کو علمائے کرام ومشائخ عظام نے اپنے کاندھوں پر لیا اور بڑی ذمہ داری وامانت داری کے ساتھ بڑی بڑی قربانیاں دے کر اس کام کو انجام دیا۔ اور فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم: العُلمائُ ورثۃُ الأنبیائِ کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اس پر پورے اُترے۔ انہیں کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {اِنَّمَا یَخْشٰی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ} اور قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ الغرض علماء جو کہ دین کے ستون اور اساس ہیں، جن پر قوم کی فلاح وبہبود کا دارومدار ہے اور قوم کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں، اس وقت بالکل دو مختلف صورتوں میں نظر آتے ہیں: علمائے سوء اور علمائے خیر، (بے عمل اور باعمل)۔ بے عمل علماء ان درختوں کی مانند ہیں جو بظاہر خوبصورت ہیں لیکن پھل دار نہیں ہوتے۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ گوہر ِ بے آب اور آفتاب بے نور۔ انہیں کے بارے میں قرآنِ کریم کی یہ آیت ہے: {وَ اِذَا رَاَیْتَہُمْ
تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ وَ اِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ}
(ترجمہ: جب تم ان کو دیکھو گے تو ان کے جسم تمہیں پسند آئیں گے اور جب وہ گفتگو کریں گے تو تم ان کے کلام کو (توجہ سے سنوگے) جیسا کہ وہ اُٹھے ہوئے شہتیر ہوں)۔
اور انہیں کے بارے میں ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎

زوامِلُ الأسفارِ لا عِــلمَ عِندَہُمْ یجدِہُــا إلاَّ کعِــلِمِ الابـاعِــرِ
لِعُمرِکَ مایَدرِی البعِیرُ إذَا غَدَا مَا وساقَہُ أو راخَ ما فِی الغوائِرِ
وہ بڑی بڑی کتابوں کا بوجھ لادے ہوئے ہیں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے بلکہ ان کا علم ایسا ہے جیسا کہ
بار بردار اونٹوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ جو بوجھ وہ صبح سے شام تک لادے پھرتے ہیں ان کے اندر کیا ہے؟

اگر مطلق علم سے بنا عمل کے بزرگی اور شرافت حاصل ہوتی تو یہ شرف معلم الملائک اور بوجہل کو حاصل ہوتا اور صفحۂ ہستی پر ان سے زیادہ کوئی اشرف اور بزرگ نہ ہوتا۔

لَوکانَ العِلمُ دُونَ التُّقیٰ شرف لکانَ أشرفُ الخَلقِ إبلِیسُ
معلوم ہوا کہ مولانا، مفتی ،قاری، صوفی، شیخ کہلوانا تو آسان ہے مگر خالص اسلامی ہونا وشریعت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا پابند ہونا نہایت مشکل ہے۔
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا​
بہرحال ہر ذی علم اور ذی شعور جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم سے نوازا ہے جانتا ہے کہ ہر دور میں مسلمانوں کی مذہبی وسیاسی مشکلات کا حل اور علاج صرف اور صرف علمائِ کرام ہی نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علماء کو کسی خاص طبقہ یا کسی خاص خطہ یا ملک کے لئے نہیں بلکہ تمام نسل بنی آدم علیہ السلام کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ مصلحین امت اور علماء ومشائخ دین نے بلاشبہ اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جن کی و جہ سے لاتعداد بندگانِ خدا کو ہدایت نصیب ہوئی اور یہ سلسلۂ فیض رسالت تاقیامت ان وارثینِ انبیاء کے ذریعہ جاری رہے گا۔ درحقیقت یہی علمائے خیر ہیں اور انہیں کے بارے میں فرمانِ رسالت ِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
العُلمائُ ورثۃُ الأنبیائ، الحدیث۔ اور ایک جگہارشاد فرمایا: عُلمائُ أمَّتِی کأنبیائِ بنی إسرائِیلَ۔ (الحدیث)
یوں تو برصغیر ہندوپاک کی سرزمیں سے بہت سے اولوالعزم اور اولوالفضل اور اولو العلم حضرات پیدا ہوئے لیکن ان میں سے چند ایک حضرات ایسے بھی گذرے ہیں جنھوں نے عالم اسلام پر گہرے نقوش مرتب کئے ہیں، جو علومِ ظاہریہ وباطنیہ میں لاثانی وبے نظیر تھے اور اپنے کارناموں کی وجہ سے زندہ جاوید ہوگئے۔
قَد ماتَ قومٌ وما ماتَتْ مکارِمُہُمْ وَعَاشَتْ وہُم فِی النَّاسِ أمواتٌ​
ایک جماعت (علماء) فوت ہوگئی مگر ان کے شریفانہ کارنامے مردہ نہیں ہوتے،
وہ اب بھی زندہ ہیں، حالانکہ وہ لوگوں کے نزدیک مردہ ہیں۔

ان گنے چنے نفوسِ قدسیہ میں سے ایک میرے والد، میرے شیخ، اور میرے استاذ حکیم الامت، امام العصر، فقیہ الملت، شیخ طریقت حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب قدس سرہ العزیز ہیں۔جن کی باکمال شخصیت آج بھی طالبانِ شریعت وطریقت کے لئے مشعل راہ ورُشد وہدایت ہیں اور مانند منارۂ افروزاں کےہیں ۔ حضرت موصوف کی ذات ستودہ صفات میں بیک وقت بہت سی خوبیاں جمع تھیں، آپ علم وعمل کے ساتھ ساتھ تقویٰ، پارسائی، للہیت، جفاکشی وجانفشانی، خلوص وہمدردی، تعلیم وتربیت، وقار وتمکنت، جرأت وہمت وعزیمت واستقلال کے پیکر تھے ،جوشِ مذہب وخدمت خلق، اعلائِ کلمۃ الحق، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، اتباعِ سنت اور امحائِ بدعت کے لازوال جذ بے نے آپ کی شخصیت کو غیرمعمولی حد تک پرتا ثیر اور سحرانگیز بنا دیا تھا۔ آپ کے اند ر مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی روحانی ومادّی ترقی کا نہ صرف جذبہ تھا بلکہ عملاً متعدد افراد کو ضلالت وگمراہی کے عمیق غاروں میں سے نکال کر روشنی بخشی۔ اور پستی سے بلندی پر پہنچایا۔ آپ یقینا اپنے کارناموں اور اوصافِ حمیدہ ہی کی وجہ سے ان برگزیدہ شخصیات میں سے ایک تھے جن کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اُوْلٰئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْویٰ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَ اَجْرٌ عَظِیْمٌ} الآیۃ۔
آپ کو علم فقہ میں بڑی مہارت حاصل تھی اور فقہی مسائل کی بہت عمدہ توضیح فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر علمائِ کرام اور مفتیانِ عظام آپ کی علمی قابلیت وعلمی کارناموں کے کھلے دل سے معترف تھے۔ فقہ میں آپ امامِ دوراں اور فخر زماں تھے۔ فقہ میں جو دسترس اور خداداد صلاحیت آپ کو حاصل تھی وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے دینی مسائل کے حل کے لئے آپ کی طرف ہی دیکھتے تھے ان کے لئے آپ کا فتویٰ ایک سند اور دستاویز کی حیثیت رکھتا تھا۔
ہند وبیرونِ ہند خاص کر بجنور اور اس کے اطراف سے بڑی تعداد میں روزانہ مختلف سوالات آتے تھے۔ عوام کے علاوہ خواص ممتاز علمائ، وصاحب فقہ وفتاویٰ حضرات بھی اپنی علمی تشنگی دور کرنے کے لئے حضرت والد صاحبؒ کی خدمت میں نہ صرف خطوط اور سوالات ارسال کرتے تھے بلکہ بسااوقات خود بھی تشریف لاتے تھے اور حضرت والد صاحبؒ ہر ایک کا نہایت تسلی وتشفی بخش جواب مرحمت فرماتے تھے۔

اور بقولِ شفق بجنوری ؎
[align=center]فیض جاری ہے مسلسل ان کا سب کے واسطے
تشنگی جب ہو مقدر میں تو دریا کیا کرے
[/align]
آپ غیرمعمولی ذہانت وحافظے کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی فراخدلی سے یہ قوتیں عطا فرمائی تھیں۔ فقہی وغیرفقہی کتابوں کی عبارتیں کی عبارتیں وسیکڑوں احادیث اور آیاتِ قرآنیہ آپ کو یاد تھیں(جب کہ آپ حافظِ قرآن نہ تھے) اور کئی مشاہیر شاعروں کے دیوان کے دیوان آپ کے حافظے میں محفوظ تھے۔ استفتاء یعنی مسائل کے جوابات لکھتے وقت بہت ہی کم ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ آپ کو مراجعت کتب کی ضرورت پیش آتی ہو۔ فقہ کے تمام تفصیلی اصول وفروع مستحضر تھے۔ عوام وخواص آپ کو چلتا پھرتا کتب خانہ یا موبائل لائبریری کہنے لگے تھے۔ آپ کی تبحر علمی اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اطرافِ شہر بجنور ودور دراز کے عوام وخواص اپنے مسائل لکھ کر رکھتے تھے اور متلاشی ومنتظر رہتے تھے کہ کب حضرت تشریف لائیں اور ان سے فیضیاب ہوں۔ لفظ ’’مفتی‘‘ آپ کی ذاتِ گرامی پر ایسا چسپاں ہوا کہ بیشتر عوام آپ کے اسم گرامی ہی سے واقف نہ تھے، بس جہاں ’’بجنور والے مفتی صاحب‘‘ کا ذکر آیا فوراً سمجھ جاتے تھے کہ فلاں آدمی مراد ہے۔ سچ ہے: لَمْ تَرَی العُیُونُ مِثلَہُ وَ لَمْ یَرَہُو مِثلَ نَفسِہٖ۔
اور بقولِ شاعر:
رجال آکر پڑھیں تجھ سے جسے شوقِ تفاخر ہو
تواتر میں توحد ہو، توحد میں تواتر ہو

بات طویل توضرور ہوجائے گی لیکن فائدہ سے خالی بھی نہیں۔ لفظ ’’مفتی‘‘ کا خطاب آپ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ کیون کر مشہور ومقبول ہوا؟ اس بارے میں مختلف مجالس میں آپ نے بذاتِ خود ارشاد فرمایا کہ لفظ ’’مفتی‘‘ کا خطاب مجھ کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے عنایت کردہ ہے۔ و جہ اس کی یہ ہے کہ جب میں نے قاضی پاڑہ کے مدرسہ کو خالی کیا تو اس وقت مجھے اپنے مدرسہ کے لئے جگہ کی سخت تلاش تھی اور میں بہت پریشان تھا اور ان دنوں محلہ کی ایک مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے تھا۔ تقریباً ایک ماہ سے زائد معتکف رہا۔ اسی پریشانی کے عالم میں ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں کاغذ کا ایک رول ہے۔ پریشانی کے عالم میں جھپٹا ہوا، حضرت خواجہ اجمیریؒ کے مزار کی طرف جارہا ہوں جیسے ہی میںآ ہنی دروازہ پر پہنچا دروازہ ایک جھٹکے کے ساتھ خود بخود کھلا اور جیسے ہی میں اندر داخل ہوا یکایک قبر مبارک شق ہوئی اور میں نے حضرتؒ کی خدمت میں وہ کاغذ کا پلندہ پیش کردیا، آپ نے کاغذ کو پھیلاتے ہوئے اشارہ کرکے فرمایا: ’’مفتی صاحب! ہم نے یہ زمین بھی آپ کو دی اور یہ بھی آپ کو دی‘‘۔ اس واقعے کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ فرمایا: لفظ ’’مفتی‘‘ کا خطاب مجھے حضرت خواجہؒ نے عنایت فرمایا ہے، پھر یہ خطاب اتنا عام ہوا کہ لوگ مجھے میرے نام سے نہیں بلکہ مفتی صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔ آگے فرمایا: کچھ دنوں کے بعد (میں مختصراً عرض کررہا ہوں) میں نے مدرسہ کی زمین خریدی، مدرسہ کی یہ زمین دو حصوں میں تقسیم ہے۔ شروع میں جو جگہ میں نے خریدی وہ تھوڑی سی تھی اور خواب میں جو جگہ دکھائی گئی تھی اس کا ایک حصہ تھی، میں حیران وپریشان تھا کہ وعدہ تو دو جگہوں کا کیا گیا تھا اور ملی ایک جگہ، غرض کہ اسی خیال میں غلطاں وپریشاں تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت خواجہؒ کی خدمت میں حاضر ہوں، میں نے ان سے عرض کیا کہ حضرت! آپ نے تو دو جگہوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا اور ملی ایک جگہ، فرمایا: مفتی صاحب! یہ جگہ بھی ہم نے آپ کو دی۔ پھر وہ جگہ دکھائی، اتنا بیان کرنے کے بعد والد صاحب نے حاضرین کو وہ جگہ دکھائی جس کو خواب میں حضرت خواجہؒ نے دکھایا تھا اور یہ جگہ ہے نصف صحن سے لے کر اس جگہ تک جہاں مدرسہ کا کتب خانہ اور مطبخ وغیرہ ہے اور صحن کے اسی نصف کے بارے میں والد صاحبؒ نے ہم اہل خانہ کو کئی مرتبہ وصیت فرمائی تھی اور نشاندہی فرمائی تھی کہ اس جگہ مجھے اور اپنی والدہ کو دفن کیا جائے(۱)۔
علم فقہ کے ساتھ ساتھ آپکو علم تفسیر میں بھی کمام درجہ کا عبور حاصل تھا۔ایک مفسر کے لئے جن علوم میں ماہر اور ان سے واقف ہونا ضروری ہوتا ہے ان تمام علوم میں حضرت والد صاحب ؒ کو کما حقہٗ مہارت حاصل تھی۔آپ کی آٹھ جلدوں میں قرآن شریف کی تفسیر عظیم ’’تقریر القرآن ‘‘اور حضرت شیخ الہندؒ کے متَرجَم قرآن پاک پر حاشیہ اور دو کتابیں’’تقصیرات تفہیم القرآن ‘‘اور ’’تاریخ الاحکام ‘‘آپکے مفسر عظیم ہو نے کی واضح دلیل ہیں
۔ ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشائ۔
علوم شریعت کے علاوہ آپ کو فن طب میں بھی کافی مہارت حاصل تھی آپ ایک مستند حکیم تھے اور باقاعدہ آپ نے اس فن کو پڑھا اور سیکھا تھا ۔اور بہت اچھے نبّاض تھے جو کہ آج کل نا پید ہے،خواص الادویہ سے آپ کو خاصی واقفیت تھی جو ایک ماہر حکیم کے لئے نہایت ضروری ہے۔ دیوبند سے فراغت کے بعدآپ نے اس فن شریف کو ذریعہ معاش بنالیا تھا، اور قصبہ نہٹور (جو کہ آبائی وطن ہے)میں ایک مطب کھول لیا تھا ،لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا،چنانچہ حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر جوہر شناس نےاس جوہرپوشیدہ کوپہچان لیا تھا ،اس لئےآپ رحمۃ اللہ علیہ کو فکرہوئی کہ کہیں یہ ضائع نہ ہوجائے چنانچہ آپؒنے حضرت والد صاحبؒ کو مشورہ دیاکہ میں چاہتا ہوںکہ آپ شہر بجنور جاکرعلم دین کی خدمت انجام دیں۔ا ہل بجنور کو ایک عالم کی ضرورت ہے ۔اور اس کیلئے میں آپ کو زیادہ موزوں سمجھتا ہوں۔ لہٰذا آپ نے حضرت شیخ ؒکے مشورہ کو حکم جانا اور فوراًمطب کو بند کیااور اہل خانہ کو اللہ کے سپرد کیا اور بجنور کو ہجرت فرمادی۔ یہاں آکرآپ نے ’’مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ (تفصیلی حالات وواقعات اندرون کتاب ملاحظہ فرمائیں)
آپ نہایت اولوالعزم اور با ہمت انسان تھے۔تھکنا آرام کرناگویا آپ نے جانا ہی نہ تھا ،بچپن سے لیکر وفات تک آپ نے نہ صرف مصائب وآلام کابڑی جوانمردی اور ہمت واستقلال وصبر کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑی تندہی عزم وہمت وحوصلے کے ساتھ دین کی اور مسلمانوں کی خدمات انجام دیں۔عزم وہمت کے ساتھ انتھک کام کرنے کی یہ کیفیات زندگی کے کسی ایک شعبۂ خاص کے ساتھ وابستہ نہ تھی بلکہ بہت سے شعبوں میں منقسم ہو گئی تھی ۔ابھی آپ درسی خدمات انجام دے رہے ہیںتو ابھی سالکین کورشدوہدایات سے فیضیاب فرمارہے ہیں،ابھی فتویٰ نویسی میں مشغول ہیںتو ابھی کتب بینی وتصنیف وتالیف میں مشغول ہیں۔ابھی وعظ و نصیحت فرمارہے ہیںتو ابھی مہمانوں کی ضیافت میں مصروف ہیں۔ ابھی مدرسہ کے نظم ونسق میں لگے ہیں تو ابھی مدینہ اخبار کی ترتیب واداریہ لکھنے میں مشغول ہیں۔نیز کبھی سفر میں ہیں تو کبھی حضر میں۔گویا ایک کمپیوٹرتھے جو بیک وقت مختلف کام انجام دیتا ہے۔
کتابوں کی طباعت واشاعت اور ان کی فروختگی کا انتظام کرنا،اسی کے ساتھ اہل خانہ کے حقوق کی ادائیگی کی فکر بچوںکی پرورش اور ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام فرمانا۔ غرض کہ ہرکام کو اس کے وقت پر کرتے تھے،اور کسی کام میں کوئی نقص اور جھول واقع نہ ہوتا تھا۔

آپ کے ہم عصر علماء کرام حیران وانگشت بدنداں تھے کہ یہ ننھی سی جان کس طرح سے اتنے متضاد کاموں کوبیک وقت بحسن و خوبی انجام دے لیتی ہے۔ان انتہائی تھکا دینے والے مشاغل کے باوجود ،بکائِ سحری،میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔اخیر شب میں اللہ رب العزت کے سا منے انتہائی عاجزی وانکساری سے سربسجود ہونا،اسکی تسبیح بیان کرنا ،اور انتہائی لجاجت وعاجزی کے ساتھ اس کے سامنے گڑگڑانا،توبہ واستغفار کرنا، غرض اس منظر سے وہی حضرات محظوظ ہوسکتے ہیں جنہوں نے ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔غرض کہ آپ کی پوری زندگی،وباللیل رھبان وبالنھارفرسان، کا عملی نمونہ تھی۔آپ کے ان اوصاف حمیدہ ہی کی وجہ سے ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تأمل نہیں کہ ؎
ولیس من اللّٰہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحدٍ
ایسی ہی بر گزیدہ ہستیون کے باریمیں مولانا حالی ؒنے ایک جگہ کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ،قطب وقت کو پہاڑوں ،جنگلوں،اور ویرانیوں کی تنہائی اور عزلت میں نہ ڈھونڈو، بلکہ بازاروں،بال بچوں،خریدوفروخت میں،اورتمام دنیاداری کے تعلقات میں تلاش کرو،سو یہ قول حضرت والد صاحب ؒکی شان میں پوراپورا صادق آتاہے۔حضرتؒ کے نزدیک ترک وتجریدکا نام فقر ودرویشی نہ تھا بلکہ دنیا کو مزرعہ آخرت اور تمام معاملات کو اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق طے کرنا اور بے ہمہ وبا ہمہ رہنا اسی کو درویشی سمجھتے تھے ؎
پاک ہیں آلائشوں میں بند شوں میں بے لگاؤ
رہتے ہیں دنیا میں سب کے درمیاں سب سے الگ
(حالیؒ)​
سوانح نگاری ،یا سیرت نگاری ،یا بایوگرافی ،ہر علمی زبان یا تہذیب کی انتہائی کارآمد اور مفید صنف ہے۔اس صنف کو اپنے گونا گوںفوائد و برکات کی وجہ سے لٹریچر کا نہایت مفید اور دلچسپ شعبہ ماناگیا ہے۔
بزرگوں کی زندگی کے واقعات وحالات مردہ قلوب اور نفوس میں عمل کی حرارت پیدا کرتے ہیں،غلط سوسائٹٰی یا غلط افکار یا جہالت کی وجہ سے جب انسانی قلوب زنگ آلود ہوجاتے ہیںاور اعمال میں سستی وکوتاہی پیدا ہونے لگتی ہے تو ایسے موقعوں پر ان کا تدارک اور علاج ان برگزیدہ ہستیوں کی روش اور طریقہ زند گی کو معلوم کرکے ہوجاتا ہے۔ اکابر کے تذکروںسے قلوب میں نئی توانائی اور قوت ارادی میں پختگی آتی ہے۔اور سوئی ہوئی قوم پھر سے بیدار اور فَعّال ہوجاتی ہے۔اور جذبات خفتہ پھر سے بیدار ہوجاتے ہیں،اور پھرسے ذلت وخواری کے عمیق غاروں سے نکل کر بام عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ بزرگوں کے واقعات وحالات ،قومی تہذیب وتمدن کے ارتقاء کا اہم سبب ہیں،جبکہ اصول یہ ہے کہ ہر نئی تہذیب پرانی تہذیب کو مٹادیتی ہے ،اور ہر نئی نسل پرانی نسل کو کمتر اور دقیانوسی سمجھتی ہے ، اور خود کو ترقی یافتہ اور مہذب سمجھتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی نادانی اور خام خیالی ہے ،در حقیقت جو قوم اپنے بزرگوں کو اور ان کے رہنما ااصولوں کو فراموش کردیتی ہے وہ قوم بہت جلد مٹ جاتی ہے،موجودہ دور میں جب کہ باطل قوتیں پوری قوت کے ساتھ ان نئی نسلوں کی ذہنی تطہیر میں لگی ہوئی ہیں،ایسے حالات میں ہمارے ان بزرگوں کے حالات اور ان کے رہنما اصول مشعل راہ اور راہ نجات کا کام انجام دیتے ہیں،نتیجتاًہمیں ان باطل قوتوں کے طلسم کدہ اور سراب نمامہلک خیالات سے نجات مل جاتی ہے
اصل کام تو حضرت والد صاحبؒ نے ہمارے اور دیگر احباب ومتعلقین کے پیہم اسرار سے خود ہی انجام دیدیا تھا ،اور فائنل ٹچنگ اور تصحیح، ترمیم وتنسیق ،وفات سے تقریباًڈھائی ماہ قبل ماہ مئی میں فرمادی تھی۔ لیکن بہت سے حالات وواقعات پر آپ نے سکوت اختیارفرما یا، یاان کو نظر انداز کیا ،اور کچھ واقعات پر آپ نے چشم پوشی بھی فرمائی ،اور ان پر صبر فرمایا۔ چنانچہ جن واقعات پرآپ نے چشم پوشی فرمائی ،انکی ہم نے بھی پردہ پوشی کی ۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس عمل پر اجر عظیم عطا فرمائے۔لیکن جن واقعات پر آپ نے سکوت فرمایا اور ان کا اظہار قارئین ومتعلقین کے لئے کار آمد اور مفید تھا ان کا اظہارمیں نے حاشیہ اور ضمیمہ میں کردیا ہے۔ کچھ واقعات طویل تھے ان پر الگ سے عنوان قائم کرکے بیان کردیا ہے،اخبارات ورسائل میں شائع شدہ چند مضامین کو اور وہ معلومات جو ہماری اوراحباب یا والد صاحبؒکے شاگردوں کی مین تھیں ان سب کو ضمیمہ میں شامل کردیا ہے۔آپکی بیماری اور وفات سے متعلق واقعات کو الگ سے عنوان قائم کرکے بیان کردیا ہے۔غرض کہ ضمیمہ کو میں نے قارئین خاص کر متوسلین وطالبان طریقت(سالکین)کے لئے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی ہے۔فضولیات ورطب ویابس باتوں سے میں نے گریز کیا ہے۔ان تمام امور میںمیرے برادر مکرم مولانا مفتی عبیدالرحمن صاحب مد ظلہ العالی نے میری بھر پور مدد اور رہنمائی فرما ئی ہے۔اور اس خدمت کے لئے بڑی فراخ دلی سے مجھے اجازت مرحمت فرمائی ا ور اس کے بعد کتا ب کی تزئین وترتیب میں بھی حضرت موصوف نے میری مدد فرمائی ا للہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ مقدمۃ الکتاب کو میں نے قصداً طویل کیا ہے ۔اس لئے کہ :

