مترادفات القرآن (ا)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ابلنا – جوش مارنا

اس کے لیے غلی، نضخ، اور فار (فور) کے الفاظ آتے ہیں۔
1: غلی
غلا
کے بنیادی معنی اپنی حد سے تجاوز کرنا اور اوپر اٹھنا ہے۔ اس سے غلا القدر (ہانڈی کا جوش مارنا) اور غلا السّعر (نرخوں کا بلند ہو جانا) ہے (م ل) ارشاد باری ہے:
كَالۡمُهۡلِۚ يَغۡلِىۡ فِىۡ الۡبُطُوۡنِۙ‏ كَغَلۡىِ الۡحَمِيۡمِ‏ (سورۃ الدخان آیت 45، 46)
پگھلے ہوئے تانبے کی طرح وہ پیٹوں میں کَھولے گا۔ کھولتے ہوئے پانی کے جوش کی مانند۔
2: نضخ
پانی کا چشمہ سے زور سے پھوٹنا (منجد) مگر نضخ میں جوش مارنے کی وجہ کثرت آب اور دباؤ ہوتی ہے نہ کہ حرارت اور نضاخ موسلادھار بارش کو بھی کہتے ہیں (منجد) اور عین نضاخۃ وہ چشمہ ہے جو کثرت آب کی وجہ سے جوش مار رہا ہو۔ (م ل) ارشاد باری ہے:
فِيۡهِمَا عَيۡنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ‌ (سورۃ الرحمن آیت 66)
اُن دونوں میں (بھی) دو چشمے ہیں جو خوب چھلک رہے ہوں گے
3: فار
فار
کا لفظ ہانڈی کے جوش مارنے، چشمہ سے پانی ابلنے کے لیے اور آگ کے جوش مارنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مگر یہ لفظ اس صورت میں استعمال ہو گا جبکہ ابال جلد جلد اٹھ رہا ہو کیونکہ الفور کے معنی بہت جلدی کے ہیں۔ کہا جاتا ہے رجع من فورہ وہ بلا توقف بہت جلد جلد واپس ہوا۔ (منجد) اور لفظ فوّارہ بھی اسی سے مشتق ہے۔ جس میں پانی کا تسلسل قائم رہتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَفَارَ التَّنُّوۡرُ (سورۃ ھود آيت 40)
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا۔
ماحصل:
  • غلی: گرمی کی وجہ سے کسی مائع چیز کا جوش مارنا اور اپنی اصل سطح سے بلند ہونا۔
  • نضخ: کثرت آب اور دباؤ کی وجہ سے پانی کا جوش مارنا
  • فار: کسی چیز میں شدت اور جلدی کی وجہ سے اس کے ابال میں تسلسل قائم رہنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ابھار

اس کے لیے کعب، امت، نجد، اور سمک کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: کعب
بمعنی ٹخنہ۔ پھر جو کوئی ابھار ٹخنہ کی مانند ہو اس پر بھی کعب کا اطلاق ہوتا ہے۔ کعبت الجاریۃ بمعنی لڑکی کے پستان ابھرے اور بڑے ہوئے۔ اور کعب بمعنی عورت کے ابھرے ہوئے پستان کا کاعب اس عورت کو کہتے ہیں جس کے پستان اٹھ آئے ہوں۔ (جمع کواعب) بمعنی نوجوان عورتیں (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
وَّكَوَاعِبَ اَتۡرَابًا (سورۃ النبا آیت 33)
اور ہم عمر بھرپور جوان عورتیں۔
2: حدب
حدب الرجل
بمعنی آدمی کا کبڑا ہونا اور حدب بمعنی کبڑا پن اور مجازاً اس بلند اور سخت زمین کو بھی کہتے ہیں جو اس شکل کی ہو۔ ٹیلہ جو پھیلاؤ میں زیادہ اور بلندی میں کم ہو اور یہ ابھار یا ڈھلان کبڑا پن کی طرح ہو۔ (محدب ضد مجوّف) ایسے شیشے جو دور و نزدیک کی نظر کی کمزوری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور محدّب شیشہ کو عدسہ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ شیشہ مسور کے دانے کی طرح دونوں طرف سے ابھرا ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
حَتّٰٓى اِذَا فُتِحَتۡ يَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَهُمۡ مِّنۡ كُلِّ حَدَبٍ يَّنۡسِلُوۡنَ‏ (سورۃ الانبیاء آیت 96)
یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے اتر آئیں گے۔
3: امت
ضد عوج بمعنی پستی اور عوج اور امت بمعنی نشیب و فراز اور امت بمعنی چھوٹا ٹیلہ۔ ٹبّہ، بلند مقام (منجد) یعنی ایسی بلندی اور پھیلاؤ جس میں کوئی ترتیب نہ ہو۔ ارشاد باری ہے:
لَّا تَرٰى فِيۡهَا عِوَجًا وَّلَاۤ اَمۡتًاؕ‏ (سورۃ طہ آیت 107)
جس میں آپ نہ کوئی پستی دیکھیں گے نہ کوئی بلندی۔
4: نجد
کعب نما بلند اور بڑا ٹیلہ۔ اور بمعنی چھوٹا پہاڑ اور بمعنی گھاٹی اور پر چڑھنے اور اترنے کا راستہ۔ نیز بمعنی عورت کے پستان (منجد، م ق) اور نجدین کا لفظ محاورتا عورت کے دو پستانوں، صدق و کذب اور حسن کے قبح کے تقابل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (مف) ارشاد باری ہے:
وَهَدَيۡنٰهُ النَّجۡدَيۡنِ فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَة (سورۃ البلد آیت 10،11)
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔ وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا۔
اس میں نجدین سے بعض مفسرین دونوں پستان مراد لیتے ہیں جن کی طرف بچہ پیدا ہوتے ہی فطری طور پر لپکتا اور پرورش پاتا ہے۔
5: سمک
سمک
بمعنی بلند کرنا، موٹا اور دبیز کرنا اور سمک بمعنی چھت یا چھت کی موٹائی۔ نیز ہر اونچی اور موٹی چیز کا قد و قامت (منجد) اور سنام سامک بمعنی اونٹ کی اونچی کہان (م ق) ارشاد باری ہے:
ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ‌ؕ بَنٰٮهَا رَفَعَ سَمۡكَهَا فَسَوَّٮهَا (سورۃ النازعات آیت 27، 28)
کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا (پوری) سماوی کائنات کا، جسے اس نے بنایا۔ اس نے آسمان کے تمام کرّوں (ستاروں) کو (فضائے بسیط میں پیدا کر کے) بلند کیا، پھر ان (کی ترکیب و تشکیل اور افعال و حرکات) میں اعتدال، توازن اور استحکام پیدا کر دیا‏
ماحصل:
ابھار اگر پھیلاؤ اور بلندی تقریباً برابر ہوں تو یہ کعب اور نجد ہے۔ صرف کمیت کا فرق ہے۔ اگر پھیلاؤ زیادہ اور بندی کم ہو تو یہ حدب ہے اور اگر پھیلاؤ کم اور اونچائی زیادہ ہو تو یہ سمک ہے اور اگر بلندی اور پھیلاؤ میں کوئی ترتیب اور تناسب نہ ہو تو امت ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ابھارنا – برانگیختہ کرنا

اس کے لیے حرّض، حضّ، حثّ، ازّ اور جرم کے الفاظ آئے ہیں۔
1: حرض
اس کے معنی سخت بیمار ہونا، لاغر ہونا اور قریب بہ ہلاکت ہونا ہے (م ل، م ق) قرآن میں آیا ہے:
قَالُوۡا تَاللّٰهِ تَفۡتَؤُا تَذۡكُرُ يُوۡسُفَ حَتّٰى تَكُوۡنَ حَرَضًا اَوۡ تَكُوۡنَ مِنَ الۡهَالِكِيۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 85)
بیٹے کہنے لگے کہ واللہ آپ تو یوسف کو اسی طرح یاد ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ گھل جائیں گے یا جان ہی دے دیں گے۔
اور حرّض کے معنی ترغیب دے کر ایسی ہلاکت اور تباہی سے بچانا ہے (م ل) یعنی کسی ایسے کام پر ابھارنا یا اشتیاق پیدا کرنا کہ اگر وہ نہ کیا جائے تو ہلاکت و تباہی کا موجب ہو۔ قرآن میں ہے:
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلَى الۡقِتَالِ ‌ؕ اِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ عِشۡرُوۡنَ صَابِرُوۡنَ يَغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ‌ (سورۃ الانفال آیت 65)
اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔ اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو کافروں پر غالب رہیں گے۔
2، 3: حضّ، حثّ
