مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری نوراللہ مرقدہ

گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

[size=xx-large]
از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:36
شجرۂ طریقت اور تعلیم طریقت​
بِسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم​
الحمد للّٰہ وکفیٰ وسلامٌ علی عبادہٖ الذین اصطفیٰ، اما بعد…!
راقم الحروف فقیر سے میرے متعدد مخلصین نے (جن کو مجھ سے حسن ظن ہوگیا ہے) فرمائش کی کہ میں اپنا سلسلۂ طریقت ان کو لکھ دوں، پہلے تو میں نے متعدد کتابوں کا نام لیا کہ وہاں سے نقل کرلیا جائے، لیکن جب وہ دستیاب نہ ہوپائیں اور اس پر برسوں اصرار ہوتا رہا تو میں نے اپنا سلسلہ طریقت لکھ دیا۔ نہ پہلے اس قابل تھا اور نہ اب ہوں اور نہ سمجھتا ہوں۔ یہ مرشدی حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کا حسن ظن تھا کہ انھوں نے اس فقیر کو اجازتِ بیعت عطا فرمائی۔ وہ مجھے کیسا جانتے تھے یہ ان کی بات ہے۔ میرا معاملہ تو یہ ہے:
سودہ گشت از سجدۂ راہِ بتاں پیشانیم
چند برخود تہمت دین مسلمانی نہم​
مجھے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا منظوم کردہ شجرہ یاد ہے لیکن وہ زبانِ فارسی میں ہے۔ اتفاق سے میرے پاس حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کا منظوم شدہ شجر مل گیا۔ یہ شجرہ ۱۲۹۴؁ھ میں طبع ہوا تھا اسی کو نقل کردیا۔ یہ شجرہ جناب میاں جی نور محمد صاحبؒ کے نام سے شروع ہوتا ہے اس لئے اپنے نام سے لے کر حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ، حضرت حاجی امداد اللہ صاحبؒ کے نام والے بند میں نے نظم کردئیے۔ میرے نام کا بند توسل والا نہیں ہے بلکہ دعائیہ ہے، کیونکہ میں توسل کے قابل نہیں ہوں۔ ختم شجرہ کے بعد دو بند کا اضافہ اور کیا ہے، ایک بند حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے نام کا اور دوسرا حضرت شاہ محمدیٰسین صاحب نگینویؒ کا، خلیفہ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کے نام کا، کیونکہ مؤخرالذکر صاحب کی کتب تصوف کے ذریعہ میں نے بہت دور تک سلوک طے کیا ہے، رہا غوث الاعظمؒ کا معاملہ تو ان کی کتابوں سے میری تربیت ہوئی ہے۔ بہرحال ان کے فیض نے بہت دستگیری فرمائی ورنہ خرابہ ہی خرابہ تھا اور اب بھی بجز سیاہی کے سفیدی نہیں ہے۔ ایصالِ ثواب میں ان ہر دو حضرات کو بھی شامل کرلیا جائے۔
ایصالِ ثواب کے لئے کچھ قرآن شریف پڑھ کر ایصالِ ثواب کردیا جائے۔ بہتر یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد گیارہ بار قل شریف پڑھا جائے اور اوّل آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف پڑھا جائے اور ایصالِ ثواب کردیا جائے۔ اگر ہوسکے تو دورکعت نفل اس طرح پڑھیں کہ اوّل گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھیں اور پھر ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد گیارہ گیارہ مرتبہ قل ہواللہ أحد الخ تک پڑھا جائے اور سلام کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھ کر ان حضرات کو ایصالِ ثواب کردیا جائے۔
شجرہ پڑھنے کا بہتر وقت تہجد کی نماز اور ذکر کے بعد ہے اگر زبانی یاد ہوجائے تو ظاہر میں بھی دعاء کی صورت میں یعنی ہاتھ اُٹھاکر پڑھا جائے کیونکہ یہ شجرۂ منظوم ’’دعائ‘‘ ہے۔
فقط والسلام
عزیزالرحمن غفرلہ بجنور​
۱۹/ربیع الآخر ۱۴۱۷ھ؁
(جاری ہے)​
[/size]
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

[align=center]از د یرو حرم


(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:37
شجرۂ منظومہ از قلم حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تو اگر چاہے قبولیت ِ دعاء کے واسطے

عرض کرنا شاہ یوں اوّل خدا کے واسطے
حمد ہے سب تیری ذاتِ کبریا کے واسطے
ہے درود ونعت ختم الانبیاء کے واسطے

اور سب اصحابِ آلِ مصطفیٰ کے واسطے
فضل کر ہم پر الٰہی مجتبیٰ کے واسطے
دربدر پھرتی ہے خلقت التجاء کے واسطے

آسرا تیرا مجھ پر بے نوا کے واسطے
رحم کر مجھ پر الٰہی اولیاء کے واسطے
ان بزرگوں کو شفیع لایاہوں میں ہوکر ملول

کیجیویہ عرض میری انکی برکت سے قبول
ہاتھ اُٹھاؤں جب ترے آگے دعاء کے واسطے
کر فقیری میں عطا یارب عزیزی تو مجھے

بند ِ عصیاں قید شیطاں سے رہائی دے مجھے
یارب اپنی شانِ رحماں وعطاء کے واسطے(۱)
((۱) ’’عزیزی‘‘ اور ’’رحماں‘‘ سے مراد عزیز الرحمان ہے۔)​
دین احمد مجتبیٰ پر رکھ مجھے قائم سدا

رکھ مجھے ثابت قدم اور ثباتی کر عطا
شاہ حسین احمد امام اتقیاء کے واسطے
رکھ مجھے رشد وہدایت پر تورب العالمیں

اپنی ذاتِ کبریاء کا دے مجھے کامل یقیں
شہ رشید احمدؒ امام الاولیاء کے واسطے
ہے برا کچھ حال اس دم اس دلِ ناشاد کا

کرمری امداد اللہ وقت ہے امداد کا
حاجی امداد اللہ صاحب ذوالعطاء کے واسطے
پاک کر ظلماتِ عصیاں سے الٰہی دل مرا

کر منو ّر نورِ عرفاں سے الٰہی دل مرا
حضرت نورمحمد پُرضیاء کے واسطے
ایسے مرنے پر کروں قرباں یارب لاکھ عید

اپنی تیغ عشق سے کرلے اگر مجھ کو شہید
حاجی عبدالرحیم اہل غزاء کے واسطے
کردے پیدا ہردوغم میرے دلِ افگار میں

بار پاؤں جس سے اے یارب ترے دربار میں
شیخ عبدالباری شاہ بے ریاء کے واسطے
شرک وعصیاں وضلالت سے بچاکر اے رحیم

کرہدایت مجھ کو اب صراط المستقیم
شاہ عبدالہادی پیر ہدیٰ کے واسطے
دین ودنیا کی طلب عزت نہ سرداری مجھے

اپنے کوچے کی عطا کر ذلت وخواری مجھے
شاہ عض الدین عزیز دوسرا کے واسطے
دے مجھے عشق محمد اور محمدیوں میں گِن

ہو محمد ہی محمد ورد میرا رات دن
شہ محمد(۱) اور محمدی اتقیاء کے واسطے
حب حق، حب الٰہی، حب مولیٰ، حب رب

الغرض کرتے مجھے محو محبت سب کا سب
شہ محب اللہ شیخ باصفا کے واسطے
گرچہ میں غرقِ شقاوت ہوں سعادت سے بعید

پرتوقع ہے کرے مجھ سے شقی کو تو سعید
بوسعید اسعد اہل وریٰ کے واسطے
قال ابتر حال ابتر سب مرے ابتر ہیں کام

لطف سے اپنے مرے کرملک دیں کا انتظام
شہ نظام الدین بلخی مقتداء کے واسطے
ہے بس یہی دین مرا یہی سب ملک ومال

یعنی اپنے عشق میں کر مجھ کو باجاہ وجلال
شہ جلال الدین جلیل اصفیاء کے واسطے
حب دنیاوی سے کرکے پاک مجھکو اے حبیب

اپنے باغِ قدس کی کرسیر تو میرے نصیب
عبدقدوس شہ قدس وصفاء کے واسطے
کرمعطر روح کو بوئے محمد سے مری

اور منور چشم کر روئے محمد سے مری
اے خدا شیخ محمد رہنما کے واسطے
شیخ احمد عارف صاحب عطا کے واسطے
کھول دے راہِ طریقت قلب پر یاحق مرے

کرتجلی ٔحقیقت قلب پر یا رب مرے
احمد عبدالحق شاہ ملک بقاء کے واسطے
دین ودنیا کا نہیں درکار کچھ جاہ وجلال

ایک ذرّہ درد یاحق میرے تو دل میں ڈال
شہ جلال الدین کبیر الاولیاء کے واسطے
ہے مکدر ظلمت عصیاں سے میرا شمس دین

کر منور نور سے عرفاں کے میرا شمس دین
شیخ شمس الدین ترک شمس الضحیٰ کے واسطے
اے مرے اللہ رکھ ہر وقت لیل ونہار

عشق میں اپنے مجھے بے صبر وبے تاب وقرار
شیخ علاؤ الدین صابر بارضا کے واسطے
دے حلاوت مجھ کو حق نمکینی ایمان سے

اور حلاوت بخش گنج شکر عرفان سے
شہ فرید الدین شکر گنج بقا کے واسطے
عشق کی راہ میں ہوئے چوں اولیاء اکثر شہید

خنجر تسلیم سے اپنے مجھے بھی کرشہید
خواجہ قطب الدین مقتول دلا کے واسطے
بے ترے ہے نفس وشیطاں در پئے ایمان ودین

جلد ہوآکر مرا یارب مددگار ومعین
شہ معین الدین حبیب کبریا کے واسطے
یا الٰہی بخش ایسا بے خودی کا مجھ کو جام

جس سے جز عشق نبی نہ ہووے کوئی کام
خواجہ عثمان باشرم وحیاء کے واسطے
درو کر مجھ سے غم موت وحیاتِ مستعار

زندہ کر ذکر شریف حق سے اے پرودرگار
شہ شریف زندنی با اتقا کے واسطے
آتشِ شوق اس قدر دل میں مرے بھردے ودود

ہر بُن مو سے مرے نکلے تری اُلفت کا دود
خواجہ مودود چشتی پارے کے واسطے
شاہ بویوسف شہ شاہ وگدا کے واسطے
مست اور بے خود بنا بوئے محمد سے مجھے

محترم کر خواری کوئے محمد سے مجھے
بومحمد محترم شاہ ولا کے واسطے
صدقے احمد کے ہے یہ امید تیری ذات سے

کہ بدل کر دے مرے عصیان کو حسنات سے
احمد ابدال چشتی باسخا کے واسطے
حد سے گزرا رنج فرقت اب تو اے پروردگار

کر مری شامِ خزاں وصل سے روزِ بہار
شہ ابواسحاق شامی خوش ادا کے واسطے
شادی وغم سے دوعالم کی مجھے آزاد کر

اپنے درد غم سے یارب دل کو میرے شاد کر
خواجہ ممشاد علوی بوالعلاء کے سواطے
ہے مرے تو پاس ہردم لیک میں اندھا ہوں پر

بخش وہ نورِ بصیرت جس سے تو آوے نظر
بوہبیرہ شاہ بصری پیشوا کے واسطے
عیش وعشرت سے دوعالم کی نہیں مطلب مجھے

چشم گریاں سینہ بریاں کرعطا یارب مجھے
شیخ حذیفہ مرعشی شاہ صفا کے واسطے
نے طلب شاہی کی نے خواہش گدائی کی مجھے

بخش اپنے در تلک طاقت رسای کی مجھے
شیخ ابراہیم اودھم بادشاہ کے واسطے
راہزن میرے ہیں دو قزّاق باگرزِ گراں

تو پہنچ فریاد کو میری کہیں اے مستعاں
شہ فضیل بن عیاض اہل دعا کے واسطے
کر مرے دل سے تو اے واحد دوئی کا حرف دور

دل میں اور آنکھوں میں بھردے سربسر وحدت کا نور
خواجہ عبدالواحد بن زید شاہ کے واسطے
کر عنایت مجھ کو توفیق حسن اے ذوالمنن

تاکہ ہوں سب کام میرے تیری رحمت سے حسن
شیخ حسن بصری امام اولیاء کے واسطے
ہادی ٔ عالم علی مشکل کشا کے واسطے
کچھ نہیں مطلب درعالم کے گل وگلزار سے

کر مشرف مجھ کو تو دیدارِ پُرانوار سے
سرور عالم محمد مصطفیٰ کے واسطے
آپڑا ہوں درپہ تیرے ہر طرف سے ہوملول

کران ناموں کی برکت سے دعا میری قبول
یاالٰہی اپنی ذاتِ کبریاء کے واسطے
ان بزرگوں کے تئیں یارب عرض ہرکار میں

کرشفاعت کا وسیلہ اپنے تو دربار میں
مجھ ذلیل وخوار مسکین وگدا کے واسطے
اس دوئی نے کردیا ہے دور وحدت سے مجھے

کردوئی کو دور اور پُرنور وحدت سے مجھے
تاہوں سب میرے عمل تیری رضا کے واسطے
کردیا اس عقل نے بے عقل ودیوانہ مجھے

کرذرا اس ہوش سے بیہوش مستانہ مجھے
یاحق اپنے عاشقانِ باوفا کے واسطے
کشمکش سے ناامیدی کی ہوا ہوں میں تباہ

دیکھ مت میرے عمل کر لطف پر اپنے نگاہ
یارب اپنے رحم واحسان وعطا کے واسطے
چرخ عصیاں سر پہ ہے زیرقدم بحر الم

چار سو ہے فوج غم کر جلد اب بہرکرم
کچھ رہائی کا سبب اس مبتلا کے واسطے
گرچہ بدکار ونالائق ہوں اے شاہِ جہاں

پرترے در کو بتا اب چھوڑ کر جاؤں کہاں
کون ہے تیرے سوا مجھ بے نوا کے واسطے
ہے عبادت کا سہارا عابدوں کے واسطے

اور تکیہ زہد کا ہے زاہدوں کے واسطے
ہے عصائے آہ مجھ بے دست وپا کے واسطے
نے فقیری چاہتا ہوں نے امیری کی طلب

نے عبادت نے زہد نے خواہش علم وادب
درد ِدل، پر چاہئے مجھ کو خدا کے واسطے
بخش وہ نعمت جو کام آوے سدا کے واسطے
گرچہ عالم میں الٰہی میں نے سعی ٔ بسیار کی

پر نہ کچھ تحفہ ملا لائق ترے دربار کی
جان ودل لایا ولے تجھ پر فدا کے واسطے
گرچہ یہ ہدیہ مرا ناقابلِ منظور ہے

پر جو ہو مقبول کیا رحمت سے تیری دور ہے
کشتگانِ تیغ تسلیم ورضا کے واسطے
حد سے ابتر ہوگیا ہے حال مجھ ناشاد کا

کر مری امدا اللہ وقت ہے امدادؔ کا
اپنے لفط ورحمت بے انتہا کے واسطے
بحر عالم میں الٰہی دستگیری ہوعطا

مجھ دلِ ناشاد کو ہے ایک تیرا آسرا
شاہ جیلانی شہ ملک بقا کے واسطے(۱)
ہے منور شمع الفت اس جہاں آباد میں

ایک چنگاری اُٹھی ہے اس دلِ ناشاد میں
کر منور شاہ یٰسین صفا کے واسطے(۲)
((۱) مراد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ۔
(۲) مراد حضرت شاہ محمد یٰسین صاحب نگینویؒ خلیفہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ۔)​
[/align]

جاری ہے
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:38
نوٹ: جو صاحب اس شجرہ کو پڑھیں آخری دو بند بھی پڑھیں کہ ان دو حضرات سے مجھے سچی عقیدت ہے۔
سلسلۂ طریقت میں ہر ایک داخل ہونے والے کو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ وہ کیوں اور کس سے بیعت ہورہا ہے؟ اگر یہ بھی آگہی نہ ہوئی تو بیعت نہیں ہوتی۔
بیعت ہونے کے بعد سب سے اہم وظیفہ یہ ہے کہ اپنے ذمے فرائض اور واجبات کی ادائیگی ضروری جانے خواہ وہ واجبات اللہ تعالیٰ سے متعلق ہوں یا بندوں سے متعلق ہوں، مثلاً: مہر اور قرضے کی ادائیگی بہت ضروری ہے۔ ولیمہ یا عقیقے سے زیادہ اہم مہر کی ادائیگی ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ادا کرتا رہے۔ بیوی کو اطلاع کردے بہتر، لیکن اگر کسی عذر یا فساد کی وجہ سے بتلانا مناسب نہ ہو تو اپنے ذہن میں رکھے۔ نفلی صدقات کے مقابلے میں قرضے کی ادائیگی بہت ضروری ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی جو مقروض تھے اور ادائیگی کو کوئی چیز نہ تھی۔
نوافل یعنی اشراق، چاشت، اوّابین، تہجد میں مشغول ہونے سے زیادہ بہتر قضا شدہ فرض نمازوں کی ادائیگی ہے۔ ایسے ہی مسنون روزوں کی ادائیگی سے زیادہ بہتر قضا شدہ فرض روزوں کی ادائیگی ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے مسنون روزوں مثلاً شش عید، عرفہ، محرم وغیرہ روزوں کے رکھتے وقت قضاء شدہ فرض روزے کی نیت کرلی جائے، ایسے ہی صلاۃِ مسونہ کے اوقات میں فرض نماز کی ادائیگی کی جائے۔ اس طرح فرض کی ادائیگی بھی ہوجائے گی اور اوقاتِ مسنونہ کی برکت اور فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی۔ اتنی بات تو ہر مسلمان مرد وعورت بالغ کے لئے ضروری ہے۔
اگر کوئی طریقت اور سلوک کی تعلیم حاصل کرنا چاہے اور اس میں ترقی چاہتا ہے کہ تو بغیر اس کے ممکن نہیں ہے جو عرض کردیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنے کا نام طریقت ہے۔ اور اسی سے اخلاصِ نیت پیدا ہوتی ہے اور یہی تمام مجاہدوں کا ماحصل ہے۔
معمولات
تلاوتِ قرآن، تسبیحات، استغفار، درود شریف۔
(۱) تلاوتِ قرآن شریف سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں۔ روزانہ بلاناغہ قرآن شریف تلاوت کرنا چاہئے، خواہ دس آیات ہی ہوں اگر پڑھنا نہیں جانتا تو پڑھنے کی کوشش کرے۔ اتنے خود پڑھنا آئے دوسروں سے سنا کرے۔ وہ لوگ کتنے عجیب ہیں کہ اخبار تو پڑھتے ہیں لیکن قرآن نہیں پڑھتے۔
(۲) تسبیحات میں سبحان اللہ ۱۰۰/بار، الحمد اللہ ۱۰۰/بار، لاالٰہ الا اللہ ۱۰۰/بار، اللہ اکبر۱۰۰/بار۔ اس کے علاوہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ بھی سو بار پڑھ لیا کریں۔ ہر دووقت ان تسبیحات کی پابندی اور اسی کے ساتھ ساتھ سو سو بار درود شریف اور استغفار بھی پڑھا کریں۔ چلتے پھرتے ہر حال میں استغفار پڑھنے کو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے بہت مفید قرار دیا ہے۔
درود شریف کے لئے عشاء کا وقت سونے سے پہلے زیادہ مناسب ہے۔ خاص طور سے شب جمعہ اور جمعہ کے دن درود شریف کا اہتمام کرنا چاہئے۔ درود شریف کے کلمات اور صیغوں پر مشتمل دلائل الخیرات مشہور اور مشائخ کے یہاں معمول بہا کتاب ہے۔ اس میں سات منزل ہیں ایک منزل روز پڑھ لینا چاہئے۔ اس کتاب میں حوائج اور ضروریات کے لئے درودِ ’’تنجینا‘‘ بھی ہے اس کو سو مرتبہ روزآنہ پڑھ لینا بہت سی بلاؤں سے کفایت کرتا ہ ہے اس کو یاد کرلینا چاہئے۔ ہمارے سلسلے میں درود شریف کے دو صیغے زیادہ رائج ہیں:
(۱)أَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ سَیِّدِنَا وَعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ کُلِّ شَیْئٍ مَعْلُوْمٌ لَکَ۔
(۲) أَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَ تَرضیٰ وَ بِعَدَدِ مَا تُحِبُّ وَتَرضٰی۔
یہ دونوں درود شریف حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ اور حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کے پسندیدہ ہیں۔
(۳) اسی کے ساتھ اگر وقت ہو تو دعاؤں کے لئے کتاب ’’حزب الاعظم‘‘ کی ایک منزل پڑھنا چاہئے۔ یہ دعائیں جناب ملا علی قاری نے جمع کی ہیں۔ قرآن پاک اور احادیث میں جس قدر دعاء کے کلمات آئے ہیں اس کتاب میں جمع کردئیے ہیں۔ اس طرح اس کی سات منزل مقرر کردئیے ہیں۔ روزآنہ ایک منزل پڑھ لینا چاہئے۔
(۴) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی مسلسلات میں اور حضرت شیخ عبدالقددر جیلانیؒ نے اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں مسبعاتِ عشر نقل کئے ہیں۔
خیروبرکت اور ازالۂ اثرات اور آسیب اور حفاظت کے لئے اس کا پڑھ لینا مشائخ نے مفید لکھا ہے وہ یہ ہیں:
(۱) سورۂ فاتحہ ۷/بار (۲) قل أعوذ برب الفلق ۷/بار
(۳) قل أعوذ برب الناس ۷/بار (۴) قل ھو اللہ أحد ۷/بار
(۵) قل یأیہا الکافرون ۷/بار (۶) آیت الکرسی ۷/بار

(۷) سبحان اللہ والحمد للہ ولاالٰہ إلا اللہ واللہ اکبر ۷/بار
(۸) درود شریف ۷/بار (۹) استغفار ۷/بار

(۱۰) یہ کلمات ۷/بار یعنی أللّٰہُمَّ إِفْعَلْ بِی عَاجِلاً واٰجِلاً فِی الدِّیْنِ وَ الدُّنْیَا وَا لآخِرَۃِ مَا اَنْتَ لَہٗ أَہْلٌ وَلاَ تَجْعَلْ بِنَا یَا مَوْلَانَا مَا نَحْنُ لَہٗ أَہْلٌ أَنْتَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ بِرٌّ رَؤٗفٌ رَحِیْمٌ۔
پنج وقتہ نمازیں جماعت سے ادا کرنا چاہئے۔ تہجد کی نماز کی کوشش کرنا چاہئے کہ بغیر اس کے مقامِ ولایت حاصل نہیں ہوتا، چاشت، اشراق، اور بعد مغرب کے نوافل کی پابندی ہوجائے تو بہتر ہے۔ چاشت کی نماز پڑھنے والوں کو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے صالحین میں شمار کیا ہے۔
کلمہ طیبہ کثرت سے پڑھنا چاہئے۔ اگر ہوسکے تو حالات کے اعتبار سے کم از کم چھ ہزار مرتبہ اسم ذات ’’اللہ‘‘ خاموشی سے پڑھنا چاہئے۔ حالات کے مطابق تعداد بڑھائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’پاس انفاس، ذکر جہری، نفی واثبات، ذکر قلبی، مراقبہ‘‘ کسی کامل شیخ سے حاصل کرنا چاہئے۔ کامل شیخ جاہل پیر نہیں ہوتے؛ بلکہ وہ ہوتے جو طریقت کے ساتھ شریعت کے بھی عالم ہوں سیاسی نہ ہوں۔
پاس انفاس کے معنی ہیں: سانس پردھیان دینا۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ صبح وشام تنہائی میں سانس پر اس دھیان جمائے کہ جب سانس اوپر کو آئے تو لفظ’’ اللہ ‘‘اور سانس چھوڑے تو ’’ھو‘‘ زبان کو حرکت نہ ہونا چاہئے اور اس مشق کو بڑھانا چاہئے۔ اس کے یاد کرنے کے لئے آسان طریقہ یہ ہے کہ ناک کے دونوں نکساروں پر نظر جمائے، مشق کرلینے سے یہ ذکر ہروقت جاری ہوجاتا ہے اور پھر سونے کی حالت میں بھی جاری ہونے لگتا ہے۔ اس میں پختگی کے بعد مراقبے کی منزل شروع ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
ہر ایک حرام سے پرہیز کرے۔ ایک حرام سے بچنا سو نیک کام کرنے سے بہتر ہے۔ دورانِ ریاضت دماغی تقویت کے لئے کچھ کھانا چاہئے، مثلاً خمیرہ گاؤں زباں سادہ تاکہ دماغ میں خشکی نہ ہونے پائے ورنہ مالیخولیا کا اندیشہ ہے اور آدمی وہمی ہوجاتا ہے، بعض دفعہ صفراوی مزاج کے آدمی کو چمک دکھائی دے جاتی ہے تو وہ اپنے کو ولی گمان کرلیتا ہے، اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مدد حفاظت فرمائے۔ آمین
محاسبۂ نفس کے ساتھ دینی کتابوں کا مطالعہ بھی کرلینا چاہئے۔
(۱) مسنون دعائیں۔ ان دعاؤں کو زبانی یاد کرلینا چاہئے، سب دعاؤں کو عمل میں لانے کے لئے مداومت کرنے سے بھی قلب جاری ہوجاتا ہے۔
(۲) فتوح الغیب۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی مشہور کتاب ہے، بہت فائدہ ہے اس کو پڑھتے رہنا چاہئے۔
(۳) عواعظ ِ غوث الاعظم۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مواعظ حسنہ کا مجموعہ ہے بلاناغہ پڑھنا چاہئے۔
(۴) حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مواعظ۔
(۵) تذکرہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور تذکرۃ الرشید، تذکرۃ الخلیل، انفاسِ قدسیہ، سوانح حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور دوسرے بزرگوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرتے رہنا چاہئے، فائدہ ہوگا۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ تصوف اور سلوک کا کورس نہیں ہے کہ پڑھ لیا اور بات ختم ہوگئی بلکہ منشاء اس قدر ہے کہ ہم کس طرح سچے مسلمان اور اللہ تعالیٰ کے تابعدار بندے بنیں، یہی کوشش عمر بھر رہنا چاہئے، یہ خیال بھی نہ لانا چاہئے کہ ہم کسی قابل ہوگئے ہیں یا ہم کو ولی یا بزرگ بن جانا چاہئے، بس کوشش رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا تابعدار بندہ بنالے کہ ہم تمام انسانوں اور مسلمانوں کے لئے مفید ہوں اور ایمان کے ساتھ زندگی گزر جائے اور ایمان پر ہی خاتمہ ہوجائے۔ آمین ثم آمین
اوپر ہم نے اذکار اور اوراد وظائف از قبیل عبادت ذکر کئے ہیں، ان سے قلب میں صفائی اور جلاء پیدا ہوتا ہے اور احساس شعور جاگنے لگتا ہے لیکن اسی کے ساتھ تہذیب نفس اور تزکیۂ باطن بہت ضروری ہے، اس سے اخلاقِ حسنہ اور عاداتِ پسندیدہ پیدا ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:39

معلوم رہے انسان دو قسم ہیں: انسانِ ظاہر اور انسانِ باطن۔ نیک اعمال کافر بھی کرتے ہیں اور مومن بھی کرتے ہیں لیکن مومن کا باطن چونکہ سنورا ہوا ہوتا ہے جب کہ کافر کا باطن بگڑا ہوا ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے جو اعمالِ ظاہرہ شرعی حدود اور شریعت کے مطابق ہوتے ہیں ان میں اخلاص اور نورانیت کیسے پیدا ہو؟ مثلاً: یہی نماز جو ہم پڑھتے ہیں حضراتِ انبیاء اور حضراتِ صحابہ نے بھی پڑھی ہیں، لیکن باطنی اوصاف کی وجہ سے ہماری اور ان کی نمازوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
حضراتِ صوفیہ اور اہل باطن نے اس بارے میں دو باب مقرر کئے ہیں، مہلکات سے اجتناب اور منجیات کو اختیار کرنا۔ مہلکات میں :
(۱) کسرِ شہوت، یعنی پیٹ کی خواہش، یعنی زیادہ کھانے اور لذیذ کھانوں کی طرف رغبت۔
(۲) شہوتِ فرج، یعنی شہوتِ نفس کو پورا کرنا، حسن پرستی، سوئِ نظر سب اس میں داخل ہیں۔
(۳) آفاتِ لسان، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، چغل خوری غرض یہ کہ زبان سے جتنے
برے کام لئے جاتے ہیں۔
(۴) حبِّ دنیا۔ (۵) بخل اور حب ّ مال۔
(۶) خود پسندی یا عُجب۔ (۷) ریاکاری۔
(۸) کبر اور حسد یہ سب چیزیں انسان کو ہلاک کردیتی ہیں اور یہ اُمور بھی ویسے ہی حرام ہیں جیسا کہ ظاہری حرام حرام ہیں اور ان اُمور اور بری عادتوں کے ہوتے ہوئے فلاح حاصل کرنا مشکل ہے، ان کے ازالے کی کوشش کرنا چاہئے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
{ وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰہَا فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْوٰاہَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا} الآیۃ
اور نفس کہ جیسا کہ اس کو ٹھیک بنایا اور اس کو اس کا فجور اور تقویٰ الہام کیا وہ کامیاب ہوا جس نے اس کو سنوارلیا، اور برباد ہوا جس نے اس کو بگاڑ لیا اس تزکیۂ نفس میں جہاں عبادات سے تعاون حاصل ہوتا ہے وہاں محاسبۂ نفس کو بھی بڑا دخل ہے۔ ہر صبح اور ہر شام پوری رات کے اور پورے دن کے حرکات اور سکنات پر اور اچھی اور ہر بری عادت کا حساب کیا کرے۔ برائیوں پر کچھ جرمانہ مقرر کرے، کچھ نہیں تو ہر غلطی کے بدلے دس مرتبہ استغفار مقرر کرے اور یہ حساب روزآنہ کا روزآنہ نمٹادینا چاہئے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ کوئی برائی نہ ہوگی اور کسی بری عادت میں ملوث نہ ہوگا۔
(۲) منجیات ؔمیں توبہ، صبر اور شکر، خوف، اور رجائ، فقر اور زہد، توحید اور توکل، محبت اور شوق، نیت اور اخلاص، فکر آخرت، ذکر موت وغیرہ یہ چیزیں منجیات میں شمار ہوتی ہیں۔ برائیوں کو خواہ اندر کی ہوں یا باہر کی ان کو دور کرکے مذکورہ چیزوں کو اختیار کرنا۔ ان سب چیزوں کا تعلق عمر بھی ایمانی جدوجہد میں لگے رہنے میں ہے اس کے بارے میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
’’رجَعْنَا مِن جِہادِ الأصغَرِ إِلیٰ جِہادِ الأکبَرِ‘‘۔
ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
ان تمام اُمور میں کامیابی ذکر وعبادت میں پابندی، نیک صحبتوں کے اختیار کرنے، دینی کتابوں کے مطالعہ، قبرستان جانے اور اولیاء کی قبور پر حاضر ہونے سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ دستگیری فرمائے۔
اس لئے شیخ کامل کو اختیار کرنا بہت ضروری ہے جس طرح اناڑی طبیب بیمار مریض کو مار ڈالتا ہے ایسے ہی اناڑی پیر بھی برباد کردیتا ہے اس لئے بہت غور اور تجسس کے بعد مرید ہونا چاہئے۔ وہ پیر برے ہیں جو لوگوں کو زبردستی مرید کرتے پھرتے ہیں۔
یاد رہے کہ تصورِ شیخ جائز نہیں ہے بلکہ یہ شرک اور بت پرستی کے قریب ہے اس سے گریز کرنا چاہئے۔ تصورِ شیخ کی حالت میں اگر موت ہوگئی تو سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے۔ العیاذ باللہ
(مزید تفصیل ضمیمہ میں ملاحظہ فرمائیں)
(جاری ہے)
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:40
ا
سمائے متوسلین جن کو اجازتِ بیعت دی گئی​
اوپر میں نے اپنی تعلیماتِ سلوک کا ذکر کردیا ہے۔ تعلیم کے تمام مراحل سے گذار کر جن کو میں نے اجازتِ بیعت دی ہے وہ حسب ذیل ہیں:
۱- مولانا خلیل الرحمن صاحب کھاری، ضلع بجنور۔
۲- حافظ شریف احمد صاحب مرحوم، محلہ مردہگان بجنور، باقاعدہ سلوک طے کرا۔
۳- صوفی محمد صدیق صاحب مرحوم، محلہ بخارہ بجنور۔ (بیعت سلوک کے بعد)
۴- صوفی اشفاق الرسول صاحب مرحوم، محلہ شاہ رمز الدین دیوبند۔
۵- ڈاکٹر محمد زاہد خاں لودی، محلہ نیازیان امروہہ۔ (باقاعدہ سلوک کے بعد شعبان ۱۳۹۱ھ؁)
۶- ماسٹر افتخار صاحب زیدی، چاندپور محلہ کٹکوئی (۱۹۹۳؁ء میں ہوئے)۔
۷- ڈاکٹر عبدالرشید صاحب قریشی مرحوم، شاہ پیر گیٹ میرٹھ (۱۹۸۹؁ء)۔
۸- مفتی عبدالوہاب صاحب پٹیل، مہتمم مدرسہ باقیات الصالحات، ویلور مدراس سیمینار کے موقع پر، جولائی ۱۹۹۳؁ء میں۔
۹- صوفی محمد شاہد صاحب مسجد پہاڑی دروازہ محلہ شیخ سرائے نگینہ۔ (سلوک طے کرانے کے بعد ۱۹۹۰؁ءمیں)
۱۰- برخوردار مولوی مفتی عابدالرحمن سلمہ۔ (۴/فروری ۱۹۹۷؁ء
۱۱- صوفی عبدالرشید صاحب محلہ شیخان شیرکوٹ۔
۱۲- مولانا حبیب الرحمان صاحب سہسپوری، حال مقیم احمد آباد مسجد بھٹیار گلی تین دروازہ۔
۱۳- مولانا عبدالصمد صاحب مرحوم موضع بڈگری، ضلع بجنور۔
۱۴- برخوردار مولوی عبید الرحمن صاحب سلمہ، ۱۶/اکتوبر ۱۹۹۷؁ء
۱۵- مولانا نور الرحمن صاحب آسامی عرف نقاب پوش( بکری والے)، حال مقیم رام جی والا بجنور۔
۱۶- مولانا حسین الدین صاحب شہاب پورہ، ضلع بجنور حال مقیم سیلم پور دہلی، نیوسلیم مارکیٹ والی مسجد
۱۷- ملا علی احمد صاحب نوگاواں سادات محلہ نئی بستی۔
۱۸- مولانا شمس الدین قاسمی صدر مدرس محلہ قاضی پاڑہ بجنور۔
۱۹- محمد اسماعیل صاحب محلہ لودھنا، شیرکوٹ۔
۲۰- انوار احمد سلمہ، ویلکم ہوٹل نزد فردوس مسجد ویلکم سیلم پور دہلی۔
۲۱- عبدالرحمن بھائی میمن، شاہین پارک، جوہاپورہ احمد آباد (۲۳/ ذیقعدہ ۱۴۲۲؁، ۷/فروری ۲۰۰۲؁)۔
۲۲- محمد راشد اللہ ولد حافظ شوکت علی صاحب مدرسہ دارالقرآن خانقاہ مدنی روڈ دیوبند۔ ۲۲/جمادی الاوّل ۱۴۲۳؁ھ۔
۲۳- عبدالستار بھائی میمن، سرپستہ کنج پالڑی، احمد آباد (شعبان ۱۴۲۳ھ)۔
۲۴- حضرت مولانا محمد عثمان غنی صاحب شیخ الحدیث مظاہر علوم وقف سہارنپور (۶/ذی قعدہ ۱۴۲۳ھ؁)۔
۲۵- محمد انیس انصاری محلہ بخارہ، پی سی او والے، بجنور (باقاعدہ سلوک کے بعد، ۱۵/محرم الحرام ۱۴۲۴؁ھ، مطابق: ۲۰۰۳؁ء)۔
۲۶- قاری محمد ارشد اللہ ولد حافظ شوکت علی، مدرسہ دارالقرآن محلہ خانقاہ دیوبند۔
۲۷- محمد شکیب خاں(ویلڈنگ والا) جوہا پورہ احمد آباد۔
۲۸- ڈاکٹر ہدایت میمن، احمد آباد۔
۲۹- صاحبزادہ ڈاکٹر ہدایت میمن، یعنی محمد امین میمن سلمہ۔
۳۰- حافظ لئیق احمد ولد شمیم احمد موضع کھٹائی ضلع بجنور ۲۹/ذی قعدہ ۱۴۲۴؁ھ باضابطہ ذکر وغیرہ کے بعد۔
۳۱- حاجی رئیس احمد صاحب شیرکوٹ والے۔ ۱۴/نومبر ۲۰۰۴؁ئ۔
۳۲- محمد اکرام ولد عبدالحمید ہوٹل والے، متصل مسجد ناظر والی قاضی پاڑہ بجنور۔
۳۳۔ جناب محمد صابر خاں صاحب ۱۹۸۸؁ء رٹائرڈ آفیسرغازی پوری مقیم حال شاہین باغ آفیسر اپارٹمینٹ اوکھلا دہلی (انڈیا)

(جاری ہے)
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:41
ضمیمہ

کچھ ان کے بارے میں


از بختِ بدم اگر فروشد خو رشید​
از نور رُخت َمہاَ چراغے گیر

ہماری قسمت سے اگر سورج چھپ گیا ہے تو کیا ہوا
اس ماہ تاباں سے نور ایماں کیوں نہ لیں ؟
( آپ کے اسو ہ حسنہ تا لیفات و باقیات تو ہیں )​

[
size=x-large]
(جاری ہے)​
[/size]
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:42

مد ینہ اخبار اورآپ

ایک غلط فہمی کا ازالہ​
ماہ نامہ دارا لعلوم دیوبند کے ایک مکتوب پر تبصرہ​
حال ہی میں ماہنامہ دارالعلوم دیو بند بابتہ جولا ئی ۱۹۵۸؁ء بابتہ ذی الحجہ ۱۳۷۷؁ھ کے شمارہ میں مدیر نے ص۳۹ ‘۴۰ پر دو مکتوب شائع کئے ہیں دونوں مکتوب ایک اختلافی مسئلہ پر مشتمل ہیں جس کی وجہ سے عوام میں غلط فہمی پھی لنے کا اندیشہ ہوگیا ہے علاوہ ازیں چونکہ جوابی مکتوب جناب حکیم الااسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ مہتمم دارلعلوم دیوبند کی جانب سے ہے اور اس میں موصوف نے اپنے عدم علم کا اعتراف بھی کیا ہے اس و جہ سے جواب ادھورا اور ناقص رہ گیا ہے ۔
پہلا مکتوب جناب مولانا میرک شاہ کشمیری لاہور کی جانب سے ہے جس میں موصوف نے اولاً اپنا تعارف مہتمم صاحب قبلہ کے ساتھ ز مانہ طالب علمی میں مجلس ُحلوان (مٹھائی کی محفل) سے کرایا ہے اور اس کے بعد دیگر حالات لکھتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس طرف رمضان المبا رک میں تراویح میں ختم قرآن کے سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل طلبہ ہر صورت کے شروع میں بسم اللہ الخ جہرا ًپڑھتے ہیں جو مذہب حنفیہ کے خلاف ہے اور اس کے بعدنا مکمل اور ناقص استدلال بھی پیش کئے ہیں غرض کہ اس مسئلہ میں سائل نے مختصرًا کچھ بیان فرمایا ہے اور اپنے تجربات بھی پیش کئے ہیں اور آخر میں اپنے منشاء اور حاصل سوال کو ان الفاظ میں تحریر فرمایا ہے ’’ بہر کیف آپ کو فقہی تحقیقات کی تکلیف میں نہیں دیتا ہوں کیوںکہ یہ کام میں خودکررہا ہوں البتہ عمل دیوبند کی اطلاع آپ دے سکتے ہیں اسی کی تکلیف دیتا ہوں‘‘۔
یہ سوال مولانا موصوف نے حضرت مولانا حکیم الاسلام قبلہ سے کیا ہے۔ منشاء اور مقصد سائل کا ظاہر ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور جواب بھی ظاہر ہے کہ مسئلہ مختلف فیہ(کہ تراویح میں ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ الخ کوجہراً یا سراً پڑہنا چاہئے کہ نہیں)میں عمل دیوبند کیا ہے سائل کو مختصرجواب کی ضرورت تھی اور وہ چاہتا تھا کہ مسئلہ مذکورہ میں جہاں اس کے پاس فقہا کی تصریحات ہوں گی۔اس میں بطور استدلال وہ عمل دیوبند کو بھی شامل کردیگا اس کا جواب حضرت حکیم الا سلام قبلہ نے تحریر فرمایا ہے ۔
حضـرۃ المحترم ِزیدت معالیکـــم سلا م مسنون !
’’یہاں دیوبند کا عام طور پر خواہ مسجد دارلعلوم ہو یا مسجد دیوبند عمل یہی ہے کہ ایک دفعہ بسم اللہ پورے قرآن میںجہراً پڑھتے ہیں میرا خود عمل بزرگوں کی موجودگی میں یہ تھا کہ قل ہواللہ کے شروع میں بسم اللہ الخ جہراً پڑھا کرتا تھا ۔اب عرصہ دراز سے یہ ہے کہ سورئہ بقرہ کے شروع میں پہلے ہی دن بسم اللہ جہرسے پڑ ھ لیتا ہوں‘‘۔
ناظرین کرام سمجھ گئے ہوں گے کہ سائل کا منشاء صرف اتنے جواب سے پورا ہو گیا اس کے علاوہ مزید کچھ لکھنا اسکے منشاء سے زائد ہے ۔ مگر حضرت حکیم الا سلام قبلہ فرماتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ ہے ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ کا سوال اس پر یہاں بزرگوں میں سے کسی کا عمل نہیں تھا نہ تراویح میں نہ غیر تراویح میں ۔اس عمل کو البتہ حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ نے نوافل اور تراویح میں شروع کیا اور ہر سورت کے شروع وہ نوافل میں بصورت ختم قرا ٓن جہراً بسم اللہ پڑھتے تھے ان کے تلامذہ اور متوسلین نے اس کی اقتدا کی مگر سابقین میں سے کسی نے اس عمل کو قبول نہیں کیا اور کہیں منقول بھی نہیں ۔ص ۴۴
ہمیں خط کشیدہ عبارت کے بارے میں ہی کچھ عرض کرنا ہے ۔
(۱)مکتوب کے آخر میں حضرت حکیم الاسلام قبلہ نے عدم تحقیق کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے۔
باقی اس عمل کے سلسلہ میں کبھی نصوص تلاش کر نے کی نوبت نہ آئی ـــ ۔
پس اس فقرہ سے معلوم ہوگیا کہ حضرت حکیم الاسلام قبلہ کو ابھی اس مسئلہ میں پورا علم نہیں ہے بدیں و جہ جواب بھی ناقص ہے ۔
(۲)ہمارے نزدیک حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کا علم اور عمل اور ولایت وقطبیت میں خطہ زمیں پر کوئی بھی مثیل اور نظیر نہیں ہے لہٰذا اگر حکیم الااسلام قبلہ صرف اتنافرمادیتے کہ اکا برین دیوبند میں سے صرف حضرت شیخ الااسلام ؒ کا اس پر عمل تھا ہمیں تبصرہ کرنے کی نوبت نہ آتی لیکن حضرت حکیم الاسلام قبلہ کا یہ فرمادینا کہ سابقین میں کسی نے اس عمل کو قبول نہیں کیا اور کہیں منقول بھی نہیں خلاف واقعہ اور غلط ہے۔
میں سمجھتا ہوں اور ہندوستان اور بیرون ہندوستان میں علماء اسلام اس کو تسلیم کرتے ہیںکہ حضرت شیخ اسلام کا جو عمل تھا وہ عین سنت کے مطابق تھا ان کے عمل میں کسی قسم کا شک کرنا یا ان کے عمل کو یہ کہہ کر ٹال دینا کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اس کے لئے میں بھی عرض کردوں کہ قائل کو علوم شرعیہ پر ابھی عبور نہیں ہے۔ دلائل شرعیہ کی طرف ہم جانا نہیں چاہتے صرف اتنابیان کرتے ہیں کہ حضرت شیخ الاسلامؒ مسئلہ مذکورہ میں جس عمل کو اختیار کئے ہوئے تھے سابقین سے بھی منقول ہے کہ نہیں انہوںنے اس کو پسند بھی فرمایا ہے کہ نہیں۔لہٰذا ذیل میں فتاوی رشیدیہ ص۲۷ سے قطب العالم حضرت مولانا رشیداحمد صاحب گنگوہیؒ کاایک فتوی نقل کرتا ہوں ملا حظہ فر مایئے۔
مذہب حنفیہ میں بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا سنت ہے اور جہراً پڑھنا ترک اولیٰ ہے اور تراویح میں جو قرآن کا ختم ہوتا ہے اس میں بھی مذہب حنفیہ کے موافق یہی حکم ہے مگر حفص قاری جن کی قرأت اب ہم لوگوں میں شائع ہے ان کے نزدیک بسم اللہ جزو ہر سورت کا ہے اور جہر سے پڑھنا ان کے نزدیک ضروری ہے پس اگر اقتدا ء سے ان کی کوئی ہر سورت پرجہر سے بسم اللہ پڑھے تو مضائقہ نہیں جیسا کہ بعض قرأ کا دستور ہے تو اس صورت میں قرأن کا کامل ہونا حفص کے نزدیک جہر بسم اللہ پر موقوف ہے اور امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ایک دفعہ کہیں جہر سے پڑھنا کافی ہے ۔ بہر حال دونوںطرح درست ہے ایسے امور میں خلاف ونزاع مناسب نہیں کہ سب مذاہب صحیح ہیں۔ واللہ اعلم :ص۲۷
(جاری ہے)
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم

پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:43

حضرت گنگوہیؒ کی مذکورہ تصریح کے بعد مجال کلام نہیں ہے کہ اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سابقین سے منقول نہیں اورنہ انہوں نے قبول کیا ہے ۔حضرت گنگوہیؒ جن کا عالم ربانی ہونا مسلم ہے اگر کچھ خرابی مسئلہ مذکورمیں دیکھتے تو ضرور فرمادیتے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالہ کے بعد اب کسی دلیل کی حاجت نہیں تاہم حضرت شیخ الاسلام ؒ نے اس عمل کو اختیار کرنے میںجو و جہ بیان فرمائی ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
میں تراویح میں حفص کی قرأت پڑھتا ہوں ان کی یہ تحقیق ہے کہ بسم اللہ ہر سورت کا جزو ہے اس لئے میں اس کی پابندی کرتا ہوں۔ چو نکہ یہ مسئلہ بہر حال مختلف فیہ ہے اس لئے میں فرائض میں ایسا کرنے سے احتیاط کرتا ہوں مگر نوافل میں حفص کی تحقیق پر اس لئے عمل کرتا ہوں کہ ان کے نزدیک بھی پورا قرآن ختم ہوجائے ورنہ خواہ مخواہ ایک ایک آیت ہر سورت میں تلاوت سے رہ جایا کرے گی اور اس طرح کچھ لوگوں کے نزدیک پورا قرآن شریف ختم بھی نہ ہوسکے گا ۔
پھر فرمایا:
مجھے حیرت ہے کہ لوگ ’’عَلَیْہِ اللّٰہ ‘‘ اور’’ بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرِیہَاوَمُرْسٰھَا ‘‘میں تو حفص کی قرأت کا لحاظ کرکے عام قاعدہ کے خلاف پڑھتے ہیں ۔پھربسم اللہ کی جہراًقرأت میں اوروہ بھی نوافل میں کیوں تأمل کیا جاتاہے ۔ پس میں تراویح میں پور ے قرآن کے ختم کے خیال سے حفص کی تحقیق پر عمل کرتا ہوں اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔
(شیخ ا لا سلام نمبر الجمیعتہ ص۲۸)
حضرت شیخ الاسلامؒ کی اس تفصیل اور تصریح کے بعد کسی کو اعتراض یاشک کا اختیار نہیں رہتا اورنہ کسی دوسرے عالم یا مفتی کے فتوے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔لہذا اس مسئلہ میں ہم اور زیادہ تصریحات بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ سائل اورمجیب حضرت شیخ الااسلام ؒ کو اپنامقتدأتسلیم کرتے ہیں ہمیں امیدہے کہ سائل اورمجیب مدیر مذکورکے لئے اتنالکھ دینا کافی ہوگااور ہمیں آیندہ قلم اٹھانے کی نوبت نہ آئے گی۔ (مدینہ اخباربجنور ۔۵اگست۹۵۸؁۱ص۳جلد۴۷)
(جاری ہے)
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:44
رویت ہلال اور اسلامی تقریبات​
مسئلہ رویت ہلال اسلام کا ایک اہم مسئلہ ہے کیوںکہ رویت ہلال ہی کے اوپراسلامی اوردینی تقریبات اِعیادورمضان،حج اور دوسری چیزوں کا انحصارہے۔ظاہر ہے کہ جس چیز کا تعلق فرائض،واجبات اور حرام وحلال سے ہوگا اس کو کس قدر اہمیت حاصل ہوگی علاوہ ازیں فرائض وواجبات اور حلال اورحرام کا تعلق عقیدے سے بھی ہے جس کی وجہ سے ایمان اور عقائد پر بھی اثر پڑتاہے۔کیوںکہ ادائیگی فرائض اور ارتکاب حلال وحرام سے ایمان کو تقویت یا عدم تقویت حاصل ہوتی ہے اسی و جہ سے شارع علیہ السلام نے اجتناب حرام اور ادائیگی فرائض پر بہت زور دیا ہے۔بدیں و جہ مسئلہ رویت ہلال بھی ایک اہم مسئلہ ہے اور اس سلسلہ میں جو فیصلہ بھی ہونا چاہئے مضبوط اور محکم ہونا چاہئے۔محض قیاسات،ظنیات اور حسا بات سے ہی اس مسئلہ کا اثبات کرنا مناسب نہیں ہے جبکہ ان حسابات اور تخمینوں سے نصوص شرعیہ کا رد بھی لازم آتا ہے۔
اسلام کے کسی بھی مسئلہ کے اثبات کے لئے قرآن ،حدیث،اجماع امت،اور قیاس سے کام لیا جاتا ہے ہر مسئلہ میں قرآ ن و حدیث اور اجماع امت، کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ ایسی بہت سی نظیریں ہیں کہ جن میں قیاس جلی کورد کردیاگیاہے۔و جہ غالباًاس کی یہ ہے کہ انسانوں کی مثال احکامات شرعیہ کے مقابلہ میں تابع اور محکوم کی ہے محکومیت اتباع حکم ہی تک برقراررہتی ہے ۔اسی وجہ سے اسلامی عقائد،فرائض،واجبات اور دیگر احکا مات کا عقل انسانی کے تابع ہونا ضروری نہیں ہے۔ عقل نے تو ہمیشہ دھوکا دیا ہے،یہ بھی انسانی عقل کاہی کرشمہ ہے کہ خداکے وجود کا اس نے انکار کیا ہے ۔ایسا ذہن وقیاس جودن رات غلطیاں کرتاہو اپنے مزعومات کو کبھی غلط اورکبھی صحیح کہتا ہو کب اعتماد کے قابل ہوسکتا ہے،اسی انسانی عقل نے ایک عرصہ تک اور برسوں کے تجربہ سے سبع سیاروں کے وجود کے علاوہ دیگر سیارگان کا وجود تسلیم نہیں کیا تھا ،مگراب دس سیاروں کے جود کا قائل ہے ،کبھی یہی عقل انسانی حرکت فلک کی قائل تھی لیکن اب حرکت ارض کی قائل ہے، کبھی یہی عقل خلا میں جانے کوبالکل محا ل قرار دیکر معراج النبی کاانکار کرتی تھی اور اب یہی عقل اپنے عقیدہ اور خیال کو غلط کہتی ہے ،بلکہ خود خلا کے وجود کا اقرار کررہی ہے ،کبھی اسی عقل کے سامنے شق صدرالنبی ﷺکا معاملہ بالکل جھوٹ معلوم ہوتا تھا اور اب یہی عقل قلب کے آپریشن کررہی ہے۔توایسی عقل ہرگز اس قابل نہیں ہو سکتی کہ جس کی اتباع میں نصوص شرعیہ کو ترک کر دیا جائے بلا شبہ عقل کی ہر بات اسی وقت تسلیم ہے جب اس کا نصوص سے ٹکرائو نہ ہو تاہو کیونکہ اسلام انسانی عقل کے تابع ہونے کے لئے نہیں آیا بلکہ انسانی عقول کو اپنا تابع بنانے کیلئے آیا ہے،یہی و جہ ہے کہ صدہا انقلابات دہورکے بعد آج بھی اسلام کی ہر تعلیم اورہر اصول بلاتحریف موجودہے۔
اس تمہید کے بعد مسئلہ رویت ہلال پر ذرا تفصیلی کلام کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آجکل کے پاکستا نی حساب دانوں اور رصد گاہوں کے ماہرین اور منجمین کا اصرار ہے کہ رویت ہلال کا فیصلہ ہماری تحقیق کے مطابق ہونا چاہئے اور نصوص کو ترک کردینا چاہئے اس سلسلہ میں پاکستان نے سرکاری طور سے اس فیصلہ کو منظور بھی کرلیا ہے ۔اور ہلال کمیٹیاں توڑدی ہیں ۔اس سلسلہ میں حکومت کا اعلان دسمبر۹۱۵۹ ء؁ میں شائع ہوا تھا جس کا جواب میں نے ۲۱ ِدسمبر۱۹۵۹ئ؁ کے مدینہ میں دیا تھا،میرا وہ جواب پاکستان کے دیگراخبارات میں شائع ہوا تھا اب ۲۵اپریل کے مدینہ میں حکومت پاکستان کا فیصلہ شائع ہواہے ۔ضرورت ہے کہ حکومت کے نظریہ کی تغلیط اور شرعی فیصلہ کا اثبات ذرا تفصیل سے کیا جائے ،اس سلسلہ میں چند چیزیں قابل غور وفکر ہیں۔
(۱) اسلام نے رویت ہلال کاکیوں اعتبار کیا ،کیوںنہ اپنی تقریبات کوشمسی نظام پرموقف رکھا؟(۲)رویت ہلال سے کیا مراد ہے؟(۳)رویت کے لئے حکومت فیصلہ کی ضرورت ؟(۴)رویت کتنے طریقوں سے ثابت ہو سکتی ہے؟(۵)آیاقبل از وقت حکومت کورویت کے فیصلہ کرنے کا شرعاً حق حاصل ہے ؟(اس سلسلہ میں علامہ شوکانیؒ کی تحقیق کا مطلب اوراس کا جواب جس کومضمون نگار(حضرت والد صاحبؒ)نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے۔
(جاری ہے )
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط:45

دینی تقریبات اور رویت ہلال

کیا و جہ ہے کہ اسلام نے دینی تقریبات مثلاًاعیاد،رمضان،اورحج وغیرہ کے سلسلہ میں رویت ہلال کا اعتبار کیا ہے۔کیوں نہ اپنی تقریبات کو نظام شمسی کے ما تحت رکھا ؟جبکہ طلوع وغروب کے حساب سے کسی خاص اختلاف کااندیشہ بھی نہیں تھا کیونکہ سورج کے طلوع وغروب سے دنوں،ہفتوں،مہینوں،اور سالوں کی گنتی اور ان کا حساب لگایاجا سکتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود جناب رسول اللہ ﷺنے چاند سے حساب لگا یا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ہم غیر پڑھے لکھے لوگ ہیںاور حساب ولکھنا نہیں جانتے ۔
’’الشھر ھکذا وھکذا الخ‘‘ (الحدیث) جس سے اشارہ اسی۲۹؍اور۳۰؍دن کے مہینے کی طرف ہے ،و جہ غالباًاس میںیہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام جو کل بنی آدم اخوۃ کا داعی اور مساوات کی تعلیم دیتا ہے اگر اپنی تقریبات کو نظام شمسی کے ما تحت کردیتا تو دنیا کا ایک حصہ اسلامی رعایتوں سے محروم رہ جاتا مثلاًخط ا ستوأاوراس کے ارد گرد کے ممالک خط سرطان اور خط جدی یا ان کے ارد گرد ہیں ایک ہی موسم میں روزہ اور اعیاد کی تقریبات ادا کرتے کیونکہ روزاول ہی سے ان کے لئے رمضان اگر جون کے مہینہ میں ہوا کرتا تو ہمیشہ کے لئے یہی مہینہ ان کے لئے مقرر پڑتا کیونکہ نظام شمسی کے ما تحت طے شدہ امرہے کہ جون میں گرمی ہی ہوگی بخلاف نظام قمری کے کہ اس میں ماہ رمضان ہر موسم میں بدلتا ہوا نظر آتاہے۔ (طنطاوی)
قرآن پاک کی وہ آیات کہ جن میں چاند اور سورج کو وقت کا پیمانہ قرار دیا ہے ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔
(۱)آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔فرما دیجئے کہ یہ مقررہ وقت کے پیمانے ہیں لوگوں کے فائدے اورحج کے لئے ۔ (سورۃالبقرہ)
(۲)وہی ذات جس نے آفتاب کو سراپا روشنی اور چاند کو نور بنایااور اس کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو۔ (سورۃیونس)
(۳)اور ہم نے چاند کے لئے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ وہ پلٹ کر پرانی کھجور کی شاخ کی طرح ہوجاتاہے نہ کہ آفتاب کے لئے ۔ (سورۃ یٰسین)
ان آیات سے یہ بات تو بالکل ظاہر ہے کہ چاندکی منزلیں مقررہونے کی وجہ سے سال اور برسوںکی گنتی اور حج واعیادکی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے وجہ غا لباًاس کی یہ ہے کہ سورج سے سال اور مہینوں اور ہفتوں کی گنتی نہایت دشوار ہے چنانچہ ارشادہے
لتعلموا عددالسنین والحساب تاکہ تم برسوںکی گنتی اور حساب جان سکو ۔
اسی وجہ سے شریعت اسلا میہ نے منازل قمر کا اعتبارکرتے ہوئے نظام شمسی کو ترک کردیاہے۔
لان سیــرہ اسرع وبـــہ یعرف انقضــاء الشھـــور والسنیــن والشرع اعتبر الا ھلۃ الخ۔

اس لئے کہ چاند کی رفتار تیز ہے اور اسی سے مہینوں اور برسوں کا اختتام معلوم ہو تا ہے شریعت نے چاند کا اعتبار کیا ہے۔
( تفسیر طنطاوی ج۶ص۴)
لہٰذااگر چاند نہ ہو ا ہوتا یا اس کی منازل مقرر نہ ہوئی ہوتیں تو مہینوں برسوں کا حساب لگانا دشوار ہوجاتا اور لوگوں کو اپنے حسابات میں دشواریاں پیش آتیں (جیسا کہ آئندہ سطور میں اختلا فات اقوام سے ظاہر ہوگا ) (طنطاوی ج۶ص۱۶)
و جہ اس کی یہ ہے کہ قمر کا ایک دور ،۲۸۵یوم میں پورا ہوتا ہے یہی اس کی اٹھائیس منزلیں ہیں پہلی منزل شرطین ہے اور آخری منزل کا نام حوت ہے ۔یہ منزل بارہ برجوں میں مقسوم ہے اور ہر برج کی ۲؍۱؍۳منزل ہے اور چاند ۳۰؍دن کا مہینہ ہو نے کی صورت میں دو رات چھپا رہتاہے ۔اسی کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الشھر ھکذا الخ سے تعبیر کیا ہے کہ مہینہ ۲۹؍یا ۳۰؍دن کا ہوتا ہے ۔اسی اختلاف کی و جہ سے چار فصل ہوتی ہیں اور ہر فصل ۳ماہ کی ہوتی ہے اور ایک سال بارہ مہینہ کا ہوتاہے اور ہر ہفتہ۷؍یوم کا ہوتا ہے اسی کے حساب سے ۷ × ۴ =۲۸منزل اور ایک یا دو دن استتار قمر کے ہوتے ہیں ۔اسی کی طرف شارع علیہ السلام نے اشارہ فرمایا ہے۔
ان غم علیکم الھلال الخ اگرچاند تم سے چھپ جائے تو ۳۰؍دن پورے کرلو۔
اور چونکہ ا ستتار قمر کے دو دن بھی ہیں اور ایک دن بھی اس و جہ سے یقینی طور سے نہیںکہا جا سکتا کہ کس مہینہ میں کتنے دن ،دو یا ایک دن چھپا رہے گا لہٰذا استتار قمرکے بعد رویت ہلال جب ہوگی اسی دن سے قمر کی پہلی منزل کی ابتدأہوجائے گی ۔اس اثبات کے لئے شریعت نے جہاں اپنے اور معاملات کو طے کرنے کے لئے دو شاہدوں کا نصاب مقرر کیا ہے وہاں رویت ہلال کے لئے بھی یہی شرط قرار دیدیا ہے ہاںصرف ر مضان المبارک کے لئے ایک ہی آدمی کی شہادت پر اکتفأکیا گیا ہے کیونکہ وہاں احتیا ط کا تقاضہ یہی ہے اس وجہ سے فرمایاہے ۔
صوموا لرویتہ وافطروا لرویتہ چاند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور دیکھ کر افطار کرو ۔
اور عدم رویت کی صورت میں نصاب شہادت کا اعتبار نہ ہو تو پھر کوئی و جہ نہیں ہے کہ دوسرے معاملات میں نصاب شہادت کو لازمی قرار دیا جائے گا کیونکہ جب رویت ہلال کااثبات منجمین کی آرا اور رصد گاہوں کے ما ہرین کے حساب سے ہوسکتا ہے تو دوسرے معاملات بھی دیگر ذرائع سے ثابت ہوسکتے ہیں۔
اس جگہ ایک لطیفہ جو لتعلموا عددالسنین الایۃ میں موجود ہے اس کو بھی ظاہر کردینا لطف سے خالی نہیں ہے ۔معلوم ہونا چاہئے کہ لتعلموا مضارع کا صیغہ ہے اور لام نے آکر اس کے معنیٰ مقرر کردئے ہیں ۔ یعنی قمرکی منزلوں سے تم آئندہ برسوں کاحساب لگا سکو کے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ استتار قمر کی یقینی مدت صرف ایک ہی دن یاصرف دوہی دن قبل از ظہور معلوم ہوسکے اور یہ معلوم اسی وقت ہوگا جب قمر اپنی آخری منزل حوت سے سفر ختم کرکے پہلی منزل شرطین میں داخل ہوگا۔ اور اس کا اثبات رویت اور رویت کا اثبات نصا ب شہادت پر ہے ورنہ قبل ازمرگ واویلا لازم آجا ئے گا ،اور یہ عقلمندوں کے نزدیک مناسب نہیں ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)

قسط:46

اقوام عالم کی سر گرانی
میری مذکورہ گزارش سے،شریعت میں ہلال کا اعتبار اور اس کی اہمیت بخوبی واضح ہوگئی ہوگی۔اس کے علاوہ اقوام عالم نے حسابات کے لئے جو دوسرا معیار مقرر کیا تھا اس کو بھی ظاہر کئے دیتا ہوں۔(۱)کلدانی اور اہل فارس اپناحساب اور سال کی ابتدأ شروق شمس کے اعتبار رکھتے تھے انہوں نے تمام ساعتوں کی تعداد ۲۴ رکھی تھی ۔
(۲)یہودی غروب شمس سے اپنا حساب لگاتے تھے۔
(۳)اطالوی بھی یہودیوں کی طرح حساب لگاتے تھے۔
(۴)مصریوں کی بھی وہی رائے تھی جو فارسیوں کی تھی اس حساب سے ان کے نزدیک سال ۳۶۵کا ہوتا تھا اور سال کے ۱۲ مہینہ اور مہینہ ۳۰ دن کا۔اس طرح سے ان کو ۱۲×۰۳=۳۶۰+۵دن لوند کے داخل کرنا پڑتے تھے لیکن ان پانچ دن کی ابتدأوشمول سورج کے شروق اورغروب اور ساعات کے ازدیاد پر موقوف تھا جو ظاہر ہے کہ کتنا دشوار مرحلہ ہے اس کے مقا بلہ اسلام کا قاعدہ الشھرھکذا کتنا سہل اور آسان ہے کہ ایک جاہل کو بھی اپناحساب لگانے میں کسی معاونت کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ اس کا مہینہ چاند کے ظہور سے دوسرے چاند کے ظہور تک ہورہا ہے۔
(۵)چینی بھی اپناحساب سورج سے لگاتے تھے۔
(۶)عرب اپنا حساب قمر سے لگا تے تھے اور انہوں نے چاند کی منزلوں سے حساب لگاکر ۲۹؍ یا۰۳؍دن کا مہینہ اور ۷؍دن کا ہفتہ اور ۱۲؍مہینہ کا سال تسلیم کیاتھا۔اسی کا جواب قرآن نے یسئلونک عن الاہلۃ سے دیا ہے۔کہ یہ حساب کا ایک پیمانہ ہے تاکہ تمہیں برسوںکی گنتی لگانے میں سہولت ہو ۔
موجودہ تحقیق کی ابتدأ :
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





















 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:47

موجودہ تحقیق کی ابتدأ​
آج کل کے سائنس دانوںاور ماہرین فلکیات کو اپنی تحقیقات پر بہت زیادہ اعتماد ہے ان کا کہنا ہے کہ چونکہ آج جو چیزیں ہم معلوم کررہے ہیں یا تحقیق ہم نے کی ہے اس کے ہم ہی موجداعلیٰ ہیں ۔اس و جہ سے اسلامی تعلیمات اور احکامات کو بھی ہماری تحقیق کے مطابق ہونا چاہئے کیو نکہ آج کل کے تجربات اس حد کوپہونچ گئے ہیںکہ جن کا جھٹلانا محال ہے۔اس و جہ سے کیوں نہ اپنے تجربہ کے مطابق اسلامی اصولوں کو ڈھالیں حالانکہ اس سے زیادہ صریح البطلان کوئی چیز نہیں ہو سکتی آج کی تحقیق کا جن چیزوں پر مدار ہے اس کی ابتدابہت پہلے ہو چکی تھی۔ جناب رسول اللہ ﷺجب مبعوث ہوئے تو موجودہ نظریات اور اصولوں کی ابتدأبہت پہلے وجود میں آچکی تھی۔ماہرین علم دین ان کو جانتے تھے لیکن اس کے باوجود کبھی انہوں نے اسلامی اصولوںمیں ترمیم و تنسیخ کا ارادہ تک نہیں کیا چہ جائیکہ کہ ان کوبدلنا۔
موجودہ علم فلکیات کا سب سے پہلا موجد جس نے بروج شمس وقمر اور حرکات فلک وسیارگان کو معلوم کیا اورشمس وقمر کی منازل تقسیم کیں وہ ہے’’ ـاراتوستانس ‘‘یہ آدمی قیروان میں ۲۷۶؍سال قبل مسیح پیدا ہوا تھا چنانچہ ۲۳۴؍سال قبل مسیح یہ شخص اسکندریہ آیا اور ۱۹۴؍سال قبل مسیح اس کا انتقال ہوا اس نے اسکندریہ آکر نظام فلکی کے متعلق ایک کتاب بھی تصنیف کی اسی نے سب سے پہلے تحقیق کیا کہ انقلاب صیفی کے وقت سورج کی شعاعیں عمودی ہوتی ہیں۔اس کی تحقیق کی ابتدأ اس طرح ہوئی کہ یہ ایک مرتبہ اسکندریہ سے دریائے نیل کے کنارے اسوان کی طرف سفر کررہا تھا تو اس نے دیکھا کہ جس قدر جنوب کو جاتا ہے شمال میں طلوع ہونے والے ستارے تدریجاًگم ہوتے جاتے ہیں تو اس نے طے کیا کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ زمین گول ہو۔ اسی عقیدہ کی بنیاد پر اس نے ثابت کیا کہ انقلاب صیفی کے وقت سورج کی شعاعیں اسکندریہ پر عمودی حالت میں پڑتی ہیں۔ اس نے یہ بھی دعوا کیا کہ زمین ساکت اور اجرام سماوی متحرک ہیں ۔
اس محقق سے پہلے بیان کیا جاتا ہے کہ فیسا غورس نے جوکرونیا کی ایک درس گاہ میں علم ہیئیت کا مدرس تھا دریافت کیا تھا کہ زمین حرکت کرتی ہے اور تمام اجرام سماوی ساکت ہیں یہ محقق حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ۵۰۰؍سال قبل پیدا ہوا ۔ لیکن اسکی تحقیقق کو ’’اراتوستانس ‘‘نے غلط ثابت کیا بہر حال کہاںتک ان ماہرین فلکیات کو بیان جائے یہ سب چیزیں ظہور اسلام کے وقت سامنے آچکی تھیں اور عرب ان سے واقف تھے ان سب دشواریوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے نظام قمری کو اپنایا تھا جس کی طرف قرآن اور احادیث نبوی نے اشارہ کیا ہے اور انسانی سہولتوں کے پیش نظر اسی حساب کو آسان قرار دیا ہے حضور ﷺاس معاملہ میں کس صفائی سے ارشاد فرماتے ہیں ۔
انا امۃ امیۃ لانکتب ولا نحسب الشھر ھکذا وھکذا و ھکذا۔

ہم غیر پڑھی لکھی جماعت ہیں نہ لکھتے اور نہ حساب لگاتے ہیں۔مہینہ اتنے اتنے دن کا ہوتاہے یعنی ۲۹؍دن کا ۳۰؍دن کا ۔
اس حدیث اور آیت لتعلموا،الخ نیزدیگراحادیث کی بنا پر حضور ﷺکے ارشاد اَلدِّینُ یُسْرٌ کی کتنی اچھی وضاحت ہو جا تی ہے۔
رویت کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں۔ایک رویت بالعین اور دوسرے رویت بالقلب۔ لیکن یہ کس طرح معلوم ہو کہ کس جگہ رویت بالقلب مراد ہے اور کس جگہ رویت بالعین مراد ہے۔سو اہل لغت نے اس کا فیصلہ کیا ہے کہ جس جگہ معاملہ غیر محسوس چیز سے ہو گا وہیں رویت بالقلب مراد ہوگی۔ یہ نہیں کہ دونوں معنیٰ بیک وقت مراد لئے جائیں۔مثلاًرأیت الملک ،(میں نے بادشاہ کو دیکھا )میں،آنکھ سے دیکھنا مرادہے ۔یہ مطلب نہیں ہوگا کہ میں نے بادشاہ کو قلب سے دیکھا۔کیونکہ بادشاہ از قبیل محسوسات ہے اسی طرح سے اگر کوئی کہے رأیت الجنۃ،میں نے جنت کو دیکھا ،تو یہاں رویت سے مراد رویت بالقلب ہوگی۔کیونکہ جنت غیر محسوسات میں سے ہے۔لہٰذا یہ معاملہ ہلال کے بارے میں ہے۔کہ رأیت الہلال، سے مراد آنکھ کا دیکھنا لیا جائے گانہ کہ قلب اور عقل کا ۔کیونکہ ہلال از قبیل محسوسات ہے ۔اگر رویت میں یہ فرق نہ کیا جائے تو اسلام کے بڑے بڑے اہم مسائل کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔میں نہیں سمجھتا اور نہ کسی اہل لغت کا قول کسی لغت میں میری نظر سے گزراہے کہ اس نے محسوس چیز کے لئے بھی رویت بالقلب مراد لی ہو۔حکومت پاکستان کا رویت ہلال کے معاملہ میں المنجد کے حوالہ سے رویت بالقلب مراد لینا نا سمجھی کی دلیل ہے ۔ کہ مستدل اتنے بڑے مسئلہ میں استدلال کررہاہے لیکن اس فرق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں،اور یہ ایک بڑی ہٹ دھرمی ہے۔
حکومت نے ثبوت ہلال کے سلسلہ میں اپنے اعلان میں علامہ شوکانی کے قول سے استدلال کیا ہے کہ امام اور حاکم اگر ابتدائے ماہ رمضان کے سلسلہ میں چاند ہوجانے کا فیصلہ دیدے تو جو لوگ اس کے حدود واقتدار میں ہیںان پر زور ہ رکھنا واجب ہے اگرچہ ان سب کا افق ایک نہ ہو الخ۔ (مدینہ۲۸؍اپریل ۱۹۶۰؁ء)
یہ استدلال بھی ظاہرالبطلان ہے۔(۱)ابتدائے رمضان سے مراد قبل رویت مراد ہے یابعد رویت ؟قبل رویت توہو نہیں سکتا کیونکہ جب ہلال دودن یاایک دن اپنی آخر ی منزل میں مستتر ہے تو علامہ شوکانی کے پاس اس وقت کون ساآلہ تھاجس سے انھوں نے پتہ چلالیا اور اگرپتہ چلایا تو علامہ شوکانی جیسے کٹر ظاہر حدیث پر عمل کرنے والے ابودائود کی مذکورہ حدیث کے ذیل میں کیوںاپنے قول کے خلاف کہہ رہے ہیں۔
ولا یلتفت ماقال ابن عبدالبر۔ابن عبدالبرنے جو فرمایاہے وہ قابل التفات نہیں ،علامہ ابن رشدنے بدایۃ المجتہد میں اس قول کے خلاف اجماع نقل کیاہے۔
(۲)اس و جہ سے بھی یہ قول قابل استدلال نہیں ہے۔جب یہ بات ظاہر ہے کہ اختلاف افق کی و جہ سے اختلاف رویت ہوتا ہے ۔(جس کو آج کل کے ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں)اسی کے مطابق حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے ابن کریب اور معاویہؓ کی ملک شام والی روایت کو اختیار نہیں کیا تھا ۔اور یہ معاملہ صحابہؓ کے ایک بڑے مجمع کے سامنے پیش آیاتھا۔صحیح بات وہی ہے جو جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمائی ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو ۔اگر کسی وجہ سے چاند نظر نہ آئے خواہ سبب استتار قمر ہو،اب دو شہادتوں کو قائم مقام رویت کے قرار دیا جائے گا۔
گھڑی، گھنٹہ سے استدلال:​
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم

پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:48

گھڑی، گھنٹہ سے استدلال

حکومت نے گھڑی گھنٹوں وغیرہ سے استدلال کیا ہے کہ جب کہ نمازکے لئے ان کو استعمال کیا جاتا ہے تو کیوں نہ ماہرین فلکیات کے اقوال کو اور حسابات رویت کے سلسلہ میں معتبر ماناجاتا ئے ۔یہ قیاس بھی غلط ہے کیونکہ بحث رویت کے قبل ازوقت ماننے میں ہے نہ کہ بعد از وقت مثلاًاگر یہ کہہ دیا جائے کہ فلاں تاریخ کو فلاں وقت کی نماز جب سائرن بجے یا گھڑی اتنا وقت بتلائے تو ادا کرلی جائے شرعاًقابل قبول نہ ہوگاکیونکہ اگر متعینہ تاریخ کو نماز کا وقت شروع نہیں ہوتا تو لاکھ گھڑیاں بجیں سب مردود ہوںگی۔ گھڑیوں کو ہم اس وجہ سے تسلیم کرتے ہیں کہ وقت نماز شروع ہونے پرگھڑیاںاس کے مطابق اور حساب اسکے موافق ہو جاتا ہے۔اسی طرح سے ماہرین فلک کا قیاس ثبوت رویت ہونے کے بعد مزید تقویت کا باعث ہو سکتاہے اور اس کو فقہا خبر مستفیض کے ذیل میں شمار کرسکتے ہیں۔کیونکہ خبر مستفیض نام اس خبر کا ہے کہ مختلف ذرائع سے ناقابل تردیدطور پر یہ ثابت ہو جائے کہ آج چاند ہوگیا ہے۔یہ خبر بعد ازوقوع ہوتی ہے نہ کہ قبل از وقوع ، قبل از وقوع کا نام پیشین گوئی ہے اور پیشین گوئی کو اسلام تسلیم نہیں کرتا ،سو ماہرین فلک قبل از وقت چاند ہو نے کی پیشین گوئی کرتے ہیں کہ فلاں تاریخ کوچاند ہوگا جو شرعاًاور عقلاً معتبر نہیں ہے۔ (مدینہ-۵؍مئی ۱۹۶۰ء؁)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔









 
گزشتہ سے پیوستہ

السلام علیکم

پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:49

اسلام اور قتل مرتد​

اسلام اور قتل مرتد کے عنوان سے میرا ایک مضمون نیاز صاحب فتح پوری کے مضمون کے جواب میں ۲۸؍دسمبر ۱۹۵۹؁ءکے ’’مدینہ‘‘ میں شائع ہوا تھا، جس میں میں نے نیاز صاحب کی غلط بیانی پر تنقید کی تھی۔ موصوف کا ارشاد تھا کہ :
۱- لفظ مرتد قرآن میں نہیں ہے۔
۲- قتل مرتد کا حکم خدائی حکم نہیں۔
۳- قتل مرتد کا حکم جن احادیث میں ہے ان کی غرض کچھ اور ہی ہوگی، یعنی تخریب عمل وغیرہ اصل وجہ نہیں تھی۔
۴- قتل مرتد کے تاریخ اسلام میں صرف دو واقعے ہیں۔ قارئین کرام میرے اجمالی مضمون کی تحقیق سے بخوبی واقف ہیں کہ میں نے موصوف کی ہر ضروری بات کا جواب مدلل دیا تھا اور بعض چیزوں سے قصداً صرفِ نظر کیا تھا لیکن ۱۳؍جنوری ۱۹۶۰ئ؁ کے ’’مدینہ‘‘ میں جناب ریاض الرحمن خاں صاحب شیروانی نے نیاز صاحب کی تائید اور میرے مضمون کی تردید میں ایک مضمون سپردِ قلم کیا ہے جس کا دامن مستند دلائل سے خالی ہے، بلکہ انھوں نے صرف اپنے خیالات کے اظہار پر اکتفاء کیا ہے۔ میں ریاض صاحب اور نیاز صاحب کو اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ آج بیسویں صدی میں وہ جس مسئلہ (قتل مرتد) کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں یہ اسی بیسویں صدی کی اُپج ہے۔ اس سے قبل زمانۂ رسالت تک ہر قرن اور ہر زمانے میں کوئی فرد ایسا نہیں ملتا کہ جس نے قتل مرتد کو خدائی حکم کے خلاف بتایا ہو یا ’’لا اِکراہَ فی الدین‘‘ کے خلاف سمجھا ہو۔
ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ اور زمانوں کو رہنے دیا جائے کیونکہ افراد ائمہ مجتہدین کی تقلید کرنے لگے تھے میں کہتا ہوں اور دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ حضراتِ صحابہؓ کی پوری جماعت میں ایک صحابی بھی ایسا نہیں ملتا کہ جس نے مرتد کے حکم سے انحراف کیا ہو۔ قتل مرتد پرتمام صحابہ کا اجماع ہے اور کسی کا اختلاف نہیں ہے ۔ اگر ریاض صاحب اور علامہ صاحب صحابہؓ کے اجماع کو حق سمجھتے ہیں تو ان کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ صحابہؓ کا اجماع کسی ایسی چیز پر نہیں ہوسکتا کہ جس کا حکم کتاب اللہ یا سنت ِ رسول اللہ ﷺسے ثابت نہ ہو۔ اور اگر یہ بات ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ صحابہ ؓ کا اجماع بمنزلہ آیت کے ہے۔ (ملاحظہ فرمائیے: کتب اصول)
بہرحال جنابِ محترم ریاض الرحمن خاں صاحب نے دل کھو ل کر بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر علامہ صاحب کی تائید کی ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ قتل مرتد تعلیماتِ قرآنی کے خلاف تو ہے ہی بلکہ عقل کے خلاف بھی ہے اور تعلیماتِ اسلامی پر ایک بہت بڑا دھبہ ہے۔ کیا آپ مہربانی فرماکر ریاض الرحمن صاحب مجھے عقل کا معیار بتلانے کی تکلیف گوارا فرمائیں گے؟ تاکہ عقل کے اسی معیار پر مسائل کو پرکھ لیا جایا کرے۔ کاش وہ دس پانچ عقلوں کی شہادتیں اپنے مضمون میں بیان کردیتے جس سے بے چارے قارئین کرام کو بھی فائدہ ہوتا اور وہ بھی ریاض صاحب کے بتلائے ہوئے عقلی معیار پر اسلامی مسائل کو پرکھ لیا کرتے، یا پھر یہ فرمادیا جائے کہ ہر آدمی کی عقل اس کے لئے معیار ہے جس کو اسلام کی جو چیز اچھی لگے اور اس کی عقل میں آئے اس کو کرلے وہی اچھی ہے، یا جو چیز سمجھ میں نہ آئے یا اس کو بری لگے اسے ترک کردے کہ وہ عقل کے خلاف ہے۔ اگرچہ ایسی صورت میں تمام اسلامی احکامات اور اعمال اختیاری ہوکر رہ جائیں گے پھر کیا دیوبند، علی گڑھ، جامع ازہر یا دیگر یونیورسٹیوں یا دارالعلوموں کے فیض یافتوں کی عقلیں معیار ہیں انہی ںسے پوچھ گچھ کرلی جایا کرے کہ حضرت اس مسئلہ میں آپ کی عقل کیا کہتی ہے؟ اور اگر یہ بھی تسلیم نہیں تو بیسویں صدی کے نام نہاد علاماؤں سے صرفِ نظر کرکے ماقبل کے زمانے میں حضراتِ صحابہؓ کے زمانہ تک سیر کرلیجئے سب کی عقلیں قتل مرتد کو خدائی حکم قرار دیتی ہیں اور یہی عقلیں ہمارے نزدیک معیار ہیں۔ اگر آپ یہ تسلیم نہ کریں تو پھر ایک صحابیؓ کا نام بتلادیجئے کہ فلاں صحابی ؓ قتل مرتد کے خلاف ہیں، ہم انھیں کی عقل کو معیار بنالیں گے۔


قتل مرتد اور قرآن:
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:50

قتل مرتد اور قرآن:

گذشتہ مقالہ میں میں نے ایک آیت نقل کی تھی یعنی {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ} الخ لیکن اس آیت کو ریاض صاحب نے عقل وانصاف کے نام پر نظر انداز کردیا اور لفظ ’’لیکن‘‘ لگاکر آگے چلنا شروع کردیا اور یہ نہ سمجھا کہ لفظ لیکن کی تاثیر کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اگر قرآن میں صرف یہی ایک آیت نازل ہوتی تب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے لئے کسی تاویل کی ضرورت نہ تھی اور وہ بلاشک وشبہہ وحی ٔ الٰہی اور حکم ِ خداوندی تھا اور ہے، تاہم حسب ذیل آیت پیش کرتا ہوں:
فَاِنْ تَابُوا وَ اَقَامُــوا الصَّلــوٰۃَ وآتَوُا الزَّکــوٰۃَ فَاِخْوانُکُمْ فِی الدِّینْ وَ نُفَصِّــلُ الآیَاتِ لِقَومٍ یَّعْقِلُوْنَ فَاِنْ نَکَثُوْا اَیْمَانَہُمْ مِنْ بَعْدِہِــمْ وَ طَعَنُــوا فِی دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوا اَئِمَّـۃَ الْکُفْــرِ اِنَّہُمْ لاَ اَیْمَانَ لَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَنْتَہُوْنَ ۔
(التوبۃ/۲۰)


پھر وہ لوگ کفر سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو وہ ہمارے دینی بھائی ہیں۔ ہم آیات کو ان لوگوں کے لئے واضح طور پر بیان کررہے ہیں لیکن اگر وہ عہد (قبولِ اسلام کا عہد) کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین پر زبانِ طعن دراز کریں تو پھر کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں، شاید وہ اس طرح باز آجائیں۔
یہ آیت سورۂ توبہ کی ہے۔ ۹ھ؁ میں نازل ہوئی۔ شانِ نزول یہ ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے حج کے موقعہ پر اعلانِ برأت کیا تھا کہ جو لوگ اب تک خدا ور رسول ﷺسے لڑتے رہے ہیں اب ان کے لئے زیادہ سے زیادہ چار مہینے کی مہلت ہے اس مدت میں اپنے معاملے پر غور کرلیں۔ قبولِ اسلام کرتا ہو تو قبولِ اسلام کرلے، معاف کردئیے جائیں گے۔ اور اگر ملک چھوڑنا منظور ہو تو ملک چھوڑ دیں۔ اس مدت کے بعد جو توبہ کرلے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے تو اے مسلمانو! وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ لیکن اس کے بعد اگر وہ عہدشکنی کرے تو پھر ان کفر کے سرغنوں سے مقاتلہ کرو، شاید وہ راہِ راست پر آلگیں اور باز آجائیں۔
ابن کثیر نے اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس آیت کا شانِ نزول تو خاص ہے لیکن حکم عام ہے، یعنی جو بھی دین سے پھرے گا اس کے ساتھ مقاتلہ کیا جائے گا۔ (تفسیر ابن کثیر، ص:۳۳۹، ج:۲)
اسی آیت کے بارے میں حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
ومِن ہٰہُنــا اُخِذَ قتـلُ مَن سَبَّ الرَّسُولَ أو مَــن طَعَنَ فِی دِین الإسلامِ أو ذکرہُ بتنقیص الخ۔
(ابن کثیر/۳۳۹، ج۲)

اس جگہ سے سب رسول کرنے والے یا دین میں طعنہ کرنے والے یا اس کی تنقیص کرنے والے کے قتل کا حکم دیا گیا ہے۔
اوریہ ظاہر ہے کہ عام مشرکین کے قتل عام کا حکم تو ہونہیں سکتا کیونکہ ’’لااکراہ فی الدین‘‘ موجود ہے۔ پس مرتد اس آیت کے مفہوم کا حرفاً حرفاً عین مصداق ہے۔ اسی نے عملاً دین میں طعنہ زنی کی ہے اور اسی نے اسلام کی عملاً تنقیص کی ہے۔ اور وہ ہی مشن ِ الٰہی کی توہین کرنے والا ہے۔ وہی کفر کا سرغنہ ہے کہ لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ’’ھُمْ‘‘ ضمیر غائب کی بجائے اسم ظاہر ’’ائمۃ الکفر‘‘ استعمال کیا ہے، اس سے اشارہ اسی بات کی طرف ہے کہ ایسے بدعہد طعن زن مشن الٰہی کی توہین کرنے والے ائمۃ الکفر ہیں اور ہرگز قابل رحم نہیں ہیں۔ ان کے اوپر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور تمام انسانوں کی۔ وہ حقیقتاً عذابِ الیم کے مستحق ہیں۔
اسی آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر مظہری نے حدیث ابوہریرہؓ بسلسلہ قتل مرتد نقل کی ہے، ارشاد ہے:
لَمّــا تُوُفِّیَ رسُولُ اللّٰہِ ﷺ وَ ولّی أبُوبکرٍؓ کَفَرَ من کفَرَ من العــرب۔ الخ (رواہ بخاری، مظہری، ج:۴،ص:۱۴۴)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو عرب کے قبیلوں میں سے جس کو کافر ہونا تھا کافرہوگئے۔
معلوم ہونا چاہئے کہ ایک جلیل القدر صحابی کافر کا لفظ استعمال کررہا ہے جو سوائے ترکِ دین کے سیاسی مصالح یا باغی کے لئے استعمال نہیں ہوتا ہے۔ بعض احادیث میں ’’ارتدتْ‘‘ کا لفظ ہے۔ انہیں کے لئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مقاتلہ کے لئے اعلان کیا تھا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی اس واقعہ کی احادیث میں کفر یا ارتداد کے علاوہ بغاوت یا سیاسی مصالح کا لفظ نکال کر نہیں لاسکتا۔ ومَن شاء فعلیہ البیان
اس کے بعد {لااکراہ فی الدین} الآیۃ کے بارے میں کچھ دریافت کرلوں کہ یہ آیت قبولِ اسلام کے بارے میں ہے، یا ترکِ اسلام کے بارے میں؟ {قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ} سے جس قوت کے ساتھ اعلان ہے وہ ترکِ اسلام کے بارے میں قیامت تک کوئی ثابت نہیں کرسکتا۔ رہی تعلیماتِ اسلامی کو بہت بڑا دھبہ کہنے کی بات اور قتل مرتد کو حکم خداوندی کے خلاف کہنے کا معاملہ اور عقل وانصاف کا فیصلہ سو اس کی حقیقت معلوم۔
قتل مرتد اور احادیث:
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:51

قتل مرتد اور احادیث:

اثبات مسئلہ کے لئے تو صرف اتنا ہی کا فی تھا لیکن احادیث کو بھی بیان کردینا خالی از فائدہ نہ ہوگا۔کیونکہ { وما ینطق عن الھوی الخ }
(۱)مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہُ فَاقْتُلُوہُ۔

جو شخص یعنی مسلمان اپنا دین ترک کردے اس کو قتل کردو۔
یہ حدیث حضرت ابوبکر ،حضرت عثمان ، حضرت علی،حضرت معاذبن جبل ،حضر ت ا بو موسیٰ اشعری،حضرت ابن عباس،حضرت خالدبن ولید ،اور متعدد دوسرے صحابہ ؓسے تمام معتبرکتب حدیث میں موجود ہے ۔اگر ریاض صاحب حوالے کے ساتھ اپنے اصول کا جو انہوں نے لفظ لیکن سے بیان کیا ہے ذکر کرتے تو اس کے بارے میں بھی کچھ عرض کردیتا لیکن انہوں نے کوئی حوالہ نہیں دیااورنہ اس کی تشریح کی تو میں بھی صرف نظر کر تا ہوں۔ ہاں اتنا ضرور عرض کرتا ہوں کہ کیا اس مشہور اور صحیح حدیث سے قتل مرتد کے علاوہ کوئی اور غرض بھی ثابت ہوسکتی ہے؟
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یحل دم امرء مسلم یشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وانی رسو ل اللّٰہ الا باحدی ثلث النفس بالنفس والثیب الزانی والمفارق لدینہ والتارک للجماعۃ۔ (رواہ البخاری وابوداؤد)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مسلم مرد کا خون جو توحید ورسالت کی گواہی دیتا ہو تین جرم کے علاوہ حلال نہیں ہے قتل نفس،شادی شدہ زانی اور تارک دین اورجماعت
(۳) اس حدیث کے راوی عبداللہ ابن مسعودؓہیں نسائی نے اس روایت کوحضرت عائشہؓ سے روایت کیا ہے اس میں المفارق لدینہ کی بجائے کفربعد اسلا مہ کے الفاظ ہیں۔اور اسی کے قریب حضرت عثمانؓ کی روایت ہے جو امام نسائی نے دوسرے باب ا لحکم فی المرتد میں ذکر کی ہے ۔
حضرت عثمانؓ کی اس روایت کے بارے میں اتنا اور عرض کردوںکہ یہ روایت حضرت نے اس وقت بیان کی تھی کہ جب لوگ ان کے قتل کرنے کے لئے ان کے مکان کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو چھت پر چڑھ کر یہ حدیث بیان کی تھی ۔ملاحظہ فرمائے البدایۃ والنہایۃ اور دیگر کتب تاریخ ۔
(۴)حضرت موسیٰ ؓفرماتے ہیں کہ ان کو حضور علیہ السلام نے یمن کا حاکم مقرر کرکے بھیجا پھر اس کے بعد حضرت معاذبن جبلؓ کو بھیجا جب حضرت معاذؓ وہاں پہونچے تو اعلان کیالوگو!میں تمہاری طرف اللہ کے رسول کا فرستادہ ہوں اور حضرت ابو موسیٰ ؓنے ان کے لئے تکیہ پیش کیاتاکہ ٹیک لگا کر بیٹھیں اتنے میں ایک شخص پیش ہوا جو پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا پھر یہودی ہوگیا۔ حضرت معاذؓنے فرمایا میں ہرگز نہ بیٹھوں گا جب تک یہ شخص قتل نہ کردیا جائے اور اللہ اوراس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے ۔حضرت معاذؓ نے یہ بات تین مرتبہ کہی آخر کار قتل کردیا گیا تب حضرت معاذؓبیٹھے ۔ (رواہ بخاری -ابودائود،نسائی)
ریاض صاحب اور نیاز صاحب کا ارشاد یہی ہے کہ تاریخ اسلام میں قتل مرتد کے دو ہی واقعے ہیں اور یہ تیسرا واقعہ ہے جس میں کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے ۔(۵) عبداللہ بن سرح کاتب رسول تھے پھر شیطان نے ان کو گمراہ کردیا اور وہ کفار سے جاملے جب فتح مکہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ (رواہ ابو دائود)
(۶)اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے نقل کیا ہے لیکن حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ کی روایت ابودائود نے اس باب میں اسی واقعہ کے متعلق ذرا تفصیل سے بیان فرمائی ہے ملاحظہ فرمائے ۔
(۷)حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ احد کے موقعہ پر جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو ایک عورت مرتد ہوگئی توحضور ﷺنے فرمایا اس عورت سے توبہ کرائی جائے اگر توبہ نہ کرے تو قتل کردو (رواہ البیہقی)۔اسی روایت کو دار قطنی نے حضر ت جا برؓ سے نقل کیا ہے امام بیہقی کی دوسری روایت اسی عورت کے بارے میں یہ ہے کہ فابت ان تسلمَّ فقتِلت یعنی اس نے اسلام لانے سے انکار کردیا ۔لہٰذا اس کو قتل کر دیا گیا (یہ تاریخ اسلام کا چوتھا واقعہ ہوا )۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:52
قتل مرتد کے واقعات
ریاض صاحب اور نیاز صاحب فرماتے ہیں کہ قتل مرتد کے صرف دو واقعہ ہیں۔اب ذرا شمار کریں :
(۱)خلافت ابو بکر صدیقؓ میں ایک عورت ام قرفہ کا قتل ۔(۲)عمر بن العاص کے حاکم مصر ہونے اور خلافت فاروقؓ کے زمانہ کا واقعہ (تفصیل کنزالعمال میں ملاحظہ ہو۔) (۳)حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے خلافت عمرؓ میں’’تستر‘‘ میں ایک مرتد کو قتل کیا (ملاحظہ ہو: کتاب الام للشافعی)(۴)ابن نواحہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ایک شخص کا قتل ارتداد کی وجہ سے اور حکم قتل کا ابن مسعودؓ نے دیا تھا (ملاحظہ ہو طحاوی شریف)(۵)کوفہ میں چند آدمیوں کا قتل خلافت کے زمانہ میں(طحاوی شریف)۔ (۶)خلافت حضرت علیؓ کے زمانہ میں قتل مرتد۔ (طحاوی شریف)
یہ واقعات تاریخ اسلام ہی کے ہیں اور خلا فت راشدہ کے زمانہ کے ہیں۔ان کے علاوہ تلاش سے اور بھی مل سکتے ہیں۔ (مدینہ اخبار:۲۵؍جنوری ۱۹۶۰ء؁)

اسلام اور قتل مرتد(۲)

کچھ دنوں سے مسئلہ ’’اسلام اور قتل مرتد‘‘ پر مدینہ میں کچھ مضامین شائع ہوچکے ہیں جس میں راقم الحروف نے علامہ نیاز فتح پوری کے ایک مضمون مطبوعہ نگار کی عبارت پر گرفت کی تھی۔ علامہ موصوف قتل مرتد کے خدائی حکم ہونے کے منکر تھے اور تاریخ اسلام میں اس کے صرف دو ہی واقعے بتلاتے تھے اور بس۔ میں نے اپنے گذشتہ دو مضمونوں میں ان ہی دو پہلوؤں سے بحث کی تھی۔ اب ۱۷/مارچ ۶۰ء؁کے مدینہ میں علامہ صاحب موصوف نے میرے دونوں مضمونوں کا جواب دیاہے۔ فریقین کے مضامین کا خلاصہ اور مفہوم قارئین کرام کے سامنے آچکا ہے۔ بات کی پچھلے میں مضامین گذشتہ میں نکتہ چینیاں کرنا مسئلہ کو الجھانے کے مترادف ہے۔ جہاں تک مرتد کی تعریف کا تعلق ہے وہ اور میں متفق ہیں۔ ا ختلاف صرف وجہ قتل مرتد میں ہے وہ وجہ تخریب امن قرار دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اصل وجہ ارتداد ہے۔ تخریب امن وجہ ثانیاً ہے جو ارتداد کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ارتداد نہ ہوا ہوتا تو تخریب امن کا وجود نہ ہوا ہوتا۔پہلے ارتداد کا وجود ہوا بعد میں اندیشۂ تخریب امن ہوا۔ لیکن بایں ہمہ قتل مرتد (بأی وجہٍ کانت) خدائی حکم سے خارج نہیں ہے۔ جس کی دلیل میں کتاب وسنت اور آثارِ صحابہؓ سے دے چکا ہوں، جن کا انکار صرف یہ کہہ کر نہیں ہوسکتا کہ یہ مجمل ہے یا مقید یا مطلق ہے۔ بہرحال کچھ بھی ہو اور وجہ کچھ بھی ہو آیت اور حدیث ہونے کی وجہ سے قتل مرتد خدائی حکم سے خارج نہیں ہوسکتا اور یہی میرا منشا ہے۔ قارئین کرام کے استفادے کے لئے وہ مراسلت جو علامہ صاحب موصوف اور راقم الحروف کے درمیان رہی شائع کرتا ہوں اور بس۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:53

مکتوبِ گرامی علامہ نیاز فتح پوری بنام بندہ غفر لہ

۲۸؍جنوری ۱۹۶۰ء؁۔ مولانا العز السلام علیکم
قتل مرتد کے سلسلے میں آپ کے دونوں مقالے نظروں سے گذرے۔ میرا ارادہ نہ تھا کہ اس باب میں مزید گفتگو کروں، لیکن ۲۵؍جنوری کے مدینہ میں آپ کے ارشادات پڑھ کر میں نے پھر کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ہے جس کا تعلق زیادہ تر آپ کے استدلالات سے ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ قرآن، حدیث وفقہ تینوں ذرائع سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے قتل مرتد کو کبھی گوارا نہیں کیا، لیکن قبل اس کے کہ میں کچھ لکھوں صرف دو باتیں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ آپ کس فقہ کے پابند ہیں: حنفی، شافعی، حنبلی یا کوئی اور؟ د وسرے یہ کہ جب کسی ایک ہی مسئلہ کے متعلق مطلق ومقید دونوں قسم کی حدیثیں پائی جائیں تو آپ کس کو زیادہ صحیح سمجھیں گے؟ اس کا جواب اگر آپ نے دے دیا تو شاید میں زیادہ ایجاز واختصار کے ساتھ اس مسئلہ پر مختتم گفتگو کرسکوں گا۔ خاکسار: نیاز فتح پوری
جواب بندہ غفرلہ (حضرت والد صاحبؒ)
۳۱؍جنوری ۱۹۶۰ءمحترم علامہ صاحب ……… سلام مسنون!
جناب کا نوازش نامہ پہنچا۔ یاد فرمائی کا شکریہ! نگار میں جناب کے مضمون کو پڑھ کر محض اس بناء پر قتل مرتد کے سلسلے میں قلم اُٹھایا تھا کہ جناب نے قتل مرتد کے خدائی حکم ہونے سے انکار کیا ہے اور محض اسی مرکز پر میرے مضمون کا مدار ہے اور اسی کو میں نے ثابت کیا ہے۔ اب آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ اسلام نے قتل مرتد کو کبھی گوارا نہیں کیا۔ فرق آپ خود ہی محسوس کرسکتے ہیں اور ہر صاحب فہم سے کراسکتے ہیں۔ آپ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اسلام نے اوّل ہی بار قتل کا حکم نہیں دیا بلکہ نفاذِ قتل کے لئے مہلت اور مراتب مقرر کئے ہیں۔ مثلاً: اس کو تین دن قید کردیا جائے۔ اس کے شبہات کا ازالہ کیا جائے۔ اگر وہ ثابت ہوجائے تو فبہا، ورنہ پھر قتل کردیا جائے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ طریقۂ نفاذِ حکم سے بحث نہیں، بحث صرف قتل مرتد کے حکم خدائی ہونے یا نہ ہونے سے ہے۔ میں نے اپنے مضمونوں میں جن جن مراکز پر بحث کی ہے ان کی تردید کرتے ہوئے آپ یہ ثابت فرمائیں کہ قتل مرتد خدائی حکم نہیں ہے، بلکہ اختراع ہے اور جو جو واقعات اور احادیث میں نے ذکر کی ہیں ان کے بارے میں فرمائیے کہ وہ انسانی رائے کے ماتحت ہیں۔ خدائی حکم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے لئے آپ کو میرے مقلد یا غیرمقلد ہونے کی ضرورت نہیں ہے، مقصود میرا بھی لوگوں کو تاریکی سے نکالنا ہے اور آپ کا بھی یہی مقصود ہونا چاہئے۔ مناظرہ اور ہٹ دھرمی میرا مسلک نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو شرارتِ نفس سے محفوظ رکھے۔
الحاصل اگر آپ قتل مرتد کے خدائی حکم ہونے کے منکر ہیں تو پھر آپ اپنی تائید میں قرآن، حدیث، فقہ اور اقوالِ صحابہؓ واجماع سے استدلال کریں۔ محض آپ کی کسی رائے کو قبول نہیں کیا جائے گا اور اگر آپ بحث کے مراکز سے ہٹے تو میرا اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا، سمجھدار اور دین دار خود اس فرق کو محسوس کریں گے۔
پس اگر آپ اس سلسلے میں مراسلت ہی تک محدود رکھیں تو ہر پہلو سے اپنی تسلی وتشفی کرسکتے ہیں۔ اور جس نقطہ سے بحث کرنا چاہیں گے وہیں سے آپ کا اطمینان کرانے کے لئے تیار ہوں۔ مناظرہ کو پسند نہیں کرتا۔ ہٹ دھرمی سے پناہ مانگتا ہوں۔
آخر میں گزارش ہے کہ مراسلت میں خطاب میں اپنے مخاطب کو اپنے شایانِ شان القاب سے مخاطب فرمائیں۔ رہا میرا معاملہ سو آپ جو بھی خطاب مرحمت فرمائیں گے مجھے اس سے کوئی ناراضگی نہیں ہوگی، ہاں لوگ آپ کے مقام کو دیکھ کر افسوس کریں گے ،اچھا رخصت ۔
والسلام علی من اتبع الہدیٰ
بندہ: عزیز الرحمن غفرلہ​

صدرمفتی دارالعلوم دیوبند کا مکتوبِ گرامی
برادرم مفتی عزیز الرحمن صاحب! سلمکم اللّٰہ تعالیٰ
سلام مسنون! مدینہ کی دو قسطوں میں قتل مرتد کے سلسلے میں آپ کا مضمون پڑھا۔ ماشاء اللہ بہت اچھا لکھا ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ مخلوق کو حکم شرعی سے ہی آگاہ نہیں کیا بلکہ دلائل سے قتل مرتد کی شرعی حیثیت بھی ثابت کردی۔ آیات واحادیث سے ثابت کردیا کہ مرتد کی سزا قتل ہے جو قرآن وحدیث سے صحابہؓ کے عمل سے ثابت ہے۔ میرے نزدیک جواب صحیح ہے۔ اس سلسلے میں مولانا شبیر احمد صاحبؒ کا رسالہ ’’الشہاب‘‘ بھی اسی سلسلے کا ہے۔ اسی موضوع پر انھوں نے لکھا ہے اس کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس وقت فرصت نہیں ہے کہ اس سے زیادہ لکھ سکوں۔ خیریت سے اطلاع دیں اور واقفین سے سلام مسنون کہہ دیں۔ والسلام سید مہدی حسن، صدر مفتی دارالعلوم دیوبند ۸/۸/۷۹
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​


قسط:54

مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ کے رسالہ سے اقتباس

حضرت مفتی صاحب نے اپنے مکتوب میں حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ کی جس کتاب کا ذکر کیا ہے اس کی چند سطور نقل کی جاتی ہیں۔ حضرت مولانا تحریر فرماتے ہیں:
اسلامی اصول کے موافق کسی مسئلہ شرعی کے اثبات کیلئے چار دلیلیں ہوسکتی ہیں: (۱)کتاب اللہ۔ (۲) سنت رسول اللہؐ (۳)اجماعِ مجتہدین۔ (۴)قیاس اور استنباط۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مسئلہ کا ثبوت قرآنِ کریم سے پیش ک یا جائے اس لئے ہم نے بہمہ وجوہ اتمامِ حجت کے لئے مناسب سمجھا ہے کہ اولاً مرتد کے بارے میں قرآن ہی کا فیصلہ سنایا جائے۔
یوں تو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات ہیں جو مرتد کے قتل پر دلالت کرتی ہیں لیکن ایک واقعہ جماعت مرتدین کے بحکم خدا قتل کئے جانے کا ایسی تصریح اور ایضاح کے ساتھ قرآن میں مذکور ہے کہ خدا سے ڈرنے والوں کے لئے اس میں ذرا تاویل کی گنجائش نہیں ہے، نہ وہاں محاربہ اور نہ قطع طریق اور نہ کوئی دوسرا جرم ہے (جیسا کہ علامہ صاحب تخریب امن فرمارہے ہیں)۔ صرف ارتداد اور تنہا ارتداد ہی وہ جرم ہے جس پر حق تعالیٰ نے ان کے بے دریغ قتل کا حکم دیا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برکت سے بنی اسرائیل کو جب خدا نے فرعون کی غلامی سے نجات دی اور فرعونیوں کی دولت کا مالک بنادیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ٹھہرے ہوئے وعدے کے موافق حضرت ہارون ؑکو اپنا خلیفہ بناکر کوہِ طور پر تشریف لے گئے، جہاں آپ نے چالیس راتیں خدا کی عبادت اور لذتِ مناجات میں گزاریں۔ اور تورات شریف آپ کو عطا کی گئی۔ ادھر تو یہ ہورہا تھا اور اُدھر سامری کی فتنہ پردازی نے بنی اسرائیل کی ایک بڑی جماعت کو راہِ حق سے ہٹا دیا تھا (یعنی بنی اسرائیل کی ایک بڑی جماعت گئوسالہ پرستی میں مبتلا ہوکر مرتد ہوگئی تھی) الیٰ قولہٖ: تب بنی اسرائیل کے لئے یہ صورت تجویز ہوئی جو سورۂ بقر میں ہے:
’’اے بنی اسرائیل! تم نے بچھڑے کو معبود بناکر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اب خدا کی طرف رجوع کرو او ر اپنے آدمیوں کو قتل کرو‘‘۔
اور ’’فااقتُلُوا أنفسکم‘‘ میں ’’انفسکم‘‘ کے معنی وہی ہیں جو ’’ثمّ أنتُم ہٰؤلاء تقتُلُون أنفسکم میں ہیں۔ اور قتل کو اپنے اصلی اور حقیقی معنی سے (جو ہر طرح کے قتل کو خواہ لوہے سے ہو یا پتھر سے شامل ہے) پھیرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے، بلکہ غضب اور ذلت فی الحیوٰۃ الدنیا کا لفظ اس کے نہایت ہی مناسب ہے، اور یہی غضب کا لفظ دوسری جگہ عام مرتدین کے حق میں بھی آیا ہے، جیسا کہ فرماتے ہیں: {مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرْحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبُ اللّٰہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ ألِیْمٌ} (نحل)
اس حکم کا نتیجہ جیسا کہ روایت میں ہے یہ ہوا کہ کئی ہزار آدمی جرم ارتداد میں خدا کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے قتل کئے گئے اور صورت یہ ہوئی کہ قوم میں سے جن لوگوں نے بچھڑے کو نہیں پوجا تھا ان میں سے ہر ایک نے اپنے اس عزیز وقریب کو جس نے گئوسالہ پرستی کی تھی اپنے ہاتھ سے قتل کیا (الیٰ قولہ:) کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعہ موسوی شریعت کا ہے، امت ِ محمدیہ ﷺ کے حق میں اس سے تمسک نہیں کیا جاسکتا، لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ پہلی امتوں کو جن شرائع واحکام کی ہدایت کی گئی تھی اور قرآن نے ان کو نقل کیا ہے وہ ہمارے حق میں بھی معتبر ہیں۔ اور ان کی اقتداء کرنے کا امر ہم کو بھی ہے، جب تک کہ خالص طور پر ہمارے پیغمبر یا ہماری کتاب اس حکم سے ہم کو علیحدہ نہ کریں۔
(الخ: الشہاب، ص:۱-تا-۱۹، از مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ، مطبوعہ قاسمی پریس دیوبند)
الشہاب بڑے سائز کے ۳۶صفحات کا ایک رسالہ ہے جس میں مولانا مرحوم نے ہر قسم کے دلائل بکثرت جمع کئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ قتل مرتد محض جرمِ ارتداد میں خدائی حکم ہے اسی سے میں نے انتخاب کیا ہے۔
اب چونکہ میں اس بحث کو ختم کرنا چاہتا ہوں اس و جہ سے تفصیل سے گریز کررہا ہوں، جن صاحب کو شکوک وشبہات پیدا ہوں وہ اخبار کے بجائے جوابی لفافہ بھیج کر مجھ سے گفتگو کرسکتے ہیں، فقط۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔


حضرت رائے پوری کی قبر شریف کا قضیہ
- اور -
حضرت شیخ الحدیث والطریقت مولانا محمد زکریاصاحبؒ کا ارشاد
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:55


حضرت رائے پوری کی قبر شریف کا قضیہ
- اور -
حضرت شیخ الحدیث والطریقت مولانا محمد زکریاصاحبؒ کا ارشاد​
کا فی عرصہ سے اخبارات میں حضرت قطب الارشاد مولانا الشاہ عبدالقادر صاحب نوراللہ مرقدہ کی قبر شریف کے متعلق خبریں اور مختلف رائیں آرہی ہیں ۔ گذشتہ دنوں میں معاصرندائے ملت نے مسلم پریس کو آواز دی تھی جس کی بنا پر ہمیں بھی فکر لاحق ہوا ،اور کتابوں کی ورق گردانی کے ساتھ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی کی ھدایت کے بموجب حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب دامت براکاتہم سے خط وکتابت کی ۔ اب حضرت مد ظلہ‘کی اجازت سے ان کے مکتوب گرامی اور اپنے عریضہ کو شائع کررہا ہوں ساتھ ہی ہندوستان وپاکستان کی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوںکہ وہ اس معاملہ میں نہ پڑیں۔اور حضرت رائے پوری نوراللہ مرقدہ کے متوسلین اور متعلقین سے بھی عرض ہے کہ وہ اب نعش مبارک کی منتقلی کے مسئلہ کو حاشیہ خیال سے بھی نکال دیں ۔
بندہ عزیزالرحمن غفرلہ‘ ،خادم مدنی دارلافتاء بجنور​
مکتوب گرامی حضرت شیخ الحدیث مد ظلہ،( ؒ)​
مکرم ومحترم ………… مدت فیوضکم۔
بعد سلام مسنون۔گرامی نامہ موجب منت ہوا، میرا دل تو نہیں چاہتا تھا کہ یہ بحث اخبارات میں چھڑے۔اور اصل صورت بھی اپنی دیکھی ہوئی تو ہے نہیں ۔ جہاں تک معلوم ہوا ہے، زمین کے اوپر اینٹوں کا فرش کرکے اس پر تابوت رکھ کر چاروں طرف دیوار بنا کر اس پر ڈاٹ لگا دی گئی ۔اس کے بعد اس کے چاروں طرف دور تک مڑی ڈال کر اور اس سطح کو مسجد کی سطح کے برابر جو بہت اونچی ہے کردیا گیاہے۔ اور اس پر کچی قبر کا نشان بنادیا ہے۔ بنانے والوں کا بیان یہ ہے کہ دریا کے قرب کی و جہ سے سیلاب کے خوف سے ایسا کیا گیاہے۔پاکستانی علماء کی اکثریت کہتی ہے کہ اس طرح کی تدفین میں کوئی کراہت نہیں ،لہٰذا کوئی اشکال نہیں ۔ہندی اہل فتاویٰ کی اکثریت کہتی ہے کہ تدفین تو مکروہ ہوئی لیکن جو ہوگیا اب اس کادوبارہ نبش جائز نہیں۔آپ خوداہل فتویٰ ہیں،اپنی رائے سے اس ناکارہ کو ضرور مطلع فرمائیں۔یہ ناکارہ خود تو اہل فتویٰ نہیں ہے لیکن اس واقعہ کے بعد سے ہندو پاک کے اکثر اہل فتاویٰ سے میں نے فتاویٰ منگائے ۔ جن کا خلاصہ اوپر لکھا ہے ۔خیال میرابھی یہ ہے کہ اب نبش نہ کیا جائے۔اپنی رائے عالی سے مجھے ضرور مطلع فرمائیں۔فقط والسلام
محمد زکریا
مظاہر علوم۔۱۷؍ذیقعدہ ۸۲ ۱۳ھ؁​
عریضہ بندہ عاجز غفرلہ‘​
حضرت اقدس زید مجدکم ودامت برکاتہم، سلام مسنون۔
نوازش نامہ وہدایت نامہ ملا ،ذرہ نوازی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔حضرت رائے پوری قدس سرہ کے مزا رمقدس کے متعلق جو معلومات آپ نے تحریر فرمائی ہیں،ان سے تمام شکوک وشبہات کا ازالہ ہوگیا۔اخبارات میں جب سے یہ مسئلہ شروع ہوامیں سخت پریشان تھا اور اظہار رائے سے خوف زدہ تھا۔ اب جناب نے تحریر فرمایا ہے کہ ،تو بھی اپنی رائے سے ضرور مطلع کر، اب آپ کی خدمت میں اظہار رائے سے شرم محسوس کررہاہوں،کیا میں اور کیا میری رائے؟محض تعمیل حکم کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے عرض پردا ز ہوں۔
(۱)انتقال جنازہ کے متعلق فقہاء نے بعض حالات میں اجازت دی ہے۔اگرچہ اس میں اختلاف بھی موجود ہے ۔لیکن حضرت رائے پوری قدس سرہ‘کے تابوت مقدس کو موجودہ صورت اختیار کرلینے کی وجہ سے جنازہ یا تابوت محض قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔
(۲)یہ بھی غلط ہے کہ حضرتؒکی نعش مبارک کی تدفین عمل میں نہیں آئی کیونکہ قبر شریف کی موجودہ صورت کو تابوت یا جنازہ نہیں کہا جاسکتا کہ جس کے انتقال کی اجازت دی جائے بہر حال تدفین عمل میں آچکی ہے اور قبر شریف بن چکی ہے۔اگرچہ طریقہ غیر مسنون اختیار کیا گیاہے۔لیکن دریا کے قرب کے عذر کے باعث یہ کراہت باقی نہیں رہی۔صاحب فتح القدیر تحریر فرماتے ہیں۔
لاینبش بعد اھالۃ التراب مدۃ طویلۃ ولا قصیرۃ الا بعذرالخ اور حضرت کے تابوت پر اہالۂ تراب کا عمل ہو چکا ہے اسی لئے اس کو اب عرفاًاور شرعاًتابوت نہیں کہا جاسکتا بلکہ قبر یا مزار ہی کہا جائے گا،مذکورہ عبارت کے بعد صاحب فتح القدیر نے بعض صحابہؓ کے ارض دارلحرب میں مدفون ہونے کوذکر عذر کی حیثیت کو بھی ختم کردیاہے۔اور اس کے بعد بعض مشائخ کے قول کا ردکرتے ہوئے تحریر فرمایاہے:
فتجویز شواذ بعض المتاخرین لایلتفت الیہ ولم نعلم خلافاً بین المشائخ فی انہ لاینبش الخ۔
اس سے معلوم ہوا کہ نبش قبور کا مسئلہ مختلف فیہ بھی نہیںہے۔ بعض حضرات نے حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے تابوت کے منتقل ہونے سے استدلال کیا ہے جو غلط ہے ، صاحب فتح القدیر تحریر فرماتے ہیں۔
لم تتوفرشروط کونہ شرعاًلناالخ
بہرحال اس مسئلہ میں تفصیل آپ کے سامنے ہے میں تو تعمیلاً للحکم عرض کررہا ہوں۔ خدا شاہد ہے کہ اگر شریعت نے تھوڑی سی بھی گنجائش چھوڑی ہوتی تو شاید میں پہلا شخص ہوتا جو اس سعادت عظمیٰ کو پاکستان کی سر زمین سے ہندستان کی سرزمین کی طرف منتقل کرانے میں اپنی تمام قوتیں صر ف کر دیتا،لیکن افسوس کہ تلاش بسیار کے باوجودمیں شرعی گنجائش معلوم کرنے میں قاصر رہا۔فقط واللہ اعلم با لصواب۔
بندہ: عزیزالرحمٰن غفرلہ
مدنی دارالافتاء بجنور ،
۲۰؍ذیقعدہ ۱۳۸۲ھ؁
( مدینہ ۱۹؍اپریل ۱۹۶۳؁)​
 
Top