مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری نوراللہ مرقدہ

السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری
[size=xx-large]از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط:17

تعلیمی حلقے:

جماعت کے افراد اور دیگر مسلمانوں کو بلاکر تعلیمی حلقے میں شریک کرنا اس طرح کہ کوئی ایک آدمی دینی کتاب پڑھے اور بقیہ دوسرے افراد نہایت اخلاص اور محبت اور توجہ کے ساتھ سنتے رہیں۔ تعلیمی حلقے میں عام طور سے فضائل سے متعلق کتابیں پڑھی جاتی ہیں، کیونکہ اعمال کی طرف رغبت اسی وقت ہوتی ہے جب اعمال کے فضائل اور ان کا ثواب معلوم ہو اور نہ کرنے کی صورت میں عذاب اور عتاب معلوم ہو۔ مسائل کی ضرورت اعمال کے وجود میں آنے ہی کے بعد پیش آتی ہے اس وجہ سے تبلیغی حلقۂ تعلیم میں اسی پر زور دیا جاتا ہے اور مسائل کو علمائے کرام کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس کی تاکید بھی کردی جاتی ہے کہ پیش آمدہ مسائل کو علماء سے دریافت کیا جائے، اس طرح عام مسلمانوں کو علماء سے جوڑا جاتا ہے اور اس جوڑ سے بہتر نتائج اور فوائد ظاہر ہوتے ہیں۔ تبلیغ والے دوسری کتابوں کے مطالعے سے منع نہیں کرتے ہیں، ہر پڑھے لکھے آدمی کو علمی اور دینی کتاب پڑھنے کا حق حاصل ہے، لیکن اتنا مشورہ ضرور ہے کہ کتاب پڑھنے سے پہلے یہ تحقیق کرلیا جائے کہ کتاب کسی مستند اور صحیح العقیدہ عالم کی تحریر کردہ ہے۔ ہاں تبلیغی کام میں نکلنے کی حالت میں صرف فضائل ہی سے متعلق کتابوں کو پڑھا جائے اور سنا جائے اوراس کی وجہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔

گشت:

آپ جانتے ہیں کہ آج کل کس قدر بے دینی پھیلی ہوئی ہے۔ مغرب کے جدید نظریات اور تہذیب نے پورے عالم سے انسانیت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ کہنے کو تو یہ زمانہ ترقی کا زمانہ ہے مگر کس چیز کی ترقی کا؟ اشیاء کی ترقی کا یا انسان کی ترقی کا، انسان کی مصنوعات نے ترقی کی ہے خود انسان نے تنزلی کی ہے، انسانی اخلاق وکردار میں گراوٹ جب سے زمین آباد ہوئی ہے اتنی کبھی نہیں ہوئی جتنی آج کل ہے۔ زمین پر ہر چیز برائی کی مبلغ بنی ہوئی ہے۔ درودیوار کو دیکھ لیجئے کہ ان کی کیا حالت ہے؟ ایسی صورت اور حالت میں انسان بنانے کی تحریک کس طرح شروع کی جائے؟
ہمیں اپنے بچپنے کی چند باتیں اچھی طرح یاد ہیں ہندوستان میں چائے نوشی، سگریٹ نوشی کو کس طرح عام کیا گیا؟ گلی کوچوں میں چائے بناکر مفت پلائی جاتی تھی، سگریٹوں کو بکھیرا جاتا تھا، اور مدتوں ایسا ہی کیا گیا تب جاکر چائے اور سگریٹ نے انسانی زندگی میں وہ مقام حاصل کیا ہے جو آج اس کو حاصل ہے۔ اسی طرح گلی کوچوں میں چل پھر کر کلمہ نماز کو عام کیا جائے، جگہ جگہ اس کے تذکرے ہوں، نیچی نظریں کئے ہوئے ذکر کرتے ہوئے خدا کے بندے زمین پر چاروں طرف پھریں تو بتلائیے کس قسم کا ماحول تیار ہوگا اور کیسی فضا بنے گی۔
یورپ اور امریکہ کے اسفار میں ان ہی اذانوں اور نمازوں کو بہت سے دہریوں نے جب دیکھا تو بے حد متأثر ہوئے۔ آج ان ملکوں میں دین کی کیسی فضا بننی شروع ہوئی اور کس طرح ان لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے؟ یہ سب ان ہی گشتوں کی برکت ہے، کسی لٹریچر کی نہیں۔ لٹریچر کی ضرورت تو بعد میں پیش آتی ہے، پہلے اسی نقل وحرکت نے کام کیا ہے۔ تبلیغ میں گشت دو طرح کے ہوتے ہیں: عمومی اور خصوصی۔ عمومی گشت میں چل پھر کر عام مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ عام طور سے کسی نماز کے وقت سے پہلے یہ گشت ہوتا ہے۔ گشت شروع کرنے سے پہلے سب مل کر دعا ء کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دینی محنت کو بارآور کرے۔ گشت کرتے وقت ایک امیر ہو، ایک متکلم (جو بات کرے) اور ایک رہبر۔ رہبر بستی یا محلّے کا کوئی آدمی ہوتا ہے۔ سب لوگ نیچی نظریں کئے ہوئے اور ذکرکرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کے پاس جائیں اور ان کو آخرت کی طرف متوجہ کریں۔ اور مسجد میں لائیں۔
خصوصی گشت میں یہ ہوتا ہے کہ جماعت کے خاص افراد محلہ، بستی کے خاص اور مؤثر قسم کے افراد سے ملاقات کریں اور ان کو اس دعوت کے فائدے بتلائیں اور دعوت کا تعارف کرائیں اور ان کو بھی مسجد میں آنے اور اجتماع میں شریک ہونے کی دعوت دیں۔
دعوت اور بیان میں اگر جماعت میں سے کوئی صاحب بیان کرنا جانتے ہوں تو وہ ان ہی چھ نمبروں کی پابندی کرتے ہوئے بیان کردیں اور اگر نہ جانتے ہوں تو پھر فضائل کی کتاب پڑھ کر سنا دیں اور اس سے عار محسوس نہ کریں کیونکہ اس تبلیغ میں اصل مقصود کام ہے بیان نہیں ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے فرمایا: ’’زبان سے اتنا کام لو جتنا پورے جسم کے مقابلے میں زبان ہے، یعنی عمل زیادہ ہو، بات کم ہو، جو اثر اعمال سے پڑتا ہے وہ بیان سے نہیں‘‘۔

تشکیل:

کسی بیان اور دعوت کو تقویت اور بقاء اسی وقت نصیب ہوتی ہے جب فوراً ہی اس کے لئے عملی صورت ترتیب دی جائے، بغیر عملی صورت ترتیب دئیے ہوئے بہترین قسم کی تجاویز ور بہترین قسم کے خاکے خاک میں مل جاتے ہیں۔ جو تجویز بھی عملی صورت اختیار نہ کرسکے وہ زینت ِ دفتر رہے۔ اس کو حماقت کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ دوسرے کاموں اور تبلیغی کام میں یہی فرق ہے کہ یہ کام فوراً ہی صورت اختیار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، اس لئے تبلیغ کا کوئی بیان مطالبہ اور تشکیل سے خالی نہ رہنا چاہئے۔ بعض حضرات نے حضرت مولانا یوسف صاحبؒ سے دریافت کیا تھا کہ حضرت! آپ کا بیان بہت عمدہ ہوتا ہے لیکن کوئی بیان چلّے کے مطالبے سے خالی نہیں ہوتا اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا:
’’یہ سب کچھ حرکت وعمل اور جو اس کے اثرات دیکھتے ہو اسی چلہ اور اس کے مطالبہ کی بدولت ہے، ورنہ ہماری ساری محنتیں صرف زبانی ہوکر رہ جائیں گی‘‘
اس وجہ سے تشکیل نہایت ضروری ہے۔ اور تشکیل کے لئے گشت اور تفقد ضروری ہے۔
تفقد کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب تشکیل کرتے وقت چند بھائیوں نے خدا کی راہ میں نکلنے کے لئے نام پیش کئے ہوں۔ ان کے گھروں پر جاکر ان کو پختہ کرنا، ان کے اعذار کو دور کرنا، اگر کو مذبذب ہے اس کا کچا پن دور کرنا۔

چلہ:

جاری ہے[/size]
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط:18
چلہ:

بعض لوگ سوال کرتے ہیں یہ چلہ کیسا اور کہاں سے؟ دین میں یہ نئی بات کہاں سے پیدا کی؟ تو گذارش یہ ہے کہ یہ چیز شرعاً ثابت ہے کہ چالیس کے عدد کو تاثیر کے اعتبار سے خاص اہمیت حاصل ہے چنانچہ چالیس دن تک کوئی کام کرنے سے انسان کے اخلاق وعادات پر کافی اثر پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چالیس دن طور پر پورا کرائے تھے۔ اسی طرح چالیس سال گذرنے پر انبیاء علیہم السلام کو کارِ رسالت سپرد ہوئے ہیں۔ بزرگوں اور اولیاء اللہ نے بھی چلّہ کے ساتھ اپنی ریاضت کو وابستہ کیا ہے، اس کے علاوہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک چلہ (چالیس دن) کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
تمامُ رباطٍ أربعُونَ یومًا ومَنْ رابَطَ أربعُونَ یومًا لم یبع ولم یشتر ولم یحدث حدثًا خرجَ من ذُنوبِہٖ کیومٍ ولدت أمُّہ۔
پوری رباط چالیس دن کی ہے۔ جو آدمی چالیس دن اس طرح مرابط رہا کہ نہ خریدا اور نہ بیچا اور کوئی غیرمعقول عمل بھی نہ کیا وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے گویا ماں کے پیٹ سے جس دن پیدا ہوا تھا۔ اس روایت کو جامع صغیر میں طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حدیث شریف میں رباط کا ذکر ہے مگر اشارۃً اولیاء اللہ اور بزرگوں کے چلّے اور اسی طرح تبلیغ کا چلّہ بھی داخل ہے۔ چنانچہ اگر اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے تبلیغ کا چلّہ پورا کیا جائے تو نمایاں اثرات ظہور میں آتے ہیں۔

[align=center] اکرام مسلم:
[/align]

یہ نمبر اگرچہ بظاہر مسلمانوں کے حقوق سے متعلق ہے لیکن اس میں بہت ہمہ گیری ہے، یعنی تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوق کو مشتمل ہے۔ اور اکرامِ مسلم کا لفظ اس وجہ سے بولا گیا ہے کہ اس کام کا دائرۂ کار عام طور سے مسلمانوں تک ہے۔ لیکن عملاً جس سے بھی سابقہ پڑے اس کے حقوق کی رعایت رکھی جائے۔ اگر کسی دوسری قوم کے آدمی سے ملاقات ہو تو اس کا بھی اکرام کیا جائے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب کسی قوم کا سردار تمہارے پاس آئے تو تم اس کا اکرام کرو‘‘۔
دوسری حدیث میں ارشاد ہے:
’’جو ہمارے بڑوں کا ادب نہ کرے اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
اور اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ:جو ہمارے عالموں کی قدر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں، انسانوں اور مسلمانوں سے مراتب اور رشتوں کے اعتبار سے حقوق کی رعایت رکھنا اگر دیکھا جائے تو اس نمبر میں انسانیت کی پوری پوری تعلیم موجود ہے۔

اخلاص نیت:

یہ کوئی علیحدہ سے نمبر نہیں ہے بلکہ سب نمبرات کو شامل ہے۔ کلمہ ونماز اور ہر عمل کے کرتے وقت اس کی قبولیت کے لئے اخلاصِ نیت کا ہونا ضروری ہے، کسی بھی انسانی عمل کو اگر خدا کی رضا کے لئے کیا جائے تو عبادت ہے۔ اور کسی بھی عبادت کو محض دکھائے اور ریا ونمود کے لئے کیا جائے تو دنیا ہے۔ اس وجہ سے یہ نمبر جدا کوئی چیز نہیں ہے لیکن اس کی اہمیت کے اعتبار سے اس کو علیحدہ سے بتلایا جاتا ہے۔

تفریغ اوقات:

چلّہ کے بیان میں اس کا ذکر ہوچکا ہے، یعنی خدا کے دین کی اشاعت کے لئے او راپنی زندگی سنوارنے کے لئے کچھ وقت خالی کرنا۔ تجربہ سے یہ چیز ثابت ہے کہ ہر کام اور عمل کو سیکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ وقت ضرور خالی کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا بزرگوں نے تجربہ اور مشورہ کے بعد اس نمبر کو داخل کیا ہے اور جیسا کہ ظاہر کیا جاچکا ہے کہ تبلیغ کے کام جاری رکھنے کا سبب اس نمبر کی رعایت رکھنا ہے، یعنی کچھ وقت خالی کرکے خدا کے دین کے لئے نکل جانا۔

ترک لایعنی:

یہ نمبر بطور پرہیز اور علاج کے ہے اور ان لوگوں کے لئے جواب بھی ہے جو اعتراض کرتے ہیں کہ تبلیغ والے نہی عن المنکر کو قائم نہیں کرتے۔ جو لوگ بلامقصد عمل کے لئے مستقل ایک نمبر رکھتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا؟ اسی کے لئے امیر جماعت کی روک ٹوک چلتی ہے کہ اپنے وقت کو بے کار نہ کیا جائے۔ یہ ہے تبلیغی خاکہ اور عمل جس کا مختصر تعارف آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔

ایک اہم فریضہ:
(جاری ہے)​
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط:19

ایک اہم فریضہ:

جہاں تک تبلیغی اصطلاحات اور کام کا تعلق تھا اس کے بارے میں مختصراً عرض کرچکا ہوں۔ اس جگہ تبلیغی کام کی سب سے اہم خوبی کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھ رہا ہوں، وہ ہے قیامِ امیر اور اِمارت۔ یہ اتنی بڑی خیر ہے جس کے مقابلے میں میرے نزدیک کوئی دوسری خیر نہیں ہے۔
دور کیوں جائیے اپنے ہندوستان میں مسلم تنظیموں پر نظر ڈال کر دیکھ لیجئے ان کے ڈھانچے مغربی طرز کی جمہوریت پر مرتب ہوتے ہیں، کہیں ممبر سازی ہوتی ہے اور پھر صدر اور سکریٹری منتخب ہوتے ہیں۔ یہ سب غیراسلامی طرزِ انتخاب ہے، لیکن تماشہ یہ ہے کہ یہ تنظیمیں اپنے آپ کو اسلام کا علمبردار بتلاتی ہیں اور یہ تک محسوس نہیں کرتیں کہ وہ اپنے وجود میں آنے سے پہلے ہی اسلام کو خیرباد کہہ چکی ہیں۔
تبلیغ میں نکلنے کے لئے جب کوئی جماعت ترتیب دی جاتی ہے تو سب سے پہلے ان میں سے بہتر آدمی کو امیر منتخب کیا جاتا ہے اور تاکید کردی جاتی ہے کہ بلاامیر کی اجازت کے کچھ نہ کیا جائے اور امیر کو تاکید کی جاتی ہے کہ بلاساتھیوں کے مشورے کے کوئی کام نہ کیا جائے۔ جماعت جب کوئی کام کرتی ہے تو اسی چیز کا لحاظ رکھتی ہے۔ مثلاً: کھانے پکانے کا کام ہے تو اس کے لئے علیحدہ امیر مقرر کیا جاتا ہے اور دو آدمیوں کو ساتھ کردیا جاتا ہے۔ گشت میں جانا ہو تب گشت کا ایک امیر ہوتا ہے، ملاقات کو جانا ہو تو تب ایک امیر مقرر ہوتا ہے، غرض کہ کسی بھی کام کو بلاجماعت کے نہیں چلتے اور جماعت بلاامیر کے نہیں چلتی۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
’’اسلام بلاجماعت کے نہیں اور جماعت بلا امیر کے نہیں اور امیر بلاطاعت کے نہیں‘‘
چنانچہ سیرتِ مبارکہ مطالعہ کرنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ کوئی سریّہ ایسا نہیں جس کا امیر نہ مقرر کیا جاتا ہو۔ اور کوئی غزوہ ایسا نہیں جس میں آپ تشریف نہ لے گئے ہوں اور مدینہ منورہ میں اپنا خلیفہ مقرر نہ کیا ہو۔ ہر وفد کا امیر ہوتا تھا اور تمام کاموں کے لئے علیحدہ علیحدہ امیر مقرر کیا جاتا تھا۔ غور فرمائیے! نماز کو امام (امیر) کے پیچھے ادا کیا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ جنازے کی نماز تک اس سے خالی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام کے قیام میں اطاعت کاجذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے سکون اور امن وامان پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا نظریہ جو ہے اس سے عدم آتی ہے جو انتشار کو پیدا کرتی ہے۔

جماعت ِ اسلامی اور تبلیغی جماعت
ایک خط اور اس کا جواب
(جاری ہے)
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:20

جماعت ِ اسلامی اور تبلیغی جماعت
ایک خط اور اس کا جواب​

مخدومی المکرم المحترم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خدمت ِ اقدس میں جماعت ِ اسلامی اور تبلیغی جماعت سے متعلق ایک بہت ضروری عریضہ پیش ہے، امید ہے حضرتِ والا اس کی اہمیت کے پیش نظر جواب سے نوازیں گے۔
جماعت ِ اسلامی کے سامنے اس وقت سب سے بڑی رُکاوٹ تبلیغی جماعت اور اس کی سرگرمیاں ہیں، چنانچہ تبلیغی جماعت کی روز بروز بڑھتی ہوئی دینی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کی جانب سے تبلیغی جماعت پر کچھ نئے قسم کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں اور خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوان طبقے میں ان کی اشاعت کی جارہی ہے۔ جماعت ِ اسلامی اپنے مخصوص پروپیگنڈے کے ذریعہ یہ تأثر پیدا کررہی ہے کہ تبلیغی جماعت چونکہ زندگی کے ایک مخصوص اور متعین حصے کو ہی اسلامی بنانا چاہتی ہے، جب کہ جماعت ِ اسلامی کا واحد نصب العین یہ ہے کہ پوری زندگی کو سو فیصدی اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے۔ اس لئے تبلیغی جماعت انسان کی مکمل راہنمائی کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس کی تمام تر سرگرمیاں نماز، روزہ، کلمہ اور دعائیں سکھانے اور فضائل بتانے تک ہی محدود ہیں، جب کہ جماعت اسلامی مکمل اقامت ِ دین کی داعی ہے۔ اور اقامت ِ دین سے مراد یہ ہے کہ کسی تفریق وتقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسو ہوکر کی جائے۔ انسانی زندگی کے انفرادی واجتماعی تمام شعبوں میں اسے اس طرح جاری ونافذ کیا جائے کہ فرد کا ارتقائ، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ سوفیصدی اسلام کے مطابق ہو۔ جماعت ِ اسلامی کا واحد نصب العین یہی اقامت ِ دین ہے اور اس کی تمام تر سرگرمیوں کا واحد محرک رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت کا حصول ہے۔ اس کے برعکس تبلیغی جماعت کو مسلمانوں کو درپیش کسی بھی انفرادی یا اجتماعی مسئلے سے خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی کوئی دلچسپی یا سروکار نہیں ہے؟
حضرتِ والا! آج کے حالات میں یہ انتہائی اہم اور عام طور پر مسلمانوں کو متأثر کرنے والے الزامات بہت ہی قابل غور وفکر ہیں۔ تبلیغی جماعت کے دفاع کے لئے ہی نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی تسلی وتشفی اور اشکالات کو دور کرنے کے لئے ایسے پروپیگنڈے اور غلط فہمیوں کا ازالہ نہایت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں حضرتِ والا سے انتہائی عاجزانہ استدعاء کے ساتھ پوری امید ہے کہ حضرتِ والا اس کا تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں گے۔ جس سے تبلیغی جماعت کی جو تفسیر جماعتِ اسلامی عوام کے سامنے پیش کررہی ہے اس کا دوسرا صحیح رُخ سامنے آسکے اور اس سے جو لوگ متأثر ہیں ان کی تسلی وتشفی بھی ہوسکے۔


جماعت ِ اسلامی کا تبلیغی جماعت پر الزام:

تبلیغی جماعت جو کچھ کہتی اور کرتی ہے وہ صرف یہ کہ زندگی کے کچھ مخصوص حصے میں مخصوص اور متعین مسائل کو لے کر اُٹھی ہے اس کا منشاء صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں جو لوگ نماز اور روزے سے نابلد ہیں انھیں نماز سکھائیں اور پڑھائیں، ان کے کلمہ اور دعاؤں کی تصحیح کرائیں، انھیں نماز روزے وغیرہ کے فضائل سے آگاہ کریں، اس کی تعلیم کے لئے اپنا کچھ وقت نکالیں، چنانچہ روزانہ بیشمار افراد ان کے چلّوں میں جاتے اور گشت وغیرہ کرتے ہیں۔ مسائل وفضائل کو سیکھتے سکھاتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کا یہ مقصد کبھی نہیں رہا کہ وہ اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات کی حیثیت میں جیسا کہ وہ ہے سمجھے اور دوسروں کے سامنے اسے اسی حیثیت سے پیش کرے۔ انھیں باطل افکار ونظریات اور ملحدانہ طرزِ حیات سے جو آج انسانی معاشرے کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انھیں ان کے مرکز کی طرف سے یہ ہدایت ہے کہ وہ ان مسائل پر کوئی اظہارِ خیال نہ کریں جن کا تعلق اجتماعی معاملات سے ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں ملک کے مختلف سیاسی وغیرسیاسی پارٹیوں اور ایوانِ حکومت میں کیا سازشیں ہورہی ہیں؟ مسلم پرسنل لاء کیا ہے؟
اور یکساں سول کوڈ کیا ہے؟ مسلمانوں کا تعلیمی مسئلہ کس طرح حل ہو اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ فرقہ وارانہ فسادات کے اندر مظلومین اوار سیلاب وخشک سالی کے متاثرین تک کے سلسلے میں تبلیغی جماعت کو کوئی دلچسپی نہیں ۔ غیرمسلموں میں مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے کیا بدگمانیاں پائی جارہی ہیں اور ان کا ازالہ کس طرح ہو غیر مسلموں میں اس کا تعارف ہونا چاہئے۔ اور وہ کس طرح ہو ان سب اُمور سے بھی تبلیغی جماعت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے افراد اپنے اجتماعی معاملات ومسائل میں کیا طرز اختیار کرتے ہیں؟ اس کی بھی اسے کوئی فکر نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص نماز روزہ کی پابندی، چلوں اور گشت میں تعاون، اجتماعات میں شرکت کے ساتھ ساتھ محکمہ آبکاری کاانسپکٹر ہو یا کوئی رشوت اور سود کا لین دین اپنے کاروبار میں کرتا ہو، عدالتوں میں جھوٹے مقدمات لڑتا، لڑاتا ہو، اسی طرح اور کوئی ناجائز ذرائع آمدنی رکھتا ہو اس سے تبلیغی جماعت کوئی بازپرس نہیں کرتی، کیونکہ یہ اس کا ذاتی اور معاشی معاملہ ہے۔ اسی طرح کوئی شخص کمیونزم، کانگریس، جنتا پارٹی یا کسی بھی جماعت یا پارٹی کا علمبردار ہو اس کے سیاسی نظریات کیا ہیں؟ وہ سیاسی اُمور میں کیا طرز اختیار کرتا ہے؟ تبلیغی جماعت کو اس سے کوئی سروکار نہیں؟

جواب از مولانا محمد منظور نعمانی صاحبؒ(۱)​
(جاری ہے)​
 
السلام علیکم
[size=x-large]پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:21

جواب از مولانا محمد منظور نعمانی صاحبؒ(۱)​

باسمہٖ سبحانہ وتعالیٰ
مخلص ومکرم ………………… وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مفصل خط ملا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ آپ کو تبلیغی جماعت اور اس کے کام سے بحمد اللہ محبت ہے۔ اور آپ اس کو صحیح دینی خدمت یقین کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ اندازہ ہوا کہ ابھی آپ کا مزاج پورا تبلیغی نہیں بنا ہے۔ اگر آپ پورے ’’تبلیغی‘‘ ہوتے تو آپ کو اس کی فکر نہ ہوتی کہ جماعت ِ اسلامی کے حضرات کی ان باتوں کا کسی تحریر یا مضمون کی شکل میں جواب دیا جائے۔ اس کے بجائے آپ کی کوشش صرف یہ ہوتی کہ کسی طرح ان بھائیوں کے عمل تبلیغ کو اس طرح دکھایا جائے کہ وہ اس کے سب پہلوؤں اور اثرات ونتائج کو خود دیکھ لیں۔ تبلیغ والوں کی حکمت عملی یا کہئے کہ طریق کاریہی ہے اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب لوگ تقریر وتحریر سے کسی طرح مطمئن نہیں ہوسکتے وہ ذاتی علم ومشاہدے کے بعد کام کرنے والوں کے شریک حال ہوجاتے ہیں الا یہ کہ اللہ کی طرف سے توفیق مقدر ہی نہ ہو۔
سب سے پہلے خود میرا قصہ سنئے :شاید آپ نے کسی سے سنا ہو کہ میں جماعت ِ اسلامی کے قیام سے بہت پہلے سے مرحوم مولانا مودودی صاحب کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا تھا۔ ان کے فکر اور ان کی تحریروں سے بہت متأثر تھا، گویا ان کا عاشق تھا۔ (آج جو لوگ جماعت ِ اسلامی میں بہت نمایاں ہیں ان میں اکثر اس وقت ان کو جانتے بھی نہ ہوں گے) پھر جب ۱۹۴۱ء؁ میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو میں مولانا موصوف کے ساتھ اس کے بانیوں میں تھا، پھر جب جماعت ِ اسلامی کا مرکز ۱۹۴۲ء؁ میں لاھور سے ’’دارالاسلام‘‘ منتقل ہوا اور مولانا مودودی وہیں تشریف لے آئے تو میں بھی ہجرت کرکے وہیں پہنچ گیا، پھر ان کے ساتھ اسی قیام ہی کے زمانے میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ میں شرعی طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ مجھے جماعت ِ اسلامی کا رکن رہنا چاہئے یا نہ رہنا چاہئے۔ چند مہینے غور وفکر کرنے کے بعد میں اپنے حق میں یہی طے کرلیا کہ اب مجھے رکن رہنا نہیں چاہئے، لیکن اس وقت اس فیصلے کی بنیاد میرے اور مودودی صاحب کے درمیان کوئی اصولی اختلاف نہیں تھا میں اس وقت بھی ان کی اصل دعوت اور جماعت ِ اسلامی کے کام کو صحیح سمجھتا تھا۔
میں اس وقت تک حضرت مولانا الیاسؒ کے بارے میں کوئی خاص واقفیت نہیں رکھتا تھا، اگرچہ ایک دو دفعہ دیکھا تھا اور ملا تھا لیکن میرے دل نے اس سے کوئی خاص تأثر قبول نہیں کیا، اور ان کے تبلیغی کام اور اس کے طریقِ کار سے تو بالکل ہی ناواقف تھا۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ اگر اس وقت کوئی صاحب مجھے اس تبلیغی کام میں شرکت کی دعوت دیتے اور تقریر یا تحریر سے سمجھانے کی کوشش فرماتے تو غالباً میں بالکل متأثر نہ ہوتا۔ اس وقت میرے سوچنے کا خاص ڈھنگ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا کہ جماعت ِ اسلامی سے قطع تعلق کے کچھ ہی دن بعد ایک عجیب اتفاق سے (جس کو لطیفۂ غیبی ہی کہا جاسکتا ہے) چند روز میرا قیام رائے پور ضلع سہارنپور کی خانقاہ میں حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ کی خدمت میں رہا۔ میں اگرچہ حضرتؒ سے بیعت نہیں تھا؛ بلکہ اس زمانے میں مجھے خانقاہی اذکار واشغال سے کوئی مناسبت ہی نہیں تھی لیکن حضرت کی شخصیت سے میں بہت متأثر اور بہت معتقد تھا۔ ایک دن حضرت نے ایک سلسلۂ کلام میں حضرت مولانا محمد الیاسؒ کا ذکر بہت بلند کلمات میں فرمایا جو حضرت کی عام عادت نہیں تھی اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ آپ کا جب دہلی جانا ہوا کرے تو حضرت کی خدمت میں ضرور حاضر ہوا کریں۔ اس کے دوچار دن بعد میں اپنے اس وقت کے مستقر بریلی واپس ہونے کے لئے رائے پور سے سہارنپور آیا تو یہاں میں نے سنا کہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب بہت سخت بیمار ہیں میں نے سوچا کہ مجھے ابھی دہلی جاکر ان کی عیادت وزیارت کرنی چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اسی بیماری میں رُخصت ہوجائیں، اور مجھے محرومی کا ہمیشہ افسوس رہے۔ میں سہارنپور سے سیدھا دہلی پہنچا، دیکھا کہ حضرت مولانا سخت مریض ہیں اور انتہائی درجہ میں کمزور ہیں۔ جسم میں ہڈی، چمڑے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں نے مصافحہ کرنا چاہا تو بجائے مصافحہ کے حضرت مولانا نے میرے دونوں ہاتھ زور سے پکڑ لئے اور بغیر کسی گفتگو اور تمہید کے فرمایا مجھے دیکھنے کیوں آئے ہو، دین کی فکر کرو۔ میں نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ وعدہ کرو کم سے کم ایک ہفتہ ضرور دوگے۔ میں نے ان کی بیماری اور کمزوری کی حالت دیکھتے ہوئے بغیر کچھ سوچے سمجھے وعدہ کرلیا۔ یہ گفتگو رات میں عشاء کے دیر بعد ہوئی۔ میں اسی وقت نظام الدین پہنچا تھا پھر فجر کی نماز کے بعد حاضر ہوا تو فرمایا کہ اب آپ چلے جائیے، مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ اس بیماری سے میں اچھا ہوجاؤں گا۔ پھر جب کام کے سلسلے میں میرا سفر ہوگا تو اطلاع دوں گا۔ اس وقت آپ ایک ہفتے کے لئے آجائیں۔ میں بریلی چلا آیا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ بات اس وقت کے میرے مزاج کے خلاف تھی کہ یہ جانے بغیر کہ ایک ہفتہ کس کام کے لئے دینا ہوگا میں نے وعدہ کرلیا (یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کا کرشمہ تھا) اب یاد نہیں کہ کتنی مدت کے بعد مولانا کی طرف سے اطلاع آئی کہ فلاں تاریخ کو میں جماعت کے ساتھ لکھنؤ جانے والا ہوں آپ بریلی سے لکھنؤ پہنچ جائیں میں مقررہ وقت پر پہنچ گیا۔ حضرت مولانا دہلی سے تشریف لے آئے، پہلی ہی ملاقات میں فرمایا آپ بس میرے ساتھ رہیں اور جب تک ایک ہفتہ پورا نہ ہوجائے کام کے بارے میں آپ مجھ سے کوئی سوال اور کوئی بات نہ کریں۔ جو کچھ بات کرنی ہو ہفتہ پورا ہونے کے بعد کریں۔ میں نے اپنے کو اس کا پابند کرلیا۔ چار پانچ دن گزرنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ امت میں ایمان اور ایمان والی زندگی پیدا کرنے اور عام کرنے کا یہ نہایت صحیح طریقہ ہے۔ یہ یقین دن رات کی رفاقت اور مشاہدے سے ہوا اور ساتھ ہی یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ اگر حضرت مولانا مجھے گفتگو فرماکر مطمئن کرنا چاہتے تو غالباً میں مطمئن نہ ہوتا۔
قرآن مجید سے بھی اس حکمت ِ عملی کااشارہ ملتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے سلسلے میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جب عزیز مصر کی بیوی (جس کا نام زلیخا مشہور ہے اور جس کے گھر میں حضرت یوسف علیہ السلام ایک زرخرید غلام کی حیثیت سے رہتے تھے) ان پر فریفتہ ہوگئی تو مصر کی عورتوں میں اس کا چرچا پھیل گیا اور ا س کی سہیلیوں نے اس کی اس حرکت کو بہت ہی ذلیل حرکت سمجھا تو قرآن مجید میں بیان فرمایا گیا ہے کہ جب زلیخا کو ان سہیلیوں کی لعنت ملامت کی باتیں پہنچی تو اس نے یہ تدبیر کی کہ ان سب کی دعوت کی اور ان کے سامنے کھانے کی ایسی چیزیں رکھی گئیں جن کو چھری سے کاٹ کاٹ کر کھانا تھا اس لئے ہر ایک کو چھری بھی دے دی گئی اور ٹھیک اس وقت زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بلایا وہ بیچارے غلام کی حیثیت میں تھے فوراً حاضر ہوگئے، جب مہمان عورتوں کی ان پر نظر پڑی تو ان کے تو ہوش غائب ہوگئے، قرآن شریف میں ہے کہ انھوں نے اس بے ہوشی اور وارفتگی کے عالم میں چھریوں سے اپنے ہاتھ کاٹ لئے (قَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ) پھر زلیخا نے ان سے کہا: ’’ذٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِی فِیْہِ‘‘ (یہی ہے وہ جس کی محبت کی گرفتاری پر تم مجھے ملامت کرتی تھیں اب یہ خود تمہارا کیا حال ہوا؟)
تو زلیخا نے ان عورتوں کی لعنت وملامت کا جواب دینے اور ان کو مطمئن کرنے کے لئے ان سے لمبی چوڑی بات نہیں کی، کوئی مقالہ پڑھ کر نہیں سنایا۔ بس حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک نظر دکھلادیا۔ تو حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے اسی حکمت عملی کے مطابق عمل کیا۔ اس ذاتی تجربے کے بعد تبلیغی کام کے سلسلے میں میں نے خود بھی یہی رویہ اختیار کرلیا تھا اور میں نے اس کو ہمیشہ کامیاب پایا۔ حضرت مولاناؒ کے وصال کے بعد ۱۹۴۴؁ء یا ۱۹۴۵؁ء میں ایک تبلیغی جماعت کے ساتھ دہلی سے پشاور تک کا میں نے سفر کیا تھا۔ مجھ کو ہی جماعت کا امیر بنادیا گیا تھا اور دو تین دن ہمارا قیام لاہور بھی رہا۔ قیام حسب ِ معمول ایک مسجد میں تھا۔ آخری دن صبح کے وقت ایک صاحب تشریف لائے انھوں نے تعارف کرایا کہ حاجی عبدالواحد صاحب ایم۔اے، جو آپ کے دوست ہیں میرے بھی خاص دوستوں میں ہیں انھوں نے مجھے آپ کی جماعت کے بارے میں اور خود آپ کے بارے میں بتلایا ہے۔ میں اس وقت اسی لئے آیا ہوں کہ آپ کی جماعت کے کام اور نظام کو آپ سے سمجھوں اور اگر سمجھ میں آجائے تو اس میں حصہ بھی لوں۔ ان کی گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ ٹیلیفون یا تار کے محکمہ کے ایک افسر ہیں۔ میں نے ان سے نیازمندانہ طریقہ سے عرض کیا کہ میں اپنے کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ آپ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کو اس کام کے بارے میں کچھ عرض کرکے مطمئن کرسکوں، یہ کام دیکھنے سے اور عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ خود میں نے بھی اسے دیکھ کے اور عمل کرکے ہی کچھ سمجھا ہے۔ اس لئے آپ سے میری مخلصانہ گزارش ہے کہ آج ہم لوگوں کی یہاں سے روانگی ہے فلاں وقت فلاں ٹرین سے انشاء اللہ روانہ ہوں گے، آپ کے لئے ممکن ہو تو دوچار دن کے لئے ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں، وہ یہ سن کر خفا ہوگئے، بولے ’’وہ دنیا کا کون سا کام ہے جو بتانے، سمجھانے سے سمجھ میں نہیں آسکتا۔ میں نے سنا تھا کہ آپ لوگ ہر ایک سے یہی کہتے ہیں کہ ساتھ چلو دیکھو تو سمجھ میں آئے گا، آپ ساری دنیا کو بے وقوف اور بے عقل سمجھتے ہیں ہم مودودی صاحب کے پاس جاتے ہیں اور ان سے ان کی جماعت اور ان کے کام کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ فرماتے ہیں کہ پہلے میری الماری بھری کتابیں پڑھ لو اس کے بعد بات کرو۔ آپ لوگوں کے پاس آتے ہیں تو آپ کہتے ہیں پہلے چلّہ بھر کے لئے یا دس یا تین دن کے لئے ساتھ چلو‘‘ بہرحال وہ خفا ہوکر یہ فرماتے ہوئے واپس چلے گئے۔ میں نے ان کی خفگی زائل کرنے کے لئے کچھ عرض کیا لیکن بظاہر وہ خفا ہی رہے۔
ٹرین کے وقت پر جب ہماری جماعت اسٹیشن پہنچی تو دیکھا کہ وہی صاحب بیگ ہاتھ میں لئے تشریف لارہے ہیں مجھ سے ڈانٹ کر فرمایا لیجئے میں تین دن آپ کے ساتھ رہنے کے لئے آگیا ہوں۔ چنانچہ وہ تین دن ہمارے ساتھ رہے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا فضلفرمایا کہ ان تین ہی دنوں میں تبلیغی کام کے بارے میں ان کو پورا اطمینان اور شرحِ صدر ہوگیا۔ اور پھر تو پورے ’’تبلیغی‘‘ ہوگئے۔ (حالانکہ خود یہ عاجز کبھی پورا ’’تبلیغی‘‘ نہیں ہوسکا— یہ اللہ کی دین ہے۔ ذٰلکَ فضلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ)
یہ تھے ہمارے محترم دوست عبدالحمید صاحب (جو آخر میں پاکستان کے ٹیلیفون اور تار کے ڈائریکٹر جنرل ہوگئے تھے اور اسی عہدے سے غالباً ریٹائر ہوئے) تین دن پورے ہونے پر وہ روتے ہوئے ہم لوگوں سے رخصت ہوئے اور مجھ سے فرمایا کہ آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا کہ مجھ سے زبانی گفتگو کرنے سے انکار کردیا اگر آپ مجھے زبانی سمجھانے کی کوشش کرتے تو شاید میں نہ سمجھ سکتا اور اس طرح مطمئن نہ ہوتا۔
اسی سفر میں ایک دوسرا واقعہ راولپنڈی میں پیش آیا۔ مسجد میں ہمارا قیام تھا، میرا معمول تھا کہ فجر کی نماز کے بعد جماعت کے اپنے ساتھیوں کو اور مسجد کے نمازیوں میں سے جو لوگ ٹھہر جاتے ان کو بھی ساتھ بٹھاکر ’’ریاض الصالحین‘‘ سے حدیثیں پڑھ کر ان کا ترجمہ اور کچھ تشریح کیا کرتا تھا۔ اس درس کے ختم پر ایک صاحب نے جو بڑے متین اور سنجیدہ معلوم ہوتے تھے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے چند منٹ الگ کچھ بات کرنا چاہتا ہوں، میں ان کے ساتھ الگ بیٹھ گیا۔ انھوں نے فرمایا: کہ میں اس تبلیغی کام کو آپ سے سمجھنا چاہتا ہوں اور مجھے کچھ اشکالات ہیں، آپ اجازت دیں تو وہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنے معمول کے مطابق ان سے بھی نیازمندی سے عرض کیا کہ میں اپنے کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ میں آپ جیسے حضرات کے اشکالات رفع کرسکوں اور مطمئن کرسکوں۔ البتہ میری آپ سے مخلصانہ گزارش ہے کہ ہماری جماعت کل انشاء اللہ یہاں سے پشاور کے لئے روانہ ہوگی، آپ جماعت کے ساتھ تشریف لے چلیں جو کچھ ہوتا ہے سب آپ خود دیکھ لیں گے۔ اس کے بعد آپ کی جو رائے قائم ہوگی وہ زیادہ صحیح ہوگی۔ انھوں نے بتلایا کہ میں یہاں ایک اسکول سے متعلق ہوں اس لئے میرے لئے آپ کے ساتھ چلنے کا امکان نہیں ہے میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں عرض کرسکتا کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ آپ کو موقع دے آپ کسی جماعت کے ساتھ رہ کر خود دیکھیں۔ اس گفتگو کے بعد وہ صاحب تشریف لے گئے، میں یہی سمجھا کہ وہ اپنے گھر تشریف لے گئے۔
اگلے دن صبح کو میں نے ان کو فجر کی نماز میں بھی دیکھا اس کے بعد وہ ’’ریاض الصالحین‘‘ کے درس میں بھی شریک رہے۔ درس کے ختم پر آج پھر انھوں نے فرمایا: کہ میں چند منٹ علیحدہ بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں ان کے ساتھ الگ بیٹھ گیا۔ انھوں نے فرمایا کہ میں آپ کے ساتھ سفر تو نہیں کرسکتا لیکن کل صبح آپ سے گفتگو کرنے کے بعد میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ میں یہیں آج کا دن اور رات جماعت ہی کے ساتھ گذاروں گا۔ میں برابر جماعت ہی کے ساتھ رہا۔ اس وقت میں آپ سے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خدا کے فضل سے آپ کی جماعت کے ساتھ رہنے سے مجھے بہت دینی نفع ہوا اور مجھے ایمان میں تازگی محسوس ہوئی اور میرے بہت سے اشکالات کا جواب بھی مل گیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے رخصت ہوگئے۔ راولپنڈی سے ہماری جماعت پشاور چلی گئی، وہاں سے کوہاٹ وغیرہ بھی جانا ہوا۔ وہی ہمارے سفر کی آخری منزل تھی اس کے بعد واپس ہوگئی۔
اس واقعہ کے دو تین مہینے کے بعد مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں (جو اس وقت تک غالباً جماعت ِ اسلامی کا واحد ترجمان تھا) کسی صاحب کا ایک خط شائع ہوا جو انھوں نے امیر جماعت کے نام لکھا تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ:
’’میں تین سال سے جماعت ِ اسلامی کا رکن ہوں اور مجھے جماعت کے تعلق سے بہت کچھ علمی اور دینی نفع ہوا ہے۔ لیکن ابھی حال میں ایک دوسری دینی جماعت کے چند لوگوں کے ساتھ مجھے صرف چوبیس گھنٹے گزارنے کا موقع ملا۔ میں نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کا دین کا تصور تو مکمل نہیں ہے ناقص ہے، لیکن ان کے ساتھ رہ کر اور انھیں دیکھ کر دل کہتا تھا کہ یہ لوگ جنتی ہیں جو کیفیت مجھے ان لوگوں کے ساتھ رہ کر نصیب ہوئی وہ اس سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی اس لئے آپ سے میری گزارش ہے کہ جماعت کے ذمہ دار حضرات کو غور فرمانا چاہئے کہ ہم میں کیا کمی ہے اور اس کا کیا تدارک کرنا چاہئے؟‘‘
یاد آتا ہے کہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں خود مولانا مودودی یا جماعت اسلامی کے کسی دوسرے ذمہ دار کی طرف سے اس خط کا جواب بھی ساتھ ہی شائع ہوا تھا۔
یہ خط پڑھ کر مجھے خیال ہوا کہ غالباً یہ صاحب جنھوں نے مولانا مودودی صاحب کو یہ لکھا ہے ان کو کسی تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت گزارنے کا اتفاق ہوا ہوگا۔ اس وقت تک دفتر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں کام کرنے والے بعض حضرات سے میرا اچھا ربط وتعلق تھا۔ میں نے دریافت کرایا کہ یہ خط کن صاحب کا تھا؟ اور وہ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ تو معلوم ہوگیا کہ وہ صاحب راولپنڈی کے ہیں نام بھی لکھا تھا، جو اب مجھے یاد نہیں رہا، پھر میں نے راولپنڈی کے اپنے دوستوں سے اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ وہی صاحب تھے جو راولپنڈی میں مجھ سے ملے تھے اور جماعت کے ساتھ ایک دن رات دئیے تھے، اگر وہ دوچار دن بھی ساتھ رہے ہوتے تو امید تھی تصورِ دین کے ناقص یا کامل بلکہ غلط یا صحیح ہونے کے بارے میں ان کا ذہن صاف ہوجاتا۔
الغرض میرا سوفیصدی تجربہ ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ نے اس طریقے پر عمل کرنے کی توفیق دی اور اس کے ساتھ دعاء کے اہتمام کی بھی توفیق ملی تو نتیجہ ایسا ہی نکلا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ دراصل مولانا مودودی صاحب کی تحریروں نے ان بے چاروں کے دلوں میں یہ بٹھادیا ہے کہ ان کے علاوہ سب لوگوں کا تصورِ دین ناقص ہے۔ دین کو بس انھوں نے صحیح سمجھا ہے، اگلوں نے بھی صحیح نہیں سمجھا تھا۔ لاالٰہ الا اللہ کا مطلب تک صحیح نہیں سمجھا تھا۔
اس لئے آپ سے میری گزارش ہے کہ جب جماعت ِ اسلامی کے کوئی صاحب اس طرح کی بات کریں جو آپ نے خط میں لکھی ہے یا آپ کو خود ہی ان حضرات سے بات کرنے کا اتفاق ہو تو صرف اس کی کوشش کریں کہ وہ حضرات چند بار مرکز نظام الدین تشریف لے جائیں اور خاص کر صبح بعد نماز فجر کا بیان سنیں جو اکثر مولانا محمد عمر صاحب پالنپوری فرماتے ہیں۔ اور جماعت کی روانگی کے وقت جو ہدایات دی جاتی ہیں ان کو بھی غور وتوجہ سے سنیں۔ روانگی کی دعاء میں بھی شرکت کریں اگر دوچار دفعہ بھی انھوں نے ایسا کیا تو انشاء اللہ انھیں معلوم ہوجائے گا کہ اس تبلیغی کام میں اسلام کے کسی خاص جزو یا اجزاء کی دعوت دی جاتی ہے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تمام ہدایت وتعلیمات پر ظاہراً وباطناً عمل پیرا ہونے کی۔ اگر اللہ نے قلب ِ سلیم سے محروم نہیں فرمایا ہے تو انشاء اللہ ساری غلط فہمیاں دور ہوکر حقیقت سامنے آجائے گی۔ ہاں تقریر وبیان میں جدید فیشنی اصطلاحات میں اور لیڈرانہ ماڈرن تعبیرات نہیں ہوں گی، جو زیادہ تر صرف گذشتہ چالیس پچاس سال کے اندر گھڑی گئی بلکہ قرآن پاک اور ارشاداتِ نبوی ﷺ کی پرانی اصطلاحات اور تعبیرات میں دین کی دعوت اسی طرح انشاء اللہ سامنے آئے گی جس طرح اپنے اپنے زمانے میں حضرت حسن بصریؒ اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، امام غزالیؒ حضرت مجدد الف ثانیؒ جیسے اللہ کے مقبول بندے ہمیشہ دیتے رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی کے لٹریچر کے حساب سے ان سب کا تصورِ دین ناقص تھا اور یہ دین کے کسی کسی جزو ہی کی دعوت دیتے تھے، پورے دین کی دعوت لے کر بس ہمارے اس زمانے میں مولانا مودودی صاحب مرحوم ہی کھڑے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ ان بھائیوں کو عقل سلیم دے اور مولانا کی مغفرت فرمائے۔
بہرحال میرے نزدیک ان حضرات کی خدمت اور خیرخواہی کا طریقہ یہی ہے جو میں نے عرض کیا لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اس راستے سے بھی ہر ایک کو ہدایت مل ہی جائے، قرآن پاک جو کلامِ الٰہی اور سراپا ہدایت ہے اس کے بارے میں بھی فرمایا گیا ہے: {یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا} اب آپ کا کام صرف یہی ہے کہ اخلاص کے ساتھ اور صحیح طریقے پر اپنے ساتھ اپنے ان بھائیوں کی بھی اصلاح کی کوشش کریں۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعاء کا بھی اہتمام کریں۔ ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔
اگر آپ جواب اور صفائی کے پیچھے پڑیں گے تو کس کس چیز کا جواب اور کس کس الزام کی صفائی پیش کریں گے۔ یہ جو باتیں آپ نے اپنے خط میں نقل کی ہیں یہ تو اونچے معیار کے حضرات کی باتیں ہیں۔ ان لوگوں میں جو گھٹیا معیار اور پست ذہنیت کے لوگ ہیں وہ تو ایسی ایسی خرافات تبلیغ والوں کے بارے میں صرف کہتے ہی نہیں بلکہ لکھتے ہیں، میرا گمان ہے کہ اس سے جماعت ِ اسلامی کے شریف الطبع حضرات کو بھی شرم آتی ہوگی۔
قریباً ایک سال ہوا ہوگا، یا کچھ کم وبیش کسی صاحب نے رسالہ ’’تجلی‘‘ کا ایک پرچہ دکھایا، اس میں جماعت ِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے کسی صاحب نے لکھا تھا کہ ایمرجنسی کے زمانے میں جب جماعت ِاسلامی سے تعلق رکھنے والے جیلوں میں بند کردئیے گئے تھے تو تبلیغی جماعت کے لوگ ان سے کہتے تھے کہ آپ لوگ اگر ہماری جماعت میں داخل ہوجائیں تو چھوٹ جائیں گے۔
یہ کتنی ذلیل اور تکلیف دہ بات ہے اور ظاہر ہے کہ جس نے یہ گھڑی ہے وہ بیچارہ تبلیغی جماعت سے اتنا ناواقف ہے کہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ ’’جماعت ِاسلامی‘‘ یا ’’جمعیۃ العلمائ‘‘ جیسی منظم جماعتوں اور پارٹیوں کی طرح کی کوئی تنظیم نہیں ہے جس کے ارکان یا ممبران یا ہمدردان یا متفقین بنائے جاتے ہوں وہ تو صرف اپنی اور امت کی اصلاح کے لئے محنت اور قربانی کی دعوت ہے اور اس کا ایک طریقۂ کار ہے۔ اس کا نہ دفتر ہے، نہ رجسٹر ہے، نہ لٹریچر ہے، نہ کچھ ہے، حتی کی اس کا نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ بھی کبھی اس طرح نہیں رکھا گیا جس طرح جماعتوں اور تنظیموں کے مخصوص نام رکھے جاتے ہیں۔ حضرت مولانا الیاس صاحبؒ فرماتے تھے کہ یہ نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہم نے نہیں رکھا، ہم تو بس کام کرنا چاہتے تھے اس کا کوئی خاص نام رکھنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی تھی، لوگ کام کرنے والوں کو ’’تبلیغی جماعت‘‘ کہنے لگے۔ پھر یہ اتنا مشہور ہوا کہ خود ہم بھی کہنے لگے۔
تو آپ سے مجھے عرض کرنا ہے کہ جماعت ِاسلامی کے بعض لوگ تو تبلیغی جماعت کے بارے میں اس طرح کی ذلیل باتیں بھی کرتے ہیں۔ آپ کہاں تک اور کس کس بات کی صفائی دیں گے۔
نیز آپ کے خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ بریلوی حضرات سے آپ کا واسطہ نہیں پڑتا۔ میرا خیال ہے کہ آپ جس علاقے میں ہیں وہ علاقہ اس بلا سے محفوظ ہے۔ تبلیغی جماعت کے خلاف بریلویوں کی سرگرمیوں سے متعلق لوگ مختلف علاقوں سے مجھے خطوط لکھتے رہتے ہیں اور ان کے پمفلٹ اور اشتہارات بھی بھیجتے رہتے ہیں۔ اگر آپ ان کے وہ اشتہارات اور پمفلٹ دیکھیں تو جماعت اسلامی والوں کو بہت ہی غنیمت سمجھیں۔ ان بریلوی حضرات سے میرا ایک زمانے میں زیادہ واسطہ رہا ہے۔ اس لئے میں ان سے اور ان کی فطرت سے زیادہ واقف ہوں ان لوگوں کو یہ خیال ہوگیا ہے کہ تبلیغی جماعت کے کام کے نتیجہ میں زمین ہمارے پاؤں کے نیچے سے نکلتی جارہی ہے اور ہماری چراگاہیں ہمارے لئے بے آب وگیاہ بنجر ہوتی جارہی ہیں۔ اس لئے انھوں نے اپنی ساری طاقت اب تبلیغ والوں ہی کے خلاف پروپیگنڈہ پر لگادی ہے۔ ان کے پاس جماعت ِاسلامی والوں کی طرح اخبارات ورسائل تو ہیں نہیں وہ بس پمفلٹ اور اشتہارات کے ذریعہ گولہ باری کرتے ہیں اور ان کے پیشہ ور مقررین تقریروں میں زہر اُگلتے ہیں، لیکن ان کا یہ پروپیگنڈہ بہت ہی گھٹیا قسم کا ہوتا ہے۔ وہ صرف ان لوگوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے جن میں تعلیم کے علاوہ عقل وشعور کی بھی بہت کمی ہو۔ اور شاید وہ انھیں کو اپنی جائداد سمجھتے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ ’’تبلیغ‘‘ والوں کے اس رویے سے بہت پریشان ہیں کہ یہ کسی بات کا جواب ہی نہیں دیتے۔ چھوٹے سے چھوٹے اور گندے سے گندے بہتانوں کی بھی تردید نہیں کرتے جس کی وجہ سے اکھاڑے میں گرمی نہیں آتی اور جنگ آگے نہیں چلتی۔
واقعہ یہ ہے کہ میں خود ایک زمانے تک تبلیغی اکابر کے اس رویے سے متفق نہیں تھا میں چاہتا تھا کہ جو باتیں سراسر بہتان کے طور پر کہی جاتی ہیں ان کی تو ضرور تردید کی جائے اور پوری قوت کے ساتھ تردید کی جائے لیکن تجربہ نے مطمئن کردیا کہ اس تبلیغی کام اور اس کے ذمہ داروں کے لئے یہی رویہ صحیح ہے جو انھوں نے اپنا رکھا ہے، بس اپنا کام کرو، مخالفین کے معاملہ کو خدا کے سپرد کرو اور اس سے دعاء کرو۔ ہاں اپنا احتساب خود کرتے رہو۔
قریباً ۲۰-۲۵ /سال پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ حیات تھے۔ پاکستان میں تبلیغی اجتماع ہوا اس میں حضرت مولانا مرحوم تشریف لے گئے۔ اجتماع کے بعد جماعت ِ اسلامی پاکستان کے کسی اخبار یا رسالے میں حضرت مولانا مرحوم سے نسبت کرکے ایک ایسی بات شائع ہوئی جو میرے نزدیک بلاشبہ غلط تھی۔ میں نے اس کی تردید ضروری سمجھی اور مولانا مرحوم کی خدمت میں عریضہ لکھا۔ مولانا نے مجھے جواب میں لکھوایا کہ آپ اس کی تردید میں کچھ نہ لکھئے۔ اگر آپ تردید کریں گے تو وہ لوگ آپ کی تردید کی تردید کریں گے۔ اور دوبارہ وہی پھر لکھیں گے اور پہلے سے بھی زیادہ زور سے لکھیں گے، آپ پھر تردید کریں گے تو وہ تیسری بار لکھیں گے اور زیادہ زور کے ساتھ لکھیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جو غلط بات اب تک صرف ایک دفعہ چھپی ہے وہ دو دفعہ اور تین دفعہ اور زیادہ زور کے ساتھ چھپے گی۔
حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ اور ان کے بعد حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ شدت کے ساتھ اس پر قائم رہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اب بھی اسی شدت کے ساتھ اس پر عمل ہورہا ہے۔
ایک بات اور بھی آپ کے سوچنے کی ہے اگر جماعت ِ اسلامی کے حضرات کی ان باتوں کا جواب دینے کی کوشش کی جائے جو آپ نے خط میں لکھی ہیں تو اس کا ذریعہ کیا ہوگا؟ میری طرح آپ کو بھی اندازہ ہوگا کہ نشر واشاعت اور پروپیگنڈے کے وسائل اور ان کے استعمال کی مہارت کے لحاظ سے جماعت ِ اسلامی ہندوستان وپاکستان میں دوسری تمام منظم جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں سے بھی فائق ہے۔ اور تبلیغی جماعت کا حال آپ کو معلوم ہے کہ اخبار یا رسالہ نکالنے یا اشتہار وپمفلٹ کے ذریعہ اپنی بات پہنچانے کی وہ قائل ہی نہیں اور اس معاملے میں اس حد تک پہنچے ہوئے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ جماعت کے کام کی دوسرے اخبارات ورسائل میں اشاعت ہو۔
میرے ذاتی علم میں یہ واقعہ ہے کہ ایک جگہ تبلیغی اجتماع ہونے والا تھا۔ تبلیغ والوں کے علم میں آیا کہ بعض اخبارات نے اس کا خاص انتظام کیا ہے کہ وہ روزانہ پورے اہتمام سے اجتماع کی کارروائی شائع کریں گے۔ تو چند باوقار حضرات کی ایک جماعت نے اخبارات کے دفتروں کا گشت کیا اور لجاجت وخوشامد سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ آپ کا بڑا تعاون یہی ہے کہ آپ ہمارے کام کی اپنے اخبارات کے ذریعہ تشہیر نہ کریں۔ ان کو سمجھایا کہ ہمارا کام اگرچہ کوئی راز نہیں ہے لیکن اس کی مصلحت اسی میں ہے کہ اخبارات کے ذریعہ اس کی تشہیر نہ ہو۔ اس نظریہ سے کسی کو اتفاق ہو یا نہ ہو لیکن تبلیغی کام کرنے والوں نے اسی کو اپنا رکھا ہے۔ بعض حضرات تبلیغی جماعتوں میں ایسے لوگوں کو دیکھ کر جن کی شکل صورت دین داروں کی نہیں ہوتی مخلصانہ طور پر اعتراض کرتے ہیں ان کو بتلانا چاہئے کہ تبلیغ والے تو ایسوں کو بلکہ زانیوں، شرابیوں کو بھی خوشامد کرکے ساتھ لیتے ہیں۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ فرماتے تھے کہ میں نے تو دھوبی کی بھٹی لگائی ہے اس میں بھنگی کے گھر کا کپڑا بھی آئے گا اور گوہ میں سنا کپڑا بھی آئے گا، پھر اللہ جسے چاہے گا پاک فرمادے گا میں نے آپ کے خط کا جواب لکھوانا شروع کیا تھا کہ آپ کے خط سے کچھ بڑا ہوجائے گا، لیکن بات میں بات نکلتی چلی گئے اور بجائے خط کے یہ اچھا خاصہ مضمون ہوگیا، بلکہ اب سوچ رہا ہوں کہ ’’الفرقان‘‘ کا اکتوبر کا شمارہ جو اس وقت تیار ہورہا ہے، آپ کا خط اور اپنا جواب اس میں شائع کردوں۔ چونکہ آپ نے خط اشاعت کے لئے نہیں لکھا ہے اس لئے اس میں آپ کا نام نہیں دیا جائے گا۔
آخر میں ایک بات اور عرض کرتا ہوں۔ جماعت ِ اسلامی کے بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ جیسے حضرات کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور کسی طرح معاف نہیں کرتے۔ اور اس میں وہ بالکل مخلص ہوتے ہوں گے۔ ان سے پیچھا چھڑانے کی ایک آسان ترکیب میں آپ کو بتاتا ہوں اور ہوسکتا ہے کہ وہی ان کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔ ابھی حال میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے(افسوس ہے کہ اس کا نام میرے نزدیک انتہائی نامناسب بلکہ خود کتاب کے مقصد کے لئے بھی مضر ہے۔ اگر کتاب کی اشاعت سے پہلے مجھے معلوم ہوجاتا تو میں کتاب کے مصنف ومرتب صاحب کو اصرار سے مشورہ دیتا کہ وہ یہ نام ہرگز نہ رکھیں) اس کا نام ہے ’’آپ بیتی کی روشنی میں مودودیت بے نقاب‘‘۔ یہ دراصل چند ایسے حضرات کے مضامین اور ان کے مضامین کی تلخیص کا مجموعہ ہے جو جماعت ِ اسلامی کے صف ِ اوّل کے ارکان میں تھے۔ اور اس کے بڑے پرجوش وسرگرم داعی رہے تھے۔ جماعت ِ اسلامی کے بانی مرحوم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے خاص رفقاء میں تھے۔ پھر برسوں کے بعد انھوں نے یہ محسوس کرکے بلکہ گویا آنکھوں سے دیکھ کے کہ مودودی صاحب دین کی جو تشریح کررہے ہیں اور جس پر جماعت ِ اسلامی کی بنیاد ہے وہ حقیقت میں ایک طرح کی تحریف ہے۔ اور یہ راستہ زیغ وضلال کا ہے۔ مولانا مودودی کا ساتھ چھوڑا اور جماعت ِ اسلامی سے علیحدگی اختیار کی اور پھر انھوں نے اپنی یہ آپ بیتی پوری تفصیل کے ساتھ لکھی۔ یہ حضرات اس عاجز کے بھی جانے پہچانے ہیں۔ یہ سب جماعت کے عام رکن اور ورکر نہیں بلکہ اس کے رہنماؤں میں اور بعض بانیوں میں تھے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ ’’شہادتِ حق‘‘ ہے۔ اور جماعت ِ اسلامی کے لوگوں پر اللہ کی حجت ہے۔ میں نے ان مضامین کو پڑھا ہے اور میری رائے یہ ہے کہ جو بھی حق کا طالب اور مخلص ان مضامین کو پڑھے گا اگر اللہ نے اس کو قلب ِسلیم عطا فرمایا ہے تو وہ ان حضرات کے موقف کو برحق سمجھے گا اور ان سے اتفاق کرے گا اور اس کو معلوم ہوجائے گا کہ جماعت ِ اسلامی کے حضرات مودودی صاحب کے بارے میں اور دین کے بارے میں کیسی غلط فہمی میں ہیں۔ اس لئے میرا مشورہ ہے کہ آپ یہ کتاب منگوالیں۔ اور آپ کے جو دوست احباب آپ سے اس طرح کی باتیں کرتے ہوں جو آپ نے خط میں لکھی ہیں ان کو مطالعہ کے لئے بس یہ کتاب دے دیں۔ میرا خیال ہے کہ دین کے بارے میں مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کی سنگین وخطرناک غلطیوں سے عام مسلمانوں کو واقف کرانے کے لئے جو کتابیں اب تک لکھی گئی تھیں ان میں سے جو میری نظر سے گذری ہیں یہ کتاب ان میں سب سے زیادہ مفید ہے۔ فقط والسلام ۲۳/ذی قعدہ ۱۳۹۹؁ھ- ۱۶/اکتوبر ۱۹۷۹؁ء

(ماخوذاز: ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ اکتوبر ۱۹۷۹؁ء)
[/size]
جاری ہے​
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)

قسط:22
ایک اہم دینی تحریک:
(مرحوم مولانا مودودی صاحب نے یہ مضمون اب سے ٹھیک چالیس سال پہلے لکھا اور شعبان ۱۳۵۸؁ھ اکتوبر۱۹۳۹؁ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ’’ایک اہم دینی تحریک‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ جس کو ’’الفرقان‘‘ میں ’’احیاء دین کی جدوجہد کا صحیح طریقہ اور ایک ایک قابل تقلید نمونہ‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا)۔

گذشتہ ماہِ رجب کے اواخر میں مجھ کو دہلی سے متصل ایک علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا، جو میوات کے نام سے معروف ہے۔ ایک مدت سے سن رہا تھا کہ وہاں مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کی رہنمائی میں خاموشی کے ساتھ ایک تحریک چل رہی ہے، جس نے دس بارہ سال کے اندر اس علاقے کی کایا پلٹ دی ہے۔ آخر کار شوقِ طلب نے مجھے مجبور کردیا کہ خود جاکر حالات کی تحقیق کرو۔ اس سفر میں جو کچھ میں نے دیکھا اور جو نتائج میں نے اخذ کئے میں چاہتا ہوں کہ انھیں ناظرین ترجمان القرآن تک بھی پہنچا دوں، تاکہ اللہ کے جو بندے درحقیقت کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کو کام کرنے کے لئے ایک صحیح راہ مل سکے۔
میوا تی قوم دہلی کے آس پاس اَلور، بھرت پور، گڑگاؤں اور دوسرے متصل علاقوں میں آباد ہیں۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس کی مجموعی تعدد چھتیس لاکھ سے کم نہیں ہے۔ اب سے صدیوں پہلے غالباً حضرت نظام الدین محبوب الٰہیؒ اور ان کے خلفاء ومتبعین کی کوششوں سے اس قوم میں اسلام پہنچا تھا۔ مگر افسوس کہ بعد کے زمانوں میں مسلمان حکمرانوں اور جاگیرداروں کی غفلت سے وہاں اسلامی تعلیم اور اسلامی تربیت کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ حکومت کے مرکز سے اس قدر قریب آباد تھے ان میں قدیم جاہلیت کی تمام خصوصیات باقی رہیں اور رفتہ رفتہ وہ اسلام سے اس قدر بعید ہوتے چلے گئے کہ ان میں بجز اس خیال کے کہ ہم مسلمان ہیں اور کوئی چیز اسلام کی باقی نہ رہی۔ ان کے نام تک مسلمانوں سے نہ رہے تھے۔ ناہرسنگھ، بھوپ سنگھ، ٹوئرو اور اسی قسم کے ناموں سے وہ موسوم ہوتے تھے۔ ان کے سروں پر چوٹیاں تھیں ان کے یہاں مورتیاں پوجی جاتی تھیں۔ اپنی حاجات کے لئے وہ ان ہی دیویوں کی طرف رجوع کرتے تھے جن کی پوجا قدیم زمانوں میں ان کے اسلاف کیا کرتے تھے۔ اسلام سے وہ اس قدر ناواقف تھے کہ عام دیہاتی باشندوں کو کلمہ تک یاد نہ تھا حتی کہ نماز کی صورت تک سے وہ ناآشنا تھے۔ کبھی کوئی مسلمان اتفاق سے ان کے علاقے میں پہنچ گیا اور اس نے نماز پڑھی تو گاؤں کے عورت مرد بچے سب اس کے گرد یہ دیکھنے کے لئے جمع ہوجاتے کہ یہ شخص کیا حرکتیں کررہا ہے، اس کے پیٹ میں درد ہے یا اسے جنون ہوگیا ہے کہ بار بار اُٹھتا بیٹھتا اور جھکتا ہے اس کے ساتھ ہی ان کے اندر جاہلیت کی تمام وحشیانہ عادتیں پائی جاتی تھیں۔ گندی اور ناصاف زندگی طہارت کے ابتدائی اصولوں تک سے ناواقف، عورت اور مرد سب نیم برہنہ، شرم وحیا سے عاری، چوری رہزنی، ڈکیتی اور دوسرے مجرمانہ افعال کا ارتکاب عام طور پر پھیلا ہوا، کسی مسافر کا بخیریت ان کے علاقے سے گزر جانا مشکل۔ پھر ان کے قبائل اور بطون میں چھوٹی چھوٹی جاہلانہ باتوں پر اسی قسم کی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں، جیسی عرب جاہلیت کے حالات میں آپ پڑھتے ہیں۔ ان کی آبادی مختلف حلقوں میں بٹی ہوئی تھی اور بسا اوقات دو یا چند حلقوں میں کسی عورت یا کسی جانور یا کسی اور چیز پر ایسی عداوتیں برپا ہوجاتی تھیں جن کا سلسلہ مدتوں چلتا رہتا تھا۔ یوں اس جفاکش بہادر اور طاقتور قوم کی ساری پیدائشی قوتیں ضائع ہورہی تھیں اور وہ نہ صرف اپنے لئے ترقی وفلاح کا کوئی راستہ پاتی تھیں بلکہ اپنے ہمسایوں کے لئے بھی سبب اضطراب بنی ہوئی تھیں، چنانچہ جن لوگوں کو اس علاقے کے انتظام کا تجربہ ہے وہ اعتراف کرتے ہیں کہ انگریزی حکومت اور اَلور وبھرت پور کی ریاستیں وہاں امن قیام کرنے اور بہتر تمدنی حالات پیدا کرنے میں ناکام رہی تھیں۔
ان حالات میں جناب مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے وہاں کام شروع کیا اور دس بارہ سال کی مختصر مدت میں اس قوم کے بیشتر حصے کی کایا پلٹ دی۔ اب اس علاقے میں قریباً ڈھائی سو مدرسے قائم ہیں جہاں دیہات کے لڑکے آکر اپنے دین سے ابتدائی واقفیت حاصل کرتے ہیں، ان میں سے جو لوگ اعلیٰ درجہ کی دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے دہلی سے قریب انہی حضرت نظام الدین محبوب الٰہی کی بستی میں مدرسہ قائم ہے۔ جن کی بدولت ابتداء ً اس قوم کو اسلام کی نعمت میسر ہوئی تھی۔ اس مدرسہ میں نہ صرف علومِ دینیہ کی تکمیل کرائی جاتی ہے بلکہ طلباء کو خاص دینی تربیت بھی دی جاتی ہے اور تبلیغ واصلاحی کی عملی مشق کرانے کے لئے ان سے آس پاس کے دیہات میں عملی کام بھی لیا جاتا ہے۔ اس مدرسہ کی برکت سے خود میو قوم میں علماء اور مبلغین کی ایک معتد بہ جماعت پیدا ہوگئی ہے جو انشاء اللہ اس قوم کو دین کے راستے پر قائم رکھنے کی ضامن ہوگی۔ مولانائے محترم نے خود اس قوم کے مبلغوں سے اس کی اصلاح کا کام لیا اور ان کی پیہم کوششوں کا نتیجہ جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں یہ ہے کہ بعض علاقوں میں گاؤں کے گاؤں ایسے ہیں جہاں ایک بچہ بھی آپ کو بے نمازی نہ ملے گا۔ دیہات کی وہ مسجدیں جہاں یہ لوگ اپنے مویشی باندھتے تھے آج وہاں پانچوں وقت اذان وجماعت ہوتی ہے۔ آپ کسی راہ چلتے دیہاتی کو روک کر اس کا امتحان لیں وہ آپ کو صحیح تلفظ کے ساتھ کلمہ سنائے گا۔ اسلام کی تعلیم کا سیدھا سادا لب ولباب جو ایک بدوی کو معلوم ہونا چاہئے آپ کے سامنے بیان کرے گا اور آپ کو بتائے گا کہ اسلام کے ارکان کیا ہیں۔ اب آپ وہاں کسی مسلمان مرد وعورت یا بچے کو ہندوانہ لباس میں نہ پائیں گے نہ اس کے جسم کو بے ستر دیکھیں گے، نہ اس کے گھر کو نہ اس کے لباس کو نجاستوں میں آلودہ پائیں گے، ان کی عادات وخصائل وان کے اخلاق میں بھی اس مذہبی تعلیم وتبلیغ کی وجہ سے نمایاں فرق ہوگیا ہے۔ اب وہ متمدن اور مہذب طرزِ زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ جرائم میں حیرت انگیز کمی ہوگئی ہے۔ لڑائیاں فسادات ومقدمات بہت کم ہوگئے ہیں۔ ان کا علاقہ اب ایک پرامن علاقہ ہے جس کا اعتراف خود وہاں کے حکام کررہے ہیں، ان کی معاشرت، ان کے لین دین، ان کے برتاؤ غرض ہر چیز میں عظیم تغیر ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے گردوپیش کی آبادی پر ان کا نہایت اخلاقی اثر مرتب ہورہا ہے۔ اب وہ ذلت وبے اعتباری کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے بلکہ ان کی عزت قائم ہوتی جارہی ہے اور ان کے کیرکٹر پر اعتماد کیا جانے لگا ہے۔
جاری ہے
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
[size=xx-large]
از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:23

(گزشتہ سے پیوستہ)

اور وہیں ان کے آپس کے جھگڑے بھی چکائے جاتے ہیں۔ پھر دیہات سے جو تبلیغی جماعت نکلتی ہیں وہ نہ صرف دین کی تعلیمات پھیلاتی ہیں بلکہ ساتھ ہی خود بخود باہمی اخوت ومحبت کے تعلقات بھی قائم کرلیتی ہیں۔ اس طرح قبائلی تفرقے کی جگہ رفتہ رفتہ قومی وحدت پیدا ہورہی ہے۔ اور ایک ایسی تنظیمی ہیئت وجود میں آتی جارہی ہے جس سے آگے چل کر بہت سے کام لئے جاسکتے ہیں۔ تنظیم کا ماحصل اس کے سوا اور کیا ہے کہ کثیرالتعداد افراد ایک آواز پر مجتمع ہوں اور ایک آواز پر حرکت کرنے لگیں۔ یہی چیز وہاں پیدا ہورہی ہے اور بڑی حد تک پیدا ہوچکی ہے۔
یہ قابل قدر نتائج جو گنتی کے چند برسوں میں برآمد ہوئے ہیں محض ایک مخلص آدمی کی محنت وکاوش کا ثمرہ ہے۔ وہاں نہ کوئی کمیٹی ہے، نہ چندہ ہے، نہ اس تحریک کا کوئی جداگانہ نام ہے، نہ اس کے ممبر بھرتی کئے جاتے ہیں، نہ کوئی رئیس وامیر پشت پر ہے، نہ کوئی اخبار نکلتا ہے، نہ قواعد وپریڈ اور یونیفارم اور باجوں اور جھنڈوں کے نمائشی مظاہرے ہوتے ہیں، نہ اپنے کارناموں کا اشتہار دیا جاتا ہے، خاموشی کے ساتھ ایک سیدھا سا مولوی مسجد میں بیٹھا ہوا کام کررہا ہے۔ اس غریب کو نمائش اورپروپیگنڈے کے جدید مغربی طریقے بالکل نہیں آتے، نہ اس نے آج تک اس کی ضرورت ہی محسوس کی کہ اس کے کاموں کا ڈھول دنیا میں پیٹا جائے۔
ایک خالص دینی جذبہ ہے جو اس سے یہ کام لے رہا ہے۔ اور ایک دُھن ہے جس میں وہ رات دن لگا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اکیلے آدمی نے جو ٹھوس کام کیا ہے وہ ہماری ان بڑی بڑی انجمنوں اورا ن بلند بانگ تحریکوں سے آج تک بن نہ آیا، جن کے نام آپ رات دن اخباروں میں سنتے رہتے ہیں۔ حقیقتاً اس نوعیت کی تحریک ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں یا تو حضرت شیخ احمد مجدد سرہندیؒ نے اُٹھائی تھی یا حضرت سید احمد بریلویؒ نے اس کا احیاء کیا، یا اب مولانا الیاس صاحبؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس کو تازہ کرنے کی توفیق بخشی ہے۔
میرا مقصد اس تحریک کے حالات بیان کرنے سے یہ نہیں ہے کہ جو اشتہار اب تک نہ ہوا وہ اب ہوجائے بلکہ میں اس ذریعہ سے ان لوگوں کو جو نمائش کے طالب نہیں ہیں اور دین وملت کی کوئی حقیقی خدمت انجام دینے کے خواہش مند ہیں، چند اہم اُمور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں:
(۱) اس وقت ہندوستان کے مسلمان عام طور پر جس حالت میں مبتلا ہیں وہ اس کی متقاضی ہے کہ ان کو ازسر نو اسلام کی طرف دعوت دی جائے، پھر سے اس طرح مسلمان بنایا جائے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عرب کو بنایا تھا۔ ان کا اخلاقی تنزل، ان کی دینی سردمہری، ان کی احکامِ اسلام سے غفلت ان کی قوتوں کا انتشار ان کے خیالات کی پراگندگی، ان کا مختلف راستوں پر بھٹکنا اور رہبر ورہزن میں امتیاز کئے بغیر ہر پکارنے والے کی آواز پر دوڑ چلنا یہ سب نتائج ہیں اس ایک چیز کے کہ یہ ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کے مرکز سے ہٹ گئے ہیں۔ ہماری بنیادی غلطی جس کی وجہ سے ہماری تمام مفید تحریکیں ناکام ہورہی ہیں یہی ہے کہ لفظ ’’مسلمان‘‘ جو ان کے لئے بولا جاتا ہے جس سے ہم دھوکہ کھاتے ہیں اور ان کو واقعی وحقیقی مسلمان سمجھ کر ان سے توقع رکھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی طرح کام کریں گے، ہم ان کے سامنے خدا ورسول کے احکام بیان کرکے امید رکھتے ہیں کہ یہ اس طرح ان کے آگے سر جھکائیں گے جس طرح ایک مسلمان کو جھکانا چاہئے حالانکہ درحقیقت یہ احکام کے مخاطب نہیں ہیں؛ بلکہ کلمۂ طیبہ کے مخاطب ہیں؛ بلکہ ان کے دلوں میں کلمہ لاالٰہ الا اللہ ہی نہیں اُترا ہے پھر ان سے احکام کی وہ اطاعت اور وہ مسلمانہ روش کیوں کر ظاہر ہوسکتی ہے جو محض اس کلمہ پر ایمان لانے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مولانا محمد الیاس صاحب کی کامیابی کا اوّلین سبب یہی ہے کہ انھوں نے کلمۂ طیبہ کی تبلیغ سے کام کی ابتداء کی، پھر جو لوگ اس پر ایمان لائے وہ ہر اس حکم کی تعمیل کرتے چلے گئے جو ان کو خدا اور رسول کی طرف سے سنایا گیا۔ اور وہ لوگ حقیقت میں نو مسلم ہیں اور یہ نو مسلم کی ہی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ جان بوجھ کر بالارادہ جس چیز پر ایمان لاتا ہے اس کے مقتضیات کو بطوع ورغبت پورا کرتا ہے۔ اب جو لوگ دین کا احیاء چاہتے ہیں ان کے لئے اس کے سوا کوئی راہِ عمل نہیں ہے کہ مسلمانوں کو مسلمان فرض کرکے آگے کی منزلوں پر پیش قدمی کرنے کا طریقہ چھوڑ دیں اور ان میں از سر نو پہلے قدم سے دین کی تبلیغ شروع کریں۔
(۲) موجود ہ حالات اس کے لئے سازگار نہیں ہیں کہ کوئی آل انڈیا نظام بنا کر کام کیا جائے۔ سر دست یہی مناسب ہے کہ جو جہاں بیٹھا ہے وہیں اپنے اطراف ونواح یا اپنے قبیلہ کے لوگوں کو مسلمان بنانے کا کام شروع کرے اور اپنے اندر جتنی قوت واستعداد پاتا ہو اسی کے لحاظ سے اپنے کام کا ایک دائرہ معین کرے۔ اپنی استطاعت سے زیادہ پھیل کر کام کرنے کی کوشش کرنا آدمی کی قوتوں کو منتشر کردیتا ہے اور پورے فکر میں ادھورا بھی نہیں ہوتا لہٰذا مخلص کارکنوں کی جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے حلقے بناکر عام کرنا چاہئے۔ اگر حقیقت میں خلوص کار فرما ہوگا اور ذاتی خواہشات کا غلبہ نہ ہوگا تو بعد کو یہ مختلف حلقے بڑی آسانی کے ساتھ ایک نظام میں منسلک ہوسکیں گے۔ اپنی انفرادیت برقرار رکھنے پر اصرار وہیں ہوتا ہے جہاں نفسانیت کی کھوٹ موجود ہوتی ہے۔
(۳) انجمن بازی کی ضرورت نہیں ہے، کوئی علیحدہ نام رکھ کر کام کرنا بجائے مفید ہونے کے مضر ہوتا ہے، کیونکہ اس سے غیر شعوری طور پر لوگوں میں یہ ذہنیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اسلام میں نہیں بلکہ فلاں نام کی جماعت میں داخل ہورہے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ سیدھے سادے طور پر اسلام —اسی پرانی اور اصلی جماعت — ہی کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے اور جب وہ اس میں داخل ہوں تو انھیں بتادیا جائے کہ تم میں اور عام مسلمانوں میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں کہ تم شعوری مسلمان ہو اور وہ ابھی تک بے شعور مسلمان ہیں۔ تمہارا فرض یہ ہے کہ ان کو بھی شعوری اسلام کی نعمت میں شریک کرو، تاکہ تماری جماعت وسیع ہو۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ اس طرح سے ایک جماعت میں شریک ہوتے جائیں گے ان کے اندر آپ سے آپ ایک نظمی ہیئت پیدا ہوتی چلی جائے اور قدرتی طور پر ان کا دعی ٔ اوّل ہی ان کا لیڈر ہوگا۔ اور وہاں ایک باضابطہ کمیٹی سے زیادہ اچھی عملی تنظیم پائی جائے گی بشرطیکہ لیڈر خود اپنی امارت قائم کرنے کا خوہشمند نہ ہو؛ بلکہ امارت کا نشو ونما اس طور پر ہو جیسے بیج سے درخت پیدا ہوتا ہے۔
(۴) علیٰ ہذا یہ مناسب نہیں کہ نمائشی کام کے ان طریقوں کی پیروی کی جائے جو آج کل کثرت سے رائج ہورہے ہیں اور جنھوں نے عموماً دماغوں کو مسحور کررکھا ہے۔ لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جھنڈے، نعرے، وردیاں، پریڈ، سڑکوں پر مارچ کرنا اور مصنوعی جنگیں کرنا جن کا مجموعی نام عسکری تنظیم رکھا گیا ہے کامیابی کے لئے ضروری ہیں کیونکہ یہی چیزیں عوام کو کھینچتی ہیں اور انھیں کی لاگ سے ہزاروں لاکھوں آدمی جمع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح
(جاری ہے)​
[/size]
 
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:24

(گزشتہ سے پیوستہ)

لوگوں میں یہ خیال بھی پیدا ہوگیا ہے کہ جو شخص کسی تحریک کو چلائے اس کے لئے ایک اخبار بھی ضروری ہے، جس کے ذریعہ سے وہ باہر کی دنیا کو ہمیشہ اپنے کارناموں کی رپورٹیں پہنچاتا رہے، کیونکہ اگر دنیا کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ آپ نے اپنے اتنے پمفلٹ اتنی زبانوں میں شائع کئے ہیں یا یہ کہ فلاں جگہ کسی بڑھیا کا گھر جل رہا تھا اور آپ کے خادمانِ خلق نے وہاں پہنچ کر اس پر اتنی بالٹیاں پانی کی ڈالیں، یا یہ کہ آپ کے متبعین کی تعداد کس رفتار سے بڑھ رہی ہے اور کہاں کہاں آپ کے کارکن کیا کیا خدمات انجام دے رہے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ کی ساری محنتیں رائیگاں ہی گئیں۔ آج کل بعض تحریکوں نے کچھ ایسا جادو لوگوں کے دماغوں پر کردیا ہے کہ بعض مخلص آدمی بھی جب کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو ان کا ذہن خواہ مخواہ اس طرز کی کاروائی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے لیکن میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ اہل اخلاص کا یہ طریق کار کبھی نہیں رہا اور نہ اس طرز پر کوئی ٹھوس کام دنیا میں ہوسکتا ہے۔ ایک لمبی نوک دار ٹوپی پہن کر بازار میں کھڑے ہوجائیے اور گھنٹی بجائیے، آن کی آن میں بہت سے آدمی آپ کے گرد جمع ہوجائیں گے مگر کیا اس طریقے سے جمع ہونے والی بھیڑ سے آپ اس کے سوا اور کوئی کام بھی لے سکتے ہیں کہ بس اپنی چند دوائیں بیچ لیں۔ اس مثال سے سمجھ لیجئے کہ ظاہر فریب، تدبیروں سے تماشہ پسند لوگوں کا جو ہلڑ برپا ہوتا ہے وہ کوئی جہاں کشا طاقت نہیں رکھتا، اس کے لئے تو صحیح طریقہ وہی ہے جو انبیاء علیہم السلام اختیار کرتے تھے، یعنی یہ کہ ایک شخص خالص خدا کی خوشنودی کے لئے پِتہ مار کر ایک جگہ بیٹھے، خاموشی کے ساتھ دعوت واصلاح کا کام کرے، رفتہ رفتہ لوگوں کے دل اور ان کی زندگیاں بدلے اور برسوں کی لگاتار محنت سے مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کرے جو تعداد کے اعتبار سے چاہے مٹھی بھر ہی ہو مگر ایمان اور عمل صالح کی دولت سے بہرہ ور ہو، ایسے آدمیوں میں عقیدے کی جو حرارت اور کیرکٹر کی جو صلاحیت ہوگی اور احکامِ شرعیہ کی پابندی سے ان میں منظم اور منضبط طریقے سے کام کرنے کی جو مستقل عادات پیدا ہوں گی وہی درحقیقت عسکریت کی اصلی روح ہیں اور یہی عسکریت ہم کو مطلوب ہیں۔
(۵) جہاں تک عوام میں کام کرنے کا تعلق ہے میرے نزدیک اس کے لئے وہ طریقۂ عمل سب سے بہتر ہے اور انبیاء کے طریقۂ عمل سے اشبہ ہے جس سے مولانا محمد الیاس صاحب نے کام لیا ہے جو لوگ اس طریقے پر کام کرنا چاہتے ہوں ان کو میں مشورہ دوں گا کہ مولانا کے پاس جاکر ان کے کام کا ڈھنگ دیکھیں اور ان کے مبلغوں کے ساتھ تعاون کرکے عملی سبق حاصل کریں اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں اسی طرز پر دعوت واصلاح شروع کردے۔ اس طرزِ عمل کے متعلق جو بات اچھی طرح ذہن نشیں کرلینی چاہئے وہ یہ ہے کہ اس میں ابتداء ً بڑے صبر کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتے بسا اوقات کام کے آدمی پیدا کرنے میں برسوں بیت جاتے ہیں اور بارہا یہ خیال کرکے آدمی کا دل ٹوٹنے لگتا ہے کہ اس کا مشن ناکام رہا۔ ان سختیوں سے گزرنے کے بعد انھیں کامیابیوں کا ظہور ہوتا ہے۔
(۶) جو لوگ عوام میں کام کرنا چاہیں ان کے لئے دیہی علاقے بہ نسبت شہروں کے زیادہ بہتر ہیں۔ ہماری شہری آبادیوں کا مزاج ان ہنگامی تحریکوں نے بہت بگاڑ دیا ہے جو آج کل وباؤں کی طرح پھیل رہی ہیں۔ ان تحریکوں کی وجہ سے لوگ نمائش، ریا اور ہنگامہ کے خوگر ہوگئے ہیں اور کسی ایسی تحریک کی طرف بہ مشکل راغب ہوتے ہیں جو ان کے ظاہر کی بہ نسبت ان کے باطن کی طرف زیادہ توجہ کرنے والی ہو۔ اور جو انھیں اندر سے بدل کر ایک مضبوط سیرت کی تخلیق کرنا چاہتی ہو لہٰذا انسب یہ ہے کہ شہروں کو سردست ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور دیہات کی آبادیوں کو درست کیا جائے جہاں ابھی تک سادہ فطرت رکھنے والے اثر پذیر لوگ پائے جاتے ہیں۔ تاہم جن لوگوں کو اپنے لئے شہروں میں کامیابی کا موقع نظر آتا ہو وہ اس سے فائدہ اُٹھانے میں تامل بھی نہ کریں۔
(۷) عوام میں کام کرنے والوں کو یہ امر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اسلام کا پیغام ان لوگوں تک محدود نہیں ہے جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں بلکہ سارے انسانوں کے لئے عام ہے لہٰذا نھیں مسلم اور غیرمسلم سب کے پاس اس پیغام کو لے کر پہنچنا چاہئے لیکن غیرمسلموں کو دائرۂ اسلام میں لانے کے لئے اتنی باتیں ضروری ہیں۔
اولاً ہمیں ان موانع کو دور کرنا چاہئے جن کی وجہ سے غیرمسلموں میں اسلام کے خلاف شدید تعصبات پیدا ہوگئے ہیں۔ انگریزی حکومت کے اثرات سے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی رقابتیں پیدا ہوگئی ہیں ان کا اثر دیہات کی زندگی تک گہرا اثر کر گیا ہے اور آئے دن کے فسادات اور کش مکشوں نے ایسی منافرت دونوں گروہوں کے درمیان پیدا کردی ہے کہ یہ دو مقابل کیمپ بن گئے ہیں ۔ ان حالات میں غیرمسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانا مشکل ہے، کیونکہ اس کے دل کے دروازے اس پیغام کے لئے مقفل ہوچکے ہیں۔ اب جو لوگ تبلیغ حق کا فرض انجام دینا چاہتے ہوں ان کو سب سے پہلے اس قفل کی کنجی ڈھونڈنی چاہئے اور وہ کنجی یہی ہے کہ ان رقابتوں، عداوتوں، کشیدگیوں کو کم کیا جائے جو مسلمان اور غیرمسلموں میں پیدا ہوگئی ہیں۔ مسلمانوں میں عام طور پر یہ ذہنیت پیدا کرنی چاہئے کہ ان کی تنظیم واصلاح کا مقصد غیرمسلم ہمسایوں کے مقابلے میں قومی مسابقت کے لئے تیاری کرنا نہیں ہے؛ بلکہ خود مسلمان بننا اور دوسروں تک اسلام کی نعمت کو پہنچانا ہے، ہر مسلمان میں انصاف پسندی، فیاضی، ہمدردی، ملاطفت کے جذبات پیدا ہونے چاہئیں، اور ایسے غیرمسلموں کو اس نظر سے دیکھنا چاہئے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں جو روحانی اور اخلاقی بیماری میں مبتلا ہیں اور ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ انھیں بیمار رہنے دیں اور ان سے پرہیز کریں بلکہ یہ ہے کہ انہیں بیماری سے بچا کر تندرستوں میں شامل کریں۔
ثانیاً: عام مسلمانوں کو اپنے معاملا ت اور اپنے طرزِ زندگی کے اعتبار سے اتنا بلند ہونا چاہئے کہ محض ان کو دیکھ کر ہی ہر وہ شخص ان سے متأثر ہوجائے جس کی فطرت میں نیکی، سچائی، راست بازی، انصاف، حسن اخلاق، صفائی، ستھرائی اور پاکیزہ طرزِ زندگی کی قدر پہچاننے کی کچھ بھی استعداد موجود ہو۔ اگر عامۂ مسلمین میں یہ اوصاف پیدا ہوجائیں اور غیرمسلم باشندے اپنے گرد وپیش کی مسلمان آبادی کو اخلاقی حیثیت سے اپنے مقابلے میں برتر پانے لگیں تو یقین جانئے کہ کسی کو ان سے یہ کہنے کی بھی ضرورت پیش نہ آئے کہ تم مسلمان ہوجاؤ، ان میں جتنے راستی پسند لوگ موجود ہیں (اور کون سی قوم ایسی ہے جس میں ایسے لوگ نہیں ہوتے) وہ خودبخود اس جماعت میں شامل ہونے کی خواہش کریں گے جس کے اصولِ زندگی انسان کو اتنا بلند وبرتر بنادیتے ہوں لہٰذا عام مسلمانوں میں یہ ذہنیت پیدا کرنی چاہئے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ سمجھیں اور زندگی کے ہر معاملے میں یہ سمجھتے ہوئے کام کرے کہ ان کی حرکت سے اسلام کے برحق ہونے یا نہ ہونے کے متعلق رائیں قائم کی جاتی ہیں۔
ثالثا: عام مسلمانوں میں ہندوانہ اثرات کے تحت اونچ نیچ اور چھوت چھات کے جو خیالات پیدا ہوگئے ہیں ان کی بیخ کنی کرنی چاہئے۔ اور انھیں اس بات پر آمادہ کرنا چاہئے کہ ہر غیرمسلم کو خواہ وہ کسی طبقے کا ہو بالکل مساویانہ حیثیت سے اپنے نظامِ معاشرت میں لے لیں اور کسی حیثیت سے اس کے ساتھ امتیاز نہ برتیں حتی کہ اس سے شادی بیاہ کے تعلقات قائم کرنے میں بھی تامل نہ کریں۔
(۸) یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ بس مذہبی اور اخلاقی حالت کی اصلاح اور اسلامی نظام جماعت کا قیام ہی وہ آخری منزل ہے جس پر پہنچ کر ہمارا کام ختم ہوجاتا ہے؛ بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ پہلی منزل ہے جسے طے کرنے کے بعد آگے بڑھنے کے لئے راستہ کھلتا ہے۔ کلمۂ طیبہ پر ایمان اور اس مرکز پر منتشر قوموں کو مجتمع ہونا اور احکامِ شریعت کی پابندی سے لوگوں کے اندر انضباط اور منظم عادات وخصائل کا پیدا ہوجانا تو دراصل وہ چیز ہے جس سے زمین ہموار ہوتی ہے تاکہ اس پرعمارت تیار کی جاسکے جہاں یہ زمین ہموار ہوجائے جیسے میوات کے علاقے میں اس وقت ہوچکی ہے وہاں ان لوگوں کے لئے کام کا موقع ہے جنھوں نے تنظیم شئون انسانی کے جدید طریقوں کی تعلیم حاصل کی ہے انھیں چاہئے کہ وہاں جاکر مذہبی مصلحین کے ساتھ تعاون کریں، اس علاقے میں علم کی روشنی پھیلائیں، وہاں کے عوام میں سیاسی بیداری اور شعور پیدا کریں۔ ان کی معاشی حالت درست کرنے کی کوشش کریں اور اسلامی اصول پر مالیات کا ایک نیا نظام تعمیر کریں۔ غرض مختلف پہلوؤں سے اس علاقے کے لوگوں کو ترقی کے راستے پر لگائیں اور ان کو ایک ایسی مضبوط اور منظم حالت تک پہنچا کر دم لیں جن کا طبعی نتیجہ یہ ہو کہ خدا اپنی خلافت سے ان کو سرفراز فرمادے اور وہ زمین کے صالح وارث (نہ کہ غاصب اور متملک) بن جائیں۔
(بشکریہ: الفرقان اکتوبر/۱۹۷۹؁ء)
(جاری ہے)​
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
[align=left]پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
[/align]
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
[size=x-large]قسط:25



جمعیۃ علماء ِ ہند وغیرہ​
میں عرض کر چکا ہوں کہ مجھے جماعت سازی یا جماعت بازی سے کبھی دلچسپی نہیں رہی اور نہ ہے۔ ہاں! تبلیغی کام جس کو اب تبلیغی جماعت کہا جانے لگا ہے سے وابستگی رہی اور ہے۔ یہ جماعت نہیں، جماعت تو اس وقت بنتی ہے جب اس کو گشت یا چلّے میں بھیجا جاتا ہے۔ جو پڑھا لکھا تجربہ کار اور کام کرنے والا آدمی ہو اس کو اسی وقت موجود آدمیوں کے مشورے سے امیر بنالیا جاتا ہے۔ بہرحال تبلیغی جماعت کے حالات سے میں واقف ہوں اور دیگر جماعتوں کے حالات سے تقریباً نہیں۔ اس وقت میرے پاس دو حضرات کی تحریریں ہیں یعنی مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ اور مولانا سید محمد میاں صاحبؒ، مؤخر الذکر بہت طویل نگار ہیں۔ ہر بات بحر طویل میں کہنے کے عادی تھے جس سے اصل مضمون بھی خبط ہوجاتا ہے۔ حضرت مولانا سیدحسین احمد صاحب مدنیؒ نے اپنی کتاب ’’نقش ِحیات‘‘ میں جمعیۃ علماء ِ ہند کے قیام کے بارے میں لکھا ہے:
’’چونکہ اس سے پہلے امرتسر (۱)میں جمعیۃ علماء کا انعقاد مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلّیؒ کی مساعی ٔ جمیلہ اور مولانا کفایت اللہ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب اور دیگر حضرات کی جدوجہد سے ہوچکا تھا‘‘۔ (ص:۲۵۸، ج:۲)
جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا اجلاس ۲۹/اکتوبر ۱۹۲۰ء کو ہوا۔ اسکے صدر حضرت شیخ الہندؒ تھے۔ اور ان کا خطبۂ صدارت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی نے پڑھا تھا۔ جب کہ کانگریس کی بنیاد ۱۸۸۵؁ء میں پڑی تھی۔ گویا تقریباً ۳۵/سال بعد جمعیۃ علماء ہند وجود میں آئی، کیونکہ مولانا محمد میاں صاحب کی تحریر کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد ۱۹۲۹ء ہے۔ (علماء ِ حق ۱/۲۰۷/)
جمعیۃ علماء ہند کیا ہے؟ اس کو بحر طویل میں مولانا سید محمد میاں صاحب نے اپنی تالیف میں لکھا ہے۔ میں تو اپنے بچپن کی بات کہتا ہوں کہ عوام الناس گلی کوچوں میں یہ گاتے پھرا کرتے تھے:
بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دیدو(۱)
جمعیۃ علماء ہند کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ اس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور یہ زمانہ حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ کی صدارت اور مجاہد ِ ملت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہارویؒ کی نظامت کا ہے۔ فسادات میں مسلمانوں کے قدم جمائے رکھنا، دلی اور دیگر شہروں کو اُجڑنے سے بچانا، مسلمانوں کی حقوق کے لئے مسلسل جدوجہد کرنا۔ یہ اسی مجاہد جلیل کا کارنامہ ہے۔ اس کے بعد مولانا فخرالدین صاحبؒ کی صدارت اور مولانا سید اسعد مدنی کی نظامت کا زمانہ جو اختلاف اور تفریق کا زمانہ ہے، جب کہ صدر اور ورکنگ صدر بھی دو ہوگئے اور اس کے بعد دو جمعیۃ علماء ہند بنی، جس میں دوسری کا نام مرکزی جمعیۃ علماء ہند ہے، جس کے ناظم مولانا فضیل احمد صاحب ہیں۔ اور پرانی جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا اسعد مدنی اور ناظم ان کے نوعمر بیٹے سید محمود مدنی ہیں۔
’’ایں خانہ تمام آفتاب است‘‘
ان کے علاوہ اور دوسرے بھی ناظم ہوئے؛ بلکہ ان کو لایا گیا لیکن انجام ان کا یہ ہوا ؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
میرے نزدیک یہ حضرات اچھے کردار کے مالک تھے۔ ان لوگوں کی زندگیاں کوئی جمعیۃ علماء ہند کے سہارے نہیں گزرتی تھیں۔ ان حضرات نے آئندہ ملک میں کام کیا اور اپنا مقام بنایا اور کامیاب باعزت رہے۔
میرے علم میں میرٹھ میں جمعیۃ علماء ہند کے دو اجلاس ہیں: ایک /۷/۸/۹جون ۱۹۶۳؁ء میں ہوا تھا، یہ اجلاس انتخابِ صدرات کے لئے تھا۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس کو ’’بالک ہٹ‘‘ کا اجلاس قرار دیا ہے اس اجلاس میں دو گروپ آمنے سامنے تھے، دیوبندی گروپ جس کی قیادت مولانا اسعد مدنی اور مولانا سید فخرالدین صاحبؒ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کررہے تھے۔ اور دھلی والے گروپ کی قیادت مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی اور مولانا اخلاق حسین صاحب قاسمی اور مفتی ضیاء الحق صاحب دہلوی کررہے تھے۔
دونوں گروپ نے ممبرسازی اور اپنے اپنے منصوبوں کی تکمیل میں بہت زور لگایا تھا، سارا زور مولانا اسعد مدنی کے ناظم عمومی بننے پر تھا۔ پورے دن بہت جھگڑا ہوا اور بات اس جگہ ختم ہوئی کہ مولانا سید فخرالدین صاحب صدر اور مفتی عتیق الرحمن صاحب ورکنگ صدر قرار پائے دستور کے مطابق صدر نے ناظم عمومی مولانا اسعد مدنی کو منتخب کیا اور یہی مقصد تھا۔
یہ ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا وحید الدین صاحب مرحوم نے اسعد میاں کی موافقت میں بہت زور لگایا تھا اور انھیں کی کاوشوں اور تدبیروں سے اجلاس ختم ہوتے ہی راتوں رات جمعیۃ علماء ہند کے دفتر پر دیوبندی گروپ نے قبضہ کرلیا تھا۔ اس زمانے میں عام چرچا تھا کہ تاؤلی اور دیگر مدارس کے طلبہ کو میرٹھ میں بھی جمع کیا گیا تھا اور انھیں کے ذریعہ دفتر پر قبضہ بھی لیا تھا۔ میرے علم میں یہ پہلا موقع تھا کہ تخریبات میں طلباء کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہی حربہ دارالعلوم پر قبضہ لینے پر بھی استعمال کیاگیا تھا۔ اس اجلاس میں جو تجاویز منظور ہوئیں یہ ہیں:
(۱) صدر حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب ہوں۔
(۲) ورکنگ صدر حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب ہوں گے۔
(۳) ناظم اعلیٰ کا انتخاب حسب دستور حضرت صدر جمعیۃ علماء کریں گے۔
(۴) مجلس عاملہ کو حضرت صدر بمشورہ ورکنگ صدر نامزد فرمائیں گے۔
(۵) دو نظماء میں سے ایک کا انتخاب صدر اور ایک کا انتخاب ورکنگ صدر
آزادانہ طور پر کریں گے۔ (مدینہ: ۱۳/جون ۱۹۶۳؁ء)
اس اجلاس کے رپورٹر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ مخالف گروپ نے ارکانِ مرکز کے یہ کارڈ اور بلّے جعلی بنا کر جاری کررکھے تھے۔ میرے سامنے چند لوگوں کو پکڑا گیا میں نے خود اصلی اور جعلی کارڈوں کا موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ مہر اور دستخط تک جعلی تھے۔ یہ اس خیال سے کیا گیا تھا کہ اگر رائےشماری ہونے لگے تو مخالف گروپ کی تعداد زیادہ ہوجائے‘‘۔ (مدینہ:۱۷/جون ۱۹۶۳؁ء)
اجلاس کے بعد ورکنگ صدر نے مرکزی جمعیۃ علماء انحراف کرکے دوسری جمعیۃ علماء بنالی۔ (مدینہ:۱۷/جون ۱۹۶۳؁ء)
’’اس غیرآئینی اور غیرجمہوری کاروائی کے بعد اسی گروہ میں سے ایک بڑی تعداد فوراً دہلی پہنچ گئی اور مرکزی دفتر اور ریکارڈ اور اس کے متعلقات کے اردگرد اس طرح چھاگئی جس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ زبردستی تمام چیزوں پر قبضہ کی کوشش کا پروگرام پیش نظر ہے‘‘۔ (مدینہ:۲۵/جون ۱۹۶۳؁ء)
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اسی سال ۲۵/اپریل ۱۹۶۳؁ء کو بجنور کی ایک خبر کے تحت میں نے مولانا سید اسعد مدنی کو فدائے ملت کا خطاب دیا تھا جو مشہور ہوگیا۔ اور اتفاق سے ’’گیا‘‘ سے فدائے ملت نمبر کے نام ایک نمبر بھی شائع ہوگیا۔ (مدینہ:۲۵/اپریل ۱۹۶۳؁ء)
۱۹۴۷؁ء کے بعد ملک میں غیر منتہی طویل فرقہ وارانہ فسادت کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ سب انگریز کی جادوگری وکرشمہ سازی تھی۔ ملک میں طویل علاقہ اُڑیسہ اور راوڑ کیلا میں فسادات شروع ہوئے۔ اس کے بعد مسلم دانشوروں نے مل بیٹھ کر لکھنؤ میں مسلم مجلس مشاورت قائم کی۔ شروع میںجمعیۃ علماء بھی شریک رہی لیکن ۲۸/اکتوبر ۱۹۶۵؁ء کو ’’مدینہ‘‘ میں ایک طویل استعفیٰ شائع کرادیا۔
اسی زمانے میں دیوبند آمد ورفت کے موقع پر میں نے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا فخرالدین صاحب سے دریافت کرلیا کہ حضرت کیا آپ نے جماعت ِ اسلامی کی (یا کسی خاص آدمی کا نام لیا) قیادت قبول کرلی؟ فرمایا: ہاں۔ صرف فسادات کے بارے میں۔ میں نے عرض کیا: حضرت! اس وقت فسادات ہی ایک اہم مسئلہ ہے، یہ سادہ لوح انسان سیاسی داؤ پیچ سے کیا واقف؟ ان کو تو صدر بنادیا گیا یہی بہت کافی ہے۔ اسی زمانے میں میری ملاقات اتفاق سے مولانا منظور نعمانی سے ہوگئی۔ میں نے ان سے مولانا اسعد میاں کے استعفیٰ کا ذکر کردیا فرمایا:
’’مفتی صاحب! اپنی جماعت میں مولانا اسعد میاں نوجوان اور فعال آدمی ہیں۔ ہم آئندہ انھیں کو مشاورت سپرد کرنے والے تھے، مگر عجیب غیرمستقل مزاج پایا ہے۔ پہلے شریک ہوئے اور پھر استعفیٰ دے دیا (او کما قال) اسی قسم کا مفہوم یاد رہ گیا ہے‘‘۔ واللہ اعلم
اسی سال ہندوستان اور پاکستان کی جنگ ہوگئی تھی، اس نازک زمانے میں مولانا اسعد میاں صاحب نے جماعت ِ اسلامی پر فرقہ پرستی کا لیبل چسپاں کردیا تھا لہٰذا بہار اور مشرقی یوپی میں بہت مسلمان گرفتار کرلئے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کیا حقیقت ہے۔
میرٹھ کے اجلاس میں آپسی اختلافات کی داغ بیل پڑگئی تھی جو ہمیشہ رہی، جس سے دیوبندی حلقہ ایسے دو دھڑوں میں بٹ گیا جس میں آگے چل کر مزید دھڑے بن گئے۔
یہ قوم کی بدنصیبی رہی کہ جب حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ حیات تھے ان کو لیگی کہا جاتا تھا، لہٰذا دیوبند کے دو مکتب فکر ہوگئے: ایک تھانوی، اور ایک مدنی، یا جمعیۃ علمائ۔ میرٹھ سے اس کی بھی تقسیم ہوگئی اور دارالعلوم دیوبند کی اسٹرائک قبضہ سے اس کے بھی دو جزو ہوگئے: طیبی اور مدنی۔ پھر اس کی بھی مزید تقسیم ہوئی، دہلوی اور غیردہلوی۔ اب دو جمعیۃ علماء ہیں: مرکزی جمعیۃ علماء ہند اور جمعیۃ علماء ہند۔ اس کی بعد ؎
’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘۔
۱۹۶۵؁ء میں جب جمعیۃ علماء میں اختلاف شباب پر تھا، مدینہ کے ایڈیٹر کے پاس کسی نے یہ مکتوب بھیج دیا، جس کو ایڈیٹر نے شائع کردیا، مکتوب یہ ہے:
’’میرے سامنے کئی ہفتوں سے مشورے ہورہے ہیں کہ اب دارالعلوم دیوبند کو لینا چاہئے اور ایسا وار کرنا چاہئے کہ حکومت اس پر عقاب کی مانند حملہ کردے، پھر ہم اسکے نجات دہندہ بن کر پہنچیں اور تمام کلیدی جگہوں پر قبضہ کرلیں، اس پروگرام کے تحت مسلسل حکومت ِ ہند تک یہ خبریں پہنچائی جارہی ہیں کہ دارالعلوم دیوبند میں فلاں فلاں اصحاب پاکستانی ہیں، پھر اس امر کی بھی تیاری مکمل ہوچکی ہے کہ دہلی کے ایک دریدہ ذہن اخبار کا سہارا لے کر دارالعلوم کے پاکستانی کردار کا بھانڈا سربازار پھوڑا جائے۔ (مدینہ:۵/نومبر ۱۹۶۵؁ء)
(جاری ہے)

[/size]
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری
از د یرو حرم​
[size=xx-large]
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:26
جماعت ِ اسلامی سے اختلاف​
شیخ محمد عبداللہ کی رہائی نمازِ عیدالفطر سے چند منٹ قبل ہوئی۔ جس پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے مدینہ اخبار نے اپنی ایک مبارک باد پیش کی۔ اور ۹/جنوری ۱۹۶۸؁ء کے شمارے میں شیخ عبداللہ کی اسیری کا ایک نقشہ شائع کیا جس میں لکھا ہے کہ شیخ صاحب ۱۵/سال ۷/ماہ، ۵/دن اسیر رہے۔ ان کی زندگی کا ہر چوتھا دن جیل میں رہا‘‘۔ (مدینہ: ۹/جون ۱۹۶۸؁ء)
مدینہ اخبار کی طرح اور دوسرے اخبارات نے بھی اداریہ لکھا۔ شیخ صاحب علی گڑھ بھی گئے اور وہاں بھی خطاب کیا۔ ایسے مواقع سے حضرت مولانا سیداسعد مدنی خوب فائدہ اُٹھانا جانتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے بھی میرٹھ میں شیخ عبداللہ کو بلایا اور فیض عام انٹر کالج میں جلسہ کا انتظام کیا۔ میں بھی اپنے چند دوستوں کے ساتھ جلسہ دیکھنے اور سننے چلا گیا۔
میرٹھ کے فرقہ پرست لوگوں نے اس کو ناپسند کیا اور گڑبڑ پھیلادی وہ جلسہ گاہ پہنچنا چاہتے تھے پولیس نے ان کو روکا، لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے، بہرحال جلسہ ہوا، شہر میں کرفیو نافذ کردیا، بہت لوگوں نے کالج میں پناہ لی، ہم لوگوں کو مسجد میں پناہ ملی، جاڑے کا موسم بارش خوب ہورہی تھی، کپڑا پاس نہ تھا، ٹھٹھرگئے، جلسہ کا مزہ تو نہ دیکھا، سردی کا مزہ خوب چکھ لیا، صبح ہوتے ہی ایک ٹرک کے ذریعہ ہم لوگوں کو گڑھ کے بس اڈے پر چھوڑ دیا ؎
جان بچی اور لاکھوں پائے خیر سے بدھو گھر کو آئے
اس ہنگامے میں میرٹھ میں نو آدمی مارے گئے۔ ان میں ہمارے ضلع کا ایک طالب علم وارث علی تھا، شہید ہوگیا۔ بہت آدمی زخمی ہوئے۔
اس سے قبل ملک کے مسلم دانشوروں اور دردمندوں نے لکھنؤ میں تعلیمی کونسل کے نام سے ایک کونسل تشکیل کی، جس کے اغراض ومقاصد کا خلاصہ یہ ہے:
’’۱۹۴۷؁ء کے بعد سے جب کہ ملک آزاد ہوچکا ہے ہندوستانی مسلمانو نے دینی اعتبار سے ذہن وفکر کی ایک شدید کشمکش میں مبتلا ہیں۔ آزادی کے بعد ان کو ملک میں ایسی صورتِ حال سے سابقہ پڑا ہے جس کی توقع نہ تھی اور جو ان کی ایک ملت کی حیثیت ہے موت اور زندگی کا مسئلہ بن گیا ہے اور صاف نظر آنے لگا ہے اگر یہ صورتِ حال باقی رہی تو زیادہ مدت نہیں گزرے گی کہ ان کی نسلیں اسلام سے بے گانہ اور ارکان سے محروم ہوجائیں گی، اور ان کے دلوں سے خدانخواستہ وہ بنیادی عقائد نکل جائیں گے جن پر اُمت مسلمہ کی حیثیت ان کی زندگی کا انحصار ہے۔ الیٰ قولہ
(۱) مسلمانوں کی نوخیز نسلیں ذہنی ارتداد میں مبتلا ہوتی جارہی ہیں۔
(۲) وطن پرستی کے نام قدیم تہذیب اور تمدن اور ہندؤں کی مذہبی روایات کے احیاء
کی منظم کوشش ہے۔
(۳) افتتاحات کالجوں اور اسکولوں میں اشلوک پڑھے جاتے ہیں، ہون اور پوجا
ہوتی ہے اور پنڈتوں کا خاص آشیرواد لیا جاتا ہے۔
(۴) اسکولی کتابوں میں دیوی دیوتاؤں کے قصے آرہے ہیں وغیرہ ذالک۔
(ملخصاً: مدینہ یکم فروری ۱۹۶۷؁ء)
یہ بگاڑ کیوں پیدا ہوا؟ اس کو تو ہم کہیں آگے چل کر بیان کریں گے۔ یہاں دینی تعلیم بورڈ کے بارے میں لکھنا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کا موجودہ ڈھانچہ خود اس قابل نہیں ہے کہ تعلیمی میدان میں ملت کی بقاء کے لئے کچھ کرے۔ البتہ نقل ضرور اُتار دیتا ہے اور دس غلطیاں ہونا ضروری ہیں۔
چل پھر کر دینی تعلیمی کونسل کے جواب میں دینی تعلیمی بورڈ قائم کیا گیا۔ بجنور میں مجھے اس عنوان سے گھیر لیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی مدد سے ایک مہینہ یا دو مہینے میں میں نے پورے ضلع کا سروے کیا، کسی بھی گاؤں یا قصبہ میں جو دینی مدرسہ تھا اس کا نام وپتہ اور ذمہ داروں کے نام، بچوں کی تعداد وغیرہ کے لئے ایک اچھا خاصہ ریکارڈ تیار کرلیا۔ اس پر میرا کچھ خرچ ہی ہوا ہوگا مگر ’’یارانِ طریقت‘‘ جمعیۃ علماء ہند کے حقہ بردار کب چین سے بیٹھتے مجھ سے وہ کام لے لیا یا تنگ آکر میں نے ان کو دے دیا۔ میں مریدوں کے لشکر سے کب تک لڑتا۔
مرکز میں پہلے مولانا وحید الدین صاحب قاسمی دینی تعلیم بورڈ کے ناظم تھے، پھر مولانا قاضی سجاد حسین صاحب دہلوی ناظم ہوئے۔ اور پھر معلوم نہیں کیا کیا ہوا اب تو اس کا نام بھی کسی کو یاد ہو یا نہ ہو۔
۱۸/۱۹/جون ۱۹۶۷؁ء کو جمعیۃ علماء صوبہ یوپی کی کانفرنس ہوئی۔ اس کے مختصر حالات میں نے اپنی رپورٹ میں تحریر کئے ہیں جو ۲۵/جون ۱۹۶۷؁ء کے ’’مدینہ‘‘ میں شائع ہوئے۔ اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں پورے ضلع کے مسلمانوں نے حصہ لیا۔ پہلے دن قاضی سید حسن صاحب نہٹوری کا خطبہ استقبالیہ اور قاضی سجاد حسین دہلوی کا خطبۂ صدارت اور جناب قاضی زین العابدین صاحب اور قاضی عزیز الرحمن صاحب نگینوی کی تقریر ہوئی۔ ان حضرات کی وجہ سے اس زمانے میں اس کو ’’قاضی کانفرنس‘‘ کہا جاتا تھا۔ دوسرے دن جناب مولانا اسعد صاحب مدنی اور جناب یونس سلیم صاحب کی تقریریں ہوئیں۔ مدینہ اخبار نے اپنے ادارئیے میں اس پر تبصرہ کیا ہے:
’’۱۸/۱۹/جون کو بجنور میں جمعیۃ علماء کا اجلاس منعقد ہوا۔ قارئین کرام جانتے ہیں کہ جمعیۃ سے مدینہ کا قریبی اور خصوصی تعلق رہا ہے اس لئے فطری طور پر ہماری یہ آرزو تھی ہمیں اس اجلاس کی ایک شاندادر کامیابی کی خبر آپ تک پہنچانے کی مسرت نصیب ہو۔ لیکن آرزوئیں ہمیشہ پوری نہیں ہوتیں اور رات کو دن قرار دینا ہم دیانت داری کے منافی تصور کرتے ہیں۔ اس اجلاس کی پوری کاروائی پر آغاز سے اختتام تک اگر ہم اپنے تاثرات کا ہلکے ہلکے الفاظ میں اظہار کرنا چاہیں تو محض مایوس کن کہہ سکتے ہیں۔ کالے بادلوں میں اگر کوئی منور لکیر نظر آتی ہے تو صرف یہ کہ اس پسماندہ ضلع کے مفلوک الحال مسلمانوں نے دس ہزار کی قابل لحاظ رقم پریس فنڈ کے لئے فراہم کی۔
تنظیمی خامیوں اور کوتاہیوں سے قطع نظر پریس فنڈ کی مذکورہ رقم ناظم عمومی حضرت مولانا اسعد مدنی کی خدمت میں پیش کرنے کے علاوہ ہم اجلاس کے انعقاد کا اور کوئی مقصد دو روزہ کاروائی کے دوران اخذ کرنے سے قاصر رہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اس مقام پر جو جمعیۃ کا روایتی گڑھ ہے عوامی سطح پر کوئی ہلچل، کوئی جوش وخروش اور کوئی ہما ہمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ چند سو کے مجمع نے چہروں پر بے تعلقی اور عدم دلچسپی کے چھاپ کے ساتھ جلسوں کی کاروائی میں شرکت کی۔
۱۹/جون کو فرقہ وارانہ فسادات سے متعلق یونس سلیم صاحب وزیر قانون کی تقریر نہ صرف بے محل تھی بلکہ زخم ومرہم کا ایسا امتزاج جس نے دل گرفتہ سامعین کو مجموعی طور پر کبیدہ خاطر اور مایوس چھوڑا۔
جمعیۃ کا دعویٰ ہے کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، اس کے پلیٹ فارم سے خالص ’’سیاسی تقریر‘‘ اور وہ بھی ایک خاص پارٹی کے حق میں بالکل بے جوڑ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں آج بھی ہماری مخلصانہ رائے یہی ہے کہ ’’چلمن سے لگے بیٹھے رہنے‘‘ کی پالیسی خود جمعیۃ کیلئے ضرر رساں ہے۔ (مدینہ:۲۵/جون ۱۹۶۸؁ء)
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
بات دراصل یہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے سابقہ لیڈران اپنی علمی صلاحیتوں اور ملکی وملی قربانیوں سے بڑے بنے تھے۔ اہل وطن ان کا لحاظ کرتے تھے۔ موجودہ قیادت میں یہ صلاحیتیں نہ تھیں۔ بنا بریں ان کو اراکین حکومت سے مدد لینی پڑتی اور ان کو مدعو کرنا پڑتا تھا۔ اس کو ان کی سیکولر ذہنیت قرار دیا جائے یا پسماندگی اور احساسِ کمتری، یہ حال انھیں لوگوں کا ہوتا ہے جو بڑوں کو مار کر بڑا بننا چاہتے ہیں اور بڑا بننے کے لئے وقت کا انتظار نہیں کرتے۔
کچھ دارالعلوم کے بارے میں:
(جاری ہے)[/size]
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم​
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
قسط:27

کچھ دارالعلوم دیوبند کے بارے میں​
جولائی یا اگست ۱۹۶۹؁ء دارالعلوم دیوبند میں طلبائے دارالعلوم نے اسٹرائک کردی۔ یہ اسٹرائک نہیں بلکہ طلباء نے دارالعلوم کو بند کردیا اور اندرونِ احاطہ گویا فوجی حکومت کرلی۔ کوئی شرط نہیں اور کوئی مطالبہ نہیں تھا۔ مہتمم اور مجلس شوریٰ سے غرض کسی سے کوئی بات چیت کے لئے تیار نہیں ہوتے سب جھک مار کر بیٹھ گئے تھے۔ مہتمم دارالعلوم دیوبند مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ فرماتے ہیں:
’’اس اسٹرائک کا سب سے زیادہ الم ناک پہلو یہ ہے کہ طلباء نے ابتداء ہی سے افہام وتفہیم کا دروازہ بند کیا تھا اور کوئی صورت نہ تھی کہ طلباء سے اسٹرائک اور اس ہنگامہ آرائی کی کوئی وجہ دریافت کرکے کوئی مناسب راہِ عمل اختیار کی جاسکے۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ وہی جانتے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ مرورِ زمانہ سے یہ راز بھی آشکارا ہوجائے۔ لیکن انھوں نے اپنے اس کھلے اقدام کی وجوہ اہتمام کے سامنے لانے سے گریز کیا‘‘۔ (مدینہ: ۱۷/اگست ۱۹۶۹؁ء)
اس قبضہ کے دوران طلباء اگر باہر جانا چاہتے تو اس کے لئے پرمٹ سسٹم تھا۔ اگر کوئی دیر میں آتا تو اس کو دھمکاتے اور کچھ وقت کے لئے کمرے میں بند کردیتے۔ اور جو اساتذہ اندرونِ احاطہ تھے ان پر پہرہ، بات چیت کرنے سے گریز، مسجد میں نماز ہوتی لیکن طلباء کے پہرے میں، غرض کہ مکمل فوجی حکومت تھی۔ اخبارِ مدینہ لکھتا ہے:
(۱) طلباء کا تمام طرزِ عمل بے بنیاد اور شرارت آمیز تھا۔
(۲) حضرت مہتمم صاحب اور اساتذہ اور مجلس شوریٰ کا عمل مثالی رہا۔ (مدینہ:۶۹ء)
اپنی تحریر میں مدیر مدینہ نے ایک اشارہ دے دیا۔
(۳) ہم لوگوں نے جب تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ طلباء پر جو نظم ونسق ہے وہ پدرانہ نہیں ہے۔
(۴) ہنگامہ کے سلسلے میں بعض حلقوں نے ایک شخصیت کو اپنی دلی بغض اور حسد کا نشانہ بنایا ہے، جو گذشتہ کئی ماہ (۵/ماہ سے) ہندوستان سے باہر تھے۔ (مدینہ)
میں عرض کرتا ہوں ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا​
ہار تھک کر مجلس شوریٰ کو حکومت سے مدد لینا پڑی۔ اور پولیس نے اندر داخل ہوکر دارالعلوم کو طلباء سے خالی کرالیا، پھر کافی عرصہ تک طلباء کا کیمپ قائم رہا، ان کے لئے چندہ ہوئے اور کیا کچھ ہوا۔ اس وقت مولانا اسعد میاں ایم۔ پی تھے ، معلوم نہیں کیا کرشمہ سازی ہوئی کہ راتوں رات دارالعلوم پر طلباء اور مولانا اسعد میاں کا قبضہ ہوگیااور اس مکتوب کی پیشین گوئی حرفاً حرفاً صادق آگئی۔ جو مدینہ اخبار سے لے کر اوپر نقل کیا گیا ہے۔ ہم ان حقائق کو آشکارا کرنا اچھا نہیں جانتے لہٰذا نفسِ واقعہ پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔ بہرحال آج دارالعلوم پر حضرت مولانا اسعد مدنی اور ان کے خاندان کا قبضہ ہے اور حضرت مولانا قاری طیب صاحبؒ کے صاحبزادوں نے دوسرا دارالعلوم وقف قائم کرلیا ہے خلش دونوں طرف ہے ؎
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
مظاہر علوم سہارنپور:
دارالعلوم دیوبند کے بعد دوسری بڑی درسگاہ مظاہر علوم سہارنپور ہے۔ اس کے مفصل حالات ہم نے اپنی کتاب ’’تذکرۂ مشائخ دیوبند‘‘ میں لکھے ہیں۔ اس کے ایک ناظم اعلیٰ مولانا حافظ عبداللطیف صاحبؒ تھے۔ ان کے بعد مولانا اسعد اللہ خاں صاحبؒ ناظم ہوئے۔ بڑے نیک لوگ تھے۔ ان کے بعد مولانا مفتی مظفرحسین صاحبؒ ناظم ہوئے۔ آپ مولانا اسعد اللہ خاں صاحب کے تربیت یافتہ اور خلیفہ ہیں۔ بہت ہی کم گو اور شریف النفس آدمی تھے۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحبؒ نے تاحیات مظاہر علوم میں حدیث شریف کا فی سبیل اللہ درس دیا۔ ان سے پہلے ان کے والد حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحبؒ نے بھی فی سبیل اللہ درس دیا، لیکن کچھ باتیں ایسی ہوجاتی ہیں کہ بڑوں کی بعد وہ برائی کا راستہ کھول دیتی ہیں۔ سہارنپور میں کاندھلوی خاندان کو یہ خلش رہی کہ مظاہر علوم سہارنپور کیوں دوسرے کے قبضہ میں ہے۔ مظاہر علوم کسی ایک عمارت میں نہیں چار جگہ ہے اور چاروں کے نام جدا جدا ہیں: (۱)دارالطلبہ جدید یعنی موجود مظاہرعلوم رجسٹرڈ۔ (۲)دارالطلبہ قدیم، یعنی مظاہر علوم وقف کے طلباء کی قیام گاہ اور درسگاہیں اور مظاہر علوم قدیم کی عمارت یہیں پورا مدرسہ تھا اور مظاہر علوم شاخ۔
خاندانِ کاندھلوی نے پولیس کی امداد سے دارِجدید پر قبضہ کرلیا اور مظاہر علوم رجسٹرڈ نام رکھ لیا۔ اتفاق سے جدید مظاہر علوم کو جناب مولانا طلحہ صاحب فرزند شیخ الحدیث صاحبؒ اور مولانا اسعد میاں صاحب مدنی کا پورا پورا تعاون حاصل رہا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا کہ نا حق خون پروانے کا ہوگا​
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک​
ہم نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں دیکھا ہے، عیدین آئی، کوئی اختلاف نہیں، بزرگوں نے شادیاں کردیں، پھر زوجین کا رشتہ زوجیت موت نے ہی منقطع کیا، لیکن اب موجودہ زمانے میں طلاقوں کی بھرمار ہے، عورتیں معلق پڑی ہیں، میاں کہیں ہے بیویاں کہیں ہیں۔ عدالتوں میں فسخ نکاح اور نان ونفقہ کے مقدمات چلتے ہیں۔ حضرت مدنیؒ نے ’’نقشِ حیات دوم‘‘ میں انگریز کا شکوہ کیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو بداخلاق بنادیا۔
بہرحال ان ضروریات کو حلقۂ لکھنؤ نے محسوس کیا تو فوراً ہی مولانا اسعد میاں صاحب نے پیش قدمی کردی تب لکھنؤ والوں نے اپنے کو پیچھے ہٹالیا۔ قصہ مختصر کہ مولانا اسعد میاں صاحب نے ایک اجتماع مرادآباد میں بلالیا۔ اور مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی اور پھر مولانا اسعد میاں صاحب امیرالہند منتخب ہوئے۔ یہی ہونا بھی تھا۔
متحدہ قومیت نہ اسلامی مسئلہ ہے اور نہ ہندوستانی بلکہ مغرب کا پیدا کردہ مسئلہ ہے ، جس کا موجد وبانی ایک یہودی انگریز ہے۔ ہندوستان میں پہلے سرسید نے اس کو ہوا دی اور پھر اس کے مبلغ خاص حضرت مدنیؒ ہوگئے۔ بعد میں یہ بات خبر وانشاء کی بحث میں تبدیل ہوگئی۔ مکتوباتِ شیخ الاسلام میں طالوت اور علامہ اقبال کی مراسلت پر مشتمل ایک بیان شائع ہوا ہے، جس میں حضرت مدنیؒ نے اپنی بات سے رجوع کرلیا تھا۔ اقتباس یہ ہے:
’’میں یہ عرض کررہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں، یہ اس زمانے کی جاری ہونے والی نظریت اور ذہنیت کی ’’خبر‘‘ ، یہاں یہ نہیں کہا جاتا کہ ہم کو ایسا کرنا چاہئے، یہ خبر ہے انشاء نہیں ہے‘‘۔
اس کے بعد علامہ اقبالؒ کے بیان کا ایک ٹکڑا اس طرح پر ہے:
’’خط کے مندرجہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا نے اس بات سے صاف انکار کیاہے کہ انھوں نے مسلمانانِ ہند کو جدید نظریہ قومیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ لہٰذا میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق اس پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا الخ۔
(مکتوباتِ شیخ الاسلام، ج:۳/ص:۱۴۰)
ہم نے حضرت مولانا محمد میاں صاحب اور حلقۂ جمعیۃ علماء کے بیانات اور تحریرات اور اس باب کے مباحث کو پڑھا ہے۔ ان کو پڑھنے کے بعد ہمارا مختصر سا معروضہ یہ ہے کہ کسی بھی خبر کی تشہیر اور ڈھنڈھورا اتنا پیٹنا اور مباحث کا اتنا طویل دروازہ کھول دینا جو ایک نقطۂ نظر بن جائے اس سے وہ خبر، خبر نہیں رہتی؛ بلکہ خبر مستفیض بن جاتی ہے۔ اور خبر مستفیض پھر حکم اور انشاء میں تبدیل ہوجاتی ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر یہ بات کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے غرض نہیں تری رہبری کا سوال ہے
تقریباً پون صدی کے بعد ہندوستان کے وزیر خارجہ کا بیان راشٹریہ سہارا ۱۶/دسمبر ۱۹۹۹؁ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’ہم مذہب کی بنیاد پر قومیت کی تشریح قبول نہیں کرتے، انھوں نے کہا کہ صرف اس لئے کہ کشمیر میں رہنے والی اکثریت کا مذہب اسلام ہے ہم وطنیت کی تشریح کو قبول نہیں کرسکتے ہم قوم پرستی پر مذہب کی بالادستی کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کرتے‘‘۔
(راشٹریہ سہارا، ۱۶/دسمبر ۱۹۹۹؁ء بروز جمعرات)
ع: کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟

جب مسیحا دشمن جاں ہو تو کب ہے زندگی
کون رہبر بن سکے جب خضر بہکانے لگے​

مولانا مودودی اور جماعت اسلامی:
(جاری ہے)
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:28

مولانا مودودی اور جماعت اسلامی:

’’جماعت ِ اسلامی‘‘ کا لفظ شروع میں مولانا مودودی صاحب نے اپنی تحریروں میں (مدینہ منورہ کی چھوٹی سی جماعت ِ اسلامی) سے شروع کیا تھا۔ تحریرات سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کوئی جماعت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ بہرحال وہ اندازہ محض اندازہ نہ رہا؛بلکہ وجود اور حقیقت بن گیا اور جماعت ِ اسلامی کے نام سے ایک جماعت بن گئی۔
ہندوستان میں یہ صرف رامپور کی حد تک تھی، یا پھر ہم خیال لوگ ہوں؟ باہر کوئی تشکیل نہ تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے حلقۂ دیوبند میں اس کا چرچا مظاہر علوم سہارنپور کی درسگاہ سے ہوا۔ وہاں مفتی محمد سعید صاحب مرحوم والد مفتی مظفر حسین صاحبؒ اور مولانا زکریا قدوسی میں نوک جھونک رہتی تھی۔ اس زمانے میں مظاہر علوم کے سرپرستوں میں دو حضرات یعنی مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ اور مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوریؒ تھے۔ یا دونوں میں سے کوئی ایک۔
سہارنپور سے بات دیوبند آگئی، دیوبند حضرت مدنیؒ کے اردگرد رہنے والے دو تین صاحب تھے، حضرت کو اتنی فرصت کہاں تھی کہ وہ اُردو کتابوں کا مطالعہ کریں، پیری مریدی، جلسہ اور اسباقِ بخاری وترمذی پھر انھیں سے متعلق مطالعہ۔ ان ردے بازوں نے جن اقتباسات پر نشان لگا دیا وہ پڑھ لیا یہ اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ ان حضرات کی تحریرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ اقتباسات سے آگے نہیں بڑھا۔ حلقۂ رامپور کے ترجمان مولانا ابواللیث صاحب مرحوم اور رامپور سے نکلنے والا رسالہ ’’زندگی‘‘ تھا۔ حلقۂ دیوبند کے پاس یا تو الجمعیۃ اخبار یا رسالہ دارالعلوم تھا، اور بس بات بڑھتی رہی۔
جماعت ِ اسلامی کے لوگوں کا یہ طریقۂ کار رہا ہے کہ وہ معتمد خاص ہی لوگوں کو رکن بناتے ہیں باقی دیگر حضرات دلچسپی رکھنے والے یا ہم خیال لوگوں کو نہیں۔ دوسرا یہ کہ ان کا ہر ایک ہم خیال خود بھی کتابیں خریدتا اور خرید کر دوسروں کو پڑھواتا اس لئے بات پڑھے لکھے حلقے، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور کچہریوں اور دفاتر مسلمانوں میں چلتی رہی۔ اس کی تردید میں حضرت مدنیؒ پیش پیش تھے۔ کوئی جلسہ اور تقریر مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کی تردید سے خالی نہ ہوتی تھی۔ گویا میدانِ جنگ کہیں اور دفاع کہیں۔ اس لئے اس حلقہ پر کوئی اثر نہ ہوا، جہاں یہ خیال پرورش پارہا تھا قلمی میدان میں وہ ملکوں میں پھیل گئے اور یہ ایک ہی حلقے میں رہے۔
بہرحال بات پھیلی اور بعد میں اختلاف اور افتراق کی شکل اختیار کرگئی تو حلقۂ رامپور (مولانا ابواللیث اصلاحی) نے حضرت مدنیؒ سے مراسلت شروع کی، یہ مراسلت میں نے ۵۵-۵۶ء میں پڑھی ہے۔ اس میں انھوں نے حضرت مدنیؒ سے ملاقات کا وقت مانگا کہ افہام وتفہیم کے لئے مراسلت ناکافی ہے تو حضرت مدنیؒ نے لکھ دیا: ’’لکُمْ دینُکُمْ وَ لِی دِین‘‘۔ بس یہ جملہ یاد رہ گیا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ شروع میں چند اہل علم لوگ مولانا مودودی صاحب کی تحریرات سے متأثر ہوئے۔ مثلاً: مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا منظور نعمانی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، ان حضرات کی تلو ّن مزاجی سے مجھے ان کے اہل علم ہونے میں تامل ہے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کوئی عربیت کے ماہر نہیں تھے۔ بس اتنا ہے کہ عربی زبان کی کتابوں کا مطالعہ کسی حد تک کرلیتے تھے۔ یہ بات ان کی تحریرات سے ثابت ہے۔
وہ مدینہ اخبار میں بھی رہے اور الجمعیۃ میں بھی۔ اس سے پہلے وہ حیدرآباد میں مولانا عبداللہ عمادی (۱)
((۱) مولانا مودودی صاحب مولانا عبداللہ عمادی کے لائبریرین تھے۔ کتابوں وغیرہ سے تلاش وجستجو کے بعد ان کو کچھ مضامین دیا کرتے تھے۔ انھیں کی صحبت میں رہ کرکے کچھ عربی زبان سے مناسبت ہوگئی تھی۔ )
کے ساتھ بھی جو علم میں بڑی حد تک ان کے مربی رہے۔ مولانا مودودی صاحب نے ’’الہلال‘‘ اور سرسید کی تحریروں کا خوب مطالعہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی تحریرات میں ان کے الفاظ نہیں بلکہ جملے اور سطریں خوب بولتے ہیں۔ اقتباس کے طور پر نہیں اپنائیت کے طور پر۔ تفہیم القرآن کو پڑھنے والوں نے اگر غور کیا تو اس کی تصدیق ہوجائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ ان کا مطالعہ اور معلومات بہت ہی زیادہ وسیع ہیں۔ ان تمام چیزوں کو ہم نے اپنی کتاب ’’تقصیراتِ تفہیم القرآن‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے اور اس کا جائزہ بھی لیا ہے۔
بات آگے نکل گئی۔ اس اختلاف کو افتراق ہم اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جماعت ِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے حلقہ ٔ دیوبند کے نزدیک اگر وہ کافر نہیں ہیں تو مومن بھی نہیں؛ بلکہ گمراہ ہیں۔ ابتداء میں اس اختلاف کی وجہ سے گھروں میں لڑائیاں ہوئیں، نکاح ٹوٹے، حقہ پانی بند ہوا۔ ہمارے نزدیک یہ ہندوستانی مسلمانوں پر یہودیت کی تخریب پسند پالیسی یا اقوامِ عالم کی جادوگری کا اثر پڑا تھا اور وہ یہی چاہتے تھے:
{لَتَجِدَّنَ أشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا الیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا الَّذِیْنَ قَالُوا اِنَّا نَصاریٰ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِصِّیْصِیْنَ وَ رُہْبَانًا وَّاَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ} (المائدۃ، جزو:۶)
تم ضرور پاؤگے لوگوں میں سب سے زیادہ دشمن مومنین کا یہود کو اور مشرکین کو اور ضرور پاؤگے ان سے قریب محبت میں مومنین سے ان کو جو اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ان میں علماء ہیں، راہب ہیں اور وہ متکبر نہیں ہیں۔
بات بڑھنے کے خوف سے مختصراً اشارہ ہے، ہمارے علماء اور مذہبی حلقوں کی آنکھوں پر پٹی چڑھی رہی کہ انھوں نے اس قرآنی ہدایت سے اعراض کیا جس کی سزا نسلوں تک جاری رہے گی ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا​
وہ لوگ جو روزانہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں، محرابوں میں پڑھتے اور سنتے ہیں، وعظ کی دھوم مچاتے ہیں لیکن اس سے غافل۔ جہاں تک عوام کا معاملہ ہے ؎
یوں دن تو گزرنے کو گزر جائیں گے لیکن
یہ بے رُخی اے اہل وطن یاد رہے گی​
جن لوگوں کی زندگیاں القابات اور خطابوں میں گزریں یاد رکھیں میدانِ محشر سامنے ہے، زخمیوں کے زخم میں جب تک وہ بھر نہ جائے گا جو ٹیس رہے گی اس میں برابرکے شریک رہیں گے اور اذیت کا یہ بوجھ شاید وہ نہ اُتار سکیں۔
(جاری ہے)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جزاک اللہ احسن الجزا۔مفتی صاحب اس مضمون نےمزید کی بے تابی بڑھادی ۔جلدی کیجئے ۔اور کیا یہ کتاب ‘‘ تقصیراتِ تفہیم القرآن‘‘ مطبوعہ ہے؟
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری​

[align=center]از د یرو حرم
[/align]

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:29
تجربات اور مشاہدات:
انتخابِ پیر اور استاذ میں جلدی نہ کی جائے؛ بلکہ خوب تحقیق اور تلاش اور چھان بین کرنا چاہئے۔ اور جب بالکل اطمینان ہوجائے تو پھر کیسے ہی حالات آئیں اور کتنے ہی اعلیٰ بزرگ اور قابل آدمی مل جائے جس کا دامن تھام لیا ہے اس کو نہ چھوڑنا چاہئے۔ اس بارے میں مجھے حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کا ارشاد بہت پسند ہے اور اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’وحدتِ مطلب ضروری ہے ، تمہارے کھیت کو اسی نالی سے سیرابی ہوگی جو بڑے چشمے سے نکل کر تمہارے کھیت میں پہنچی ہے وہ بڑی نہریں جن کا رُخ دوسرے کھیتوں کی طرف ہے اس سے تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا اس لئے اپنی نالی کی طرف رغبت کرو اور دوسری نہروں کی طرف للچائی نظریں نہ ڈالو‘‘۔
میں نے ایسے بہت سے مریدوں اور شاگردوں کو دیکھا ہے جو کسی دنیوی غرض سے میرے مرید ہوئے یا شاگرد بنے اور پھر انھوں نے مجھے چھوڑ کر دوسروں کو اختیار کیا وہ تھوڑے دنوں کی بعد برباد ہونے لگے اور اپنے مقصد اور کام سے رہ گئے اور پوری عمر ان کی ڈانوا ڈول رہی اور کسی کام میں بھی مراد کو نہ پہنچ سکے۔
میرا ہمیشہ یہی طریقہ رہا ہے کہ میں نے کسی کو جلدی سے بیعت نہ کیا اور مدرسہ میں ضرورت کے باوجود طلباء کو تلاش کرکے داخل نہیں کیا، جب بھی مجھ سے اس باب میں کوتاہی ہوئی ان طلباء یا مریدوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے اور ایسا بھی ہوا کہ میری کوتاہی یا طلبا اور مریدوں کی خود غرضی کی وجہ سے جب بھی میں نے ہاتھ بڑھایا ہے انھیں لوگوں نے آخر کار بہت اذیتیں دیں اور نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے بزرگوں میں سے حضرت شاہ محمد یٰسین صاحب نگینویؒ خلیفہ حضرت گنگوہیؒ ہر مرید ہونے والے سے دریافت کرتے: کیوں مرید ہوتے ہو؟ اگر وہ نہ بتلاتا تو خود ہی بتلادیتے کہ یہ خیال رکھو اب تک سر پر کوئی بڑا نہیں تھا اب اپنا بڑا بنالیا ہے اس لئے اب ہر حال میں اس کی اتباع وحکم ماننا ضروری ہے۔
ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ جو لوگ دیکھا دیکھی مرید ہوجاتے ہیں یا کسی غرض سے کسی کی شاگردی اختیار کرلیتے ہیں وہ چند خرابیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں:
(۱) احترام نہیں بجا لاتے، غیبت اور تنقید میں مبتلا ہوجاتے ہیں، یہ چیز دنیا اور آخرت میں تباہی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے فرمایا ہے: پیر کی مخالفت سوئے خاتمہ کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔
(۲) سلسلۂ بیعت منقطع کرلیتے ہیں اس سے اس سلسلے کے بزرگوں کے فیوض وبرکات تو ختم ہو ہی جاتے ہیں مزید یہ ہوتا ہے کہ اس سلسلے کے بزرگوں کو اذیت پہنچتی ہے وہ اگر بددعا بھی نہ کرتے ہوں لیکن دعاء بھی نہیں کرتے۔ حضرت شاہ محمد یٰسین صاحبؒ نے فرمایا تھا: کہ میں جب حضرت گنگوہیؒ سے بیعت ہوا تو انھوں نے مجھ سے دریافت کیا تھا کہ تم کسی سے بیعت تو نہیں ہو؟ میں نے عرض کیا: حضرت بہادر شاہ (ایک بدعتی پیر) سے بیعت ہوں۔ فرمایا: اہل بدعت سے بیعت فسخ کرنا تو ضروری ہے لیکن ان کے ساتھ کبھی احترام کے خلاف نہ کرنا۔ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا: جب بھی وہ آتے ہیں میں ان کا بہت واحترام کرتا۔ میں نے کوئی بات ایسی نہیں کی جس سے ان کو اذیت ہو، البتہ ان کا مسلک اختیار نہیں کیا۔
(۳) ایسا آدمی جو پہلے پیر کو چھوڑ کر دوسرے پیر کو اختیار کرتا ہے اکثر ایسا دیکھا کہ علم، دین اور تقوے سے محروم ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ا سکی طمانیت ختم ہوجاتی ہے، علم اور تقویٰ نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ہمیشہ ذلیل رہتا ہے اور ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دنیاوی زندگی بھی تنگ رہتی ہے، اگر تھوڑا بہت عروج حاصل ہوا تو وہ بہت عارضی ہوتا ہے۔
الحمد للہ علی ذالک میں نے انتخابِ استاذ اور پیر میں غلطی نہیں کی اور نہ مجھے اس پر افسوس ہوا۔ دارالعلوم میں اساتذہ کے اسباق کا انتخاب طلبہ کی مرضی پر تھا، میں نے اچھے اساتذہ کا انتخاب کیا۔ میں نے کتابوں کے کم ہونے کو ترجیح دی، چنانچہ میرے تمام اساتذہ بہت اچھے ہیں۔ میرے پیر مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ بہت اعلیٰ ہیں۔ میں نے کبھی بھی کسی دوسرے پیر اور استاذ کو اپنے پیر اور استاذ سے افضل نہیں جانا دین کا بڑا ہو یا دنیا کا بڑا ہو، استاذ ہو یا باپ ہو یا کوئی پڑوسی ہو، عمر میں بڑا ہو یا دین میں یا علم میں بڑا ہو، کوئی بھی اور کیسا بھی ہو جو تم سے بڑا ہے اس سے نہ اُلجھو اور اس سے لڑائی نہ خریدو یہ بڑے نقصان کی علامت ہے، اگر ایسا موقع پیش آجائے ہٹ جاؤ، گریز کرلو، اپنی شکست تسلیم کرلو اسی میں فائدہ ہے، اگرچہ سردست برا معلوم ہوگا، ممکن ہے کچھ نقصان ہوجائے اس کا غم نہ کرومگر بڑے سے نہ اُلجھو اور نہ لڑو۔ حدیث شریف میں بھی موجود ہے:
’’ لَیسَ مِنَّا من لَم یُؤقِّر کبیرَنَا ومن لم یرحَم صغِیرَنا‘‘۔
جس نے ہمارے بڑے کی عزت نہیں کی اور ہمارے چھوٹے پر رحم نہیں کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
میں نے ہمیشہ ان لوگوں کو نقصان میں دیکھا ہے؛ بلکہ برباد دیکھا ہے جو بڑوں سے اُلجھا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس اُصول کو بھی بہت اچھا اور درست پایا ہے کہ
’’ہرچھوٹا بڑے کی اطاعت کرے‘‘۔
یہ اُصول اگر زندگی میں جاری ہوجائے تو زمین پر خلافت قائم ہوجائے گی اور کوئی فساد نہ ہوگا۔
متعدد وجہ سے ثابت ہے اور تجربہ ہے کہ بڑا بننے میں فائدہ نہیں ہے کیونکہ آدمی جتنا بڑا بنتا جاتا ہے اتنی ہی اس پر ذمہ داریاں بڑھتی جاتی ہیں، مثلاً: بچہ جب تک دودھ پیتا ہے تو اس پر کوئی ذمہ داری نہیں لیکن اس منزل سے گزرنے کے بعد اور کچھ نہیں تو پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی ذمہ داری تو اس پر آ ہی جاتی ہے۔ ایسے ہی لڑکا جب تک کہ لڑکا رہتا ہے تو اس کی ذمہ داری زیادہ نہیں لیکن جب وہ کسی کا شوہر یا کسی کا باپ بن جاتا ہے تو اس کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور ذمہ داری سے سبک دوش ہونا یا ادائیگی ٔ فرائضِ منصبی میں کوتاہی سے مشکلات پیش آتی ہیں۔ اگر آدمی نیک نیت اور مخلص ہے تو اس کے لئے کوئی پریشانی نہیں ہے۔
یہ تو بڑا بننے کی ایک فطری رفتار ہے اور دوسری رفتار اختیاری ہے۔ بڑا بننے میں اختیار کو غلط استعمال کرنا یہ آدمی کو شیطان، متکبر، گھمنڈی اور معلوم نہیں کیا کیا بنا دیتا ہے۔ اور بالآخر آدمی ہلاک اور برباد ہوجاتا ہے۔ اور بڑا بننے میں اختیار کا صحیح استعمال یعنی اسلامی حدود اور قوانین کے تحت آدمی منصب ِ خلافت، امامت، ولایت پر فائز ہوجاتا ہے۔ جس درجہ پر پہنچتا ہے اسی درجہ کی ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں۔ میں نے جہاں تک تجربہ کیا ہے اور غور کیا، چھوٹا بننے (تواضع اختیار کرنے) میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس راستے سے آدمی اپنی نظر میں چھوٹا اور دوسروں کی نظر میں بڑا ہوجاتا ہے۔ اسی لئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء فرمائی:
’اللّٰہُمَّ اجعَلْ فِی نفسِی صغِیرًا وفِی أعیُنِ النَّاسِ کبیرًا‘‘۔
اے اللہ! مجھے اپنی نظر میں چھوٹا بنائے رکھ اور دوسروں کی نظر بڑا۔
یعنی مجھے ہر وقت اپنے چھوٹا ہونے کا احساس رہے۔ اگرچہ لوگ مجھے بڑا سمجھیں، یہی مقامِ عبدیت ہے جو اللہ کو پسند ہے اور اس میں عافیت ہی عافیت ہے اور بڑا بننے کا وہ خیال سراسر شیطانیت ہے جس میں بربادی اور ہلاکت ہے۔
یہ تین چیزیں ہر قسم کی ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ میں نے بہت تجربہ کیا ہے، دنیاوی اعتبار سے ترقی یافتہ لوگوں کو بھی دیکھا اور دینی اعتبار سے بھی ترقی یافتہ بہت لوگوں کو دیکھا۔ پہلی دو شرطیں یہ ہر ایک کے لئے اور تیسری شرط صرف مومنین کے لئے لازم ہیں ا سکے بغیر اگر ان کو کوئی ترقی حاصل ہے تو وہ استدراج ہے ترقی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کسی پر برا وقت نہ لائے:
گردش ایام تیرا شکریہ ہم نے ہر پہلو سے دنیا دیکھ لی
لیکن حالات کا تغیر وتبدل انسان کے بس کا نہیں۔ مصیبت اور پریشانی میں چند چیزوں کا اہتمام رکھنا چاہئے:
۱- رجوع الی اللہ، ذکر اور مراقبہ اور نوافل کا اہتمام اور خاص طور سے تہجد کی نماز کا اہتمام رہنا چاہئے، اس سے طمانیت حاصل ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت آئے گی۔
۲- صبر یعنی شکوہ، شکایت نہ کرے۔
۳- دینی اور مذہبی کتابوں کا مطالعہ خاص طور سے قرآنِ پاک کی تفسیر، بزرگوں کے مواعظ، بزرگوں کے مواعظ میں مجھ سب سے زیادہ فائدہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مواعظ سے ہوا ہے۔ فتوح الغیب کی یہ عبارت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی:
’’اس وقت تک انتظار کرو جب تک کہ تم اس کی موافقت اور رضاء کے لئے عاجزا نہ ہوجاؤ اور مقررہ میعاد پوری نہ ہوجائے، کیونکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی ہونا اور زمانہ کا گذرنا اور مدت کی تکمیل خود تبدیلی حالات کی آئینہ دار ہے۔ جس طرح گرمیوں کے خاتمہ سے سردیوں کا افتتاح ہوتا ہے، یا رات کا اختتام نمودِ سحر کا پتہ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر تم دن کی روشنی کو مغرب اور عشاء کے مابین تلاش کروگے تو اس کا حصول ناممکن ہے؛ بلکہ رات کی تاریکیوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا، حتی کہ جس وقت تاریکیاں دم توڑ دیں گی تو نمود سحر کے ہمراہ دن کی روشنی میں تاریکی شب کی تمنا کروگے تو وہ بھی تمہیں حاصل نہ ہوسکے گی، کیونکہ تمہاری یہ طلب غیر وقت میں ہوگی‘‘۔ (فتوح الغیب/۶۹)
غرضیکہ یہ کتاب اور حضرت کے مواعظ سے ہمیشہ مجھے بہت فائدہ پہنچا، میں ہر ایک کو ان کے مطالعہ کا مشورہ دیتا ہوں۔
(جاری ہے)
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: عابدالرحمٰن مظاہری

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)

قسط:30

قرآن پاک نے بیوی کو وجہ سکون فرمایا ہے۔ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مصیبتوں میں حضرت خدیجہ بہت کام آئیں أور حضور کو بہت دلاسا دیا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا اعتراف فرمایا ہے۔ بہرحال وفادار بیوی آدمی کے لئے بہت بڑی نعمت ہے، الحمد للہ یہ مجھے حاصل ہے۔ اپنی بیوی کی نصیحتوں اور دلاسے سے مصیبت کے ایام گذرگئے، اللہ تعالیٰ اس نیک خاتون کو اجر عظیم عطا فرمائے، بہت ہی صاحب ِ کمال اور صاحب ِ کشف عورت ہے، ایسی عورتیں اب دنیا میں کم ہوں گی۔
یہ بھی بہت بڑا انعام ہے اگر حاصل ہوجائے تو بہت کچھ حاصل ہوگیا، بحمد اللہ میرے احباب بہت مخلص ہیں، ان میں چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
۱- حضرت مولانا محمد عمر صاحب پالن پوریؒ
۲- حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ
۳- حاجی عبدالرزاق صاحب نور پور مرحوم
۴- سیٹھ محمد مصطفیٰ صاحب احمد آباد
۵- سیٹھ رقیع الدین صاحب احمد آبادمرحوم
۶- غلام دستگیر وغلام محیی الدین صاحب احمد آباد
اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ ان کے علاوہ اور بہت احباب ہیں جنھوں نے میری مدد کی۔
آڑے وقت میں اولادِ صالح بھی بہت کام آتی ہے، بحمد اللہ میرے چاروں لڑکے (اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے) اور دونوں لڑکیاں اور دونوں داماد خاص طور سے بڑی لڑکی کا شوہر حکیم ڈاکٹر طاہر حسین سلمہ نے میرا بہت ساتھ دیا۔
۷- ان کے علاوہ کچھ نقد بھی پاس رہنا چاہئے۔
سب سے زیادہ کامیاب مطالعہ وہ ہے کہ اپنے مطالعہ کے ساتھ اگر آپ اپنی پسند کی چیزوں کو اپنی بیاض یا ڈائری میں نوٹ کرلیتے ہیں۔ یہ انتخاب صرف آپ کے ذوق اور پسند پر منحصر ہے خواہ وہ اشعار ہوں یا نصیحت ہو یا کوئی حدیث یا کسی کا قول ہو۔ اسی طرح آپ کی بیاض مخزن کلیات بن جائے گی اور جو آپ لکھ لیں گے وہ آپ کی یاد داشت میں بھی محفوظ ہوجائے گی۔ اگر کوئی کتاب حاشیہ والی ہے تو اس کا حاشیہ ضرور پڑھنا چاہئے، اس سے بہت سی کتابوں کے بارے میں آپ کو علم ہوجائے گا۔ اگر آپ متعلّم ہیں تو آپ کے لئے اپنے درس کا، اور معلّم ہیں تو مطالعہ بہت ضروری ہے خواہ آپ قاعدہ بغدادی پڑھائیں۔
علاج کا کامیاب طریقہ یہ ہے کہ اولاً غذا کے ذریعہ علاج کیا جائے، دوا بدرجۂ مجبوری ہے۔ خوارک کی چیزوں کا مناسب استعمال مرض کے ازالہ کیلئے کافی ہے۔ اگر ضرورت ہو تو مفرد ادویہ کے ساتھ علاج کیجئے یہی مسنون طریقہ ہے ورنہ زیادہ سے زیادہ تین یا پانچ دواؤں سے آگے نہ بڑھیں۔ مختلف مزاج کی دواؤں کا استعمال مریض کیلئے مضر ہے۔ (زاد المعاد)
متعدد احادیث میں ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرنے سے عمر بڑھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے مثلاً بیس سال کی عمر مقدر تھی اب چالیس سال کی ہوگی۔ عمر تو ہر ایک کی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی حق تعالیٰ شانہ نے مقرر کردی ہے جب وقت موعود آجاتا ہے تو نہ ایک پل آگے ہوسکے اور نہ پیچھے ہوسکے۔ عمر میں بڑھوتری کا مطلب یہ ہے کہ عمر بیکار ضائع نہیں ہوتی۔ ایک شخص جس نے سو سال عمر پائی لیکن کچھ نہ کرسکا یا خرافات میں مبتلا رہا تو اس کی عمر طویل بھی قصیر ہی ہے۔ اور ایک شخص جس نے کم عمر پائی لیکن تھوڑی مدت میں بہت کام کرگیا اس کی قصیر مدت بھی طویل ہے۔ خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء علیہم السلام سے کم عمر پائی یعنی ۶۳/سال، لیکن کام تمام انبیاء سے زیادہ کرگئے۔ میں نے اپنے بزرگوں میں سے حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ کو سب سے کم عمر کا پایا لیکن انھوں نے تبلیغ اور تصنیف وتالیف کا اتنا بڑا کام کردیا کہ جماعتوں سے سو سال میں بھی نہ ہو۔ حضرت مولانا عبدالحی ٔ صاحب لکھنوی ؒنے کل ۳۷/سال کی عمر پائی لیکن اتنی کتابیں لکھیں کہ سینکڑوں علماء سے سینکڑوں سال میں بھی نہ لکھی جائیں۔ اس لئے عزیزانِ گرامی ضروری ہے کہ ماں باپ اور بڑوں کا ادب کرو اور ان کی خدمت کرو، نیکی اور تقویٰ اختیار کرو تو ان شاء اللہ کوتاہی ٔ عمر کا گلہ نہ رہے گا۔
کمین اور نااہل کی تعریف میں بہت اختلاف ہے۔ حضرت چچا سعدیؒ نے بھی گلستاں میں متعدد حکایات اس باب میں لکھی ہیں۔ ان تمام واقعات اور حکایات کو اگر جمع کیا جائے تو یہ عنوان بہت طویل ہوجائے گا۔ میرے تجربہ کے مطابق سب سے زیادہ نااہل اور کمین لوگ وہ ہیں جو ریاکار اور مکار ہیں اور نفاق کی علامات ان میں پائی جاتی ہیں۔ ماحول، معاشرہ، ذریعۂ معاش، حرام کا رزق اور دوسرے برے اطوار اختیار کرنے سے آدمی نااہلؔ اور کمینؔ بن جاتا ہے۔ یہ کسی خاص پیشہ اور برادری کے ساتھ مخصوص نہیں ہے یہ بات دیکر ہے کہ پیشہ کی دناء ت کی وجہ سے مزاج اور طبیعت میں بھی دناء ت آجاتی ہے اس لئے یہ بات نو ّے اور کو ّے پر منحصر نہیں ہے۔
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پیشہ شریف ہوتا ہے لیکن کسی دوسرے پس منظر کی وجہ سے مزاج میں خباثت آجاتی ہے۔ مثلاً: حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے کسی حوالہ سے اپنے وعظ میں فرمایا ہے کہ بغداد کے قاضی شہر نے ایک پاگل اور ننگ دھڑنگ اور گندی عورت کے پاس ایک نوزائیدہ بچہ دیکھا تو تعجب ہوا، جب انھوں نے اس امر کی تحقیق کی تو وہیں میدان کے کنارے پر ایک دوکان پر بیٹھے کاتب کو گرفتار کرلیا۔ جب اس پر اعتراف ڈالا گیا تو اس نے اعتراف کیا۔ قاضی صاحب سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ نے اس کو کس قرینہ پر گرفتار کیا تھا؟ فرمایا: میں نے دیکھا کہ ا س نے اپنی دوات میں پانی نیچے بہنے والی گندی نالی سے چلّو میں لے کر ڈالا تھا، میں سمجھ گیا جو آدمی گندے پانی سے علم کی کتابت کرسکتا ہے وہ زنا بھی کرسکتا ہے۔
بہرحال میں نے اپنے تجربہ کے اعتبار سے کمین اور نااہل کا حدودِ اربعہ عرض کردیا ہے۔ اگر کسی آدمی کو یہ ثابت ہوجائے کہ فلاں آدمی کمین یا نااہل ہے تو پھر اس کی دوستی اور تعلق سے دور رہے، ورنہ زندگی میں بہت نقصان اٹھائے گا، بہت ممکن ہے کہ ان نااہل اور کمینوں کی وجہ سے اس کی زندگی اتنے خطرے میں پڑجائے جس پر وہ موت کو ترجیح دے۔
’’من نہ کردم شما حذر بکنید‘‘
حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا ہے:
لاَ تُعَلِّقُو الدُّرَّ فِی أعْنَــاقِ الخَنَازِیْــرِ۔
سو ّروں کی گردن میں موتیوں (علم) کا ہار نہ ڈالو۔
اس کو یحییٰ بن عقبہ نے روایت کیاہے جو اگرچہ ثقہ نہیں لیکن اس کی تائید حضرت انسؓ کی روایت سے ہوتی ہے:
واضِعُ العِلمِ عِندَ غَیرِ أہلِہٖ کَمُقَلِّدِ الخَنَازِیْرِ الجَوہَرَ واللُّؤلُؤَ والذَّہَبَ(الوجیز)
نااہل کو علم سکھلانے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ سوروں کی گردن میں جوہر، موتی، سونے کا ہار ڈالنے والا۔
اس اثر کو ابن سیرین نے حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
میں نے بعض کتابوں میں لکھا دیکھا ہے:
شَہــادۃُ المُسلمِینَ بعضِہِـمْ عَلیٰ بعضٍ جائزۃٌ ولایجُوزُ شہادۃُ العُلمائِ بعضِہِمْ عَلیٰ بَعْضٍ لِأَنَّہُمْ حسدٌ۔
مسلمانوں کی ایک دوسرے کے خلاف گواہی جائز ہے لیکن علماء کی علماء کے
خلاف گواہی جائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ حسد ہے۔
میرا تجربہ اور مشاہدہ اور مطالعہ تو یہی بتلاتا ہے کہ وہ مولانا حضرات جن کو اہل اللہ کی صحبت حاصل نہیں رہی وہ زمین پر تو ایک فتنہ اور شرارت ہوتے ہیں، لیکن اپنے معاصر علماء کو بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتے، حسد کی آگ میں ہر وقت جلتے رہتے ہیں اور اہل اللہ واہل علم کو ناحق ستاتے ہیں۔ ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ کو جان سے مار دینے کی چند مرتبہ کوشش کی۔ ابن تیمیہؒ کو کبھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ حضرت شیخ الہندؒ کو گرفتار، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کو گرفتار کردیا۔ اللہ تعالیٰ ان علماء سو سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ ان کی صحبت سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ آدمی بیت الخلاء میں بیٹھا رہے۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:31

میں نے علامہ طاہر پٹنی کی کتاب ’’تذکرۃ الموضوعات‘‘ میں یہ لکھا دیکھا ہے:
إِنَّ اللّٰہَ یکرہُ الجرَ السَّمِینَ۔ (بیہقی)
اللہ تعالیٰ موٹے عالم کو برا سمجھتا ہے۔
اور امام شافعیؒ نے ارشاد فرمایا:
مَا أفلَحَ سمینٌ إلا أن یکونَ محمدُ بنُ الحَسَنِ لِأنَّہٗ لاَ یُعدُّ والعاقل من أن یہمّ لاٰخِرتِہٖ أو لِدُنیَاہُ والشَّحمُ من الغمِّ لاینعقدُ فإذا خلاَ منہُما صارا فِی دوابِّہِم۔
موٹا آدمی کامیاب نہیں ہوتا مگر محمد بن حسن اس لئے عاقل غم آخرت یا غم دنیا سے غافل نہیں ہوتا اور جسم میں چربی غم کے ساتھ جمع نہیں ہوتی، پس جب آدمی ان دونوں غموں سے خالی ہوجاتا ہے تو چوپاؤں میں شمار ہوتا ہے۔
میرے تجربہ نے بھی اسی کی تائید کی ہے اور عبارت میں محمد بن حسنؒ کا استثناء ہے۔ محمد بن الحسن امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد اور امام شافعیؒ کے استاذ ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ موٹاپا مرض کی وجہ سے بھی ہوجاتا ہے وہ اس سے خارج ہے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ جیسا پیر ہوتا ہے ویسے ہی مرید ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پیر کے زیادہ خصائل مرید میں نہ ہوں لیکن پیر کی ممتاز خصوصیت کا کسی نہ کسی درجہ میں ضرور اثر آجاتا ہے۔ چند حلقوں کے بارے میں میرا مشاہدہ ہے۔ مثلاً:
۱- حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ کے مریدوں سے تبلیغ کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔
۲- حضرت تھانویؒ کے مریدوں میںباریک بینی اور نکتہ چینی کا اثر زیادہ ظاہر ہوتا ہے
۳- حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ کے مریدوں میں گوشہ گیری اور ذکر کا اثر نمایاں ہوتا ہے۔

۴- حضرت مولانا مدنیؒ کے مریدوں میں سیاست اور جماعت سازی کا اثر نمایاں ہوتا ہے۔
س: لیکن آپ بھی حضرت مدنیؒ کے مرید ہیں، آپ تو سیاست کی ابجد سے بھی ناواقف ہیں؟
ج: ٹھیک ہے لیکن میری عمر کا ابتدائی زمانہ حضرت شاہ محمد یٰسین صاحبؒ کی تعلیم وتربیت میں گزرا ہے۔ میں نے سلوک کا بیشتر حصہ ان ہی سے حاصل کیا ہے، لیکن بیعت کی سعادت حضرت مدنیؒ سے حاصل ہوئی ہے۔ میں نے حضرت شاہ محمد یٰسین صاحب نگینوی خلیفہ حضرت گنگوہیؒ کے مریدوں کو دیکھا ہے ان کا جاہل سے زیادہ جاہل مرید سنت کا پابند اور بدعت سے بیزار رہتا تھا۔
واقعۂ صلح حدیبیہ سے یہ ثابت ہے کہ آدمی چاہے حق پر ہو اور اس کی قوت اور اکثریت بھی ہو لڑنا جھگڑنا نہ چاہئے۔ یہ بات تو اس زمانہ کی ہے جو خیرالقرون ہے لیکن موجودہ زمانہ جو شرارتوں اور فتنوں سے بھرا ہوا ہے اس میں تو اور بھی زیادہ ضرورت ہے کہ لڑائی جھگڑا نہ کیا جائے، کیونکہ موجودہ زمانے کی لڑائیوں کا کم سے کم انتظام پولیس اور عدالت تک تو ضرور پہنچ ہی جاتا ہے۔ پولیس اور عدالتوں کے لوگ، وکیل، چپراسی، دلال، محرر، کلرک وغیرہ یہ اسی دنیا کے لوگ ہیں کہ اللہ میاں تھوڑے دنوں کے لئے بیمار ڈال دے مگر ان جگہوں پر نہ پہنچائے۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کو بھی بیماری اور مقدمہ نہ لگائے۔ میں عر ض کرتا ہوں بیماری بھی بری، لیکن مقدمہ بیماری سے بھی زیادہ برا ہے۔ ذلت اور انتشارِ دل ودماغ علیحدہ، روپیہ کا ضائع ہونا، بھاگ دوڑ پریشانی، غرضیکہ مصیبت کے جتنے اقسام ہوسکتے ہیں وہ مقدمہ میں ہیں اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
اگر کسی کا دل چاہے کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کی خدمت کرے تو اس پر خوب غور کرلے اور پریشانیاں اور بدنامیاں برداشت کرنے کو تیار ہوجائے۔ اگر اپنے آپ کو اس پر قوی پائے تو پھر اللہ کے بھروسے پر شروع کرے اللہ اس کی مدد کرے گا۔ ہر نوع کی مصیبتیں بہت آئیں گی اور اسی کے آس پاس ہی سے؛ بلکہ جن پر ان سے بھروسہ کیا ہے ایسا پیچھا دبائیں گے جیسا کہ بھڑیں اور موذی جانور پیچھے منڈلاتے ہیں۔ ان سے دفاع اور بچاؤ تو کسی نہ کسی تدبیر سے ہوجاتا ہے مگر اپنے اور انسانی درندوں سے بچاؤ تقریباً ناممکن ہے، بس اللہ تعالیٰ ہی حفاظت اور نصرت فرمائے تو کام چلتا ہے ورنہ نہیں، کیونکہ انسانی درندے تو فنا کرنے ہی کے لئے حملہ کرتے ہیں۔
’’من نہ کردم شما حذر بکنید‘‘​
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری

از د یرو حرم

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:32

لیکن اگر اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے لئے کام شروع کیا ہوتا ہے تو پھر ان کی طرف سے نصرت آتی ہے اور بچالیتی ہے اور دشمنوں کوملیامیٹ کردیتی ہے مگر اس کا صبر کے ساتھ انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اگر میسر ہوجائے تو دیہات کے مخلص مسلمان سے دوستی کرنا بے انتہا مفید ہے۔ مخلص دیہاتی آڑے وقت میں اور ہر خوشی اور راحت میں اخلاص کے ساتھ پیش آتا ہے اور اس پر کسی تعریف اور بدلہ کا طالب نہیں ہوتا ہے اور اس میں اتباعِ سنت بھی ہے۔
حضرت انسؓ نے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مخلص دوست اہل بادیہ میں سے تھے۔ ان کا نام زاہربن حزام تھا۔ وہ جنگل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جنگلات کے تحفے لایا کرتے تھے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جب وہ واپس ہوتے تو شہری چیزیں عنایت فرمایا کرتے تھے۔
آپ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’إنَّ زاہرًا بادیتُنا ونحنُ حاضروہ‘‘۔
زاہر ہمارا بادیہ ہے اور ہم اس کے حاضر ہیں۔
یعنی وہ ہمارے لئے جنگل کی طرح ہے کہ ا س سے ہمیں جنگل اور دیہات کی اشیاء حاصل ہوتی ہیں اور ہم اس کے لئے بمنزلہ شہر کے ہیں کہ اس کو ہم سے شہری اشیاء ملتی ہیں۔ اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ دیکھنے میں خوبصورت نہ تھے ایک دن زاہر بازار میں اپنا سامان بیچ رہے تھے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے سے پہنچے اور گود میں بھرلیا اور ان کو پتہ بھی نہ ہوا۔ زاہر نے کہا: کون صاحب ہیں؟ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس کرلیا تو اپنی پشت کو حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ سے چمٹالیا۔ حضور نے فرمایا: اس غلام کو کون خریدتا ہے؟ زاہر نے کہا: حضور! مجھے تو کھوٹا سودا پائیں گے۔ آپ نے فرمایا: تو اللہ کے نزدیک کھوٹا نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ باب المزاح)
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میرے چند حضرات دیہاتی، مخلص دوست ہیں۔ میرے یہاں جب کوئی تقریب ہوتی بہت ہی خوشی کے ساتھ دال چاول سے میری مدد کرتے ہیں۔ ہر موسم میں اپنے یہاں کی سبزیاں پہنچاتے ہیں۔ میرے اوپر جب مصیبت کا وقت آیا تو وہ ایسے بے چین اور بے تاب پھرا کرتے تھے کہ گویا ان کا کچھ لٹ گیا ہے۔ مہینوں میرے لئے بہت دوڑ دھوپ کرتے پھرے۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوجائے اور ان کو ہر قسم کی برکات سے نوازے اور ان کو اجرعظیم عطافرمائے۔
جاہلوں کی صحبت کے بارے میں کتابوں میں بہت کچھ لکھا ہے۔ ’’پندنامہ عطار‘‘ میں ہے ؎
’’زجاہل گریزندہ چوں تیرباش‘‘ (جاہل سے مثل تیر کے بھاگو۔)
میرا تجربہ اس بارے میں یہ ہے کہ جاہلوں سے اگر زیادہ ربط وضبط بڑھایا جائے جب کہ ان کا نفع نہ ہو بلکہ اپنا نفع شامل ہو تو بتدریج وہ لوگ اتنے بے تکلف ہوجائیں گے کہ تمام آداب اُٹھاکر رکھ دیں گے اور یہ توقع رکھیں گے کہ آپ بیت الخلاء میں ان کے لئے لوٹا رکھ کر آئیں گے۔ دوسرے وقت وہ آپ کو پوجنے کو تیار ہوجائیں گے۔ اس باب میں میں نے یہ کہا ہے:
’’جاہل کی عقیدت پر بھی لعنت اور بدعقیدگی پر بھی لعنت‘‘۔
اس لئے جہاں تک ممکن ہو ان کے فائدے اور ان کی اصلاح کے لئے ان سے تعلق رکھا جائے، اپنے نفع کو نہ داخل کیا جائے۔ یاد رہے جاہل وہ نہیں ہے کہ جس کو لکھنا پڑھنا نہ آتا ہو بلکہ جاہل وہ ہے جس کو صلحاء کی صحبت اور تربیت حاصل نہ ہو اور دین پر عمل نہ کرے اور دین کے علم سے واقف ہو۔
موجودہ زمانہ میں عرصۂ دراز سے جماعت سازی کا بہت زور ہے، لیکن جماعتیں بنتی ہیں اور ٹوٹ جاتی ہیں اور جماعت بدلی تو ایک عام وباء ہے۔ لوگ اخلاقی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے ہیں۔ جماعت سازی کے لئے اور اس کی بقاء کے لئے اتحادِ قلوب اور نیت بہت ضروری ہے۔ اسلام میں اس پر بہت زور ہے اور جماعت سے نماز اس کی ایک مثال ہے لوگوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی ہے۔
مجھے سید احمد شہیدؒ کا ایک واقعہ معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ سید صاحب کی ملاقات حضرت سلیمان تونسویؒ سے جب ہوئی تو انھوں نے فرمایا: سید صاحب کی کامیابی ممکن نہیں ہے مجھے آپ کی جماعت میں اتحادِ قلوب نظر نہیں آتا۔ سید صاحبؒ نے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ تجربہ کرلیں ان سب میں اتحادِ قلوب ہے۔ یہ سن کر جناب سلیمان تونسویؒ نے سید صاحب کی جماعت کے چار آدمیوں کو بلایا اور ایک کوٹھری میں بند کردیا۔ دوچار دن کے بعد ان میں سے ایک آدمی کو باہر نکالا اور دوسری جگہ بند کردیا اور پہلی کوٹھری کی کی برابری میں ایک کوٹھری اور تھی اس کا پرنالہ ادھر کو نکلا تھا جہاں وہ چاروں آدمی بند تھے اس کوٹھری میں ایک بکرے کو لے جاکر ذبح کردیا اور اس کا خون بہہ کر آدمیوں والی کوٹھری میں گیا۔ اس کے ایک دو دن بعد دوسرے آدمی کو نکالا اور پھر ویسا ہی کیا جب تیسرے آدمی کو نکالا تو اس نے باہر آنے سے منع کردیا۔ تب حضرت تونسویؒ نے فرمایا: دیکھئے! چار آدمیوں ہی میں اتحادِ قلوب نہیں ہے۔
کوئی بھی کام ہو یا معاملہ ہو یا خدمت ہو، اسمیں کوئی منصب وقت آنے پر خودبخود مل جاتا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے ملازمتوں میں ترقی وقت پر ملتی ہے اس سے پہلے کوشش بیکار اور بے سود۔ یہ سچ ہے جب بڑے مر جاتے ہیں تو چھوٹے ہی بڑے بن جاتے ہیں، اس کا انتظار کرنا چاہئے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بڑا بننا اچھا نہیں اس کے بارے میں تفصیل گذر چکی ہے۔
میرا مسلک وہی ہے جو اکابر مشائخ دیوبند کا ہے۔ اس بارے میں جناب مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے مسلک ِ علمائے دیوبند کے نام سے ایک طویل سوالنامہ تیار کیا تھا اور اس کے جوابات مانگے تھے۔ وہ سوالنامہ میرے پاس بھی آیا تھا، اسی سے مختصراً تحریر ہے:
۱- حضراتِ شیخین کو افضل جاننا، یعنی حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمرؓ، پھر حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ، یعنی فضیلت بترتیب خلافت۔
۲- بزرگ جاننا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں دامادوں کو۔ یعنی حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو۔
۳- بزرگ جاننا دونوں قبلوں کو، یعنی کعبۃ اللہ کو اور بیت المقدس کو۔
۴- موزوں پر مسح جائز ہے اور روافض کے نزدیک جائز نہیں ہے۔
۵- دو گواہی سے باز رہا جائے، یعنی کسی پر گواہی نہ دے کہ وہ دوزخی ہے یا وہ جنتی ہے،
۶- ہر دو امام کے پیچھے نماز جائز ہے یعنی صالح اور فاسق۔
۷- ہر دو تقدیر پر ایمان رکھنا یعنی اچھا ہو یا برا ہو۔
۸- ہر دو جنازوں پر نماز پڑھنا یعنی نیک اور بد پر۔
۹- ہر دو فرض نماز اور زکوٰۃ کو برابر جاننا اور ادا کرنا۔
۱۰- امیر کی فرماں برداری کرنا اور ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور اس کے سب رسولوں پر اور اس کے سب فرشتوں پر اور تمام کتابوں پر، پانچ وقت کی نماز ادا کرے، روزہ رکھے، حج ادا کرے اگر استطاعت ہو، اور شریعت ِ محمدی کے علاوہ کسی کی اتباع نہ کرے۔
بعض یادداشتیں:​
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:33

بعض یادداشتیں​

عجائب التواریخ: کہتے ہیں کہ شہر سہارنپور ایک معمولی گاؤں تھا۔ ہارون چشتی نے آباد کیا تھا۔ اس کا تاریخی نام ’’پرزیب‘‘ (۷۲۶؁ھ) بتایا جاتا ہے۔
0000​
۱۲/ستمبر ۱۹۶۸؁ء فیجی میں ایک شخص محمد علی کو دفن کیا گیا۔ جب دفن کے بعد لوگ دعاء وغیرہ میں مشغول تھے قبر میں دفعۃً کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور قبر شق ہوکر نعش باہر پھینک دی گئی۔ اوّل تو لوگ بھاگ گئے لیکن کچھ دیر بعد لوگوں نے دوسری جگہ پر قبر کھودی اور اس جگہ اس کو دفن کردیا گیا۔ اس قبر نے اس کو قبول کرلیا۔
0000​
رسالہ خاتونِ مشرق ماہ اکتوبر ۱۹۶۸ـ؁ء صفحہ۷/ پر ایک حادثہ لکھا کہ چند دن ہوئے ایک عورت کی صورت خنزیر کی صورت میں مسخ ہوگئی۔ واقعہ یہ لکھا کہ چند عورتیں نمائش دیکھنے گئی تھیں وہاں ایک سادھو جس سے عورتیں اپنی مرادیں مانگ رہی تھیں ایک عورت نے اس سے کہا اس کے اولاد نہیں ہوتی تھی، سادھو نے بتایا کہ اپنے مذہب کی سب سے اونچی کتاب پر بیٹھ کر غسل کرنا جو مسلمان عورتیں ساتھ تھیں انھوں نے منع کیا ایسا ہرگز نہ کرنا، مگر وہ نہ مانی اور صبح کو غسل خانہ میں نہانے گئی، جب بہت دیر ہوگئی تو گھر کے لوگوں نے اس غسل خانے کو کھول کر دیکھا تو ہاں عورت نہیں تھی بلکہ ایک خنزیر تھا سب عورتیں ڈر کر بھاگ گئیں جب اس کا چرچا ہوا تو اسکے ساتھ والی عورتوں سے دریافت کیا، اس پر دیکھا گیا کہ غسل خانہ میں قرآن پاک زمین پر رکھا ہے جس میں اندر کوئی حرف نہ تھا، سب صاف ہوگئے تھے، اوراق بالکل خشک تھے، جلد پانی میں بھری ہوئی تھی۔ العیاذ باللہ
0000​
ازمکتوب مولوی محمد عمر صاحب پالنپوریؒ: موصولہ ۱۲/رجب ۱۳۸۸ــ؁ھ، ۹/جولائی ۱۹۶۸؁ء کو مراقش کے لئے جو جماعت مولوی یوسف صاحب نتھوان والے کی امارت میں روانہ ہوئی تھی ان کے جہاز میں ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا، جو ارسالِ خدمت ہے، ساتھ ہی چار جماعتیں تھیں۔
دوجہاز چل رہے تھے ایک آگے ایک پیچھے، جن میں سہارنپور کے دو حاجی صاحبان بھی تھے۔ ایک حاجی صاحب آگے والے، اور ایک حاجی صاحب پیچھے والے۔ جو حاجی صاحب تھے وہ نیچے والے حصے میں کسی ضرورت سے گئے۔ اتفاق سے پانی کی ٹنکی کے پاس تختہ کھول کر دیکھا ہی تھا کہ پیر پھسل گیا اور سیدھے سمندر میں گرے، اوپر والے حصے میں کسی کو خبر نہیں تھی۔ تین روز تک کسی کو اطلاع نہیں ہوئی کہ حاجی صاحب کہاں ہیں۔ تین روز کے بعد پیچھے والے جہاز کے کپتان نے وائرلیس سے خبر کی کہ کوئی شخص تمہارا گم ہوا ہے؟ بعد تحقیق جواب دیا فلاں نامی شخص گم ہوا ہے۔ انھوں نے بتلایا کہ یہ شخص سمندر میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے دور سے دیکھا کہ سمندر میں آدمی کہاں ہے، جہاز ان کے پاس لایا گیا، تین روز میں حاجی صاحب کا رنگ پیلا ہوچکا تھا، کشتی ڈال کر ان کو اوپر لایا گیا، حاجی صاحب نے بتلایا کہ جب میں پھسل گیا، نیچے ایک مچھلی پر بیٹھ گیا، تسبیح میری جیب میں تھی نکال کر خدا کی یاد شروع کی، اور کہنے لگا: اے خدا مجھے بچالے۔ حاجی صاحب کا بیان ہے کہ مچھلی بہت بڑی تھی، میں آرام سے بیٹھ گیا اور خدا کی یاد بے چینی سے کرنے لگا۔ سمندر کا پانی تک مجھے نہ لگا تھا اور مچھلی بھی بالکل حرکت نہیں کرتی تھی اور میں مچھلی پر ایسے بیٹھا جیسے گدے پر بیٹھا ہوں۔ بعد میں میں نے جہاز دیکھا اور ہاتھ اوپر کیا، حاجی صاحب اوپر لائے گئے، گپتان بھی متحیر تھا اور کہا کہ تم کون لوگ ہو؟ اور انگریزی میں ساتھی سے کہا یقینا اسلام سچا مذہب ہے۔ یہ واقعہ حضرت ِ والا کے علم میں لانے کے لئے لکھا ہے۔
0000​
مما ینبغی أن یستحضر
مجالسِ میلاد کی ابتداء ساتویں صدی ہجری کے شروع میں ابوسعید ترکمانی المقلد ملک مظفر مضافات موصل کے حاکم سے ہوئی۔ (مجلہ حج، ربیع الاوّل ۷۱ھ؁)
0000​
بندوق کی ابتداء ۱۴۱۴ئ؁ میں فرانسیسی میں ہوئی۔
اشرفی: دینار کو کہتے ہیں۔ اشرف خاں کے ایجاد کرنے کی و جہ سے اس کا نام اشرفی ہوا۔
فرنگی محل: ملا قطب الدین صاحب سہالوی جب کہ ایک ہنگامے میں رجب ۱۱۰۳ھ؁، مارچ ۱۶۹۳؁ء میں شہید ہوگئے تو ان کے چار فرزند دوخوردسال تھے اور دو بڑے ملا محمد اسعد جو فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں شریک تھے، دوسرے ملامحمد سعید نے ایک مختصر نامہ بہت سے دستخطوں سے عالمگیر کے پاس اعانت کے لئے لے گئے، اس پر عالمگیر کا فرمان تھا جو آج بھی فرنگی محل میں موجود ہے۔ اس میں ایک منزل حویلی واقع بلد لکھنؤ میں ہے
از امکنۂ نزول است برائے پسراں
ملا قطب الدین شہید مقرر فرمودیم​
یہ کوٹھی کسی فرانسیسی تاجر کی تھی جو ٹھیکے پر یہاں لے کر بنائی تھی۔ جب مدت ٹھیکہ ختم ہوگئی تو سرکاری بن گئی اور ملا قطب الدین صاحب کے چاروں لڑکے مع اہل وعیال وہاں مقیم ہوگئے۔
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم​

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:34

0000​
۱۳۰۸؁ھ میں خواجہ اشرف جہاں گیر سمنانی نے ایک رسالہ اخلاق وتصوف میں لکھا یہ اُردو کی سب سے پہلی تالیف ہے۔
عنایت اللہ ۲۵/اگست ۱۸۸۸؁ء میں بمقام امرتسر پیدا ہوا۔ والد کا نام عطاء محمد خاں ایک رئیس تھے، جو صاحب ِ قلم بھی تھے۔ عنایت اللہ نے ۱۹۰۶؁ء میں لاھور کالج سے بی، اے کی ڈگری حاصل کی اور انیس سال کی عمر ۱۹۰۷؁ء میں ایم،اے پاس کرلیا۔ ۱۹۱۱ء؁ تک انگلستان میں مختلف ڈگریاں حاصل کرتا رہا۔ اور ۱۹۱۳ئ؁ سے ۱۹۱۶ئ؁ تک حکومت ِ ہند میں سکریٹری کے عہدے پر کام کیا۔ ۱۹۲۱ء؁ سے ۱۹۲۲ئ؁ تک چار سال کی مدت میں ’’تذکرہ‘‘ شائع کیا۔ ۱۹۳۱ء؁ میں ’’اشارات‘‘ شائع کیا۔ اور ۱۹۳۲ء؁ میں ’’خاکسار تحریک‘‘ کی ابتدا کی۔
۱۹۵۸ـ؁ء میں سہارنپور میں مشرقی کا زور رہا۔ ۲۹/جنوری ۵۹ء؁ سے زکریا نے ’’تذکرہ‘‘ وغیرہ کتب مشرقی کا انہماک سے مطالعہ کیا۔ رمضان ۱۹۵۸؁ء میں مفتی صاحب کی تحریر سے مشرقی کا اسلام شائع ہوا۔
0000​
۱۹۱۹ء میں علماء کی ایک جماعت خلافت کانفرنس کے سلسلے میں دہلی میں جمع ہوئی۔ اور وہاں جمعیۃ کی ابتدائی تشکیل ہوئی۔ اور اسی سال دسمبر میں امرتسر میں پہلا اجلاس زیرصدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلّی منعقد ہوا۔ ۱۹۲۰ء؁ میں دہلی میں زیرصدارت حضرت شیخ الہند و۱۹۲۱ء؁ میں لاھور میں زیرصدارت مولانا ابوالکلام آزاد اور ۲۲/دسمبر ۱۹۲۲ء؁ کو ’’گیا‘‘ میں مولانا حبیب الرحمن صاحب کی زیرصدارت اور ۲۱/دسمبر ۱۹۲۳ء؁ کو کناڈا میں حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی زیرصدارت اور ۱۱/جنوری ۱۹۲۵ء؁ کو مرادآباد میں مولانا محمد سجاد صاحب نائب امیر شریعت بہار کی زیرصدارت ۱۴/مارچ ۱۹۲۶؁ کو کلکتہ میں علامہ سید سلیمان ندوی کی زیرصدارت ۲/تا۵/دسمبر ۱۹۲۷ئ؁ کو مولانا انور شاہ کشمیریؒ کی زیرصدارت، ۳/تا۶/مئی امروہہ میں مولانا معین الدین اجمیری کی زیرصدارت، اور ۳۱/مارچ ۱۹۳۱ء میں مولانا ابوالکلام کی زیرصدارت، ۳/تا۶/مئی ۱۹۳۹ء میں مولانا عبدالحق مدنی کی زیرصدارت، ۷/تا۹/جون ۱۹۴۰ء میں جونپور حضرت مدنیؒ کی زیرصدارت، ۴/تا۶/مئی ۱۹۴۵ء؁ کو سہارنپور میں حضرت مدنیؒ کی زیرصدارت۔
0000​
: ۶/جولائی ۱۹۴۶؁ء کو چھ برس کے بعد مولانا ابوالکلام کی جگہ جواہرلال نہرو کانگریس کے صدر ہوئے۔ اور ۱۱/جولائی کو جدید صدر نے اپنی جدید ورکنگ کمیٹی کا اعلان کیا۔
۱- مولانا ابوالکلام آزاد ۲- سردار ولّبھ بھائی پٹیل
۳- ڈاکٹر راجندر پرشاد ۴- خان عبدالغفار خاں
۵- گووند ولبھ پنت ۶- راج گوپال آچاریہ
۷- رفیع احمد قدوائی ۸- ڈاکٹر وی-بی کیسکر
۹- مسز کملا دیوی ۱۰- راؤ صاحب
۱۱- پرتاپ سنگ پنجاب ۱۲- مس مردولا سارا بائی
۱۳- مسٹر فخرالدین علی احمد آسام ۱۴- سرت چندربوس
کل چودہ نفر۔
فائدہ: راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مولانا آزاد کی چھ سالہ صدارت کا زمانہ وہ ہنگامی زمانہ تھا جس میں بہت اہم واقعات وجود میں آئے۔ دوسری جنگ عظیم کی ابتداء اور انتہاء اسی زمانے میں ہوئی۔ لیگ اور کانگریس کا معرکۃ الآراء الیکشن اسی زمانے میں ہوا۔ انگریز سے سخت ترین ٹکر اسی زمانے میں لی گئی۔ بالآخر ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کا وجود اسی زمانے میں ہوا۔ ایسے زمانے میں مولانا آزاد کا صدارت سے علیحدہ ہونا مسلمانوں کے لئے ایک بڑی ہلاکت کا سبب بنا۔ مولانا نے خود بھی تحریر فرمایا ہے:
’’اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کے دیکھتے ہوئے مجھے خیال ہوتا ہے کہ شاید میں غلطی پر تھا۔ اور جو لوگ چاہتے تھے کہ میں کم سے کم ایک سال اور صدر رہوں وہ حق بجانب تھے‘‘۔ (ہماری آزادی،ص:۳۱۰)
ہوا یہ تھا کہ جب ہندوستان کی آزادی پاس کردی گئی تو فروری ۱۹۴۶؁ء میں کانگریس میں اندرونِ خانہ چند ہندؤں نے مولانا کی اتنی طویل صدارت پر اعتراض کیا، کیونکہ اب آخری مرحلہ تھا، عہدوں کی تقسیم کا زمانہ تھا، لہٰذا برادرانِ وطن کیوں ایک مسلمان پر اعتماد کرنے لگے تھے، ان کا اعتماد تو اسی وقت تک تھا جب تک قربانی کا بکرا بننے کا وقت تھا۔ مولانا جیسا طمطراق کا آدمی کب اس اعتراض کو برداشت کرسکتا تھا، چنانچہ مولانا نے فوراً ہی اپنی علیحدگی کا اعلان کردیا۔ فوراً ہی بنگال، بہار، یوپی کے متعدد وفود نے آکر مولانا کو اس ارادے سے باز رہنے کی کوشش کی، مگر مولانا نہ مانے۔ اتنا کام مولانا نے ضرور سمجھداری کا کیا کہ آئندہ صدارت کے لئے جواہر لال نہرو کا نام پیش کردیا۔ حالانکہ گاندھی سردارپٹیل کو صدر بنانا چاہتے تھے۔ سردار پٹیل مولانا آزاد کے الفاظ میں نہایت کینہ پرور اور متعصب قسم کا انسان تھا۔ اسی سے گاندھی جی کے ذہن کا پتہ چل سکتا ہے۔ بہرحال مولانا نے استعفیٰ دیدیا، بمبئی سے بہت سے حضرات مولانا کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ اس استعفے کو واپس لے لیں مگر مولانا نے فرمادیا کہ: ’’میرا فیصلہ بدلا نہیں کرتا‘‘۔ یہ الفاظ {لاَیُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ} کا غالباً ترجمہ ہے۔
اگر مولانا آزاد استعفیٰ نہ دیتے توشاید ان کو وہ خون کے آنسو جو اپنی کتاب میں رونے پڑے ہیں نہ رونے پڑتے۔ اور مذکورہ بالا الفاظ جو اعترافِ شکست کے طور پر فرمائے تھے نہ کہنے پڑتے اور وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ اور وزارتِ داخلہ کا عہدہ کسی اور کے ہاتھ ہوتا۔
(جاری ہے)
 
گزشتہ سے پیوستہ
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

[align=center]از د یرو حرم
[/align]

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​
قسط:35
ترکی میں قرآنِ پاک کی توہین پر عذابِ الٰہی کا خوفناک تازیانہ

ترکی میں گزشتہ سال یہاں اگست میں آنے والے زلزلے کے حوالے سے بعض ترکی اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات انتہائی عبرت ناک ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ترکی بحرئیے کے کسی اڈے میں جو ساحل سمندر سے بالکل متصل تھا، رقص وسرود کی ایک مجلس منعقد ہوئی، جس کے شرکاء تین ہزار کے لگ بھگ تھے۔ وہاں ناچنے اور گانے والیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی اور شراب وکباب کی خوب محفل جمی۔ ایک فنکشن کے لئے اسرائیل سے خصوصی طور پر یہودی ناچنے اور گانے والی لڑکیاں درآمد کی گئیں جو انتہائی بے حیا تھیں۔ فنکشن میں تیس سے زائد ترکی جنرل شریک تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت جب کہ انتہائی بے حیائی اور فحش مناظر پر مبنی مجلس جاری تھی ایک ترکی جنرل نے ایک کیپٹن کے ذریعہ قرآنِ کریم کا ایک نسخہ منگوایا اور اس سے پڑھنے کو کہا۔ جب اس نے پڑھا تو اس سے اس کی تفسیر پوچھی، تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔ اس کے بعد مذکورہ جنرل نے قرآنِ کریم کے نسخے کو لے لیا اور پھاڑ کر ناچتے ہوئے یہودی اور ترکی لڑکیوں کے پاؤں کے نیچے ڈال دیا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ اس قرآن کو نازل کرنے والا کہاں ہے؟ حالانکہ اس میں یہ بھی ہے کہ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس قرآن کو اُتارنے والا کہاں ہے جو اس کی حفاظت اور اس کا دفاع کرے؟ اس دوران اس قرآنِ کریم کو لانے والے کیپٹن پر انتہائی خوف طاری ہوگیا۔ اچانک وہ تیزی سے بحری اڈے سے باہر آگیا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ شخص اس بحری اڈے پر آنے والے عذاب کے ابتدائی لمحات کا چشم دید گواہ بن سکے۔ اس کے بعد انتہائی عبرت آموز واقعات اور مناظر پیش آئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اچانک ایک خوفناک روشنی نظر آئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اس پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے بعد سمندر پھٹ پڑا اور اس میں سے آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔ ساتھ ہی لوگوں کے پھٹنے کی خوفناک آوازیں بھی آنے لگیں۔ اس کی بعد اللہ تعالیٰ نے اس پورے بحری اڈے کو اُٹھاکر سمندر کے بیچ سے اُٹھنے والی خوفناک لہروں کے درمیان پھینک دیا۔ اس کے بعد دوسرے علاقوں کو بھی زلزلے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ مذکورہ پروگرام میں شریک ترکی، امریکی اور اسرائیلی فوجیوں اور ناچنے گانے والیوں کی لاشوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں گئیں۔ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود اب تک وہ لاشیں سمندر سے باہر نہ آسکیں۔ قرآنِ کریم کی بے حرمتی کرکے ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی غیرت کو للکارا تو اللہ تعالیٰ نے انتقام لے لیا۔ ہے کوئی نصیحت کرنے والا؟
اس واقعہ میں اگرچہ حق تعالیٰ نے نہ صرف کل انسانیت کو بلکہ تمام مسلمانوں کو نہایت عبرت آموز سبق لینے کے لئے اپنے ہی زبردست غصے کا اظہار کیا ہے جس سے پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ قرآن پاک واقعی اللہ کی چیز ہے اور اللہ ہی کی آسمانی کتاب ہے، کیونکہ اگر یہ اللہ کی چیز اور اس کی آسمانی کتاب نہ ہوتی تو اللہ کو شاید غصہ بھی نہ آتا؟ کیا کسی مصنف یا مؤلف کی کتاب کی بے حرمتی وبے ادبی کرنے پر اللہ تعالیٰ کو غصہ آیا ہے؟ ظاہر ہے انسانی عقل وشعور کے اعتبار سے غصہ اسی کو آتا ہے جس کی چیز ہے یہ بات نہیں کہ چیز کسی کی خراب وبرباد ہو مگر اس پر غصہ کسی اور کو آئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی چیز کی جس درجہ شہرت کی بے حرمتی وبے ادبی ہوگی اتنے ہی درجہ وشدت کا اس کو غصہ بھی آئے گا، یہاں محفل رقص وسرود میں قرآن پاک کی جس کا اس محفل سے کوئی رابطہ کوئی واسطہ یا تعلق بھی نہ تھا، جس درجہ سنگین گستاخی اور بے ادبی کا مظاہرہ کیا گیا اس درجہ پر اللہ کے شدید وسنگین غصے نے وہ کام دکھایا کہ ہزاروں رقاصاؤں اور عیاشی کرنے والے انسانوں کی نعشوں کا نام ونشان بھی نہ رہا۔ (ماہنامہ: انوارِ ختم نبوت، لندن۔ محرم ۱۴۲۱ھ؁)
(بشکریہ:: ہفت روزہ الجمعیۃ، ۸/تا۱۴/ستمبر ۲۰۰۰؁ء
 
Top