کسی کو کسی کام پر ابھار کر کام کی رفتار تیز کرنا، اچھے کام کی ترغیب دینا۔ اصل میں حضّ اور حثّ دونوں الفاظ ابھارنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ حثّ کا لفظ صرف کسی (سواری) وغیرہ کو چلانے اور ہانکنے کے لیے آتا ہے اور باقی سب کاموں میں حضّ کا استعمال ہوتا قرآن میں ہے:
يُغۡشِىۡ الَّيۡلَ النَّهَارَ يَطۡلُبُهٗ حَثِيۡثًا (سورۃ الاعراف آیت 54)
وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اسکے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔
اور حضّ دوسری باتوں پر ابھارنے یا ترغیب دینے کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اَرَءَيۡتَ الَّذِىۡ يُكَذِّبُ بِالدِّيۡنِؕ‏ فَذٰلِكَ الَّذِىۡ يَدُعُّ الۡيَتِيۡمَۙ‏ وَ لَا يَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الۡمِسۡكِيۡنِ (سورۃ الماعون آیات 1 تا 3)
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے) اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا
4: ازّ
کسی کو یوں بر انگیختہ کرنا کہ اسے احساس بھی نہ، کسی کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دینا (م ل) ازیز ہانڈی کے جوش کی آواز کو بھی کہتے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال عموماً برے مفہوم میں ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اَلَمۡ تَرَ اَنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا الشَّيٰـطِيۡنَ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ تَؤُزُّهُمۡ اَزًّاۙ (سورۃ مریم آیت 83)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انکو خوب اکساتے رہتے ہیں۔
5: جرم
جرم
(مصدر) گناہ اور قصور کو کہتے ہیں اور جب یہ فعل ہو تو اس کے معنی کسی کو بڑے جانکاہ کام پر اکسانا اور بر انگیختہ کرنا ہے (لغت اس معنی کی تائید نہیں کرتی لیکن تراجم مثلاً جالندھریؒ، عثمانیؒ، تفہم القرآن سب ہمارے بیان کردہ معنی کی تائید کرتے ہیں)۔ قرآن میں ہے۔
وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعۡدِلُوۡا (سورۃ المائدۃ آیت 8)
اور کچھ لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ انصاف ہی نہ کرو۔
ماحصل:
  • حرّض: ایسی بات پر ترغیب دینا کہ اس کا نہ کرنا ہلاکت و تباہی کا موجب ہو۔
  • حثّ: سواری وغیرہ کی رفتار تیز کرنے کے لیے۔
  • حضّ: سواری کے سوا باقی اچھے کاموں کی ترغیب کے لیے۔
  • ازّ: برے کاموں پر یوں ابھارنا کہ احساس بھی نہ ہو۔
  • جرم: گناہ کے کاموں پر ابھارنے اور اشتعال دلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اترنا

اترنا کے لیے نزل، تنزّل، حلّ اور ھبط کے الفاظ آئے ہیں۔
1: نزل
اترنا معروف لفظ ہے۔ بلندی سے کسی چیز کا نیچے آنا (مف) اور اس لفظ کا استعمال عام ہے (نزول کی ضد صعود بھی ہے اور عروج بھی)۔ قرآن میں ہے:
وَمَا يَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا يَعۡرُجُ فِيۡهَا (سورۃ الحدید آیت 4)
اور جو کچھ آسمانی کرّوں سے اترتا (یا نکلتا) ہے یا جو کچھ ان میں چڑھتا (یا داخل ہوتا) ہے۔
اور تنزل بہ بھی نزل بہ کا ہم معنی ہے۔ اور فرشتوں اور احکامات الہی کے نزول کے لیے یہ دونوں الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
نَزَلَ بِهِ الرُّوۡحُ الۡاَمِيۡنُ (سورۃ الشعرا آیت 193)
اسے روح الامین (جبرائیل علیہ السلام) لے کر اترا ہے
لیکن شیطانی القاء کے لیے صرف تنزل بہ ہی آئے گا (مف) ارشاد باری ہے:
تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ وَالرُّوۡحُ فِيۡهَا بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡ‌ۚ مِّنۡ كُلِّ اَمۡرٍ (سورۃ القدر آیت 4)
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں
هَلۡ اُنَبِّئُكُمۡ عَلٰى مَنۡ تَنَزَّلُ الشَّيٰـطِيۡنُؕ‏ تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيۡمٍ (سورۃ الشعرا آیت 220، 221)
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں وہ ہر جھوٹے (بہتان طراز) گناہگار پر اترا کرتے ہیں
2: حلّ
اس کے بنیادی معنی "گرہ کھولنا" ہے اور اس کی ضد "عقد" یعنی گرہ باندھنا ہے۔ ارباب حل و عقد عام فہم لفظ ہے بمعنی صاحبان بست و کشاد۔ اور سامان باندھنے اور کھولنے کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ مسافر سامان باندھ کر سفر پر جاتا ہے اور جہاں فروکش ہوتا ہے سامان کھول دیتا ہے۔ لہذا حل کا لفظ فروکش ہونے اور اترنے کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا (م ل) اور جس طرح مسافر کسی جگہ فروکش ہو کر سامان کھولتا ہے۔ اسی طرح حل کا لفظ کسی کام کے نتیجہ کے طور پر بھی آتا ہے۔ کہا جاتا ہے من جرّب المجرّب حلّت بہ النّدامۃ۔ یعنی جو آزمائے ہوئے کو آزمائے اس پر ندامت اترتی ہے۔ قرآن میں مجید میں ہے:
فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَۙ مَنۡ يَّاۡتِيۡهِ عَذَابٌ يُّخۡزِيۡهِ وَيَحِلُّ عَلَيۡهِ عَذَابٌ مُّقِيۡمٌ‏ (سورۃ ھود آیت 39)
اور تم کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا اور کس پر ہمیشہ کا عذاب نازل ہوتا ہے؟
3: ھبط
کسی چیز کا قہرا یا اضطرارا نیچے اترنا یا گرنا یا نکلنا جیسے پتھر بلندی سے گرتا ہے (مف) بے اختیار ہو کر نکلنا، اپنے مرتبہ سے فروتر ہونا اور بلندی سے پستی کی طرف جانا، سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اب ان کی مثالیں ملاحظہ کیجیئے:
کسی سواری سے نیچے اترنا:
قِيۡلَ يٰـنُوۡحُ اهۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَكٰتٍ عَلَيۡكَ وَعَلٰٓى اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَكَ‌ؕ وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمۡ ثُمَّ يَمَسُّهُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ (سورۃ ھود آیت 48)
حکم ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر نازل کی گئ ہیں اتر آؤ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہوں گی جنکو ہم دنیا کے فوائد سے بہرہ مند کریں گے پھر انکو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا۔
کسی چیز کا اضطرارا و قہراً نیچے اترنا
وَاِنَّ مِنۡهَا لَمَا يَهۡبِطُ مِنۡ خَشۡيَةِ اللّٰهِ‌ (سورۃ البقرۃ آیت 74)
اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔
مرتبہ سے فروتر ہو کر نکلنے کے لیے:
فَاَزَلَّهُمَا الشَّيۡطٰنُ عَنۡهَا فَاَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيۡهِ‌ وَقُلۡنَا اهۡبِطُوۡا بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ‌ۚ وَلَـكُمۡ فِىۡ الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيۡنٍ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 36)
پھر شیطان نے دونوں کو اس طرف کے بارے میں پھسلا دیا اور جس عیش و نشاط میں تھے اس سے انکو نکلوا دیا۔ تب ہم نے حکم دیا کہ بہشت بریں سے چلے جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانہ اور معاش مقرر کر دیا گیا ہے۔
اس کے مفہوم کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے:
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچہ سے ہم نکلے
ماحصل:
  • نزل: کا لفظ عام ہے۔
  • تنزّل: وحی و احکامات الہی اور شیطانی القاء وغیرہ کے لیے آتا ہے۔
  • حلّ: کسی مقام سے اترنے کے لیے۔
  • ھبط: قہرا یا اضطرارا کسی جگہ سے اترنے، گرنے یا نکلنے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اتارنا

اتارنا کے لیے نزل سے انزل اور نزّل، حلّ سے احلّ اور اس کے علاوہ وضع اور خلع کے الفاظ آئے ہیں:
1: انزل اور نزّل
بعض علماء کا خیال ہے کہ انزل کا لفظ بلندی سے کوئی چیز یکبارگی اتارنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے ارشاد باری ہے:
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِۚ (سورۃ القدر آیت 1)
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔
اور یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم یکبارگی نازل نہیں ہوا۔ اس کی توجیہہ یہ ہے کہ قرآن کریم اس رات کو آسمان دنیا پر تو یکبارگی نازل ہو گیا۔ بعد میں حسب موقع و ضرورت بذریعہ وحی نازل ہوتا رہتا۔ دوسری توجیہہ یہ ہے جیسے (فتح محمد صاحب) نے اس کا ترجہ کیا ہے۔ ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا اور تنزیل سے مراد کسی چیز کو بتدریج یا حسب ضرورت اتارنا کے ہیں۔ جیسے
تَبٰرَكَ الَّذِىۡ نَزَّلَ الۡـفُرۡقَانَ عَلٰى عَبۡدِهٖ لِيَكُوۡنَ لِلۡعٰلَمِيۡنَ نَذِيۡرَاۙ‏ (سورۃ الفرقان آیت 1)
(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرّب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈر سنانے والا ہو جائے
چنانچہ امام راغب بھی یہی خیال فرماتے ہیں۔ فرماتے ہیں "ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخری اور متفرق طور پر نازل کرنے کے ہوتے ہیں۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور پر کسی چیز کو نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے"۔ (مف) گویا امام موصوف کے نزدیک تنزیل کا لفظ تدریج کے لیے اور انزال کا تدریج اور یکبارگی اتارنے دونوں کیلئے آتا ہے لیکن قرآن اس کی تائید نہیں کرتا۔ مثلاً :
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَوۡلَا نُزِّلَ عَلَيۡهِ الۡـقُرۡاٰنُ جُمۡلَةً وَّاحِدَةً‌ (سورۃ الفرقان آیت 32)
اور کافر کہتے ہیں کہ اس (رسول) پر قرآن ایک ہی بار (یک جا کرکے) کیوں نہیں اتارا گیا؟
یہاں یکبارگی کے ساتھ تنزیل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دونوں لفظ اس قدر قریب المعنی ہیں کہ ایک کی جگہ دوسرا بلا تکلف استعمال ہو سکتا ہے صرف الفاظ کی بندش اور جملہ کی وضاحت کے لحاظ سے کوئی بھی ایک لفظ قرآن کریم نے استعمال کر لیا ہے۔
2: احل
کسی دوسرے کو کسی مقام پر اتارنا اور یہ اترنے والے کے کسی عمل کے نتیجہ پر ہوتا ہے۔ اور خیر و شر دونوں صورتوں میں آتا ہے۔ مثلاً
خیر کے لیے:
وَقَالُوۡا الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡۤ اَذۡهَبَ عَـنَّا الۡحَزَنَؕ اِنَّ رَبَّنَا لَـغَفُوۡرٌ شَكُوۡرُۙ‏ اۨلَّذِىۡۤ اَحَلَّنَا دَارَ الۡمُقَامَةِ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ۚ لَا يَمَسُّنَا فِيۡهَا نَصَبٌ وَّلَا يَمَسُّنَا فِيۡهَا لُـغُوۡبٌ‏ (سورۃ فاطر آیت 34، 35)
اور وہ کہیں گے: اﷲ کا شکر و حمد ہے جس نے ہم سے کُل غم دور فرما دیا، بیشک ہمارا رب بڑا بخشنے والا، بڑا شکر قبول فرمانے والا ہے۔ جس نے ہمیں اپنے فضل سے دائمی اقامت کے گھر لا اتارا ہے، جس میں ہمیں نہ کوئی مشقّت پہنچے گی اور نہ اس میں ہمیں کوئی تھکن پہنچے گی۔
شرکے لیے:
اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ بَدَّلُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ كُفۡرًا وَّاَحَلُّوۡا قَوۡمَهُمۡ دَارَ الۡبَوَارِ (سورۃ ابراہیم آیت 28)
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کے احسان کو ناشکری سے بدل دیا۔ اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں لا اتارا۔
3: وضع
وضع
کے بنیادی معنی نیچے رکھ دینا کے ہیں (مف) لفظ وضع، حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور حمل میں بھی بوجھ ہی اتارا جاتا ہے۔ مثلاً
وَوَضَعۡنَا عَنۡكَ وِزۡرَكَۙ‏ الَّذِىۡۤ اَنۡقَضَ ظَهۡرَكَۙ‏ (سورۃ الانشرح آیت 2، 3)
اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیا۔ جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھا
پھر یہ لفظ اتارنے کے لیے عام ہونے لگا، مثلاً
وَحِيۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِيَابَكُمۡ مِّنَ الظَّهِيۡرَةِ (سورۃ النور آیت 58)
اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو
4: خلع
بنیادی معنی کسی چیز کو علیحدہ کرنا ہیں جو پہلے اس میں شامل تھی۔ (م ل) لفظ خلع بھی یہی مفہوم ادا کرتا ہے کہ عورت زر بدل دے کر خاوند سے علیحدہ ہو جاتی ہے اور طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ پاؤں سے جوتے ایک کو علیحدہ کرنے (اتارنے) کے لیے استعمال ہوا ہے۔ فرمایا :
اِنِّىۡۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخۡلَعۡ نَـعۡلَيۡكَ‌ۚ اِنَّكَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی (سورۃ طہ آیت 12)
بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو۔
اور خلع میں یہ عجیب نسبت ہے کہ قدیم تہذیبوں میں عورت کو پاؤں کے جوتے سے تعبیر کیا جاتا تھا۔
ماحصل:
  • انزل اور تنزیل کسی چیز کو نیچے اتارنے کے لیے ہیں۔ انزال یکبارگی اور تنزیل محض اتارنے کے لیے خواہ یکبارگی ہو یا بتدریج۔
  • احل میں اتارنے کا عمل اترنے والے کے کسی عمل کے نتیجے میں ہوتا ہے۔
  • وضع کسی چیز کو اتار کر نیچے رکھنے کے لیے۔
  • خلع کسی چیز کو دوسری چیز سے علیحدہ کر کے آتارنے کے لیے جس میں وہ شامل تھی استعمال ہوتے ہیں۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
عربی عبارت ٹوٹی ہوئ آرہی ہے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
غالبا آپ کے موبائل یا لیپ ٹاپ میں اردو فونٹ انسٹال نہیں۔ جس کی وجہ سے آپ کو ایسا نظر آرہاہے۔
فونٹ انسٹال کرلیں،درست نظر آئے گا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اترانا - تکبر کرنا

اترانا کے لیے فرح ، بطر، مرح ، اختال، فخر، اشر، تمطّی اور تکبّر اور فرہ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: فرح
فرح
کا استعمال دو طرح سے ہوتا ہے۔ فرح القلب اور فرح النفس۔
فرح القلب
سے مراد کسی نعمت پر تہ دل سے شکر گزار ہونا ہے۔ یہ محمود صفت ہے۔ ارشاد باری ہے:
قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰهِ وَبِرَحۡمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلۡيَـفۡرَحُوۡاؕ هُوَ خَيۡرٌ مِّمَّا يَجۡمَعُوۡنَ‏ (سورۃ یونس آیت 58)
کہدو کہ یہ کتاب اللہ کے فضل اور اسکی مہربانی سے نازل ہوئی ہے تو چاہیے کہ لوگ اس سے خوش ہوں یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
اور فرح النفس مذموم صفت ہے یعنی خدا کی نعتوں کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اترانے لگنا اور پھولا نہ سمانا اور خوشیاں منانا۔ ارشاد باری ہے:
اِذۡ قَالَ لَهٗ قَوۡمُهٗ لَا تَفۡرَحۡ‌ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡفَرِحِيۡنَ‏ (سورۃ القصص آیت 76)
جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا: تُو (خوشی کے مارے) غُرور نہ کر بیشک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا
2: بطر
نعتوں کی فراوانی کی وجہ سے بہک جانا اور بقول امام راغب بطر ایک دہشت ہے جو خوشحالی کے غلط استعمال، حق نعمت میں کوتاہی اور نعمت کے غلط استعمال سے انسان کو لاحق ہوتی ہے۔ (مف) اور ابن فارس کے نزدیک بطر کے اصل معنی پھاڑنا کے ہیں یعنی جیسے نعمت کی فراوانی نے کسی کے دیدے پھاڑ دئیے ہوں اور وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا گویا بطر کے مفہوم میں بھی نعمت کی فراوانی اور عدم شکر اور غلط استعمال موجود ہے اور یہ فرح سے اگلا درجہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍۢ بَطِرَتۡ مَعِيۡشَتَهَا (سورۃ القصص آیت 58)
اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں۔
3:مرح
فرط انبساط سے جھومنے لگنا (شدۃ الفرح ف ل 170) ناز و ادا سے اکڑ اکڑ کر چلنا یہ تیسرا درجہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَلَا تَمۡشِ فِىۡ الۡاَرۡضِ مَرَحًا‌ۚ اِنَّكَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَلَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلاً‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 37)
اور زمین پر اکڑ کر اور تن کر مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچ جائے گا۔
4: اختال
(خیل)
ابن فارس کے نزدیک خیل کے معنی بدل على حركة في تلوّن (م ل) یعنی وہ حرکت جو ہر آن نیا رنگ بدلتی ہے۔ تخیل کے معنی تصور باندھنا، تکبر کرنا اور اختال بمعنی اکڑ کر چلنا اور تکبر کی چال چلنا (منجد) آتے ہیں۔ گو یا ایسے شخص کا دماغ عام آدمیوں سے اونچی سطح پر ہوتا ہے۔ اور یہ مرح سے اگلا درجہ ہے۔
5: فخر
ایسی باتوں پر شیخی بگھارنا جو اس کے اپنے قبضہ و اختیار سے خارج ہوں۔ مثلاً حسب و نسب پر اترانا یا موروثی مال و دولت پر شیخی بگھارنا (مف) ارشاد باری ہے:
وَلَا تُصَعِّرۡ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمۡشِ فِىۡ الۡاَرۡضِ مَرَحًا ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ (سورۃ لقمان آیت 18)
اور تکبر کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔ اسلئے کہ اللہ کسی اترانے والے شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مرح، اختال اور فخر تینوں مذموم صفات کا بالترتیب ذکر فرمایا ہے۔
6: اشر
اشر
ایک ایسے خود پسند کو کہتے ہیں جو مندرجہ بالا صفات کے علاوہ زبان سے ڈھینگیں مارتا اور لاف زنی بھی کرتا ہو۔ امام راغب الاشر کے معنی بہت زیادہ اترانا بتلاتے ہیں (مف) گویا یہ مرح اور اختال سے بھی اگلا درجہ ہے۔ ارشاد باری ہے:
سَيَعۡلَمُوۡنَ غَدًا مَّنِ الۡكَذَّابُ الۡاَشِرُ‏ (سورۃ القمر آیت 26)
انہیں کل (قیامت کے دن) ہی معلوم ہو جائے گا کہ کون بڑا جھوٹا، خود پسند (اور متکبّر) ہے۔
7: تَمَطّٰى
(مطو)
بمعنی چلنے میں گھمنڈ سے بازو پھیلانا (منجد) بے نیازی کا اظہار کرنا۔ بازو پھیلا کر گھمنڈ سے تیز تیز چلنا (ف ل 178) قرآن میں ہے :
ثُمَّ ذَهَبَ اِلٰٓى اَهۡلِهٖ يَتَمَطّٰى (سورۃ قیامۃ آیت 33)
پھر اپنے اہلِ خانہ کی طرف اکڑ کر چل دیا۔
8: تکبر
یہ فخر کا سب سے آخری درجہ ہے جس میں انسان عجب میں مبتلا ہو جاتا ہے اور خود پسندی کی اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے اور حق بات کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔جیسا کہ حدیث میں مروی ہے (الكبر ان تسفہ الحق وتغمض الناس ( الأدب المفرد للبخاري)
ارشاد باری ہے:
قَالَ فَاهۡبِطۡ مِنۡهَا فَمَا يَكُوۡنُ لَـكَ اَنۡ تَتَكَبَّرَ فِيۡهَا فَاخۡرُجۡ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيۡنَ‏ (سورۃ الاعراف آیت 13)
فرمایا تو بہشت سے اتر جا تجھے شایاں نہیں کہ یہاں تکبر کرے پس نکل جا۔ کہ تو ذلیل لوگوں میں سے ہے۔
9: فرہ
بمعنی خوش ہونا۔ اکڑنا اور فرہ بمعنی ماہر ہونا ۔ حاذق ہونا۔ خوش ہونا سبک ہونا اور فارہ بمعنی چست چالاک ۔ جس کی مہارت ظاہر ہو ( منجد) گویا فرہ اپنے ہنر اور فن کے کمال پر خوش ہونے، اترانے اور فخر کرنے کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَتَـنۡحِتُوۡنَ مِنَ الۡجِبَالِ بُيُوۡتًا فٰرِهِيۡنَ‌ (سورۃ الشعرا آیت 149)
اور تم (سنگ تراشی کی) مہارت کے ساتھ پہاڑوں میں تراش (تراش) کر مکانات بناتے ہو۔
ماحصل:
  • فرح، خوشیاں منانا۔ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے ان پر اترانا۔
  • بطر کفران نعمت اور ان کا غلط استعمال کرنے لگنا اور دوسروں کو خاطر میں نہ لانا
  • مرح: ناز و ادا سے اکڑ اکڑ کر چلنا۔ شدت الفرح۔
  • اختال: متکبرانہ چال چلنا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا۔
  • فخر: ایسی باتوں پر اترانا جن میں کسی کا اپنا کچھ دخل نہ ہو۔
  • اشر: خود پسند اور لاف زنی کرنے والا ڈھینگیں مارنا
  • تمطّی: گھمنڈ کی وجہ سے بازو پھیلا کر تیز تیز چلنا
  • تکبر: گھمنڈ کا آخری درجہ۔ حق بات کو رد کر دینا اور لوگوں کو حقیر جاننا۔
  • فرہ: اپنے فن کی مہارت پر اترانا
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اٹکل پچو یا من گہڑت باتیں کرنا

اس کے لیے خرص، اختلق (خلق)، افتراء (فری) اور تقوّل (قول) کے الفاظ آئے ہیں۔
1: خرص
محض ظن اور تخمین سے کام لینا۔ خرص النخلة سے یہ مراد ہے کہ محض اٹکل سے اندازہ لگانا کہ اس کھجور کے درخت پر کتنا پھل ہو گا اور خراص اس شخص کو کہتے ہیں جو اکثر کاموں میں محض اندازہ اور تخمینہ سے کام لیتا ہو۔ (منجد) ایسا آدمی عموماً جھوٹا اور ناقابل اعتماد ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
قُتِلَ الۡخَـرّٰصُوۡنَۙ‏ الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ غَمۡرَةٍ سَاهُوۡنَۙ‏ يَسۡـَٔــلُوۡنَ اَيَّانَ يَوۡمُ الدِّيۡنِؕ‏ (سورۃ الذریات آیت 10 تا 12)
ظنّ و تخمین سے جھوٹ بولنے والے ہلاک ہو گئے۔ جو جہالت و غفلت میں (آخرت کو) بھول جانے والے ہیں۔ پوچھتے ہیں یومِ جزا کب ہو گا؟
2: اختلق
خلق
بمعنی کوئی چیز پیدا کرنا جس کا مواد کچھ نہ کچھ پہلے موجود ہو اور اختلاق کے معنی ایسی بات جس میں کچھ تھوڑی بہت حقیقت بھی ہو تو اس میں جھوٹ سے ملا کر اس کو ہموار، چکنا اور ملائم بنانا(م ل) بناوٹی اور خود تراشیدہ بات- اختراع (مف) یہ لفظ جھوٹی بات سے مختص ہے جسے اس طرح ہموار کیا گیا ہو کہ وہ سچ معلوم ہو۔ (فق ل ۱۱۲) ارشاد باری ہے،
مَا سَمِعۡنَا بِهٰذَا فِىۡ الۡمِلَّةِ الۡاٰخِرَةِۚ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا اخۡتِلَاقٌ‌ۚ‏ (سورