مفتی عزیزالرحمٰن بجنوری نوراللہ مرقدہ

السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)

قسط:56
رمضان اور اس کی فضیلت
ایک مفید اور علمی مقالہ

من جانب: جامعہ عربیہ مدینۃالعلوم بجنور

مذاہب عالم کے نزدیک معرفت حق تعالیٰ شانہ کے لئے دو ہی طریقہ منتخب ہیں (۱)زبان اور اعضائے جسمانیہ سے اس کی حمد و ثنا اور تابعداری (۲)ضرور یات انسانی اور مقتضیات جسمانی میں کمی اور حتی الامکان انکو ترک کرنا یہی دو طریقے مختلف صورتوں میں مختلف اسموں کے ساتھ تمام مذہبی کتب اور لٹریچر (خواہ وہ آسمانی مذاہب ہوں یاخود رووخود ساختہ)میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام نے اول طریقہ عبادت کو صلوٰۃ اور ثانی کو صوم نام سے موسوم کیا ہے۔قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر مذہنی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں صلوٰۃاور صوم کو فرضیت کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے اجمالی طور سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ایمان والو !تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلوںپر
فرض کیا گیا تھا۔ (بقرہ)
چنانچہ جس وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا،دریافت کیا تو جواب ملا کہ یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے آزاد کیا اور اس کو غرقاب کردیا تھا چنانچہ اس دن حضرت موسیٰؑ اور تمام بنی اسرائیل نے روزہ رکھا ۔تب آپ ؐنے ارشاد فرمایا:
اَنَا اَحَقُّ بِمُوسیٰ مِنْکُم فَصَامَہُ وَأَمَرَ بِصِیَامِہ ۔ الحدیث
(متفق علیہ)


میں بہ نسبت تمہارے اتباع موسیٰؑ کا زیادہ حقدارہوں لہٰذا آپ ﷺنے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا۔ لیکن بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں اتنا اضافہ اور ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ قرآن سے قبل بھی عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے۔
ان دونوں روایتوں میں تھوڑا سا تعارض معلوم ہوتا ہے جس کی تطبیق اس طرح مناسب معلوم ہوتی ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل صوم عاشوراء کو نفلی حیثیت حاصل تھی لیکن آپ ﷺ کو مدینہ منورہ پہنچنے پر جب اس کی و جہ تسمیہ معلوم ہوئی تو آپ نے اس کو واجب کی حیثیت حاصل دیدی اور دوسروں پر بھی واجب کردیا۔ اس کے بعد ۲ھ؁ میں غزوۂ بدر سے قبل رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس کو منسوخ قرار دے دیا گیا لیکن نفلی حیثیت اب بھی برقرار ہے۔ (تفسیر کبیر، ج:۲، ص:۱۶۹و مظہری، ج:۲، ص:۱۸۹)
اسی طرح سے نصاریٰ پر رمضان المبارک کے روزے واجب تھے لیکن ان کے علماء نے بالاتفاق موسم ربیع مقرر کردیا اور اس تبدیلی کا کفارہ دس روزوں کے اضافہ کی صورت میں ادا کیا اس کے بعد نصاریٰ میں کوئی بادشاہ بیمار ہوا تو اس نے بطور نذر کے سات روزوں کا اضافہ کردیا، اسی طرح تیسرے بادشاہ نے بقیہ تین کو شامل کرکے پورے پچاس کردئیے۔ اسی تاریخی حقیقت کی طرف حضرت مجاہدؒ نے اشارہ کیا ہے:
اَصَابَہُم مَوتَانِ فَقالُوا زِیدُوا فی صِیامکُم فَزَادُوا عَشرًا قَبلُ و عشرًا بَعدُ الخ۔
(تفسیر مظہری، ج:۱،ص:۱۸۲)


نصاریٰ میں دو موت واقع ہوئیں جس سے بچنے کے لئے انھوں نے مشورہ کرکے کہا کہ اپنے روزوں میں اضافہ کردو لہٰذا دس روزے قبل اور دس روزے بعد میں اضافہ کردئیے۔
اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ نصاریٰ کی مشابہت مت اختیار کرو کہ ایک دن قبل اور ایک دن بعد رمضان المبارک کے روزے رکھو بلکہ ایک دن بعد کا روزہ شریعت نے حرام قرار دے دیا۔ اسی طرح سے رمضان المبارک سے ایک دن قبل کا روزہ مکروہ قرار دے دیا گیا۔ چنانچہ امام شعبی کہتے ہیں کہ اگر میں پورے سال روزہ رکھوں تب بھی یومِ شک میں روزہ نہ رکھوں گا۔ الحاصل روزے تمام انبیاء وتمام امتوں پر فرض یا واجب رہے ہیں اسی کی طرف امام فخر الدین رازی اور علامہ سید محمود آلوسی بغدادی نے اپنی تفاسیر میں اشارہ کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: روح المعانی ج:۲،ص:۵۶، تفسیر کبیر،ج:۲ص:۱۸۹)
غرض کہ اقوامِ عالم میں روزے کو عبادات کے عنوان میں خاص حیثیت حاصل رہی ہے اور اسلام میں تو صوم کو رُکن کی حیثیت حاصل ہے۔ ہاں یہ بات دگر ہے کہ اس قوم کا روزہ کن اوصاف اور کن خصوصیات کا مالک ہوتا ہے۔ اسلام میں بھی روزے میں مختلف تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، چنانچہ ابتدائی طور پر روزے کو موجودہ صورت حاصل رہی تھی اس کی طرف قرآنِ کریم نے اس طرح اشارہ کیا ہے:
’’تمہارے لئے (اب) روزے کی راتوں میں اپنی عورتوں سے تعلق کو حلال قرار دے دیا گیا (کیونکہ) وہ تمہارے لئے لباس (زینت) ہیں اور تم ان کے لئے لباس (زینت) ہو‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوگیا (اس معاملے میں) تم اپنے نفوس کے ساتھ خیانت کرتے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ اب تم پر متوجہ ہوا اور تم کو معاف کردیا۔ اب تم ان سے (روزے کی راتوں میں) مباشرت کرسکتے ہو‘‘۔ الآیۃ (سورۃ البقرۃ)
اس آیت سے ظاہر ہے کہ ابتدائے اسلام میں رمضان المبارک کے مہینے میں رات میں اپنی عورتوں سے مباشرت کرنا حرام تھا بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا۔
۲- کھاؤ اور پیو اس وقت تک جب تک کہ سپیدۂ فجر ظاہر ہو اس کے بعد رات ہونے تک روزہ کو پورا کرو۔ (البقرۃ)
اس آیت کے شانِ نزول سے صاف واضح ہے کہ روزے کی تحدید یہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ عشاء کے بعد سے روزہ شروع ہوجاتا تھا گویا کہ تھوڑی دیر کے لئے کھانے پینے کی اجازت تھی لیکن بعد میں یہ حکم اُٹھالیا گیا اور اس کی جگہ موجودہ حکم نازل فرمادیا گیا۔
اس سے بڑھ کر روزے کی اہمیت اور کیا بیان ہوسکتی ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے بیان فرمادی ہے {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ} تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ انسان میں جتنی بری خصلتیں اور بدکرداریاں وخباثت نفس اور شرارتیں موجود ہیں وہ سب فنا ہوجائیں اور انسان شرافت کا سرچشمہ اور تمام اخلاقِ کریمانہ کا گہوارہ بن کر اس روئے زمین کو خدا تعالیٰ کی بندگی سے بھر دے اور شرارتوں وشیطانوں کے اڈوں اور طاغوتوں کے بسیروں کو اُجاڑ دے اور فنا کردے۔ غرض کہ انسان میں وہ تمام خصوصیات اور کمالات پیدا ہوجائیں جو اعلیٰ درجہ کے دارالاسلامی شہروں کے لئے تصور کئے جاسکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی مضمون حدیث کی کتابوں میں پھیلا ہوا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے صرف ایک لفظ میں بیان فرمادیا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان المعظم کے آخری دن ایک بلیغ خطبہ میں رمضان المبارک اور اس کے روزوں کی اہمیت کے متعلق ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور مبارک مہینے نے سایہ کیا ہے۔ ا س میں ایک رات ہے جو ہزاروں مہینوں سے خیر وبرکت میں فوقیت رکھتی ہے۔ اور اس مہینے کا روزہ فرض اور رات کو عبادت کرنا خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ اس مہینے میں جس آدمی نے کسی کارِ خیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا چاہا اس کی حیثیت فرض کی ادائیگی کے برابر ہے اور جس نے کوئی فرض ادا کیا اس کا درجہ ستر فرض کے برابر محسوب ہوگا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ محبت کا مہینہ ہے اس مہینے میں رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جس کسی نے کسی روزے دار کو افطار کرایا یہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ اور دوزخ سے آزادی کا پروانہ ہوگا۔ اور اس کو مثل روزے دار کے ثواب عنایت کیا جائے گا، لیکن اس افطار کرنے والے کے ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ صحابہؓ نے دریافت فرمایا: ہم میں سے ہر آدمی اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ ثواب ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی افطار کرانے والے کو بھی حاصل ہوگا۔ اور جس کسی نے روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلایا اللہ تعالیٰ اس کو میری مرضی سے سیراب کرے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک پھر اس کو پیاس نہ لگے گی۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا اوّل رحمت، اوسط مغفرت اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی کے پروانہ پر مشتمل ہے۔ اس میں چار چیزوں کی کثرت کرو: (۱)کلمۂ شہادت۔ (۲)استغفار۔ (۳)جنت کا سوال۔ (۴)دوزخ سے پناہ مانگا کرو۔ (رواہ بغوی وبیہقی)
روزے کی فضیلت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ مختصر اور جامع الفاظ میں بیان فرمادیا ہے اس کا احاطہ دوسرے کے لئے دشوار نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَن صــامَ رمضــانَ ایمــانًا واحتسابًا غُفِرَ لہُ ما تقدَّمَ من ذنبِہٖ ومَن قامَ رمضانَ ایمانًا واحتسابًا غفر لَہُ ما تقدَّم من ذنبہٖ الخ۔ (متفق علیہ)

جس نے رمضان کا روزہ ایمانا اور احتساباً رکھا اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف کردیا جائے گا (اسی طرح) جس نے قیامِ رمضان ایماناً واحتساباً کیا اس کے گذشتہ گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔
اس حدیث میں صومِ رمضان اور قیامِ رمضان کے ساتھ ایمان اور احتساب کی دو قیدیں لگی ہیں جس کے معنی اور مطالب بیان کرنے میں شراحِ حدیث نے بہت زیادہ تفصیل سے کام لیا ہے، جس کو اجمالاً ہم یہاں بیان کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ علامہ بدرالدین عینی نے شرح بخاری میں جلد ۱، ص:۲۶۷، لغایۃ،ج:۱،ص:۲۷۸ منتشراً ان دونوں لفظوں کا ذکر کیا ہے جس میں بتلایا ہے کہ یہ دونوں لفظ مترادف ہیں یا متداخل، ایک دوسرے کی تاکید کے لئے لائے گئے ہیں۔ علامہ موصوف کا کہنا ہے کہ جو مومن ہے وہ محتسب بھی ہے۔ ہم علامہ موصوف کی بحث کو صرف دو لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی ’’مومن مخلص‘‘۔ حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ جو آدمی مومن ہونے کے ساتھ مخلصانہ روزہ رکھے اس کے لئے یہ بشارت ہے۔ اسی تعبیر کو علامۂ وقت حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث مظاہر العلوم سہارنپور نے لامع الدراری حاشیہ تقریر بخاری امام ربانی حضرت گنگوہیؒ کے جلد ۱، ص:۲۶ میں اختیار کیا ہے۔
لیکن علامۂ زماں علامہ کشمیری نے اپنی تقریر فیض الباری میں احتساب کے جو معنی بیان فرمائے ہیں اُردو زبان میں اس کا ترجمہ دُشوار تر ہے۔ علامہ موصوف نے احتساب کا ترجمہ ’’توقیر النیۃ‘‘ اور ’’علم العلم‘‘ ’’استشعار القلب‘‘ ’’استحضار النیۃ‘‘ اور ’’عدل الذہول عنہا‘‘ سے کیا ہے۔ جس کو اگر ہم سمیٹنا چاہیں تو اخلاص کا اعلیٰ مرتبہ ’’احسان‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یعنی مومن ہونے کے ساتھ مخلص اور محسن ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے بعد مذکورہ حدیث قرآنِ پاک کی تفسیر کا بحر ذخار لیکن دریا میں کوزہ کا مصداق ہوجائے گی۔ اس کے بعد روزہ کا تعارف اگر انسانیت کی کسوٹی سے کیا جائے گا تو زیادہ مناسب ہوگا۔ واللہ اعلم
روزہ کے علاوہ دوسری چیز جو مذکورہ حدیث میں ذکر فرمائی ہے اور جو وعدے اور بشارت میں روزے کے برابر ہیں وہ قیامِ رمضان ہے۔ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے یہ استثنائِ شاذ ہے اور اس سے صلوٰۃِ تراویح مراد لیا ہے۔ ویسے تو بعض علماء نے دوسرے معنیٰ بھی مراد لئے ہیں، بعض نے کہا ہے کہ رمضان کی راتوں میں مطلقاً بیدار ہونا بھی اس میں داخل ہے، لیکن اس قول کو کالعدم کے درجہ میں رکھا جائے گا کیونکہ جمہور اس پر متفق نہیں ہیں۔
بہرحال رمضان المبارک کے مہینے میں ہر دو طریقۂ عبادت یعنی صلوٰۃ میں اضافہ کردیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی معرفت حاصل کرنے کے لئے انسانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ دنیا میں جہاں ایک اعلیٰ ترین داعی قائد کی حیثیت سے زندہ رہیں ان کو ہماری معرفت کے اعلیٰ مدارج بھی حاصل ہونے لازمی ہیں۔
وفقنا اللّٰہ وإیاکم لما یحبّ ویرضیٰ۔ آمین!
عیدمبارک
اسلا می مساوات کا بے نظیر مظاہرہ​
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:57


عیدمبارک
اسلا می مساوات کا بے نظیر مظاہرہ

ہر قوم اور ہرملک کے کچھ ایام سالانہ جشن اور خوشی کے مقرر ہیں جن میں وہ جشن مناتے ہیں۔ لیکن یہ بات کہ اس قومی تہوار اور ملکی جشن اور خوشی میں اس قوم کے افراد اور اس ملک کے باشندے سب یکساںطورپر شریک ہوں اور ان کے پاس کوئی ایسا دستور ہو کہ جس کی رو سے کوئی محروم نہ رہ سکے ۔ ہمارے علم میں نہیں ہے ۔ہاںاگر ہے تو اسلام کے پاس ایک ایسا دستور ہے کہ اس کے ماننے والوں سے میں کوئی محروم نہیں رہ سکتا۔چنانچہ اسلامی تہواروں میں سے عید الفطر اور عید الاضحیٰ دو تہوار عالمگیر خوشی کے شمار ہوتے ہیں بلکہ ان کی خوشیان ضرب المثل ہوگئی ہیں۔ ان دونوں تہواروںمیں حقیقی خوشی اور اسلامی مساوات کے جتنے بے مثل اور عدیم النظیر مظاہرے ہوتے ہیں۔ دنیا کی قومیں اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔اس کے لئے اسلام کے پاس ایک دستور ہے جس نے جشن اور خوشی کی حدود مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے انسانی مساوات کا بے مثل مظاہرہ کیا ہے۔ آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی قومیں اور ملک جب اپنے قومی تہوار مناتی ہیں تو ہزارہا قسم کی لغویتوں اور حیا سوز حرکات سے پر ہوتی ہیں۔ بلکہ بعض تہوارتو ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی حقیقی خوشی غریب اور بھوکوں اور مظلوموں کی ایذأ رسانی اور ان کے خون وگوشت پوست پر اسکی بنیاد یں قائم ہوتی ہیں لیکن اسلام کے نزدیک ادنیٰ درجہ کی بے حیائی اور ظلم کی بات بھی نہایت بری نظر سے دیکھی گئی ہے چنانچہ اسلام نے اپنے یہاں ہر خوشی کے موقعہ پر غرباء اور مساکین کا خیال رکھا ہے۔جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔کہ ولیمہ اور عقیقہ نا مبارک ہے کہ جس میںغرباء اور مساکین شریک نہ ہوں اسی طرح اسلام نے لہو لعب اور سفید پوشی کانام بھی تہوار یاخوشی نہیں رکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
خبردار اس کی عید نہیں ہے جس نے صرف اچھے اور نئے کپڑے ہی پہنے بلکہ حقیقی خوشی اور مسرت اس کی ہے جو خداوندی وعیدات سے بچ گیا، یعنی معصیت میں مبتلا نہ ہوا اور تقویٰ کو اختیار کیا۔ (الحدیث)
غرضیکہ عید اور بقرعید یہ دونوں اسلامی تہوار عالمگیر خوشی ومسرت کے ایام ہیں جن میں انسانی مساوات اور غرباء پروری کا اہتمام کیا گیاہے۔ اور خوشی کی حدود کو مقرر کیا گیا ہے جس کی مثال دنیا کے تہواروں اور مقدس ایام کے پاس نہیں ہے۔
اولاًعیدکے دن جو ایک خاص ملکیت کے مالک مسلمان عاقل بالغ اور مرد وعورت پر واجب ہے وہ صدقۃالفطرہے۔ یہ کیوںادا کیا جاتاہے؟اس وجہ سے کہ وہ غریب مسلمان کہ جن کے پاس اس قدر مال نہیں ہے کہ جن کواسلامی دستور کے مطابق غنی شمار کیا جائے گا۔ وہ اور اس کے بچے آج ان اسلامی خوشی میں شریک ہوں اور تمنا اورحسرت کے ساتھ اس دن کو نہ گزاریں ، جناب رسول اللہؐ نے ان غرباء کا خیال کیا اور مالدار لوگوںکو توجہ اور ترغیب دی کہ ۔
’’صدقۃالفطر تمہارے روزوں کو بری باتوں اور خطائوںسے پاک کرنے کے لئے ہے اور مساکین کے لئے روزی مہیا کرنے کے لئے فرض کیا گیا ہے۔جس نے عید کی نماز پڑھنے سے پہلے ادا کیا تو یہ صدقۂ مقبولہ ہے اور جس نے عید کی نماز پڑھنے کے بعد اداکیا تو یہ بھی ایک صدقہ ہے‘‘۔ (الحدیث،رواہٗ نسائی)
اس حدیث میں صدقۃ الفطر کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ اس کی غرض بھی بیان فرمادی ہے کہ یہ مساکین کے لئے روزی کا ذریعہ ہے تاکہ وہ غریب بھی آج فکر معاش سے بے نیاز ہوکر مسلما نوںکی عالم گیر مسرتوں میں شریک ہو سکیں ۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے عید کی نماز سے قبل اس کو ادا کر دیا (اور یہی وقت اس کی ادائے گی کا افضل ا ور مستحب قرار دیا گیا ہے) تو یہ بہترین صدقہ ہے ورنہ عید کی نماز کے بعدلا محالہ ادا کرنا تو ضروری ہے لیکن اس کی حیثیت اور صدقات کی سی ہو کر رہ جائے گی کیونکہ جس غرض سے اس کوواجب قرار دیا گیا ہے وہ غرض فوت ہوگئی اب وہ محض ایک صدقہ ہوکر رہ گیاہے۔
صدقۃالفطر ہر اس مسلمان مرد عورت پر فرض ہے جو شرعی نصاب کا مالک ہے یااپنے پاس ضرورت سے زائد سامان رکھتا ہے خواہ وہ تجارت کے لئے ہے یا نہیں (فقہا نے ایسے سامان کی تشر یح کردی ہے۔مسائل اور فقہ کی کتابوںکی طرف رجوع کرنے سے اس کی تفصیل معلوم ہوجائے گی)اس کے ساتھ گھر کے بڑے آدمی کو اپنے ما تحتوں کی طرف سے بھی ادا کرنا ہوگا۔ یعنی اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے ادائیگی بھی اس کے ذمہ آئے گی۔شریعت نے ایک صدقۃالفطر کی مقدار ایک آدمی کی دونوںوقت کی خوراک یعنی پونے دوسیر گندم (نصف صاع) مقرر کی ہے فقہا نے بیان کیا ہے کہ کم ازکم ایک مسکین یا فقیر کو بقدر ایک فطرہ کے دیدینا ہی چاہئے۔اگرچہ اس سے کم یا زائد دینے کے اوپر بھی کوئی خاص پابندی نہیں ہے۔ (اس کا ضابطہ اور و جہ دریافت کر نے کیلئے فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے)
صدقۃ الفطر (جس کے متعلق ہم نے گذشتہ)سطور میں عرض کیا ہے کہ وہ غرباء ومساکین کو عید کی مسرتوں میں شریک کرنے کے لئے اور غریب وامیر کو اس علم گیر خوشی میں برابر کا شریک کرنے کے لئے واجب قرار دیا گیا ہے)کے علاوہ دوسرا واجب مسلمانوں پر عید کی نماز ہے۔ یہ نماز دوسری نمازوںسے کچھ مختلف ہے اس کے لئے کچھ پابندی بھی ہے کہ یہ جماعت کے ساتھ ہی ادا کی جاسکتی ہے۔انفرادی طور سے اگر کوئی چاہے کہ اپنے گھر یا محلہ کی مسجد میں اداکرلے تو ادا نہیں کرسکتا۔ جمعیت کیساتھ نماز کی ادائیگی کے لئے جہاںاور دوسرے فوائد بیان کئے گئے ہیں وہاں یہ بھی ہے کہ ؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودوایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز​
اسی و جہ سے ایک شہر کے تمام مسلمانوں (خواہ وہ امیر ہوں یاغریب )پر سنت مؤکدہ ہے کہ وہ شہر سے باہر نکل کر ایک میدان میں جمع ہوکر مسلمانوںکی جمعیت کے ساتھ اس فریضہ کو ادا کریں۔لہٰذااگر کوئی مسلمان اس جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے رہ گیا ہے تو اس کو یہ حق نہیں کہ وہ تنہا اس کو ادا کر ے یا اس کی قضااس کے ذمہ ہے بلکہ مضیٰ ما مضیٰ۔یہ اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس نے بے انتہا مسرتوں کے مواقع کو بھی عبادت میں تبدیل کردیا ہے بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لئے مسرت عبادت ہی میں ہوتی ہے چنانچہ اس عظیم الشان خوشی کے موقع کو کس طرح عبادت بنا دیا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے عیدین کی راتوں کو زندہ رکھا یعنی ان میں بیدار رہ کر ذکر الٰہی اور عبادت میں مشغول رہا اس کے مرنے تک اس کا قلب زندہ رہے گا‘‘ ۔ الحدیث
اس حدیث میں غالباًاسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ انتہائی مسرتوں کے وقت انسان کے قلب میں غفلت پیدا ہوجاناکوئی امر بعید نہیں ہے بلکہ قلب کی مشغولیت ایک امر یقینی ہے اس وجہ سے ترغیب دی گئی ہیکہ مسلمان کسی وقت بھی ا حکام خداوندی کی بجاآور ی ا ور اسکی عبادت اور ذکر سے غافل نہ ہونا چاہئے۔اسی چیز کو قرآن کریم نے بھی بیان کیا ہے:
’’ مرد تو وہی ہیں جن کو خرید وفروخت اور تجارت اللہ کے ذکراور اس کی نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے مشغول نہیں کرتی وہ تو اس دن کے تصور لرزاں رہتے ہیں کہ جس دن آنکھیں اور قلوب پلٹ جائیں گی یعنی یوم قیامت سے‘‘۔الآیہ
یہی و جہ ہے کہ عید کی انتہائی مسرت کے وقت بھی اسی چیز کی دعوت دی گئی ہے کہ مسلمان صبح ہی سے نمازکے اہتمام میں مصروف ہو،غسل کرے،نئے کپڑے پہنے،خوشبو لگائے،اور عید گاہ جاتے وقت گردن جھکائے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی کبریائی بیان کرتاہواجائے اور وہاں جاکر اس کے سامنے سجدہ ریزیاں کرے اور گڑگڑا کر اس سے اپنی مغفرت کی دعائیں کرے۔اس قسم کے مسلمانوں کے متعلق حدیث شریف میں وارد ہے۔
جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا۔جس دن عید کا دن ہو تا ہے تو فرشتے راستوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکارتے ہیں،اے مسلمانوں!اپنے رب کریم کی طرف آئو ،اب تمہیںاجر جزیل عطا ہوگا تمہیں قیام لیل کا حکم دیاتم نے اس کو پورا کیا اور روزہ رکھنے کا حکم ہوا تو تم نے روزے بھی رکھے لہٰذااب تم اپنی مزدوریوں پر قبضہ کرلو ۔
جب لوگ عیدکی نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو خداوند عالم کی طرف سے اعلان ہوتا ہیکہ تمہاری مغفرت کردی گئی ۔آسمان میں اس دن کا نام مزدوری پانے کادن (یوم الجائزہ) ہے۔ الحدیث (رواہٗ الکبیر)
اس سے اندازہ لگائے کہ اسلام نے کس طرح مسرت کو عبادت میں تبدیل کردیا ہے۔
ا حاد یث کی کتابوں میںرسالت مآب ﷺکے عید دن کے معمولات بڑی تفصیل سے موجود ہیں جو احکامات عید کی صورت میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ذیل میں ہم صرف ایک حدیث کے ترجمہ پر اکتفاکرتے ہیں۔
حضرت جابرؓفرماتے ہیںکہ عیدکو میں جناب رسول اللہﷺکے ساتھ حاضر تھاآپ ﷺنے پہلے دوگانہ عید بلا اذان اور اقامت کے ادا فرمایا اور اس کے بعد خطبہ دینے کے لئے حضرت بلالؓ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور لوگوںکو اللہ سے تقویٰ کرنے اور اسکی اطاعت کرنے کی طرف متوجہ فرمایا اور لوگوں کو وعظ ونصیحت فرمائی اس کے بعد اس طرف تشریف لائے جہاں عورتوں کا مجمع تھا(ابتدائے قیام مدینہ میں عورتوں کو عیدین کی نماز وں میں شرکت کی اجازت تھی )اور آپ نے ان کو وعظ اور نصیحت فرمائی اور صدقہ دینے کی طرف توجہ دلائی۔اور فرمایا کہ تم میںسے بڑی تعداد دوزخ کا ایندھن ہے، ایک عورت نے کھڑے ہوکر دریافت کیا حضور !ایسا کیوںہے تو آپﷺنے ارشاد فرمایا تم اپنے خاوندوں کی ناشکری اور لعن طعن کی کثرت کرتی ہوالخ۔ الحدیث (رواہٗ الشیخین)
ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ حضور ﷺعید کے خطبہ میں وعظ ونصیحت کے علاوہ اگر کسی لشکر کوبھیجنا چاہتے تھے تو اس کو بھی فرماتے۔اور کسی خاص چیز کا امر فرمانا چاہتے تو امر فرماتے ۔حضور ﷺنے عید کے خطبہ کے متعلق ارشاد فرمایاکہ جو خطبہ سننا چاہے وہ ٹھہرا رہے اور جس کو جلدی ہو چلا جائے۔ (ابوداؤد)
اس سے معلوم ہوا کہ عیدین کا خطبہ جمعہ کے خطبہ کی طرح نہیں ہے۔ایک حدیث میںجناب رسول اللہﷺکے متعلق نقل فرمایا ہے۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عثمان التیمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عید کی نمازکے بعد جناب رسول اللہ ﷺکو دیکھا کہ جب آپ نماز سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو بیچ عید گاہ میں ٹھہر گئے اور مسلمانوں کے واپس ہونے کے منظر کو ملاحظہ فرمانے لگے ۔تھوڑی دیر ٹھہر کر آپ ﷺ واپس ہوگئے۔ الحدیث (رواہٗ الکبیر)
اللہ اللہ کتنے خوش نصیب تھے وہ نفوس جن پر محبوب رب العالمین کی نظریں پڑرہی ہونگی ْالہ العالمین ہم بھی اسی نظر کو چاہتے ہیں۔ خدایا اگرچہ ہم تیرے محبوب کو اس وقت نہیں دیکھ سکے جس وقت دنیا کے اعلیٰ ترین انسانوں(حضرات صحابہؓ)نے دیکھا ہے لیکن اب کسی شب میں ہی سہی ؎
آج کی شب بھی آؤگے
دن تو سب انتظار کے گزرے​
خدایا اگر اس میںبھی ہم کم نصیب ہیں تو آخرت میں ہماری معصیتوںکو معاف کرتے ہوئے اپنے محبوب کے دیدار سے مشرف فرما۔آمین یارب العالمین چشم عاشق کے لئے دید ہی عید ہے اور بس۔ ( مدینہ ۵ ؍ مار چ۱۹۶۲ئ؁)
امتحان گاہ محبت
عید قرباں یا یاد گار خلیل​
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)

قسط:58
ا متحان گاہ محبت
عید قرباں یا یاد گار خلیل

محبت کے لئے آزمائش شرط ہے اسی کے بعد اس کی حقیقت واضح ہوتی ہے ورنہ ہوائے نفس اور دعویٰ لسانی کے علاوہ اس کو کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ قرآن پاک ناطق ہے ۔
کیا لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان کا صرف آمناّ کہنا ہی کافی ہے اور ان کی آزمائش نہ ہو گی۔
یعنی دعویٰ ایمان کے بعد یا بدیگر معنی حب اللہ کے دعویٰ کے بعد آزمائش شرط ہے ۔ دو سری جگہ ارشاد فرما یا ہے۔
تم کو آزمایا جاتا رہے گا، کچھ خوف کے ذریعہ اور کچھ مال واولاد، ثمرات کو برباد کر کے بشارت ان ہی لوگوں کو ہے جو صابر(وآزمائش میں ثابت قدم رہنے والے )ہیں جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ یہی کہتے ہیں ،ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف جاناہے۔ (بقرہ)
خلاصہ یہ ہے کہ آزمائش ضروری اور لازمی ہے۔ اب جو جس کا درجہ ہے اسی درجہ کی آزمائش ہوگی حضور سرور کایٔنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے۔
یبتلی الرجــل حسب دینـہ فــان کان فی دینہ صلب اشتــدّ بلائہ وان کان فـی دینہ رقۃ ھوّن علیہ ۔الخ
(الحدیث،رواہ التیرمذی)
آدمی کی آزمائش اس کی دینداری کے مطابق ہوتی ہے ۔اگر وہ دینداری میں سخت ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوگی اور اگر کزور ہے تو آزمائش میں آسانی اور سہولت ہوگی۔
اورچونکہ انبیاء علیہم السلام زہد وتقویٰ اور تقرب الی اللہ میں نہایت درجہ ثابت قدم اور راسخ ہوتے ہیں اسی درجہ کی ان کی آزمائش ہے ؎
جن کے رتبے ہیں سواان کو سوا مشکل ہے​
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی یہی خبر دی ہے۔کسی نے آپ سے دریافت فرمایا کیا​
آزمائش کن کی زیادہ سخت ہوتی ہے؟ فرمایا انبیاء علیہم السلام کی اور پھر حسب مراتب ؎
مکتب عشق کے قانون نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا​
انبیاء علیہم السلام سے زیادہ کون آداب خداوندی سے واقف ہو سکتا ہے ؟وہ قرب خدا وندی کے انتہائی مراتب پر فائز ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے ہر وقت ترساں رہتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
انــی اتقٰـکم بـاللّٰہ
میں اللہ تعالیٰ سے تم سب سے زیادہ ڈرتا ہوں۔
ان حضرات کے ہر وقت رضائے باری پیش نظر ہوتی ہے۔لہٰذا بلا ادھر کے اشارے اور مرضی کے نہ کچھ کرتے ہیں اور نہ کچھ کہتے ہیں ان کے پیش نظر تو ہر وقت محبوب حقیقی ہوتا ہے یہی حال اولیاء اللہ کا ہے ،ان کیلئے جدائی تو وبال جان ہے ہی، قرب میں بھی ترساں رہتے ہیں ؎
دو گونہ ر نج وعذاب است جان مجنوںرا
بلائے صحبت لیلیٰ وفرقت لیلیٰ​
بہر حال قوت ایمانیہ اور قلب کی سلامت روی کے باعث یہ حضرات جادۂ عبدیت سے کسی وقت بھی قدم نکالنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، بلکہ ہر وقت حکم کے تابع ہوتے ہیں؎
دل سلامت ہے تو مشکل مری آساں کیوں ہو
حضرت ابراہیم علیہم السلام جو ’’اَبُ الانبیاء ‘‘ہیں اور منصب خلّت پر فائز ہیں جس کی بنا پر ان کو دربار خداوندی سے خلیل اللہ کا خطاب ہواہے۔ان کی محبت وصداقت اور راہ خدا میں ابتلاء کی داستانیں آج بھی قرآنی اوراق میں جلوہ فرما ہیں۔ان کی ایک دو آزمائش نہیں بلکہ بے شمار آزمائشیں ہوئیں اور وہ ان سب میں کامیاب ثابت ہوئے جس وقت کفر کے ماحول نے انکو چاروں طرف سے گھیر اتھا اور اپنی تمام قوتوں کو ان پر استعمال کیا تھا اس وقت بھی انہوں نے بے باکی سے یہ اعلان فرما دیاتھا۔
’’میں نے یکسو ہوکر اپنا رخ اسی ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور میں جماعت مشرکین میں سے نہیں ہوں‘‘۔(سورہ انعام )
آج انقلاب زمانہ کے باعث کوئی اس اعلان کو سرسری نظر سے دیکھے تو دیکھے مگرجو لوگ گردش لیل ونہار سے واقف ہوتے ہیںاور کفر کے نرغے میں گھر جاتے ہیں اس وقت ان کے سامنے صرف دو ہی راہیں ہوتی ہیں’’جان بایمان‘‘ان کے نزدیک یہ اعلان اہم ترین اور صبر آزما اعلان ہے۔حضرت ابراہیمؑ سے بھی اس اعلان پر جھگڑا کیا گیا ۔قرآن نے فرمایا۔
حــاجــہ قــــومـــہ‘ اس سے اس کی قوم خوب جھگڑی
بالآخر ان کو آگ میں ڈال دیاگیا۔ حضرت براہیم علیہم السلام جو آتش عشق خداوندی کی آنچ سے واقف تھے اس سے کب گھبراتے تھے۔پھر خداوند عالم بھی یہ کب چاہتے ہیں کہ اس کے چاہنے والے کو اتنا بے کس سمجھ لیاجائے فوراً ہی حکم ہوگیا ۔
{یا نا رکونی برداًوسلاماًعلیٰ ابراہیم } اے آگ توابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔
غرضیکہ ابراہیم الصلوٰۃ والسلام کی آزمائشیں بہت اور سخت ہوئی ہیں قرآن میں جگہ جگہ ان کا تذکرہ موجود ہے ۔ ان ہی آزمائشوں میں سے نہایت صبر آزما اور زہرہ گداز آزمائش ذبح فرزند ہے۔اسی تاریخ کو ہم عید قرباں یا یاد گار خلیل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔جس دن یہ تاریخ آتی ہے یا اسکا تصور ذہنوں میں آتا ہے تو ایک بڑی داستان سامنے آجاتی ہے جس میں ایک طرف تو دریائے عشق خداوندی موجزن ہوتاہے اور دوسری طرف اکلوتے بیٹے کی محبت کی موجیں تھپیڑے آآکر مارتی ہے اور چاہتی ہے کہ حضرت خلیل ؑ کو اس امتحان میں کامیاب نہ ہو نے دے مگر ؎
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتاردے​
بالآخر حب خداوندی ہی کو کامیابی ہوئی ۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کو نہایت عجیب انداز میں بیان کیا ہے۔ جو اہل لسان ہیں وہ اس انداز سے واقف ہیں۔ ارشاد ہے :
’’جب وہ (لڑکا )ان کے ساتھ چلنے کی عمر کو پہونچ گیا تو ابراہیم ؑنے فرمایا۔ بیٹے !میں نے خوا ب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں پس (اب) سوچ لے تیری کیا رائے ہے ؟ بیٹے (حضرت اسماعیلؑ)نے عرض کیا، ابا جان !آپ کر گزریئے!جو کچھ آپکو حکم ہوا ہے ۔ آپ مجھے ان شاء اللہ صابرین میں سے پائیں گے(حضرت ابراہیم ؑنے کلیجہ پر پتھر رکھ کر اور رضائے الٰہی کی رسی کو تھاما)بیٹے کو پیشانی کے بل زمین پر گرادیا۔(اس وقت رحمت خداوندی جوش میں آگئی ،ارشاد ہو تاہے )اور ہم نے ندا دی ایابراہیم !آپ نے خواب کو سچ کر دکھایا ،ہم محسنین کو یہی بدلہ دیتے ہیں، یہ بڑی زبردست آزمائش تھی (جس میں آپ کامیاب ہوئے ہیں)‘‘ (سورہ والصٰفٰت)
قرآن پاک کی آیات میں اگرچہ یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ یہ صاحب زاداے کون تھے حضرت اسماعیل ؑ تھے یا حضرت اسحٰقؑ ،لیکن احادیث ا و ر اقوال مفسرین سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ خوش نصیب فرزند حضرت اسماعیل ؑہی تھے کیونکہ:
(۱)حضو صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں ذبیحین (جناب عبداللہ بن عبدالمطلب اور حضرت اسماعیل ؑ )کا بیٹا ہوں۔
(۲)ذبح کا واقعہ مکہ میں پیش آیا ہے اور مکہ معظمہ میں حضرت اسماعیل ؑ رہتے تھے نہ کہ حضرت اسحٰقؑ ۔
(۳)قرآن پاک نے حضرت اسماعیل ؑحضرت الیسعؑ،حضرت ذوالکفل کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ۔کل من الصابرین فرمایاہے ۔حضرت اسحٰقؑ کی تعریف کرتے وقت یہ نہیں فرمایا اور یہ ظاہر ہے کہ اسماعیل ؑ کے لئے یہ بڑاہی صبر آزما معاملہ تھا۔ پھر حضرت اسماعیل ؑکے متعلق ارشاد ہے۔ انہ کان صادق الوعد(یعنی وہ وعدے کے سچے تھے)اور یہ ظاہر ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ جب اپنے پدر بزرگوار سے سنا سر تسلیم خم کرلیا۔شیطان نے ان کو بہت بہکایا، اس جواب میں انہوں نے جو کچھ فرمایا ہم اس کو اس جگہ نقل کرتے ہیں:
قال لاواللہ مایوید الاان یذ بحک قال قال انہ یزعم ان ابد امدہ‘قال فلیفعل ما امر بہ ربہ سمعاًوطاعۃً۔
شیطان نے کہا وہ تو آپ کے ذبح کا ارادہ رکھتے ہیں،حضرت اسماعیل ؑنے فرمایاکیوں ؟شیطان نے کہاکہ ان کا خیال ہے کہ ان کو ان کے رب نے حکم دیا ہے ۔(حضرت اسماعیل ؑنے فرمایا اگر یہ معاملہ ہے) تو ان کو ان کے رب
نے جو کچھ فرمایا ہے اس کو ضرور کرنا چاہئے ۔ اور میں تو اس پر خوشی سے تیار ہوں۔
کتنا بہترین جواب ہے اور کتنے کامل درجہ کی تعمیل وانقباد ہے کہ دنیا ایسے نمو نے پیش نہ کرسکے گی ،دکھ اور آرام میں اسی کی خوشنودی مقصود ہے چشم عتاب میں بھی توجہ کی شان ہے افسانہ برقرار ہے عنوان بدل گیا۔
فَبَشَّرْنَاہُ بِاِسحٰقَ وَمِنْ وَّرَائِ اِسْحٰقَ یَعْقُوبَ۔
ہم نے ابراہیم کی اہلیہ کو بشارت دی اور اسحٰق کے بعد یعقوب کی خوش خبری سنائی۔
مفسرین کا کہنا ہے اگر حضرت اسحٰقؑ کو ذبیح مان لیا جائے تو معاملہ اس کے برعکس ہوا ہوتا
بہر حال اکثر مفسرین کی یہی تحقیق ہے کہ وہ حضرت اسماعیل ؑہی تھے کہ جن کے گلے پر تعمیل ارشاد خداوندیاور اسکی رضا جوئی میں حضرت ابراہیم ؑنے چھری چلادی اور انجام کار اور اندیشہ فردا کو حاشیہ خیال میں بھی نہ لائے تھے ؎
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را​
واقعہ ہونے کو ہوچکا اور داستان بھی پارینہ ہوچکی ہے لیکن آج بھی اسی عاشقانہ ادا کو باقی رکھا گیاہے اور ان شاء اللہ قربانی کی یہ عظیم یاد گار قیامت تک باقی رہے گی گو ذبح فرزند کی صورت میں نہ سہی ؎
یہ ابتلا تھی براہیم کے لئے مخصوص
خود اپنے ہاتھ سے اپنے پسر کی قربانی​
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے۔
وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الآخِرِیْنَ سَلاَمٌ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔
ہم نے اس طریقہ (ذبح)کو آنے والی امتوںمیں رکھا۔ابراہیم پر سلامتی ہوہم محسنین کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
{قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم }
ابراہیم ؑکی زندگی میںتمہارے لئے اچھے نمونے ہیں۔
چنانچہ آج بھی اسی وقت مقررہ پر مسلمان اس یادگار کو ایک فریضہ کے طور پر مناتے ہیں۔اس نقطۂ نظر سے اگر غور کیا جائے تو فریضہ قربانی ایک عاشقانہ فریضہ نظر آتاہے جو لوگ اس فریضہ کو ایک ظالمانہ رسم قرار دیتے ہی ںوہ حب الٰہی اور دولت ایماںسے تہی دامن ہیںوہ کیا جانے کہ حسن وعشق کے گلشن میں کس کس مرحلہ سے گزرناپڑتاہے ؎
کو ئی سمجھے گاکیا راز گلشن
جب تک الجھے نہ کانٹوںسے دامن​
حضرت امام غزالیؒ نے قربانی کے متعلق تفصیل سے بحث کی ہے موصوف نے تحریر فرمایاہے کہ جانور کے ذبح کرنے کے پس منظر میں اپنے نفس اور خواہشات کا ذبح کرناہے اور اس کو حب خدا وندی کا عادی بلکہ اس میں مشاق بنانا ہے اور اسکی بہترین صورت یہ کہ جانور خرید کر اس کی خوب پرورش کی جائے اور اسکو اپنے سے زیادہ مانوس کیاجائے تاکہ ذبح کرتے وقت نفس پر خوب شاق گزرے چنانچہ ہمارے مشائخ رحمہم اللہ کایہی طریقہ تھا۔ حضرت شیخ الہند ؒ ہر سال قربانی کاجانور خرید تے اور اس کو ایک سال تک پرورش کرتے اور پھر اپنے دست مبارک سے ذبح کرتے۔ حضرت اقدسؒ نے ایک مرتبہ بچھڑا خریدہ اور سال بھر اس کی پرورش کی وہ آپ سے اتنا مانوس ہوگیا تھا کہ جب آپ دارالحدیث درس حدیث کیلئے تشریف لے جاتے تو وہ بچھڑا آپ کے پیچھے پیچھے جاتا اور درس گاہ سے باہر بیٹھا رہتا تھا۔جب آپ تشریف لاتے تو آپ کیساتھ واپس آتا ، گویا کہ عاشق جاںنثار کی طرح ساتھ ساتھ لگا رہتاتھا۔جس وقت حضرت شیخ الہند ؒ تعمیل ارشاد خداوندی میں اس کی گردن پر چھری چلاتے جاتے تھے ۔ میرے آقا ومرشد شیخ العرب والعجم حضرت شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمد صاحب مدنی نوراللہ مرقدہ کے یہاں بھی اس کا خاص اہتمام کیا جاتاتھا۔یہ جوکچھ میں نے عرض کیاہے اس سے ہر گز یہ مقصود نہیں ہے کہ جو لوگ وقتی طور پر جانور خرید کر اس فریضہ کو ادا کرتے ہیں ۔حاشا ثم حاشا بلاشک وشبہ ان کا یہ فریضہ اداہوجاتاہے اور انشاء اللہ وہ اجر وثواب کے بھی مستحق ہوںگے۔ میں نے تو صرف اس وجہ سے یہ چندسطریں سپرد قلم کردیں کہ یادگار خلیل علیہ تحیۃًو سلاماًکی روح اور اصلیت سے اس امت کے فریضہ قربانی کا تعارف کرادوں ، اور بتلادوں کہ مسلما ن صحیح معنیٰ میں ذات باری سبحانہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہیں اور اسکی تعمیل میں اپنی جان ومال اور اولاد تک قربان کرنے میں دریغ نہیں کرتے ہیں۔ (مدینہ -۵؍مئی۱۹۶۳ئ؁ )

 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:59

سالانہ اجتماع
مدرســہ عربیــہ مدینــۃالعلـوم بجنور

چٹک رہی ہیں ہر سو کلیاں نسیم آئی بہار لے کر​

۲۹؍مارچ ۱۹۶۳؁ءکو مدرسہ عربیہ رحیمیہ مدینۃالعلوم بجنور کے سالانہ اجتماع میں حضرت مولانا سید فخرالدین احمد صاحب (رحمتہ اللہ علیہ)صدر جمیعۃعلمائے ہند،شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند ،اور مولانا سید فخرالحسن صاحب (رحمتہ اللہ علیہ ) استاذتفسیر دارالعلوم دیوبند ،اور حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری ابن علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے شرکت فرمائی،ہم ہر سہ حضرات کی تقریروں کے خلاصے ان کے شکریہ کے ساتھ ہدیۂ قارئین کررہے ہیں۔
عزیز الرحمن غفرلہ(رحمتہ اللہ علیہ)
تقریر صدر جمعیۃعلمائے ہند​
خطبۂ مسنونہ کے بعد ارشاد فرمایا :
میں اس سے پہلے بھی تیسرے سال آپکی خدمت حاضر ہوا تھا اس وقت بھی میری سمجھ میں جو کچھ آیا تھا عرض کردیا تھا ،اس وقت بھی حضرت مفتی صاحب ( والدصاحب رحمۃاللہ علیہ)کے فرمانے سے ہی حاضری ہوئی ہے ااور انہی کے حکم سے اس وقت عرض کرنے بیٹھا ہوں،انہو ںنے مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ میں کسی خاص مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کروں لہٰذا میری سمجھ جو کچھ آئیگا عرض کروںگا۔
ابھی آپ کے سامنے مفتی صاحب نے مدرسہ کی کیفیت بہت وضاحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ دین کی بہت بڑی خدمت ہے۔اس سے بہت سی سعادتیں وابستہ ہیںجن کے ساتھ رضائے باری اور قرب خداوندی وابستہ ہوتا ہے۔یہ بات ظاہر ہے کہ ایک آدمی اتنے بار کو تنہا نہیں اٹھا سکتا ایک عاجز ہو کر تھک کر بیٹھ جائیگا ابتداً کچھ جوش ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک حد تک وہ کام کو انجام تک پہونچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اس کا اندرونی تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ اس کا کوئی ہاتھ بٹانے والاہو جائے ۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں اوپر سے ایساہی ہوتا چلا آرہا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلمتنہا تشریف لائے اور تنہا ہی آپ نے اسلام کا اعلان کیا۔پھر بعد میں دوسرے حضرات مثلاًحضرت ابو بکر صدیق ؓ،حضرت طلحہؓ،حضرت عثمان غنیؓ وغیرہ حضرات شریک ہوئے اور اس دعوت کو مضبوط بنادیا ۔قرآن شریف میں ارشاد ہے
مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ الخ۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کفار پر شدید ہیںاور آپس میں رحیم ہیں۔
ا س آیت شریفہ میںآگے اسی چیز کی طرف اشارہ ہے اور اس میں یہ مضمون موجود ہے آپ جانتے ہیں کہ تا وقتیکہ کوئی آدمی اپنی روزی کی طرف سے مطمٔن نہ ہو جائے اس وقت تک اس سے دلجمعی کے ساتھ کام نہیں ہوتا ،یہی معاملہ طلبہ کا ہے جب تک ان کو اطمینان اور آرام سے کھانے ،پینے ،اور رہنے کو نہ ملے تو کیا پڑھ سکتے ہیں۔ مشہور مقولہ ہے۔
پراگندہ روزی پراگندہ دل​
اگرچہ ان طلباء کا مقصود آرام طلبی نہیں ہونا چاہئے یہ ایک علیحدہ سا معاملہ ہے لیکن پھر بھی ان کو آرام کی ضرورت ہے۔ آپ جانتے ہیں، مشینوں کے لئے بھی کام کرنے کا وقت متعین ہے اس وقت تک ان سے کام لیا جاتا ہے اور کچھ دیر کے لئے ان کو بند کرنا پڑتا ہے ان کو تیل دینا پڑتا ہے، یہی حال انسانی دماغ اور انسانی جسم کا ہے۔ بہرحال طلباء کے لئے انتظام کرنا ضروری ہے۔
پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی طلبائے علوم دین کے لئے یہ انتظام کیا ہے مگر وہ حالت ابتدائی تھی، نہایت عسرت کا زمانہ تھا اس وقت کے حالات کے اعتبار سے ان کے قیام کے لئے ایک چبوترہ بنادیا گیا تھا ان طلباء کے لئے حضراتِ صحابہؓ (انصارؓ) کھجوروں کے خوشہ لاکر رکھ دیتے تھے جس میں سے یہ طلباء چند کھجوریں کھالیا کرتے تھے اور پھر اپنے حلقہ بناکر حدیث کا مذاکرہ اور تکرار کیا کرتے تھے۔
حدیث کی کتابوں میں موجود ہے کہ خداوندِ کریم معمولی صدقات مثلاً ایک کھجور کا اجر وثواب اس حد تک بڑھاتے ہیں کہ قیامت میں وہ اُحد پہاڑ کے برابر ہوجائے گا تو خصوصی صدقات جن میں سے علومِ دین کے اوپر صرف کرنا بھی داخل ہے تو اس کا اجر وثواب کتنا بڑا ہوگا۔ (اس جگہ مولانا نے صدقات کی فضیلت پر متعدد دلائل بیان فرمائے اور لوگوں کو مدرسہ کی اعانت کی طرف توجہ دلائی اس کے بعد ارشاد فرمایا)
اب میں آپ کو یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ ہر چیز کے کچھ حدود ہیں اور ہر عمل کے کنارے ہوتے ہیں، اسی حد میں رہ کر وہ عمل کیا جاتا ہے، اسی عمل کا نام شریعت کا عمل ہے اور وہی خداوند کریم کے تقرب کا سبب ہے، اگر حد تک اس عمل کو نہیں پہنچایا تو نقصان اور کوتاہی۔ اور حد سے آگے نکال دیا تو تعدی ہوگی۔ اسی کو قرآن نے ظلم سے تعبیر کیا ہے، فرمایا:
{مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُودَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَــہُ}
(جس نے اللہ تعالیٰ کی مقر رکردہ حدود سے تجاوز کیا اس نے اپنے اوپر ظلم کیا)
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ حدود مقرر کرنے اور حکم دینے کا حق اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، انبیاء علیہم السلام بھی اسی کے حکم سے حکم دیتے ہیں اور حدود مقرر کرتے ہیں {اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ} (حکم صرف اللہ ہی کا ہے)۔
اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم پہنچانے کے لئے پیغمبروں کا انتخاب کیا، یعنی ایک ایسی مقدس جماعت کو منتخب فرمایا جو معصوم ہیں اور جس کا ہر عمل خدا کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے اور اگر کبھی کوئی لغزش ہو بھی گئی تو فوراً متنبہ ہوجاتے ہیں، غرض کہ وہ فرشتوں کی طرح بالکل معصوم ہوتے ہیں انہیں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے امتوں کے پاس اپنا پیغام اور حکم بھیجا ہے۔ انھوں نے انسانوں کو پیغام دیا کہ وہ اس راہ پر چلیں اس سے ان کی دنیا بھی سدھر جائے گی اور آخرت بھی، لیکن اگر ان پیغمبروں کی مخالفت کی اور ان کے بتائے ہوئے راستے سے اعراض کیا تو سخت عذاب دیا جائے گا اور ایسا عذاب جس سے کبھی نجات نہیں۔
{کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنَا جُلُودًا غَیْرَہَا لِیَذُوقَ الْعَذَابَ}
(جب انکی کھالیں جل جائیں گی تو اس کھال کے علاوہ ہم دوسری کھال بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب بھگتیں)
یہ سزا انہیں لوگوں کے لئے ہے جو پیغمبروں کی بات بالکل نہیں سنتے، لیکن جو عمل کے اعتبار سے کمزور ہیں جب وہ سچے دل سے توبہ کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔ حدیث میں ارشاد ہے: التّائبُ مِن الذنبِ کَمَنْ لاَ ذنبَ لَہُ (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا کہ اس نے گناہ ہی نہیں کیا) دوسری حدیث میں ہے: التّائبُ حبیبُ اللّٰہِ (توبہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے)۔
اس توبہ سے مراد سچی توبہ ہے، یہ نہیں کہ توبہ، توبہ کہہ لیا۔ ایسی توبہ سے تو توبہ۔ توبہ نام ہے نادم ہونے کا اور گڑگڑاکر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام ہم تک ان پیغمبروں کے ذریعہ پہنچایا۔ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ہے:
’’اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو تروتازہ کرے جس نے میری بات سنی اور اس کو یاد کیا پھر دوسروں تک وہ بات پہنچادی‘‘۔
چنانچہ حضراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعینؒ، تبع تابعینؒ کے ذریعہ ہم تک اللہ کا پیغام پہنچا ہے ان حضرات کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنے کا نام دین ہے۔ اگر اس طریقے کے خلاف ہم نے اپنی پسندسے دین میں کچھ چیزیں داخل کردیں اس کو بدعت کہتے ہیں۔ میرے نزدیک بدعت کا اُردو ترجمہ ’’دینی من گھڑت‘‘ ہے۔ اس کے متعلق پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ہے:
کُلُّ مُحدثۃٍ بِدعۃٌ وکلُّ بِدعۃٍ ضلالۃٌ۔ (ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
اس امت کے پہلے لوگوں نے ایک ایک حدیث معلوم کرنے کے لئے ایک ایک مہینہ کا سفر اختیار کیا، مشقتیں اُٹھائیں اور دین کو سیکھا اور امت کو سکھایا، ایسے لوگوں کے متعلق بدگمانی کرنا اور یہ کہنا کہ وہ نہیں جانتے تھے، قرآن کو انھوں نے نہیں سمجھا میں نے سمجھا ہے تو آپ جانتے ہیں کہ ’’میں‘‘ کے گلے پر چھری ہوتی ہے۔ ایک فرقہ ہے جو حضراتِ صحابہؓ کو گالیاں دیتا ہے، برا بھلا کہتا ہے اور اس قرآن کا بھی انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تو بیاضِ عثمانی ہے اصل قرآن شریف تو امام غائب لے گئے۔
بہرحال میں بدعت کے متعلق عرض کررہا تھا، حدیث شریف میں آیا ہے: جو قوم بدعت اختیار کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم میں سے ایک سنت کم کردیتے ہیں۔ اہل حق کا کہنا ہے کہ بدعتی زبانِ حال سے کہتا ہے کہ میں رسول ہوں اس لئے کہ یہ رسول ہی کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے عذاب اور ثواب کی باتیں اور کام بتلائے، لیکن بدعتی اپنی طرف سے گھڑ کر کہتا ہے کہ اس کام کو کرو اس میں ثواب ہے، گویا کہ اس نے حد سے تجاوز کرلیا، قیودات اور پابندیاں لگاکر ایصالِ ثواب کے طریقوں کو ایجاد کیا، سوچئے یہ کیا چیز ہے؟ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق میں شروع میں عرض کرچکا ہوں۔
حضرت مولانا سید فخرالحسن صاحب​
خطبۂ مسنونہ کے بعد ارشاد فرمایا:
آپ حضرات کو یہ معلوم ہے کہ یہ جلسہ ’’مدرسہ عربیہ رحیمیہ مدینۃ العلوم بجنور‘‘ کا ہے۔ اس مدرسے کے ان دونوں ناموں کے متعلق جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ ہے کہ پہلا نام یعنی مدرسہ رحیمیہ، بجنور کے مشہور عالم، حکیم اور بزرگ کی وجہ سے ہے، انہیں کے ایماء سے اس مدرسہ کی یہ عمارت بنائی گئی تھی۔ حکیم صاحب بہت بڑے عالم تھے، ان کی متعدد کتابیں ہیں۔ ایک مرتبہ مجھے مسئلہ امکانِ کذب کے متعلق تحقیق کی ضرورت پیش آئی تو میرے اساتذہ نے کتابوں کے ساتھ حضرت حکیم صاحب کا اسم گرامی بتلایا اس مسئلہ میں اُن کی عربی زبان میں مشہور کتاب ’’اثبات قدرۃ الالٰہیۃ‘‘ ہے۔ بہرحال ہم نے حکیم صاحب کی وجہ سے بجنور کو جانا، نہ کہ بجنور کی و جہ سے حکیم صاحب کو۔ مدرسہ کا دوسرا نام یعنی مدینۃ العلوم، حضرت مدنی نور اللہ مرقدہٗ کی وجہ سے وہ پہلا مدرسہ بالکل ختم ہوگیا تھا۔ حضرت مدنیؒ یہاں تشریف لائے اور مفتی صاحب کو بجنور کے لئے مقرر فرمایا۔ انھوں نے اپنے شیخ کے نام پر اس مدرسہ کو پھر سے آباد کیا۔ تو اب یہ مدرسہ رحیمیہ مدینۃ العلوم بجنور ہوگیا، گویا کہ مدرسہ دو بزرگوں کی یادگار ہے۔
اب میں آپ حضرات کو مدینۃ العلوم کی مناسبت سے مدینہ والے آقا سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی چند باتیں بتلاتا ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنا نہایت دشوار ہے کوئی بیان بھی کرے تو کیا کرے انسان کے بس کی بات نہیں ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے جھک مارتا ہے، اس لئے کہ جناب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صف کو کس چیز سے تشبیہ دے کر بیان کرسکتا ہے؟ کیونکہ حضور تو اس وقت موجود نہیں جو میں دکھلادوں کہ یہ ہیں مدینہ والے آقا، بالآخر تشبیہ ہی سے کام لینا پڑے گا اور تشبیہ دی نہیں جاسکتی، کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی چیز مثل نہیں ہے۔ ایک صحابیؓ فرماتے ہیں :
’’قسم ہے خدا کی، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے زیادہ نرم ونازک نہ کسی حریر ہی کو چھوا اور نہ خز ہی کو چھوا‘‘۔
حریر باریک ریشمی کپڑا اور خز دبیز ریشمی کپڑا ہوتا ہے تو جس ذاتِ مقدس کے دست ِ مبارک ان دونوں سے زیادہ نرم ونازک ہوں تو اس کو کس چیز سے تشبیہ دی جائے۔ لیکن آپ کے دست ِ مبارک (صلی اللہ علیہ وسلم) اس نرمی کے باوجود آپ کی بہادری بھی ایسی بے مثل ہے کہ جس کی مثال بھی نہیں مل سکتی۔
غزوۂ حنین کا واقعہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد بارہ ہزار مسلمانوں نے قبیلہ ٔ ہوازن پر حملہ کیا تھا اور یہ خیال کئے ہوئے تھے کہ ان کو تو اب پچھاڑا، لیکن قرآن نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ غرور نہ پسند آیا اور بری طرح شکست کھانی پڑی، ایسی کہ اس میدان میں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی تنہاڈٹے رہے ، ایک طرف ہاتھوں کی وہ نزاکت اور دوسری طرف یہ مضبوطی تو خیال فرمائیے کہ اب تشبیہ دی جائے تو کس چیز سے تشبیہ دی جائے؟ آگے چل کر وہ صحابیؓ ارشاد فرماتے ہیں:
’’میں نے کوئی خوشبو، کوئی مشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینۂ معنبر سے زیادہ خوشبو والی نہیں سونگھی‘‘۔
ہم نے تفسیر کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اتنا حسین بنایا تھا کہ ان کے چہرۂ انور اور رُخساروں کی جھلک دیواروں پر پڑا کرتی تھی اسی حسن وجمال کو دیکھ کر حضرت یعقوب علیہ السلام بھی بے اختیار ہوگئے تھے اور زلیخا بھی متاعِ صبر کھو بیٹھی تھی۔
جب یہ حال ہے زلیخا کے محبوب حضرت یوسف علیہ السلام کا تو خیال فرمائیے کہ محبوبِ رب العالمین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہوگا اور وہ کیسے حسین وجمیل ہوں گے؟
بہرحال یہ باتیں میں نے مدینہ والے آقاء جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کی ہیں، ان سے صرف اشارہ ہی ہوتا ہے ذاتِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلانا اور سیرت بیان کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ آپ کی زیارت کے چار طریقے آپ کو بتلاتا ہوں۔ پہلا طریقہ عرض کرچکا ہوں۔
دوسرا طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا یہ ہے کہ آپ کو خواب میں دیکھے۔ ظاہر ہے یہ بڑی شرافت اور کرامت کی بات ہے جو کسی خوش نصیب ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ ماوشما کی اس میں کیا شمار ہے؟ امام مالکؒ کے متعلق منقول ہے کہ وہ ہر شب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیا کرتے تھے۔ ایسی خواب کے لئے مقابلے میں بیداری کی کچھ حقیقت نہیں:
خواب میں آئے تھے رسول اللہ
ہائے کس نے جگا دیا مجھ کو​
تیسرا طریقہ: تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کچھ روپئے خرچ کرے اور جاکر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کو دیکھ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: مَن زارَ قَبری فقَد زارَنِی (جس نے میری قبر کی زیارت کی اس نے میری ہی زیارت کی)۔
بھائیو! حج کا فریضہ اسلام میں بالکل عاشقانہ فریضہ ہے اس کے تمام افعال عاشقانہ ہیں وہی حجر اسود کو بوسہ دینا وغیرہ۔ ع
لب ِ محبوب تک پہنچوں لب پیمانہ بن بن کر​
چو تھا طریقہ: اس سے بھی زیادہ آسان ہے اور وہ ہے اللہ کے کلام اور اس کے رسول کے کلام (حدیث) کو پڑھنا۔ اس کو سمجھانے کے لئے مجھے ایک واقعہ بیان کرنا پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ عالم گیرؒ کی بیٹی زیب النساء مخفیؔ نے جب اس مصرعۂ طرح
’’دُرِ ابلق کسے کم دیدہ موجود‘‘​
پر گرہ لگائی اور وہ گرہ کا مصرع یہ ہے :
’’مگر اشک ِ بتانِ سرمہ آلود‘‘۔​
تو شہنشانِ ایران کو اس شاعر کے دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا، تو مخفی نے یہ شعر لکھ کر بھیج دیا:
’’درسخن مخفی منم چوں بوئے گل در برکِ گل
ہرکہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا‘‘​
یعنی میں اپنے کلام میں اس طرح پوشیدہ ہوں جس طرح پھول کی خوشبو اس کے پتوں میں پوشیدہ ہوتی ہے لہٰذا جو کوئی مجھے دیکھنا چاہے تو میرے کلام کو دیکھ لے۔
تو معلوم ہوا، صاحب ِ کلام کی زیارت اس کے کلام سے ہوجاتی ہے۔
حضرت ابن الانور​
مولانا انظر شاہ صاحب ابن علامہ انور شاہ کشمیری نے بعد خطبۂ مسنونہ کے ارشاد فرمایا:
برادرانِ عزیز! ابھی تفصیل کے ساتھ استاذِ محترم نے بیان فرمایا ہے۔ وقت بھی کافی گزر چکا ہے اور حضرت استاذ کی تقریر کے بعد تقریر کرنا گستاخی بھی ہے، بہرحال کچھ نہ کچھ ضرور عرض کرنا ہے۔ ابھی حضرت نے قرآن پاک کے متعلق ارشاد فرمایا ہے، میں قرآن پاک کی ایک سورۃ، جس کو سورۂ فاتحہ کہتے ہیں کے متعلق عرض کروں گا۔ اس سورۃ کے نام بہت زیادہ ہیں۔ عرب کے ماحول اور رواج کے مطابق کثرتِ اسماء کثرتِ فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ اس سورت کے شروع میں بیان فرمایا ہے:
الحمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلمِینَ۔ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ِ ربوبیت ہر چیز سے عیاں ہے وہ ہر چیز کی تربیت اس کی ضرورت کے مطابق کرتے ہیں، انسانی بچے کو تو آپ مشاہدہ کرلیتے ہیں لیکن ایسی چیزیں جن تک ہماری نظر نہیں جاتی ان کے متعلق کتابوں میں تفصیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اسی صفت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ لکھا ہے کہ ایک پرندہ ایسا ہے کہ اس کا بچہ پیدا ہوتے ہی وہ خود مرجاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس بچے کی بھی پرورش کرتا ہے۔ بیان کیا ہے کہ جب اس بچے کے پیدا ہونے کا زمانہ آتا ہے تو اس کے ماں باپ اس کے لئے پہلے سے اتنا غلہ اکٹھاکردیتے ہیں جو اس کو خود کفیل ہونے تک کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح شیر کے بچے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ جب یہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے جسم پر ایک قسم کا لعاب ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کو چیونٹیاں چپٹ جاتی ہیں، لیکن شیرنی اس سے بچانے کے لئے اس کو جگہ جگہ منھ میں لئے پھرا کرتی ہے۔
اسی طرح بطخ کا معاملہ ہے اس کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی پانی پر تیرنے لگتا ہے۔ غرض کہ مخلوقِ خداوندی میں ہزاروں اور لاکھوں مخلوق ہیں، ہر مخلوق کی تربیت اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے۔ اگر اس کی تربیت حاصل نہ ہو تو سب کے سب فنا ہوجائیں۔
اس کے بعد مولانا نے اس مضمون کو نہایت تفصیل سے بیان فرمایا اور آخر میں ان دینی تربیت گاہوں یعنی مدارس کی ضرورت اور ان پر صرف کرنے کی فضیلت کو نہایت تفصیل سے بیان فرمایا۔ جزاہم اللّٰہ خیرا واحسن خیرا۔
میں اپنے ان محترم مہمانوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری ادنیٰ سی دعوت کو شرفِ قبولیت بخشا اور میرے اس مدرسہ کے سالانہ اجتماع میں شرکت فرمائی۔
عزیز الرحمن غفرلہ
مدینہ: ۵/اپریل ۱۹۶۳؁ء

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری

از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:60

ذکر کی فضیلت​

حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحبؒ کی ایک تقریر​

شیخ الاسلام مولاناسید حسین احمد صاحبؒ نے یکم مارچ ۱۹۵۷؁ءکوبجنور میں یہ تقریر فرمائی تھی جس کو حضرت والد صاحبؒ نے قلمبند فرمایا تھا اور مدینہ اخبارمیں شائع ہوئی تھی کیونکہ ایک علمی اور تاریخی امانت ہے اس لئے قارئین کے استفادہ کی غرض سے شامل کتاب کیا جاررہا ہے۔ قارئین سے در خواست ہے کہ اپنی دعاؤں میں فراموش نہ فرمائیں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ کَفیٰ وَسَلامٌ عَلیٰ عِبَادِہ الَّذِینَ اصَطَفیٰ امَّابَعدُ!
محترم بزرگو !اور بھائیو!
اس وقت کی تقریر کے واسطے میرا کوئی وعدہ نہ تھا مگریہاں خلاف وعدہ کے حکم کیا گیا ۔وقت گزر چکا ہے ہم کو سفر بھی درپیش ہے چند منٹ کے واسطے بہت مختصر اور سب سے زیادہ مفید بات عرض کروں گاآقائے نامدار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ۔
ما عمل ابن آدم من عمل انجی آدم کے بیٹے کا کوئی عمل اس کو اللہ تعالیٰ
لہ من عذاب اللہ من ذکر اللہ ، کے عذاب سے اتنا نجات دلانیوالا نہیں جتنا
اللہ تعالیٰ کا ذکرہے۔
صحابہؓنے عرض کیا کہ کیا جہاد سے بھی زیادہ نجات دلانے والاہے ؟ظاہر ہے کہ جہاد میںراحت وآرام کو قربان کرنا پڑتا ہے اور اپنے تن دھڑاور جان کی بازی لگانی پڑتی ہے اس وجہ سے صحابہؓ کو شک ہوا کہ ذکر سے اس قدر فائدہ نہ ہونا چاہئے کہ جتنا غزوہ وجہادسے ۔اس لئے کہ دشمن کا سامنا کرنے میں نہایت تکلیف ہوتی ہے اور بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس وجہ سے انہوںنے پوچھا کہ کیا جہاد سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کاذکر اس کے عذاب سے نجات دلاتاہے ۔اللہ کے ذکر میں تو اتنی مشقتیں نہیں ہیں جتنی کہ جہاد میں تو حضو رصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگرچہ جہاد کرنے والاغازی خون سے لت پت ہوجائے ،اور اس کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ جائے اور اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں وہ شخص بھی اس قدر خدا کی خوشنودی حاصل کرنے والا نہیں جس قدر خدا کا ذکر کرنے والا افضل ہے ۔روایت نہایت قوی ہے ،امام مسلم ابوداود وغیرہ نے نقل کیا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں با وجود آسانیاں ہونے کے اور جہاد میں بڑی بڑی تکلیفوں کا سامنا ہونے کے اللہ تعالیٰ کو ذکرکس قدرپسند ہے اور اتنا پسند ہے کہ فرضوں کے بعد کوئی عبادت اتنی پسندیدہ نہیں ہے۔قرآن شریف میں ہے۔
{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنْوا اذْکُرُواللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْراً الخ}
اے ایمان والو اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو۔
اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔نماز فرض ہے مگر اس کی حد مقررہے پانچ وقت کی نماز فرض ہے اگرچہ پہلے پچاس نمازیں فرض تھیں مگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے کم کردی گئیں مگر ثواب پچاس نمازوں کی برابر رکھا ۔جس وقت حضورصلی اللہ علیہ وسلم معراج سے نماز کے تحفہ کو لیکر چلے تو فرمایا’’تلک خمس وعندی خمسون ‘‘یہ پانچ ہیں اور ہمارے نزدیک پچاس ہیں،اور وہی پچاس کے برابر ثواب دیں گے {لاَ یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ}یعنی ہمارا قول بدلا نہیں جاتا ۔ہم نے جو ارادہ کیا تھااب بھی وہ باقی رکھا ہے کہ پوری پچاس نماز وں کا ثواب ملے گا۔
تودوستو!اسی طرح کی روزہ کی حد مقرر کی گئی ہے کہ سال بھر میں ایک ماہ رمضان المبارک کے روزہ فرض ہیں،زکوٰۃ کی حد مقرر کردی گئی،چالیس میں ایک ،سومیں ڈھائی ،یعنی چالیسواں حصہ فرض ہے ۔حج کی حد مقرر ہے تمام عمر میں صاحب استطاعت لوگوں پر ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے۔مگر اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کوئی حد مقرر نہیں،تو بہت زیادہ زکر ہونا چاہئے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کویادکرتے رہنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{وَاذْکُرْواللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْداً} کھڑے کھڑے بیٹھے بیٹھے اللہ تعالیٰ کا ذکرکرو،کسی وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل مت ہو۔
اور چیزوں کے لئے تو شرائط اور پابندیاں ہیں ،نماز کے لئے شرط لگائی گئی کہ با وضو ہو کر کعبہ کی طرف کھڑے ہو ،اگر پورب کی طرف یا دکھن کی طرف منہ کرکے پڑھ لی تو نماز جائز نہ ہوگی اگر زمین ناپاک ہو یا کپڑے ناپاک ہوںیا جنابت کی حالت ہو تو نماز درست نہ ہوگی،مگراللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے کوئی قید نہیں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں،کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہِ وسلّم یَذکُراللّٰہ عَلی کل احیانٍ (الحدیث) (جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے تھے) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: تنا م عینائی ولا ینام قلبی (الحدیث) (یعنی میری آنکھیں سوتی ہیں میرا دل نہیں سوتا)۔ بہر حال تو ذکرکے لئے کس قدر آسانیاں ہیں کہ ذکر اللہ کے عذاب سے نجات دلانیوالا ہے اور کوئی عبادت نہیں۔
ذکر کرنے کا حکم جہاد کرتے وقت بھی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
{ یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}
یعنی جب تمہاری مڈبھیڑ دشمن سے ہو تو جم جاؤاور خدا کا ذکر کرو۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک بدوی نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کے احکام تو بہت ہیں مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو سب سے زیادہ مفید ہو۔تو آپ نے ارشاد فرمایاکہ:لا یزال لسانک رطباً بذکراللّٰہ،یعنی ہر وقت تیری زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تروتازہ رہے۔یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہوکبھی اس سے غافل نہ رہو آقائے نامدار جناب رسول اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: من کان آخر کلامہٗ لاالہ الااللّٰہ دخَلَ الجنّۃَ،یعنی وہ شخص جنت میں داخل ہوجائیگا کہ جس کا آخری کلام لا الہ الااللہ ہوگا۔اس کی کوشش کیجئے اور دعا کیجئے کہ اللہ ہم تمام حاضرین کا خاتمہ ایمان پر کرے ۔رسول اکرم ﷺاللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں: من ذکرنی فی نفسہ ذکرتہ فی نفسی ومن ذکر نی فی ملائٍ ذکرتہٗ فی ملائٍ خیرمن ملا ئہ۔ اوکما قال علیہ الصلاۃ والسلام (جو شخص میرا ذکر کسی مجمع میں کرتا ہے تو میں اس سے اچھے مجمع میں اس کا ذکر کرتاہوں)۔
دنیا کے راجاؤں اور بادشاہوں کی حالت تو یہ ہے کہ وہ رعیت کی پرواہ بھی نہیں کرتے جب ان کو کوئی ضرورت ہوتی ہے تب خبر لیتے ہیں ورنہ فکر بھی نہیں ہوتی دنیا کے حاکم تو بے وفا ہیں جیسا کہ الیکشن کے زمانہ میں تو بھاگے بھاگے پھرتے ہیں پھر خبر نہیں لیتے مگر اللہ تعالیٰ سب کا خیال رکھتا ہے۔ {فَاذْکُرْوْنِی اَذْکُرْکُمْ} الآیۃ رب العالمین سبحانہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے تم مجھ کو یاد کرو میں تم کو یاد کروں گا۔
دوستو…! اگر وہ کسی کو یاد کرتا ہے تو کیا اس بندہ کو کوئی مصیبت لگ سکتی ہے ،دوستو تم اپنے جھوپڑے میں بیٹھے بیٹھے اللہ اللہ کرتے رہو اس کی توجہ تمہارے ساتھ رہے گی انا عند عبدی متی تحرکت شفتاہ،یعنی میں اپنے بندے کے ساتھ رہتا ہوں جب تک اس کے ہونٹ ہماری یاد میں ہلتے رہتے ہیں، مَنْ کانَ لِلّٰہِ کانَ اللّٰہُ لہٗ، جو اللہ کا ہو جاتاہے اللہ اس کا ہو جاتا ہے، ’’جو ہَرکو جَپے وہ ہر کا ہوئے‘‘ہندی میں جپنا یاد کرنے کو کہتے ہیں اور ہر خدا کو کہتے ہیں ۔حدیث میں مذکور ہے :انا جلیس من ذکرنی،یعنی ہم کو جو یاد کرتاہے ہم اس کے پاس ہوتے ہیں۔جس طرح تمہارے پاس بیٹھنے والا تمہاری ہر قسم کی امدادکرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی تمہاری خبر گیری کرتا ہے اور وہ وعدہ کرتا ہے اس سے بڑھ کر وعدہ کا سچا کوئی نہیں ہے فرماتے ہیں من تقرب الیّ شبراًالخ جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اسکی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور جو میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تومیں ایک گز بڑھتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑکر آتا ہوں۔
اسی اللہ کے ذکر سے اولیاء اللہ بڑے بڑے مرتبہ کو پہنچے اور اسی ذکر کی و جہ سے انھوں نے بڑی بڑی کرامتیں دکھلائیں جن کودیکھ دیکھ کر ہندوستان کے ہندو مسلمان ہوئے ہندوستان اور پاکستان میں گیارہ کروڑ مسلمان ہیں یہ سب باہر سے نہ آئے تھے باہر سے تو صرف چار لاکھ مسلمان آئے ہیں مگر یہ گیارہ کروڑاولیاء اللہ کی جدو جہد سے مسلمان ہوئے انہوں نے لوگوں کو سمجھایا ، کرامتیں دکھائیں ۔حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒکے متعلق ایک عیسائی مؤرخ کہتا ہے کہ ان کی کوششوں کی وجہ سے ۹۰لاکھ مسلمان ہوئے ۔خواجہ کے پاس کوئی خزانہ نہ تھا کوئی فوج نہ تھی مگر ذکر کی کثرت کیو جہ سے ان سے بڑی بڑی کرامتیں صادرہوئیں او ر لوگ مسلمان ہوئے۔کپڑے پر صاف پانی کی ایک بوند کانشان پڑجاتا ہے اور معلوم ہونے لگتا ہے، تو آپ کادل تو نہایت پاک وصاف تھا، خدا کے عشق میں ذرا سی غفلت ہوگئی تو استغفار فرمایا کرتے تھے، چونکہ آپ کو تبلیغ وجہاد اور دوسرے کام بھی کرنے پڑتے تھے لیکن آپ کو جس قدر انہماک اللہ تعالیٰ کے عشق سے تھا اس کے تقاضے کی وجہ سے آپ ذرا سی غفلت پر بھی استغفار کرتے تھے، اور ہمارے دل تو سیاہ کپڑے کی طرح گناہوں سے سیاہ ہیں۔
توبہرحال آپ ہر مجلس میں استغفار کیا کرتے تھے اور ہم کبھی استغفار نہیں کرتے ہیں اور غرور کی و جہ سے اکڑتے رہتے ہیں گویا کہ بڑے بھارے ولی ہیں۔
میرے بھائیو! اگر تمہارے یہاں دو روز بھنگن نہ آئے تو خانہ گندگی سے بھر جاتا ہے اور مکان سڑنے لگتا ہے، ہمارے دلوں میں تو پاخانہ سے بھی زیادہ گندگی بھری پڑی ہے، تو میرے بھائیو استغفار کی کثرت کرو اللہ تعالیٰ کانام کثرت سے لیا کرو انشاء اللہ دل کی گندگی دور ہوجائے گی۔
دوستو! تم تو معمولی سے جہاد سے گھبراتے ہو۔ انگریز کے زمانے میں چند سرپھرے تھے کہ جنھوں نے ملک کو آزاد کرایا اور اللہ تعالیٰ نے ہم کو غلامی سے نجات دلائی۔ تو ذکر اللہ سے بہت سے خطروں سے نجات مل جاتی ہے۔
میرے بھائیو! ذکر سے غافل نہ ہو، دنیا چند روزہ ہے، اس دنیا میں چند دن کے لئے آئے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوتَ والْحَیاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً} اللہ تعالیٰ نے حیات ہم کو اچھے کاموں کے لئے اور امتحان کے لئے عنایت فرمائی ہے کہ کون اچھے کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانتا ہے۔ شریعت یہ نہیں کہتی ہے کہ تم اپنے کاروبار کو چھوڑ دو بلکہ کام بھی کرو اور اللہ تعالیٰ کو بھی یاد رکھو ۔ دل بیاد،تن بکار۔ دل کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور بدن کو کام کے ساتھ لگائے رکھو۔ {لاَ تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَ لاَبَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ} الخ۔ یعنی ان کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے خرید وفروخت اور تجارت غافل نہیں کرتی ہے۔
تو دوستو! اللہ کے ذکر کی عادت ڈالو۔ اس سے غافل مت رہو۔ بیماری میں، جاگتے میں، سوتے میں ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
(مدینہ: ۹/مارچ ۱۹۵۷؁ء)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم

(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:61

مُحــرَّمُ الحَـــرام​

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کَفیٰ، وَسَلاَمٌ عَلیٰ عِبَادِہ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ۔ أَما بعد!

مسلمانوں میں ماہ محرم الحرام جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین ؓکی شہادت کی وجہ سے متعارف ہے اور جہال اس ماہ مکرم کو نہایت ہی منحوس سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دونوں چیزیں غلط ہیں ۔نہ حضرت حسین ؓ کی شہادت کی وجہ سے اس ماہ مکرم کو بزرگی حاصل ہے اور نہ یہ ایسا ہے جیسا کہ جہال نے تصور کر رکھا ہے ۔حضرت شیخ شہاب الدین ابن حجر الھیشمی المصری مفتی مکہ معظمہ نے اپنی تالیف ،الصواعق المحرقہ ،میں تحریر فرمایاہے:
إعْلَمْ اَنّ مَااُصِیبَ بِہ الحسنُ ؓ فِی عَاشُورآئَ إنّما ھُو الشّھادۃُ الدالّۃُ علیٰ مَزیدِ خَطراتِہ ورفعۃ درجتِہ عِندَ ربِّہٖ والحاقِہ بِدرجاتِ أھلِ بیت الطاھرین۔
یعنی حضرت حسینؓ کے ساتھ ماہ محرم کے یوم عاشورہ میں جوواقعہ پیش آیاوہ ان کی شہادت ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کے علو منزلت اور دراجات اعلیٰ اور ان کو اہل بیت کے مراتب بلند میں ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
ماہ محرم الحرام جیسا کہ اب مکرم ومعظم ہے ایسا ہی واقعہ کربلا کے وقت مکرم تھا ۔ قرآن پاک بیان فرماتاہے ۔
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَاللّٰہِ اثْنَاعَشَرَ شَھْراً فِی کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ القَیِّمُ۔
کتاب اللہ میں اللہ تعالیٰ کے یہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے جس دن آسمان اور زمین کو پیدا کیاہے ،ان میں سے چار مہینہ بزرگی والے ہیں یہی دین سیدھا اور سچا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ مکرم کو اللہ تعالیٰ کا مہینہ فرمایا ہے
بہرحال یہ مکر م و معظم ماہ ،حضرت حسینؓ کی شہادت سے پیشتراپنی عظمت وبرکت کی وجہ سے مشہور ہے اورامم سابقہ میں مختلف اسماءسے مشہور وموسوم رہاہے۔مسند نبراروویلمی میں ایک روایت حضرت ابن عمرؓ کی سند سے منقول ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
یوم عاشوراء عید من قبلکم فصوموہٗ۔یوم عاشورہ تم سے پہلی امتوں کی عیدہے لہٰذاتم اس کا روزہ رکھو ۔دوسری حدیث میں ارشاد ہے :
عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صام یوم الزینۃ ادرک مافاتہ من صیام السنۃ یعنی عاشوراء
یعنی جس نے یوم زینت کا روزہ رکھا اس نے سال بھر کے کھوئے ہوئے روزوں کا ثواب پایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یوم عاشورا کو یوم زینت فرمایاہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دن یوم زینت کے نام سے موسوم تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عاشورا کے نام سے موسوم اور مشہور ہوا۔
جامع الاصول کی ایک روایت جو حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
قالت کانوا یصومون عاشوراء قبل ان یعرض رمضان وکان یوما تستر فیہ الکعبۃوقالت فی اخری کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصومہٗ فی الجاہلیۃ فلماقدم المدینۃصامہٗ وامر بصیامہ فلمافرض رمضان ترک عاشوراء فمن شاء صامہ امن شاء ترکہ ۔(رواہ بخاری ومسلم)
یعنی رمضان کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتاتھا اور اس دن کعبہ کو غلاف پہنایاجاتاتھا۔
دوسری روایت میں فرماتی ہیں کہ قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزہ رکھتے تھے ، اور آپ نے اس دن کے روزہ کا حکم بھی فرمایاہے۔ جب رمضان کی فرضیت ہوئی تو عاشورا کے روزہ کی فرضیت ترک کردی گئی،اور اس روزہ کا اختیار دیدیا گیا جو چاہے رکھے اور جوچاہے نہ رکھے ۔
بخاری اور مسلم کی ایک دوسری روایت ہے:
عن ابی موسیٰؓ قال: کان یوم عاشوراء یوم یعظمہ الیہود ویتخذونہ عیداً فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: صوموہ أنتم۔ وفی روایۃ: کان اھل خبیر یصومون یوم عاشوراء ویتخذونــہ عیــداً ویلبسون نساء ھم فیہ حلیہم وثیابہم فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فصوموہ انتم۔ (اخرجہ البخاری ومسلم)
حضرت ابو موسیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ یہود نے یوم عاشورا کو اپنی عید بنا لیا تھا ، وہ اس دن کی بہت تعظیم کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس کا روزہ رکھا کرو، دوسری روایت میں ہے کہ اہل خیر اس دن روزہ رکھتے تھے اور اس دن کو عید مناتے تھے اس دن انکی عورتیں کپڑے اور زیورات پہناکرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ مسلمانو!تم اس دن روزہ رکھا کرو ۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے جوحدیث مروی ہے اس میں اس کی و جہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ اس تاریخ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی اس و جہ بنی اسرائیل اس کو یوم صالح کے نام سے یاد کرتے تھے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ارشاد فرمایاہے کہ: انا احق بموسیٰ منکم فصامہ وامر بصیامہ یعنی تمہارے مقابلہ میں حضرت موسیٰ کی اقتداکے لئے میں زیادہ مستحق ہوں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا۔
بخاری ومسلم اور ابوداؤد کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے۔ فصامہ موسیٰ شکراً فنحن نصومہٗ تعظیماً۔ یعنی موسیٰ علیہ السلام نے بطورشکریہ کے(کہ اس دن فرعونیوں سے نجات ملی تھی اور لشکر فرعون غرق ہوا تھا )اس دن روزہ رکھا تھا میں تعظیماًاس کا روزہ رکھتا ہوں علاوہ ازیںاس دن کے سلسلہ میں محدثین نے مختلف احاد یث نقل کی ہیں جن میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس دن نوح علیہ السلام کو طوفان سے نجات ملی تھی ،اور ان کا سفینہ کوہ جودی پر جا کر ٹھیر ا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی،یونس علیہ السلام کی قوم کو خدا کے عذاب سے نجات ملی ، بنی اسرائیل کو اس دن فرعون سے نجات ملی ۔ لشکر فرعون دریا برد ہوا ۔اس دن حضرت ابراہیم ؑاور حضرت عیسیٰ ؑپیدا ہوئے وغیرہ وغیرہ، ہم نے بخوف طوالت ان احادیث کا ذکر نہیں کیا ۔
بہر حال ان تمام احادیث اور دیگر احادیث سے یوم عاشورہ کی فضیلت ثابت ہے۔ حضرت حسینؓ کی شہادت کو اس فضیلت میں کوئی دخل نہیں ہے جیسا کہ اوپر گزرچکاہے۔ مزید برآں وہ سب خرافات ہیں جو اس دن کی جاتی ہیں ،مثلاًتعزیہ داری،سینہ کوبی ،شوروغل،باجا گاجا، وغیرہ ۔ یہ سب کی سب حماقت کی دلیل ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ حضرت حسینؓ کی شہادت عظمیٰ کادرد انگیز واقعہ ہو اور اس کو اس طرح خرافات کے ساتھ منایا جائے۔
مسح الرسول جبینہ فلہ بریق فی الخدود
ابـواہ من علیـاقریـش وجدّہٗ خـیرالـجدود
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا ،آپ کے باپ اور دادے
اوپر سے قریش ہیں،اور تمام مخلوق میں سب سے افضل ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت حسینؓ کی شہادت کے بعد قاتلان حسینؓ میں سے ایک جماعت نے جن کو تاریخ نے توّابین کی جماعت کے نام سے یاد کیا ہے ۔ کربلا جاکر مزار حسینؓ پر کھڑے ہوکر اپنے سروںپر مٹی ڈالی اور سینہ کوبی کی تاکہ قتل حسینؓ کا سیہ داغ انکی پیشانی سے دھل جائے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فقہا نے اس سلسلہ میں جو احکامات بیان فرمائے ہیں ان کو نقل کردیا جائے۔
عن ذکر ذلک الیوم مصابۃ لا ینبغی ان یشغل الا بالاسترجاع امتثالاً للأمر واحرازًا لما رتبہ اللّٰہ تعالیٰ علیہ بقولہ {اُوْلٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّاُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ} ولا یشغل ذلک الیوم الا بذلک ونحوہ ومن عظائم الطاعات کالصوم ایاہ ثم إیاہ ان یشغل ببدع الروافضۃ ونحوہم من الندب الناحۃ والحزن اذ لیس ذالک من اخلاق المؤمنین واولا لکان یوم وفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اولیٰ بذٰلک واحری ۔الخ (ایام السنۃ ،ج۱ص۱۵)
یعنی جو شخص اس دن کی مصیت کو یاد کرے اس کے لئے لائق ہے کہ استرجاع کرے تاکہ امتثالِ امر خداوندی ہو اور اس ثواب کا مستحق ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {اُوْلٰئِکَ عَلَیْہِمْ}الخ اور اس دن روافض وغیرہ کی خرافات (گریہ وبکا، رونا دھونا نہ کرے) کیونکہ ایسا کرنا مومنین کی عادت وخصلت میں سے نہیں ہے بلکہ اس دن طاعت جیسا کہ روزہ وغیرہ میں لگارہے، کیونکہ اگر رونا پیٹنا کوئی اچھی چیز ہوتی تو آنحضرتؐ کی وفات کا دن اس کا زیادہ مستحق ہے۔ إنا لِلّٰہ وإنّا إلَیہ راجعون۔ فقط۔ وما علینا إلا البلاغ، وآخِرُ دعوانا أن الحمدُ لِلّٰہ ربّ العالمین ۔ (مدینہ:یکم اگست ۱۹۵۷؁ء)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​
[align=center]از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)
[/align]


قسط:62

چار چالیس
ایک قلمی کتاب کے جواہر پارے

ایک دن میں اپنی کتاب ’’وصایا‘‘ کے لئے ورق گردانی کررہا تھا(یہ کتاب ان شاء اللہ بہت جلد طبع ہورہی ہے) کہ اپنے ایک کرم فرما کے پاس سے حکیم رحیم اللہ صاحب مرحوم ومغفور تلمیذ خاص حضرت قاسم العلوم والخیرات مولانا نانوتویؒ بانی ٔ دارالعلوم دیوبند کی ایک قلمی بیاض کے چند صفحات دستیاب ہوگئے۔ یوں شمار میں تو دس بارہ ہی صفحات تھے لیکن قدر ومنزلت میں اس مضمون کے پڑھنے کے بعد اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
حکیم صاحبؒ بجنور خاص کے باشندے اور صاحب کمال لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس تعارف کے بعد کہ وہ حضرت نانوتویؒ کے شاگردِ رشید تھے اور ان کے ساتھ مناظرۂ شاہجہاں پور میں شریک ِ مناظرہ تھے، کسی لمبے چوڑے تعارف کی احتیاج باقی نہیں رہتی ہے۔ حکیم صاحب موصوف مرحوم صاحب ِ تصانیف کثیرہ ہیں۔ عربی، فارسی، اُردو میں کافی تعداد میں کتابیں آج بھی ان کی نشانی ہیں جن کے کچھ نسخے آثارِ قدیمہ کے طور پر میرے مدرسہ کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔ موصوف کی یادگار ایک مدرسہ رحیمیہ ہے جس کی نشأۃِ ثانیہ اب مدرسہ عربیہ رحیمیہ مدینۃ العلوم بجنور کے نام سے ہوئی ہے اور جس کی سعادت خداوندِ قدوس نے میرے مقدر میں فرمائی تھی یہ بھی انھیں کی یادگار ہے۔
حکیم صاحب موصوفؒ کو دیکھنے کا تو اتفاق کہاں سے ہوتا ہاں آج بھی بجنور میں ان کے دیکھنے والے موجود ہیں۔ انہیں کی زباں سے موصوف کے کمالات علمی اور روحانی سننے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔ کیا خوب لوگ تھے آج اس قسم کے حضرات سے دنیا تقریباً خالی سی نظر آرہی ہے۔
حکیم صاحب موصوفؒ نے تمام عمر تجرد کی حالت میں گزار دی۔ بڑے باوضع اور پابند اوقات بزرگ تھے۔ فن طب میں کمال حاصل تھا، اس کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے میں صاحب حکمت حضرات کے ساتھ کسی منصب پر فائز تھے، جس کے متعلق بہت سے عجیب وغریب واقعات سننے میں آتے ہیں۔
بہرحال یہ چند اوراق میرے نزدیک اس قدر قیمتی اور محبوب ہوں گے اس کا اندازہ مضمون سے ہوگا ان اوراق کے بیشتر حصے کو میں نے اپنی تالیف کی زینت بنادیا ہے۔ حکیم صاحبؒ نے یہ جواہر پارے کہاں سے حاصل کئے تھے؟ اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ البتہ ابتداکی چند سطور سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی کہیں سے ان کو حاصل کیا تھا فرماتے ہیں۔
’’ بداںکہ ایں رسالہ ایست مشتمل بر آں کہ حکمااز کتب قدما اختیار کر دندوفوائد بسیار در ضمن ہر حرفے مرقوم میشوداز ہر امرے کنزے وازہر اشارتے بشارتے مستفاد است وایں رسالہ موسوم است بہ تحفت الملوک ومنسوب بہ چہل باب وہر باب چہار نصیحت‘‘
لہٰذا اب ان چالیس ابواب کو کہ جس کے ہر باب میں چار جواہر پارے ہیں۔ہدیۂ قارئین کیا جارہاہے ۔امید ہے کہ فائدہ بسیار ہوگا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے ۔حکمت ودانائی کی بات گمشدہ جواہر پارے کی دستیابی سے زیادہ قیمتی ہے ،او کما قال)بس اسی نیت سے ان گم شدہ اوراق کو کہ جن پر نہ معلوم کتنے زمانہ گزر گئے ہیںآج پھر اخبار مدینہ کے کالموں کے سپرد کررہا ہوں تاکہ ان کلمات کے احیاء اور مؤمنین کے فائدہ میں میرا بھی کچھ حصہ ہوجائے۔
(۱)بادشاہ کو یہ چار چیزیں لازم ہیں۔ ۱- دین کی رعایت اور محافظت۔ ۲-وزیر امین باتمکین۔ ۳-ارادے کی حفاظت۔ ۴-ہر امر میں احتیاط کا پہلو۔
(۲)یہ چار چیزیں بغیر چار چیزوںکے حاصل نہیں ہو سکتیں ۔(۱)حکومت بغیر عدالت کے(۲)محبت بغیر تواضع کے (۳)دشمن ہلاک نہیںکرسکتا مگر دوستی سے (۴)مراد بلا صبر کے۔
(۳) ان چار چیزوں کیلئے چارچیزیں لازم ہیں ۔(۱)بادشاہی کے لئے سیاست (۲)وزیر کے لئے امانت (۳)رعیت کے لئے رعایت (۴)لشکر کے لئے تربیت ۔
(۴) ان چار چیزوں کو چار چیزوں کی ضرورت ہے۔(۱)بادشاہ کو وزیر دانا کی (۲)بہادر کے لئے ہتھیار کی(۳)علم کے لئے عمل کی (۴)وعدے کیلئے وفا کی۔
(۵) ہر آدمی کو ان چار چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے (۱)عقلمند دوست (۲)بھائیوں کے ساتھ نیکی (۳)بستیوں کی آباد کاری کے لئے کوشش،(۴)خلق خدا کے ساتھ بخشش۔
(۶)کسی کو ان چا ر چیزوں کا ارتکاب نہ کرنا چاہئے (۱)نا اہلوں کو کام سپرد کرنا (۲)نا اہلوں کے ساتھ نیکی(۳)نیکوں کے ساتھ بدی (۴)گناہ میں جلدی۔
(۷) یہ چار چیزیں ہر آدمی کو اختیار کرنی چاہئے۔(۱) تمام مخلوق کے ساتھ نیکی (۲)عدالت وراستی(۳)عقل وخرد (۴)صبروسکون ،شرم وحیا ۔
(۸) ان چار چیزوں سے پرہیز کرنا چا ہئے تا کہ مخلوق محبت کرنے لگے (۱)بغض وحسد(۲)عجب ونخوت(۳)خشم وغضب(۴)نماز کے لئے سستی۔
(۹) یہ چار چیزیں آفت ہیں(۱)بادشاہ کے لئے غفلت (۲)امیروںکے لئے خیانت (۳)منشیوں(اہل دفتر)کے لئے گستاخ ہونا(۴)حقیر کے لئے اعلیٰ مرتبہ۔
(۱۰) چار آدمیوں کیلئے چار چیزیں لازم ہیں(۱)بادشاہ کے لئے مظلوم کی حمایت (۲)جماعتوں کے لئے ہشیاری(۳)انسانوں کے لئے پیار(۴)دوستوں کے لئے نیکی۔
(۱۱) ان چار چیزوں سے قیام حکومت ہوتاہے(۱)عدالت وشجاعت(۲)مروت ورعب(۳)سخاوت وعطایا(۴)شفقت بر رعیت۔
(۱۲) یہ چار چیزیں نیک بختی کی موجب ہیں(۱)اصل پاک۔ (۲)دل پاک۔ (۳)ہاتھ پاک (۴)رائے مستقیم۔
(۱۳) یہ چارچیزیںموجب جمعیت ہیں(۱)امینت(۲)نعمت(۳)مراجعت (۴)استقامت۔
(۱۴) یہ چار چیزیں دولت کا باعث ہیں: (۱)عقلمند بیوی۔ (۲)تائید خداوندی۔ (۳)احکام پسندیدہ۔ (۴)امام برگزیدہ۔
(۱۵) یہ چار چیزیں موجب بدبختی ہیں’۱‘کاہلی’۲‘جاہلی’۳‘ناکسی ’۴‘بے کسی۔
(۱۶) یہ چار چیزیںہر آدمی کے لئے شرط ہیں۔’۱‘اطاعت’۲‘نصیحت ’۳‘شفقت’۴‘امانت۔
(۱۷) یہ چار چیزیںموجب شاد مانی ہیں ’۱‘شاہی عنایت’۲‘دعائے زاہد ’۳‘بیان بزرگاں’۴‘زیارت دوستاں۔
(۱۸) جس کو یہ چار چیزیںحاصل ہوںاس کو مغرور نہ ہونا چاہئے’۱‘قرب سلطاں’۲‘زہد زندہ داراں’۳‘حاسدوںکی نصیحت’۴‘دنیا کی دوستی۔
(۱۹) جس کو یہ چار چیزیں حاصل ہیں اس کے تمام کام پورے ہوں گے۔ ’۱‘ بزرگوں سے ملاقات’۲‘دوستوں کی نصیحت’۳‘واقعات میں غور و فکر ’۴‘راست بازوں کی پرورش۔
(۲۰) یہ چار چیزیں بیوقوفی کی علامت ہیں’۱‘عجب وتکبر’۲‘عیب ڈھونڈنا’۳‘بخل کرنا۔ ’۴‘بیوقوف سے امید خیر رکھنا۔
(۲۱) یہ چار چیزیں نیکی کی علامت ہیں’۱‘قول راست ’۲‘عہد درست’۳‘تواضع ہمہ حال’۴‘کمال پیدا کرنے میںکوشش ۔
(۲۲)یہ چار چیزیں شقاوت کی علامت ہیں’۱‘ جاہلوں کے ساتھ صحبت’۲‘بدوں کے ساتھ نیکی’۳‘جاہلوں سے نصیحت حاصل کرنااور بکواس سننا’۴‘عورتوں کی باتوں پر عمل کرنا۔
(۲۳)ان چار چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے’۱‘عجب وکبر’۲‘خشم وغضب’۳‘بخل وامساک’۴‘شتاب وتعجیل۔
(۲۴) یہ چار چیزیں موجب ہلاکت ہیں’۱‘خبث وغیبت’۲‘تکبرونخوت ’۳‘حسد وحماقت’۴‘طمع وشہوت۔
(۲۵) یہ چار چیزیں موجب ترقی ہیں’۱‘وہم وآسائش’۲‘ترک ہواوہوس۔ ’۳‘اختیار لطف’۴‘تحمل در قضااور شکر بر عطا۔
(۲۶) ان چار چیزوں میںتغیر کر ناممکن نہیں ہے’۱‘حکم وقضا کو نا بود کرنا’۲‘باطل کو حق کرنا’۳‘بد خو کو نیک خو کرنا’۴‘خلق کو خوش کرنا۔
(۲۷)کسی کو ان چار چیزوں پر فخر نہ کرنا چاہئے’۱‘دشمن ’۲‘آگ’۳‘تیل ’۴‘نوکری۔
(۲۸)یہ چار چیزیں رکاوٹ ہیں’۱‘ظلم امیر’۲‘خیانت دفتری’۳‘غفلت وزیر ’۴‘ستم بر فقیر۔
(۲۹)ان چار چیزوں کو بقا نہیں ہے’۱‘حاکم ظالم ’۲‘بے عقل وزیر’۳‘مال حرام ’۴‘گردش ایام۔
(۳۰) جس میں یہ چار چیزیں ہیں انعام باری ہیں’۱‘ عقل تام ’۲‘سمجھ کے ساتھ طاعت’۳‘ عمل میں صدق ’۴‘نعمت میں شکر۔
(۳۱)ان چار چیزوں کا انجام یہ چار چیزیں ہیں’۱‘غصہ کا انجام شرمندگی’۲‘لجاجت کا انجام رسوائی’۳‘ بد گوئی کا انجام دشمنی’۴‘کا ہلی کا انجام ذلت وخواری۔
(۳۲) آدمی کو یہ چار چیزیں کمزور کرتی ہیں’۱‘بے شمار دشمن’۲‘قرض کثیر ’۳‘کثرت عیال’۴‘خیال محال۔
(۳۳) ان چار چیزوں سے چار چیزیں حاصل ہوتی ہیں’۱‘خاموشی سے راحت’۲‘فضولی سے ملا مت’۳‘سخاوت سے سرداری’۴‘شکرسے زیادتی۔
(۳۴) یہ چار چیزیں چار چیزون کو لے بیٹھتی ہیں’۱‘شہوت قوت کو ’۲‘بسالت دولت کو ’۳‘نا شکری نعمت کو ’۴‘تکبر مروت کو ۔
(۳۵)یہ چار چیزیں حاصل نہیں ہو سکتی ’۱‘ کہی ہوئی بات ’۲‘پھینکا ہوا تیر ’۳‘قضائے رفتہ’۴‘عمر گذشتہ۔
(۳۶) ان چار چیزوں کو چار چیزیں لازم ہیں’۱‘ سوال کو ذلت ’۲‘انجام کار نہ سوچنے کو شرمندگی’۳‘بیہودہ بکنے کو سبکی’۴‘بادشاہوں کے ساتھ دلیری کرنے کو ہلاکت۔
(۳۷) یہ چار چیزیں نادانی کی علامت ہیں’۱‘ نا تجربہ کارکے ساتھ دلیری ’۲‘ عورتوں سے چشم وفا رکھنا’۳‘لڑکوں کے ساتھ صحبت رکھنا ’۴‘بے وقف پر اعتماد کرنا۔
(۳۸)ان چار چیزوں میں نقصان عمر ہے’۱‘کھانا کھا کر مجامعت کرنا’۲‘کثرت نوم ’۳‘زیادہ پھل کھانا’۴‘عورتوں کے ساتھ صحبت کرنا۔
(۳۹)یہ چار چیزیں چار آدمیوں میں نہ ہوںگی’۱‘جھو ٹے میں مروت ’۲‘بخیل کو سعادت’۳‘حاسد کو راحت ’۴‘بد اخلاق کو سرداری۔
(۴۰)یہ چار چیزیں اصل سعادت ہیں’۱‘اطاعت باری تعالیٰ ومتابعت رسولؐ ’۲‘خوشنودی مادر وپدر’۳‘علماء وصلحا کو خوش رکھنا’۴‘فقراء پر شفقت اور خدا کی مخلوق پر رحم کرنا۔
(مدینہ -۲۱؍ مارچ - ۱۹۶۲؁ء)
 
السلام علیکم
پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:63

اصول دعوت اور تبلیغ​

(۱) { وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃُ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوںکو خیر کی دعوت دے اور، امر بامعروف اور نہی عن المنکر کرے۔
(۲){وَالْعَصْرِ اِنَّ الِانْسَانَ لَفِی خُسْرٍاِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوا بِالصَّبْرِ}
قسم ہے زمانے کی،انسان ٹوٹے میںہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں
نے بھلے کام کئے،اورآپس میںایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
قرآن پاک کی مذکورا بالاآیات میں دو قسم کی دعوت وتبلیغ کا ذکر کیا گیاہے پہلی آیات میں دعوت خصوصی اور دوسری آیات میں دعوت عمومی، یعنی مسلمانوں میں سے ایک جماعت ایسی ہو جس کا کام صرف یہ ہو کہ وہ اس فریضہ کو انجام دیں اگر سب میں سے بعض نے انجام دیا تو یہ فرض کفایہ ہے سب کا ذمہ ساقط ہو جائیگا اور اگر کسی نے بھی انجام نہ دیا تو سب گنہگار قرار پائیں گے ۔
پہلی آیت میں دعوت الی الخیر کے بعد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر ہے جس سے اشارہ ہے کہ دعوت الی الخیر امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر کا نام ہے یعنی نہ صرف بھلائیوںکی طرف بلانا خیر ہے بلکہ لوگوںکو مہلکات سے روکنابھی دعوت الی الخیر ہے ،مثلاًایک طبیب اور معالج جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے تو وہ دو چیزوں کا حکم کرتا ہے ازالۂ مرض کے لئے استعمال ادویہ اور مضرات سے پرہیز،اگر معالج مضرات سے پرہیز نہیں کراتا بلکہ مریض کو اس کی مرضی پر چھوڑدیتا ہے تو یہ خیر نہیں ہے،مریض کے حق میں یہ دونوں چیزیں خیرہیں۔یہی حال انسانی نفوس کا ہے بھلائی اورنیکیاںان کے لئے تقویت روح اور ازالۂ امراضِ روحانی کاکام کرتی ہے ، اور جب کہ برائیاں ابدی تباہی کی طرف لیجاتی ہیں اس لئے انسانوںکوبرائیوں سے روکنا بھی اسی درجہ کی دعوت الی الخیر ہے ۔جس درجہ کی الی الخیر نیکوں کا امر ہے۔داعی اعظم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہؓ کی زندگیوں میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں، ایسا ہرگزنہیں ہے کہ امر بالمعروف تو کیا ہو اور نہی عن المنکر سے اغماض کیا ہو ،جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں لوگوںکو ایمان کی دعوت دی ہے ، وہیں شرک اور کفر سے روکا بھی ہے، قرآن پاک میں بھی ایسا ہی ہے کہ اس نے جہاں ایمان لانے اور اس کے ثمرات کا ذکر کیا ہے وہیں شرک کو {اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ}(شرک بہت بھاری ظلم ہے) قرار دیاہے۔اس لئے داعی الی الخیر کے لئے اس کی دعوت میں یہ دونوں رخ نمایا ہونا نہایت ضروری ہیں ،کیونکہ یہ دونوں چیزیںآیت مبارکہ میں امر کے صیغہ کے تحت مذکور ہیں۔
اور یہ دونوں چیزیں موقوف ہیںاس پر کہ معروفات اور منہیات کا علم ،بھلائی کی ترغیب اور برائی سے بچاؤاس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان دونوں کا علم نہ ہو دعوت الی الی الخیر کیلئے شرط اول یہ ہے کہ داعی عالمِ بالخیر ہو تب ہی وہ معلم بالخیر اور داعی الی الخیر بن سکے گا۔اور تب ہی اس کودعوت کا استحقاق ہوگا۔{وَلَکُمْ فِیٓ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌحَسَنَۃٌ} (تمہارے لئے ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں اسوۂ حسنہ ہے)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سب کے سامنے ہے،وہ ایک طویل مدت تک غار حرامیں ریاضتیں فرماتے رہے اس کے بعدنزول قرآن ہوا تب یہ حکم ہوا:
{یَا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ}
(اے رسول جو چیزآپ پراتاری گئی ہے وہ لوگوںتک پہونچائے)
یعنی اولاًعلم عطاہو ا ثانیاًاس کی دعوت کے لئے حکم ہوا اور یہ تو نہایت واضح تر چیز ہے کہ دعوت اور تبلیغ معلوم کی ہوتی ہے،مجہول کی نہیں۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ داعی جس چیز کی دعوت دے رہا ہے اس پر عامل بھی ہو، اگر ایسانہیں ہے تو اس کو استحقاق دعوت نہیں ہے۔خود گمراہ ہوگا اور دوسروںکو بھی گمراہ کرے گا۔ قرآن کریم میں موجود ہے۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ آیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ

اے ہمارے رب ان میں انہی کا ایک رسول بھیج جو ان پراس کی آیات تلاوت
وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ۔
الآیۃ

کرے اور ان کا تزکیہ نفس کرے اور انکو کتاب وحکمت سکھائے۔
وہ شخص ہرگز تزکیہ نہیں کرسکتا جسکا تزکیہ نہ ہوچکا ہو اور وہ تعلیم کتاب وحکمت ہرگز نہیں دے سکتا جسکو پہلے سے اسکا علم نہ ہو۔ ایسے داعی کے اندر تزکیہ کی صفت ہونا بھی ضروری ہے
آیت ِ ثانی جس میں دعوت عمومی کو کہا ہے اس میں حقیقت یہ ہے کہ دعوت نہیں ہے بلکہ وصیت بالحق اور وصیت بالصبر کا حکم ہے، وصیت اور دعوت میں فرق ہے ہر آدمی داعی نہیں بن سکتا بلکہ یہ منصب خواص ہی کے لئے ہے، وصیت بالحق اور بالصبر میں اتنی سختی نہیں ہے، ہاں اگر آیت ِ مبارکہ کے معنی کو وسعت دے دی جائے تو پھر نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اور یہ بات پہلے جزء ایمان اور عمل صالح کی قید میں موجود ہے۔
ان گزارشات سے مقصود یہ ہے کہ ایک رسالہ مسمیٰ ’’اصولِ دعوۃ وتبلیغ‘‘ اس کے مصنف مولانا عبدالرحیم شاہ دہلویؒ نے مجھے دیا اور فرمایا کہ اس بارے میں میں بھی کچھ سپردِ قلم کروں، دعوت وتبلیغ کے متعلق مختصراً عرض کردیا ہے، رہیں بقیہ چیزیں جو مذکورہ اصول سے ماخوذ ہیں جن کا بیان زائد از ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں رسالہ کے نام سے بھی مجھے اتفاق نہیں ہے کیونکہ رسالہ میں اصول دعوت وتبلیغ کے موضوع پر کم اور علم اور اہل علم کے فضائل پر زیادہ مرقوم ہے۔ علاوہ ازیں بعض خصوصی مجالس اور ملاقاتوں کا تذکرہ بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے مخالفت کا وہم ہوتا ہے وہ مشورہ علیحدہ ہیں لیکن مشوروں کو قبول نہ کرنا یہ مخاطب کے حالات اور اس کی صواب دید پر ہے کیونکہ احتمال ہے کہ عوارضات اور مشکلات کی بناء پر بہترین مشورہ پر عمل نہ کیا ہو۔ (مدینہ: ۵/فروری ۱۹۶۹؁ء)


ہند کا مجاہد جلیل​
اپنے مکتوب اور اقوال واعمال کی روشنی میں​

دارا وسکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسداللہی​

بالآخر ۲/اگست ۱۹۸۲ئ؁ کو ۸/بجے صبح سے قبل ہی وہ خبر سن لی جس کے سننے کو کان کسی قیمت پر آمادہ نہیں ہوتے تھے اور جس کے تصور سے دل ودماغ غیر معمولی طور پر پریشان ہوجاتے تھے، یعنی :
’’آج شب کو سوا تین بجے جب کہ ہر سو رحمت کا نزول ہوتا ہے اور قدسیوں کے پرے کے پرے ہر سو شب ِ زندہ داروں کی تلاش میں پھرا کرتے ہیں ایک باسٹھ سالہ مجاہد اعظم جو تینتالیس سال سے برابر جہاد کررہا تھا، جس کی سیف ہمت نے فرنگیوں کو ناک چنے چبوادئیے تھے اور جو ۱۹۴۷؁ء سے فرقہ پرستوں کے خلاف صف آراء اور مظلوموں کا پشت پناہ بنا ہوا تھا، اور جو فروری ۱۹۶۲؁ء سے موت سے لڑ رہا تھا اس کی مقدس روح کو فرشتے رحمت کے سائے میں اپنے ساتھ لے گئے اور ہمیشہ کیلئے جوارِ رحمت کا ہم نشین بنادیا ‘‘ ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے​
آخر کیا کہیں؟ اور کس سے کہیں؟ سب یہی کہہ رہے ہیں اور سب یہی سن رہے ہیں، ایک ہی آواز ہے جو بالاتفاق سب کی زبانوں سے نکل رہی ہے سب ایک ہی غم میں مبتلا ہیں پھر کہیں تو کس طرح کہیں؟ کہاں سے زباں لائیں اور کہاں سے قلم؟ تاہم ملک وقوم کی ایک امانت یعنی حضرت مجاہد ملت رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ خطوط اور مختلف صحبتوں کی کچھ باتیں میرے پاس ہیں ان کو ملک وقوم کے حوالے کرتا ہوں
ن
ہ سکوں ہے نہ قرار ہے نہ غم والم کی شمار ہے
یہ نظر جو آتا مزار ہے وہ حبیب اس میں سما گئے​

چند مکتوباتِ گرامی​
ادھر کچھ عرصہ سے مجھے ہندوستان کی مقتدر ہستیوں کے مکتوبات جمع کرنے کی عادت ہوچلی تھی، اس سے پیشتر بہت سے قیمتی خطوط لاپرواہی سے اِدھر اُدھر ڈال دئیے۔ حضرت مجاہد ملت رحمۃ اللہ علیہ سے بھی عرصہ سے مکاتبت رہی۔ موصوف کے کچھ خطوط محفوظ ہیں جن کو پیش کرتا ہوں۔
جون ۱۹۶۱ئ؁ میں موصوف بجنور تشریف لائے تھے۔ درمیانِ تقریر میں یا نجی مجلس میں ایک صاحب نے کاروبارِ حکومت میں اشتراک کے سلسلے میں سوال کرلیا تھا، حضرت مجاہد ملت نے حضرت یوسف علیہ السلام کی وزارت سے استدلال کیا تھا اس وقت وہ بات رفع دفع ہوگئی لیکن میں نے ایک عریضہ موصوف کی خدمت میں بھیجا، وہ عریضہ اور اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
حضرت اقدس زید مجدکم سلام مسنون!
مزاجِ گرامی!
یہ عریضہ ڈرتے ہوئے لکھ رہا ہوں کیوںکہ میرا یہ مقام نہیں ہے تاہم ایک غلطی سے مطلع کرنا بھی ضروری ہے، اس سے اعتراض مقصود نہیں ہے بلکہ سہواً جو بات آپ نے بیان کردی ہے اس کی اطلاع دینا مقصود ہے۔
بجنور میں آپ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو مصر میں فرعونی حکومت کے وزیر اعظم تھے انھوں نے بنیامین کو فرعونی دستور کے مطابق روک لیا تھا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ قرآن شریف میں اس طرح مذکور ہے: {کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ وَ مَاکَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِی دِیْنِ المَلِکِ اِلاَّ أنْ یَّشَائَ اللّٰہُ} اس سے معلوم ہوا حضرت یوسف علیہ السلام نے شریعت یعقوبی کے مطابق روک لیا تھا جبھی تو آپ نے بھائیوں سے سوال کیا تھا اور انھوں نے یہ جواب دیا تھا: {قَالُوا جَزَاؤُہٗ مَنْ وُّجِدَ فِی رَحْلِہٖ فَہُوَ جَزَاؤُہٗ} اس کے بعد یہ آیت ہے: {کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ} الخ معلوم ہوا کہ یہ معاملہ شریعت ِ یعقوبی کے مطابق ہوا تھا نہ کہ فرعونی دستور کے مطابق۔ اطلاعاً عرض ہے، گستاخی کی معافی چاہتا ہوں دعاء کرتا ہوں اور دعاء کا طالب ہوں۔ والسلام عزیز الرحمن غفرلہ ۲۰/جون ۱۹۶۱ئ؁

محترم مفتی صاحب زیدت معالیکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عنایت نامہ موصوف ہوا۔ میں مسلسل سفر میں تھا، جواب نہ دے سکا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو میں نے جس غرض سے دلیل بنایا تھا (اپنی بجنور والی تقریر میں) اس کی ادا اور غالباً تعبیر میں مجھ سے غلطی ہوئی اور میں اپنے مافی الضمیر کو صحیح طور پر پیش نہ کرسکا۔ آپ کا یہ فرمانا صحیح ہے کہ قرآن عزیز کی آیت میں یہ ذکر ہے کہ فرعون کے قانون کے مطابق تم اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے، اللہ تعالیٰ کا انعام تھا کہ اس نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے اسلامی قانون کے مطابق ان کے بھائیوں سے ایسی بات کہلا دی کہ تم اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک سکتے ہو۔
میرے اس استدلال کا مبنیٰ یہ ہے کہ قرآنِ عزیز کی آیت میں دلالۃ النص کے طور پر یہ بات واضح کردی گئی کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام بزمانۂ وزارتِ مصر فرعونیوں کے بنائے قانونِ مصر کے مطابق احکام جاری کرتے ہوں گے تبھی تو بنیامین کے مسئلہ میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے {فِی دِینِ المَلِکِ} کہہ کر اپنے احسان وفضل کا ذکر کیا ہے۔ جو دین ِ ملک سے جدا پیش آیا ورنہ {فِی دِینِ المَلِکِ} کہنے کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دین سے یہاں قانون مراد ہے، ملت نہیں۔ اگر اس سلسلے میں جنابِ محترم کو کوئی اعتراض ہے تو اس سے براہِ کرم مطلع فرمائیں۔ کیونکہ یہ ایک علمی بحث ہے جو ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے ہر وقت دلچسپی کا باعث ہے۔ والسلام آپ کا مخلص
محمد حفظ الرحمن ، (۲۲/جولائی ۹۶۱ئ؁ )

حضرت مجاہد ملتؒ کے مکتوب سے دو باتیں خاص طور سے ظاہر ہوتی ہیں: (۱)اعترافِ حق، اور یہ بڑے کمال کی بات ہے۔ (۲)دلالۃ النص کہہ کر طریقۂ استدلال اور قوتِ استدلال، ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ موصوف کو محض سیاست ہی میں مہارت نہیں تھی بلکہ علومِ دینیہ بھی ہر وقت مستحضر رہتے تھے۔ ایک مرتبہ دیوبند میں ایک واقعہ پیش آگیا جس پر مجھے اور میرے ساتھیوں کو کچھ افسوس ہوا اور کچھ غصہ آگیا اسی حالت میں حضرت مجاہد ملتؒ کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کردیا موصوف نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا۔
مولانا المحترم زید مجدکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مزاجِ گرامی!
عنایت نامہ پہنچا، دارالعلوم دیوبند میں جو بات پیش آئی جس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے میں اس کے انسداد کے لئے جو کچھ کرسکتا تھا کرآیا۔ امید ہے کہ اب کوئی ایسی بات انشاء اللہ پیدا نہ ہوگی آپ کی خدمت میں گذارش ہے کہ آپ صاحب باطن ہیں اور حضرت شیخؒ کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں اس لئے آپ کو اتنا مشتعل نہیں ہونا چاہئے۔
تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ہمیشہ کش مکش اور مخالفت کا فتنہ ان درمیانی لوگوں سے اُٹھتا ہے جو اِدھر کی اُدھر اور اُدھر کی اِدھر لگاتے رہتے ہیں۔ آپ خود عالم ہیں جانتے ہیں کہ اگر سچ بات بھی فتنہ کا باعث بنے تو اس کی نقل نہ کرنے سے بہتر ہے۔ مطمئن رہئے کہ اس قسم کی باتیں انشاء اللہ آہستہ آہستہ خود ختم ہوجائیں گی اور کہنے والوں کو خود ندامت ہوگی اس لئے ہمارا اور آپ کا اشتعال اس کا علاج نہیں۔ والسلام
آپ کا مخلص
محمد حفظ الرحمن (یکم اگست ۱۹۵۸؁ء)
(ماخوذ: روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی، مجاہد ملت نمبر، صفحہ۳۷۴،فروری۱۹۶۳؁ء)



نجیب آباد ریڈیو اسٹیشن سے نشر شدہ ایک تقریر​

جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت نوازی​


بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ وکفیٰ وسلامٌ علیٰ عبادہٖ الذین اصطفیٰ، اما بعد!
حضراتِ سامعین کرام! جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ پوری انسانیت کے محسن اعظم ہیں۔ آپ کے ہر قول وعمل سے انسانیت نوازی کا ثبوت ملتا ہے۔ آپ نے جغرافیائی اور نسلی امتیازات کو ختم فرماکر تمام انسانوں کو ایک لڑی میں پرودیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’الخَلقُ عَیالُ اللّٰہِ‘‘ تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: ’’کلُّ بنی آدم إخوۃٌ‘‘ انسانوں کا ہر فرد آپس میں بھائی بھائی ہے۔
اور بھائیوں کو آپس میں بھائیوں جیسا برتاؤ کرنا چاہئے نہ کہ دشمنوں جیسا۔ محبت کے اس رشتے کو مضبوط کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسماں والا یعنی خدا رحم کرے گا۔ ایک مرتبہ جب آپ یمن کی گورنری کے عہدے پر حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو روانہ فرمارہے تھے تو آپ نے ان کو تاکید فرمائی یَسِّر وَلاَ تُعَسِّر، بَشِّر وَلا تُنَفِّر، تَطاوُعًا ولا تخالفًا، آسانیاں پیدا کرنا، نہ کہ دشواریاں، لوگوں کو خوش رکھنا متنفر نہ کرنا، باہم آپس میں موافق رہنا، اختلاف نہ کرنا۔
انسانوں کے لئے ہی آسانیوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ جانوروں کے بارے میں بھی آپ نے رحم وکرم اور آسانیوں کے برتاؤ کے لئے فرمایا ہے۔ ایک مرتبہ آپ کا گزر ایک انصاری کے باغ میں ہوا وہاں ایک اونٹ بندھا تھا، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ آپ نے انصاری کو بلایا اور فرمایا: تمہارے اونٹ نے شکایت کی ہے، تم اسے بھوکا نہ رکھا کرو۔ آپ نے ارشاد فرمایا: کہ ایک عورت کو دوزخ میں صرف اس وجہ سے جانا پڑا کہ اس نے اپنی بلی کو باندھے رکھا تھا۔ یہی آپسی میل، محبت اور بھائی چارگی جب آپس میں قائم ہوجاتی ہے تو امن وسکون کا ماحول قائم ہوجاتا ہے، ترقیوں کے راستے کھلتے ہیں۔ دیکھئے کپڑے کے دو ٹکڑے ڈورے سے سئے جاتے ہیں، پتھر کے دو ٹکڑے سیمنٹ سے جوڑے جاتے ہیں، کاغذ کے دو ٹکڑے گوند سے جوڑے جاتے ہیں اسی طرح انسانوں کے دلوں کو صرف محبت سے جوڑا جاسکتا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کام کیا ہے۔ آپ کے بارے میں حق تعالیٰ شانہ نے ارشاد فرمایا ہے: {وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِینَ} ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے: {وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ کافَّۃً لِّلنَّاسِ} ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے رسول بنایا ہے۔
یعنی آپ صرف مسلمانوں ہی کے رسول نہیں ہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی تعلیم اور سیرت سے صرف مسلمان ہی فیض یاب نہیں ہوتے بلکہ پوری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا ہے: إِنَّما بُعِثتُ لاُتَمِّمَ مَکارمَ الأخلاَقِ میں اچھے اخلاقوں کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ کوئی سا انسانی کردار ہوگا کہ اس کا بہترین نمونہ آپ کی سیرتِ پاک میں موجود ہے انہیں اچھے نمونوں کو اختیار کرکے فلاح وبہبودی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک عربی شاعر نے لکھا ہے ؎
بَ
لَــغَ العُلیٰ بِکَمالِــــہٖ کَشَفَ الدُّجیٰ بجمالِہٖ
حَسُنتْ جمیعُ خِصالہٖ صَلُّوا علیـــہِ وآلـــــہٖ​
ایک اُردو شاعر نے اس سے بھی آگے بڑھ کر بات کہی ہے ؎
رُخِ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ ایسا دوسرا آئینہ
نہ دوکانِ آئینہ ساز میں نہ خیالِ آئینہ ساز میں​
یہ صرف عقیدت ہی نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے، سچ نہیں ہے کہ دنیا کے انسانوں کو اگر کامیابی مل سکتی ہے تو صرف اپنے بڑوں کا راستہ اختیار کرنے میں مل سکتی ہے۔ وما علینا إلا البلاغ



بحیثیت ایک شاعر​

شاعری ایک اسی صنف ہے جس سے انسان کا صاحب فضل و کمال ہونا معلوم ہو جاتا ہے ۔ہر طبائع انسانی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی اس کے لئے علم و فہم کے ساتھ ساتھ ذوق سلیم کا ہو نابھی ضروری ہے ۔فن شاعری دو پہلو سے خالی نہیں، ایک علم وحکمت سے لبریز تو دوسرا مذموم وفحاشی سے بھرپور۔
شاعری کے بارے میں علماء نے کلام کیا ہے، بعض نے مکروہ وناجائز قرار دیا ہے اور بعض نے رخصت دی ہے۔ جن کے نزدیک مکروہ اور ناجائز ہے ان کی دلیل ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد: {وَالشُّعَرَائُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاؤٗنَ} شاعروں کی بات پر بے پرواہ لوگ ہی چلتے ہیں۔
اور ابراہیم بن یوسفؒ نے کثیر بن ہشام سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے عبدالکریم سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا: {وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ} اور بعض لوگ وہ ہیں جو کھیل کی باتیں خریدتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا اس سے مراد گانا اور شعر ہیں۔
اور اعمش نے بروایت ابوہریرہؓ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا پیٹ، پیپ یا خون سے بھرے یہ بہتر ہے اس سے کہ شعروں سے بھرے‘‘۔ (یہ حدیث متفق علیہ ہے) اور اسی حدیث شریف کے ذیل میں مشکوٰۃ شریف کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ مراد اس سے مذموم اشعار ہیں۔ یہ اشعار سے زیادہ ا شتغال رکھنا۔ (حاشیہ مشکوٰۃ،ص:۴۰۹)
جن حضرات نے شعر پڑھنے کو مباح قرار دیا ہے ان کی دلیل مندرجہ ذیل روایات ہیں:
حضرت ابی بن کعبؓ نے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إنّ مِنَ الشِّعر لَحِکمَۃٌ‘‘ یعنی بعض شعر حکمت سے ہوتے ہیں۔
عکرمہ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إذَا قرأ أحدُکُم شَیئًـا من القُـرآنِ فلَــم یدرِ ما تَفسِیرُہُ فالتَمِسُوا فی الشِّعرِ فإنَّ الشِّعرَ دیوانُ العَربِ۔ أو کمال قال صلی اللہ علیہ وسلم جب تم میں سے کوئی قرآن میں سے کچھ پڑھے اور اس کی کچھ تفسیر معلوم نہ ہو تو شعر میں تلاش کرو اس لئے کہ شعر دیوان عرب ہیں۔
حضرت ابوبکرؓ کو جب بخار آتا تھا تو یہ شعر پڑھتے تھے:
کُلُّ امریٔ یُصـــبحُ فی أہلِہٖ والمَوتُ أولیٰ مِن شِراکِ نعلِہٖ
ہر شخص اپنے اہل وعیال میں صبح کرتا ہے۔
حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔
اس کے علاوہ بھی صحابہ کرامؓ سے بیشمار اشعار منقول ہیں۔
امام بخاریؒ نے الادب المفرد میں حضرت عائشہؓ سے یہ قول نقل کیا ہے: الشِّعرُ منہُ حسنٌ ومنہُ قبیحٌ، خُذ بالحسنِ ودَع القبائح۔ یعنی بعض اشعار اچھے ہوتے ہیں اور بعض برے ہوتے ہیں، اچھے لے لو اور برے چھوڑ دو۔
بہرحال کوئی بھی اہل علم اور اہل عقل اچھے اشعار کو برا نہیں کہہ سکتا ہے کیونکہ اچھائی اور برائی کلامِ نثر میں بھی ہوتی ہے، اس لئے مذموم کلام کی مذمت ہوگی اور اچھے کلام کی تحسین۔
ایک زمانے میں حضرت والد صاحبؒ بہت اچھے شاعر ہوا کرتے تھے اور اپنے وقت کے بڑے بڑے مشاعروں میں داد تحسین حاصل کی۔ ایک مرتبہ جگر مرادآبادی نے بھی آپ کے کلام کی تحسین فرمائی اور مبارکباد دی۔ بڑے بڑے شعراء کے کلام آپ کو حفظ یاد تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب آپ دینداری سے بعید تھے، جس کا احوال آپ سوانح میں ملاحظہ فرماچکے ہوں گے۔
شاعرانہ مزاج ہونے کی وجہ سے آپ نے اپنی تصانیف میں جابجا اشعار کا استعمال فرمایا ہے۔ ادبی وعلمی مجالس اور وعظ وتقریر کے درمیان آپ برموقع وبرمحل اشعار پڑھتے تھے۔ ادبی مسائل اور نحوی قواعد میں آپ بڑی مہارت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کا اُسلوبِ بیاں پاکیزہ اور عمدہ تھا۔ اور یہ خوبی اسی آدمی میں ہوسکتی ہے جس کو اس فن سے خاص لگاؤ واُنسیت ہو۔ اس کے لئے ذوقِ سلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُردو کے علاوہ آپ کو فارسی کے
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم

پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

[align=center]از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)


قسط:64​

اشعار بہت یاد تھے۔ کبھی کبھی عربی کے اشعار بھی پڑھتے تھے۔ ابتدائی زمانے میں آپ کا ایک دیوان بھی تھا۔ وہ کہیں ضائع ہوگیا، لیکن آلام ومصائب کے زمانے میں آپ نے اپنی تسلی وتشفی وذہنی وقلبی سکون وراحت کے لئے کچھ غزلیں اپنی نوٹ بک میں لکھی ہیں اس غرض سے نہیں کہ ان کو شائع کرتے یا لوگوں کو سناتے کیونکہ نہ انھوں نے کبھی ہمیں دکھایا اور نہ کبھی ہمیں یا اور کسی کو سنایا۔ کلام پڑھنے کے بعد آپ کو خود اندازہ ہوگا کہ بس خیال آتا گیا اور آپ لکھتے گئے۔ بہرحال اس منظوم کلام کو بعینہٖ بغیر کسی تغیر وتبدل کے اور کچھ عربی فارسی واُردو کے اشعار جو آپ گاہے بگاہے سناتے رہتے تھے قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہیں۔
منتخبـــات
مَوتُ التُّقیٰ حیاتٌ لانفاد لہَا قَد ماتَ قومٌ وہُم فِی النّاس أحیائُ
جس نے پرہیزگاری اور تقویٰ اختیار کیا موت کے بعد اس کو ایسی زندگی ملے گی کہ جس کے بعد فنا نہیں۔ بہت سے لوگ مرگئے مگر وہ زندہ ہیں۔
قَد ماتَتْ قومٌ وما ماتتْ مکارِمُہُم وعاشَتْ وہُم فی النّاسِ أمواتٌ
ایک جماعت (علماء) فوت ہوگئی مگر ان کے شریفانہ کارنامے مردہ نہیں ہوتے وہ اب بھی زندہ ہیں حالانکہ وہ لوگوں کے نزدیک مردہ ہیں۔
إذا کانَ ربُّ البیتِ بالطبلِ ضاربًا فلاتلِمُ الأولادُ فیہَا علی الرَّقصِ
جب گھر کے بڑے لوگ ڈھول بجاتے ہیں تو پھر اولاد کو ناچنے پر ملامت مت کرو۔
ان اشعار کے علاوہ آپ کو فارسی اور اُردو کے بہت اشعار یاد تھے ان میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔
فارسی اشعار:
n اے کریمے از خزانۂ غیب

گبروترسا وظیفہ خورداری
دوستاں را کجا کنی محروم

توکہ با دشمناں نظر داری
n ناز را روئے بباید ہمچو ورد

چوں نداری گردِ بدخوئی مگرد
n زشت باشد روئے نازیباؤ ناز

عیب باشد چشم نابینا وباز
nپیش یوسف نازش وخوبی مکن

جز نیاز وآہِ یعقوبی مکن
nنہ چنداں بخور کز دہانت برآید

نہ چنداں کہ از ضعف جانت برآید
nصحبت ِ صالح ترا صالح کند

صحبت ِ طالح ترا طالح کند
n ہر کہ خواہد ہم نشینی باخدا

گونشیند درحضورِ اولیاء
nیک زمانہ صحبت ِ بااولیاء

بہتر از صدسالہ طاعت بے ریا
n صحبت ِ نیکاں اگر یک ساعت است

بہتر از صدسالہ زہد وطاعت است
n یارباید راہ را تنہا مرو

بے قلاؤ زاندریں صحراء مشو
n گلے خوشبوئے درحمام روزے

رسید از دستے محبوبے بدستم
بدوگفتم کہ مشکی یا عبیری

کہ ازبوئے دل آویز تو مستم
بگفتا من گلِ ناچیز بودم

ولیکن مدتے باگل نشستم
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد

وگرنہ من ہما خاکم کہ ہستم
(۱) اے کریم جب کہ تو یہود ونصاریٰ اور آتش پرستوں کو روزی پہنچاتا ہے اور دشمنوں پر جب تیری ایسی نظر کرم ہے تو تو اپنے دوستوں کو کیسے محروم رکھ سکتا ہے؟
(۲) ناز کرنے کیلئے گلاب جیسی صورت چاہئے اور جب ایسی صورت نہ ہو تو بدخوئی کے قریب نہ جا، اس لئے کہ بدصورت کے لئے ناز کرنا مناسب نہیں۔ نابینا آنکھ کھلی ہوئی بری معلوم دیتی ہے۔ یوسف علیہ السلام کے سامنے ناز ونخرے مت کر سوائے عاجزی اور آہِ یعقوبی کے اور کچھ مت کر۔
(۳) نہ اتنا زیادہ کھاؤ کہ منھ سے باہر آنے لگے۔ اور نہ اتنا کم کہ جسم لاغر ہوجائے۔
(۴) نیک آدمی کی صحبت تم کو نیک بنادے گی اور بدبخت آدمی کی صحبت تم کو بدبخت بنادے گی۔ جو شخص خدا کی ہم نشینی چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ اولیاء کی صحبت میں بیٹھے۔ اللہ والوں کی تھوڑی دیر کی صحبت سوسالہ بے ریا عبادت سے بہتر ہے۔ نیکوں کی صحبت اگر ایک گھڑی بھی نصیب ہوجائے تو وہ سوسالہ زہد وطاعت سے بہتر ہے۔
(۵) باطنی راستے کو طے کرنے کے لئے ایک رفیق کی تلاش کرلو تنہا اس راستے میں چلنے کا ارادہ مت کرو۔
(۶) ایک دن حمام میں ایک محبوب کے ہاتھ سے مجھے خوشبودار مٹی ملی، میں نے اس سے کہا کہ تو مشک ہے یا عنبر؟ کہ تیری دل آویز خوشبو سے میں مست ہوگیا۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو ایک ناچیز اور معمولی سی مٹی ہوں لیکن ایک مدت تک میں پھولوں گی صحبت میں رہی اس کی محبت نے میرے اندر اثر کیا ورنہ میں تو وہی خاک ہوں پہلے جیسی۔
غرض کہ آپ کو فارسی اشعار بہت یاد تھے جن کا آپ نے اپنی تصانیف میں جابجا ذکر فرمایا ہے۔ ان تمام اشعار کو اور ان کو جو آپ پند ونصائح کے دوران فرمایا کرتے تھے ذکر کیا جائے تو مستقل ایک کتاب بن جائے گی اور طوالت کا باعث ہوگی۔
چند اُردو اشعار:
(۱) رُخِ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ ایسا دوسرا آئینہ
نہ دوکانِ آئینہ ساز میں نہ خیالِ آئینہ ساز میں

(۲) جسے وُسعتیں بھی نہ پا سکیں وہ نبی کا پاک مقام ہے

(۳) نہ سکوں ہے نہ قرار ہے نہ غم والم کی شمار ہے
یہ نظر جو آتا مزار ہے وہ حبیب اسی میں سماگئے

(۴) موت سے کس کورُستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے

(۵) اکیلا لحد میں ہے کون کہتا نعش حاتم کو
ہزاروں حسرتیں مدفوں ہیں دریا کے پہلو میں

(۶) وہ کم نصیب مقامِ نظر نہ پہچانے جو ان کے دل کی بلندی کا راز نہ جانے
(۷) کسے خبر ہے کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہو پوشیدہ روحِ قرآنی

(۸) کوئی سمجھے گا کیا راز ِ گلشن جب تک اُلجھے نہ کانٹوں سے دامن

(۹) سر کو ٹکراکے نہ مرجائیں اسیرانِ قفس شور اتنا نہ تجھے برگِ خزاں لازم ہے

(۱۰) طبل وعلم ہے پاس نہ کچھ اپنے مال وملک
ہم سے خلاف ہوکے کرے گا زمانہ کیا؟

(۱۱) مجھے رازِ دوعالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہے جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

(۱۲) غم عاشقی سے پہلے مجھے کون جانتا تھا
تری عاشقی نے بنادی مری زندگی فسانہ

(۱۳) اِک انقلاب پس انقلاب آئے گا کہیں سے آئے ستم کا جواب آئے گا

(۱۴) عجب سلگتی ہوئی لکڑیاں ہیں رشتہ دار
الگ رہیں تو دھواں دیں ملیں تو جل جائیں

(۱۵) پاک ہیں آلائشوں میں بندشوں میں بے لگاؤ
رہتے ہیں دنیا میں سب کے درمیاں سب سے الگ

(۱۶) اتباعِ نبوی سے ہوئی طے راہِ ثواب شرک وبدعت میں نہ اُلجھا کبھی دامن اپنا

(۱۷) دِیا ہوں گرحقیر سا تو کیا ہواکہ بارہا
ہزاروں چراغ جل اُٹھے اِک چراغ سے

(۱۸) بازارِ عشق وسوقِ محبت کے جاں فروش
لپکیں کہ چل چلاؤ ہے دنیائے دوں کا
سیکھیں طریق وصل ولقائے خدائے پاک
دل بیچ کر خرید لیں سودا جنون کا

(۱۹) صدائے اُدنُ مِنی سے فرشتے رہ گئے ششدر
نہ پایا راز اب تک وُسعتوں نے اس فسانے کا
خدائے لم یزل یکتا محمد مصطفیٰ یکتا
سلیقہ چاہئے یکتایوں کے بتانے کا

(۲۰) کون حائل ہوا تدبیر وعمل کی راہ میں آدمی سوچے ہے کیا کرتا ہے کیا ہوتا ہے کیا

(۲۱) نہ ہو جن میں جوہر ِ قابل وتربیت میں نہیں سنورتے
ہوا نہ سرسبز شجر کا سایہ کنارے پہ آب جو کے

(۲۲) نفس نفس تقاضے تو بھرلئے میں نے حصولِ زر کے وسائل مگر بڑھا نہ سکا

آپ کے منتخب اشعار تو بہت ہیں۔ آپ کو دیوان کے دیوان یاد تھے بس انہیں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اب آپ کا کلام جو آپ کی ڈائری سے ملا ہے، جو آپ نے مخصوص حالات میں لکھے تھے پیش خدمت کئے جاتے ہیں۔ گو شاعری کرنا آپ کا مقصد نہ تھا بلکہ یہ آپ کے خیالات اور دل کی ترجمانی تھی جو آپ برجستہ لکھتے چلے گئے اور ہمارے لئے ایک سبق اور پیغام چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان مصائب کے بدلے جو آپ نے برداشت کئے اجر عظیم عطا فرمائے اور ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین


دُعائے نصرت

غزل
دردِ پنہاں چاہئے نہ عشقِ سوزاں چاہئے

اپنی محفل کے لئے شمع فروزاں چاہئے
سنت ِ پیغمبراں ہے گونشانِ امتیاز

اہل باطل کے لئے شمشیر برّاں چاہئے
صبرایوبی نہیں اور نے تحمل یوسفی

ہم غریبوں کو نشاں آساں سے آساں چاہئے
کیا براہیمی کلیمی نصرتیں پارینہ ہیں

کچھ نہ کچھ تو ہمکو بھی نصرت کا ساماں چاہئے
اِک منافق نے لگادی آگ گلشن کو مرے

اس گھڑی مجھ کوترا ابرِ بہاراں چاہئے
کیا حسین احمد کی نسبت ہوگی یاں پہ پائمال

دیرِ بیگاںمیں مجھے نصرت کا ساماں چاہئے
محسن ؔعاجز پہ نصرت کی تجلی ڈال دے
ہرنفس مجھ کو الٰہی تیرا احساں چاہئے
۳۰/اکتوبر ۱۹۸۱ئ؁
خدا کی یاد ہے طاقت ہماری مصلیٰ ہے ہمارا تخت شاہی
ہماری فوج ہے اخلاقِ حسنہ ہمارا حِصن ہے ترکِ مناہی
بلند اپنی نظر ہے فضل حق سے کرے گی کیا کسی کی کم نگاہی

تیرے بنا سہارے مری زندگی نہیں ہے

مری زندگی ہے کیا شئی مری بندگی نہیں ہے
بے کیف ہو جو انساں وہ آدمی نہیں ہے

غم عاشقی سے زیادہ غم زندگی نہیں ہے
لعنت برس رہی ہے اس زندگی پہ محسنؔ

محسن کشی سے بڑھ کر کوئی خودکشی نہیں ہے
انا الحق کہا تھا جس نے وہ بھی تھا ایک انساں

جہاں یاد ہوگی تیری وہاں آگہی نہیں ہے
۲۸/دسمبر۱۹۸۱ئ؁
مصائب میں پتہ چلتا ہے اپنے کا بیگانے کا

محبت خود سنادیتی ہے افسانہ دیوانے کا
صدائے اُدن منی سے فرشتے رہ گئے ششدر

نہ پایا راز اب تک وُسعتوں نے اس فسانے کا
خدائے لم یزل یکتا محمد مصطفیٰ یکتا

سلیقہ چاہئے یکتایوں کے بھی بتانے کا
کروروں رحمتیں نازل ہوں ان کی ذاتِ عالی پہ

شرف جس کی غلامی نے دیا مجھ کو شہانے کا
نہ آئے عمر بھر زاہد تجھے آدابِ مے خانہ

سدا شاکی رہا دنیا میں پینے کا پلانے کا
خدا نہ آگاہی محسن ؔ کشی اور کفر یک شئی ہیں

نہ سمجھا فرق وہ زندیق ہے اپنے زمانے کا
تری بے چارگی پہ رودئیے محسنؔ فرشتے بھی
بچھایا جارہا تھا جال جب تجھ کو پھنسانے کا
(۲۹/دسمبر۱۹۸۱ئ؁)
نسیم صبح تیری مہربانی یاد آتی ہے
مجھے جب آخری گھڑیوں میں تو آکے جگاتی ہے
تصور میکدے کا جاگ اُٹّھا لے کے انگڑائی
صدائے لاالٰہ جب مرے ہونٹوں پہ آتی ہے
وہ آقائے زمانہ ہیں وہ رحمۃ للعالمین
صدائے اُدن منی کی وہاں سے اب بھی آتی ہے
حسین احمد کے صدقے جس نے تجھکو راہ دکھلائی
ان ہی کی جوتیوں میں یہ ہماری شہنشائی ہے
حسین احمدنے جس کو کہہ دیا اسعد وہ ہوگا ہی
زمانہ بھر پہ بھاری ایک انساں کی گواہی ہے
بتاؤں ہند میں ہے کون رازِ خانداں مدنی
کہاں تک تم چھپاؤگے یہ دنیا کی گواہی ہے
تبسم آگیا کلیوں پہ اور کھلنے لگے غنچے
کہصبح کو جس گھڑی مجھ کو تمہاری یاد آتی ہے
وہ کافر ہے جوہے محسن کشی کا مرتکب محسنؔ
اگرچہ پاس اس کے ساری دنیا کی خدائی ہے
(۲۹/دسمبر۱۹۸۱ئ؁)
غضب کیا تھا کسی نے ہلا کے پیمانہ

خدا کا شکر ہے ٹھہرا رہا وہ مستانہ
دلادیا جو مجھے یاد تیرا افسانہ

کلیجہ پھٹ گیا رونے لگا جو دیوانہ
مسل کے رکھ دیا ویسا ہی تونے غنچوں کو

خدا کرے کہ میسر نہ ہو تجھے دانہ
خدایااب تو تو محسنؔ کی آبرو رکھ لے

خلاف ہونے لگا ہے اب اپنا بیگانہ
(۲۹/دسمبر۱۹۸۱ئ؁)
زبان ودہن گو گھائل نہیں ہے

مگر شکر کے تیرے قابل نہیں ہے
بلااُلفت کے کچھ حاصل نہیں ہے

یہ سودا وہ ہے جو باطل نہیں ہے
کہاں وہ قدسیاں عرشِ اعلیٰ

یہاں پہ بندگی کامل نہیں ہے
فدا ہیں قدسیانِ عرشِ اعلیٰ

محمدؐ سا کوئی کامل نہیں ہے
صدائے اُدن منّی اب بھی سن لے

کہ دل جس کا یہاں غافل نہیں ہے
(یکم جنوری ۱۹۸۲؁ء)
(قطعہ)
محبت دے کے تونے آزمایا

مصیبت دے کے تونے آزمایا
قدم ہرگز نہ میرا ڈگمگایا

خدایا شکر ہے تیرا خدایا
(۳جنوری ۱۹۸۲ئ؁)

ہوگیا چاندنا بھی گہربار

لو وہ آئے زمانے کے مختار
بڑھ گئی آبروئے زمانہ

جب ہوئے وہ تولد شہریار
ان کے روئے تبسم پہ قرباں

وسعتیں ہوچکی ہیں کئی بار
ان کی محفل میں جبرئیل امیں

دن میں حاضر ہوئے سیکڑوں بار
اس جہاں میں طلبگارِ حق کو

ہے چراغِ محمد ضیابار
یہ تھا رُعب رسالت کا عالم

اُٹھ سکی تھی نہ ظالم سے تلوار
وہ ہنسے جاں کلیوں میں آئی

بن گئے ان کی نظروں سے گلزار
ہائے محسن کشی ہائے محسنؔ
اُف زمانہ کا کیسا ہے اندھیار
(۵/جنوری ۱۹۸۲ئ؁)
واعظ ِ زمانہ
ستم بالائے ستم ڈھایا گیا ہے

مجھے بسمل سا تڑپایا گیا ہے
ارے واعظ ترا محراب ومنبر

صنم خانہ بھی شرماگیا ہے
توکیا جانے خدا ہے کیا خدائی

صنم خانہ میں تو پایا گیا ہے
رُلائیں گی تجھے مستوں کی آہیں

شرابی ان کو بتلایا گیا ہے
حسین احمد کی نسبت کم نہیں ہے

مدینہ ٔ ہند میں پایا گیا ہے
وہی اسعد کو بھی جانے گا اسعد

ہمیشہ حق پہ جو پایا گیا ہے
میں محسن کش نہیں بلکہ ہوں محسنؔ
نہیں ہوں وہ جو فرمایا گیا ہے
(۳۱/جنوری ۱۹۸۲ئ؁)
اپنا تعارف
سنو تم دوستو! اپنا فسانہ اب سناتا ہوں
تحمل نوش کرتا ہوں صبر کو کام لاتا ہوں
خاکی ہوں میں عاصی ہوں نہیں ہے آسرا میرا
صبح کو التجائیں بارگاہ میں اپنی لاتا ہوں
نہ واعظ ہوں نہ ملا ہوں نہ صوفی ہوں نہ صافی ہوں
شب ِ تاریک میں رندوں کی محفل کو سجاتا ہوں
ہماری لاالٰہ پر مؤذن بانگ دیتا ہے
یہ تم سب کو بلاتا ہے اور میں اس کو بلاتا ہوں
مرا ساقی حسین احمد مدینے سے منگاتا ہے
میں ہندی میکدے میں بادہ نوشوں کو پلاتا ہوں
نہیں محسن کشی شیوہ ہمارا مے فروشوں میں
میں ہندی میکدے میں خوب پیتا ہوں پلاتا ہوں
(یکم فروری ۱۹۸۲ئ؁)

یادِ ایام جب بھی آتے ہیں

خوںکے آنسو مجھے رُلاتے ہیں
بے وفاؤں کا کچھ نہیں ہیگلہ

دوستوں کے وہ ناز، کھاتے ہیں
میری عادت نہیں خوشامد کی

لوگ اچھا برا بتا تے ہیں
ارے واعظ تجھے مبارک ہو

ہم تو اب میکدے کو جاتے ہیں
عشق کی کیا خبر تجھے غافل

لقمۂ تر تجھے لُبھاتے ہیں
شب کی مستی سے ہے تو اب غا فل

بانگ دے کے تجھے بھگاتے ہیں
میں حسینی ہوں عاشقی میں بھی

دیکھ اسعد کسے بلاتے ہیں
میری توبہ ارے سبحان اللہ

سامنے سے فضیل آتے ہیں
ناز محسن پہ ہے مجھے محسنؔ
بے وفاؤں کے غم وہ کھاتے ہیں
(یکم فروری ۱۹۸۲ئ؁)

شاید ان کی بھی آگئی باری

آج گریہ جو ہوگیا طاری
میرے انداز خسروانہ ہیں

ہے فقیری میں بھی ریاکاری
واعظوں کی کبھی نہیں سنتا

میری مستی میں ہے یہ پنداری
ہوشیاری میں بہک گئے ناداں

بے خودی ان پہ پڑگئی بھاری
لوگ آلام جن کو کہتے ہیں

آج کل ان سے ہے مری یاری
نورآنکھوں کا ہوں اکابر کی
محسنی میں نہیں ہے غداری
(۲/ فروری ۱۹۸۲ئ؁)

میرے کام آگئی بندہ نوازی

کہ حاصل ہوگیا فخر ایازی
نہ ترکی ہوں نہ ہندی ہوں نہ نازی

وہ بندہ ہوں جسے ہے بے نیازی
مراپیشہ ہے یاں پہ مے فروشی

مرے گاہک امام فخر رازی
مراسجدہ ہے میخانے کے درپر

کدھرتو جارہا ہے بے نمازی
حسین احمد نے مجھ کو لاکے دی ہے

مدینے سے مجھے خمرحجازی
صدائے لاالٰہ جب اُٹھاؤں

لزرجاتے ہیں ترکی اور تازی
میں محسنؔ ہوں میں مخلص ہوں معالج
نہیں ہے پاس میرے خانہ سازی
(۲/فروری ۱۹۸۲ئ؁)
شب ِ تاریک ہو اور مستی ہو

ناز قدسی کو ہو وہ رندی ہو
میری ضربوں پہ وہ پکار اٹھیں

مجھ کو حاصل وہی کلیمی ہو
باندھ لیں واں صفیں فرشتے بھی

میری آذان ہو، بلالی ہو
جس نے ناپاک کردیاہو نہر

اس کو توفیق مے پرستی ہو
باخودی کہ بے خودی جس میں

میرا سجدہ ہو پائے ساقی ہو
توہی توہو کہ میں نہ ہوں جس میں

مجھ کو حاصل وہ قُم باذنی ہو
مرتے دم تک رہوں میں بس محسنؔؔؔؔ
ختم الفت میں زند گا نی ہو
(۳/فروری ۱۹۸۲ئ؁)
تیری اُلفت میں ایسی لگن ہو

باقی جس میں نہ کچھ ہوش پن ہو
ہوش مندوں کو بھی رشک آئے

مجھ کو حاصل وہ دیوانہ پن ہو
قدسیوں میں وہاں وجد آئے

مرے سجدوں میں مستانہ پن ہو
راہِ اُلفت سے نہ ڈگمگاؤں

صبر میں میرے وہ بانکپن ہو
ظلم ڈھائے کوئی لاکھ ظالم

اس کو حاصل نہ کچھ بھی ثمن ہو
بھرنے پائے نہ گل چیں کا دامن

اورحاصل نہ اس کو کفن ہو
پھونک ڈالا ہمارا نشیمن

اس کو حاصل نہ گورکَن ہو
میں ہوں محسنؔ میرا شیوہ احسان
ہوکشی جس میں وہ نان کن ہو
(۵/فروری ۱۹۸۲ئ؁)
الم نشرح میں غافل عُسرِ ویُسراً ساتھ آتا ہے
خزاؤں میں بہاروں کا تصور جگمگاتا ہے
رہا فرعون نہ باقی رہا نہ سامری باقی
عصائے موسوی پیچھے سے تیرے کون لاتا ہے
وہ دعوہائے نمرودی وہ دعوہائے فرعونی
رہے باقی نہ دنیا میں تجھے عبرت دلاتا ہے
خدائے پاک ہی ہر شئی سے ہے بس برتروبالا
وہ مالک ہے وہ خالق ہے وہ مُردوں کو جِلاتا ہے
تو کیا جانے خدائے پاک کیا ہے کیا وہ کرتا ہے
صنم خانے میں جاکے تو بتوں کو سر جھکاتا ہے
حسین احمد کی نسبت کو کوئی جانے تو کیا جانے
مدینہ اسکے دل میں ہے جو ان سے دل لگاتا ہے
حسین احمد کا اسعد لاڈلا تنہا نہیں محسنؔ
وہ پیچھے پیچھے ان کے اورمحسنؔ ساتھ آتا ہے
(۱۴/فروری ۱۹۸۲ئ؁)
وُسعتیں نہ پاسکیں ان کے عروجوں کا نشاں
کس قدر وسعت پذیری ہے کمالِ یار میں
یادرکھ محسن کشی اور کفر دونوں ایک ہیں
یہ تصور آ نہیں سکتا خیالِ یار میں
(۱۸/فروری ۱۹۸۲ئ؁
تمسخر مت اُڑا واعظ تو ہم بادہ فروشوں کا
ہمارے لاالٰہ میں رُخِ انور چمکتا ہے
جو ہم پیتے ہیں اے واعظ نہیں اس کی خبر تجھ کو
شراب دوستی کے اب تو قطروں کو ترستا ہے
اگر میخانہ پی جائیں تو ہم ہرگز نہ بہکیں گے
تو چند الفاظ کو لے کر یہاں ہرسو بھٹکتا ہے
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کامِ چارہ گر سے ہے
رہے منحرف گو یہ سب جہاں مجھے آس انہی کے در سے ہے
کیا ہے بے بسی کیا ہے بے کسی یہ ساری کفر کی بات ہے
جو اُمید ان کی نظر سے تھی وہ امید ان کی نظر سے ہے
میری لاالٰہ کی ضرب سے بجی گھنٹیاں ہوئی وہ اذاں
مجھے اِیک نسبت خاص ہے جو سحر سے تھی وہ سحر سے ہے
مری بے خودی میں ہے باخودی مری مستیوں میں وہ ہوش ہے
رہِ مصطفیٰ پہ ہوں گامزن مری آس ان ہی کے دَر سے ہے
یاد، ایام ہیں جفاؤں کے

ہم پیاسے تھے جب وفاؤں کے
دشمنوں کی تھیں سازشیں پیہم

ہم پہ سائے رہے دعاؤں کے
ناز کرتی تھی جن پر اپنائیت

خوںکے پیاسے ہوئے گداؤں کے
ناخدائی بھی کام آنہ سکی
جب تھپیڑے لگے ہواؤں کے
(۲۲/اگست، ۱۹۸۲ئ؁)
جو آج گلشن کو جاکے دیکھا، نہ گل تھے باقی نہ خار باقی
جہاں پہ تھا آشیانہ میرا وہاں پہ تھے چند شرار باقی
شب ِ جمعہ کی جو روٹیوں سے پلے تھے جاکرکے مسجدوں میں
انھوں نے ہی مسجدیں اُجاڑیں نہیں حرم کا وقار باقی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شریعت و طریقت

[/align]

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم

پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:65

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شریعت و طریقت

بازار عشق وسُوقِ محبت کے جاں فروش ۔۔ لپکیں کہ چل چلاؤہے دنیائے دون کا
سیکھیں طریق وصل ولقائے خدائے پاک ۔۔ دل بیچ کے خرید لیں سودا جنون کا​

(۱)یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ (النساء)
(۲)یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَافَّہً وَّلاَ تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ۔ (البقرہ)
(۳) ثم جعلنٰک علی شریعۃ من الامرفتبعھا ولا تتبع اھواء الذین لا یعلمون (الآیہ)
(۴)ھذا بصائر للناس وھدی ورحمۃلقوم یوقنون۔ (الجاثیۃ)


اے ایمان والوحکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔
اے ایمان والوداخل ہوجائو اسلام میں پورے طور پر اور مت چلو قدموں پر شیطان کے۔
پھر آپ کورکھا ہم نے ایک رستہ پر دین کے سو آپ اس پر چلئے اور مت چلو نا دانوں کی خواہشوں پر۔
یہ تعلیم لوگوں کیلئے سمجھ بوجھ اور ہدایت ہے اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو اس پر یقین رکھتے ہیں
مندرجہ بالا آیات شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمادیا ہے کہ ہدایت وکامرانی صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرما ںبرداری ہی میں ہے۔ اور دین کا وہ خاص طریقہ (شریعت )جو ہم نے بھیجا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کیجئے۔جا ہلوں کی اتباع سے بچواور ان کی خواہشات کی پے روی نہ کرو ۔اس لئے کہ ہمارا بتایا ہوا طریقہ یعنی شریعت ہی تمام انسانوں کے لئے دانشمندی کا سبب اور ہدایت کا ذریعہ ہے ۔اور جو ہماری باتوںپر یقین یعنی ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے رحمت کا باعث ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{ومن یتبع غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منہ }
اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ اور کوئی دین چاہے ،تو اس کو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔
انسان جو کہ فطرتاً جلد باز ہے اور اپنے گردوپیش کے ماحول اور معاشرہ سے بہت جلدمتائثر ہو جاتا ہے اور کشف وکرامات وظاہری چمک دمک کو ہی اصل دین اور شریعت سمجھ بیٹھتا ہے نتیجتاً راہ راست سے بھٹک جاتاہے ۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کو بطور خاص نازل فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو فطری طور پر کچھ ایسے اوصاف حمیدہ ،اخلاق وعادات اور جوہر لطیفہ سے نوازہ ہے کہ اگر وہ ان کو ماحول اور معاشرہ کی آلودگیوں سے محفوظ رکھ لے تو انسان اس راہ مستقیم کی طرف قدم بقدم بڑھتا چلا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر فرما رکھا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
{فطرۃاللّٰہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللّٰہ} (الآیہ)
(وہی تراش ہے اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو ۔اللہ کے بنائے ہوئے کو بد لنا نہیںہے)
اور رہبر انسانیت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشاد گرامی ہے۔
انما الولد یولد علی الفطرۃ فا بواہ یہوِّدانہ او ینصرانہ او یمجّسانہ (الحدیث)
بیشک بچہ فطرت کے مطابق پیدا ہوتاہے لیکن اسکے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
یہاں سے میں وہ اقتباسات نقل کررہا ہوںجو والد محترم ؒ نےـــــ’’ تذکرہ شیخ الہند ؒ‘‘میں اسی مضمون کے ضمن میں لکھا ہے۔کیونکہ انکی تعلیمات ہی ہمارے لئے اسوء حسنہ اور مشعل راہ ہیں:

’’جتنے اخلاق رذیلہ ہیں ان کی کم سے کم تر اور بد سے بدتر صورت ما حول اور معاشرہ کی پروردہ ہے مثلاًفطرت انسانیہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ صرف اپنے کسب سے مستفید ہو اور دوسروں کے کسب پر نظر نہ رکھے ۔لیکن اس کے خلاف چوری ڈاکہ زنی ،قطع طریق،طراری، نباشی ،سود ،سٹہ،کسب مال کی بد ترین صورتیں انسان اپنے ماحول اور معاشرہ سے متأثر ہو کر اختیار کرتاہے ۔
اسی طرح اطوار خوش اور اخلاق پسندیدہ کا مظاہرہ ان ہی شخصیتوں سے ہو تا ہے کہ جن کی تربیت صالح ترین ہاتھوں میں ہوئی ہو، کیونکہ مبدائے فیاض کے عطا کردہ جواہرات جب نمو پزیر ہو تے ہیں تو وہ اپنی لطافت و نزاکت کے باعث مربیانہ ماحول ومعاشرہ کے اثرات جلد قبول کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ کوئی شجر نوخیز اپنے نمو کے وقت راہ میں آڑ پا کر اپنی بڑھوتڑی کے لئے راہ کج اختیار کرکے ٹیڑھا ہو جاتا ہے ورنہ سیدھا چل کر برگ وبار لاتا ہے۔
اسلام اور تعلیمات اسلام کا صرف یہی منشأہے کہ انسانی دل ودماغ نے جب اپنے نمو کے وقت ماحول سے متأثر ہوکر جو اخلاق رذیلہ اور اطوار نا پسندیدہ اختیارکر لئے تھے کہ جنہوںنے اپنے عروج پر پہونچ کر کفر وشرک ،یہودیت ،نصرانیت، دہریت ، فسق وفجور ،عصیان وطغیان کی صورتیں اختیار کرلی تھیں ان سب کو ملیا میٹ کردیا جائے۔اورفطری اخلاق کے اوپر سے ان سیاہ ترین تودوںکو کھرچ دیا جائے۔تاکہ یہ اخلاق پلٹ کر اپنی فطری راہ (جس کو صراط مستقیم کہا جاتاہے)پر گامزن ہوجائے ؎
’’دل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے‘‘​
چونکہ ان فطری اخلاق وعادات میں ایک قسم کی نورانیت ہے لہٰذا جب ان کو صالح ترین معاشرہ نیک ترین مربی مل جاتے ہیںتو ان کی نورانیت کا پاور بڑھ جاتا ہے گویا یہ سب چیزیں ان کے لئے پاور ہاؤس کا کام کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان اخلاق حسنہ کا مجسمہ نورانیت کے پسندیدہ القاب، ولایت ،قطبیت،غوثیت اور ابدالیت کا مسمیٰ ہوتا ہے۔جس کو ہر وقت اپنے خالق کا قرب حاصل ہوتا ہے اور یہی منشاءربانی ہے۔
{وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون }
اور ہم نے جن اور انس کواپنی ہی تابعداری کے لئے پیدا کیا ہے۔
اور انسان کی صل تابعداری یہی ہے کہ وہ خدا کی عطا کردہ قوتوںکو صراط مستقیم سے نہ بھٹکنے دے۔
حضرات انبیاء علیہم السلام یہی کام کیاہے کہ اپنی قوت ملکوتیہ کے ذریعہ بگڑے ہوئے انسانوں کو اخلاقی پستی سے نکال کر اسی صراط مستقیم پر ڈالدیا جس سے ماحول اور معاشرے نے بھٹکا دیا تھا۔چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے۔
انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (الحدیث)
میں اچھے اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہؓ نے اخلاقیات کی اسی شاہراہ پر لگائے رکھا اور اس سے بھٹکے ہوئے لوگوںکو ادھر بلایا۔
یہ حضرات چونکہ تربیت یافتہ از علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے اوران کا ماحول بھی خیر القرون تھا اس لئے اس وقت بھٹکے ہوؤں کو صرف’’ الطریق الطریق‘‘ کہدینا ہی کا فی تھا اور بس ،لیکن جوں جوںزمانہ رسالت سے بعد ہوتا گیا ویسے ہی ماحول پر طغیانی وعصیانی بادل چھاتے گئے اور طاغوتیت کی مسموم ہوائیں چلنے لگیں لہٰذا اس ماحول میںجو بھی طاغوتیت کے قریب ہوا برباد ہوگیا لیکن جس نے صالح ہاتھوں میںتربیت پائی اور جو علوم نبوت کی نگرانی میں رہا اس کے لئے وہی فطری راہ کھلی رہی‘‘جس کو ہم شریعت کہتے ہیں۔

شریعت، طریقت، حقیقت،ومعرفت

شریعت ایک ایسا قانون الٰہی ہے کہ جس میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا اور شریعت کی متابعت کے بغیر انسانیت کا کمال ناممکن ہے ۔قلب کی صفائی اور روحانیت کے لئے نہایت ضروری ہے کہ شریعت کی اتباع کی جائے ۔حضرت ؒ نے فرمایا ’’اگر کوئی بڑاسے بڑا ولی اور قطب خلاف شریعت کوئی کام کرتا ہے تو اس کی ولایت اور روحانیت کو نقصان پہونچتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیںکہ کوئی شریعت کی مدد لئے بغیر روحانیت اور ولایت کی دشوار گھاٹیوں اور منازل کو طے کرلے۔‘‘
’’یک فعل غیر مشروع بندہ را از مرتبۂ ولایت بیفگند‘‘​
لہٰذا اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے اور اپنا محبوب بندہ بنالے تو اس کو چاہئے کہ کتاب وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرے۔
{ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ}(الآیہ)
اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ کی تو میری راہ پر چلو تاکہ اللہ تم سے محبت کرے۔
اسی کا نام شریعت ہے اسی کو طریقت ،سلوک یا تصوف کہتے ہیں ۔حضرت والد صاحبؒ نے’’ ولی کامل‘‘میں تصوف کے بارے میں چند اکابر کے اقوال نقل کئے ہیں وہ درج ذیل پیش خدمت ہیں۔
(۱)تصوف طبیعت کی پاکیزگی ہے کہ انسان میں چھپی رہتی ہے۔ (ابن عطاؒ)
(۲)تصوف نام ہے خدائے تعالیٰ کے ساتھ ہونے کا مگر اس طرح کہ اس معیت کو بجز خدا کے کوئی اور نہ جانتا ہو۔ (سہیلؒ،جنیدؒ)
(۳)دل کی صفائی حاصل کرنے کا نام احسان اور یہی تصوف کا مقصد ہے ،تصوف کا مقصد کوئی نئی چیز نہیں ہے ،حدیث جبرئیل میں جو کچھ ہے وہی سچ ہے ۔ (حضرت مدنیؒ) (۱)
(۴)فطرت انسانی کو جس طرح بھی شریعت کے مطابق کرلیا جائے اسی کا نام سلوک ہے۔ (حضرت والدجناب مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ)
الحاصل شریعت تمام افعال واعمال ظاہری وباطنی کے مجموعہ کا نام ہے جن کو دو الگ الگ نام دیدیا گیا۔اعمال ظاہری کو ’’فقہ ‘‘ اور اعمال باطنی کو’’ طریقت‘‘یا ’’تصوف‘‘ کہا جانے لگا۔
ان اعمال ظاہری وباطنی کی اصلاح کے یعنی تز کیہ نفس کے بعد عمل خالص کی وجہ سے قلب میں جِلا ،صفائی ونورانیت پیدا ہو جاتی ہے ،ظلمت کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور عرفانی ہوائیں چلنے لگتی ہیں ،اور وہ معاملات جو بین اللہ اور بین العبد پوشیدہ ہوتے ہیں وہ منکشف ہونے لگتے ہیں،ان مکشوفات کو شریعت کی اصطلاح میں ’’ حقیقت ‘‘ کہتے ہیں ،اور ان انکشافات کو ’’ معرفت ‘‘ کہتے ہیں اور جس پر یہ حالات منکشف ہوتے ہیں اس کو ’’عارف ‘‘کہتے ہیں۔اور بقول شاعر ؎
مجھے راز دوعالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آ نکھو ںکے آ تا ہے​
اور :
دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار
اک ذرا گردن جھکائی دیکھ لی​
(واللہ اعلم با لصواب)

بیعت وارادت​
بیعت نام ہے کسی معتبر واقف کار شیخ کامل (جو پابند شریعت ہو)کو منزل مقصود تک پہونچنے کے لئے رہبر بنا لینا۔ اور اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر عہد کرنا کہ تا عمر شریعت کا پابند رہوںگا اور شرک وبدعت سے دور رہوںگا۔صوفیائے کرام کی اصطلاح میں اس کو ’’بیعتِ طریقت‘‘کہتے ہیں۔اور اس طریقہ کا مسنون ہونا احادیث سے ثابت ہے۔
عن عـوف بن مالک الاشجعی قـال: کُنّا عِند النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم تسعۃ أو ثمانیۃ أو سبعۃ فقال الا تبایعون رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فبسطنا أیدینا و قلنا علی ما نبایعک یا رسول اللّٰہ ،قال علی ان تعبدوا اللّٰہ ولا تشرکوا بہ شیائً وتصلوا الصلوٰتِ الخمس وتسمعـــوا وتطیعوا۔
( مسلم، ابوداؤد، و نسائی)


حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاضر تھے جو نو تھے یا آٹھ یا سات، آپؐ نے ارشاد فر مایا: کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرتے؟ ہم نے ہاتھ پھیلادئیے اور ہم نے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ سے کس امر پر بیعت کریں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ان اُمور پر کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور پانچوں نمازیں پڑھو اور (احکام) کو سنواور اطاعت کرو۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بیعت کرنا بدعت نہیں بلکہ مسنون ہے چنانچہ اگر کوئی شریعت کے مطابق اپنے دینی وقلبی اصلاح کے لئے کہ اس کی آخرت سنور جائے کسی کو اپنا مربی یا استاذ بنالے تو اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ فعل مستحسن ہے ؎
یہ کیفیت اسی کو ملتی ہے جس کے ہے مقدر میں​
مے الفت نہ خم میں ہے نہ شیشہ میں نہ ساغر میں​
اندرونی صفحات میں آپ پڑ ھ چکے ہوں گے کہ تصور شیخ کو حضرت والد صاحبؒ نے ناجائز لکھا ہے اسی کے ذیل مزید کچھ عرض کرتا ہوں۔
ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں سلوک کے متعلق کچھ بیان فرمارہے تھے کہ احقر راقم الحروف معلوم کربیٹھا کہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ صوفیائے کرام نے تصورِ شیخ کی اجازت کیسے دیدی؟ کیونکہ تصورِ شیخ اور غیرمسلموں کا عقیدہ ’’دھیان، گیان‘‘ بالکل ایک ہے۔ غیرمسلموں کے عقیدے کے مطابق وہ بت کا دھیان جماکر ’’پرماتما‘‘ کو پالیتے ہیں۔ فرمایا تو صحیح کہہ رہا ہے میں اسی قباحت کی وجہ سے اس کو ناجائز کہتا ہوں۔ اس کے بعد آپؒ نے مندرجہ ذیل بصیرت افروز بیان ارشاد فرمایا:
’’فرمایا: برصغیر کا تصوف ’’جوگیت اور سنیاسیت ‘‘ سے متأثر ہے زمانۂ قدیم سے ہی ہندستان(جب ملک تقسیم نہیں ہواتھا)چونکہ بت پرستی کا مر کزر ہا ہے اور بت پرستی کو ہی ’’پرماتما ‘‘تک پہنچنے کا ذریعہ مانتے ہیں ۔ چنانچہ جب یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور تصوف کی طرف ان کا میلان ہوا تو ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کے لئے انھوںنے تصورِ شیخ کو اختیار کیا۔ اس وقت کے صوفیائے کرام بہت محتاط طریقے سے اس کی اجازت دیا کرتے تھے ۔لیکن مغل بادشاہ اکبر کے دورِ حکومت میں جب اسلام اور علمائے حق کی خوب تذلیل وتحقیر کی جانے لگی تو باطل پرستوں کی بن آئی اس وقت کے ظاہر پرست اور دنیا دار صوفیوں نے تصورِ شیخ کو تصوف کا لازمی جزو بنادیا اور رفتہ رفتہ یہ تصورِ شیخ بڑھتے بڑھتے پیرپرستی کی شکل اختیار کرگیا اور پیر کو ہی حاضر وناظر جاننے لگے‘‘۔
ہمارے اکابر میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے (۱) ان کے علاوہ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ وغیرہم جیسے جلیل القدر حضرات نے اچھا نہیں سمجھا ہے۔ حضرت تھانویؒ نے فرمایا:
’’مجھ کو اس تصورِ شیخ سے سخت انقباض ہے اس طرح انہماک کے ساتھ کسی مخلوق کی طرف توجہ کرناتوحید کے خلاف ہے۔ اس سے غیرت آتی ہے کہ غیر کی صورت ایسے طریق پر ذہن میں جمالیں جو حق تعالیٰ کے لئے زیبا تھا‘‘۔ (الکلام الحسن، ص:۷۶)
سلوک کا منشاء اور مقصود ہی ادنیٰ سے ادنیٰ شرک سے بیزاری ہے اور کہاں اتنا بڑا شرک؟ گو کہ ابتدائی مراحل ہی میں کیوں نہ ہو اس لئے کہ اگر اس دوران موت واقع ہوجائے تو کفر پر موت یقینی ہے۔ (اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے) ایک طرف تو ہم کہتے ہیں ’’لاالٰہ إلا اللہ‘‘ اور ساتھ ہی یہ آیات شریفہ بھی تلاوت کرتے ہیں {’ھُو الأوّلُ والآخرُ والظّاہِرُ والبَاطِنُ } اوریہ آیہ شریفہ{فمن کان یرجو لقاء ربہ فلیعمل عملاً صالحاًولا تشرک بعبادۃ ربہ احداً} اور دوسری طرف شیخ کو حاضر وناظر جاننا اور اس کا خیال جمانا عقل سے بعید ہے کیونکہ اسلام کا اور ایمان کامدار تصور شیخ پراور موجودہ تصوف پرتو ہے نہیں کہ جس پر عمل نہ کرنے سے ایمان یا اسلام ناقص رہ جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہردست ِ نباید داد دست
حضرت والد صاحبؒ اولاً تو بیعت کرتے ہی نہ تھے۔ اگر کرتے بھی تھے تو بہت چھان پھٹک کر صاف منع فرمادیا کرتے تھے کہ بھائی میں تو لکھنے پڑھنے اور مسئلے مسائل کی لائن کا آدمی ہوں مجھ سے تو مسئلہ مسائل تک ہی تعلق رکھو۔ اس بارے میں تو آپ اور کسی سے ہی رجوع کریں، لیکن جب دیکھ لیتے کہ اس آدمی کو سچی طلب ہے اور واقعی اصلاحِ حال چاہتا ہے اور کوئی دنیاوی اغراض نہیں رکھتا تو پھر کافی بازپرس اور وعدہ وعید کے بعد بیعت فرمالیا کرتے تھے۔ بیعت کرنے میں آپ کافی کوفت اور اُلجھن محسوس کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپکے مریدین کا حلقہ زیادہ وسیع نہیں تھا۔
حضرت والدؒ کا سلوک میں کوئی خاص طریقۂ تعلیم نہ تھا۔ طالب کی استعداد اور صلاحیت کے مطابق جو مناسب سمجھتے تھے تعلیم فرماتے تھے اور بات بھی یہی ہے کہ آدمی کے حالات کے مطابق اس کو تعلیم دی جائے۔ آپ نے فرمایا:’’ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ صرف ایک ہی طریقے سے وصول ہوسکتا ہے بلکہ شیخ کامل طالب کو اس کے مزاج وعادات کو شناخت کرکے تعلیم دیتا ہے چنانچہ محض تلاوتِ قرآن یا کثرتِ نوافل یا کثرتِ استغفار یا کثرتِ درود شریف یا کثرتِ مطالعۂ کتب دینیہ سے بھی وصول کرایا جاسکتا ہے اور اس کی مثالیں موجود ہیں۔ حضرت شیخ الہندؒ کے یہاں اوراد واعمال مسنونہ پر بہت زیادہ زور تھا۔ خود بھی سختی سے اتباعِ سنت اور اورادِ مسنونہ کی پابندی کرتے تھے اسی کی دوسروں کو تعلیم فرماتے تھے۔ اور ایسا ہی حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ نے اپنے ایک مکتوب میں فرمایا ہے:
’’سب افکار ومراتب تحسین نسبت کے واسطے ہوتے ہیں جب نسبت یاد داشت حاصل ہوچکی تو اب مراقبہ کی درخواست عجیب بات ہے اور تمہارا ذکر لسانی قرآن وصلوٰۃ ذکر مسنونہ مراقبہ ہے سب میں یادداشت ہے کہ ثمرۂ مراقبات یہی ہے، اب کسی مراقبے کی حاجت نہیں۔ اذکارِ مسنونہ، احادیث پڑھو، قرآن ونوافل ادا کرو اور بس‘‘۔
(ماخوذ از تذکرہ شیخ الہند، تصنیف والد صاحبؒ)
حالات اور صلاحیت کے اعتبار سے آپ طالب کو بڑھاتے تھے۔ بعض کو صرف قرآن شریف سیکھنے اور پڑھنے کی ہدایت فرماتے اور ساتھ میں تسبیحاتِ فاطمیہؓ اور درود شریف واستغفار کی تعلیم فرماتے اور کچھ کو اورادِ مسنونہ کے ساتھ محاسبۂ نفس اور پاس انفاس کی تلقین فرماتے۔ اور فرماتے کہ یہی حاصل مراقبہ ہے اور اسی سے مراقبہ والی کیفیات حاصل ہوجائیں گی۔
حضرت والد صاحبؒ کی ابتدائی تعلیمات جو بیعت ہونے کے بعد شروع ہوتی ہیں وہ یہ ہیں:
(۱) توبہ کا اہتمام کیا جائے۔ اور وہ تمام اُمور جن کی شریعت نے عموماً وخصوصاً توبہ کی ہدایت فرمائی ہے ان سے بچنے کا اہتمام کیا جائے۔ اور اگر پھر بھی کوئی عہد شکنی ہوجائے یا کوئی غیرشرعی لغزش ہوجائے تو اس سے دوبارہ جلد ازجلد توبہ کی جائے۔
(۲) حقوق العباد کی ادائیگی کی جائے اور معافی کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور اگر کوئی شادی شدہ ہو تا تو ان سے بیوی کے مہر کے بارے میں دریافت فرماتے کہ بیوی کا مہر ادا کردیا یا نہیں؟ اگر ادا نہیں کیاتو ادا کرنے کی ہدایت فرماتے اور اس کی شکل یہ بیان فرماتے کہ اگر تم یک مشت مہر ادا نہیں کرسکتے ہو تو نان نفقہ کے علاوہ جو زائد اشیاء یا رقم بیوی کو دیتے ہو اس کو یہ کہہ کر دے دیا جائے کہ یہ تمہارے مہر میں سے ہے۔ کیونکہ حقوق کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حقوق سے زیادہ سخت ہے۔ ان حقوق میں مسلمان، ذمی، کافر میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ ذمیوں کا معاملہ اس سلسلے میں مسلمانوں سے بھی زیادہ سخت ہے اس لئے کہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی ذمی پر ظلم کرے یا اس کی آبرو گرائے یا تحمل سے زیادہ اس پر کوئی مطالبہ رکھے یا اس کی خوش دلی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے دعویٰ کرنے والا ہوں گا، چنانچہ سوچ لیجئے کہ جب سفارشی ہی دعوے دار ہوجائے تو معاملہ سنگین ہوجائے گا۔
(۳) عبادات میں فرائض کو سب سے مقدم رکھا جائے اگر فرائض (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج) میں سے کسی کی قضاء واجب ہے تو پہلے قضاء کو ادا کیا جائے پھر واجبات (وتر وغیرہ) کی قضاء ادا کی جائے۔
(۴) اتباعِ سنت کا خاص کر اہتمام کیا جائے، روزمرہ کی زندگی اخلاق وعادات اور معاملات میںسنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے۔
(۵) اکابر کا ادب کیا جائے، خصوصاً علمائے کرام اور اہل اللہ کا، ان کی ایذارسانی سے احتراز کیا جائے ،اس سے سخت بے دینی کا اندیشہ ہے۔
(۶) تمام وظائف میں قرآن شریف کی تلاوت سب سے افضل وظیفہ ہے۔ قرآن شریف بلاناغہ حسب حال تلاوت کیا جائے۔ اگر کوئی قرآن شریف پڑھا ہوا نہیں ہوتا تھا تو اس کو قرآن شریف سیکھنے کی ہدایت فرماتے اور اذکار کو مؤخر کرا دیا کرتے تھے۔ اس لئے کہ تلاوتِ قرآن سلطان الاذکار ہے، اگر کوئی قرآن شریف سیکھنے سے مجبور ہوتا تو اس کو سننے کی ہدایت فرماتے۔
حسب استطاعت قرآن شریف کی تلاوت کی جائے افضل یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک قرآن شریف اس طریقہ پر ختم کیا جائے کہ جمعہ کے دن سورۂ بقرہسے آخر مائدہ تک اور ہفتہ کو سورۂ انعام سے سو رۂ توبہ تک اوراتور کے دن سورۂ یونس سے سورۂ مریم تک اور پیر کے دن سورۂ طہٓ سے سورۂ قصص تک اور منگل کے دن سورۂ عنکبوت سے سورۂ صٓت ک اور بدھ کے دن سورۂ زمرسے سورۂ رحمٰنت ک اور جمعرات کے دن سورۂ واقعہ سے ختم قرآن شریف تک پڑھے اور سجدہ میں گر کر دعا کرے قبول ہوگی یاد رہے مداومت عمل نہایت ضروری ہے۔
(۷) قیامِ لیل کی ترغیب فرمایا کرتے تھے، کہ ترقی کا مدار اسی پر ہے۔
(۸) مبتدی کو سادہ کھانا کھانے کی ترغیب فرماتے اور اسی کے ساتھ خمیرہ گاؤ زباں سادہ اور مربہ آملہ وغیرہ چند ادویہ کی ہدایت فرماتے اس لئے کہ دورانِ اذکار دماغ میں خشکی بڑھتی ہے جس سے مالیخولیا بڑھنے کا اندیشہ رہتا ہے۔
(۹) اوراد میں سے حزب البحر اور دلائل الخیرات اور حزب الاعظم کی حسب استعدادِ سالک اجازت مرحمت فرماتے۔
(۱۰) فرماتے: حرام کام مت کرو بھلے سے نیکی کم ہو۔ ایک حرام کا چھوڑدینا دس نیکی سے زیادہ افضل ہے اس لئے کہ جس نیکی کے ساتھ حرام بھی لگا ہوا ہوتا ہے وہ نیکی قابل قبول نہیں ہوتی۔
(۱۱)فرمایا بندہ کو ہر حال میں دعا کرتے رہنا چاہئے خواہ راحت یا مصیبت ،یہ سمجھ کر دعا ترک نہیں کرنی چاہئے کہ ہماری دعا ہی کیا ہے ؟دعا کیونکہ عبادت ہے اور عبادت کو کوئی ترک نہیں کرتا۔ دعا کے لئے ضروری ہے کہ شروع میں حمد و ثنا کے الفاظ ہوں حضرت مدنیؒ ہر دعامیں بلند آواز سے فرمایا کرتے تھے۔اَلحمد لِلّٰہِ الَذِّی ھَدَانا لِھٰذَا مَاکناّ لَنَھتَدِیَ لَولا اَن ھَدانااللّٰہُ(خدا کی تعریف جس نے ہمیں اسکی ھدایت دی اگر اللہ ھدایت نہ دیتا تو ہم ھدایت پرنہ ہوتے)

خطبہ مسنونہ کے بعد ارشاد فرماتے:کہو ! بیعت کی میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر بواسطہ ان کے خلفاء کے،اور عہد کرتا ہوں کہ شرک نہ کروںگا ،زنا نہ کروں گا،کسی کو نا حق قتل نہ کروں گا، کسی پر نہ حق بہتان نہ باندھوں گا، جہاں تک ہو سکے گا خدا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں گااور اپنی طاقت بھر گناہوں سے بچتا رہوںگااور اگر کبھی کوئی گناہ ہوگیا تو جلد از جلد توبہ کروں گا۔اور توبہ کرتا ہوں میں اپنے تمام اگلے اور پچھلے گناہوں سے جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو میں نہیں جانتا اے اللہ تو مجھے معاف فرما اور میرے گناہوں کوبخش دے اور میری توبہ قبول فرما۔

بیعت کی میں نے عزیز الرحمن کے ہاتھوں پر طریقہ چشتیہ صابریہ ،اور طریقہ چشتیہ نظامیہ،اور طریقہ نقشبندیہ،اور طریقہ قادریہ،اور طریقہ سہروردیہ میں اور بیعت کی میں نے حضرت شیخ عبدالقادرؒسے بواسطہ عزیزالرحمن۔اے اللہ تو میری بیعت قبول فرما اور مجھے ان سلسلوں کے بزرگو ں کے طفیل میں اپنی محبت اور کامل ایمان عطا فرمااور مرتے دم تک ایمان پر قائم فرما اور آخرت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اوران کا ساتھ نصیب ہو اور جنت نصیب ہو۔ اس کے بعد دعا فرما تے اور کچھ تعلیم اور نصیحت فرماتے۔

چند فرمودات اور واقعات​

یہ دنیا دارالتکوین ہے​
فرمایا: دنیا دو طرح کی ہے ایک یہ دنیا جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اور دوسری دنیا آخرت کی ہے جہاں ہم سب کا ٹھکانہ دائمی ہوگا۔ اس دنیا میں کوئی کام بغیر کسی سبب کے نہیں ہوتا اور آسمانی دنیا میں کسی سبب کی ضرورت نہیں، وہاں تو صرف إِذَا أرَادَ شَیئًا أنْ یَّقُوْلَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ والی بات ہوتی ہے۔ اس کی مثال حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش جو کہ بغیر کسی سبب کے وجود میں آئی۔ اور اس دنیا کی مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ گو کہ اللہ قادر ہے لیکن اس دنیا کو دارالسبب بنایا ہے، اس لئے ان کی پیدائش ماں سے ہوئی اور حضرت جبرئیل امین ؑ نے روح پھونکی تھی۔ تو معلوم ہوا کہ اس دنیا میں جب تک کوئی سبب اختیار نہ کیا جائے، کوئی کام نہیں ہوگا، گوکہ مسبب الاسباب باری تعالیٰ ہی ہے۔
مصیبت کی دو قسمیں ہیں
ایک صاحب (فاروق احمد) جو کہ چالیس سال کا عرصہ ہوا بجنور سے نقل وطن کرکے دہلی جابسے۔ ایک دن یہ حضرت والد صاحبؒ کے پاس ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے اور فرمایا: حضرت دعاء کردیجئے کہ اللہ راضی ہوجائے۔
یہ سن کر آپ خاموش ہوگئے، اتنے میں احقر چائے لے کر حاضر ہوگیا۔ اشراق کا وقت تھا، بات ایک شاگردِ محسن کش کی شروع ہوگئی، کہنے لگے: میں نے سنا ہے کہ اس نے آپ کو بہت تکلیف پہنچائی ہے؟ فرمایا: میاں مصیبت اور تکلیف دو قسم کی ہیں ایک تکلیف وہ جو انسان کو اپنے اعمال کی و جہ سے لاحق ہوتی ہے اوراس کی سزا اس کو ملتی ہے۔ اور دوسری مصیبت وہ جس میں انسان کی اپنی کوئی کوتاہی نہیں ہوتی لیکن مصیبت پھر بھی آجاتی ہے، یہ

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم

پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​

از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:66

لیکن مصیبت پھر بھی آجاتی ہے، یہ پریشانی من جانب اللہ ہوتی ہے یہ وہ پریشانی اور مصیبت ہوتی ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں پر نازل ہوتی ہے، اس مصیبت سے انبیاء سے لے کر اولیاء اور نیک حضرات نہیں بچ سکے اور نہ بچ سکیں گے۔ کیونکہ یہ ان کی آزمائش ہوتی ہے جو کہ ترقی ٔ منازل کا سبب بنتی ہے اور درجات بلند ہوتے ہیں۔
اس نے میرے اوپر تیرہ فرضی مقدمے دائر کئے ہیں ان میں کا ہر مقدمہ اپنی نوعیت کا نہایت سنگین ہے، ان میں سے ہر کیس کی سزا تقریباً دس سے سال سے بیس سال کے درمیان ہوتی ہے۔ دشمن کے لحاظ سے آج مجھے جیل میں ہونا چاہئے تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں آج بالکل محفوظ ہوں ہاں وقتی طور پر مجھے بہت پریشانی پیش آئی جس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ثابت قدم رکھا۔
پھر انہی صاحب سے فرمایا کہ اس بات میں آپ کے سوال کا جواب بھی موجود ہے یعنی یہ تمنا کرنا کہ اللہ راضی ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مصیبتوں کو دعوت دے رہے ہیں جو کم از کم آپ کے لئے ضرور مشکل ہے (معاف کرنا)۔ یوں کہئے کہ اللہ اپنی عافیت میں رکھے اور خاتمہ ایمان پر کرے۔
روزہ، نماز میں اللہ بندہ کے قریب ہوجاتا ہے
اللہ کے قرب کو حاصل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں ایک نماز، اور دوسرا روزہ۔ اسی لئے فرمایا، نماز برائی سے روکتی ہے۔ روزہ کی حالت میں اللہ بندہ سے قریب ہوجاتا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ بندہ اللہ کے قریب ہوجاتا ہے۔ روزے سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور تقویٰ وہ ہے جس کو حضرت عمرؓ نے فرمایا ہے، صحابہؓ سے فرمایا کہ کیا کبھی تم نے خاردار جنگل میں سفر کیا ہے؟ جواب دیا: جی ہاں! کہا: تو وہاں کس طرح چلتے ہو؟ جواب دیا: اپنے دامن کو سمیٹ کر چلتے ہیں۔ فرمایا: تو سمجھ لو، جس طرح آدمی جنگل میں اپنے دامن کو سمیٹ لیتا ہے اس لئے تقویٰ کے لئے بھی ضروری ہے کہ انسان خود کو گناہوں سے سمیٹتا ہوا چلے۔تو اس طرح قرب حاصل ہوگا ، ایک طرف تو گناہ بھی ہوا ور دوسری طرح چاہو کہ اللہ کی رحمت بھی نازل ہو تو یہ ناممکن ہے۔ جس طرح کی روزے کی حالت میں انسان بوقت وضو یا کلی کرتے وقت پانی کا ایک قطرہ بھی حلق سے اُتارنے کو حرام جانتا ہے اسی طرح دوسرے حرام کاموں کو حرام سمجھتے ہوئے بچے تو قرب ممکن ہے،نہیں تو قربِ شیطان حاصل ہوگا۔
اسی طرح اگر اعمال میں اخلاص نہیں ہوگا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک کاغذ کا شیر یا تصویر اور اسی کے مقابل اصلی شیر ، لیکن دونوں میں فرق ہوتا ہے، شیر کی تصویر سے آدمی کو خوف معلوم نہیں ہوتا اور اصلی سے ڈرتا ہے۔ اسی طرح سے ظاہری عبادت محض ایک ڈھانچہ ہے کہ اس میں روح نہیں ہوتی۔
مسلمانوں کی پس ماندگی اور علماء کا مقام
(مخاطب اہل بیت بوقت عشاء)
آج کل مسلمانوں کی تجارتی زبوں حالی اور پس ماندگی ان کے اپنے کارنامے اور ان کے اعمال کی وجہ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلمان دنیا پر حاکم تھے ا ور مسلمانوں کا احترام کیا جاتا تھا اور ان کی ہیبت لوگوں کے دلوں میں طاری تھی۔ ۱۹۴۷ئ؁ سے پہلے غیرمسلم، مسلمانوں کی مثال دیا کرتے تھے: ’’میاں جی اور جھوٹ‘‘۔ لوگ اپنا روپیہ پیسہ رکھ کر مطمئن ہوجاتے تھے اور اپنی جان ومال کو ان کے پاس محفوظ سمجھتے تھے، اس وقت غیرمسلموں کے ذہن میں مسلمانوں کے بارے میں یہ بات ایک ایمان اور دھرم کا درجہ رکھتی تھی کہ مسلمان سود، جھوٹ اور شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگاسکتا۔ آج انہیں لوگوں کا خیال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان لوگوں کا بیان ہے کہ اس وقت دنیا کی بدترین قوم مسلمانوں کی ہے، وہ برائی جو اس دنیا میں ہوسکتی ہے وہ مسلمانوں میں ہے، ان کا یہ فقرہ: ’’میاں یہ مسلمانوں کا محلہ ہے‘‘۔ اسی طرح کسی نووارد کو مسلمانوں اور غیرمسلموں کے محلے میں امتیاز کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔
فرمایا آج مسلمان بڑی تیزی سے مائل بتنزل ہیں، اس کی تنزلی کی رفتار اتنی ہی تیز ہے کہ جتنی تیزی سے تسبیح کے دانے گرتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کی تنزلی اور ذہنی پسماندگی کا اندازہ اس سے لگاسکتے ہیں کہ آج دنیا میں:
زیادہ تعداد ا سپتالوں میں مسلمانوں کی
؍؍ چوری، ڈکیتی میں ؍؍
؍؍ جاہلوں میں ؍؍
؍؍ مزدوروں میں ؍؍
؍؍ فقیروں میں ؍ ؍
؍؍ عیاشی کے اڈوں میں ؍؍
؍؍ اپاہجوں میں ؍؍
؍؍ شرابیوں میں ؍؍
مسلمانوں کی سرکاری ملازمتوں کا حال بھی یہی ہے۔ مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد میونسپلٹی میں تھی، حکومت نے جب چنگی، ٹیکس ہٹایا تو ان سب ملازموں کو میترانیوں (بھنگن) کی دیکھ بھال اور سڑک نالیوں کو صاف کرنے والوں پر لگادی۔ اور اب تو بہت سے مسلمان میلا اُٹھانے کا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ حکومت کے اہم اور غیراہم شعبوں میں سب سے کم تعداد مسلمانوں کی ہے، اس کی بڑی وجہ ان کی غیر راہ روی ہے۔ آج مسلمانوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویزن کو ترقی کا نشان سمجھ لیا ہے کوئی ان سے معلوم کرے کہ تم نے کتنی ترقی کی؟
مسلمانوں کو اور مسلم حکومتوں کو یہودیوں اور امریکہ نے اپنا نشانہ بنارکھا ہے جس حکومت یا مسلمان نے مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے بارے میں سوچا اور قدم اُٹھایا اس کو فنافی الفور کردیا جاتا ہے، چنانچہ دنیا کے چند مسلم حکمرانوں کا حال ہمارے سامنے ہے، مثلاً: شاہ فیصل کاقتل ، انور سادات کا قتل، ضیاء الحق کا قتل۔ اور مسلم ممالک پر دہشت گرد کہہ کر پابندی لگادینا۔ جس نے بھی اسلام کے خلاف آواز اُٹھائی اس کو سراہا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کی مکمل گارنٹی دی جاتی ہے، چنانچہ اگر مسلمانوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا تو ان کی حالت غلام سے بھی بدتر ہوجائے گی، یاد رکھو:
۱- سائنس کی ترقی اسلامی تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔
۲- اگر مسلمان ایک اصول پر قائم ہوجائیں تو حکومتوں کے قوانین ان کے حساب سے ترتیب دئیے جانے لگیں گے، مثال کے طور پر جمعۃ الوداع کو دہلی میں سڑکوں کا راستہ بدل دیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔صوبہ گیا کا تبلیغی اجتماع جو کہ پندرہ لاکھ افراد پر مشتمل تھا، اس کے نظم ونسق میں ساری سرکاری مشینری فیل تھی لیکن اس کو تبلیغی منتظمین نے بحسن وخوبی انجام دیا۔
۳- یاد رکھو عالم ہی ذریعۂ نجات ہیں۔
۴- عالم ہی قوم کا رہبر ہوتا ہے، سیاسی لیڈر یا ماسٹر نہیں۔
۵- عالم کا احترام دنیا کرتی ہے، جب کہ لیڈر کا احترام ظاہری ہوتا ہے عقیدت نہیں۔
۶- عالم کی زندگی میں سکون کم تنخواہ ہی میں ہے۔
۷- یادرکھو اپنے بچوں کو قرآنی تعلیم اوّل دلاؤ اس لئے کہ جو رنگ پہلے چڑھ جاتا ہے وہ پھر اُترتا نہیں، میں ایک واقعہ یہیں کا بتاتا ہوں: ایک دن میں صبح کے وقت مدینہ پریس کسی کام سے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچے قطار میں کھڑے ہیں اور ہاتھوں کو اس طرح جوڑ رکھا ہے جیسے ہندو ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتے ہیں۔
تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچے جو کل کا مستقبل ہیں جب ان کی تربیت غیراسلامی ماحول میں ہوگی تو یہ آگے چل کر قوم کے رہبر کیسے بن سکتے ہیں؟ یاد رکھو، رہبر صرف دینی درسگاہ کا طالب علم ہی ہوسکتا ہے وہ بچہ نہیں جو اسکول سے فارغ ہوا ہو وہ تو سیاسی لیڈر ہی ہوسکتا ہے جو کہ پاخانہ کے ڈھیر پر کھڑا ہوکر اپنا قد ناپتا ہے۔
یاد رکھو عالم جب سکڑتا ہے تو برائیاں پھیلتی ہیں کیونکہ عالم ہمیشہ برائیوں کے آڑے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مفاد پرستوں نے عالموں کو ہی اپنی تیغ ودار کا نشانہ بنایا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ قتل عالموں کا کرایا گیا ہے اور ان کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا ہے اور آج بھی عالم سطح پر عالموں پر دقیق نگاہ رکھی جارہی ہے اور ان کو لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل اور دہشت گرد بناکر پیش کیا جارہا ہے اور خود مسلمان بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں۔
ع
دارا وسکندر سے وہ مردِ فقر اولیٰ​
کیونکہ ایک دور تھا کہ عالموں کا نہ صرف مسلمان بلکہ غیرمسلم بھی نہایت احترام کرتے تھے، لوگ ان کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، غلط کام کرتا ہوا آدمی رُک جاتا تھا، بیڑی سکریٹ پھینک دیا کرتا تھا اب بیڑی سگریٹ سامنے بیٹھ کر ہی پیتے ہیں، کھڑا ہونا تو درکنار سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔
فرمایا: میں نے کبھی بھی کام کو اپنے اوپر حاوی نہیں کیا، بچپن سے ہی میری یہ عادت رہی ہے کہ اسکول میں میں نے ہمیشہ فرسٹ ڈویزن حاصل کی۔ اسکول کے زمانے میں میری عادت رہی کہ گھر آکر سب سے پہلے میں اسکول ورک کرتا تھا، اس کے بعد دوسرا کام کرتا تھا۔ میں نے کافی عرصہ تک سترہ روپے ماہانہ پر اسکول میں ٹیچری کی۔
دیوبند سے فراغت کے بعد میں نے نہٹور میں مطب کھولا مگر میری طبیعت نہیں جمی۔ چنانچہ حضرت مدنیؒ نے حکم دیا کہ میں بجنور آؤں اور دین کی خدمت کروں۔ چنانچہ بجنور آکر میں نے مدرسہ ’’مدینۃ العلوم‘‘ کی بنیاد ڈالی۔
شروع سے میرا مزاج رہا ہے کہ میں سب سے الگ تھلگ رہتا تھا۔ دیوبند سے فراغت کے بعد کا واقعہ ہے کہ ہمارے رشتہ داروں میں ایک شادی ہوئی، گانے باجے کا اہتمام کیا گیا، میں نے ان کو بہت سمجھایا لیکن وہ لوگ نہ مانے اور میری تضحیک کی، عین شادی کے موقع پر لڑکا ندی پر نہانے کے لئے گیا اور ڈوب گیا تب سے ان لوگوں نے توبہ کی اور مجھ سے اُلجھنا چھوڑ دیا۔
٭ مکان کے سلسلے میں جب میں بہت پریشان ہوگیا تو کلیر شریف صابر صاحبؒ کے مزار پر گیا اور وہاں نصف گھنٹہ مراقبہ میں بیٹھا تو فیصلہ یہ دیا کہ ایک امرود کو دو جگہ تقسیم کردیا، میں نے سرتسلیم خم کیا اور اگلے دن ہی فیصلہ ہوگیا۔
٭اگر میں نے کسی کو ’’تو‘‘ کہا تو جب تک مجھے ستر مرتبہ ’’تو‘‘ نہیں کہلوالیا گیا بخشا نہیں گیا۔ آخر میں اللہ سے کہتا ہوں: اب تو بدلہ ہوگیا اب تو بخش دیا جائے، میں نے اللہ کو بہت قریب سے سمجھا ہے اور اسی کے مطابق فیصلہ صادر ہوتے ہیں۔
٭کھتریوں میں ایک مست ننگ دھڑنگ گھومتا تھا وہ مجھے دیکھ کر آہستہ ہوتا اور مؤدب ہوجاتا تھا، ایسا بارہا ہوا۔ ایک مرتبہ فتوے کے سلسلے میں ایک وکیل نے مجھے بہت پریشان کیا اور نگینے سے بار بار میرے نام نوٹس جاری کراتا آخر میں تنگ آکر میں قاضی ذوالفقار سے کہا، انھوں نے اس وکیل کو ڈانٹ پلائی تب وہ وکیل باز آیا، اس واقعے سے ایک دن پہلے یہی مست مجھ کو ملا اور کہا آپ کی جان بخش دی گئی، فرمایا: میں ایسے لوگوں سے قطعاً نہیں اُلجھتا اور نہ ان کے بارے میں کوئی رائے قائم رکھتا ہوں۔
٭یاد رکھو منافق کو علم کی خدمت سپرد نہیں کی جاتی، میں نے (شاگرد محسن کش) کو بہت سمجھایا، یاد رکھ! تیرے اس نفاق کے ساتھ علم باقی نہیں رہے گا۔
گدھا اپنی کمر پر اینٹیں لادکر لوگوں کے عالی شان محل بنواتا ہے مگر خود وہیں رہتا ہے۔ایک تو بڑا بنا جاتا ہے، بڑوں کے انتقال کے بعد اور ایک بڑا بنتا ہے بڑوں کو مار کر۔
٭ فرمایا: قومی آواز میں آڈیٹوریل کے اوپر جو شعر لکھا جاتا ہے وہ صرف میری نقل ہے،جن دونوں میں مدینہ اخبار کو ایڈٹ کرتا تھا اس وقت میں نے مدینہ اخبار کے ایڈیٹوریل کے شروع میں شعر لکھنے کی ابتدا کی تھی جس کی نقل قومی آواز نے شروع کی۔
٭ فرمایا: میں نے اپنی سب سے پہلی تقریر اعجاز علی ہال بجنور میں کی تھی جس کو میں نے خود ہی لکھا تھا، جس پر مجھے پورے ضلع کا فرسٹ انعام ملا تھا (گلاس) اور بیت بازی میں میں نے بہت سے دیوان کے دیوان یاد کرلئے تھے۔
٭ فرمایا: گزشتہ زمانے میں ادیب کامل سے بھی زیادہ قابلیت کا امتحان ہوا کرتا تھا جس کو ’’اعلیٰ قابلیت‘‘ کا امتحان کہا جاتا تھا اور ایک ہندی کا امتحان ہوتا تھا جس کو ’’وشیش یوگیتا‘‘ کی پریکشا کہا جاتا تھا۔ میں نے ان دونوں امتحان کی پورے طریقے سے تیاری کی تھی اور دیوان کے دیوان میں نے یاد کرلئے تھے، یہ امتحان مڈل کے بعد ہوا کرتا تھا۔ مڈل کے بعد میری زندگی بدل گئی اور میں امتحان نہ دے سکا، اللہ تعالیٰ نے اُردو کی صلاحیت میرے اندر پہلے ہی پیدا کردی تھی ورنہ عام طور سے مولویت کے بعد اُردو پر عبور حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں اپنے مضامین اور گفتگو میں برمحل اشعار کہتا ہوں۔ دیوبند سے فراغت کے بعد مدینے کی ایڈیٹری کی اس وقت کی اُردو نے یہاں کام دیا اور یہ اللہ کے کرم کی بات ہے۔
ایمان اور یقین ایک کیفیت ِ قلبی کا نام ہے، بالفاظِ دیگر انسان کے دل کا اللہ کے ساتھ جوڑ پیدا ہوجانا معمولی درجہ کا جوڑ تو ہر مومن کو حاصل ہے اسی جوڑ کی و جہ سے مومن ارتکابِ حرام سے گریز کرتا ہے اور طاعت کی طرف رغبت کرتا ہے، یہی جوڑ جب زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے تو مختلف اعتبارات سے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، مثلاً: ہر وقت حضوری میں رہنا دل ودماغ میں ہر وقت خدا کا ذکر ا ور اس کا تصورہنا، ملکہ یادداشت، استغراق، فنا فی اللہ وغیرہ ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہی محبت خداوندی ہے ،کہ ہمہ وقت اسی کادھیان رہے، دل میں ایک سوزش اور اضطراب ہو، بجز اس میں خدا اور یادِ خدا کے سکون نصیب نہ ہو ؎
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ سینے میں ایک آگ ہو ہر دم لگی ہوئی
اس کے حصول کا طریقہ زبان سے بکثرت ذکر کرنا ہے، تاکہ اس کے اثرات قلب کی طرف منتقل ہوں۔ اس کے بعد ضبطِ نفس اور مراقبہ کی منزل آتی ہے یہیں سے استغراق اور فنائیت شروع ہوجاتی ہے۔ کام آسان ہے تھوڑی سی مشق کی ضرورت ہے، اسکے بعد سب کچھ حاصل ہوجائے گا، اس کے لئے اہل اللہ کی صحبت اختیار کی جاتی ہے، ذکر کثرت سے کیجئے۔ یادرکھئے! ذکر کے ذریعہ رذائل دور ہوتے ہیں اور ذکر کی منزل سے گزرکر ہی سیر فی اللہ اور سیر باللہ حاصل ہوتی ہے۔ کام آسان ہے جس کو اصطلاحوں نے مشکل بنادیا ہے۔
جز یادِ دوست ہرچہ کنی عمر ضائع است ۔۔ جز سر عشق ہرچہ بخوانی بطالت است
سعدی بشوئے لوحِ دل از نقش غیر ۔۔ علمے کہ رہ بحق نہ نماید جہالت است​

تقوے کی حقیقت​

تقویٰ دراصل ایک قلبی کیفیت کا نام ہے جس کا اظہار انسانی جوارح سے ہوتا ہے۔ یوں سمجھنا چاہئے کہ قلب میں ایک ایمانی شمع روشن ہے اس کا پرتو جب جوارح پر پڑتا ہے تو اس کے مختلف نام ہوجاتے ہیں، مثلاً: انسان چاہتا ہے کہ وہ مقتضیاتِ جسمانی کی وجہ سے حرام سے بھی گریز نہ کرے اور قلب کا اللہ تعالیٰ سے جوڑ یا تعلق (جس کو اصطلاحِ شریعت میں ایمان کہاجاتا ہے) چاہتا ہے۔ اس حرام یا ممنوع میں نہ پھنسا جائے۔ ان دونوں جانبوں میں اگر مقتضیاتِ جسم کو شہ مل گئی تو اس حالت کو فسق وفجور سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جانب خداوندی کو ترجیح ہوگئی تو اس کا نام تقویٰ ہوتا ہے۔
مقتضیاتِ جسم اور تقوے کی بھی چند صورتیں ہیں: مومن جب کسی لالچ کی غرض سے کوئی کام کرتا ہے تو وہ حالت اگرچہ بظاہر زہد اور تقوے ہی کی سی ہے مگر اس وقت قلب کی وہ خاص کیفیت مضمحل ہوتی ہے اس وجہ سے اس کو حقیقتاً تقویٰ نہیں کہیں گے اگرچہ صورتاً اس کے اوپر بھی تقوے کا اطلاق ہوگا۔ قرآنِ پاک میں حقیقت ِ تقویٰ پر وعدہ ہے، صورتِ تقویٰ پر کوئی وعدہ نہیں ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: {ہُدیً لّلْمُتَّقِیْنَ} یہ کتاب متقیوں کے لئے ہدایت ہے، یعنی ہدایت جس نورِ قلبی کا نام ہے اس سے وہی لوگ فیض یاب ہوسکیں گے جو حقیقتاً متقی ہیں، لیکن جو لوگ بظاہر متقی ہیں ان کو یہ نورِ ہدایت حاصل نہیں ہوگا، بلکہ اضمحلال تعلق مع اللہ کی وجہ سے ان کے لئے ہدایت کے راستے بند ہیں۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: {اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَّقِیْنَ} اللہ تعالیٰ متقیوں کو دوست رکھتا ہے۔
اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ جن لوگوں کے قلوب کا جوڑ اللہ تعالیٰ سے قوی ہے ان سے اللہ تعالیٰ کا تعلق بھی قوی ہے اور محبت اسی چیز کا نام ہے اس لئے جن لوگوں کے قلوب کا جوڑ اللہ تعالیٰ سے کمزور ہے وہاں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کو ان سے محبت ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر رحم فرمائے۔
ہتھ جوڑوں پیوں پڑوں سن لیجیو مہاراج
اپنا کرکے راکھیو پیدا کئے کی لاج​

حضرت والد صاحبؒ کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا سلام​

یہ واقعہ پندرہ ستمبر ۱۹۹۲ئ؁ بروز جمعہ کا ہے کہ والد صاحب نے فرمایا کہ ہمارے محلہ مردہگان میں ایک صاحب کافی عرصہ ہوا ان کا نام صوفی عالم گیر ہے، مجھ سے مرید ہوئے اور مرید ایسے ہوئے کہ راستے میں نہ کبھی دعاء سلام نہ ملاقات کرنا۔ یہ صاحب میرے پاس دو دفعہ آئے، ایک فجر کے بعد، تب میں نہیں مل سکا اور پھر جمعہ کی نماز کے بعد آئے۔ وجہ آنے کی یہ بیان کی کہ جمعرات کی شام کو عشاء کے بعد میں نے ’’قل ھو اللہ‘‘ اور درود شریف کا ورد کیا اور اس کا ثواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش کر سوگیا تو میں نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: اپنے صاحب کو ہمارا سلام پہنچا دیجیو۔ انھوں نے عرض کیا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے صاحب کون؟ فرمایا: مفتی عزیز الرحمن۔
صحیح معنی میں خلافت مجھ کو اب ملی ہے
رمضان المبارک کے بعد سے ربیع الاوّل ۱۴۱۶؁ھ مطابق: ۱۹۹۵؁ء تک ایام ہمارے اوپر خصوصاً والدین پر بڑے بار گزرے۔ اتنی پریشانی والد صاحب نے کبھی محسوس نہیں کی جتنی ان دنوں چھوٹے بھائی عبودالرحمن کی علالت کی وجہ سے ہوئی ۔در حقیقت اس کو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندگی عطا کی۔ اس میں پیسہ تو کافی خرچ ہوا ہی جس کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ نے پیشگی فرمادیا تھا، لیکن ذہنی اور جسمانی پریشانیاں اس سے کہیں زیادہ تھیں۔ انھیں دنوں میں ایک دن والدہ صاحبہ مدظلہا نے مجھ سے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے والد کے مرتبہ کو بڑھا دیا ہے اور اس تکلیف کے بدلے اعزازا ت سے نوازا ہے۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد والد صاحب نے خود مجھ کو یہ خوش خبری سنائی کہ:’’ صحیح معنوں میں خلافت مجھے اب ملی ہے‘‘۔
جنّ کا بیعت ہونا
٭ ایک دن علی الصبح والد صاحبؒ بخارہ والے گھر تشریف لے گئے، وہاں تعمیر کا کام چل رہا تھا۔ مزدور ابھی آئے نہیں تھے، جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو دیکھاکہ صحن میں جو کرسی پڑی تھی اس پر ایک دیو قامت جن بیٹھا ہوا ہے۔ دیکھ کر کھڑا ہوگیا اور پھر انسانی ہیئت میں آگیا اور بولا: میں آپ سے بیعت ہونا چاہتا ہوں۔ واضح رہے اس جن نے ہم گھر والوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ پہلے تو والد صاحبؒ نے اس کو بہت برا بھلا کہا اور پھر ا سکو بیعت کرلیا۔ (اس واقعہ کو بڑی بہن ’’باجی‘‘نے بیان کیا)
٭اس واقعہ سے ایک دن پہلے کا واقعہ ہے کہ بڑی بہن کی طبیعت کافی ناساز تھی اس پر جنات کا اثر معلوم دیتا تھا، اس دن باجی نے موم بتی جلا کر اس پر ہامان، شداد اور فرعون کے نام لکھ کر جلائے تو ایک جناتنی موم بتی کی لو میں ناچنے لگی اور کہنے لگی: تو ہمارے بڑے کو جلاتی ہے میں تیرے بچوں کو نیست ونابود کردوں گی اور تم گئو ماتا کا گوشت کھاتے ہو، اس پر حکیم جی (بہنوئی صاحب) بولے: ہم تو تجھے بھی کھاجائیں گے، چپت ایسا ماروں گا کہ یاد رکھے گی۔ یہ بات تو آئی گئی سی ہوگئی، اس واقعہ کو جب والد صاحب ؒنے سنا تو کافی تسلی دی، اس واقعہ کے ایک دن بعد یہ جناتنی پھر آئی اور بولی کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور مفتی صاحب سے بیعت بھی ہونا چاہتی ہوں۔ اس وقت والد صاحب ؒوہیں موجود تھے، عین اسی وقت غازی آباد والے بہنوئی صاحب آگئے اور بات یہیں رہ گئی
تاریخ صحیح طرح سے یاد نہیں مگر نومبر ۱۹۹۵؁ء کا واقعہ ہے۔ ہمارے گھر ’’مستری امین‘‘ صاحب کام کررہے تھے۔ والد صاحب کے بارے میں بات چل نکلی، کہنے لگے کہ میرا ارادہ مفتی صاحب سے بیعت ہونے کا ہے، کہنے لگے کہ میں نے مفتی صاحب میں ایک خاص بات دیکھی کہ میں صرف ابھی تم ہی سے بتا رہا ہوں کہ جب میں کل کام پر آیا (ہمارے گھر) تومفتی صاحب کر سی پربیٹھے ہوئے تھے، جیسے ہی میری نگاہ مفتی صاحب پر پڑی میں نے دیکھا کہ مفتی صاحب کی عجیب شان ہے بالکل شہنشاہوں والی شان، ایک عجیب سا وقار میرے اوپر اور ہیبت سی طاری ہوگئی، ان پر نگاہ ڈالنے کی تاب نہ لاسکا اور میں نے فوراً نگاہ نیچی کرلی۔ ایک لمحے کے بعد میں نے جو نگاہ اُٹھاکر دیکھی تو مفتی صاحب عام حالت میں تھے، کہنے لگے کہ میں کافی دنوں سے مفتی صاحب کامطالعہ کررہا ہوں اور ان کے اندر کافی تبدیلی محسوس کررہا ہوں کہ آج کچھ کل کچھ۔
ایک دن امی کہنے لگیں: تیرے ابا مجھ سے یہ کہا کرتے ہیں کہ میرا سینہ اللہ تعالیٰ نے دین کے لئے کھول دیا ہے اور دین کے تمام رُموز واحکام میرے اوپر عیاں ہوجاتے ہیں آئینہ کی طرح۔ میں ایک دن دعاء کرکے سوئی کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو یہ بتا کہ ان کا سینہ کیسے کھل جاتا ہے؟ تو خواب میں میں نے دیکھا کہ تیرے ابا کا سینہ چاک ہوا اور اس پر حدیث شریف لکھی ہوئی تھی۔
عبادت مقصود ہے نہ کہ لذت
ایک دن بروز جمعہ عصر کے بعد میں باجی کے یہاں گیا اور ان سے جاکر دعاء کی درخواست کی، کہنے لگیں کیوں؟ میں نے اپنی پریشانی بتائی کہ میرا دل بہت پریشان ہے، مقصود حاصل نہیں ہورہا ہے۔ حافظہ کا یہ حال ہے کہ جو پڑھتا ہوں بھول جاتا ہوں۔ جب امامت کرتا ہوں تو بہت گھبراہٹ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے نماز میں غلطی ہوجاتی ہے۔ (اس میں باجی نے تھوڑی سے ترمیم کردی اور لذت سے تعبیر کیا) رات کو والد صاحب نے عشاء کی نماز کے بعد مجھے بلایا اور فرمایا کہ: تمہیں تین مسئلے پیش ہیں، (۱) نماز میں لذت کا حاصل نہ ہونا۔ (۲)حافظہ کا کمزور ہونا۔ (۳)گھبراہٹ۔
ان تینوں کا علاج اور جواب بہت مختصر طور پر یہ ہے:
(۱) نمازسے مقصود عبادت ہے نہ کہ لذت (یہ ارشاد میری ہمت بندھانے کے لئے ہے) دن بھر کی جتنی عبادات اور معاملات ہیں ان کو ان کے وقت پر ادا کرنا اور ان کا حق ادا کرنا اصل مقصود ہونا چاہئے اور یہیں سے راستے کھلتے ہیں۔
(۲) حافظہ کا کمزور ہونا انتشارِ ذہنی کی علامت ہے، انتشار کو ختم کردوگے تو حافظہ صحیح ہوجائے گا۔
(۳) گھبراہٹ کے لئے فرمایا دوا کا استعمال کرو۔ اور ’’الفتح الربانی‘‘ بطور وظیفہ کے مستقل پڑھنے کی ہدایت فرمائی اور کہا اس سے تمہارے سب مسئلے حل ہوجائیں گے۔
ایک دن فرمایا کہ ذاکر کو گوشت کھانا مضر نہیں مگر ہفتہ میں دوبار سے زیادہ نہ کھانا چاہئے کیونکہ اس سے دل سخت ہوتا ہے۔
فرمایا نسبت لغۃً دوشئی کے ارتباط کو کہتے ہیں،اور یہ عام ہے سبھی مخلوق کو حاصل ہے ،صوفیہ کے یہاں یہی نسبت خالق ومخلوق کے درمیان جب علم الیقین کے درجہ کو پہونچ جائے تو اس کو نسبت کہتے ہیں،اور حصول اس کا یہ ہے کہ اس سے رذائل ختم اور صفات محمودہ پیدا ہوتے ہیں۔
فرمایا: نسبت ایک قلبی کیفیت کا نام ہے ،جو کثرت اذکار سے پیدا ہو جاتی ہے اس کے حصول کے لئے کسی سے بیعت ہونا ضروری نہیں،یہ ایک عطأ ربانی ہے جو معصیت سے تو زائل ہو سکتی ہے اس کو شیخ طریقت بھی چاہے تو سلب نہیں کرسکتا ۔جو لوگ یہ کہتے ہیںکہ شیخ نسبت سلب کرسکتا ہے ،وہ اس کیفیت سے نا آشنا ہیں۔’’تذکرہ مشائخ دیوبند ‘‘ میں حضرت والد صاحبؒ نے حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کا ایک قول نقل فرمایاہے جو درج ذیل ہے۔
’’تصوف کے یہ جتنے طریقے اوپر بیان ہوئے ان سب کا مقصد یہ ہے کہ طالب کے نفس ناطقہ کے اندر ایک خاص کیفیت پیدا ہوجائے ۔اس کیفیت کو صوفیا نے نسبت کا نام دیا ہے ۔ اور اس کو نسبت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ کیفیت عبارت ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ انتساب اور ارتباط سے طالب جب عبادات طہارات اور ذکر واذکار پر برابر عامل رہے تو اس کے نفس ناطقہ کے اندر فرشتوں کے مشابہ ایک مستقل صفت اور عالم جبروت کی طرف توجہ کا راسخ ملکہ پیدا ہو جاتا ہے ۔الخ ان نسبتوں کے حصول کا ایک طریقہ یہ اشغال ووظائف ہیں لیکن ان کے علاوہ ان کے حصول کے اور طریقہ بھی ہیں الخ‘‘۔ (تذکرہ مشائخ دیوبندص ؍۱۴۹؍ )
(۱) فرمایا: میں نے کبھی بھی بناؤ سنگار کی عادت نہیں ڈالی اور نہ ہی دل اُدھر کو مائل ہوتا ہے۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں ہلدور سے اسٹیشن پر ٹکٹ لینے کے لئے قطار میں کھڑا ہوا اپنی باری کا انتظار کرہا تھا جب میری باری آئی تو اسٹیشن ماسٹر نے مجھے جھڑک دیا کیونکہ میں ظاہری اعتبار سے ایک گنوار سا ملا دکھائی دے رہا تھا، وہ دن اور آج کا دن میں نے شیروانی پہننا نہیں چھوڑی۔
(۲) ایک دن فرمایا کہ میں شیروانی صرف اسلامی اور علمی وقار کی وجہ سے پہن رہا ہوں۔
ارشاد فرمایا: (۱) ابھی رمضان میں دو عورتوں کو ایک آدمی نے پکڑ رکھا تھا اور ان سے لڑ رہا تھا معلوم کرنے پر معلوم ہوا کہ ان عورتوں نے چاول خریدے اور پیسہ دئیے بغیر چلتی بنیں، یہ آدمی ان سے اپنے پیسے وصول کرنا چاہ رہا تھا۔ یہ ماجرا دیکھ کر والد صاحب نے اس آدمی سے دریافت کیا کہ کتنے پیسوں کا معاملہ ہے؟ کہا کہ بتیس روپے کا۔ والد صاحب نے روپے نکال کر اس آدمی کو دئیے، اس آدمی نے یہ روپے لئے اور واپس کرتے ہوئے بولا کہ جب یہ بات ہے تو میں نہیں لوں گا اور یہ چاول میری طرف سے خیرات ہیں پھران عورتوں کو چھوڑ دیا۔
(۲) رمضان شریف کا واقعہ ہے کہ ہماری ایک پڑوسن آئی اور والد صاحب سے دعاء کے لئے کہنے لگی اور زار وقطار رونے لگی والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کا رونا مجھ سے دیکھا نہیں گیا اور میرا دل کھڑا ہوگیا اور گھر والدہ صاحبہ کو تاکید فرمائی کہ پورے رمضان گھرمیں جو بھی چیز بنے وہ ان کے یہاں ضرور بھیجا کریں،چنانچہ پورے رمضان یہی طریقہ رہا، اللہ قبول فرمائے۔
خصائص میں اتباع بدعت ہے
(نہٹور کی تقریر کا اختصار)
(۱) شروع جون میں والد صاحب کی تقریر ہوئی جس کا موضوع تھا’’سنت کا اتباع‘‘۔ فرمایا: وتر کے بعد دورکعت نفل بیٹھ کر پڑھنا اور اس کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھنا لغو ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خصائصِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات نماز پڑھتے تھے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: {اِنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلَثَیِ اللَّیْلِ} الآیۃ۔ وتر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: و تر کو آخری نماز بناؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کو آخر میں پڑھا کرتے تھے اوراس کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ و جہ اس کی یہ ہے کہ آپ تھکے ہوئے ہوتے تھے اور وتر کے بعد دوہلکی نفل بیٹھ کر پڑھ لیا کرتے تھے۔
(۲)مولوی فاروق صاحب کا واقعہ
یہ مسجد صدیقیان میں نماز پڑھاتے تھے۔ گھر سے آتے وضو کرتے اور سنت پڑھ کر مسجد میں خود بھی اور موجود نمازی بھی داہنے ہاتھ پر ٹیک لگاکر لیٹ جاتے۔ ایک دن میں (والد صاحبؒ) پہنچ گیا۔ میں نے جب نظارہ دیکھا تو سخت حیرانی ہوئی۔ میں نے مولوی فاروق سے کہا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ کہا: حضرت! سنت کی اتباع ہے۔ میں نے کہا: میاں! کیوں گمراہی میں خود مبتلا ہورہے ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کررہے ہو۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوّل وقت سنت پڑھ کر حضرتِ بلالؓ کے انتظار میں ٹیک لگاکر لیٹ جاتے تھے۔ حضرت بلالؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر اطلاع کرتے، الصلوٰۃ یارسول اللہ! تو میاں کہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور کہاں آپ کا عمل۔ دونوں کو ایک پلڑے میں رکھ رہے ہو؟ اگر اتنا ہی اتباع کا شوق ہے تو قیامِ لیل کی پابندی کرو، اوّل وقت میں سنت پڑھا کرو۔
مولانا عبدالمالک صاحبؒ کا واقعہ
فرمایا: مولانا صاحبؒ اچھے نیک بزرگوں میں سے تھے۔ میرے پاس جب میں قاضی پاڑہ میں تھا تو آیا کرتے تھے۔ ایک دن تشریف لائے اور کہا: آؤ دعوت میں چلتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ چلا گیا۔ چائے آئی تو انھوں نے چائے نہیں پی۔ مولانا کی عادت تھی کہ چینی اور اس سے بنی ہوئی چیزوں کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ میاں جو چیز مباح اور حلال ہے ۔ اپنے اوپر اور دوسروں کے اوپر اس کی حرمت کیوں ثابت کررہے ہیں؟ عربی کی عبارت کا مفہوم: ’’جو چیز اسلام میں نہیں اس کو شریعت کا رنگ د یدینا بدعت ہے‘‘۔
فرمایا: مقتدیٰ کا ہر عمل مقتدیوں کے لئے دلیل ہوتی ہے اس لئے امیر کو چاہئے کہ چھوٹوں کے سامنے ایسی بات پیش نہ کرے جس کی کوئی اصلیت نہ ہو اور وہ اس کو دین سمجھ کر کرنے لگیں اور مصیبت میں گرفتار ہوں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے بہت ہلکا پھلکا اسلام پیش کیا اور اندرونِ خانہ آپ کا عمل بہت زیادہ ہوتا تھا جو ہر انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔
فرمایا: جتنے بھی اذکار ہیں یہ کوئی کورس نہیں کہ اتنا کرلیا اور بس کام بن گیا۔ اصل مقصود روح کی آلودگی کو دور کرنا ہے جس کو آدمی بداعمالیوں کی وجہ سے سیاہ اور خراب کرلیتا ہے۔یاد رہے کہ روح اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے جو ہر بشر کو حاصل ہے۔ کافر کو بھی اور مومن کو بھی۔ خدا کو تو کافر بھی مانتا ہے اور بہت سے نیک کام کرتا ہے لیکن اس کے یہ اعمال قابل قبول نہیں ہوتے کیونکہ اس نے روح کو خراب کیا ایمان نہ لاکر اور روح کیونکہ ایک دائمی چیز ہے اس لئے اس کو دائمی عذاب ہوگا۔ اور مومن کو عذاب محدود ہوگا جتنی اس کی بداعمالیاں ہوں گی ۔اور دائمی عذاب اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ اس نے دائمی چیز کو خراب نہیں کیا اب اس کے بعد مومن کے اعمال کو دیکھا جاتا ہے ۔کہ اعمال تو کتنے ہی ہوں اگر اس میں اخلاص نہیں تو اس کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ اگر نیک اعمال یعنی اذکار کم ہیں مگر اخلاص ہے تو اسی کے بقدر جزاء کا معاملہ رہے گا۔ اذکار اور اوراد میں اخلاص نہیں تو مقبول نہیں اور یوں کرامات، کشف، ہوا میں اُڑ جانا یہ سب چیزیں کافر کو بھی حاصل ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
السلام علیکم

پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری​


از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​


قسط:67

مصائب پر صبر کرنے کے بعد ہی راہیں کھلتی ہیں
فرمایا: (شاگرد محسن کش نے) جو مقدمات میرے اوپر لگائے وہ سب اپنی نوعیت کے اعتبار سے سخت ترین تھے ان میں سے اگر کسی بھی کیس پر سزا ہوجاتی تو بیس سال سے پہلے میں جیل سے نہیں آسکوں تھا۔ انہیں میں سے ایک مقدمہ آگرہ میں زیرسماعت تھا، اس کی پیروی کے لئے مجھے آگرہ جانا ہوا، معاملہ کی سنگینی کو عبید (بڑے بھائی صاحب) جانتا ہے، بتوفیق الٰہی وہ گھڑی بآسانی گزر گئی۔ ان مقدمات کے دوران میں نے فیصلہ کیا اور میں نے کیا کیا، اللہ تعالیٰ نے میرے قلب میں یہ بات القاء کی کہ اگر مقدمات میں اسی طرح اُلجھا رہا تو ذہنی توازن خراب ہوجائے گا اس لئے اپنی مشغولیات کو قرآن شریف سے جوڑ دینا چاہئے۔ چنانچہ میں نے قرآن شریف کو تھام لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے تفسیر لکھوائی۔ اس طرح سے وہ مصیبت میرے حق میں رحمت ثابت ہوئی۔
اس کے بعد فرمایا: اب میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری اس دعاء کو جو کہ میں طالب علمی کے زمانے میں کیا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ قرآن فہمی عطا فرما اور اس کو سمجھنا سمجھانا میرے لئے آسان فرما، لیکن دل میں یہ بات بھی پیدا ہوتی تھی کہ میاں! یہ کیسی دعاء مانگ رہے ہو؟ سودا تو کچھ اپنے پاس ہے ہی نہیں اور مجھے ہنسی بھی آتی تھی، لیکن دعاء یہی رہتی تھی۔ اسکے بعد تعلیم مکمل ہوگئی، تدریسی کام میں بھی لگ گیا اور بہت سے کام انجام پاگئے، لیکن خیال پیدا ہوتا تھا کہ بھائی وہ کام تو رہ ہی گیا جس کی میں دعاء مانگا کرتا تھا، اتنے عرصے کے بعد وہ دعاء رنگ لائی۔
جنکی تقدیر بگڑ جاتی ہے کیا کریں؟
(۱) بالغ ہونے سے لیکر اب تک کا گہری نظر سے جائزہ ،اور محاسبہ ،اگر دل زندہ ہے تو من جانب اللہ اسباب الہام ہوںگے تجربہ ہے
(۲) - اپنی تمام غلطیوں پر توبہ اور استغفار۔
(۳) بزرگوں کی مجالس یا خدمت میں حاضر رہنا اور ان کو حال سنا کر دعا کا طلب گار ہونا
(۴) - آدھی رات کے بعد یعنی آخری رات میں نماز ِتہجد اور استغفار کرنا۔
(۵) - میں تجربہ کے بعد لکھ رہا ہوں آپ بھی تجربہ کریں ،اللہ تعالیٰ میری اور آپ کی مدد فرمائے۔ آمین
(۶) - دوکان پر بیٹھ کر خالی اوقات میں ذکر ،استغفار ،پاس انفاس میں مشغول رہو ۔اور کام کے وقت کام یہ نہیں ٹھالی بیٹھے رہو ۔خدا کو یاد کرو راستہ کھلے گا، بندوں پر نظر نہ کرو۔
(یہ ایک یادگار نصیحت ہے جو آپؒنے حکیم محمدطاہرصاحب مد ظلہ‘کو تحریر فرمائی تھی)
تین سال تک مسلسل ایک وقت کھانا کھایا
پچیس سال کی عمر میں جب ’’عم‘‘ کا پارہ لے کر پڑھنے گیا تو میری آمدنی بند ہوگئی، گزر بسر کے لئے صبح سے ظہر تک پڑھتا اور شام کو کلہاڑی لے کر لکڑیاں پھاڑتا۔ اس سے جو آمدنی ہوتی اس میں سے آٹا لیتا اور کھاکر کام پر چلا جاتا۔ اس طرح اگلے دن دوپہر تک وقت کو کھینچتا۔ یہ طریقہ میرا پورے تین سال تک رہا کہ ایک وقت کھاتا اور باقی وقت فاقہ کرتا۔
ایک دن کام پر نہ جانے کی وجہ سے پیسے کچھ تھے نہیں، روٹی نہیں بناسکا جس کی وجہ سے کھانا کھائے ہوئے دوسرا دن شروع ہوگیا اور ظہر کی نماز تک بھوک اتنی شدت کو پہنچ گئی کہ ظہر کی نماز کی بعد جس وقت میں مسجد سے نکل رہا تھا اس وقت بھوک کی وجہ سے میرے چہرے سے ہوائیاں اُڑ رہی تھیں کہ حضرت مولانا حامد حسن صاحبؒ نے مجھے روک لیا اور فرمایا کہ میاں اگر تم ہمارا چندہ وصول کردیا کرو تو ہم تمہیں دس روپئے ماہانہ اُجرت دیا کریں گے۔ میں نے منظور کرلیا اس طرح سے گاڑی کھسکنے لگی اور میری پڑھائی بھی جاری رہی۔
ایک دن ایک صاحب نے مولانا صاحب نے سفارش کی کی یہ ہمارے بچوں کو پڑھادیا کریں ہم ان کو دس روپئے ماہانہ دے دیا کریں گے، حضرت نے منظور کرلیا اس طرح میری آمدنی بیس روپے ماہانہ ہوگئی۔ کچھ دنوں بعد مولانا نے فرمایا کہ مدرسہ میں بچوں کو قرآن شریف پڑھا دیا کرو پانچ روپے مزید دیا کریں گے۔ میں نے کہا: حضرت! میری تعلیم کا کیا ہوگا؟ فرمایا اس کو میرے اوپر چھوڑ دو، اس طرح میری بغیر کسی خواہش کے اللہ تعالیٰ نے پچیس روپے ماہانہ کا انتظام کردیا۔ مدرسہ کا چندہ بھی کرتا، ٹیوشن بھی پڑھاتا، اور مدرسہ میں بھی پڑھاتا، باقی اوقات میں مولانا صاحبؒ کے ساتھ رہتا، کتاب میرے ہاتھ میں رہتی تھی راستے میں جہاں کہیں حضرت کو موقع ملتا پڑھاتے تھے۔
بعض مجاہدات
فرمایا: میرے حالات اور معاملات ایسے ہی رہے جیسا کہ بڑوں کے پیش آئے لیکن ان جیسا نہیں ہوں، (اگرچہ بڑا نہیں ہوں)۔
فرمایا: آج تم سے ایک بات بتارہا ہوں، تمہاری ماں کو بھی خبر نہیں۔ مئی ،جون کی گرمیوں میں کچے کوٹھے میں اندر سویا کرتا تھا، اس خدشے سے کہ تہجد کی نماز نہ رہ جائے، چنانچہ پسینے میں سرابور رہتا تھا اور رات کو کئی کئی بار چونک کر اُٹھتا تھا۔
بڑے سے بڑے سخت حالات میرے اوپر گزرے۔ حد یہ ہے کہ اگر پائجامہ کہیں سے پھٹ گیا تو اس میں گرہ لگالی کیونکہ سوئی اور دھاگے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے، لیکن میں نے امامت کو ہی اختیار نہیں کیا کیونکہ اس میں بہت ذلت اُٹھانی پڑتی ہے۔
طالب علموں اور ائمہ کی خیرخواہی
جامع مسجد قاضی پاڑہ میں آپ نے ارشاد فرمایا: میں نے ہمیشہ ائمہ حضرات کی اور طالب علموں کی حمایت کی ہے، چاہے مجھے اس کے لئے کتنی ہی قیمت چکانی پڑی، چنانچہ قاضی پاڑہ اور یتیم خانے کو اسی بنیاد پر چھوڑنا پڑا۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ قاضی پاڑے کی جامع مسجد میں سیوہارے کا ایک امام تھا، برسات کا موسم تھا انھوں نے نماز اندر پڑھادی، قاضی پاڑہ کے قاضیوں میں سے ایک صاحب جن کو حبیب لمبو کہا کرتے تھے، نماز کے بعد غصہ ہونے لگے انھوں نے تو گاؤں والی نماز پڑھائی، انھیں اندر پڑھانے کی کیا ضرورت تھی، خیر بات آئی گئی ہوگئی، اگلے دن نماز ان امام صاحب نے باہر پڑھائی، دورانِ نماز اتنی تیز بارش ہوئی کہ الحفیظ والامان، مسجد میں پانی ناک میں جانے لگا، بہت ہی موسلا دھار بارش ہوئی، نماز کے بعد میں نے غصے میں حبیب کو پکار کر کہا، اے حبیب! تیری شہر والی نماز نے سب کی نماز کا بیڑا غرق کردیا خدا تیرا بھی بیڑا غرق کرے۔
(۲) اسی مسجد میں ایک مرتبہ کسی طالب علم نے مسجد کے فرش پر کپڑے دھولئے تو ایک صاحب جن کا نام حشمت تھا آئے اور لڑکے کی پٹائی کردی، میں مدرسہ میں آیا اور وہ لڑکا رو رہا تھا، میں نے معلوم کیا تو ان صاحب نے کہا کہ میاں مسجد میں کپڑے دھو رہا تھا، مسجد کا فرش ناپاک کردیا۔ میں نے جو برا بھلا کہا کہ تمہیں مارنے کا حق کس نے دیا؟ آپ ہم سے کہتے، خبردار! اگر آج کے بعد سے کسی لڑکے کو کچھ کہا۔
فرمایا: ذکر معاون ہے جس طرح عرقِ بادیاں معاون ہوتا ہے اِسہال میں، اس سے منازل طے ہونے کا کوئی تعلق نہیں، منازل طے ہوتی ہے محاسبہ سے اور تخیلات پر کنٹرول کرنے کی وجہ سے، یہاں تک کہ گناہ کا خیال تک ختم ہوجائے۔
روح کا مسکن ام الدماغ ہے نہ کہ قلب، انسان کے مرنے کے بعد روح کا تعلق کمزور سے کمزور (اعمال کے اعتبار سے) سڑیل آدمی کا چالیس دن تک رہتا ہے اور اس کے بعد تمام جسم گل سڑ جاتا ہے، لیکن جن کا تخیل بہت مضبوط ہوتا ہے، جیسا کہ انبیاء اور اولیاء کا تو ان کا جسم گلتا سڑتا نہیں کیونکہ روح کا تعلق اُم الدماغ سے جڑا رہتا ہے اسی وجہ سے حبس دم کیا جاتا ہے ،چنانچہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جوگی کافی دن تک بغیر کھائے پئے حبس دم کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں اور عارضی قبر بناکر بھی، جیسا کہ جادوگر لوگ کرتے ہیں۔
مقام، مقیم، امامت
اقامت کی مدت پندرہ یوم کے بعد ہے۔ پندرہ یوم کے بعد اقامت کا درجہ ملتا ہے۔ دوام اور اقامت سے ہی مقام حاصل ہوتا ہے۔ تمام معاملات میں مثلاً: چور اگر کبھی چوری کرے اور کبھی چھوڑ دے تو اس کو چھچھورا کہیں گے چور نہیں، مستقل پیشہ اختیار کرلینے سے چور مشہور ہوجاتا ہے اگرچہ یہ کام برا ہے۔ اچھی عادتوں پر استقامت اور بری عادتوں سے اجتناب پر مقامات طے ہوتے ہیں، پریشانیاں تو مضبوطی پیدا کرتی ہیں جیسا کہ پیڑ کی جڑ کو اگر جنبش نہ ہو تو اس کی جڑ میں مضبوطی نہ آئے گی، اسی طریقے سے جب کوئی پول گاڑا جاتا ہے تو اس کی جڑ میں ریت ڈال کر پول کو ہلایا جاتا ہے تو وہ ریت اس کی جڑ کو جکڑ لیتا ہے وہ خلاء ختم ہوجاتا ہے۔
حضرت رابعہؒ پر جب کسی دن کوئی پریشانی نہ آتی تو روتی تھیں۔ ان سے جب رونے کا سبب پوچھا جاتا تو فرماتیں کہ آج مجھ کو یاد نہیں کیا گیا، یہ بھی یاد کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے کہ آج فلاں بندے کو بخار ہوجائے، پانی اسی گھڑے میں بھرا جاتا ہے جس میں سوراخ نہ ہو۔
’’عادت‘‘ میں عود کا مفہوم موجود ہے۔ انسانی فطرت کو مستحسن عادتوں کی طرف عود کرنا ہی مقصود ہوتا ہے اور یہی تصوف کی انتہاء ہے۔ پیدائشی طور پر قلب رجوع الی اللہ والی کیفیت میں ہوتا ہے۔ عدم توجہ کی وجہ سے قلب معصیت کی طرف منعکس ہوجاتا ہے جیسا کہ زہر کی وجہ سے ذائقہ بدل جاتا ہے، اللہ تعالیٰ انسانی قلب میں موجود ہے اور موجود چیز کو تلاش نہیں کیا جاتا بلکہ اس پر توجہ دی جاتی ہے جیسا کہ جیب میں پڑا سامان۔ جس شاگرد پر استاذ کی شفقت زیادہ ہوتی ہے تو وہ ذرا ذرا سی بات پر ٹوکتا ہے، یہی مثال امت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
شعارِ اسلام
فرمایا: شعار، شعر بمعنی: بال، چیرہ ،شعار بمعنی علامت، شعار ،شعر کے معنی تفریق کرنا، کفر واسلام میں تفریق کرنا۔ اسی شعارِ اسلام میں صفا مروہ کی دوڑ، خانۂ کعبہ کا طواف کرنا۔
۱- داڑھی رکھنا شعارِ اسلام میں سے ہے۔
۲- آذان شعارِ اسلام میں سے ہے اس کا چھوڑنا مکروہ تحریمی ہے اور آذان کے دینے پر پابندی لگانے والوں سے جہاد لازم آتا ہے۔ عصا یعنی لاٹھی رکھنا بھی شعارِ اسلام میں سے ہے اور شعارِ انبیاء ؑ ہے، اسی طرح داڑھی شعارِ اسلام اور شعارِ انبیاء دونوں ہے۔ داڑھی کا کٹوانا حرام ہے، اس لئے سمجھ لیا جائے کہ کتنا اہم ہے، اگر صرف سنت ہوتی تو گناہ نہ ہوتا، جس طرح اذان دینا سنت ہے لیکن نماز کے لئے شرط نہیں، ہاں اس کاترک کرنا مکروہِ تحریمی اور واجب ِ قتال ہے۔
دینی مدارس کی خدمت​
سب کے لئے ایک وصیت:فرمایا اگر فلاح دارین چاہتے ہو تو اسلامی مدارس کی خدمت اور ان کی ترقی میں لگ جائو ،جہاں بھی رہو اس کی خدمت میں اخلاص ،ہمدردی ونہایت مستعدی سے لگے رہو ۔ لوگ طعن تشنیع لعنت وملامت کریں کرتے رہیں،یا کتنی ہی دشواریاں پیش آئیں ان پر صبر کرواور ہمت سے کام کرو ،صبر وہمت سے کام کرنا ہی اعلیٰ درجہ کی دینی خدمت ہے۔یاد رکھوو یہ کار رسالت ہے ،شیطان اور شیطان صفت تمام طاقتیں یک جٹ ہوکر پورا زور لگاتی ہیں کہ قدم اکھڑجا ئیں،چنانچہ ایسے موقعوں پر گھبرانا نہیں چاہئے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھئے توکل ہی مومن کا بہترین سہارا اور ہتھیار ہے۔
بیعت کے بعد تسبیحات ستہ (سبحان اللہ،والحمد للہ ،ولاالہ الاللہ واللہ اکبر ،۱۰۰ بار،استغفار ۱۰۰ بار،درود شریف ۱۰۰بار،)کچھ دن کی مداومت کے بعد پاس انفاس کی مشق کراتے،یعنی سانس کو اس طرح لیا جائے کہ جب سانس اندر کو جائے تو لفظ ’’اللّٰہ‘‘ ادا ہو اور جب سانس باہر کو آئے تو لفظ ’’ھو‘‘ادا ہو اس دوران زبان ،اور ہونٹوں کو حرکت نہ ہواور نہ ہی آواز نکلے،اور زبان کو تالو سے لگا لیاجائے،نہایت دھیان اور توجہ ودلجمعی کے ساتھ اس عمل کو کیا جائے۔سانس معمول کے مطابق لی جائے۔ابتدأ میں اس عمل کو دس منٹ سے شروع کیا جائے اور پھر بڑاھتے بڑاھتے اس کی اتنی مشق کرلی جائے کہ ہر وقت بنا قصد جاری رہے ،اگر دوران مشق کبھی بھول ہوجائے تو ناک کے نتھنوں کی طرف دھیان کرلیا جائے فوراً جاری ہوجائے گا ۔دوران مشق با وضو ریاضت کی جائے ،مسجد یا مکان گوشۂ تنہائی ہو اور رخ کی قبلہ کی جانب ہو، اگر وقت مقررہ پر نہ کیا جاسکے تو دوسرے وقت میں کرلیا جائے۔غرض کہ ہر اس کو جاری رکھنا ہے قضائے حاجت کے وقت بھی اس کو جاری رکھا جائے۔جو جگہ آرام کرنے کی ہو یا نشست گاہ ہو وہاں جہاں نگاہ پڑتی ہو لفظ اللّٰہ لکھ لیا جائے ،اور جس جگہ سونا ہو وہاں پیروں کی جانب قدرے اونچا کرلیا جائے۔
٭ ایک مرتبہ فرمایا قبرستان جاتے رہنا چاہئے کیونکہ اس بہت فائدہ ہیں، دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔آنکھوں میں آنسو لاتی ہے۔اور سب سے بڑھ کر آخر ت کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔توبہ کی توفیق ہوتی ہے۔گناہوں سے اجتناب کی تحریک ملتی ہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ اس سے دلوںمیں نرمی پیدا ہوتی ہے،اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔(الحدیث)
ہفتہ میں ایک بار زیارت قبور مستحب ہے خاص کر اکابرین وصالحین کی۔نیز اپنے عزیز واقارب کی قبروں پر حاضر ہونا چاہئے۔تین دن اس کے لئے زیادہ افضل ہیں جمعہ،پیر،یا بدھ،اور موسم متبرکہ میں عشرہ ذی الحجہ،عیدین،اور یوم عاشورہ،بہتر یہ ہے کہ جب قبرستان جانے کا ارادہ ہو تو،گھر پر دو رکعت نفل نماز اس طرح پڑھی جائے کہ سورہ فاتحہ کے بعدآیت الکرسی ایک بار اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد تین بار سورہ اخلاص پڑھی جائے،اور سلام کے بعد اسکا ثواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دیا جائے اور پھر شخص معینہ کو ۔اس کے بعد قبرستان جائے اور جوتے اتار لینا چاہئے اور قبر کی جانب اس طرح کھڑاہو کہ پشت قبلہ کی جانب ہو اور منہ قبرکی جانب ہو اور پھر اس طرح سلام کرے:
السَّــلاَمُ عَلَیْکَ یَااَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ المُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنَاتِ وَالمُسْلِمِینَ وَالمُسْلِمَاتِ یَرحَمُ المُتَقَدِّمِیْنَ مِنّا وَالمُتأخِّرِینَ وَإنَّا اِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لاَحِقُونَ اَسْئَلُ اللّٰہَ لَنَــا وَلَکُــمُ العَافِیــۃَ۔
(ترجمہ:اے شہر خموشاں کے رہنے والو ،مسلمان مرد اور عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں،اللہ اگلے اور پچھلوں پر رحم فرمائے ،اور انشاء اللہ ہم تم لوگوں سے ملیں گے ،اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور آپ کے لئے دعا کا طالب ہوں)۔
اس کے بعد بیٹھ کربِسمِ اللّٰہ علیٰ مِلّۃ رسُول اللّٰہ،پڑھنا چاہئے اور اس کے بعد یہ کہیں : لاإلٰہ الا اللّٰہُ وحدہ‘لا شریکَ لہ ‘ لہُ الملک ولہ الحمدُ یُحیِ ویُمِیتُ وھو حیٌ لا یموت أبداً أبدا، ذوالجلال والاکرام بِیَدہٖ الخیرُ وھوعلیٰ کل شیٍٔ قدیر۔ اور اس کے بعددرودشریف گیارہ مرتبہ، سورہ فاتحہ ایک بار،اور اٰیۃ الکرسی ایک بار،اور سورۂ اخلاص گیارہ بار ،اور چاہیں تو الھٰکم التکاثراور سورہ زلزال، وسورہ یٰسین،اور سورہ ملک ایک ایک بارپڑھ لیں،اور پھر گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھ کربطریق معروف ثواب صاحب قبر کو بخش دیاجائے۔فرمایا مرنے والے پر پہلی رات بہت سخت ہوتی ہے،اس کے لئے اس کے نام کا کچھ صدقہ دیدینا چاہئے،اور اگر گنجائش نہیں ہے تو کم از کم دو رکعت نفل نماز اس طرح پڑھیں کہ ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک بار ،قل ھواللہ گیارہ بار ، اور الھٰکم التکاثر گیا رہ بارپڑھا جائے ،نماز کے اول وآخر گیارہ گیارہ بار دورد شریف پڑھ لینا چاہئے۔پھر اس کا ثواب مردہ کو بخش دیا جائے۔
کسی موقعہ پر میں نے حضرت والد صاحبؒ سے دریافت کیا کہ اکابر کی قبور پر اکتساب فیض کا کیا طریقہ ہے ۔فرمایا ایصال ثواب کے بعد صاحب قبر کے سینہ کے بالمقابل بیٹھ کر اول وآخر درود شریف گیارہ گیارہ بار پڑہنا چاہئے اور پھر سورۂ اذاجاء نصراللّٰہ اور اس کے بعد سورہ الم نشرح (تعداد میری یاد نہ رہ سکی) پڑھ کر اس کا ثواب صاحب قبر کو بخش کر مراقبہ کی کیفیت میں بیٹھ جائے، ان شاء اللہ صاحب قبر سے فیض جاری ہوگا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
فرمایا مشائخ قادریہ میں کشف ارواح کیلئے ایک طریقہ رائج ہے اور مجرب ہے وہ یہ ہے کہ پاک صاف کپڑے پہن کر مناسب خوشبو لگائی جائے اور تنہائی میں قبلہ رخ بیٹھ کر دا ہنی طرف سبوحٌکی ضرب لگائے اور بائیں جانب قدوس کی اور بجانب آسمان رب الملائکۃ کی اور دل میں والروح کی۔ان شاء اللہ فیض ہوگا۔
دیگر: قول جمیل ،میں مشائخ چشت کا یہ طریقہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب قبرستان جائے تو سورہ انا فتحنا دو رکعت میں پڑھے ،اور قبلہ کی جانب پشت کرکے قبر کی طررف منہ کرکے بیٹھے ۔اور پھر سورہ ملک پڑھے اور اللّٰہ اکبر ولاالہ الااللّٰہ کہے اور گیارہ بار سورہ فاتحہ پڑھے ،اور قبر سے قریب ہوکرکہے یا رب یارب اکیس بار اور پھر یا روح کہے اور اسکو بجانب آسمان ضرب کر ے اور پھر یا روح الروح کی ضرب دل میں لگائے اورجب تک کشائش ونور نہ پائے اور صاحب قبر سے فیض نہ ہو ایسا ہی کرتا رہے۔انشاء اللہ فیض جاری ہوگا۔
واضح رہے!کہ ان تمام طرق کاادلۂ شرع سے کوئی ثبوت نہیں ملتا اس لئے ان کو شریعت سے جوڑکر نہ دیکھا جائے۔کیونکہ نص قطعی سے ثابت ہے کہ انتقال کے بعد عمل منقطع ہو جاتے ہیں ۔حدیث ابو ہریرہ ؓ میں منقول ہے :
إذا مَاتَ الانسَانُ اِنقَطعَ عَنہُ عَملُہ إلاَّ مِن ثلٰثۃٍ إلاَّ مِن صَدقَۃٍ جَاریَۃٍ أو عِلمٍ یُّنتَفَعُ بِہ أو وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُولَہُ۔ (رواہ مسلم)
لیکن چونکہ مشائخ کبار کی ایک کثیر جماعت کا اس پر عمل رہا ہے اس لئے میت صالح سے مع الاحتیاط اکتساب فیض کیا جاسکتا ہے ،میت کا حال معلوم کرنے کے لئے نہیں، یہ ناجائز ہے ،کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ ہی کو ہے اور اسی کو سزاوار ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)


طب روحانی​

شریعت میں رقیہ یعنی جھاڑ پھونک جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ آیت یا حدیث سے ہو اور عربی زبان میں مفہوم المعنیٰ ہو اور مشرکانہ نہ ہو لیکن اعلیٰ درجہ کا احسان یہ ہے کہ انسان رقیہ نہ کرے اور نہ کرائے اس لئے کہ اس پر صبر کرنے پر بلا حساب دخول جنت کا وعدہ ہے۔مگر چونکہ اکثر خلق متوکل علی اللہ نہیں ہوتی اس لئے والد صاحبؒ لوگوں کے اسرار کرنے پر کبھی کبھی تعویذ کردیا کرتے تھے ،یا کچھ پڑھ کر دم کردیا کرتے تھے۔اس بارے میں آپ کا جو طریقہ کار ہمیں معلوم تھا وہ اورجو آپ کی ڈائری سے ملا وہ آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔
روزانہ ۵۰۰ مرتبہ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الوَکِیْلُ پڑھا جائے۔
ایک گھڑے پانی پر سورہ فاتحہ مع بسم اللہ۴۱؍مرتبہ اور یہ آیت کریمہ، وَمَا لَنَا اَلاَّ نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَقَدْ ھَدَانَا سُبُلَنَا وَ لَنَصْبِرَنَّ عَلٰی مَا اٰذَیْتُمُوْنَا وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُونَ گیاہ مرتبہ پڑھ کر دم کرکے مریض کو یک شبہ اور سہ شنبہ کی سات راتوں میں گیارہ بجے کے بعد اور بارہ بجے سے پہلے چوراہے پر لے جاکر غسل دیں، اگر خارجی اثر ہوگا تو زائل ہوجائے گا۔
ہر فرض نماز کے بعد تین مرتبہ اوّل آخر درود شریف اور تین مرتبہ فَکَشَفْنَـا عَنْکَ عِطَائَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَومَ حَدِید۔ ہاتھ کے دونوں انگوٹھوں کی پشت پر دم کرکے آنکھوں پر پھیر لیا جائے۔
سورۂ رحمان نیلے دھاگے پر اس طرح پڑھے کہ ہر فَبِأیِّ آلاَئِ رَبِّکُمَــا تُکَذِّبَانِ پر ایک گرہ لگاکر دَم کردیا جائے اور بطور حفظ ماتقدم بچوں کے گلے میں ڈال دیا جائے۔ اور اگر نکل آئی ہو تو دم بھی کردیا جائے۔
(مخصوص )سورۂ فاتحہ مع بسم اللہ میم کے وصل کے ساتھ فجر کی سنت اور فرضوں کے بیچ اکتالیس مرتبہ مع اوّل آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف، بعد نمازِ عشاء یہ دعاء سوتے وقت بستر پر جاکر تین مرتبہ پڑھے۔ اللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰوَاتِ ورَبَّ الأرضِیْنَ وَ رَبَّنَا وَ رَبَّ کُلَّ شَیْئٍ خَالِقُ الحَبِّ وَالنَّویٰ وَ مُنَزِّلُ التَّورَاۃَ والإنْجِیْلَ والقُرآنَ أعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ اَنْتَ الأوَّلُ فَلَیسَ قَبلَکَ شَیْئٌ وَ اَنْتَ الاٰخِرُ وَ لَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَالظَّاہِرُ فَلَیسَ فَوقَکَ شَیْئٌ وَالبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْئٌ اِقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَ اغْنِنِی مِنَ الفَقْرِ۔
پانچ لونگ لے کر ہر لونگ پر سات مرتبہ یہ آیت ِ کریمہ اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِی بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشَاہُ مَوجٌ مِنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِنْ سَحَابِ ظُلُمٰتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ اِذَا اَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاہَا وَ مْن لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہُ نُوْرًا فَمَا لَہُ مِنْ نُّورٍ پڑھ کر دَم کردیا جائے۔ اور جس دن غسل پاکی کا کرے اسی دن سے روزآنہ ایک ایک لونگ رات کو کھائے اور پانی نہ پئے۔
کورے برتن میں پانی لے کر سورۂ فاتحہ مع بسم اللہ بوصل میم ایک سو ایک مرتبہ اور معوّذتین گیارہ گیارہ مرتبہ اور آیت قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِی بَرْدًا وَّسَلاَمًا علیٰ اِبْرَاہِیْمَ گیارہ مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کردے اور بوقت صبح قبل طلوعِ آفتاب نہار منھ جس قدر پیا جاسکے زیادہ سے زیادہ پلایا جائے، آدھے گھنٹے تک کوئی دوا وغذا نہ کھلائیں، پھر رات کو دن میں جب بھی ضرورت ہو یہی پانی پلایا جائے اگلے دن پھر دوسرا پانی لے کر پھر دَم کیا جائے اور جو پانی بچ جایا کرے اس کو کہیں پاک جگہ ڈال دیا جائے، چالیس دن تک متواتر کیا جائے، اسی طرح چالیس دن تک بعد نمازِ عصر سورۂ مجادلہ تین دفعہ پڑھ کر مریض پر دم کردیا جائے۔
نمک پر ایک ہزار مرتبہ وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأتُمْ - تَا - تَفْعَلُوْنَ باوضو مع اوّل آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف مریض کو کھانے میں دیا جائے۔
یَاحَفِیْظُ ایک سو انیس بار۔ اور یہ آیت ِ شریفہ یٰبُنَیَّ إِنَّہَا اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ آخر آیت تک، اور سورۂ لقمان ایک سو انیس مرتبہ پڑھا جائے۔
سورۂ ضحی سات مرتبہ پڑھے اور انگشت شہادت اپنے اوپر پھرائیں اور سات مرتبہ یہ کلمات کہیں: اَصْبَحْتُ فِی اَمَانِ اللّٰہِ وَ اَمْسَیْتُ فِی جَوارِ اللّٰہِ وَ اَمْسَیْتُ فِی أَمَانِ اللّٰہِ وَ اَصْبَحْتُ فِی جَوارِ اللّٰہِ پڑھیں اور پھر دستک دیں، اور ہر صبح وشام تاواپسی ایسا ہی کریں۔
ایک کلو تل لیکر اس کو دھولیں، پھر تیل نکلوالیں، پھر مندرجہ ذیل آیات باوضو پڑھیں، سورۂ فاتحہ مع بسم اللہ، تین مرتبہ آیۃ الکرسی تین مرتبہ، والصّٰفٰت سے لازب تک تین مرتبہ، سورۂ جن شططًا تک تین مرتبہ، چاروں قل تین تین مرتبہ، اس کے بعد بچے کا سر منڈاکر روزآنہ تیل کی مالش سر سے پیر تک تمام جسم پر کریں کوئی جگہ تیل سے خالی نہ رہے، نہلا سکتے ہیں، متواتر چالیس دن تک یہ عمل کریں۔
گیارہ دھاگے چرخے کے حاملہ کے قد کے برابر لیجئے اور اس کو کُسم کے پھولوں سے رنگ کر اس میں اکتالیس گرہ دیجئے اور جب بچہ پیدا ہوجائے تو گرہ دیتے وقت سورۂ فاتحہ مع بسم اللہ ایک بار اور اُس دھاگے کو حاملہ کے گلے میں ڈال دیں پھر بعد ولادت بچے کے گلے میں۔
نمک پر وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ -إلیٰ- سَائِغًا لِّلشَّارِبِیْنَ باوضو گیارہ گیارہ مرتبہ اوّل آخر درود شریف یہ نمک اُڑد کی دال میں ڈال کر عورت کو کھلائیں۔
جمعرات کی رات کو چار رکعت نفل نماز پڑھی جائے، پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۂ یٰسین اور دوسری میں فاتحہ کے بعد سورۂ دُخان اور تیسری میں بعد فاتحہ الٓم تنزیل السجدہ، اور چوتھی میں بعد فاتحہ سورۂ تبارک المفصل پڑھی جائے، پھر تشہد پڑھ کر اللہ کی حمد وثناء بیان کریں اور درود شریف، اس کے بعد اس کا ثواب تمام مومنین کو مع انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام بخش دیا جائے۔ سلام کے بعد یا نماز ہی میں یہ دعاء پڑھی جائے :
اَللّٰہُمَّ ارْحَمْنِی بِتَرْکِ المَعاصِی أبدًا مَا بَقَیتَنِی وَارْحَمْنِی أن اَتَکَلَّفَ مَالاَ یَعنِیْنِی وارْزُقنِی حُسنَ النَّظرِ فِی مَا یُرضِیکَ عَنِّی اللّٰہُمَّ بدِیعَ السَّمٰوَاتِ والأرضِ ذَالجَلاَلِ والإکْرَامِ والعِزَّۃِ الَّتِی لاتُرامُ أسألُکَ یاأللّٰہُ یا رَحمٰنُ بِجَلاَلِکَ وَنُورِ وَجہِکَ أنْ تَلْزَمَ قَلْبِی حِفظَ کِتَابِکَ کَمَا عَلَّمْتَنِی وَارْزُقْنِی أنْ أقرَأہُ عَلیَ النَّحوِ الَّذِی یُرضِیکَ عَنِّی، اللّٰہُمَّ بدِیعَ السَّمٰواتِ والأرضِ ذالجَلاَلِ والإکرامِ والعِزَّۃِ الَّتِی لاَتُرامُ أسألُکَ یاأللّٰہُ یا رَحمٰنُ بِجَلاَلِکَ وَ نُورِ وَجْہِکَ أن تُنَوِّرَ بِکِتابِکَ بَصَرِی وَأنْ تُطْلِقَ بِہٖ لِسانِی وَأن تَفْرَّجَ بِہٖ عَنْ قَلْبِی وَ أن تَشْرَحَ بِہٖ صَدْرِی وَ أن تَغْسِلَ بِہٖ بَدَنِی لاَیَغشِی عَلیَ الحَقِّ غَیرُکَ وَلاَ یُوتِیہِ إلاَّ أنتَ وَلاحَولَ ولاقُوَّۃَ إلاَّ باللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیمِ۔
جو قرآن شریف بھول جائے روزآنہ بعد نمازِ عشاء بارہ سو مرتبہ اوّل آخر درود شریف پڑھا کرے۔اور مذکورہ دعا کو پڑھے۔
بعد نمازِ تہجد اس طرح پڑھا جائے کہ گوشۂ تنہائی ہو، اگر بلند آواز سے پکارا جائے کہ کوئی دوسری آواز نہ سن سکے، اس دعاء میں جہاں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی یا احمد یامحمد یااباالقاسم آیا ہے اس کو بلند آواز سے پڑھا جائے، انشاء اللہ پہلی ہی مرتبہ پکارنے میں گریہ طاری ہوگا، ورنہ پھر دوسری، تیسری مرتبہ پڑھے۔ غرض کہ جب گریہ طاری ہوجائے تو اپنی ضروریات کو جنابِ باری تعالیٰ میں پیش کرے قبولیت کی امید ہے۔
اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ مَلِیْکٌ مُقتَدِرٌ وَ إِنَّکَ عَلیٰ تَشَائُ قَدِیرٌ، اَللّٰہُمَّ إِنْ کَانَتْ ذُنْوبِی سَلَفَتْ واخْتَلَفتْ وَجہَتِی وعَظمَتْ خَطِیئَتِی وحَالَتْ بَینِی وَ بَیْنَ قَضَــائِ حَاجَتِی فَإِنِّی أسألُکَ بِجلاَلِ وجہِکَ وعَظیمِ عفْوِکَ وَ اَتَوَجَّہُ إلَیکَ بَینَکَ محمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلَّمَ أن تغفِرَ لِی وَتَرْحَمَنِی وَتَفرَّجَ عَنِّی یَا مُحَمَّدُ، یاَ أحمَدُ، یا أبَا القَاسِمُ، صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلَّمَ، إِنِّی أتوَسّلُ وَ اَتَوَجَّہُ بِکَ إلیَ اللّٰہِ تعالیٰ لِیَغفِرَ لِی وَیَرحَمَنِی وَ یَقْضِی حَاجَتِی وَ حَوائِجِی وَ یُفرِّجُ کَرْبِی وَ ہَمِّی وَ غَمِّی۔
’’ترجمہ: یا اللہ آپ بڑے صاحب اقتدار، شہنشاہ ہیں۔ اور آپ جس چیز پر چاہیں قادر ہیں۔ اے اللہ! اگرچہ میرے گناہ بہت ہوچکے ہیں اور میری توجہات مختلف ہوچکی ہیں اور میری خطائیں بہت بڑھی ہوئی ہیں جوکہ میرے اور میری ضروریات کے درمیان حائل ہیں، لہٰذا اب میں آپ کے روئے پرجلال اور آپ کی عظیم معافی درگزر کرنے کے واسطے سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کردیں اور میرے اوپر رحم فرمائیں۔ اور میرے اوپر فراخی فرمائیں۔ یامحمد، یااحمد، یاابالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کو وسیلہ بناتا ہوں اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ مجھے معاف کردے اور میرے اوپر رحم فرمائے اور میری حاجت اور ضروریات پوری فرمائے۔(یامحمد،یااحمد،یاابالقاسم کہتے وقت روضئہ اقدس کا تصور کرلیا جائے)
آسیب اور جن کے اثر والے کو چالیس دن تک لکھ کر پانی میں دھوکر پلائیں لاَإلٰہَ إلاَّ اللّٰہُ العظِیمُ الحَلِیمُ سُبحانَ اللّٰہِ رَبُّ العَرشِ العَظِیمُ والحَمدُ لِلّٰہِ رَبِ العٰلَمِینَ۔ کَأنَّہُمْ یَومَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوا إِلاَّ عَشِیَّۃً أوْ ضُحٰہَا کَأنَّہُمْ یَومَ یَرَوْنَہَا مَا یُوعَدُوْنَ لَمْ یَلْبِثُوا سَاعَۃً مِّنْ نَّہارٍ بَلاَغًا فَہَلْ یُہْلَکُ إِلاَّ القَومُ الْفَاسِقُوْنَ اور گھر میں لکھ کر ٹانگ دیں۔
ایک بار یا تین بار نقش ِ قدم پر سورۂ ہمزہ پڑھیں اور یہ دعاء پڑھیں: اَقْسَمتُ عَلَیْکَ یَا مَیْمُونَۃُ یَا ابَانُوحٍ أنْ تَنزلَ علیٰ ہٰذہٖ الأثَرَ وَ تُبَیِّنَ مَا بِصَاحِبِہٖ إِنْ کَانَ مِنَ الجِنِّ فَقَصِّرْہُ وَ إِنْ کَانَ مِنَ الإِنْسِ فَتَطَوَّلَہُ وَ إِنْ کانَ مِنَ اللّٰہِ فَاَبْقِ عَلیٰ حالِہٖ بِحَقِّ ہٰذہٖ السّورَۃِ الشَّرِیفَۃِ، اَلوَہا دوبار کہے، العَجل اسکے بعد ناپے۔
(الف) اگر کم ہے تو یہ آیت لکھی جائے: إِذَا قَرَأتَ الْقُرآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لاَیُؤمِنُونَ بِالآخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا وَ جَعَلْنَا عَلیٰ قُلُوبِہِمْ اَکِنَّۃً أَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَ فِی آذَانِہِمْ وَقْرًا وَ إِذَا ذَکَرْتَ فِی الْقُرْآنِ وَحْدَہُ وَلَّوْ عَلیٰ اَدْبَارِہِمْ نُفُوْرًا۔
(ب) اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ أَنَّکُمْ اِلَیْنَا لاَتُرْجَعُوْنَ آخری سورۃ افلحَ تک۔
(ج) یَامَعْشَرَ الجِنِّ یہاں سے سورۂ رحمان کی تین آیتیں فَلاَتَنْتَصِرَانِ تک۔
(د) معوّذتین وفاتحہ۔
(۲) اگر لمبا ہوجائے تو پوری سورۃ إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ لکھی جائے۔ اور ساتھ
میں نظربد والی دعائیں لکھی جائیں۔
(۳) اگر ٹھیک ہے تو آیاتِ شفا لکھی جائیں اور سورۂ حشر کا آخری رکوع لَوْ اَنْزَلْنَا
ہٰذا القُرآنَ
آخر تک، اور اللّٰہُ الشَّافِی۔
اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَ مِنْ شَرِّ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینْ اَنْ یُحْضَرُونَ سِتْرُ العَرشِ مَسْبُولٌ عَلَیْنَا وَ عَیْنُ اللّٰہِ نَاظِرَۃٌ إلَیْنَا بِحَولِ اللّٰہِ لاَیَقدِرُ عَلَینَا وَلاَ حَولَ وَلاَقُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیْمِ وَصَلَّی اللّٰہُ علَی النَّبِیِّ الکَرِیْمِ۔
ویشف صدور قومٍ مؤمنینَ قل ھو َللذین اٰمنو ا ھدیً وّشفاء ٌوَشفاء ٌ لمــا فی الصدور وننزل من القراٰنِ ماھو شفا ء ٌوَّرحمۃٌللمٔومنینَ یخرج من بطونھاشرابٌ مختلفٌ الوانہ فیہ شفاء ٌ للناس واذا مرضت فھو یشفین۔

(۱)مقدمہ میں جاتے وقت ،ایاک نعبد وایاک نستعین،پڑھتا جائے اور رات کو بعد نماز عشائ،۵۰۰ مرتبہ مع اول آخر درود شریف گیارہ گیارہ مرتبہ پڑھے۔
(۲) انا کفیناک المستھتزئین،ایک ہزار بار روزانہ تا اختتام مقدمہ یا ۲۰دن یا
۴۰ دن پڑھیں اول آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف۔
عروج ماہ میں بدھ،جمعرات،اور جمعہ کو بعد نماز عشاء قبل از وترکھلے آسمان کے نیچے برہنہ سر اول آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف بروز بدھ ساٹھ مرتبہ اور بروز جمعرات چالیس مرتبہ اور بروز جمعہ بیس مرتبہ پڑھے اور سنیچر کی صبح کو مٹھائی تقسیم کردیں،بس عامل ہوگئے۔
ان آیات شریفہ کولکھ کر متأثرہ مقام یامکان میں لٹکا دیں انشاء اللہ جن وشیا طین دفع ہوجائین گے۔لَو اَنزَلنا ھٰذَالقُراٰنَ علٰی جَبَل لرأیتَہٗ خَاشِعاً مَتَصَدِّعاً مِن خَشیَۃِ اللّٰہ وتلک الامثال نضربھا للناس لعلھم یتفکرون ھو اللّٰہ الذی لا الٰہ الا ھو عالم الغیب والشھادۃِ ھو الرحمٰن الرحیم ھو اللّٰہ الذی لاالٰہ الا ھو الملک القدوس السلٰم المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر سبحٰن اللّٰہ عمّا یشرکون ھو اللّٰہ الخالق الباریٔ المصور لہ الاسماء الحسنیٰ یسبح لہ‘ما فی السمٰوٰتِ والارضِ وھوالعزیز الحکیم قل اوحی الیَّ انہ استمع نفر من الجن فقالو ا اناسمعنا قراٰناً عجباً یھدی الی الرشد فامنّا بہ ولن نشرک بربنااحداًوانہ تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبۃً وَّ لاوَلداً وَّاَنَّہ کان یقول سفیھنا علی اللّٰہ شططاً۔
سورہ فیل کو پرانے مٹی کے ٹھیکرے پر لکھ کر گھر کے اندردفن کردیں،جب تک یہ گھر میں دفن رہے گا انشاء اللہ گھر تمام بلیات سے مامون رہے گا۔
یہ درود شریف حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی پڑھا کرتے تھے اور اس کو والدصاحب نے بھی بہت پسند فرمایا اور اکثر اپنے مریدین کو اس کے پڑھنے کی ترغیب فرمایا کرتے تھے۔ اللّٰھمّ صَلِ عَلٰی سَیّدِنا ومولانا
محمّد روح جَسَدِ الکَونَینِ وَسِرِّحَیاۃِ الدَّاَرَینِ
حضرت والد صاحب قدِّسَ سِرّہ العزیز کی
دعا
سورہ فاتحہ اور درود شریف کے بعد:
یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَاذَا الْجَلاَلِ وَالاِکْرَامِ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ،یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ نُوْحٍ عَلَیْہِ السَّلاَمُ، بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ صَالِحٍ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ یَعْقُوبَ یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ یُوسُفَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ یُونُسَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ مُوسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ ھَارُوْنَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ شُعَیْبَ عَلَیہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ ،یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ اِبْرَاھِیَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ،یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ اِسْمٰعِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ دَاودَ عَلَیْہِ السَّلامُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ سُلَیْمَانَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ زَکَرِیَّا عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ یَحْیٰ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ عِیْسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا مَنْ اَجَابَ دَعْوَۃَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی مَوَاکِنِ کُلِّھَا بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ، یَا اَللّٰہُ یَا کَرِیْمُ اَسْئَلُکَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْعِصْمَۃَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلاَمَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لاَ تَدَعْ لَنَا ذَنْباً اِلاَّ غَفَرْتَہُ وَلاَ ھَماً اِلاَّ فَرَّجْتَہُ وَلاَ کَرْباً اِلَّانَفَّسْتَہُ وَلاَضَرًّا اِلاَّ کَشَفْتَہُ وَلَا حَاجَۃً ھِیَ لَکَ رِضیً اِلاَّ قَضَیْتَھْا یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنَّا یَا کَرِیْمُ۔
اے کریمے از خزانۂ غیب ۔۔ گبرو ترسا وظیفہ خور داری
دوستاں را کجا کنی محروم ۔۔ تو کہ با دشمناں نظرداری​
اس کے بعد اردو زبان میں مختصرالفاظ میں دعا فرماتے تھے۔


کُلُّ شَیئٍ ہالکٌ إلاَّ وجہہُ
 
السلام علیکم

پیش کردہ: (مفتی)عابدالرحمٰن مظاہری

از د یرو حرم
(سوانح مفتی عزیزالرحمٰن صاحبؒ بجنوری)​

قسط:68

موت سے کس کو رُستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے​

امراض
اور
وفات

ہم نے چاہا تھا کہ نہ ہو مگر ہوئی صبحِ فراق ۔۔۔۔ موت کا وقت جب آتا ہے ٹلتا نہیں

ہمارے بعد دنیا میں افسانے بیاں ہوں گے
بہاریں ہم سے ہوں گی اور ہم جانے کہاں ہوں گے​

مَوتُ التُّقٰی حَیاتٌ لاَ نِفادَ لَہَــا قَدْ ماتَ قَومٌ و ہُم فِی النَّاسِ أحیَائُ

متقی کو موت کے بعد ایسی زندگی حاصل ہوتی ہے کہ جس کو فنا نہیں۔
بہت سے لوگ مرگئے لیکن وہ لوگوں میں زندہ ہیں۔

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے ۔۔ سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے​
{کُلُّ شَیٍٔ ہَالِکٌ إِلاَّ وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُونَ} الٓایۃ
انسان کی فلاح وبہبود کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہزاروں انبیاء کرام ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا، جنھوں نے منصب ِ رسالت کے خاص فریضہ کو وقت ِ مقررہ تک انجام دیا اور پھر اس دنیائے فانی سے رُخصت فرماگئے۔ سلسلۂ رسالت کے بند ہونے کے بعد اس مشن کو علمائِ کرام اور اولیائِ عظام نے جاری رکھا، باوجودیکہ لامحدود تکالیف وآلام جو ان کو ان کے اپنوں ہی نے پہنچائی جن کی پرورش وتربیت بھی ان ہی برگزیدہ اور اولوالعزم ہستیوں کے دست شقفت اور لطف وکرم سے انجام پائی تھی، ان کی تمام ریشہ دوانیوں کو نہایت صبروتحمل کے ساتھ یہ کہہ کر {قُلْ لَّنْ یُّصَیْبَنَا اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا} برداشت فرمالیا کرتے تھے اور اپنے مشن کو برابر جاری رکھتے تھے۔ اور بجائے شکایت کے شکر ِ خداوندی کرتے کہ اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ادا ہوگئی۔ (اور انسان کی تکمیل کا راز بھی اسی میں مضمر ہے)
انہی مصائب وآلام کو والدنا ومرشدنا واستاذنا نے آخری دم تک بڑی خندہ پیشانی، عزم وہمت واستقلال کے ساتھ اور بغیر کوئی شکوہ شکایت کئے اس دنیائے فانی سے رُخصت ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
بسا اوقات ہمیں نصیحت فرماتے تھے: ’’دیکھو بچو! اس پریشانی سے گھبرانا نہیں کیونکہ یہ خواص کا مقدر ہوتا ہے اور یہیں سے راستے کھلتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کے اپنوں نے ہی تکلیف پہنچائی اور پھر ان کے بعد ان کے اہل خانہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی ان کے اپنوں نے ہی تکلیف پہنچائی۔اس لئے یاد رکھو میرے بعد تمہارے لئے نیا جال بنایا جائے گا اس وقت سے اللہ تمہاری حفاظت فرمائے! گھبرانا نہیں اس کارِ ررسالت کو جاری رکھنا۔ اور دیکھو یہاں سے جانے کے بعد بھی میں تمہاری ایسی ہی خیر خبر رکھوں گا جیسا کہ اب‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے اور نصرت فرمائے۔ آمین
اس مختصر تمہید کے بعد عرض کردوں کہ انتقال سے تقریباً آٹھ سال پہلے بذریعہ خواب آپ کو سفر آخرت کی آگاہی دے دی گئی تھی۔ اس خواب کو آپ نے اسی وقت اپنی ڈائری میں تحریر فرمالیا تھا جس کو بعینہٖ نقل کیا جارہا ہے:
۸/اگست ۱۹۹۵؁ء مطابق: ۱۰/ربیع الاوّل ۱۴۱۶ھ؁ شب سہ شنبہ (منگل) ڈھائی بجے شب، خواب میں دیکھا کہ حضرت مدنیؒ ایک بڑی جلسے میں شریک ہیں۔ وعظ یا بیان میں جانے کا وقت قریب ہے کہ اس سے پیشتر کھانے کا سلسلہ ہے۔ کھانے میں کھیر بھی ہے مجھے زبردستی شریک طعام کرلیا اور خوب زیادہ کھیر کھلائی، پھر دیر تک معانقہ کرتے رہے۔ معانقہ کے بعد پھر گفتگو شروع کردی، فرمایا: میں مرادآباد جاؤں گا وہاں بھی ضرور شرکت کرنا، میں نے عرض کیا: کون سی تاریخ کو پہنچیں گے؟ فرمایا: ۱۳/ستمبر ۱۹۹۵؁ء کو اور لکھ کر معلوم کرلینا وہاں آپ کا سارا رسالہ فروخت کرادیں گے۔ میں نے عرض کیا: ابھی میں نے چھپوایا نہیں ہے، البتہ نام ضرور منظور کرالیا ہے۔ فرمایا: بہت ضروری ہے، آج کل بہت ہی ضروری ہوگیا ہے (رسالہ ’’عزیز الاسلام‘‘ کے نام سے ایک رسالہ کا ٹائیٹل منظور کرالیا تھا، جو چھپ نہ سکا) اور پھر فرمانے لگے: میں نے ہدایہ بیع کے مسائل میں فرداً لکھا دیکھا ہے، کیا مطلب ہے؟ میں نے عرض کیا: حضرت! بین السطور میں ثمناً ہوگا۔ اتنے میں ہدایہ کھولی تو فرمایا: ٹھیک ہے، بین السطور میں ثمناً ہی لکھا ہے۔ یہ سارے حالات اس حالت میں پیش آئے کہ وہ بھی جذب میں تھے اور میں بھی جذب میں تھا۔ میں نے پھر عرض کیا: حضرت! فتاویٰ نویسی کا کام بہت بڑھا ہوا ہے اور یہ کام مجھے زیادہ پسند نہیں ہے۔ فرمایا: آپ تو استاذ ہیں، یہ کام تو ضمنی ہے، کوئی بات نہیں۔ پھر میں نے اجازت چاہی، فرمایا: جاؤ قیام گاہ پر ہوآؤ، گویا جلسہ گاہ کو جارہے ہیںیا نماز کو جارہے ہیں، اسی حالت میں میں نے محسوس کیا کہ جلسہ گاہ دارالعلوم میں ہے اور وہیں مجھے ایک علیحدہ قیام گاہ ملی ہے، قیام گاہ پہنچا پھر اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی، گھڑی دیکھی تو ڈھائی بج رہے تھے، فوراً ہی یہ خواب قلم بند کرلیا۔
والد صاحبؒ کی عادت تھی کہ وہ تہجد کے وقت چائے نوش فرمایا کرتے تھے۔ حسب معمول تقریباً کے تین بجے میں والدین کے لئے چائے لے کر حاضر ہوا تو والد صاحب نے فرمایا: بیٹھ، میں بیٹھ گیا۔ فرمایا: ابھی ابھی میں نے یہ خواب (مذکورہ) دیکھا ہے۔ تیری کیا رائے ہے؟ میں نے ازراہِ تسلی عرض کیا، جو رسالہ (عزیزالاسلام) ہم نکالنا چاہتے ہیں اس پر حضرت مدنیؒ کا اظہارِ پسندیدگی ہے۔ فرمایا: جا تو نہیں سمجھے گا۔ الغرض صبح کو پھر سب اہل خانہ سے اس خواب کے بارے میں رائے لی، سب نے اپنی اپنی فہم کے بطور تسلی کے کچھ نہ کچھ عرض کیا، فرمایا تم لوگ نہیں سمجھوگے۔ اس واقعے کے بعد سے آپ نے اپنے معمولات میں تبدیلی فرمالی تھی، گویا سفر کی تیاری شروع کردی تھی۔ انتقال کے بعد جب میں نے اس ڈائری کو دوبارہ کھولا اور مذکورہ خواب کو پڑھا تو عقل نے راہنمائی شروع کی کہ اس خواب کو تقریباً آٹھ سال پورے ہورہے ہیں اور اس کا ہر لفظ جو کہ خط کشیدہ ہیں آپ کے سفر آخرت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اور قیام گاہ دارالعلوم اس طرف واضح اشارہ کررہا ہے کہ آپ کی آخری آرام گاہ ’’مادرِ علمی‘‘ (مدرسہ) ہوگی۔ جس کی آپ نے بذاتِ خود وصیت فرمادی تھی۔ فتدبَّرُوا
مدرسہ کے چندے کے سلسلے میں والد صاحبؒ کی شروع سے ہی یہ عادت رہی کہ دور دراز کے اسفار کو رمضان المبارک سے پہلے ہی طے فرمالیا کرتے تھے، چنانچہ حسب معمول میں ۱۱؍ شعبان ۱۴۲۴ھ؁ مطابق: ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۳ئ؁ کو بمبئی روانہ ہوا اور اس کے دو دن بعد والد صاحبؒ برادر مکرم مفتی عبیدالرحمن صاحب احمدآباد کے لئے روانہ ہوئے۔ کام سے فراغت کے بعد جس دن آپ کو روانہ ہونا تھا، آپ کی طبیعت خراب ہوگئی اور اسی حالت میں آپ ’’اٹالین بیکری‘‘ (سیٹھ مصطفیٰ کے گھر) سے اسٹیشن کے لئے روانہ ہوگئے۔ وہاں طبیعت اور زیادہ خراب ہوگئی، بھائی صاحب والد صاحب کو اٹالین بیکری واپس لے آئے، پیٹ میں شدید درد تھا، کئی دن سے آپ کو اجابت نہیں ہوئی تھی، قبض سمجھ کر آپ کو تیز سے تیز قبض کشا دوائیں اور دافع درد دوائیں دی گئیں مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا، نتیجتاً دماغی بحران میں مبتلا ہوگئے، تمام احباب ومنتسبین جناب سیٹھ مصطفیٰ صاحب کے یہاں جمع ہوگئے اور بھائی محمد شکیب بھی تشریف لے آئے۔ مشورہ کے بعد طے کیا گیا کہ حضرت کو فوراً اسپتال لے جایا جائے۔ الغرض بہ مشکل تمام آپ کو ہسپتال لے جایا گیا (اس میں بڑی تفصیل ہے، وہاں آپ کا چیک اپ ہوا۔ ان تمام مراحل کو جناب سیٹھ محمد مصطفیٰ صاحب مدظلہ العالی اوربھائی محمد شکیب نے اپنی ذاتی رسم ورسوخ سے بڑی تیزی سے طے کرایا۔ تمام بڑے ڈاکٹر صاحبان وہاں جمع ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے) ڈاکٹروں نے بتایا کہ آپ کے دونوں گردے فیل ہوگئے ہیں بچنا مشکل ہے، ڈائلیسز ہوگا، کوئی خدائی کرشمہ ہوجائے تو ہوجائے، ان کے گھر والوں کو اطلاع کردی جائے کہ جو آنا چاہئے آجائے۔ فوراً ہی گھر والوں کو بذریعہ فون اطلاع کردی گئی۔ گھر والے سب پریشان ہوگئے فوراً ہی دعاء درود، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوگئے۔ مجھے بمبئی بذریعہ فون تلاش کیا گیا مگر میں کہاں مل سکوں تھا؟ صبح کو فجر کی نماز کے بعد نکلتا تھا اور رات کو عشاء کے بعد اپنی قیام گاہ پر واپس آتا تھا۔ اس دن میں مغرب سے پہلے واپس آگیا، کام کیونکہ وقت سے پہلے ہی میرا بھی مکمل ہوگیا تھا، صبح ہی سے میں نے اپنا سامان پیک کرکے رکھ دیا تھا کہ کسی بھی گاڑی سے چالو ٹکٹ سے نکل جاؤں گا، جیسے ہی میں آیا میرے میزبان نے مجھے اطلاع دی کہ احمد آباد سے تمہارا فون آیا، والد صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے، فوراً تجھے بلایا ہے، صبح سے تجھے تلاش کیا جارہا ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا کیونکہ اس تاریخ میں والد صاحب کو گھر ہونا چاہئے تھا، کیونکہ والد صاحب پروگرام پہلے ہی طے کرلیا کرتے تھے اور واپسی کا ٹکٹ بھی پہلے ہی زرویشن کرالیا کرتے تھے اور میرے حساب سے پہلے ایک دن پہلے گھر ہونا تھا۔ پہلے میں نے گھر فون کیا، بچوں نے فون اُٹھایا، میں نے گھبرائے ہوئے والد صاحب کو معلوم کیا نہ وہ میری بات سمجھ سکے اور نہ میں ان کی بات سمجھ سکا۔ میں نے فون بند کیا اور احمد آباد کو فون کیا تو محترمہ سیٹھانی صاحبہ نے فون اُٹھایا اور فوراً ہی بغیر کسی تمہید کے مجھ سے کہا: تو کہاں تھا؟ جلدی سے کسی بھی شکل میں، بھلے سے ہی ہوائی جہاز سے آنا پڑے فوراً آجا، حضرت کی طبیعت زیادہ خراب ہے، خطرے میں ہیں، سب لوگ ہسپتال گئے ہوئے ہیں۔ قصہ مختصر فوراً سامان اُٹھایا اور جو بھی گاڑی اس وقت ملی اس سے احمدآباد کے لئے روانہ ہوگیا اور فجر کی اذان تک احمدآباد پہنچ گیا۔ اسٹیشن سے سیدھا اٹالین بیکری پہنچا ، جناب سیٹھ مصطفیٰ صاحب نے تسلی دی کہ اب خطرے سے باہر ہیں، ڈائی لیسزDialysis ہوچکا ہے، میں نے نماز پڑھی اور فوراً اسپتال پہنچ گیا، سب سے پہلے بھائی صاحب سے ہی ملاقات ہوئی، مجھے دیکھ کر انھیں بڑی تسلی ہوئی، والد صاحب کے پاس لے گئے، اس وقت والد صاحب کی حالت دیکھ کر میری جو حالت ہوئی ہوگئی میں ہی جانتا ہوں، نہایت کمزور ہوگئے تھے، جگہ جگہ پٹی بندھی ہوئی تھی، گلوکوز کی بوتل لگی ہوئی تھی، میرے بارے میں بتایا گیا کہ عابد آگیا ہے، نہایت بے قراری سے مجھے پیار کیا، جناب سیٹھ مصطفیٰ صاحب اور بھائی شکیب اور برادر مکرم نے بڑی قربانی دی، سیٹھ مصطفیٰ صاحب بذاتِ خود وہاں تشریف لاتے رہتے تھے اور ہر پل کی خبر رکھتے تھے اور اپنے صاحبزادوں کی باری باری وہاں حاضر رہنے کی تاکید کردی تھی اور اپنے ایک ملازم کو مستقل بھائی صاحب کے تعاون کے لئے وہاں مقرر کردیا تھا، بھائی شکیب صاحب صبح کو آٹھ بجے تشریف لاتے اور رات کو تقریباً دو بجے اپنے گھر تشریف لے جاتے اور جب تک والد صاحب ہسپتال سے رُخصت ہوئے یہی ان حضرات کا طریقہ رہا۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو اجر عظیم عظا فرمائے اور دنیا وآخرت کی تمام دولتوں سے نوازے۔ ان حضرات نے صرف خدمت ہی نہیں کی بلکہ علاج معالجہ کے تمام مصارف اور دہلی تک کا تینوں کا ہوائی جہاز کا خرچ بھی انہی حضرات نے برداشت کیا ، ایسے مخلص حضرات اب نایاب ہیں۔ بجنور میں والد صاحب کے ایک مرید، مرید کم بلکہ دوست زیادہ کہا جائے تو بہتر ہوگا، محترم جناب محمد صابر خاں صاحب نے گھر والوں کی برابر خبر گیری رکھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم عطا فرمائے۔
ہسپتال تقریباً ایک ہفتہ ایمرجنسی وارڈ میں رہے پھر اس کے بعد والد صاحب کو وی آئی پی وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔ اس دوران بڑے بھائی مفتی عبیدالرحمن صاحب نے بڑی خدمات انجام دیں۔ اکثر والد صاحب کے کپڑے جو نجاست سے خراب ہوجاتے تھے ان سب کو بھائی صاحب خود ہی دھویا کرتے تھے۔ ڈاکٹروں کے پاس آنا جانا۔ دواؤں کی خبر رکھنا، یہ سب کام خود ہی انجام دیتے تھے۔ تمام علاج کے دوران ڈاکٹروں نے بڑی دلچسپی اور مستعدی کا ثبوت دیا۔ رفتہ رفتہ والد صاحب بلڈیوریا کنٹرول ہوتا گیا اور گُردوں نے بھی اپنا کام شروع کردیا اس کے بعد ایک مرتبہ اور آپ کا ڈائی لیسز Dialysisہوا پھر ڈاکٹروں نے گھر جانے کی اجازت دے دی۔
بجنور میں ڈاکٹر نیرج چودھری صاحب کے زیرنگرانی احمدآباد کے ڈاکٹروں کا تجویز کیا ہوا علاج چلتا رہا اس دوران ہمارے مخلص کرم فرما جناب ڈاکٹر فرقان احمد صاحب اورڈاکٹر مہتاب احمد صاحب (ان کو والد صاحب پیار میں بیٹا کہا کرتے تھے اور یہ اباجی کہا کرتے تھے، واقعی انھوں نے بیٹا ہونے کا ثبوت دیا جس کا ذکر آگے آئے گا) نے برابر دیکھ بھال رکھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ دھیرے دھیرے آپ کے جسم میں توانائی آتی چلی گئی اور آپ حسب معمول اپنا کام انجام دینے لگے۔ مدرسہ کا دفتری کام اور تصنیف وتالیف، فتاویٰ نویسی اور گھریلو انتظامات میں مشغول ہوگئے۔ اگرچہ جسم اس کی اجازت نہیں دیتا تھا مگر پھر بھی کام کئے جاتے تھے، اکثر پیدل ہی آنا جانا رہتا تھا، تکان محسوس کرتے تو رکشا کرلیا کرتے تھے، کبھی کبھی اس احقر کے ساتھ اسکوٹر پر چلے جاتے تھے۔
ہماری دو بہنیں ہیں اور دونوں ہی بڑی ہیں، بڑی بہن بجنور شہر کے ایک محلہ بخارہ میں رہتی ہیں۔ جب سے وہ محلہ مردہگان سے بخارہ منتقل ہوئیں تب سے آپ برابر عصر کے بعد وہاں تشریف لے جاتے تھے، کیسا ہی موسم ہو، کتنی ہی طبیعت خراب ہو وہاں ضرور تشریف لے جاتے اور راستے سے کچھ بچوں کے لئے خرید لیا کرتے تھے۔ اور مغرب کی نماز کبھی یہاں پڑھ لیتے اور کبھی مدرسہ میں۔ یہ سلسلہ تقریباً اٹھارہ انیس سال جاری رہا چنانچہ اس بیماری میں بھی یہ سنت ِ نبویؐ جاری رکھی اور اکثر یہ احقر آپ کو اسکوٹر پر لے جاتا تھا۔ وہاں سے آپ رکشہ سے آجاتے تھے۔
اس بیماری میں جہاں اور جسمانی کمزوریاں واقع ہوئیں وہیں آپ کی آنکھ کی روشنی بھی متأثر ہوئی۔ داہنی آنکھ آپ کی پہلے ہی زخمی ہوکر خراب ہوگئی تھی جس کا موتیابندبن گیا تھا۔ آنکھ زخمی ہونا ہی بظاہر آپ کے انتقال کا سبب بنا۔ انتقال سے تقریباً چار سال پہلے آپ عصر کے وقت مدرسہ میں وضو کررہے تھے، ادھر مدرسہ کے بچے ہلکی پلاسٹک کی گیند سے کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ایک گیند بڑی زور سے آپ کی داہنی آنکھ میں لگی اور آنکھ سے خون جاری ہوگیا، بڑا شدید درد ہوا، بہرحال اس کا علاج کافی دنوں تک چلا، تکلیف تو ختم ہوگئی لیکن زخم کی وجہ سے موتیابند بن گیا، ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا اور مناسب وقت کے انتظار میں تین چار سال گزر گئے۔
رواں بیماری میں دوسری آنکھ کی روشنی بھی متاثر ہونے لگی اسی کے ساتھ ساتھ سر میں شدید درد رہنے لگا، دن میں عصر کے بعد سے درد شروع ہوتا اور رات کے تین بجے تک درد شدید شکل میں رہتا۔ اس کے بعد کچھ آرام ملتا تو سو جاتے تھے، پوری پوری رات تمام گھر والے جاگتے رہتے تھے، سر کو آرام پہنچانے کے لئے جو بھی تدبیر ممکن ہوسکتی تھی وہ کی جاتی تھی، درد کش دوائیں آپ کو دی نہیں جاسکتی تھیں کیونکہ گردے خراب ہونے کا اندیشہ رہتا تھا، اسی کے ساتھ ساتھ کان کی تکلیف اور بڑھ گئی، کان بہنا شروع ہوگیا اور کان میں زخم ہوگیا، اس نئی بیماری سے اور پریشانی بڑھ گئی ڈاکٹر بھی سمجھ نہیں پارہے تھے کہ سر کا درد کس وجہ سے ہے، آخر تجویز ہوا کہ کان کے زخم کی وجہ سے سر میں درد ہے، اب تین بیماری ایک ساتھ چل رہی تھی، گردوں کا علاج، کان کا علاج، سر کا علاج، اور اسی کے ساتھ آنکھ کا علاج بھی شروع کردیا گیا تھا۔ آنکھ والے ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ سر کا درد آنکھ کی وجہ سے ہے اگر آنکھ کا آپریشن نہ ہوا تو دماغی توازن خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ دوسری آنکھ میں بھی موتیا اُترنا شروع ہوگیا ہے۔ آنکھ کی روشنی تو دن بدن گر ہی رہی تھی کہ اب سر کے درد کے ساتھ آنکھ میں چبھن بھی شروع ہوگئی۔ والد صاحب نے آنکھ کے علاج کے لئے اصرار کرنا شروع کردیا۔ اسی دوران حلق میں کچھ بیماری ہوگئی جس کی وجہ سے آواز بیٹھ گئی، کھانا کھاتے یا پانی پیتے تو دھسکا لگتا اور سانس قابو سے باہر ہوجاتی تھی۔ ایک تو پہلے سے کھاتے ہی کم تھے اب اور کم ہوگیا جس کی وجہ سے لاغری اور آگئی۔ ادھر ڈاکٹر صاحبان اس انتظار میں تھے کہ جسم میں کچھ توانائی اوار آئے تو آپریشن کیا جائے، الغرض والد صاحب کا جب اصرار بڑھا تو ڈاکٹر صاحب نے وقت تجویز کردیا‘‘۔
۶؍ جولائی ۲۰۰۴؁ء بروز منگل آپ کی آنکھ کے آپریشن کا وقت تجویز کیاگیا۔ احقر کو منگل کا دن کھٹک رہا تھا لیکن بڑوں کے مشورے میں کچھ نہ بولا، منگل کے دن وقت موعود پر آپ کو ڈاکٹر صاحب کے یہاں لے جایا گیا۔ داہنی آنکھ کا آپریشن پہلے تجویز کیا گیا۔ جس وقت آنکھ میں دوا ڈالی گئی تو والد صاحب نے ارادہ بدلا، لیکن چونکہ سب کام مکمل ہوچکے تھے ڈاکٹر صاحب نے تسلی کہ آپریشن بہت آسان ہوگا اور مشکل سے دس بیس منٹ لگیں گے۔ الغرض آپ کا آپریشن ہوگیا، ڈاکٹر کے بقول آپریشن کامیاب رہا، آنکھ میں لینس ڈال دیا گیا۔ آنکھ پر پٹی باندھ دی گئی، ڈاکٹر کے بقول دو تین پٹی کے بعد اور مزید پٹی کی ضرورت نہ رہے گی اور کچھ پرہیز بتایا اور بس۔ اگلے دن پٹی کے لئے ڈاکٹر صاحب کے یہاں گئے، پھر دوسرے دن گئے ان دونوں دنوں میں والد صاحب خود اپنے پیروں سے گاڑی سے اُتر کر ڈاکٹر صاحب کے یہاں گئے۔ تیسرے دن جب ڈاکٹر صاحب کے یہاں گئے تو آپ کو سہارے کی ضرورت پڑی ڈاکٹر صاحب نے پٹی کھولی تو آپ کی آنکھ کھلی ہوئی تھی اور پلکوں نے حرکت کرنا بند کردیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ لقوہ کا اثر ہوگیا ہے، جب تک پلکیں حرکت نہ کریں گی پٹی کرنی پڑے گی نہیں تو آنکھ خراب ہوجائے گی۔ الغرض روزآنہ پٹی ہونے لگی، پیروں کی طاقت تقریباً ختم ہوگئی، گود میں اُٹھاکر آپ کو گاڑی میں بٹھایا جاتا اور گود میں اُٹھاکر ہی ڈاکٹر صاحب کے یہاں لے جایا جاتا۔ کئی ہفتوں کے بعد پلکوں میں تھوڑی سی حرکت ہوئی لیکن احتیاطاً پٹی بندھتی رہی۔ ادھر حلق کی بیماری اور ترقی کرگئی، کھانا اور دوا حلق میں پھنسنے لگی، کچھ کوشش کی جاتی تو حلق میں پھندا لگ جاتا اور کھانسی کا نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا، سانس لینا مشکل پڑجاتا، مجبوراً غذا اور دوا بند کردی گئی اور ڈِرِپ (گلوکوز کی بوتل) شروع کردی گئی۔ اسی میں دوا اور طاقت کے انجکشن شامل کئے جانے لگے۔ قضائے حاجت بھی کمرے میں ہونے لگی اور حالت روز بروز بگڑتی چلی گئی۔
ڈاکٹر صاحبان گھر پر ہی تشریف لانے لگے، آنکھ کی پٹی بھی گھر پر ہی ہونے لگی۔ مقامی ڈاکٹروںمیں ڈاکٹر مہتاب صاحب نے ہمارا بہت ساتھ دیا، ہول سیل ریٹ پر جو دوائیں ان کے یہاں ہوتیں وہ ہم کو مہیا کرتے، دن میں کئی کئی مرتبہ تشریف لاتے، رات کو بھی جب ضرورت ہوتی تو تشریف لے آتے۔ گھر کے تمام افراد آپ کے پاس ہی موجود رہتے تھے۔ غرض جس دن سے آپ کی آنکھ بنی تھی سب نے آرام کرنا، سونا اور کاروبار سب کو ختم کردیا تھا، بڑے بھائی صاحب نے خدمت کا حق ادا کردیا تھا، ایک قدم مدرسہ میں تو ایک قدم ڈاکٹر صاحب کے یہاں، کبھی کسی ڈاکٹر سے رجوع کررہے ہیں تو کبھی کسی حکیم سے۔ جو بھی دوا یا تدبیر کوئی آپ کے لئے تجویز فرماتا اس کو کیا جاتا، آخر کار جب مرض میں کچھ تخفیف نہ ہوتی دکھائی دی ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی​
تو آپس میں طے ہوا کہ تقسیم اوقات کرلیا جائے، چنانچہ دن میں میری ڈیوٹی والد صاحب کی خدمت میں رہتی ہی تھی کیونکہ بڑے بھائی صاحب باہر بھاگ دوڑ میں رہتے تھے رات کو میں، ہمارے بہنوئی حکیم محمد طاہر صاحب، کبھی کبھی ہمارا بھانجا حافظ قمرالہدیٰ والد صاحب کی تیمار داری میں رہتے۔ کئی کئی دن بغیر سوئے گذر جاتے۔ نیند کس کو آتی ساری رات آنا جانا رہتا تھا، غرض کہ گھر کے تمام افراد اسی طرح شب وروز گذارتے رہے، کسی نے کوئی کوتاہی یا کسلمندی کا ثبوت نہ دیا۔ دن میں والد صاحب کے مریدین، احباب، رشتہ دار ومتعلقین برابر عیادت کے لئے تشریف لاتے رہے۔ بیرونی حضرات میں جناب سیٹھ محمد مصطفیٰ صاحب بذریعہ فون برابر خبرگیری رکھتے۔ادھر ہمارے مخلص کرم فرما جناب بھائی محمد شکیب صاحب نہایت مخلصانہ انداز میں ہماری مدد فرماتے۔ بہترین سے بہترین دوا جو ان کو دستیاب ہوسکتی تھی وہ ہم کو برابر فراہم کرتے رہے۔ دن رات میں کئی کئی بار بہت بہت دیر تک فون پر بات چیت کرتے اور اپنے متعلقین ڈاکٹروں سے رجوع فرماتے اور پھر اس کے مطابق ہمیں دواؤں وطریقۂ علاج کے بارے میں اہم اور مفید مشورے دیتے۔ الغرض ہر آدمی اپنی حیثیت کے اعتبارسے خدمت انجام دے رہا تھا۔ دعاء کرنے والے دعاء کررہے تھے، مسجدوں میں برابر دعائیں کرائی جارہی تھیں جس کا سہرا جناب قاری محمد ارشد صاحب اور استاذنا حضرت مولانا حسین الدین صاحب کے سر جاتا ہے، ان حضرات نے اپنی اپنی جگہ خدمات انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو اجر عظیم عطا فرمائے۔
نئی افتاد:ماہ اگست کی شب میں میں حسب معمول اپنی ڈیوٹی پر تھا گرمی کی وجہ سے کمرہ کے دروازہ کے سامنے کرسی ڈال کر بیٹھ گیا والدہ صاحبہ کمرے کے اندر تھیں ،تقریباًرات کے گیارہ بجے والد صاحبؒ نے تالی بجائی(کیونکہ بولنے میں آپ کو تکلیف ہونے لگی تھی)میں حاضر خدمت ہوا فرمایا کون میں نے کہا عابد ہے آپ نے کچھ کام کرایا ،کچھ دیر میں نے پیر دبائے اور پھر باہر آکر بیٹھ گیا ۔کچھ دیر کے بعد آپ نے مجھے آواز دی میں پھر حاضر ہو گیا آپ نے سینہ کی طرف اشارہ کیا ،میں نے سینہ کو ملا اس سے آپ کو کچھ سکون ملا اس کے بعد آپ کچھ اور کام کرا یا اس کے بعد آپ نے دونوں ہاتھوں دعا لی شکل میں اوپر کو اٹھائے ،اور میرے سرپر ہاتھ پھیرا اور، کہا جا۔ میں باہر آکر بیٹھ گیا ،ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ آپ نے اپنا تکیہ نکال کر پھینک دیا،میں نے تکیہ اٹھا کر سر کے نیچے رکھ دیاآپ نے پھر پھینک دیا ،غرض کہ آپ نے کئی مرتبہ ایسا ہی کیا،میں نے مجبور ہو کر چھوڑ دیا اس کے بعد آپ سکون سے سوگئے،میں نے امی ّسے کہا کہ میں برابر کے کمرے لیٹا ہوں کوئی بات ہو تو آواز دیدینا،درمیان رات میں میں ایک دو مرتبہ کمرہ میں آیا میں نے والد صاحب کو سوتے ہی پایا۔میں واپس آکر لیٹ گیا ۔صبح کی اذان سے کچھ پہلے میری اہلیہ چائے لیکرآئی ،مجھ سے کہا دیکھو تو سہی ابا کو کیا ہوگیاآنکھ پھیلی ہوئی ہے اور لمبے لمبے سانس لے رہے ہیں۔ میں فوراًکمرے میں آیا تو دیکھا کہ آنکھ اوپر کو چڑھی ہوئی ہے ،ایک آنکھ پر تو پہلے ہی پٹی بندھی ہوئی تھی میں نے آنکھ کو بند کیا اور بھائی صاحب کو خبر کرائی ،اور میں فوراًڈاکٹر مہتاب صاحب کے یہاں بھاگاا دھر بھائی صاحب سائیکل لیکر دوڑے ،ڈاکٹر صاحب نے آکر نبض اور بی، پی وغیرہ دیکھی سب کچھ ٹھیک تھا ،اور واپس چلے گئے ۔صبح ہوئی اور والدصاحب کو باہر مدرسہ کے صحن میں لٹادیا گیا ،شام کے وقت ڈاکٹر مہتاب صاحب تشریف لائے اس وقت قاری ارشد صا حب بھی تشریف فرماتھے، ڈاکٹر صاحب بڑے غور سے آپ پر نگاہ جمائے ہوئے تھے،اچانک اپنی جگہ سے اٹھے اور والد صاحب کے تلوؤں کو اپنی چابی سے گد گدانا شروع کیا ،پھر کچھ زور سے چبھویا تو بائیں جانب کے پیر میں کوئی حرکت نہیں ہوئی اور یہی حال بائیں ہاتھ کا تھا۔گھبرا کر ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ حضرت پر فالج کا حملہ ہوا ہے ،اور ہم نے دھیان ہی نہیں دیا،یہ حملہ رات ہی ہوگیا تھا۔ فوراً ہی بھائی صاحب کے ساتھ ڈاکٹر نیرج صاحب کے یہاں گئے ، اور پوری صورت حال بتائی ۔انہوں نے کہا کہ پہلے ’’C.T. اسکین ‘‘کرایا جائے تبھی کوئی علاج تجویز کیا جاسکتا ہے ۔چونکہ رات ہو چکی تھی اس لئے میرٹھ لیجانا ممکن نہیں تھا ،اس لئے صبح تک کے لئے مؤخر کردیا گیا ۔
صبح ہوئی تو تمام متعلقین اور محبین جمع ہوئے اور ابھی میرٹھ جانے کی تیاری کرہی رہے تھے کہ اچانک آپ پر ایک شدید دورانی سی کیفیت طاری ہوئی ،ہاتھ پیر کو سمیٹنے لگے اور حال یہ تھا کہ پورے بدن پر ایک لرزہ اور کپکپی سی طاری تھی۔ بولنا آپ کا سابقہ رات سے ہی ختم ہو گیاتھا اس لئے زبان سے کچھ کہہ نہ سکتے تھے،ہاتھ سے کچھ اشارہ کر رہے تھے ہمارے بہنوئی حکیم محمد طاہر صاحب ،اورجناب شفیق احمد صاحب(داماد حکیم محمد طاہر صاحب)اور دیگر حضرات بھی عیادت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے،کہنے لگے شاید قلم مانگ رہے ہیں فوراً قلم آپؒکے ہاتھ میں دیا گیا ،آپ نے اپنے ہاتھ پر کچھ لکھا لیکن وہ سمجھ میں نہ آسکا فوراًہی رجسٹر آگے کردیا گیا (یہاںمیں یہ عرض کردوں کہ ایک آنکھ تو آپ کی پہلے ہی خراب ہوچکی تھی ،دوسری آنکھ کی روشنی بھی اسی رات سے ختم ہوگئی تھی)بہت تیزی میں آپ نے قلم کو حرکت دی صرف دل تو سمجھ میں آسکا ،کیونکہ آپ مسلسل قلم کو حرکت دئے جا رہے تھے۔ڈاکٹر مہتاب صاحب اور دیگر حضرات جو وہاں اس وقت موجود تھے سب نہایت پریشان اور بوکھلائے ہوئے تھے ڈاکٹر صاحب کی پیشانی سے پسینہ صاف جھلک رہا تھا ۔الغرض بھائی صاحب وغیرہ نے جلدی جلدی سینہ کی گرم تیل سے مالش کی کچھ دوائیں جو بھائی شکیب صاحب نے بھیجی تھیں وہ قطرہ قطرہ منہ میں ڈالی گئیں،کچھ دیر کی جدو جہد کے بعد آپ کو کچھ آرام ملا۔
الغرض طے ہوا کہ جلد از جلد میرٹھ لیجایا جائے،چنانچہ آپ کو گاڑی میں پچھلی سیٹ پر لٹایا گیا بڑے بھائی صاحب نے والد صاحب کا سر اپنی گود میں لیا اور حکیم محمد طاہر صاحب نے پیروں کو،اور میں آگے کی جانب بیٹھ گیا۔راستہ میں دومرتبہ آپکی وہی گھر والی کیفیت ہوئی دوائی وغیرہ ہم نے ساتھ رکھلی تھیں اس لئے وہی گھر والی تدابیر اپنائی گئیں اللہ اللہ کرکے میرٹھ پہونچے ،سی ٹی اسکین کرایا،رپورٹ نارمل آئی ،بجنور واپس آگئے۔سیدھے ڈاکٹر نیرج صاحب کے یہاں پہونچے وہ ہماراہی انتظار کررہے تھے۔بھائی صاحب نے صبح سے اب تک کی رودادسنائی ، یہ سن کر ڈاکڑصاحب نے فوراً’’ای سی جی،E.C.G . ‘‘کیا اور کہاکہ ان کو ہارڈ اٹیک ہوا ہے۔میرٹھ کی رپورٹ دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کیا جائے۔ کیونکہ اب تک کی تمام رپورٹس ایک صحت مند آدمی کی طرح سے بالکل نارمل تھیں،کہنے لگے یہ تو اوپر والے کا ہی کوئی کرشمہ ہے ۔کہ بیما ر بھی ہیں اور بیمار بھی نہیں،علاج کیا جائے تو کس چیز کا؟آخر کار کچھ دوائیں تجویز کیں کہ ان کو استعمال کرایا جائے اگر دماغ میں کوئی کلوٹنگ ہے اور وہ ان دواؤں سے کھل گئی تو ٹھیک ہے ورنہ ناممکن ہے۔ غرض کہ دوائیں استعمال کرائی گئیں مگر سب بے سود ثابت ہوئیں۔ اسی دوران بھائی صاحب کو حکیم طاہر صاحب نے بتایا کہ فلاں گاؤں میں فلاں کی اہلیہ پر فالج کا اثر ہوا تھا انھوں نے کسی سے علاج کرایا تو وہ بالکل ٹھیک ہوگئیں۔ فوراً ہی بھائی صاحب نے گاڑی لی اور حکیم جی کو ساتھ لے کر گاؤں جلال آباد پہنچ گئے اور ان بزرگوار کو تلاش کیا تو وہ کھیت پر مل گئے اور جب والد صاحب کی کیفیت کے بارے میں ان کو بتایا تو والد صاحب کا نام سن کر وہ فوراً بولے کہ میں نے اپنی بیوی کا علاج علی گڑھ میں کرایا تھا اور میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں چنانچہ وہ بے چارے اسی حالت میں بغیر ہاتھ منھ دھوئے اپنے گھر بھی نہ گئے راستے ہی میں ایک صاحب سے کہا کہ ہمارے گھر اطلاع کردینا کہ میں علی گڑھ جارہا ہوں۔ بجنور آکر بھائی صاحب نے اپنے دواحباب کو ان بزرگوار کے ساتھ کردیا اور اسی وقت مختصر سا کھانا کھایا اور علی گڑھ کے لئے روانہ ہوگئے۔ اگلے دن شام کے وقت یہ حضرات واپس آئے، کچھ تیل وغیر ساتھ لائے۔ حسب ہدایت اس کا استعمال کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
ایک دن ،رات کے تقریباً بارہ بجے ہوں گے کہ ڈاکٹر مہتاب صاحب اپنا کلینک بند کرکے یہیں آگئے، باہر صحن میں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے کہ اچانک والد صاحب پر شدید تشنج کی کیفیت طاری ہوئی۔ داہنے ہاتھ سے داہنے پیر کو بھینچ لیا اور اینٹھنے سے لگے اس وقت آپ نے کافی بلند آواز میں تین مرتبہ اللہ اللہ اللہ کہا۔ ڈاکٹر صاحب بھی گھبراگئے فوراً ڈاکٹر نیرج صاحب کو فون کیا اور ان کو کیفیت بتائی۔ انھوں نے کوئی انجکشن تجویز کیا یہ فوراً اسی وقت بڑی تیزی سے اسکوٹر سے گئے اور انجکشن لائے۔ انجکشن لگایا، ادھر بھائی صاحب نے جلدی جلدی تیل کی مالش کرائی اس کے بعد طبیعت کچھ سنبھلی، یہ آپ کی آخری آواز تھی۔ اس کے بعد سے نہ کچھ بولے اور نہ ہی کچھ سنا، بہت کوششیں کی گئیں، کان میں آلۂ سماعت بھی لگایا مگر سب بے سود۔
میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ آپ کا کھانا پینا بالکل بند ہوگیا تھا اس لئے ڈاکٹروں اور کچھ والد صاحب کے مخلص مریدین کے مشورے سے آپ کے رائس ٹیوب (کھانے کی نلی) ڈالی گئی۔ اسی کے ذریعہ آپ کو کھانا ودوا دی جانے لگی اور بوتلوں کی مقدار کم کردی گئی اور آخری وقت تک یہی طریقۂ کار رہا۔
۲۰؍ستمبر بروز پیر تقریباً دن کے گیارہ یا بارہ بجے آپ کا سانس اُکھڑنے لگا اور آپ بڑے بڑے سانس لینے لگے۔ ڈاکٹر وغیرہ آئے، جانچ کی سب ٹھیک ٹھاک تھا۔ رات ہوئی حکیم جی کی اور میری ڈیوٹی حسب دستور جاری تھی۔ میں نے حکیم جی اور بھائی صاحب سے کہا کہ آپ حضرات آرام فرمالیں میں جاگ رہا ہوں۔ طبیعت آپ کی بدستور ویسی ہی تھی۔ اس رات کو میں ساری رات جاگتا رہا اور آپ کا بی پی BP ناپتا رہا۔ کبھی ہاتھ کی ہتھیلی میں گدگدی کرتا کبھی پیروں کے تلو وں میں کچھ چبھوتا۔ رات کے تقریباً تین بجے تک آپ کے ہاتھ اور پیر میں کچھ حرکت تھی اس کے بعد حرکت ختم ہوگئی میں نے ڈاکٹر مہتاب صاحب کو فون کیا انھوں نے کہا: صبح کا انتظار کیا جائے، ڈاکٹر نیرج صاحب سے رجوع کیا جائے گا۔ الغرض صبح ہوئی، سانس بدستور اُکھڑا ہوا تھا، کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ آرہاتھا۔ بڑے بھائی صاحب نے نیبولائزر لگایا دو منٹ کے لئے قدرے افاقہ ہوا، پھر بدستور پہلے سے بھی زیادہ سانس کی حالت خراب ہوگئی۔
۲۱؍ستمبر ۲۰۰۴ئ؁ مطابق ۵؍شعبا ن ۱۴۲۵ھ؁بروزمنگل کو صبح ہوئی۔ ڈاکٹر مہتاب اذان کے بعد ہی تشریف لے آئے تھے۔ بھائی صاحب بھی موجود تھے۔ فجر کی نماز کے بعد حکیم جی نے حالت ملاحظہ کی، مایوسی کا اظہار کیا۔ فوراً ہی بڑے بھائی صاحب نے ایک طالب علم کو جناب مولوی حسین الدین صاحب کو بلانے کے لئے دوڑایا۔ مدرسہ کے اساتذہ وطالب علم نے یٰسین شریف پڑھنا شروع کردی۔ اتنے میں مولانا صاحب دیوانگی کی حالت میں جھپٹے چلے آئے اور فوراً ہی بڑے والہانہ انداز میں والد صاحب کے چہرے سے نزدیک ہوکر یٰسین شریف کا ورد شروع کردیا۔ وہ کیفیت دیکھنے کے قابل تھی، حقیقتاً آپ نے حق تلمیذی ادا کیا۔ ہمارے تو حواس باختہ تھے، کیا کریں کیا نہ کریں۔ سمجھ سے باہر تھا، الٹی سیدھی حرکتیں کررہے تھے۔
ڈاکٹر مہتاب صاحب گھر تشریف لے گئے تھے۔ ان کو کیفیت سے آگاہ کیا اس وقت تک آپ دو ہچکی لے چکے تھے، جب وہ تشریف لائے تو آخری ہچکی لے چکے تھے کہ روح قفص عنصری سے پرواز کرگئی۔ نبض کو ٹٹولا، مایوسی سے گردن جھکالی اور سب کی آنکھوں سے آنسو اُمڈ پڑے۔ اس وقت صبح کے تقریباً ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ہم نے چاہا تھا کہ نہ ہو مگر ہوئی صبح فراق ۔۔ موت کا وقت جب آتا ہے ٹلتا نہیں​
وفات کی اطلاع آناً فاناً شہر میں پھیل گئی۔ شہر، قصبات ومواضعات سے لوگوں کا ہجوم مدرسہ میں جمع ہونے لگا۔ ہر آنکھ اشک بار اور پریشان تھی۔ حضرت کی تجہیز وتکفین کے مراحل طے کرنے کے لئے مشورہ ہوا، عشاء کے بعد تدفین کا اعلان کرادیا گیا۔ حضرت کو غسل دینے کے لئے بڑے بھائی صاحب نے حضرت مولانا حسین الدین صاحب مدظلہ العالی (حضرت والد صاحب کے تلمیذ خاص اور ہمارے استاذ صاحب) صوفی عبدالرشید صاحب شیرکوٹ والے، مولوی حسین الدین صاحب شہاب پور والے (ہمارے ہم سبق اور والد صاحب کے مجاز) کو تجویز کیا اور خود بھی شریک تھے۔ عین موقع پر اس احقر کو بھی یہ سعادت نصیب ہوئی۔ تدفین کے لئے حضرتِ والد صاحب نور اللہ مرقدہ نے کئی سال پہلے ہی نہ صرف زبان سے وصیت فرمادی تھی بلکہ ایک وصیت نامہ بھی لکھ دیا تھا کہ مدرسہ میں ہی تدفین کی جائے اور بارہا اس جگہ کی نشاندہی فرمائی تھی۔ یہاں یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ مدرسہ کی زمین والد صاحب نے ذاتی رقم سے خریدی تھی۔
بعد نماز ظہر تقریباً ڈھائی بجے غسل کا عمل شروع ہوا۔ ہم پانچ نفوس کو یہ سعادت حاصل ہوئی۔ جن حضرات کو یہ سعادت حاصل ہوئی وہ حیران تھے اور اب تک حیران ہیں کہ جسم مبارک اسی طرح نرم تھا جیسے کسی زندہ انسان کا۔ نزع کے وقت آنکھیں نیم باز اور دہن (منھ) نیم وا ہوجاتا ہے۔ نیک بانسہ اور چہرے کی تازگی میں بھی فرق آجاتا ہے۔ ہاتھ، کہنی، پیر سخت ہوجاتے ہیں، لیکن حیرت تھی کہ آنکھیں بالکل بند، جیسا کوئی بالکل آرام اور سکون سے سویا ہوا ہو۔ منھ بھی بند تھا البتہ دانت نہ ہونے کی وجہ سے ہونٹ قدرے اندر کی جانب ہوگئے تھے جس کی وجہ سے دہن مبارک میں کچھ جھری سی آگئی تھی یہ کیفیت عالم حیات میں بھی سوتے وقت رہتے تھی۔ روئے انور پر ہلکی سرخی اور نورانیت وتازگی تھی۔ تغسیل کے بعد تدفین کا عمل شروع ہوا۔ عطر شمامۃ العنبر جو حضرت والد صاحب کو پسند تھا مولوی حسین الدین صاحب شہاب پوری اپنے ساتھ لائے تھے وہی کفن پر چھڑکا گیا۔ تدفین کے بعد کچھ دیر کے لئے گھر کی مستورات کو زیارت کا موقع دیا گیا۔ اس کے بعد جنازے کو مدرسہ کے صحن میں رکھ دیا گیا۔ قرب وجوار سے آئے لوگوں کا ایک کثیر مجمع حضرت کے آخری دیدار کے لئے منتظر تھا۔ عشاء کی نماز تک یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ اس وقت مدرسہ کی فضا پرسکون اور پرنور تھی۔ عجیب ماحول تھا جو بیان سے نہیں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہزاروں آدمی آپ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ ان زیارت کرنے والوں میں آپ کے وہ عقیدت مند بھی تھے جو آپ کی ہر ادا اور ہر عمل کو بنظر تحسین دیکھتے تھے۔ اور وہ مخالفین اور تنقیدی نگاہ رکھنے والے حضرات بھی جن کے یہاں حسن وقبح کا امتیاز بھی ختم ہوگیا تھا، لیکن آج ان میں سے اکثر اپنی ذہنیت اور سوچ پر نادم وشرمندہ تھے۔ اس جمِ غفر اور مقبولیت کو دیکھ کر برملا پکار اُٹھے، ہمیں معلوم نہیں تھا کہ مفتی صاحب اتنے عظیم شخصیت تھے۔ ’’بسیارخوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری‘‘۔
رات کو تقریباً نو بجے جنازے کو مدرسہ سے نکالا گیا اور بھائی صاحب کی تجویز کے مطابق جنازہ داہنی جانب سے نکالا گیا اور مدرسہ کی پشت سے ہوتا ہوا مدرسہ کے سامنے سڑک پار منیراختر صاحب کے وسیع باغ میں لے جایا گیا، جہاں نمازِ جنازہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ مرحلہ نہایت سخت اور دشوار کن تھا۔ لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انسانی سروں کا ایک سیل بے کراں ہو۔ ہزاروں نفوس کا مجمع جو مدرسہ سے لے کر باغ تک پھیلا ہوا تھا (جو اہل بستی نے نہ کبھی دیکھا اور نہ کبھی سنا تھا) بچشم انتظار کھڑا ہوا تھا اور جنازے کو کاندھا دینے کے لئے بے چین تھے۔ ایک دوسرے کے اوپر پروانوں کی طرح گر رہے تھے۔ ہجوم کو مدنظر رکھتے ہوئے جنازے کے چاروں طرف لمبی لمبی بلیاں باندھی گئیں لیکن وہ بھی ناکافی رہیں۔ ہر آدمی کاندھا دینے کے لئے بے قرار تھا۔
جنازے کے چاروں طرف پروانوں کی طرح گردش کررہے تھے۔ عقیدت مندی اور جذبے کا یہ عالم تھا کہ کچھ آدمی چارپائی کے نیچے ہی گھس گئے اور جھکے جھکے ہی تمام راستے کو طے کیا، جس کو آدھا گھنٹے سے زیادہ وقت لگا ہوگا۔ کچھ آدمی گِر کر بھی زخمی ہوئے۔ بہرحال محبین اور عقیدت مندوں کے ساتھ جنازے کو لے جاتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ گویا جنازہ ہوا میں اُڑ رہا ہو، کوئی غیرمرئی طاقت جنازہ کو لئے ہوئے جارہی ہو۔ لوگوں کا تو صرف ہاتھ لگ رہا تھا۔
شدہ شدہ جنازہ باغ میں پہنچا وہاں ہزاروں آدمی پہلے ہی سے صف بندی کئے ہوئے کھڑے تھے۔ جنازے کو رکھا گیا اور حضرت مولانا حسین الدین صاحب مدظلہم کو پہلے ہی نماز پڑھانے کے لئے تجویز کرلیا گیا تھا۔ نماز سے پہلے حضرت مولانا موصوف نے ایک مختصر سی ولولہ انگیز تقریر فرمائی۔ اور پھر نماز پڑھائی۔ واپسی کے وقت جیسے ہی جنازے کو اُٹھایا گیا ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی ایسا لگا کہ گویا آسماں اشک ریز ہو۔ اسی حالت میں جنازہ مذکورہ کیفیت کے ساتھ قدرے راستے کو طول دے کر تاکہ کاندھے سے محروم نہ رہ سکے مدرسہ کے صدر گیٹ سے جنازہ کو اندر لایا گیا۔ تدفین کے لئے بڑے بھائی صاحب حضرت مولانا حسین الدین صاحب، یہ احقر اور میرے دونوں چھوٹے بھائی: عباد الرحمن، عبودالرحمن، اور ہمارا بڑا بھانجا نجم الہدیٰ اور صوفی عبدالرشید صاحب قبر میں اُترے۔ تدفین سے قدرے پہلے بوندا باندی رُک گئی تھی، اس وقت مدرسہ کا صحن پرنور تھا۔ بہرحال تدفین کاعمل پورا ہوا ، مٹی دینے کے لئے ہر آدمی بے قرار تھا، سیکڑوں نے یہ سعادت حاصل کی اور سیکڑوں یہ حسرت لئے ہوئے فاتحہ وغیرہ سے فارغ ہوکر یہ کہتے ہوئے گھروں کو واپس ہوگئے ؎
دھیرے دھیرے اُٹھ گئے جو تھے بچے اہل نظر
پوچھتے ہیں لوگ کہ اب کون ہستی رہ گئی؟
اور بقولِ شاعر ؎
یوں لگا جیسے جہاں سے ہوگیا رُخصت کمال
یوں لگا اس روز سے ہم ہوگئے سارے یتیم
کسی نے خوب کہا ہے ؎
کیا گئے ہیں آپ کہ اب آپ سا اہل ورع
مفتی ٔ ذی شاں ہم اہل زمیں ڈھونڈھیں کہاں؟
بیماری سے نزع تک کے چند اہم واقعات​

(۱) شدتِ مرض اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : مَنْ یُردِ اللّٰہُ بِہٖ خَیرًا یُصِبْہُ‘‘۔ أو کما قال علیہ الصلوٰۃُ والسَّلامُ۔ جس کے لئے اللہ بھلائی چاہتا ہے اس کو تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے۔ تقریباً پورے ایک سال آپ سخت ترین بیماری میں مبتلا رہے، جس کو بیان کرنے اور سننے کے لئے کلیجہ چاہئے۔ ایک طویل داستان ہے جس کو لکھنے کے لئے ایک مستقل کتاب چاہئے۔ اور بقول شاعر:
ہے لفظ لفظ میں پنہاں غموں کا پہاڑ۔۔ کلیجہ چاہئے سننے کو داستاں کے لئے​
جتنے بھی اللہ کے پسندیدہ اور مقرب بندے ہوتے ہیں ان کو اتنی ہی سخت تکالیف میں مبتلا کیا جاتا ہے اور حسب مراتب تکالیف وامراض میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ سخت ترین بیماری اور تکلیف آقائے نامدار سرورِ کونین، رحمۃ للعالمین اور حبیب رب العالمین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصال سے پہلے لاحق ہوئی۔
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مرضِ وفات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مضطرب رہے۔ اور بستر پر کروٹ بدلا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اگر ایسی تکلیف ہم کو ہوتی تو اسے یہی سمجھا جاتا کہ خدا ناراض ہے۔ فرمایا: عائشہؓ! میرا مرض بہت سخت ہے اور اللہ تعالیٰ مومنین کو جس مصیبت میں مبتلا کرتا ہے، بلکہ مومنین اور صلحاء پر تکلیف زیادہ ہوتی ہے اور ان کو زیادہ ایذا ہوتی ہے حد یہ ہے کہ اگر ان کے پیر میں کوئی کانٹا لگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند فرماتا ہے اور اس کی خطا معاف کرتا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے آپ کے مرض سے زیادہ سخت مرض کسی کا نہیں دیکھا‘‘۔
(رسالت ِ مآب، ص:۴۷۷، تصنیف: والد صاحبؒ)
اس طرح سے یہ سنت ِ انبیاء ؑ واتقیائؒ وصالحینؒ ومقربین ادا ہوئی۔
یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ۔۔ ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
(۲) آنکھ کے آپریشن کے بعد آپ کا مرض تو شدت اختیار کر ہی گیا تھا، بظاہر آپ نے ہم لوگوں سے سکوت اختیار کرلیا تھا، نہ دیکھتے تھے اور نہ بولتے تھے۔ آنکھیں بند رکھتے تھے۔ ہماری دنیا سے بے خبر تھے۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ آپ کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی آپ کا چہرہ بدستور اپنی حالت میں اور کبھی آپ ایسے لگتے کہ آپ مسکرا رہے ہیں۔ کبھی آپ کے جسم کا رُواں رُواں کھڑا ہوجاتا۔ یہ تغیرات لمحاتی ہوتے تھے۔
نزاعی کیفیت تقریباً پندرہ یا سولہ گھنٹہ رہی، کسی طرح کی کوئی بے چینی یا پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔ نزاعی رات میں صبح صادق سے پہلے میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرۂ انور پر نورانیت ہے اور آپ کے چہرے کا رُواں رُواں کھڑا ہے اور چہرے پر خفیف سے دانے اُبھر آئے۔ اسی وقت میرے دل میں یہ بات آئی کہ اب آپ کا تعلق دنیا سے منقطع ہوگیا ہے اور آپ کا تعلق عالم بالا سے ہوگیا ہے، بس اپنی سانس پوری کررہے ہیں۔ اسی وقت میں نے آپ کے چہرۂ انور کو زمزم کے پانی سے صاف کیا اور ریش مبارک کو بھی زمزم سے صاف کیا اور ریش مبارک میں ہلکی سی خوشبو لگادی۔ اس وقت چہرۂ انور بڑا ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔ داڑھی کا ایک ایک بال کھِلا ہوا تھا۔ ایک عرصے سے ریش مبارک میں کنگھی نہ ہوسکی تھی لیکن اس وقت ایک ایک بال سنت کے مطابق سجا ہوا تھا، گویا مشاطۂ قدرت نے خاص اپنے ہاتھوں سے ریش مبارک میں کنگھی کی ہو اور لبوں کو درست کیا ہو۔
(۴) نزع کے وقت جہاں اور محبین تشریف فرماتھے وہیں ہمارے مخلص جناب منیراختر صاحب مالک مدینہ پریس بالکل قریب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے بیان فرمایا:
’’میں آپ کے چہرۂ انور کو بڑی غور سے دیکھ رہا تھا کہ یکایک مجھے ایسا لگا کہ آپ کے ریش مبارک کے بالوں سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں اور یہ سلسلہ جب تک جاری رہا جب تک آپ کی روح مبارک نے ۔پرواز نہیں کی۔ کچھ دیر کے لئے میں یہ بھول گیا کہ میں کہاں ہوں‘‘۔
(۵) جس وقت روح مبارک نے پرواز کی اسی وقت ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی تھی، ایسا لگا کہ گویا آسمان اشک ریزہو اس کے بعد بوندا باندی رُک گئی ،اور مدرسہ کے اوپر ایک عجیب سی نورانیت چھاگئی۔ بہرحال:
’’بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری‘‘۔​

ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما​



تمت بالخیر​
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ خیرا۔
محترم! آپ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اتنی پیاری سوانح پڑھنے کے لیے ہم کو دی۔ ابھی اتنا ہی لکھتا ہوں، پھر وقت نکال کر ضرور تبصرہ کروں گا۔ان شآء اللہ العزیز۔
بہت بہت شکریہ۔ ایسا ہی کوئی اور مفید سلسلہ بھی شروع فرمائیے۔
 
Top