عندذکر الصالحین تتنزل الرحمۃ
اور
احب الصالحین ولست منہــم
لعـــل اللہ یـرزقنـی صـلاحــاً
جی تو یہی چاہ رہا تھا کہ اس ذکر کو اور طویل کروں،لیکن اس خوف سے کہیں قارئین کرام کو نا گوار گزرے بس
اسی پر اکتفا کررہا ہوں۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔آمین۔

دعا کا طالب
خاک پائے عزیز (حضرت والد مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ)
عابدالرحمٰن غفر لہٗ
خادم التدریس والافتاء
مدرسہ عربیہ مدینۃالعلوم

محلہ مردہگان بجنور
[font=Trad Arabic Bold [size=xx-large[b]] ۱۱؍محرم الحرام ۱۴۲۶؁ھ مطابق ۱۱ ؍فروری ۲۰۰۵؁ء- یوم الجمعہ​
[/b]
[/font]​
[/size]
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
آپ نہایت اولوالعزم اور با ہمت انسان تھے۔تھکنا آرام کرناگویا آپ نے جانا ہی نہ تھا ،بچپن سے لیکر وفات تک آپ نے نہ صرف مصائب وآلام کابڑی جوانمردی اور ہمت واستقلال وصبر کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑی تندہی عزم وہمت وحوصلے کے ساتھ دین کی اور مسلمانوں کی خدمات انجام دیں۔عزم وہمت کے ساتھ انتھک کام کرنے کی یہ کیفیات زندگی کے کسی ایک شعبۂ خاص کے ساتھ وابستہ نہ تھی بلکہ بہت سے شعبوں میں منقسم ہو گئی تھی ۔ابھی آپ درسی خدمات انجام دے رہے ہیںتو ابھی سالکین کورشدوہدایات سے فیضیاب فرمارہے ہیں،ابھی فتویٰ نویسی میں مشغول ہیںتو ابھی کتب بینی وتصنیف وتالیف میں مشغول ہیں۔ابھی وعظ و نصیحت فرمارہے ہیںتو ابھی مہمانوں کی ضیافت میں مصروف ہیں۔ ابھی مدرسہ کے نظم ونسق میںلگے ہیں تو ابھی مدینہ اخبار کی ترتیب واداریہ لکھنے میں مشغول ہیں۔نیز کبھی سفر میں ہیں تو کبھی حضر میں۔گویا ایک کمپیوٹرتھے جو بیک وقت مختلف کام انجام دیتا ہے۔کتابوں کی طباعت واشاعت اور ان کی فروختگی کا انتظام کرنا،اسی کے ساتھ اہل خانہ کے حقوق کی ادائیگی کی فکر بچوںکی پرورش اور ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام فرمانا۔ غرض کہ ہرکام کو اس کے وقت پر کرتے تھے،اور کسی کام میں کوئی نقص اور جھول واقع نہ ہوتا تھا۔
مفتی عزیزالرحمن صاحب مظاہری!
آپ کابہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہندوستان کے نامورعالم دین کے خزانۂ عامرہ میں سے نادرونایاب جوہروگوہرسلسلہ جاری کیاہے۔میری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کودوام اوراستمرارنصیب فرمائے۔خیرالعمل مادیم علیہ وان قل کوپیش نظررکھیں اوریومیہ کم ازکم ایک قسط ضرورپیش قارئین کریں۔
ایک چیزکی طرف توجہ مبذول کراناضروری ہے پوسٹ کی گئی تحریرزیادہ باریک ہے ،پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے اس لئے تحریرکومزیدجلی کریں اورچاہے یکے بعددیگرے کئی قسطیں ہوجائیں۔اس سے نفع عام اوراستفادہ تام ہوجائے گا۔
 
ناظرین کرام مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری نوراللہ مرقدہ کی سوانح حیات کی دوسری قسط تذ کرہ دیروحرم سے پیش خدمت ہے یہاں سے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خود تحریر فرمایا ہے لیجئے ان کا انداز بیان ملاحظہ فرمائیں
کچھ اپنے بارے میں​

سودہ گشت از سجدۂ راہِ بتاں پیشانیم
چند برخود تہمت دین مسلمانی نہم​
بہت سے اکابر نے اپنے احوال اپنے قلم سے تحریر کئے ہیں، جن سے آج بھی فائدہ ہوتا ہے۔ میں اکابر میں سے تو نہیں ہوں، تاہم ان کا کفش بردار ضرور ہوں۔ اس نسبت سے جو مجھے فائدہ ہوا یہ بھی انھیں کا فیضِ صحبت ہے ؎
ورنہ من آنم کہ دانم
اور بقول شیخ سعدیؒ :
گِلے خوشبوئے درحمام روزے رسید از دست ِ محبوبے بد ستم
بدوگفتم کہ مشکی یا عبیری کہ از بوئے دل آویز تو مستم
بگفتا من گِلیِ ناچیز بودم لیکن مد تے باگل نشستم
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہما ں خاکم کہ ہستم
وطن اور خاندان: میری جائے پیدائش اور وطن شرفاء اور اہل علم کی بستی اس ضلع بجنور کا ممتاز ترین قصبہ ’’نہٹور‘‘ ہے۔ اس قصبہ کی بیشتر آبادی شرفائ، اہل علم اور زمین داروں کی تھی، جو دو طبقوں میں تقسیم تھے۔ جنوب کی طرف تیاگی صاحبان زمیں دار تھے، جن کے بڑے بڑے بلند مکان آج بھی ان کی شرافت اور ریاست کی علامت بنے ہوئے ہیں، مگر اب وہ بات نہیں۔
جس کو کہتے شرافت ہیں، شر وآفت ہے بس
’’ست‘‘ ریاست سے گیا صرف’’ریا‘‘ باقی ہے
مشرق کی طرف اہل سادات تھے۔ جو سبھی پڑھے لکھے اور زمیں دار تھے۔ باہر اونچے اونچے عہدوں پر بھی ملازم تھے۔ تعزیوں کے دنوں میں میں نے مذکورہ دونوں طبقات ہندو مسلم کو بارہا شیروشکر ہوتے دیکھا ہے۔
لیکن میری پیدائش اسی قصبہ کے ایک مزدور اور غریب خاندان میں ہوئی۔ جنوری ۱۹۲۷ءتاریخ پیدائش میری مڈل کی سند پر لکھی ہے۔ میرے والدکا نام عبدالرحمن ہے۔ اوردادا کانام حسین بخش اور پردادا کانام حافظ اللہ دیا۔ جو غدر ۱۸۵۷ء میں شہید ہوگئے تھے۔ وہ ضلع بجنور کے ایک قدیم قصبہ ’’منڈاور‘‘ کے باشندہ تھے۔ میرے دادا نے اسی دور میں نامعلوم کس طرح قصبہ نہٹورسے متصل موضع ترکولہ میں پناہ لی اور ان کی پرورش ایک سید کے گھر میں ہوئی۔ بالغ ہونے پر انھوں نے میرے دادا کا نکاح مسماۃ ’’مجیداً‘‘ سے کردیا۔ ان سے چار لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ ان سب کی شادیاں خاندانِ شیوخ میں ہوئیں۔ اس طرح میں ’’نجیب الطرفین ‘‘ہوں۔ لیکن غربت اور افلاس کی و جہ سے ہمارا خاند ا ن کبھی جہالت سے باہر نہ نکل سکا۔ گھاس کھودنا، مزدوری کرنا میری خاندانی پیشہ رہا۔ اور یہ کام میں نے بھی بچپن میں کیا ہے۔
میری دو بہنیں تھیں، ان کا میں تنہا ایک ہی بھائی تھا۔ میری والدہ کا انتقال اس وقت ہوگیا تھاکہ جب میری عمر صرف چار سال کی ہوگی۔ دبلا اور نحیف ہونے کی وجہ سے میرا نام ’’سوکھا‘‘ رکھا گیا اور ’’چھدو ‘‘بھی مجھے پکارتے تھے۔ ’’عزیز الرحمن ‘‘میں نے اپنا نام خود تجویز کیا تھا۔ اس وقت میں مڈل کلاس میں پڑھتا تھا۔
یہ بات آئندہ مفید ثابت ہوسکتی ہے کہ میرے والد نے اپنا دوسرا نکاح موضع ’’کوٹ قادر‘‘ کے سادات کے خاندان میں ایک سید کی بیٹی سے کیاتھا۔ سوئے اتفاق اسکی عمر چودہ سال تھی جب کہ میرے والد کی عمر ۵۰/سال کی۔ ہماری پرورش میری تائی نے کی اور وہ لاولد تھیں۔ اپنے گھر کی اس کمزوری کی وجہ سے ہوش سنبھالتے ہی میں خود اپنی فطری حیاء کی بناء پر اپنے گھر سے دور تنہائی میں رہا۔ یکسوئی کی بچپن والی عادت نے مجھے تحصیل علم اور دیگر کاموں میں بہت فائدہ پہنچایا اور آج بھی میری یہی عادت ہے۔
میری تعلیم وتربیت: تربیت کو میں جانتا نہیں لیکن جہاں تک میری تعلیم کا معاملہ ہے مجھے پڑھنے کیلئے کسی نے آمادہ نہیں کیاتھا۔ میری عمر آٹھ سال کی ہوگی کہ میں اپنے ایک پڑوسی لڑکے محمد یوسف کے ساتھ اسکول پڑھنے چلا گیا، الفاظ اور حروف سمجھنے میںآنے لگے تھے۔ اس لئے ازخود ہی الفاظِ مرکب کو ملاکر پڑھ لیتا تھا، اس لئے ابتدائی درجات جلد طے کرگیا۔ مجھے پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ چلتے چلتے کتاب پڑھا کرتا تھا۔ بڑے درجات میں پہنچنے کے بعد میری ہمیشہ یہ عادت رہی کہ سالانہ امتحان کی چھٹیوں میں کتابیں لے کر اگلے درجہ کی تیاری کیا کرتا تھا۔ نہٹورسے بجنورجاتے وقت پیدل سولہ میل کا سفر کتاب پڑھتے پڑھتے طے کیا کرتا تھا۔ حساب اور دیگر مضامین میں میرے نمبر بہت عمدہ تھے۔ اس لئے مڈل میں فرسٹ کلاس اور ریاضی ممتازپوزیشن میں پاس ہوا۔ اسی سال میں نے اپنا نام درخواست دے کر تبدیل کرایا تھا۔ اور’’ عزیز الرحمن ‘‘رکھاتھا۔ یہ بات غالباً ۱۹۴۲ء کی ہے۔
میرا دینی شعور بالکل مفقود تھا، کیونکہ ماحول ہی دینی نہ تھا، جہالت اوربے دینی کا یہ عالم تھاکہ صرف عیدین اور رمضان شریف میں جمعہ کی نماز پڑھ لینا ہی بڑی دینداری تھی۔ دیوالی میں چراغاں، ہولی کی آگ پر پانی گرم کرکے بہت دنوںتک رکھنا، تعزیوں کے نیچے کو نکلناوغیرہ وغیرہ یہ ہمارامعاشرہ اور معمول تھا۔
تلاش معاش: میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ ہمارا گھرانہ مزدور کا گھرانا تھا۔ مڈل سے آگے پڑھنے کے امکانات نہ تھے۔ عمر بھی تقریباً سولہ سال کی ہوگئی ہوگی کہ میں نے بھی شروع میں چارپائی بننے اور کریشروں میں گننا ڈھونے، باغاتی فصل گھیرنے کی مزدوری کی ہے۔ کچھ دن نَل گاڑنے کا کام بھی کیا ہے۔ اورکچھ دن بجنور شوگر مل میں بھی نَل گاڑے ہیں۔ آخر میں ایک مسلمان انسپکٹر آف اسکولس آگئے تھے، انھوں نے مجھے پرائمری اسکول کا ماسٹر مقرر کردیا۔ ایک گاؤں جس کا نام ’’محمود پور‘‘ ہے، اور کوتوالی ونہٹور کے درمیان میں ہے، پڑھانے لگا۔ ماسٹروں میں سب سے چھوٹا اور کم عمر ماسٹر میں ہی تھا۔ لوگ مجھے ’’چھوٹا ماسٹر‘‘ کہا کرتے تھے۔ مگر میری علمی قابلیت کے سب معترف تھے۔ میں خوب پڑھاتا تھا۔ اس زمانے میں غالباً ساڑھے اکیس روپئے ماہانہ ملتے تھے۔ اب تو میں دھیرے دھیرے گنجائش دار ہونے لگاتھا۔ کپڑے بھی اُجلے پہننے لگا تھا۔ سر پر انگریزی بال سلیقے سے رکھتا تھا۔ ہفتے میں ایک دفعہ داڑھی بھی منڈاتا تھا۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ میں پھر عرض کرتا ہوں ؎

منظور ہے گذارشِ احوالِ واقعی ا پنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے

زندگی میں انقلاب
انھیں کی مطلب کی کہہ رہاہوں زبان میری ہے بات ان کی
انھیں کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی
اور اپنا حال تو ہمیشہ یہ رہا ہے ؎
سودہ گشت از سجدہ پیش بتاں پیشانیم چند برخود تہمت دین مسلمانی نہم
غالباً ۱۹۴۸ء کی بات ہے، اتنا اندازہ ہے کہ سبزیوں کے دن تھے، کہ میں صوفی رحمت اللہ صاحب نائی کی دوکان پر داڑھی منڈانے گیا تھا، غالباً دو آدمی اور مجھ سے پیشتر تھے، میں نے فرصت کو غنیمت جانا، ان کی چوکی پر پڑے رسالے ’’مولوی‘‘ کو پڑھنا شروع کردیا۔ حضرت ابوالدردائؓ کا قصہ لکھاتھا، اس کے پڑھنے سے دل کی حالت بدل گئی، جب میرا نمبر آیاتو میں نے صوفی جی سے عرض کیا کہ سر پراُسترا پھیر دو، اور داڑھی کا خط بنادو۔ انھوں نے ایک دو مرتبہ میرے منھ کو دیکھا اور پھر میرے کہنے کے مطابق اپنا کام شروع کردیا، گھر آکر میں نے کالروں کو کاٹ دیا، پائجامہ کی مہری چھوٹی کرادی، مجھے یادہے کہ عصر کی نماز میں جدیدحلئے کے ساتھ پڑھنے گیا، وضو کرنا بھی نہ آتا تھا اور دوسرے کو دیکھ کر وضوکیا، اور دوسرے کودیکھ کر نماز کیا پڑھی نقل اُتار دی، ہدایت میرا انتظار کررہی تھی، شام کو بازار گیا تو ایک حلوائی نے ایک اُردو کی کتاب مجھے دی، سرِورق نہ تھا، اس لئے اس نسخۂ کیمیا اثر کا نام بھی معلوم نہ ہوسکا، آج بھی اس کا ایک جملہ یادہے ۔
’’اگر توپیا کی نظر میں محبوب بننا چاہے تو مانجھے کا جوڑا پہن کر کونے میں بیٹھ جا‘‘
میں نے ایسا ہی کیا۔ ہمارے محلہ میں ایک بوڑھی عورت ’’بشیراً‘‘ رہتی تھی۔ نماز کی کتاب اور’’عم یتساء لون‘‘ کا پارہ میں نے اس سے پڑھنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے میری دینی تعلیم کی سب سے پہلی استاذ ہے۔ پارہ عم ختم کرنے کے بعد اپنے محلہ کے مکتب میں جاکر قرآن شریف پڑھنا شروع کردیا۔ داڑھی بھی کافی بڑی ہوگئی تھی، تہجد کی نماز اور اشراق اور اوّابین کی نمازبھی پڑھنی شروع کردی۔ قرآن شریف میں نے دو آدمیوں سے پڑھا۔ صوفی عبدالرحیم صاحب اور قاری عبداللطیف صاحب، صوفی رحمت اللہ صاحب نے میری رہنمائی کی۔نگینہ کے شاہ محمد یٰسین صاحبؒ -خلیفہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ- نہٹور بہت آیا کرتے تھے ، ان کی کتابوں اور مریدوں سے ذکر جہری پاس انفاس سیکھا۔ میںخوب ذکر کیا کرتا تھا۔ ذکر کے بہت عمدہ اثرات میرے قلب پر وارد ہورہے تھے۔ دعاء کیا کرتا تھا کہ اے اللہ! قرآن سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرما۔ دل میں خیال آتا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ مگر ہدایت تو میرے گرد گھوم رہی تھی، اجتبائیت نے بھی ہاتھ تھام لیاتھا۔ جامع مسجد کے مدرسہ میں حضرت مولانا سید حامد حسن صاحب گنگوہی (شاگردرشید حضرت شیخ الہند،اور ہم سبق حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ )کے سامنے آمدنامہ اور پھر گلزار دبستاں اور پھر میزان منشعب، نحومیر پڑھنا شروع کردیا۔ یہ ۱۹۴۹ء کا زمانہ تھا۔ ایک سال میں میں نے قدوری، کافیہ تک پڑھ لیا۔ دوسرے سال شرح جامی، شرح وقایہ، کنز الدقائق، نورالانوار، اورمنطق کی کتابیں نفحۃ الیمن، سب پڑھ ڈالیں۔ پوری پوری رات پڑھا کرتا تھا۔ بس استاذ کا کام تو اتناتھا کہ وہ سن لیا کرتے تھے۔ میں تنہا پڑھنے والا تھا اور وہ تنہا پڑھانے والے تھے۔ سائے کی طرح ساتھ ساتھ رہا کرتا تھا۔ دن میں تین تین، چار چار مرتبہ سبق ہوا کرتا تھا۔ بہت جلد میں نے سب کتابوں کو بالاستیعاب پڑھا ہے۔ اور مزید یہ کہ دوسرے سال کی ایک طالب علم محیی الدین سلمہ(۱) ان کو میں نے شرح مائۃ عامل، ہدایۃ النحو بھی پڑھانا شروع کردی تھی۔ وہ دن اور آج کی تاریخ پڑھانے کا مشغلہ میرا ہمیشہ رہا۔ دیوبند رہا تو وہاں پڑھا بھی اور پڑھایا بھی۔
عمر ۲۵سال کی ہوچکی ہوگی۔ جلد اور زیادہ پڑھنے کا شوق تھا۔ ہماری بستی میں ایک مولانا ظل الرحمن صاحب رہا کرتے تھے۔ دوکان کرتے تھے۔ان کی خوشامد کرکے ان سے مختصرالمعانی بعد مغرب پڑھنا شروع کردی۔ انھوں نے اپنے گھر سبزی لگارکھی تھی اور ایک چھوٹا کنواں بھی کھدوالیا تھا۔ پہلے میں ان کی سبزی کو پانی دیتا اور پھر وہ سبق پڑھاتے۔ رات دن ایک دھن سوار تھی۔ مجبوراً سویا کرتا تھا۔ نیند کا آنا مجھے برا معلوم ہوتا تھا۔ رات کا مشغلہ کتابوں کو پڑھنا اور ذکر تھا۔ یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ اس وقت میری بہت اچھی حالت تھی۔ بعد میں وہ حالت نہ رہی۔ فارغ التحصیل مولانا اور مفتی تو ہوگیامگر وہ بات کہاں؟ ؎

سودہ گشت از سجدہ پیش بتاں پیشانیم چند برخود تہمت دین مسلمانی نہم
ہاں! یہ تو عرض کرنا بھول ہی گیا، مجھے شاعری کا شوق تھا۔ پہلے ’’زہد‘‘ تخلص تھا اور مولانا ہونے کے بعد ’’محسن‘‘ تخلص رکھ لیا۔ اُردو ادب کی بہت کتابیں میرے پاس تھیں۔ بہت سے دیوان بھی تھے۔ سب کو فروخت کرکے میں نے دینی کتابیں خریدیں۔ شروع ہی سے درسی کتابیں، ان کی شروحات بہت تھیں۔ جب دیوبند پڑھنے گیاتو میرے پاس کتابوں کاکافی ذخیرہ تھا۔ دیوبند کے قیام میں بھی کتابیں خریدنے کاسلسلہ رہا۔ ٹیوشن پڑھانے کی جو آمدنی ہوتی اس سے کتابیں خریدا کرتا تھا۔ غرض کہ میں ایسامولانا نہ تھا جس کے پاس کتابیں نہ ہوں۔ اب بھی میرے پاس کتابوں کابڑا ذخیرہ ہے۔ اسی سہارے پر فتاویٰ نویسی اورتصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
دیوبند میں داخلہ:
۱۹۵۱؁ء یا ۱۹۵۲؁ء میں میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوگیا۔ پہلے سال مجھے ہدایہ اوّلین، جلالین شریف، مقاماتِ حریری، ملا حسن، میبذی، سراجی پڑھنے کو ملی۔ دوسرے سال بیضاوی شریف، مشکوٰۃ شریف، ہدایہ آخرین پڑھی۔ تیسرے سال دورہ حدیث شریف پڑھا۔ میرے اساتذہ میں حضرت مولاناسیدحسین احمد صاحب مدنیؒ، مولانا سید اعزاز علی صاحبؒ شیخ الادب، مولانا بشیر احمد خاں صاحبؒ، مولانا جلیل احمد صاحب کیرانویؒ، مولانا سید فخرالحسن صاحب،ؒ مولانا معراج الحق صاحب ؒ وغیرہ حضرات ہیں۔ دارالعلوم دیوبند میں میں نے درسی کتابوں میں سے کوئی کتاب بلا اس کی عربی شرح کے مطالعہ کے نہیں پڑھی۔ حد یہ ہے کہ دورہ حدیث شریف جیسی مشغولیت کے سال میں فتح الملہم شرح نوووی، اوجز المسالک، فتح القدیر، عینی شرح ہدایہ کو میں نے بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے۔ طحاوی شریف سے مجھے بہت دلچسپی تھی، اس کے اسناد اور مکررات کو حذف کرکے مختصرالطحاوی ترتیب دی تھی۔ ۱۳۷۳؁ھ میں میں نے دورۂ حدیث سے فراغت کی۔
دورہ حدیث سے فارغ ہونے کے بعد میری شادی نہٹور کے ایک صوفی منش شاہ محمد یٰسین صاحب کے مرید ملا سلیم اللہ صاحب کی بیٹی مسماۃ طاہرہ سے ہوگئی تھی۔ لیکن میری تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ دورہ حدیث کے بعد میں نے دارالافتاء دیوبند میں داخلہ لیا۔ اسی سال شام کے وقت حکیم سید محفوظ علی صاحب سے طب پڑھی اور عملاً ان کے مطب میں کام کیا۔ مرحوم ہی نے کوشش کرکے میرا رجسٹریشن کرادیاتھا۔ اسی سال میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوا۔ ٹھیک ایک سال تک ان سے تعلیم سلوک حاصل کی۔ ۱۳۷۴؁ھ میں انھوں نے مجھے اجازتِ بیعت مرحکمت فرمائی۔ اور اپنی مستعمل ٹوپی مرحمت فرمائی۔(اب یہ ٹوپی اور بزرگوں کے کچھ تبرکات راقم الحروف کے پاس ہیں)۔ ؎

وہ رند ہوںمیں جس کے لئے شیخ حرم نے راتوں کھلے بابِ حرم چھوڑ دئیے ہیں
مطب اور ملازمت:
دارالافتاء اور مطب سے فارغ ہوکر میں چند مہینے قاری عبدالرحمن صاحب کے مدرسہ رحمانیہ میں مدرس رہا۔ اس کے بعد اپنے وطن چلا آیا اور یہاں آکر میں نے اپنا مطب شروع کردیا۔ اس دن میرے پاس پانچ روپئے تھے، دو روپیہ تو گھر کے خرچ کے لئے اپنی اہلیہ کو دے دئے اور دو روپئے کی دوا لے آیا ایک روپیہ باقی رہا، اب مجھے روزانہ پانچ روپئے کی مزدوری ہونے لگی۔
مطب اور زندگی کے تمام شعبوں میں میری اہلیہ نے میری بہت مدد کی۔ اگر دیکھا جائے تو میرے تمام مشاغل مدرسہ، فتاویٰ نویسی، تصنیف وتالیف اور سبھی کاموں میں وہ بہت زیادہ معین رہیں۔ بظاہر ان کاموں کی نسبت میری طرف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کام اس رابعہ صفت خاتون کے مرہونِ منت ہیں۔ میرے والد اور تائے نابینا تھے۔ اورتائے لاولد بھی تھے۔ ان کی خدمت اور گھر کاکام اور تمام معاملات کو پورا کرنا کلمۂ طیبہ کے سیکڑوں نصاب اس نے پورے کئے۔ قرآن شریف بلاناغہ اور تسبیحات اور معلوم نہیں کیا کیا اتنا پڑھا اورپڑھتی ہے۔ (أطال اللّٰہُ بقاء ہا)کہ میں شمار سے عاجز اور حیران ہوں کہ یہ عورت کس طرح پڑھتی ہے؟ رات کو میرے ساتھ بیدار ہوجانا، دن بھر بچوں اور گھر کا کام کاج، صاحب ِ کشف اور کرامات خاتون ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے اوپر تمام نعمتوں کومکمل کردیا ہے۔ کیا کروں میں ہی ناقدر داں رہا ؎

ان کے اَلطاف کریمی ہزاروں ہیں تجھ پر تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
میں نے زیادہ سے زیادہ چھ مہینہ مطب کیا ہوگا کہ دیوبند گیا تھا کہ حضرت مدنی قدس سرہ نے فرمایا: بجنور چلے جاؤ، میں یہاں یتیم خانہ بجنور میں نائب مہتمم کی حیثیت سے آیاتھا۔ ساٹھ روپئے ماہانہ میری تنخواہ مقرر ہوئی۔ یہ بات غالباً ستمبر ۱۹۵۷ء کی ہے۔
بجنور میں مدرسہ مدینۃالعلوم کا قیام
[/b][/size[/size]]
 
مفتی عزیزالرحمٰن صاحب بجنوری رحمۃ اللہ علیہ قسط نمبر تین
بجنور میں مدرسہ مدینۃ العلوم کا قیام

بجنور اسی ضلع کا صدر مقام ہے اس شہر میں تین محلے بہت بڑے ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت کے ہیں، قاضی پاڑہ، چاہ شیریں اور مردھگان۔ یہاں مسلمانوں کے صرف دو ادارے تھے اور ہیں مسلم یتیم خانہ، مسلم انٹرکالج، تیسرا مدرسہ رحیمیہ، جو عرصۂ دراز سے تقریباً بند ہی تھا۔ غرض کہ عربی کی تعلیم کا یہاں کوئی انتظام نہیں تھا۔ میں نے بالکل ذاتی طور پر اپنے رہنے کی جگہ میں اِدھر اُدھر پھرنے والے بڑے لڑکوں کو ترغیب دے کر پڑھانا شروع کیا۔ سال بھر میں مدرسہ کو شہرت حاصل ہوگئی اور باہر دیہات سے بھی لڑکے پڑھنے آنے لگے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ باہر کے طلبہ کو یتیم خانہ میں رکھنے سے کچھ گریز سا ہوا۔ اس لئے مشورے کے بعد میں نے اپنا مدرسہ جامع مسجد قاضی پاڑہ میں منتقل کرلیا (اور اس کا ایک تکلیف دہ پس منظر ہے اللہ تعالیٰ مرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور جو زندہ ہوں ان کو ہدایت دے) اس وقت مجھے ایک کمرہ کا ساٹھ روپئے ماہانہ کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ ہاں اتنا اور عرض کردوں کہ حضرت مدنیؒ کی نسبت سے میں نے اس مدرسہ کا نام ’’مدرسہ مدینۃ العلوم‘‘ رکھا۔ میں نے مسجد سے متصل جو حجرہ اورکمرہ تھے کرایہ پر لے لئے تھے۔اس طرح میں نے یہاں آٹھ سال تک پڑھایا۔ ۱۹۶۷؁ء میں مجھے اس جگہ کو چھوڑنا پڑا اور محلہ مردھگان میں کرایہ کاایک مکان لے کر وہاں کام شروع کردیا۔ اور اس کا بھی ایک تکلیف دہ پس منظر ہے۔ (اللہ تعالیٰ مرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور جو زندہ ہوں ان کو ہدایت نصیب فرمائے)
گردشِ ایام تیرا شکریہ ہم نے ہر پہلو سے دُنیا دیکھ لی​
اس جگہ میں اپنے بعض تجربات لکھنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔​
(۱) اگر کسی بھی طے شدہ معاملے سے فریق ثانی ہٹ جائے یاگریزکرے تو اس معاملے کی پابندی کرنے کے لئے ضد نہ کرنی چاہئے، ورنہ سنگین نقصانات ہوں گے۔
(۲) اگر کسی جماعت سے تعلق ہے تو وہ قائم رہنا چاہئے، جماعت کو نہ چھوڑنا چاہئے، ورنہ سنگین نقصانات ہوں گے اور سنگین پریشانیوں کامنھ دیکھناپڑے گا۔
مثل مشہور ہے کہ بارہ سال میں توکوڑی کے بھی بھاگ کھل جاتے ہیں۔ ٹھیک دس بارہ سال حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی اس یادگار کو اِدھر اُدھر لئے پھرتا رہا۔ آخر اکتوبر ۱۹۶۸؁ء میں ایک زمین خرید کر مدرسہ تعمیر کردیا۔ اب بحمداللہ مدرسہ اپنی تعمیر میں ہے۔ اور دین کاکام چل رہا ہے۔
یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ تعمیر مدرسہ میں میری اہلیہ برابر کی شریک ہے۔ اس نے اپنا تمام زیور مدرسہ کی زمین خرید نے کے لئے مجھے دیدیا تھا۔ ہمارے گھر کی چہار دیواری بھی نہ تھی، کواڑ بھی نہ تھے۔ میری اہلیہ اپنے بچوں کو لئے اسی میں رہتی رہی۔ اور دو نابیناؤں کی خدمت کرتی رہی۔ دورانِ تعمیر جب میں ایک دن گھر گیا تو میری اہلیہ نے روکر کہا۔
’’اگر دنیامیں قسمت میں ایک جگہ رہنا نصیب نہیں ہے تو کیا ہوا، آخرت میں ضرور ہوگا، آپ دین کا کام کرتے رہیں، ہماری فکر نہ کریں‘‘۔
۱۹۶۰ ء؁ میں ایسا اتفاق ہواکہ میری چھوٹی بچی سڑک پر کھیل رہی تھی کہ ایک جیپ سے ٹکر ہوگئی اور پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تب میری اہلیہ ایک رشتہ دار کو ہمراہ لے کر بجنور ہسپتال پہنچی، بعد مغرب مجھے علم ہوا تو میں اسپتال پہنچا۔ بحمداللہ علاج کے بعد بچی ٹھیک ہوگئی، اس وقت سے لے کر آج تک سب بچے میرے پاس اور میرے ساتھ رہتے ہیں۔
تصنیف وتالیف:
میرے مشاغل چار قسم کے ہیں: (1) پڑھانا۔ (2) مدرسہ کے لئے چندہ کرنا۔ (3) فتاویٰ نویسی، تصنیف وتالیف۔ (4) گھر کے اور مدرسہ کے انتظامات اور بس۔
میں نے کبھی کسی سے لکھنا نہیں سیکھا، اتفاق سے جب میں بجنور آیاتو غالباً اکتوبر ۱۹۵۶ءمیں مدینہ اخبار بجنور کے سیرت نمبر میں پروفیسر محمد اجمل (پرائیویٹ سکریٹری مولانا آزاد) کا مضمون سیرتِ قرآنیہ کے نام سے چھپا تھا۔ اس میں بعض باتیں قابل اعتراض تھیں، مثلاً: قرآنِ پاک کو فکر نبوی صلی اللہ عیلہ وسلم اور ترتیب قرآن کو سرکاری ترتیب یعنی حضرت عثمان غنیؓ کی ترتیب قرار دیا تھا۔ اس کا جواب میں نے لکھا۔ یہ پہلا قلمی مضمون تھا۔ جب اس کا ذکر میں نے حضرت مدنیؒ سے کیا تو انھوں نے فرمایا: اور لکھنا چاہئے۔ پھر میں نے تین قسطوں میں جواب الجواب لکھا۔ اس کے بعد بیرسٹر محیی الدین اس میں شریک ہوئے اور پھر غالباًایک ڈیڑھ سال یہ سلسلہ چلا تھا۔
دسمبر ۱۹۵۷؁ء میں حضرت مدنیؒ کا وصال ہوگیاتو اس سے متأثر ہوکر میں نے ایک مضمون چند قسطوں میں ’’انفاسِ قد سیہ‘‘ کے نام سے لکھا۔ کم از کم چھ مہینہ یہ سلسلہ رہا۔ یہ مضمون بہت پسند کیا گیا۔ اور سید اختر مرحوم ایڈیٹر مد ینہ نے اس کو کتابی شکل میں منتقل کرنے کا میرابہت تعاون کیا۔ انھیں کے تعاون سے میری پہلی کتاب انفاسِ قد سیہ چھپی، اور چندایڈیشن اس کے شائع ہوئے اس کے بعد سلسلہ جاری ہوگیا جس کی فہرست یہ ہے:
(۱) انفاسِ قدسیہ
(۲ ) تذکرہ شیخ الہند
(۳)تذکرہ مشائخ دیوبند
(۴ ) حیاتِ امام اعظم ابوحنیفہؒ
(۵) سیرتِ خیرالعباد (ترجمہ زادالمعاد چار جلدوں میں)
(۶) سیرتِ رسالت مآب
(۷) سیرتِ اصحاب النبیؐ
(۸) مخدوم صابر کلیری
(۹) شرح معانی الآثار (مذہب مختار)
(۱۰) وصایا
(۱۱) آخری رسولؐ
(۱۲) تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانی
(۱۳) محبت والے
(۱۴) تفسیر تقریر القرآن (۸/جلد میں)
(۱۵) تاریخ الاحکام
(۱۶) تقصیرات تفہیم القرآن
(۱۷) ولی ٔ کامل ( تذکرہ شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ)
(۱۸) تذکرہ مولانا یوسف صاحبؒ
(۱۹) عزیز المفتی (مجموعہ فتاویٰ زیر طبع)
(۲۰) ترجمہ بستانِ ابواللیث سمرقندی (غیرمطبوعہ)
(۲۱) مودودی صاحب اور ان کی جماعت (غیرمطبوعہ)
(۲۲) تاریخ الجن والسحر
(۲۳)سیرتِ سید المرسلین
(۲۴) اسلامی دستور کے بنیادی اور رہنما اصول
(۲۵) دریا بکوزہ، وغیرہ۔
معلوم رہے یہ سب کتابیں کسی سرمائے کے بل پر طبع نہیں ہوئیں، معلوم نہیں اللہ تعا لیٰ نے کیاکیااسباب پیداکئے’’۔ تفسیرتقریر القرآن‘‘جس قدر طبع ہوئی اور ہوگی وہ سیٹھ محمد مصطفیٰ اٹالین بیکری احمد آباد اور جناب لئیق احمد صاحب مدراس کی مرہونِ منت ہے۔ کتابوں کی تعداد مختلف مضامین اور فتاویٰ دیکھ کر مولانا اسعد مدنی صاحب نے ایک دفعہ فرمایا تھا’’ آپ کے مرنے کے بعد لوگ حساب لگائیں گے کہ آپ کی لکھی سطریں زیادہ ہیں یا آپ کی عمر کے منٹ‘‘۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ اور مفتی عتیق الرحمن صاحبؒ نے ( جب وہ میرے مدرسہ میں آئے تھے) فرمایاتھا’’یہ مدرسہ اور آپ کی کتابیں اور چندہ اورپڑھانا دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ آپ نے وقت کی بھی کھال کھینچ ڈالی‘‘۔
میری ذریات:
میرے یہاں چھ بچے ہوئے۔ بحمد اللہ سب سلامت اور باعافیت ہیں۔ یہ سلامت رہیں ہزار برس،ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔ دو لڑکیاں اور چار لڑکے۔ میری بڑی لڑکی مولوی ہے اور عیال دارہے۔ اسی طرح دوسری لڑکی مولوی تو نہیں مگر مولوی سے کم بھی نہیں، عیال دار ہے۔ دو بڑے لڑکے مولوی ومفتی ہیں۔ بڑے سے چھوٹالڑکا عالم کے علاوہ گریجویٹ ہے اور مشینری کا وکمپیوٹرکا انجینئر بھی ہے۔ بڑا لڑکا عیال دار ہے۔ تیسرا لڑکا ماسٹر ہے اور عیال دار ہے۔ چوتھالڑکا شادی شدہ ہے اور ایک لڑکا ہے۔ ( اب ان کا انتقال ہوگیا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون)
(۱) میرے یہاں سب سے پہلے لڑکی پیداہوئی جس کانام میں نے بہت غور وفکر کے بعد ’’عابدہ‘‘رکھا۔تاریخ پیدائش: ۲۳/رمضان المبارک ۱۳۷۳؁ھ، مطابق : ۲۴/اپریل ۱۹۵۷؁ء دن چہارشنبہ قبل غروبِ آفتاب۔ اس کو میں نے بڑے شوق اورمحنت سے پڑھایا۔ قرآن شریف اپنی ماں سے پڑھا۔ اس کے بعد عربی فارسی درسِ نظامی کی تمام کتابیں پڑھائیں۔ ارادہ تھا کہ اس کے ذریعہ عورتوں میں تعلیم دین کو رائج کروں گا۔ مگر سوئے اتفاق دوسرے بچے کی پیدائش سے بیمار رہنے لگی۔ ماشاء اللہ گیارہ بچے ہیں۔ سب بڑے ہوچکے ہیں اب وہ نانی ہوگئی ہے۔
(۲) اس کے بعد ۵/نومبر ۱۹۵۹؁ء مطابق: ۳/جمادی الاولیٰ۱۳۷۹؁ھ دن پنج شنبہ دوسری لڑکی پیدا ہوئی، جس کا نام ’’عبیدہ‘‘ ہے۔ اورتاریخی نام ’’فضیلت بانو‘‘ ہے۔اس نے قرآن شریف اپنی ماں سے پڑھا، باقی دینی تعلیم اور عربی فارسی میں نے پڑھائی۔ اس کی شادی میں نے اپنے رشتہ داری میں غازی آباد میں کردی تھی۔ ماشاء اللہ دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں، یہ بھی نانی ہوچکی ہے۔
(۳) اس کے بعد ۲۹/دسمبر ۱۹۶۱ مطابق: ۱۳۸۱؁ھ کومیرا بڑا لڑکا عبید الرحمن پیدا ہوا۔ تاریخی نام’’فروغ الدین‘‘ ہے۔ مجھ سے موقوف علیہ، دورۂ حدیث تک پڑھا، پھرجامعہ فتحپوری دہلی سے فارغ التحصیل ہوا۔ اُردو میں ادیب کامل تعلیم حاصل کی۔ اس کے چھ بچے ہیں، تین لڑکے اور تین لڑکیاں۔ کاروباری ہونے کے باوجود علمی ذوق رکھتاہے۔
(۴)اس کے بعد ۴/اپریل ۱۹۶۴؁، مطابق: ۲۰/ذی قعدہ ۱۳۸۳؁ھ کودوسرا لڑکا عابدالرحمن پیدا ہوا۔ موقوف علیہ، دورۂ حدیث شریف تک مجھ سے پڑھ کر جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سے فارغ التحصیل ہوا۔ اور میرے پاس مدرسہ میں پڑھانا شروع کردیا۔ اس کا کہنا ہے:
اباّ! ہماراگھر ہندوستان میں علم کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ میں آپ کی امانت مدرسہ کی خدمت کروں گا ‘‘۔
پھر اس کو فتاویٰ نویسی کاشوق پیدا ہوا۔ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور بذریعہ ٹرین روزآنہ جانا، دن بھر وہاں فتاویٰ نویسی سیکھنا اور رات کو گھر آجانا، ایک سال تک یہی معمول رہا۔ ساتھ ساتھ مدرسہ میں بھی برابر پڑھاتارہا۔ الیکٹرانک کا انجینئر، انورٹر، کمپیوٹروغیرہ کا اچھامستری ہے، گریجویٹ ہے۔ دونوں بھائیوں کو میری جانب سے اجازتِ بیعت اور خلافت حاصل ہے۔ دونوں ذاکر اورشاغل ہیں۔
(۵) اسکے بعد تیسرا لڑکا عباد الرحمن، ۱۵/مارچ ۱۹۶۷؁ء مطابق: ۳/ذی الحجہ ۱۳۸۳؁ھ کو پیداہوا ۔ جس دن وہ پیداہوا اسی شب میں نے ایک خواب دیکھا کہ خواجہ حضرت نظام الدین اولیائؒ نے فرمایا: آپ کے لڑکا پیدا ہوگا، اس کا نام غیاث احمد رکھنا، چنانچہ نام تو اس کا عباد الرحمن ہی ہے لیکن عرفیت میں ’’غیاث‘‘ مشہور ہے۔ بی۔اے تک تعلیم حاصل کی، اور بہترین خطاط ہے اب سرکاری ماسٹر ہے۔ اس کے تین بچے ہیں، دو لڑکی ایک لڑکا۔سب سے چھوٹا اورسب کے اخیر میں ایک لڑکا پیدا ہوا، تاریخ پیدائش: ۶/دسمبر۱۹۷۱، مطابق: ۶/شوال ۱۳۹۰ھ ۔ اس کے ایک بچہ ہے۔ یہ میراچھوٹا سا کنبہ ہے۔
یہ سلامت رہیں ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار​
 
السلام علیکم
از دیرو حرم سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ
چوتھی قسط
گفتنی نا گفتنی
اِک آگ کا دریا ہے اور تیر کر جانا ہے​
گزشتہ سالوں میں دارالعلوم دیوبند میں ایک سنگین ہنگامہ ہوا تھا، کہ دارالعلوم کے ایک فریق معاند نے دراندازی کرکے دارالعلوم پر قبضہ کرلیا تھا۔ فریقین کی طرف سے مقدمات بھی دائر ہوئے۔ معلوم نہیں ان کا کیا انجام ہوا ہے۔ دارالعلوم دیوبند اب جن ہاتھوں میں ہے ترقی کررہا ہے، اور ایک دارالعلوم کی جگہ دو ہیں، کبھی یہاں سے حضرت سید احمد شہیدؒ گذرے تھے۔ دارالعلوم کی جگہ ان کو علم کی خوشبو محسوس ہوئی تھی۔ اب اگر کوئی دوسرا اس درجہ کا گزرے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
اس زمانے میں حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ بہت کرب میں رہے۔ اور اسی بے چینی اور کرب میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد میرے ہم سبق مجھ سے ملے، جو دراندازوں میں سے تھے۔ میں نے ان سے صاف کہہ دیا تھا کہ یہاں بھی عافیت نہیں اور وہاں بھی عافیت نہیں۔ اسی وقت میں نے متعدد آدمیوں سے حضرت قاری صاحبؒ کے بارے میں عرض کیا تھا جو کچھ ہوا یہ ہونا ہی تھا اور حضرت قاری صاحبؒ کے بارے میں یہ ضرور ہونا چاہئے تھا اور ہوا۔ لوگوں کو تعجب ہوا لیکن جب میں نے اس اجمال کی تفصیل بیان کی تو مطمئن ہوگئے۔
وجہ یہ ہے کہ حضرت قاری صاحبؒ پر اللہ تعالیٰ نے تمام نعمتوں کو فراوانی کے ساتھ مکمل کیا تھا۔
(۱) علماء میں اتنا حسین انسان کم ہی ہوا ہے۔
(۲) علم بھی وافر اور بہت اچھے مقرر کہ ایسا ہونا مشکل ہے، صاحب قلم بھی کہ بہت کتابیں آپ کے قلم سے
وجود میں آئی ہیں۔
(۳) عزت اور مرتبہ ایسا کہ دنیائے اسلام کے اپنے زمانے میں مقتدا اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اعلیٰ ہونے
میں عالم اسلام کا واحد مرکزی عالم۔
(۴) اولاد بھی بہت اور سب لائق۔
(۵) دولت بھی بہرحال ضرورت کے مطابق کافی۔
(۶) ہر طرف اور ہر جگہ عزت اور احترام کے ساتھ دیکھے جاتے تھے، مگر ایک نقص تھا اور ایک کمی تھی کہ
نائب ِ رسالت کے منصب پر فائز ہونے کیلئے رسول ﷺ جیسی مصیبت اور ان کا سا ابتلاء ضروری تھا اور یہ
ان کو نصیب نہیں تھا، لیکن مصائب نے اس مرتبہ پر بھی پہنچا دیا۔
(۱) {کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ} (الآیۃ)
اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے ایک دشمن جنات اور انسانوں میں سے ضرور مقرر کیا ہے۔
(۲) ’’یَبْتَلِیَ الرَّجُلَ حَسْب دِیْنِہٖ‘‘ (الحدیث)
آدمی کی آزمائش بقدر اس کے دین کے ضرور ہوتی ہے۔
(۳) أشَدُّ البَلاء الأنبِیَاء ثُمَّ الأمثَلُ فالأمثَلُ (الحدیث)
ابتلاء میں انبیاء کی آزمائش شدید ترین ہوتی ہے اور پھر امثل وامثل۔
انبیاء ؑ سے نسبت رکھنے والوں کے لئے ابتلاء اور مصیبت لازمی ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت مضمر ہوتی ہے۔ اور یہ ہر بڑے رتبے والے کے لئے بہت ضروری ہے۔
کچھ اپنے بارے میں
یہ سرخی دیکھ کر میرے بارے میں فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں۔ بعض مصیبتیں ترقی ٔمراتب کے لئے ہوتی ہیں۔ اور بعض کفارۂ سیئات کے لئے۔ میرے بارے میں دوسرا درجہ یقین فرمائیں۔ چونکہ گذارشِ احوال اس لئے بھی مقصود ہے کہ اس میں آنے والی نسلوں اور پڑھنے والوں کا فائدہ ہے۔
مدرسہ کے جملہ معاملات میں میں ہمیشہ امین اور مخلص رہا ہوں۔ میں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ مسلم قوم جو اکائیوں کے مجموعے کا نام ہے، اس کی تمام اکائیاں پڑھ لکھ کر ہر طرح قابل ہوجائیں، چنانچہ حق تعالیٰ کی توفیق سے اس ضلع میں میرے بالواسطہ اور بلاواسطہ شاگردوں کی تعداد کثیر ہے۔ خاص شہر میں کافی مدرسے اور مکتب موجود ہیں۔ کبھی یہاں رمضان شریف میں سنانے کے لئے باہر سے حفاظ آتے تھے ، اب یہاں اتنے حفاظ ہوگئے کہ انھیں باہر جگہ تلا ش کرنی پڑتی ہے۔ البتہ میں نے اس بارے میں ایک غلط انتخاب کیا۔
مفید الطالبین، نفحۃ الیمن میں ایک بڑھیا کی حکایت لکھی ہے کہ اس کو کہیں سے ایک بھیڑئیے کا بچہ مل گیا۔ اس نے اس کی پرورش اپنی بکری کے دودھ سے کی۔ جب بچہ بڑا ہوا تو اسی بڑھیا کی اسی بکری کو پھاڑ دیا۔ اس پر بڑھیا نے اپنی زبان میں ایک مرثیہ لکھا ہے۔ حضرت شیخ سعدیؒ نے بھی بجا طور پر فرمایا:
(۱)
پرتوے نیک آں گیرد ہر کہ بنیادش بدست
تربیت ِ نااہل را چوں گردگاں بر گنبد است
(۲) اَبر گر آبِ زندگی بارد ہرگز از شاخِ بید بر نہ خوری
بافرومایہ روزگار مبر کز نے بوریہ شکر نہ خوری
(۳) عاقبت گرگ زادہ گرگ شود گرچہ با آدمی بزرگ شود
(۴) زمین شور سنبل برنیار د رو تخم عمل ضائع مگرداں
نکوئی بابداں کردن چنانست کہ بدکردن بجائے نیک مرداں​
بہرحال میں نے غلطی کی تھی، اس کا خمیازہ بھی مجھے بھگتنا پڑا۔ ہوا یہ کہ میں نے ۱۱/مئی ۱۹۸۰؁ء کو اپنے مدرسہ کے ایک ملازم کو برخاست کردیا۔ اس نے شہر میں ایک ہی کٹیگری کے لوگوں کی بھیڑ اکٹھا کرلی، نتیجہ یہ ہوا کہ ٹھیک بارہ سال میں اتنے فرضی مقدمات ومتفرق قضایا میرے ذمہ لگادئیے جتنے ایک سال کے مہینے ہوتے ہیں لیکن تماشہ یہ کہ ایک مقدمہ پر بھی چارج نہ لگ سکا اور خارج ہوگئے۔ جب کہ ان میں سے ہر ایک معاملہ ایسا تھا کہ میں ہی نہیں میری پوری نسل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہلاک اور برباد ہوجاتی، مگر خدا جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے آدمی جو چاہتے ہیں وہ نہیں ہوتا۔ یہ زمانہ میرے لئے اور میری اہلیہ کے لئے اور بچوں کے لئے نہایت ہی سوہانِ روح تھا، میں اور میری اہلیہ پوری پوری رات رویا کرتے تھے، دعاء کرتے، وظیفے پڑھتے مگر صبح نمودار نہ ہوتی، اور مصائب کا خاتمہ نظر نہیں آتا۔ بارہ سال کی مدت کم نہیں ہوتی اس نے مجھے اور میری اہلیہ کو بوڑھا کردیا، مریض بنا دیا۔ بہرحال حق تعالیٰ شانہ کا ہزاراں ہزار شکر کہ صبح ہوئی اور مصیبت کی تاریکی دور ہوئی، اگرچہ دشمن زندہ ہیں مگر زبوں حال ہوکر دین وایمان، عزت سب کچھ ختم، انسانی شرافت ختم، لیکن ابھی پورا انجام سامنے نہیں آیا۔
اِک انقلاب پس ِ انقلاب آئے گا کہیں سے آئے ستم کا جواب آئے گا​

یوں بھی ہوتا ہے کبھی ظلم کے پتھر کا جواب
آئینہ ٹوٹ کے خنجر میں بدل جاتا ہے​
جتنے بھی اہل باطل ہوئے ہیں ان کا سوئے خاتمہ اور ہلاکت اہل حق کے سامنے ہوا ہے۔ حضراتِ انبیاء علیہم السلام ہوں یااہل ولایت وتقویٰ یا اہل علم، ابتدائے دنیا سے لے کر آج تک ایک مثال بھی ایسی نہیں ہے کہ ان کے دشمن انھیں کے سامنے اپنے انجامِ بد کو نہ پہنچے ہوں۔ وَلَیْسَ عَلیَ اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ۔
اتنا اور عرض کردوں کہ یہ سب کچھ جو ہوا ایک دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر تھی۔
۵/شوال المکرم ۱۳۸۹؁ھ دوشنبہ کی شب میں دیکھا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مزار کی زیارت کے لئے جارہا ہوں، سامنے ایک بڑا پھاٹک ہے، معاً یہ خیال ہوا، اس جگہ پیروں کے ذریعہ نہیں چلنا چاہئے، فوراً سینے کے بل لیٹ گیا، اور آگے کو کھسکنا شروع کیا، اور غیرمحسوس طور پر قبرشریف کے قریب پہنچ گیا، قبرشریف کھلی تھی، دائیں طرف کو کوئی صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ﷺ ان کو کچھ املاء کرارہے تھے، میں غیرمحسوس طور سے پہنچا اور دوزانو گردن جھکاکر بیٹھ گیا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کرلیا اور میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: رَضیتُ باللّٰہ ربّا وبالإسلامِ دینًا وبمُحمّدٍ ﷺنبیّا ورسُولاً۔ آپ ﷺنے اشارہ سے فرمایا اچھا ٹھہر جائیے، اور پھر لکھانا شروع کردیا۔ اور میری آنکھ کھل گئی۔
میں نے اس خواب کی تعبیر بہت حضرات سے دریافت کی مگر کوئی نہ بتا سکا، کچھ تھوڑا حکیم رشید محمد عرف ننھومیاں گنگوہیؒ نے فرمایا، مگر میرے دل کی بات یہ ہے کہ میرے مذکورہ حالات خواب کی تعبیر ہیں۔
ترک وطن:
 
السلام علیکم
از دیرو حرم سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ
پانچویں قسط


ترک وطن:​
میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ ۱۹۷۰ء میں میرے بچے بجنور آگئے تھے اس وقت سے لے کر ۱۹۹۱ء تک میں نے اپنے مکان میں بلاکسی کرائے کے اپنے کسی عزیز کو مکان گھیرنے کے لئے رکھا، آخر میں ایک قریبی رشتہ دار بارہ سال مکان میں رہا، مکان کی مرمت اور بجلی کا بل میں ادا کرتا رہا۔ ۱۹۹۱ءمیں میں نے ارادہ کیا کہ دو لڑکوں کو نہٹور آباد کردیا جائے، اس کے لئے میں نے اپنے اہلیہ کو سامان کے ساتھ نہٹور بھیج دیا، تو میرا چاہنا نہ ہوا باقی خدا کا چاہا ہوا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے قریبی رشتہ داروں نے اتنا تنگ کردیا تھا کہ آپ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ہمارے رشتہ داروں نے مکان میں رہنے والے بھانجے کو اتنا چڑھایا کہ وہ احسان فراموش ہوگیا۔ اور بلاکچھ لئے مکان خالی کرنے سے انکار کردیا۔ میرے سامنے اب تین صورتیں تھیں: مقدمہ لڑاؤ، یا پولیس سے مدد لوں، یا مکان کو فروخت کردوں۔ میں نے آخری صورت کو غنیمت جانا، جیسے ہی یہ ارادہ کیا، میرے عزیز آپس میں طے شدہ پروگرام کے تحت ایک خریدار کو لائے اور مکان میں نے اس کے ہاتھ فروخت کردیا۔ اور قریباً پچیس ہزار روپئے مسجد میں خدا کی قسم کے بعد اُدھار کرلیا جو مارا گیا۔
میرے رشتہ داروں نے اسی پر بس نہ کی بلکہ ایک دور کے رشتہ دار کو میرا بھائی بنا دیا اور مقدمہ دائر کرادیا، حالانکہ اس کی ولدیت کچھ اور تھی جو مختلف سرکاری کاغذات کے ذریعہ میرے پاس تھی۔ مگر میرے والد کو اس کا والد بناکر اسی ولدیت سے مقدمہ دائر کرادیا۔ آخر میں رشتہ داروں کا اور اس فرضی بھائی کا منھ سیاہ ہوا اور مقدمہ ختم ہوا۔ یہ و جہ میرے ترکِ وطن کی ہوئی، جس کا افسوس ضرور ہوا مگر ایسے رشتہ داروں کے درمیان رہنے سے کیا حاصل؟
سلگتی ہوئی لکڑیاں ہیں رشتہ دار
الگ رہیں تو دھواں دیں ملیں تو جل جائیں​
یہ بھی ہمارے ساتھ ظلم ہوا اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے۔ اور وہی عزیزذوالانتقام ہے۔
ہماری مختصر سی داستاں سے مرتب ہوگئے کتنے فسانے​
کچھ مطب کے بارے میں:
مدرسہ کی تعمیر اور تعلیم اور چندہ اور تصنیف وتالیف کے ساتھ میں نے کوشش کی کہ کچھ وقت مطب کے لئے مل جائے تاکہ کچھ تھوڑا سہارا گھریلو اخراجات پورا کرنے میں ہوجائے۔ مگر کہاں؟ شہر کے لوگ جانتے تھے کہ میں طبیب ہوں، مریض آتے، نسخہ لکھواتے، کوئی پیسہ بھی نہ دیتا، مجبوراً کچھ دوائیں بناکر اپنے پاس رکھیں، بلادوکان کے ایسا مطب دولت کیسے برساسکتا ہے؟
تشخیص ِ امراض میں میں نے کبھی مرض کی طرف توجہ نہیں کی؛ بلکہ مریض سے دریافت کرتا ہوں : تم کیا کام کرتے ہو؟ کس جگہ رہتے ہو؟ کھانے میں کیا چیز زیادہ پسند ہیں؟ کتنے بچے ہوچکے ہیں؟ وغیرہ۔ اسی قسم کے سوالات سے اسبابِ مرض کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اور غور کرتے کرتے بہرحال سب معلوم ہوجاتا ہے۔ تو اس سبب کا علاج کرتاہوں،
اندھے، بہرے اور گونگے کو آرام:
اگرچہ ذرا وقت لگ جاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے آرام ہوجاتا ہے۔
پیشاب، پاخانہ، کھانسی وغیرہ کے ذریعہ معدہ اور گردہ اور پھیپھڑوں کی کیفیت معلوم ہوجاتی ہے۔ نبض ضرور دیکھتا ہوں، دائیں اور بائیں ہاتھ کی نبض دیکھ کر پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں کہ جسم کے نصف اسفل میں کمزوری ہے یا نصف اعلیٰ میں۔ اسی قسم کی دیکھ بھال اور سوالات سے کوئی مفید نتیجہ برآمد ہوجاتا ہے۔
غالباً ۱۹۷۵؁ء کی بات ہے کہ عصر کی نماز کے بعد میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا کہ قصبہ کرت پور کے قریب کے ایک گاؤں موضع شہاب پورہ کے ایک صاحب آئے ان کے ساتھ بارہ سال کی عمر کا ان کا بیٹا تھا۔ سلام ودعاء کے بعد فرمانے لگے: دیوبند جانا تھا، بس چلی گئی جی میں آیا کہ آپ سے ملتا چلوں؟ میں نے عرض کیا: دیوبند کیوں جارہے تھے؟ کہا: اس لڑکے کیلئے تعویذ لینے فلاں عامل کے پاس جارہا تھا۔ میں نے و جہ دریافت کی، کیا شکایت ہے؟ بولے: کل مغرب سے پہلے اس لڑکے کو ایک دورہ پڑا تو بولنا بند کردیا۔ ایک گھنٹہ کے بعد دوسرا پڑا تو سننا بند کردیا۔ اور پھر ایک گھنٹے کے بعد تیسرا دورہ پڑا تو دیکھنا بند کردیا۔
میں دیر تک غور کرتا رہا میرا خیال یہ ہوا کہ دورہ سے سر کے پچھلے گردن کے اعصاب کھنچے اور جن اعصاب سے زبان، آنکھ اور کان کا تعلق ہے ان میں تناؤ پیدا ہوا، اور ہر ایک حصہ کے پردہ اور جوڑ پر کھنچاؤ ہوا اور ان حصوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس وقت میرے پاس خمیرہ گاؤزبان عنبری جواہر والا اور چند مفرد ادویہ سے تیار کچھ گولیاں تھیں وہ دیں اور بتلایا: پہلے پانچ گولیاں شہد آمیختہ گرم پانی سے دیں، یعنی تین گھنٹے کے بعد، اور آخر میں خمیرہ گاؤں زباں عنبری دینا انشاء اللہ کل دوپہر تک تمہارے بچے کو افاقہ ہوگا۔ اگر ایسا ہوجائے تو میرے پاس آجانا میں اور گولیاں اور خمیرہ دے دوں گا۔ اللہ کے فضل سے اگلے دن ظہر کے وقت وہ لڑکا آیا، سنتا بھی تھا، بولتا بھی تھا، اور دیکھتا بھی تھا۔ (وللّٰہ الحمد علیٰ ذالک والشفاء بیدہٖ) اس کے باپ نے مجھے دوسو روپئے عنایت فرمائے۔
۱۹۹۹؁ء کی بات ہے کہ ہمارے شہر محلہ قاضی پاڑہ میں ایک پانچ سال کی بچی پر فالج کا اثر ہوا کہ اس کے پیر نے اُٹھنا بند کردیا۔ دہلی تک بہت ڈاکٹروں نے علاج کیا، بات نہ بنی، بہت سے عاملین نے بہت سر کھپایا، بے سود ثابت ہوا۔ اتفاق سے ایک دن وہ میرے بڑے لڑکے سے ذکر کرنے لگے، اس نے کہا اگر آپ کہیں تو والد صاحب کو دکھلادوں؟ پھر وہ مجھے بلاکر لے گئے، میں نے حالات سنے اور جواب دیا، اس بچی کی گردن سے لے کر اوپر تک کا حصہ فالج سے متأثر ہوا ہے۔ فالج کا اثر بہت ہلکا ہوا، بولے دہلی میرٹھ کے سب ڈاکٹروں نے یہی کہا ہے۔ میں نے کہا: آپ انجکشن تو بند کردیں، گولیوں کے بارے میں اختیار ہے، البتہ خمیرہ آبریشم حکیم ارشد والا اور خمیرہ عنبری جواہر والا اور دواء المسک معتدل جواہر والی، صبح ،شام اور رات کو دیں۔ چاول اور پتے والی سبزیاں بند، پندرہ دن کے بعد اس بچی کے پیر نے حرکت کی، مسلسل چھ ماہ علاج چلا اب وہ بچی زینے سے نیچے آجاتی ہے اور خود ہی اوپر چلی جاتی ہے۔
(وللّٰہ الحمد علیٰ ذالک والشفاء بیدہٖ) ۔

میرا طریقۂ علاج:
کچھ تو اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ معلوم رہے کہ خلافِ مزاج امور کے پیش نظر آنے کا نام مرض ہے۔ اور معنوی اعتبار سے اسی کا نام مصیبت۔ جب یہ حالات پیش آئیں تو حالات کو بدلنے کے بجائے اپنے اندر تبدیلی لانا چاہئے، یہی علاج ہے۔
اپنے اندر تبدیلی لانے کا نام علاج ہے۔ یہ طریقہ پرہیز، غذا اور دوا سے حاصل ہوسکتا ہے۔ اطباء کا اس پر اتفاق ہے اور قرآنی نصوص سے ثابت ہے۔ علاج شروع کرنے سے پہلے پرہیز کی طرف توجہ دینا چاہئے، پھر خوراک میں تبدیلی لانی چاہئے اور پھر دوا۔ کوئی مرض ایسا نہیں ہے جس کی دوا نہ ہو۔ حیوانات بھی اپنا علاج خود کرلیتے ہیں۔ بلّی جب کوئی زہریلا جانور کھالیتی ہے تو چراغ چاٹتی یا جھوٹے برتن چاٹتی ہے۔ سانپ جب اندھا ہوجاتا ہے تو وہ سونف کے پتوں اور اوس (شبنم) سے آنکھ ملتا ہے۔ وغیر ذالک
انسانی عادت ہی مفرد دواؤں سے علاج کرنے کی ہے۔ مرکب دواؤں سے علاج رومیوں اور یونانیوں کی ایجاد ہے۔ ہندوستان اور دیگر ممالک مفرد دواؤں سے علاج کرتے تھے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مفرد ادویہ سے علاج کرتے تھے۔ کوئی مرض ایسا نہیں کہ جس کی دوا نہ ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لِکُلِّ دَائٍ دَوائٌ ہر مرض کے لئے دواء ہے۔
حالیؔ نے اس کو یوں کہا ہے ؎
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے نہ کی ہو پیدا​
پرہیز کے بارے میں میری رائے ہے، اولاً سوچ اور فکر سے روکا جائے، مریض مرض کی طرف زیادہ دھیان نہ دے، طبیعت خودبخود مرض پر غالب آجائے، فکر سے مرض میں اضافہ ہوگا اور دورانِ خون تیز ہوگا۔ خوراک میں تبدیلی لانے میں شہد سے مدد ملتی ہے۔ یہ غذا بھی ہے اور دوا بھی۔ پھلوں کے استعمال کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ میں عام طور سے پتے والی سبزیوں سے پرہیز کراتا ہوں کیونکہ ان سے ردّی ابخارات اور گیسیز پیدا ہوتے ہیں۔ بار بار کھاتے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے قوتِ ہضم کمزور ہوجاتی ہے۔
آسیبی امراض:
(جاری ہے)​
 
السلام علیکم
از دیرو حرم سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ
قسط:6
محترم ناظرین وقارئین کرام و نیز منتظمین عظام آج سے یہ تذکرہ علمی اور معلوماتی اعتبار سے ایک نہایت مفید مرحلہ میں داخل ہورہا ہے مدینہ اخباراردو زبان میں صرف ہندوستان کا ہی نہں بلکہ پوری دنیا کا ممتازاور مقبول ترین اخبار ہوا کرتا تھا ،آج بھی اس کے چاہنے والے اس کی پرانی فائلوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں الحمد للہ میرے پاس اس کی کچھ فائلیں ہیں۔ اس اعتبار سے بجنور شہر خاص کر محلہ مردھگان خوش نصیب ہے کیوں کہ یہ اخبار اسی محلہ سے نکلتا تھا اوراور یہیں اس کا صدر دفتر تھا اور آج بھی اس کی عمارت اور پریس موجود ہے لوگ دور دور سے اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔ میرے والد محترم کو اس کا اعزازی ایڈیٹر ہونے کا شرف حاصل تھا اور کئی سال تک اس اخبارکی خدمت کی بہر حال یہ مضامین پڑھنے اور خاص توجہ کے لائق ہیں ۔ کل یہ تھو ڑا سا مضمون رہ گیا تھا اس کو لکھنا مناسب سمجھا کیونکہ یہ تذکرہ میں شامل ہے۔ فقط والسلام : احقر عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
آسیبی امراض:​
اور آسیب کے ذریعہ بھی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ جن کی طبیعت کمزور ہوتی ہے وہ جلدی اثر قبول کرلیتے ہیں۔ مثلاً: بچے اور عورتیں۔ اگر محسوس ہو تو پہلے دو چار گھنٹے کے لئے جگہ بدلوادینی چاہئے اور پھر بارش کے پانی پر دم کرکے شہد ملاکر ٹھنڈا یا گرم جیسا موسم ہو پلانا چاہئے۔ {وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَائِ مَائً لِیُطَہِّرَکُمْ وَ یَذْہَبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیَاطِیْنِ} الآیۃ اور ہم نے آسمان سے پانی اُتارا تاکہ تم کو پاک کرے اور تم سے شیطانی گندگی دور کرے۔
اس آیت ِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ ازالۂ امراض میں بارش کا پانی مفید ہے۔ وضو یا غسل کرادینا چاہئے۔
(مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو، ہماری کتاب: ’’الجن والسحر‘‘)
مدینہ اخباراور میں:
مدینہ اخبار بجنور کا وہ اخبار ہے کہ جس نے پوری دنیا میں بجنور کا تعارف کرایا۔ یہ اخبار ہندوستان کے علاوہ بیرونِ ہند بہت ملکوں میں پڑھا جاتا تھا۔ اس کے مدیر ہندوستان کے ممتاز ترین لوگ رہے، یا ا ن کے مدیروں کو اخبار کے ذریعہ بڑی شخصیت بننے کاموقع ملا۔
میں ۱۹۵۶؁ء کے اخیر میں یہاں آیا، تو پروفیسر محمد اجمل صاحب (پرائیویٹ سکریٹری مولانا آزاد) کا ایک طویل مضمون ’’مقدمہ سیرتِ قرآنیہ‘‘ شائع ہوا۔ اس میں کچھ حصے قابل اعتراض تھے۔ مثلاً: قرآن پاک فکری نبوی ہے۔ ترتیب ِ قرآن سرکاری ترتیب ہے جس کو حضرت عثمانِ غنیؓ نے مرتب کیا وغیرہ۔ اس پر میرا دو قسطوں میں مضمون شائع ہوا۔ اس کے بعد میرے ہم خیال بیرسٹر محیی الدین آسامی ہوگئے۔ ان کے طویل مضامین پروفیسر اجمل کے مضامین اور خیالات کی رد میں چند طویل قسطوں سے شائع ہوئے۔ اخباری دنیا میں آنے کے لئے یہ میرا پہلا موقع تھا۔
پروفیسر اجمل کو یہ اصرار تھا کہ قرآن پاک کی ترتیب سرکاری ترتیب یعنی حضرت عثمان غنیؓ کی دی ہوئی ترتیب ہے۔ حالانکہ قرآن پاک نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے: {ذٰلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیْہِ} دوسرا ان کا یہ اعتراض تھا کہ قرآن پاک فکرِ نبوی ہے، (لاحول ولا قوۃَ) حالانکہ قرآن کا وحی ہونا مسلم ہے اور اسی پر اجماعِ امت ہے۔
یہ میرا دوسرا سلسلۂ مضامین ہے جو مہینوں مدینہ اخبار میں شائع ہوا۔
انفاسِ قدسیہ:
یہ میرا دوسرا سلسلۂ مضامین ہے جو مہینوں مدینہ اخبار میں شائع ہوا۔ ۵/دسمبر ۱۹۵۷ء کو حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کی وفات ہوئی۔ ان کی وفات پر بہت لوگوں نے ان کے بارے میں لکھا، میں نے بھی لکھا۔ میرا یہ مجموعۂ مضامین اسی نام یعنی ’’انفاسِ قدسیہ‘‘ یعنی سیرتِ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ قرآن وحدیث کے آئینہ میں‘‘ کتابی صورت میں شائع ہوا۔ یہ میری سب سے پہلی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی پوری حیات کو قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جہراً پڑھنا:
حضراتِ حنفیہ اور شافعیہ کے درمیان یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ نماز میں تسمیہ جہراً پڑھنا چاہئے یا سراً؟ ہندوستان میں حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ تراویح کی نماز میں بسم اللہ جہراً پڑھا کرتے تھے۔ انھیں کی تقلید میں ان کے بعض متبعین نے بھی یہ شروع کردیا۔ اور آج بھی ان کے صاحبزادگان اسی پر عمل کرتے ہیں۔ اسی بارے میں کوئی مکتوب ماہنامہ ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ میں شائع ہوا۔ اس پر راقم الحروف نے تنقید کردی، اس تنقیدی مضمون میں سے حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کا ارشاد اور حضرت گنگوہیؒ کا فتویٰ نقل کررہا ہوں:
حضرت المحترم زیدت معالیکم ………… سلام مسنون!
یہاں دیوبند کا عام طور پر خواہ مسجد دارالعلوم ہو یا مسجد دیوبند عمل
یہی ہے کہ ایک دفعہ بسم اللہ پورے قرآن میں جہراً پڑھتے ہیں۔ میرا
خود کا عمل بزرگوں کی موجودگی میں یہ تھا کہ قل ھو اللہ کے شروع
میں بسم اللہ جہراً پڑھا کرتا تھا۔ اب عرصۂ دراز سے یہ ہے کہ
سورۂ بقرہ کے شروع میں پہلے ہی دن بسم اللہ جہراً پڑھ لیتا ہوں۔
دوسرا مسئلہ: ہر سورت کے شروع میں
بسم اللہ جہراً پڑھنے کا ،اس پر یہاں بزرگوں میں سے کسی
کا عمل نہیں تھا۔ تراویح میں نہ غیر تراویح میں۔ اس عمل کو
البتہ حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ نے نوافل اور
تراویح میں شروع کیا۔ اور ہر سورت کے شروع میں اور نوافل
میں بصورتِ ختم قرآن جہراً بسم اللہ پڑھتے تھے۔ ان کے تلامذہ
اور متوسلین نے اس کی اقتداء کی مگرسابقین میں سے کسی نے
اس عمل کو قبول نہیں کیا اور کہیں منقول بھی نہیں۔
(صفحہ/۴۴، مدینہ، ۵/اگست ۱۹۵۸؁ء)​
اسی مضمون میں میں نے حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کا فتویٰ نقل کیا تھا وہ یہ ہے:
مذہب حنفیہ میں بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا سنت ہے۔ اور جہر سے
پڑھنا ترکِ اولیٰ ہے اور تراویح میں جو قرآن ختم ہوتا ہے
اس میں بھی مذہب حنفیہ کے موافق یہی حکم ہے، مگر حفص
قاری جن کی قرأت اب ہم لوگوں میں شائع ہے ان کے نزدیک
بسم اللہ ہر سورت کا جزو ہے۔ اور جہر سے پڑھنا ان کے
نزدیک ضروری ہے، پس اگر کوئی ان کی اقتداء کرتے ہوئے
ہر سورت پر جہراً بسم اللہ پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں، جیسا
کہ بعض قراء کا دستور ہے۔ تو اس سورت میں قرآن کا کامل
ہونا حفص کے نزدیک جہر بسم اللہ پر موقوف ہے۔ اور امام
ابوحنیفہؒ کے نزدیک ایک دفعہ کہیں جہر سے بسم اللہ پڑھنا
کافی ہے، بہرحال دنوں طرح سے درست ہے، ایسے اُمور
میں خلاف ونزاع مناسب نہیں۔ واللہ اعلم ۔​
فتاویٰ رشیدیہ ص:۲۷ مدینہ:۵/اگست۱۹۵۸ء

اس مسئلے میں جوکچھ مذکور ہوچکا وہ کافی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ اگر تلاوتِ قرآن پاک خارج از صلوٰۃ ہو تو امام حفص کی قرأت کی تقلید ضروری ہے۔ اور داخل صلاۃ ہو تو امام ابوحنیفہؒ کی تقلید ہونا چاہئے ۔ اگر تراویح کی نماز میں ہر سورت پر جہراً بسم اللہ کو پڑھا گیا تو یہی کہا جائے گا کہ یہ حنفیت میں شافعیت کی آمیزش ہے، تمام ارکان مذہب ِ امام ابوحنیفہؒ کے مطابق اور قرأت امام شافعیؒ کے مذہب کے مطابق۔
رویت ِ ہلال اور پاکستان: (جاری ہے)
 
السلام علیکم
از دیرو حرم سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری
قسط:7

رویت ِ ہلال اور پاکستان:
دسمبر ۱۹۵۹؁ء حکومت ِ پاکستان نے پورے ملک کی رؤیت ِ ہلال کمیٹیاں توڑ کر صرف جنتریوں کے ذریعہ رؤیت ِ ہلال کا آرڈر کردیا تھا، اس پر مولانا احتشام الحق کاندھلوی نے سخت احتجاج کیا تھا۔ ہندوستان میں ’’آزاد ہند‘‘ کلکتہ نے بھی جنتریوں کے ذریعہ رؤیت ِ ہلال کی تائید میں ایک مضمون شائع کیا تھا۔ اس پر میں نے ۲۱/دسمبر ۱۹۵۹؁ء کے شمارے میں ایک مضمون لکھا تھا، یہ مضمون دوسرے اخبارات میں بھی شائع ہوا تھا، اس کے بعد مولانا اسعد میاں نے جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایک میٹنگ بلائی تھی، اور اس میں پورے ملک میں رؤیت ِ ہلال کمیٹیاں بنیں، ضلع بجنور کی کمیٹی کا صدر مجھے بنایا گیا تھا۔ رؤیت ِ ہلال کے سلسلے میں میرا وہ مضمون میری کتاب ’’اسلامی دستور‘‘ میں موجود ہے۔ اس پر حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا تھا:
’’اس سلسلے میں آپ کے مفصل فتوے سے بھی استفادہ کا موقع ملا۔ جناب کی وسعت ِ نظر قابل ستائش ہے۔ اور جو کاوش آپ نے جواب کی ترتیب میں برداشت کی ہے اس کا شکریہ۔ جزاکم اللہ‘‘
اور مضمون پڑھ کر ایڈیٹر فاران لندن نے بھی ایک مکتوب ارسال فرمایا تھا، جس میں موصوف نے تحریر فرمایا تھا:
’’جناب کا یہ فتویٰ اس موضوع پر بہت ہی عمدہ، مفصل، مدلل ہونے کی بناء پر مئی کے شمارے میں باب الاستفسار میں عوام کے استفادے کی غرض سے شائع کررہے ہیں‘‘۔
قتل مرتد:
نیاز فتح پوری نے دسمبر ۱۹۵۹؁ء کے نگار میں قتل مرتد کو ایک ظالمانہ حکم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ حکم نہ قرآن میں ہے اور نہ احادیث میں ہے۔ ہم نے اس کا مفصل تعاقب کیا۔ میرا یہ مضمون ۵/دسمبر ۱۹۵۹؁ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں قرآن وحدیث ہی سے جواب دیا ہے۔ مثلاً: {مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ} الآیۃ تم میں سے جو دین سے پھر جائے۔ {اِنَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّٰہَ} الآیۃ جزاء ان کی جو اللہ سے جنگ کرتے ہیں۔ اور احادیث اور سیرت کی کتابوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مانعین زکوٰۃ سے جہاد کرنے کا واقعہ مذکور ہے۔ تفصیلی فتویٰ میرے فتاویٰ ’’عزیز المفتی‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔
(نوٹ) ان میں سے کچھ مضامین مکمل طور پر میں نے ضمیہ میں شامل کردئے ہیں تھوڑا انتظار فرمائیں
مسلمان لڑکیوں کی دینی تعلیم:
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۱۹۶۰ء؁ میں مدینہ پریس میں لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں شہر کے سرکردہ حضرات کی ایک میٹنگ ہوئی تھی، میں مسلمان لڑکیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کے حق میں تھا، جب کہ دنیاوی تعلیم کو ترجیح دے رہے تھے۔ اسی کے بعد میں نے اپنی بڑی لڑکی کو فاضلِ درسِ نظامی کا مکمل کورس پڑھایا اور اسی وقت یہ مضمون لکھا تھا :
’’آج کل ہندوستان کی سبھی مسلم جماعتیں مسئلۂ دینی تعلیم سے بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہیں۔ اور بیشتر سربرآوردہ حضرات بھی سرگرمِ عمل نظر آرہے ہیں۔ غرض کچھ بھی ہو ثوابِ آخرت ہو یا فلاحِ قوم یا اپنی قیادت؟ لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ راہیں اور پلیٹ فارم اگر مختلف ہیں مگر منزلِ مقصود ایک ہی ہے، یعنی ہندوستان میں مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کی من حیث المسلم بقاء اور قیام بحمد اللہ جذبا ت مبارک اور کام بہت مقدس، اور کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کو تاقیامت اسلام کو باقی رکھنا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ اسی قسم کے اسباب پیدا کرتا ہے اور مختلف حضرات کے قلوب میں ان اسباب وعلل کی اہمیت راسخ کردیتاہے، جس کی وجہ سے افراد اپنے مختلف اغراض ومقاصد لے کر اُٹھتے ہیں اور کام کرتے ہیں اور کام ہوتا ہے۔
ہندوستان کے آزاد ہونے اور اعلانِ جمہوریت کے بعد حکومت نے قانوناً ہر مذہب کو اپنی تعلیم کی آزادی دی اور کسی مذہب کی تعلیم کی ذمہ داری اپنے ذمہ نہیں لی۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی مختلف جماعتوں نے سوچا کہ جب تک مسلمان خود اس طرف توجہ نہ دیں گے اور اپنی تعلیم کا انتظام اپنے مدارس اور مکاتب کے ذریعہ نہ کریں گے اس وقت تک مسلمانو ں کی اسلامی پوزیشن کی حفاظت ناممکن ہے۔ چنانچہ جمعیۃ علماء کی دعوت پر بمبئی کے اجلاس میں دینی تعلیمی بورڈ قائم کیا گیا، لیکن معاملہ بہت دنوں تک پڑا رہا، اب دسمبر ۱۹۵۹؁ء میں یوپی کی دینی تعلیم کانفرنس (ضلع بستی) سے اس مسئلہ کو خاصی اہمیت حاصل ہوگئی اور ضلع وار کانفرنسیں شروع ہوگئیں اور مختلف حضرات کے دورے اور گشت ہونے لگے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ اگر یہ سعی اسی طرح جاری رہی اور خلوص اور للہیت کا سہارا اس تحریک کو حاصل رہا تو اس کے نتائج بھی بہت مفید ثابت ہوں گے، لیکن تحریک میں ایک بڑی زبردست کوتاہی ہے جس کی طرف محرکین نے ابھی تک توجہ نہیں دی اور اگر دی ہے تو میرے علم میں نہیں ہے، اور یہ کوتاہی ایسی کوتاہی ہے کہ دس بیس سالوں میں موجودہ تحریک کو بھی لے بیٹھے گی اور جس سمیت سے ہم اپنی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں وہ سمیت بدستور گھروں میں موجود رہے گی، یعنی مسلم خواتین کی جہالت۔ یہ ایک ایسی خرابی ہے جس کے لئے خارجی تدابیر سودمند نہیں۔
آئندہ چند برسوں میں جو شکایت ہمیں لڑکوں کی تعلیم کے لئے درپیش ہے، لڑکیاں بھی اس کا شکار ہوں گی۔ اب تک یہی ہے کہ لڑکے اس تعلیم سے متاثر ہیں لیکن لڑکیوں کی بیشتر تعداد اس زہر سے محفوظ ہے۔ اگرچہ جہالت کا زہر (جومشرکانہ زہر کے مقابلہ میں کم خطرناک ہے) موجود ہے، اس وقت پھر یہی تگ ودو کرنا پڑے گی اور اتنے دنوں کا خلاء اپنا اثر دکھائے گا۔ اور بہت قوی اثر دکھائے، لہٰذا قبل اس کے کہ ہمارے اوپر وہ وقت آئے ہمیں خانہ ساز تریاق کا انتظام کرنا لازمی ہے۔
عورتوں کی تعلیم کے متعلق مسلمانوں میں مختلف مکتب ِ خیال کے افراد اور طبقے ہیں۔
(۱) ایک جاہل طبقہ ہے کہ اس کے نزدیک لڑکیوں کا پڑھانا ہی بیکار ہے کیونکہ ان کے خیال میں عورتیں صرف کھانا پکانے اور بچے جننے کے لئے ہی پیدا کی گئی ہیں اور بس۔
(۲) دوسرا ذرا سمجھ دار طبقہ ہے، اس کے نزدیک صرف قرآن شریف غلط سلط کسی ملانی سے پڑھانا بہت کافی ہے اور زیادہ سے زیادہ مولودِ اکبر اور مولودِ سعید، شہادت نامہ کے دس بیس صفحات اور بس۔
(۳) تیسرا طبقہ انگریزی تعلیم یافتہ ہے جو یورپ کی ہوا کھائے ہوئے اور یونیورسٹیوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں وہ دینی تعلیم کو زیادہ وقیع نہیں سمجھتا اور خصوصاً ملانیوں کی تعلیم سے تو بہت زیادہ نالاں ہیں اور ہونا بھی چاہئے اس طبقے کے سامنے اپنی لڑکیوں کو کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہائی اسکولوں میں اعلیٰ دنیاوی تعلیم دلانے کے لئے چند مجبوریاں ہیں:
(۱) معاشرے میں جاہل لڑکوں کی کثرت اور اعلیٰ معیار کے پڑھے لکھے لڑکوں کی قلت اور ان کا انتخاب زوجہ میں اعلیٰ معیار یعنی کم از کم گریجویٹ ہونا۔
(۲) ہندوستان کی ترقی اور اس کا آئندہ ڈھانچہ اور اس میں جاہل لوگوں کا فٹ ہونا۔
(۳) سروسوں (ملازمتوں) کی عمومیت، یعنی عورتوں ومردوں کی کمائی، اگر اس دوڑ میں حصہ نہ لیا گیا تو ان کے زعم میں مسلمان اقتصادی بدحالی کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ دوسری قوموں میں کمائی مشترک ہوگی اور ادھر یعنی مسلمانوں میں صرف مرد ہی کی کمائی پر صبر وشکر رہے گا۔ اور ایسے پھیکے صبروشکر کے لئے یہ طبقہ تیار نہیں اور اگر تیار بھی ہوجائے تو اس کا معتقد نہیں، لہٰذا ان تمام مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں مسئلہ تعلیم دینی اور مسلم خواتین پر ذرا تفصیل بحث کرنی ہے۔
دینی تعلیمِ نسواں کے سلسلہ میں پہلے طبقہ سے میرا خطاب نہیں اس وجہ سے کہ ان کی حیثیت تابع کی ہے۔ ان کو جس چیز کی اہمیت بتلائی جائے اور جس چیز کے حسن وقبح کو ظاہر کیا جائے گا وہی چیز ان کے قلوب میں راسخ ہوجائیگی وہ تو اَلاَعرَابُ أَشدُّ کُفْراً وَّنِفَاقا کے تحت میں ہیں۔ ایمان پر جماؤ تو ایمان پر جم جائیں گے، کفر پر ڈالو تو کفر پر ہولیں گے، لہٰذا ان سے تو صرفِ نظر کرتا ہوں۔ اور طبقۂ ثانیہ (کہ جس میں دین دار اور معمولی پڑھے لکھے اور علماء حضرات داخل ہیں) سے کچھ عرض کرتا ہوں۔
یہ چیز تو سب پر روشن ہے کہ ’’طلبُ العِلمِ فریضۃٌ علی کلِّ مُسلمٍ ومُسلمۃٍ‘‘ یعنی طلب ِ علم ِ دین ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔ جتنے فرائض مردوں پر ہیں ان کا علم مردوں پر فرض ہے اور جتنے فرائض عورتوں پر ہیں ان کا علم عورتوں پر فرض ہیں۔ فرائض میں بہت سے فرائض ایسے ہیں جو دونوں میں مشترک ہیں اور بعض ایسے ہیں جو عورتوں کے لئے مخصوص ہیں، مثلاً: احکامِ حیض ونفاس، احکامِ ولادت وغیرہ۔ ان کاعلم مردوں سے زیادہ عورتوں پر ضروری ہے۔ اسی طرح سے خیارِ بلوغ کے مسائل ہیں کہ جن کو جاننا عورتوں کے لئے مردوں سے زیادہ ضروری ہیں، مثلاً: اگر نابالغ لڑکی کا نکاح باپ دادا کے علاوہ کسی دوسرے ولی (ماں وغیرہ ) نے کردیاتو عورت کو خیارِ فسخ دیا گیا ہے کہ وہ بالغ ہونے پر اپنے نکاح کے فسخ کرنے کا اعلان کرسکتی ہے۔ اس کے کیا شرائط ہیں؟ اس سے وہی جن سے یہ مسئلہ متعلق ہے (عورتیں) ناواقف نہیں؛ بلکہ مرد بھی ناواقف ہیں۔ نہیں جانتے کہ کن صورتوں میں خیار باطل ہوجاتا ہے اور کن صورتوں میں خیار باقی رہتا ہے اور شرائطِ فسخ کیا ہیں؟ ہمیں آئے دن اس قسم کے مقدمات کے فیصلہ میں اسی قسم کی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اگر لڑکیاں ان چیزوں سے واقف ہوتیں تو دشواریاں کم ہوجاتیں۔
اسی طرح کچھ مسائل ایسے ہیں کہ جن کا تعلق خاص کر مردوں سے ہے یعنی قضاء، اصولِ سیاست وغیرہ۔ ان میں عورتوں کو دخل دینے کی ضرورت نہیں اور نہ وہ اس کی اہل ہیں۔ {الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلیَ النِّسَائِ} یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا علم ان کے متعلقین کو ہونا ضروری ہے۔ لیکن فریقین میں سے کوئی بھی ان کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتا لہٰذا اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے حضرات (خواہ عام پڑھے لکھے ہوں یا علماء) بس اتنا ضروری سمجھتے ہیں کہ لڑکی اُلٹا سیدھا ناظرہ قرآن شریف پڑھ لے اور مولودِ شہیدی، مولودِ اکبر، راہِ نجات یا زیادہ سے زیادہ تعلیم الاسلام کسی ۱۸۵۷؁ء کی ملانی سے طوطے کی طرح سے پڑھ لے اور بس۔ نتیجہ ایسی تعلیم کا ظاہر ہے کہ چودہ پندرہ سال کی عمر تک اس مشغلہ سے فارغ ہونے کے بعد جب لڑکیاں اُمورِ خانہ داری میں داخل ہوتی ہیں تو انھیں کوئی اسلامی قانون معلوم نہیں ہوتا کہ مردوں کے حقوق کیا ہیں؟ بچوں کی تربیت کس طرح ہونی ہے؟ ہمسایہ کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔میرے نزدیک اس معاملہ میں سب سے زیادہ قصور لڑکیوں کے والدین اور سرپرستوں کا ہے کہ انھوں نے اعلیٰ دینی تعلیم کی اہمیت نہیں سمجھی۔
علماء حضرات جانتے ہوں گے کہ علم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا کیا مرتبہ ہے؟ ان سے کس قدر احادیث مروی ہیں؟ وہ اپنے زمانے میں کس قدر مسائل بتلایا کرتی تھیں؟ ان سے حضراتِ صحابہ کس قدر مسائل معلوم کیا کرتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا علم کے معاملے میں بحر ذخّار ہیں، اسی طرح سے حضرت امام طحاویؒ کی صاحبزادی کا مشہور واقعہ علامہ ابن نجیم مصری نے البحر الرائق میں نقل کیا ہے۔
’’ایک دن حضرت امام طحاویؒ اپنی صاحبزادی کو حدیث پڑھاتے ہوئے ایک مسئلہ پر بحث کررہے تھے، اسی مسئلہ پر یہاں تک سلسلہ کلام دراز ہوا کہ جو شکوک واعتراض شوافع کی طرف سے احناف پر وارد ہوئے تھے وہ سب صاف ہوگئے، اور دونوں مسئلوں میں کوئی تعارض باقی نہ رہا۔ اس وقت امام موصوفؒ نے شوافع کو مخاطب فرض کرتے ہوئے فرمایا:
قَدْ جَمَعْنَاکُــمْ ہم تمہارے ساتھ مجتمع (متفق) ہوگئے۔
صاحبزادی نے یہ سن کر فرمایا:
مَا الجِمَاعُ ہٰہُنا؟ جماع کیا ہے؟ (یہاں)
امام طحاویؒ نے فرمایا:
الاتفــاقُ۔ موافقت کرنا مراد ہے۔
اس وقت امام صاحبؒ کو ندامت ہوئی اور اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ میں اب زیادہ دنوں تک زندہ رہنا نہیں چاہتا، چنانچہ یہ دعاء ان کی قبول ہوئی اور دس دن کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ (بحر)
اس واقعے سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اس وقت لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دینا معیوب نہیں تھا۔ بہت سی عورتیں علومِ دینیہ میں بہت کافی مہارت رکھتی تھیں امام ابن تیمیہؒ کی استاذِ دینی ایک عورت بھی ہیں کہ جن سے انھوں نے فن حدیث پڑھا ہے، اسی طرح سے امام احمدؒ کی صاحبزادی بہت بڑی عالمہ تھیں، لیکن افسوس ہے کہ آج کل لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم دین کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ ہاں! کچھ دین دار غریب لوگ ایسے ہیں جو اپنے بچیوں کو اعلیٰ دینی تعلیم دلاتے ہیںورنہ حال یہ ہے کہ مولوی صاحبان کی ایک خاصی تعداد اپنی لڑکیوں کو عربی پڑھانے کے بجائے انگریزی اور دوسری تعلیم دلاتے ہیں، اسی طرح چند مقدس ہستیاں ایسی بھی ہیں کہ جنھو ںنے اپنی لڑکیوں کو یونیورسٹیوں میں داخل کرررکھا ہے اور ہیں فخرِ قوم۔ چلئے یونیورسٹیوں میں داخلہ معیوب نہ سہی لیکن یہ تو فرمائیے کہ جن لڑکیوں اور لڑکوں کو آپ نے دنیاوی تعلیم دلانا شروع کی ہے دینی تعلیم میں ان کی کیا پوزیشن ہے؟ کچھ نہیں۔ آخر یہ کیوں ہے؟ کیا سب سے زیادہ غریب دینداروں کے بچوں ہی کے گمراہ ہونے کا خوف ہے؟ کاش کہ علماء اپنے لڑکے لڑکیوں کو اعلیٰ دینی تعلیم دیتے تو ان کی لڑکیاں آج قوم اور مسلم عورتوں کے لئے بہترین استانیاں ثابت ہوتیں اور آج کل استانیاں نہ ہونے کی وجہ سے جو دشواریاں پیش آرہی ہیں نہ ہوتیں، لہٰذا اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے علماء حضرات کو توجہ دینی چاہئے کہ وہ اپنی لڑکیوں اور بیویوں کو ٹرینڈ کریں۔ ٹرینڈ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ عربی فارسی پڑھانا شروع کردیں؛ بلکہ اُردو دینیات کی اعلیٰ کتابیں اس طرح پڑھائیں اور ایسی کتابیں منتخب کریں کہ جس میں صرف زبان کے فرق کے علاوہ دینی مسائل (قرآن) حدیث، فقہ، سیرت، تاریخ، عقائد سے متعلق کافی ذخیرہ موجود ہو۔
(۳) تیسرا طبقہ (انگریزی تعلیم یافتہ وملازمت پیشہ حضرات) اپنی اولاد کو خواہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے انگریزی اور دنیاوی تعلیم دلانا مناسب ہی نہیں ضروری بھی سمجھتا ہے، کیونکہ یہ خود اس راستے سے گذر چکا ہے اس لئے جو اپنے لئے پسند کیا وہی اپنی اولاد کے لئے پسند کرتا ہے، لیکن اس پسندیدگی کی چند وجوہات ہیں جو مختلف حضرات سے تبادلۂ خیال کرنے کے بعد معلوم ہوئی ہیں:
(۱) اعلیٰ دینی تعلیم دلانے سے سوائے مسجد یا مدرسہ کا ملا بننے کے کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔
(۲) لڑکیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کا ملک میں کوئی معقول انتظام نہیں ہے لہٰذا لامحالہ انگریزی یا دنیاوی تعلیم دلانی پڑتی ہے تاکہ ان کی لڑکیوں کے لئے آئندہ مناسب شوہر منتخب ہوسکیں۔
(۳) ملک کے موجود ہ ماحول میں عورت اور مرد دونوں کے لئے ملازمت اور سروسوں کی مانگ ہے، لہٰذا اگر مسلمان عورتیں اعلیٰ دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کرتیں تو ان کو صرف اپنے خاوندوں کی آمدنی پر ہی بس کرنا پڑے گا اور اس طرح مسلمان اقتصادی حالت میں سب سے پیچھے رہ جائے گا، کہاں ایک آمدنی؟ اور کہاں دو آمدنی؟ بہت بڑا فرق ہے، اس لئے مسلمان کسی سے پیچھے نہ رہیں۔
جہاں تک پہلی وجہ کا تعلق ہے اس کی نامعقولیت میں کسی قسم کا شک نہیں کیونکہ مسلمان کے پیش نظر اوّلین طور پر آخرت ہے اور اُمورِ دنیویہ ثانوی درجہ میں آتے ہیں۔ قرآن پاک اور احادیث ِ نبویہ سے کھلا ثبوت ملتا ہے، اس کے علاوہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری و جہ معقول ہے اور عذر بھی معقول ہے لیکن یہ سوچنا چاہئے کہ اگر کسی ملک میں دینی تعلیم کا باقاعدہ انتظام نہیں ہے تو انفرادی طور سے تعلیم دلانے کے لئے کیا عذر ہے؟ ہم انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں، ضرور دلائیے لیکن پہلے دین مکمل کرلیجئے اور حدودِ شریعت کو قائم رکھئے۔ آپ فرمائیے کہ آپ کی لڑکیاں جو کالجوں میں پڑھتی ہیں کیا حدودِ شریعت کے ماتحت پڑھتی ہیں؟ کیا وہ حدودِ شریعت سے واقف ہیں؟ کیا انھیں اسلامیات کاعلم ہے؟ کیا ان کے قلوب میں اسلام کی کچھ وقعت ہے؟ اگر ہے تو پھر سر بازار برہنہ کیوں؟ سنیما کی آباد کاری کیوں؟ ڈانس اور اداکاریاں کیوں؟ ہم اگر مخالفت کرتے ہیں تو ان فواحشات کی مخالفت کرتے ہیں۔
رہا شوہروں کا انتخاب، سو یہ اعلیٰ دینی سے بھی حاصل ہوسکتا ہے؛ بلکہ اگر آپ کی لڑکیاں اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کئے ہوئے ہوں گی تو وہ انگریزی تعلیم یافتہ لڑکیوں سے کہیں زیادہ مفید ثابت ہوں گی اور ان کے ذریعہ آئندہ نسلیں محفوظ ہوجائیں گی۔ آج بچوں کی تعلیم اور ان کے گمراہ ہونے کا اندیشہ پیش نظر ہے وہ ختم ہوجائے گا ، کیونکہ اگر بچے باہر مشرکانہ تعلیم بھی حاصل کریں گے تو گھر پہنچتے ہی اس کے اثرات ختم ہوجائیں گے، کیونکہ سب سے بہترین معلمہ ماں ہوتی ہے۔
لہٰذا ماں کا اعلیٰ دینی تعلیم یافتہ ہونا از بس ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آنے والے بے دینی کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے کوئی تریاق کارآمد نہیں ہوسکتا الا یہ کہ مائیں اعلیٰ دینی تعلیم یافتہ ہوں۔
تیسری وجہ کوئی وجہ نہیں ہے، اگر ہے تو اس پر غور نہیں کیا گیا ہے۔ کیونکہ اقتصادی مسائل کا حل عورتوں کی ملازمت پر نہیں ہے، کیونکہ بجائے اس کے کہ اس صورت میں کچھ کفایت ہو آمدنی زیادہ ہو خرچ ہی زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ ایک گریجویٹ اپنا کھانا، بچوں کو نہلانا، کپڑے دھونا، گھر کے کام کاج خود نہیں کرسکتی بلکہ ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے اس کو ملازمہ یا ملازم کی ضرورت ہوگی۔ بخلاف اس کے کہ اسلامی درس گاہوں کی تعلیم یافتہ حقوقِ شوہر، حقوقِ اولاد، حقوقِ والدین، حقوقِ بیت سے بخوبی واقف ہوگی اور وہ کام جو سوروپئے ماہوار خرچ کرنے پر حاصل ہوگا وہ اس کی ادنیٰ توجہ سے ہوجائے گا، اور چونکہ اسلامی تعلیم یافتہ کو اس کی اسلامی درسگاہوں میں کچھ صنعت وحرفت بھی سکھائی جائے گی اس سے اس کی آمدنی زیادہ ہوسکتی ہے، اور آئندہ کے ہندوستان میں اس کی زیادہ قدر ہوگی۔ لہٰذا اس نقطۂ نظر کو اختیار کرنے سے خرچ کم اور آمدنی زیادہ ہوگی۔ اور دین کی اعلیٰ تعلیم پانے والی لڑکیاں بھی گھر کی اقتصادی زندگی میں مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔
ہمارا منصوبہ: ( جاری ہے)
 
السلام علیکم
از دیرو حرم (سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط: 8
ہمارا منصوبہ​
ان گذارشات کے بعد ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں بچیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کا انتظام اس طرح ہونا چاہئے کہ جب لڑکیاں اس قابل ہوجائیں کہ وہ حروف شناخت کرنے لگیں یعنی کم از کم پانچ یا چھ سال کی ہوجائیں تو ان کو لڑکوں کے مکتب میں کسی ہوشیار محنتی اور قابل استاذ کے سپرد کردیا جائے اور دو یا تین سال اسی مکتب میں مشترکہ تعلیم دلائی جائے، اس سے خرچ بھی کم ہوگا اور کام بھی اچھا ہوگا۔ پرانے طرز کی ملانیوں سے حتی الامکان نہ پڑھوایا جائے، کیونکہ اس سے کچھ حاصل نہیں۔ اس عرصہ (تین سال) میں بچیاں صاف ستھرہ قرآن شریف ناظرہ پڑھنے لگیں گی اور کچھ اُردو بھی پڑھنا لکھنا سیکھ جائیں گی۔ یہ تعلیم دو درجوں پر منقسم کردینی چاہئے۔
جب بچیوں کی عمر نو سال کی ہوجائے تو ان کو لڑکوں کے مکتب سے اُٹھالیا جائے اور شہر کے اعلیٰ دینی مدرسۃ البنات میں داخل کردیا جائے۔ یہاں سے اعلیٰ دینی تعلیم کی ابتداء ہونی چاہئے اور تعلیم کو پانچ درجوں پر منقسم کردینا چاہئے۔ اس پانچ سالہ اسکول میں اعلیٰ قسم کی دیندار استانیاں ہونی چاہئیں جو اُردو زبان میں تفسیر، حدیث، فقہ، عقائد، تاریخ، سیرت اور کچھ جغرافیا، حساب پڑھا سکیں۔ یہ سب مضامین بتدریج پڑھتے رہیں اور اسی کے مطابق نصاب منتخب کرلیا جائے۔ آج کل ملک میں مذکورہ فنون میں چھوٹی بڑی بہت سی عمدہ عمدہ کتابیں نئے اور پرانے طرز پر موجود ہیں ان کا انتخاب مدرسہ سے تعلق رکھنے والے ہوشمند حضرات اپنی طبیعتوں کے مطابق کرلیں، یا یہ کہ ملک کے مسلم مشاہیر اور تجربہ کار حضرات سے مشورہ کرلیا جائے۔
اس تعلیم کے علاوہ نو سال کے بعد سے پانچ سالہ اسکول میں استانیاں اُمور خانہ داری سے متعلق دست کاریاں (کھانا، پکانا، سینا، پرونا اور کشیدہ کاری) بھی سکھائیں۔ اس طرح سے اُمید ہے کہ انشاء اللہ ہماری بچیاں آئندہ چل کر اچھی مائیں اور قابل فخر استانیاں ثابت ہوں گی اور آج جو ہمیں دشواریاں درپیش ہیں نہ ہوں گی۔
آخر میں ملک کے اہل فکر اور دردمندانِ قوم سے التجا ہے کہ اس سلسلے میں اپنے مفید نظریات اور خیالات سے مطلع فرمائیں۔ اور اپنے اپنے حلقۂ اثر کو اس تحریک کو شروع کردیں اور لڑکیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کا انتظام کریں اور اسی جوش کے ساتھ کریں کہ جس طرح آج لڑکوں کے لئے دینی مکاتب کے لئے سرگرمیاں دکھائی جارہی ہیں۔ اگر مناسب ہو تو پھر صوبائی اور ملکی سطح پر بھی کوئی اجتماع کرکے تبادلۂ خیال کیا جاسکتا ہے لیکن جب تک کوئی اجتماعی صورت پیش آئے اس وقت تک اس تحریک کو التواء میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ راقم الحروف بھی ’’مدینہ‘‘ کے ذریعہ اپنے خیالات کو پیش کرتا رہے گا۔ (انشاء اللہ) ونیز یہ چیز میرے حلقۂ اثر میں خیالات کے درجہ میں نہ رہے گی؛ بلکہ کچھ دنوں بعد اس کی عملی صورت سامنے آجائے گی اور مدرسۃ البنات، مدرسہ عربیہ مدینۃ العلوم (جس کی خادمیت کا مجھے شرف حاصل ہے) کے ماتحت جاری کردیا جائے گا، انشاء اللہ۔
(مدینہ، یکم ستمبر۱۹۶۰؁ء)
 
السلام علیکم
از دیرو حرم (سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط: 9
تجلیاتِ گنگوہیؒ:
اگست ۱۹۶۰ء کے دو شماروں میں میں نے حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کے متعلق ایک طویل مضمون شائع کیا، سب جانتے ہیں کہ حضرت گنگوہیؒ دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے ہیں اور دیوبندی مکتب ِ فکر یا قرآن وسنت کے مطابق مسلک ِ حق کے نمائندہ ہیں۔ آج تک آپ کے اُسوہ اور فتاویٰ سے استدلال کیا جاتا ہے۔
حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد ان کے متوسلین تراویحوں میں بسم اللہ جہراً پڑھنے لگے، حضرت مدنیؒ کی طرف حضرت مولانا اسعد مدنی نے اپنی خلافت کا انتساب شروع کردیا۔ جمعیۃ علماء ہند کی صدارت کا جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا۔ حضرت مولانا اسعد میاں اپنی پسند کا صدر یعنی مولانا فخرالدین صاحب کو رکھنا چاہتے تھے تاکہ وہ ناظمِ عمومی قرار پائیں۔ اس بارے میں ۲۷/دسمبر ۱۹۶۰ء؁ سے لے کر متعدد اداریوں میں ’’مدینہ‘‘ اخبار نے اپنا اور جمعیۃ علماء ہند کا نقطۂ نظر بیان کیا تھا۔
اٹلی کی جانمازیں:
۳/فروری ۱۹۷۳؁ء کو قصبہ نہٹور ضلع بجنور میں اٹلی کا تیار کردہ ایک منقش مصلیٰ مجھے دکھلایا گیا جو حجازِ مقدس سے لایا گیا تھا۔ اس میں پیر رکھنے کی جگہ ایک خوشنا بیل (باڈر) کلمۂ طیبہ کی بنی تھی۔ مجھ سے دریافت کیا گیا: اس پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ میں نے منع کردیا، کہ نہ اس پر نماز پڑھی جائے اور اس کو بچھایا جائے۔
۱۹۶۷؁ء میں میں نے سیرتِ خیرالعباد ترجمہ زاد المعاد لکھا تھا۔ اس میں بھی دو حدیثوں پر تبصرہ کرتے ہوئے یہی حکم لکھا تھا۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ حجازِ مقدس میں اسی قسم کے قالین اور مصلّے اٹلی ہی سے آتے ہیں۔ ان مصلوں پر بیت اللہ، مسجد حرام، روضۂ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم، بیت المقدس کے نقشے منقش ہوتے ہیں، جو عام طور پر زمین پر بچھائے جانے کی وجہ سے پیروں سے روندے بھی جاتے ہیں جو احترام کے خلاف ہے۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ آج کل جس کی تذلیل کرنی ہوتی ہے اس کا پتلہ بناکر جلاتے ہیں، لہٰذا ہم اس تذلیل کو پسند نہیں کرتے۔ ان مصلوں کو بچھانا ٹانگنا چاہئے۔ (الجمعیۃ۱۸/مارچ ۱۹۷۳ء)
مردم شماری میں حصہ:
مردم شماری کے سلسلے میں مدینہ پریس میں ایک میٹنگ ہوئی تھی، اور اسی دن چندہ کرکے دس ہزار ہینڈبل چھپوائے
گئے تھے، تاکہ زبان کے خانے میں مسلمان اُردو لکھائیں۔ کوشش یہ کی جارہی تھی کہ اُردو لکھی جائے۔ بہرحال میرے حصہ میں جھالو سے لے کر نورپور، تاجپور کا علاقہ آیا۔ میں نے ایک دن میں یہ گشت پورا کردیا اور کرایہ بھی کچھ نہیں لیا تھا۔
پیار کی باتیں:
جنوری ۱۹۶۲؁ء کے شماروں میں اس عنوان سے میرا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والے حضرات یعنی حضراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور حضراتِ صحابیاتؓ کے محبت بھرے واقعات ہیں۔ اس مضمون کو بعد میں ایک چھوٹے رسالے ’’محبت والے نام‘‘ سے شائع کیا گیا۔

تمثالی ابن احمد:
اخبارِ ’’دعوت‘‘ ۲۶/دسمبر ۱۹۶۲ء میں ایک استفتاء اور فتویٰ حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند، جناب مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی کتاب ’’اسلام اور مغربی تہذیب‘‘ پر شائع ہوا تھا، جس میں صرف اقتباساتِ کتاب پر مصنف کے کافر اور زندیق ہونے کا فتویٰ حضرت مہدی حسنؒ کے قلم سے صادر ہوگیا تھا۔ اقتباسات اور استفتاء میں مصنف ِ کتاب کا نام چھپا لیا تھا۔ اس فتوے کے بعد اس سے رجوع وپھر ایک دوسرا فتویٰ جناب مولانا جمیل الرحمن صاحب نائب مفتی دارالعلوم دیوبند اور دیگر اساتذہ اور مفتی محمود حسن صاحبؒ رکن شوریٰ اور دیگر حضرات کی تصویب کے ساتھ ۲۸/جنوری ۱۹۶۲؁ءکو شائع ہوا تھا۔ اس سے قبل ۹/جنوری ۱۹۶۲؁ءکو حضرت مہتمم صاحب
(جاری ہے)
 
السلام علیکم
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط: 10
تمثالی ابن احمد:
اخبارِ ’’دعوت‘‘ ۲۶/دسمبر ۱۹۶۲ء میں ایک استفتاء اور فتویٰ حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند، جناب مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی کتاب ’’اسلام اور مغربی تہذیب‘‘ پر شائع ہوا تھا، جس میں صرف اقتباساتِ کتاب پر مصنف کے کافر اور زندیق ہونے کا فتویٰ حضرت مہدی حسنؒ کے قلم سے صادر ہوگیا تھا۔ اقتباسات اور استفتاء میں مصنف ِ کتاب کا نام چھپا لیا تھا۔ اس فتوے کے بعد اس سے رجوع وپھر ایک دوسرا فتویٰ جناب مولانا جمیل الرحمن صاحب نائب مفتی دارالعلوم دیوبند اور دیگر اساتذہ اور مفتی محمود حسن صاحبؒ رکن شوریٰ اور دیگر حضرات کی تصویب کے ساتھ ۲۸/جنوری ۱۹۶۲ءکو شائع ہوا تھا۔ اس سے قبل ۹/جنوری ۱۹۶۲ءکو حضرت مہتمم صاحب کا ایک وضاحتی بیان شائع ہوا تھا۔
چونکہ جماعت ِ اسلامی سے علمائے دارالعلوم دیوبند کو اختلاف تھا، کیونکہ وہ جماعت ِ اسلامی کو مودودی جماعت اور اس سے متعلق لوگوں کو مودودیہ کہا کرتے تھے۔ اخبارِ دعوت کو موقع ہاتھ آیا کہ اس نے اس قسم کے بے سند فتاویٰ اور علمائے دارالعلوم دیوبند کی اچھی طرح سے خبر لی۔ ’’صدیق جدید لکھنؤ‘‘، ’’بے باک سہارنپور‘‘، ’’ندائے ملت لکھنو‘‘ نے بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ اس پر راقم الحروف نے ۵/فروری ۱۹۶۲؁ءکے ’’مدینہ‘‘ میں ایک طویل مضمون لکھا تھا، جس کا عنوان ہے: ’’مستفتی اور مفتی کا شاخسانہ‘‘۔ اس طویل مضمون مصنف کی شخصیت سے بحث کی گئی ہے اور اس کو کافر اور ملحد وغیرہ قرار دیا گیا ہے وہ زیادہ از ضرورت ہے، کیونکہ کسی بھی مصنف یا قائل کو اس کے چند اقتباسات اور اقوال کی وجہ سے اس کو کافر یا ملحد قرار نہیں دیا جاسکتا؛ بلکہ اس کی دوسری تصانیف وعملی زندگی کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ پھر جب کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا یہ بھی مسلک ہے کہ وہ کفر کا حکم لگانے میں بہت محتاط ہیں۔ ان کے نزدیک اگر کسی کلمۂ کفر کی کوئی ممکن تاویل ہوسکتی ہے تو وہ اس کو نظر انداز نہیں کرتے۔ اور ان کے اس قسم کے فتاویٰ آج بھی موجود ہیں۔
میرے خیال میں حضرت مفتی مہدی حسن صاحبؒ نے اپنے فتوے کے دوسرے اسی جزو سے رجوع فرمایا ہے۔ یہ چیزیں بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئیں کہ مفتی صاحب موصوف ان دنوں بہت زیادہ علیل تھے لہٰذا معاصر دعوت میں پالا جیتنے کا جو نعرہ لگایا ہے وہ مناسب نہیں ہے۔ معاصر موصوف کی اس رائے سے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ اگر کوئی قائل یا مصنف اپنا صحیح مفہوم بیان کردے تو اس پر لگائے گئے حکم کو واپس لے لینا چاہئے۔ حضرت مہتمم صاحب کے وضاحتی بیان کی سطریں بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتیں :
’’پھر بھی یہ کوئی بات اصرار کے قابل نہیں ہے، اس کا رد، قبول دونوں میرے نزدیک یکساں ہے، یہ علمی لطیفہ اپنی جگہ ہے جس کا ماننا ضروری اور نہ ترک ضروری‘‘۔
یعنی موصوف کو اس پر اصرار نہیں ہے کہ ان کی یہ بات صحیح مانی جائے۔ ایک بات انھوں نے جس غرض سے بیان کی تھی اس کو بیان کردیا لہٰذا ان کے پیچھے پڑھنا زیادتی ہے، اور ان سے مطالبہ کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے کہ صاحب آپ نے کہا ہی کیوں؟ آخر انسان ہی تو ہیں ان سے غلطی ہوگئی۔ جب انھوں نے اپنا مفہوم بیان کردیا اور اخذ واستنباط کی وجہ بتلا دی تو اب ان سے مزید مطالبہ کیسا؟ جیسا کہ معاصر دعوت نے کیا ہے۔ پھر جب کہ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھے اس پر اصرار نہیں، بات ختم ہوگئی۔
اب مولانا جمیل الرحمن صاحب کا دوسرا فتویٰ شائع ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ بے ضرورت ہے اور بے وقت ہے کیونکہ رجوع اور وضاحتی بیان نے اس کی ضرورت کو ختم کردیا ہے۔ پھر ان کے فتوے کی عبارت بھی بلاتحقیق اور بلاغور وفکر ہے۔
اقتباساتِ مذکورہ سوال میں کوئی امر عقائد اسلامی سے متصادم نہیں ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تمثالی ابن احمد اور حضرت مریم علیہا السلام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثالی بیوی کہنا ہی کب روا ہے۔ اور پھر اس میں بھی کوئی منطقی نقطہ پیدا کردیا جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تمثالی ابن احمد اور وہ بھی تخیل اور وجدان کی حد سے گزر کر ایک ثابت شدہ حقیقت اور شرعی دعوے کے ماتحت کتنی سنگین بات ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا چہ جائیکہ فتویٰ کا یہ لفظ: —
’’یقینا اس کو حق پہنچتا ہے‘‘۔
کیا کسی کو یہ حق ہے کہ وہ حضرت مریم صدیقہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثالی بیوی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تمثالی بیٹا کہا کرے؟ اس نزاکت کو ایک مفتی کا قلم نظرانداز نہیں کرسکتا۔ پھر ایک سہ ماہی پروگرام کے تحت اُردو کی ایک عوامی کتاب میں ہمارے نزدیک معاصر بے باک کا مشورہ قابل قدر ہے، اس کو ہرگز نظرانداز نہیں کرن چاہئے۔ چہ جائے کہ ایک فتوے کے ماتحت جواز کا حکم دیا جائے، یہ الفاظ بھی نامناسب ہیں :
’’اقتباساتِ متذکرہ قطعاً بے غبار ہیں‘‘۔
ان اقتباسات پر اخبارات میں اتنا گردوغبار اُڑا ہے، وہ گردوغبار نہیں تو کیا ابر باراں ہے؟ پہلا گردوغبار تو یہی ہے۔
کَلِّمُوا النَّاسَ عَلیٰ قَدْرِ عُقُولِہِمْ لوگوں سے ان کی فہم کے مطابق کلام کرو۔ اور یہ ظاہر ہے کہ یہ باریک نقطہ اسلام اور مغربی تہذیب کے بیشتر پڑھنے والوں کی فہم سے باہر ہے، پھر جب کہ اس سے کوئی خاص فائدہ بھی نہیں، حضرت مولانا دریاآبادی نے اسی چیز کی طرف تو اشارہ کیا ہے۔ اتنا بڑا انتشار کہ اخبار میں چرچا عوام وخواص کی زبان پر یہی، پناہ بخدا! اس کے باوجود بے غباری بالفرض اگر کوئی غبار نہیں تھا تو اب تو غبار سے اَٹ گیا۔
کہنے کو تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ چودہ سو سالہ اسلامی لٹریچر میں یہ پہلا لطیفہ ہے جس کی پشت پر نہ کوئی ضعیف حدیث ہے اور نہ کوئی اسرائیلی روایت۔ اور بے چارے شیخ عبدالغنی نابلسیؒ کی تحریر مرقومہ روح المعانی ص:۳۴/ج:۵، سے بھی یہ لطیفہ مترشح نہیں ہوتا، جس کو ثابت شدہ حقیقت اور شرعی دعوے کی حمایت حاصل ہو۔ (مدینہ: ۵/فروری ۱۹۶۳؁ء)

(جاری ہے)
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:11
دارالعلوم دیوبند کی تلاشی:

۹/مارچ ۱۹۶۳؁ء کو اچانک دارالعلوم دیوبند کی تلاشی ہوئی۔ اس سے قبل دو دفعہ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی موجودگی میں بھی تلاشی ہوچکی تھی۔ اس پر مدینہ اخبار نے اپنے ادارتی نوٹ میں اظہارِ افسوس کیا، اور اس کے بعد مسلسل اپنی اشاعتوں میں اخبارات کے تراشے بھی شائع کئے جن کو راقم الحروف نے جمع کیا تھا۔ مثلاً: قومی آواز لکھنؤ، مسلم ممبرانِ اسمبلی اترپردیش، مولانا محمد قاسم کا تار، آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس، مولانا ابوالحسن ندوی، مولانا رفیع خاں، مسلمانانِ کانپور، انجمن فضلائے دارالعلوم ضلع بجنور اور مسلمانانِ امروہہ، گورکھپور، مدرسہ شاہی مرادآباد، مولانا عبدالرؤف صاحب ایم .ایل. سی.، صدر جمعیۃ علمائے ہند، ناظم اماراتِ شرعیہ بہار اُڑیسہ، پیارے لال ایم۔پی، انقلاب بمبئی وغیرہ اس بارے میں قابل یادگار نظم نقل کرتا ہوں۔

دیوبند جس نے کئے سیکڑوں غازی پیدا
جس کے توہین کی انگریز کو جرأت نہ ہوئی

جو ہمیشہ رہی اِک چھاؤنی آزادی کی
جس نے لاکھوں کئے انگریز کے باغی پید ا

مرکزِ علم وادب، درس گہ بیداری
جسکے ذرّوں سے ہوئے فیض کے دریا جاری

وحدتِ قوم کی بنیاد اُٹھائی جس نے
وقف کی بہروطن اپنی کمائی جس نے

جس نے انگریز کے دامن کا سہارا نہ لیا
جس کی کشتی نے حوادث میں کنارہ نہ لیا

سینہ ودل میں پھپھولوں کے نشاں باقی ہیں
اب بھی انگریز کے گولوں کے نشاں باقی ہیں

اس ادارے کی تلاشی واہانت افسوس!
دامن امن واماں اور یہ عنایت افسوس

آج افسردہ نظر آتے ہیں حفظ الرحماں
ہاں وہی شیر نہ چھوڑا کبھی جس نے میداں

آج حسین احمدؒ وآزاد کا آنسو ہوں میں
کسی ناکام وفا کا تہی پہلو ہوں میں

آج احساس تاثر سے جگر زخمی ہے
چاک ہے دامنِ دل تار نظر زخمی ہے​

بات طویل ہوجائے گی کہ اگر اس جگہ حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کی تقریروں کے اقتباسات نقل کریں جو موصوف کانفرنس کے پلیٹ فارم سے انگریزوں کے خلاف فرمایا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد اس کا پلٹ ہوا :
’’پکائی تھی کھیر بن گیا دَلیا‘‘۔
اگر اس وقت قرآنی ہدایت کو سامنے رکھا جاتا تو شاید کف ِ افسوس نہ ملنا پڑتا۔ سورۂ ممتحنہ کے شانِ نزول کے بارے میں ہے کہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ نے ایک مکتوب خیراندیشی مکہ معظمہ بھیجنے کی کوشش کی تھی کہ ان کے اہل وعیال بے سہارا مکہ مکرمہ میں رہتے ہیں، وہ مکتوب پکڑا گیا۔
{یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَتَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَ عَدُوَّکُمْ أوْلِیَائَ} الآیۃ
اے ایمان والو! میرے، اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔
میں نے تفسیر لکھتے وقت پورے قرآن شریف میں غور کیا کہیں بھی اشتراکِ شرک کے ساتھ کوئی نص نہ ملی۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
[size=xx-large]از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:12
حضرت رائے پوریؒ کی قبر کا مسئلہ:​

حضرت شاہ عبدالقادر ؒ رائے پوری پنجاب کے رہنے والے تھے۔ اور پوری زندگی انھوں نے رائے پور اپنے شیخ طریقت حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوریؒ کی خانقاہ میں گذاری۔ انتقال ان کا اپنے آبائی وطن میں ہوا تھا۔ سوال پیدا ہوا تھا کہ ان کو کہاں دفن کیا جائے؟ دفن تو وہیں کردیا تھا، اب نعش کی منتقلی کا سوال تھا، اس پر میں نے ایک مختصر نوٹ لکھا جس کے آخری جملے یہ ہیں:
’’ساتھ ہی ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں نہ پڑیں۔ حضرت رائے پوری کے متوسلین اور متعلقین سے بھی عرض ہے کہ وہ اب نعش ِ مبارک کی منتقلی کو حاشیۂ خیال سے بھی نکال دیں‘‘۔ (مدینہ: ۲۵/اپریل ۱۹۶۳؁ء)

جاں نثارانِ محمد:
یہ مضمون مسلسل پانچ قسطوں میں ۱۹۶۳؁ء میں شائع ہوا۔ اسی سال جناب غلام رسول مہر نے مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی کتاب ’’نقش حیات‘‘ پر تنقید کی تھی۔ اور مسئلہ تعریض وکذب کا چھیڑا تھا۔ اس پر میں نے غلام رسول مہر کی گرفت کی تھی۔

غیراسلامی حکومت:


حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒ نے الجمعیۃ کے کسی ایڈیشن میں ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں یہ بھی فرمایا تھا:
’’توریت موجود تھی اور اس کا تقدس بھی برقرار تھا، اس کے باوجود حضرت یوسف علیہ السلام نے فرعونی دستور کے مطابق فیصلہ کیا‘‘۔
اولاً تو یہ بات ہی غلط ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں توریت تھی، حضرت یوسف علیہ السلام کا زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانچ سو سال قبل تھا، پھر فرعونی دستور پر فیصلہ کرنا چہ معنی دارد؟ اس سے قبل حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب نے فرمایا تھا، اس کا اقتباس یہ ہے:
’’بجنور میں آپ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا ، جو مصر میں فرعونی حکومت کے وزیراعظم تھے انھوں نے بنیامین کو فرعونی دستور کے مطابق روک لیا تھا۔ (مدینہ)
اطلاعاً عرض ہے کہ قرآن شریف میں اس طرح مذکور ہے:
{کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ وَ کَانَ لِیَأْخُذَ اَخَاہُ فِی دِیْنِ المَلِکَ إِلاَّ أَنْ یَّشَائَ اللّٰہُ}
جس کے سامان میں پایا جائے، وہی اس کی جزا ہے۔
اس کے بعد یہ آیت ہے: {کَذٰلِکَ کِدْنَا} حضرت مولانا حفظ الرحمنؒ نے جواب میں تحریر فرمایا:
’’میں مسلسل سفر میں تھا، جواب نہ دے سکا، حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو میں نے جس غرض سے بیان کیا تھا، اپنی بجنور والی تقریر میں اس کی ادا اور تعبیر میں مجھ سے غالباً غلطی ہوگئی‘‘۔ (یہ پورا مضمون اگست ۱۹۶۳؁ء کے مدینہ میں ہے)

فطرے کی مقدار کا نرخ:
فروری ۱۹۶۵؁ء میں عیدالفطر سے قبل الجمعیۃ اخبار میں دارالافتاء کے نگراں، ممبرشوریٰ مفتی محمود صاحب (مالوہ) کا شائع ہوا تھا کہ قیمت سرکاری غلے کی دوکان کے بھاؤ کے مطابق دی جائے۔ میں نے اس کی گرفت کی اور اس کو غلط قرار دیا، میرا بیان یہ ہے:
’’آج کل بازار میں غلّے کے دو بھاؤ ہیں، ایک بھاؤ وہ جو کھلی مارکیٹ میں ہے، دوسرا وہ بھاؤ جو حکومت اپنی دوکانوں سے بطور اعانت پبلک کو غلہ فراہم کررہی ہے۔ چونکہ حکومت نے اب تک مارکیٹ کا بھاؤ مقرر نہیں، گذشتہ مہینے میں مقرر کیا تھا لیکن حکومت نے اس کو واپس لے لیا اور سرکاری دوکانوں سے غلّہ حسب ضرورت فراہم نہیں ہورہا ہے جس کی وجہ سے پبلک اپنی ضرورت پورا کرنے کے لئے غلّہ تاجروں سے خریدتی ہے اس لئے شرعاً وہ بھاؤ معتبر ہوگا جو کھلی مارکیٹ میں ہے اور ہر ایک آدمی کو بلا دقت کے سہولت سے مل جاتا ہے۔ ونیز صدقۃ الفطر میں مصرفِ فطرہ فقیر کی سہولت اور نفع کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اس لئے بازار بھاؤ پر قیمت لگائی جائے‘‘۔
بعد میں حضرت مہتمم صاحب کو میرے بیان کی تائید کرنی پڑی۔
) (تفصیل مدینہ ۱۳/فروری ۱۹۶۵؁ء میں ملاحظہ فرمائیں ) ( جاری)
دارالعلوم دیوبند کا بانی:​
[/size]
 
[size=xx-large[color=#FF1493]]السلام علیکم[/color]
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:13
دارالعلوم دیوبند کا بانی:​

اس بارے میں میں نے دو کتابیں لکھی ہیں: ’’تذکرہ شیخ الہند‘‘ اور ’’تذکرہ مشائخ دیوبند‘‘۔ ان دونوں کتابوں میں یہ بحث آئی ہے کہ دارالعلوم کا بانی کون ہے؟ عام طور سے دارالعلوم دیوبند کے مختلف لٹریچروں میں مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کا نام لیا جاتا ہے، حالانکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ اس پر تفصیلی کلام اخبارِ مدینہ میں بھی میرے قلم سے شائع ہوا۔ اس میں ایک اقتباس یہ ہے:
’’اگر مدرسہ عربیہ دیوبند المعروف بدارالعلوم دیوبند کی ابتداء ۱۲۸۳؁ھ مسجد چھتے سے مانی جائے تو بلاشک وشبہ اس کے بانی حضرت سید عابد حسین صاحب ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نہیں ہیں، الخ۔ ملاحظہ ہو مدینہ اخبار، ۹/جولائی ۱۹۶۵؁، ماخوذ از: ’’تذکرہ شیخ الہند‘‘ و ’’تذکرہ مشائخ دیوبند‘‘

دارالحرب کا مسئلہ:

جولائی تا اکتوبر ۱۹۶۶؁ء میں مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے دارالحرب پر ایک مضمون شائع کیا تھا، یہ اختلافی طویل مضمون ہے۔ اس کا جواب راقم الحروف نے ۵/مارچ ۱۹۶۷؁ء کے مدینہ میں شائع کیا تھا۔
(نیز ملاحظہ ہو: عزیز المفتی)

میرٹھ کا فساد:

۱۹۶۶؁ء میں میرٹھ میں جمعیۃ علمائے ہند کا ایک بڑا اجلاس ہوا، مجھے اگرچہ اس قسم کے جلسوں میں شرکت سے دلچسپی نہیں، پھر بھی میں چلا گیا۔ اس اجلاس میں شیخ عبداللہ بھی شریک ہوئے۔ عین اجلاس کے وقت فساد کھڑا ہوگیا۔ اجلاس چونکہ فیضِ عام انٹرکالج کے احاطہ میں ہورہا تھا اس وجہ سے محفوظ رہا۔ ہم لوگ قریب ہی ایک مسجد میں پناہ گزیں ہوگئے۔ پوری رات بارش رہی، سب لوگ بھیگ گئے۔ صبح کو آٹھ بجے ایک ٹرک آیا اور کرفیو کی حالت میں ہمیں گڑھ مکتیشور چھوڑ گیا۔ اس اجلاس میں ہمارے مدرسہ کا ایک قدیم طالب علم حال متعلّم میرٹھ مولوی وارث علی موضع اومری ضلع بجنور کا شہید ہوگیا تھا۔
بجنور میں سیرت کانفرنس:​
۱۸/۱۹/ جون کو بجنور میں جمعیۃ علماء نے سیرت کانفرنس کی۔ اتفاق سے اس جماعت کو جلسوں سے بہت دلچسپی ہے۔ مجھے اس کانفرنس کا نام نہاد سکریٹری مقرر کردیا تھا، عملاً سکریٹری قاضی خورشید عالم نگینوی تھے۔ عجیب لطیفہ ہے، اس کے صدر قاضی سجاد حسین صاحب کرت پور، استقبالیہ صدر قاضی سید حسن صاحب نہٹوری، مقرر قاضی زین العابدین صاحب میرٹھ، دوسرے مقرر قاضی عزیز الرحمن نگینہ، گویا یہ کانفرنس قاضی کانفرنس تھی۔
تبلیغی جماعت:​
جاری ہے​
[/size]
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:14
[size=xx-large]تبلیغی جماعت

تبلیغی کام شروع میں بہت غیرمعروف تھا۔ جب کسی جاننے پہچاننے والے سے دریافت کیا جاتا تو یہی جواب ملتا کہ یہ کام کیا ہے؟ یہاں سمجھ میں نہیں آئے گا، مرکز چلو، اسی کو جاننے کے لئے میں ۲۴/جولائی ۱۹۶۳؁ء کو مرکز نظام الدین پہنچ گیا۔ میں تنہا ہی تھا، مولانا محمد یوسف صاحبؒ نے بڑا اکرام فرمایا۔ رات کو بڑے اہتمام سے سلایا۔ ایک آدمی میری ضروریات کے لئے مقرر کردیا۔ صبح کی مجلس میں اپنے قریب بٹھایا۔ مجلس کی گفتگو شروع ہوئی، فرمایا:
’’مسائل کی ضرورت بعد میں آئے گی، پہلے اعمال تو بنیں اسی کے بعد ان کی صحت وفساد کا حکم دیا جائے گا‘‘۔
بات سمجھ میں آگئی۔ تبلیغ کیوں ضروری ہے؟ اور اسی طرز پر کیوں ضروری ہے جس طرز پر مرکز نظام الدین دہلی سے کی جارہی ہے؟ سب سے بڑا فقدان عمل اور صحیح عقیدے کا ہے۔ اور اس کے قیام کے لئے ضرورت ہے اِمارت کی۔ اس کی بدولت اسلام میں اجتماعیت برقرار رہتی ہے۔ اس نقطۂ نظر کو صرف اسی جماعت اور کام نے باقی رکھ چھوڑا ہے۔ تمام جماعتیں جو اللہ کی راہ میں نکلتی ہیں ہر ایک کا امیر ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد کلمہ ونماز کے قیام کا کام شروع ہوتا ہے۔ (اس رات کے قیام کے تفصیلی حالات ۲۵/جولائی ۱۹۶۲؁ء کے مدینہ میں شائع ہوئے ہیں۔ نیز ملاحظہ ہو ہماری کتاب: تذکرہ مولانا یوسفؒ)
مرکز میں میری آمد ورفت کے دوران نہٹور کا تبلیغی اجتماع طے پایا۔ جس کی رپورٹ معاصر مدینہ نے ۵/نومبر ۱۹۶۳؁ء کے شمارے میں اس طرح تحریر فرمائی:

نہٹور کا تبلیغی اجتماع:​

’’۲/۳/۴/ نومبر کو بجنور کے ایک قصبہ نہٹور میں تبلیغی اجتماع کا عظیم الشان اجتماع منعقد ’’۲/۳/۴/ نومبر کو بجنور کے ایک قصبہ نہٹور میں تبلیغی اجتماع کا عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا۔ ایسا بڑا اور ایسا روح پرور اجتماع اس سرزمین نے اپنے وجود کی تاریخ میں شاید اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ شرکاء کی تعداد کے مختلف اندازے ہیں، لیکن محتاط اندازے کے مطابق تین دن کے اندر مجموعی طور پر پچاس ہزار مسلمان مردوں اور عورتوں نے اجتماع میں شرکت کی ہوگی۔ پورے ضلع کا شاید ہی کوئی گاؤں یا محلہ ایسا رہا ہوگا جہاں سے لوگوں نے شرکت کے لئے سفر اختیار نہ کیا ہو۔ کوئی ایک دن رہا، کوئی دو دن رہا، اور بیشتر حضرات تین دن شریک رہے۔ بیرونی مقامات سے بھی کافی تعداد میں جماعتیں اور افراد شرکت کے لئے آئے۔ سعودیہ عرب، افریقہ، لندن، انڈومان اور ہندوستان کے مختلف صوبوں سے جماعتیں آئیں۔
۲/نومبر کو راقم الحروف بھی شرکت کے لئے روانہ ہو۔ گھر سے نکلتے ہی جگہ جگہ نہٹور جانے والے افراد ملتے گئے اور نہٹور سے چھ سات میل پہلے تو عجیب وغریب نظارہ تھا۔ پیدل، گھوڑوں پر، تانگوں پر، رکشوں، بیل گاڑیوں پر، موٹروں، کاروں، ٹرکوں پر، غرض علاقے میں جتنی قسم کی سواریاں ممکن تھیں سب پر قطار اندر قطار اللہ کے بندے نہٹور کی جانب رواں دواں تھے۔ سب کے دل ایک مقصد سے سرشار سب کی زبانیں ایک ہی کے ذکر میں مصروف، سب ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔
ہزاروں انسانوں نے امیر تبلیغ جماعت حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ کو اپنی عمر میں کبھی نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا۔ مروّجہ طریقوں پر اجتماع کی کوئی پبلسٹی بھی نہیں کی گئی تھی۔ کسی مسئلہ یا مسائل کا حل پیش کرنے کا بھی بلند وبانگ دعویٰ نہیں کیا گیا تھا۔ ’’مذہب خطرے میں ہے‘‘ کا نعرہ نہیں لگایا گیا تھا، پھر کیا بات تھی کہ مخلوقِ خدا گھروں سے نکل کھڑی ہوئی تھی؟ کون سی طاقت تھی جو ان کو اُٹھائے چلی آرہی تھی؟ کیوں آرہے تھے یہ لوگ؟
جلسہ گاہ میں نہ مروّجہ طریقوں پر والینٹر، نہ آنے والوں کا بڑھ بڑھ کر استقبال کیا جارہا تھا، نہ پہلے سے سب کے لئے قیام کا یقین تھا، پھر بھی کوئی افراتفری کوئی ہنگامہ، کوئی بدنظمی نہیں، وسیع پنڈال، مساجد اور احباب کے مکانات قیام گاہیں، ہوٹل کھانے کی جگہیں، وضو کے لئے پانچ چھ خوبصورت نالیاں رواں جن میں ٹیوب ویل سے پانی آرہا تھا۔ حوائج ضروریہ کے رفع کے لئے ایک طرف نہایت وسیع اور معقول انتظام تھا۔ سب کے چہرے مسرور تھے، ہر ایک دوسرے کی راحت کاخواہاں اور کوشاں تھا، نہ غصہ تھا نہ جھگڑا۔ ہر طرف سے سلام اور خوش آمدید کی آوازیں آرہی تھیں۔
نماز کے اوقات میں جتنے لوگ پنڈال میں سما سکے انھوں نے پنڈال میں جماعت بنالی۔ بقیہ قصبہ کی مختلف مساجد اور کھلی زمینوں میں اللہ کے آگے سربسجود ہوگئے۔ ہر شخص کو فکر ہے تو اس بات کی کہ اس کی نماز باجماعت نہ رہ جائے۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی جلسہ گاہ میں اللہ کی باتیں سن رہے ہیں۔ یا فرصت کے اوقات میں اپنی کھانے پینے کی ضروریات پوری کررہے ہیں، یا پھر زبان ذکر الٰہی میں مشغول ہے۔ بچے ہوں، جوان ہوں، بوڑھے ہوں، عورتیں ہوں سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔
کس قدر خوش نصیب ہے وہ سرزمیں جس پر اتنے بندگانِ خدا نے اپنے سر معبودِ حقیقی کے آگے جھکادئیے۔ کس قدر خوش نصیب ہے وہ فضاء جس میں تین دن تک ہزاروں انسان بآوازِ بلند اللہ کی پاکی اور کبریائی پکارتے رہے ہوں۔
مولانا صاحب جنھیں محبت وعقیدت سے سبھی حضرت جی کہتے ہیں، بڑی دل آویز شخصیت کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت رچادی ہے۔ اسی لئے جب وہ تقریر کرتے ہوں یا باتیں کرتے ہوں یا قیام گاہ سے جلسہ گاہ آتے جاتے ہوں ہرشخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان سے قریب رہے، ان کی بات سنے اور دوسرے تک پہنچائے۔
مولانا کی تقریروں کے بارے میں اس وقت مجھے کچھ نہیں کہنا، شاید اگلی اشاعت میں اجتماع کی کاروائی کی کچھ تفصیل ہدیۂ قارئین کی جاسکے۔ اس وقت تو محض چند تاثرات کو بیان کرنے کو جی چاہا، نیز یہ خیال ہوا کہ کم از کم مدینہ کے صفحات میں اس ضلع کی تاریخ کے ایک اہم واقعہ کا ایک اہم موڑ کا کچھ ذکر ہوجائے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا اہتمام کرنے کا ہوش بھی نہ رہا کہ مولانائے محترم کی تمام تقاریر کو قلم بند کرلیا جاتا۔
آخری دن کا منظر تو ایسا عجیب وغریب تھا کہ شرکائے اجتماع میں سے شاید ہی چند لوگوں کو پہلے کبھی وہ منظر دیکھنا اور ا س کا جزو بننا نصیب ہوا ہو۔
حضرت جی کی آخری تقریر ان ۷۵۰/افراد کے نصیحتوں پر مشتمل تھی جنھوں نے اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہونے کے لئے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ تقریباً بیس ہزار کا مجمع ہوگا جس کے سامنے ان مجاہدین فی سبیل اللہ کو رخصت کیا جارہا تھا۔ تقریر کے اختتام پر حضرت جی نے دعاء کرائی۔ پندرہ منٹ کے اندر اندر شاید ہی کوئی آنکھ ہوگی جو آنسوؤں سے محروم رہی ہو۔ یہ سب کسے پکار رہے تھے؟ کس سے اپنے گناہوں اور غلطیوں کی مغفرت کے طلب گار تھے؟ کس کی توجہ اور نظر ورحم وکرم کے طالب تھے؟ صرف اللہ نے انھوںنے اپنا رشتہ جوڑ لیا تھا۔ ان کا یقین ان کا عمل بن گیا تھا۔
اور اس طرح ایک دولت ایک خزانہ لے کر سبھی اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوئے۔ جس نے شرکت کی اس کا دامن خالی نہ رہا۔ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ
علماء میں سے چونکہ میں پہلا آدمی تھا جس کو اس علاقے میں تبلیغی جماعت سے دلچسپی اور وابستگی تھی اس لئے مجھ سے سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بارے میں میں نے ایک تقریر کی، یہ تقریر کسی اجتماع میں کی تھی جس کو قلم بند کرلیا گیا تھا جو میری نظر ثانی کے بعد شائع ہوئی وہ یہ ہے:

تبلیغی اصطلاحات:​
(جاری ہے)​
[/size]
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط:15
تبلیغی اصطلاحات:
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
حامداً ومصلیاً اما بعد!
{اُدْعُ إِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الحَسَنَۃِ}
محترم بزرگو اور دوستو! یہ تبلیغی کام جو بنگلہ والی مسجد بستی نظام الدین دلی سے شروع ہوا تھا اب دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ گیا ہے۔ آج اس کے اثرات اور فوائد محسوس ہیں۔ اس کی خوبیاں سب پر عیاں ہیں۔ وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اقوام اور ممالک جو دہریت اور بے دینی کی داعی ہیں اسلام کے اتنے پختہ داعی ہوں گے کہ قدیم الاسلام مسلمانوں کو نہ صرف پیچھے چھوڑ دیں گے بلکہ خود داعی بن کر ان کو مدعو بنالیں گے۔
یورپ کے ممالک حجازِ مقدس کے حضرات اتنے جوش وخروش سے اس تبلیغی کام سے وابستہ ہوئے کہ ہندی مسلمان پیچھے رہ گئے۔ آج ہندوستان کا کون سا شہر اور قریہ ایسا ہے کہ یہ لوگ دین کی دعوت لے کر نہ پہنچ گئے ہوں؟
بہرحال آج کی مجلس میں مجھے تبلیغی کام اور اس کی اہم اصطلاحات کی حقیقت پر گفتگو کرنا ہے۔ اصطلاحات کو سمجھانے کے بعد کام کو سمجھنا اور پھر اس کام کو کرنا ناصرف آسان ہوجاتا ہے بلکہ اس کے کرنے اور اس میں اشتغال رکھنے میں بھی مزہ آنے لگتا ہے۔

دعوت:
دعوت کے معنی ہیں بلانے کے۔ لیکن اسلام میں انسانوں کو خدا کے دین کی طرف بلانا اور یہی معنی تبلیغی کام کرنے والوں کے نزدیک مراد ہے۔ حضرت مولانا محمد یوسفؒ نے ارشاد فرمایا ہے: ہر مسلمان کو داعی بننا چاہئے، جو داعی نہیں بنے گا وہ غیرشعوری طور پر کسی نہ کسی کا مدعو ضرور بن جائے گا، اس لئے کہ ہر آدمی یا تو کسی کو متأثر کرے گا یا کسی سے متأثر ہوگا۔ موجودہ زمانے میں غیراسلامی تہذیب ومعاشرت سے وہی لوگ متأثر ہیں جو اسلام سے متأثر نہیں ہوئے یا داعی نہیں بنے۔ موجودہ زمانے میں غیراسلامی افکار ومعاشرت سے متأثر نہ ہونے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہر مسلمان اسلام کا داعی بن جائے۔ یاد رہے دعوت بھی دو طرح کی ہوتی ہے: عملاً، اور قولاً۔ یعنی مسلمان اسلام پر عامل ہوں۔ عامل بننا بھی ایک قسم کی دعوت ہے اور اس سے نتیجہ خیز اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور قولی دعوت ہے کہ لوگوں کو زبان (یاقلم) کے ذریعہ خدا کے دین کی طرف یعنی دین پر عمل کرنے کے لئے بلانا اور آمادہ کرنا تبلیغ میں دونوں طریقے مقصود ہیں۔ یعنی تبلیغ کے چھ اُصولوں (جو اسلامی زندگی کی بیشتر چیزوں کو جامع ہیں) پر سختی کے ساتھ عمل کرنا اور لوگوں کو ان کی طرف بلانا اور جماعت کے ساتھیوں سے پابندی سے عمل کرانا، کیونکہ جماعت میں نکلنے کا مطلب اور مقصد ان ہی نمبرات پر عمل کرنا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد پورے اسلام پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

دعوت کے اجزاء:​

ہماری دعوت یعنی جو لوگ موجود ہ تبلیغی کام کرتے ہیں ان کی دعوت کے اجزاء یہی چھ نمبر یا چھ اُصول یا چھ باتیں ہیں، جو عام طور سے تبلیغ یا چلّے میں نکل کر ہر بیان کرنے والا بیان کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے پورے اسلام کو انھیں چھ نمبرات میں محصور کردیا ہے۔ یہ اعتراض غلط ہے، کیونکہ اولاً تو تبلیغی رہنماؤں میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کل اسلام انھیں چھ نمبرات میں محصور ہے اور بالفرض اگر یہ بات ہمارے اوپر چسپاں بھی کردی جائے تو ہمارے پاس اس کے کافی وشافی جوابات ہیں۔
بعض لوگوں کو ہمارے اوپر یہ بھی بڑا اعتراض ہے کہ ہماری دعوت میں نہی عن المنکر نہیں ہے، حالانکہ اسلام میں اس کا مرتبہ امر بالمعروف کے برابر ہے۔ مومنین کی ذمہ داریوں میں ان دونوں چیزوں کو برابر بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں دونوں چیزوں کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے، لیکن تبلیغ کرنے والوں نے اپنے کام میں سے اس کو بالکل نکال دیا ہے۔ اور اس کے شبہ تک سے گریز کرتے ہیں، تو حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اسلام میں منکر کو مٹانا مقصود ہے، یعنی جس طرح بھی منہیات ختم ہوجائیں، مٹ جائیں وہ ضروری ہیں، یہ بات نہیں ہے کہ منہیات ختم ہوں یا نہ ہوں نہی عن المنکر ضروری ہے۔ تبلیغ والوں نے مثبت رُخ کو اختیار کیا ہے، یعنی لوگوں کے درمیان صالح ماحول پیدا کردو، غلط ماحول سے لوگوں صالح ماحول میں لے آؤ، اور لوگوں کو کلمہ اور نماز سے وابستہ کردو، ایسا کرنے سے لوگ خودبخود منہیات سے بچ جائیں گے اور اس کو چھوڑ دیں گے ہمارے پاس اَن گنت مثالیں موجود ہیں۔
نہی عن المنکر کا جہاں تک تعلق ہے وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ ہر ایک کا منصب ہے اس لئے اس کی نزاکتوں کو محسوس کرتے ہوئے اس سے سکوت اختیار کیا جائے۔ اور بالکل سکوت بھی نہیں ہے۔ جماعت میں نکلنے کے بعد موقع محل کے اعتبار سے امیر جماعت کے افراد کو توجہ دلاتا چلتا ہے اور روکتا ٹوکتا ہے، کیا یہ نہی عن المنکر نہیں ہے؟

چھ نمبرات کا تعارف:​
(جاری ہے)
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:16

چھ نمبرات کا تعارف:

۱- کلمہ ٔطیبہ​

یہ کلمہ ایمان کی بنیاد ہے۔ جس کے بعد بندہ اور خدا کے درمیان ایمانی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کیساتھ وفاداری کا عہد کرنا ہے۔ اس کے پڑھنے اور اس پر دل سے عقیدہ رکھنے یا یقین کرنے سے آدمی اسلام میں داخل ہوجاتا ہے
اسکے بغیر مسلمان نہیں ہوتا اور اس کے کسی عمل کا اعتبار نہیں اور نہ اس پر اسے آخرت میں کوئی ثواب ملے گا۔ اس کلمہ کے لئے پانچ شرطیں ہیں: (۱)اس کلمہ کو صحیح طور سے ادا کرنا۔ (۲)اس کے معنی کا معلوم ہونا۔ (۳)اس کے مفہوم یا مطلب کا علم ہو۔ (۴)اس کے تقاضوں سے واقف ہوکر اس کے مطابق عمل کرنا۔ (۵)اس کے اقرار کے بعد اس کے معنی پر یقین رکھنا۔ تبلیغ والوں کی سب سے پہلی اور بنیادی دعوت یہی کلمہ ہے۔

۲- نماز:​

کلمہ کا اقرار کرنے کے بعد خدا کے ساتھ وفادار رہنے کا سب سے پہلا عملی ثبوت نماز ہے جس کو اسلام میں ’’عماد الدین‘‘ دین کا ستون قرار دیا ہے۔ جس نے نماز کو چھوڑ دیا گویا اس نے دین کو گرادیا۔ چنانچہ قرآن پاک، احادیث اور فقہ کی کتابوں میں سب سے زیادہ افضلیت اور فوقیت نماز کو حاصل ہے۔
تبلیغ والے اخلاص کے ساتھ نماز کو مستحب اور صحیح طریقے پر پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوت نے دین کے ایک بہت بڑے حصے کا احاطہ کرکے اس کی دعوت دی ہے۔ نماز اور اس کے اہتمام میں کم وبیش نصف دین آجاتا ہے۔ اور بقیہ نصف دین حقوق العباد سے متعلق رہ جاتا ہے جو اکرامِ مسلم وغیرہ کے تحت آجاتا ہے۔

۳- علم وذکر:

یہ دونوں چیزیں ہر مسلمان کے لئے جس نے کلمۂ طیبہ پڑھا ہے اور خدا کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا ہے بہت ضروری ہیں۔ اور دعوت دینے والے کے لئے سب سے زیادہ ضرور ہیں، کیونکہ جہل کے ساتھ دعوت مفید نہیں مضر ہے۔ کم از کم داعی کو اپنی دعوت کا علم ہونا ضروری ہے اور ذکر کے ذریعہ دعوت میں اخلاص اور جان پیدا ہوتی ہے، اس فائدہ کے لئے علم ایک روشنی ہے جس کے بغیر عبادت ممکن نہیں ہے۔ بالغ مسلمان پر کلمہ پڑھنے کے بعد جو چیزیں فرض ہوتی ہیں ان کا جاننا ضروری ہے۔ جس طرح روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ فرائض ہیں ان کی ادائیگی سے پہلے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی ضروری ہے، تبلیغ والے جس طرح کلمہ اور نماز پر زور دیتے ہیں اور اس کی دعوت دیتے ہیں اس کے لئے وہ تعلیمی حلقے قائم کرتے ہیں۔



جاری ہے​

 
Top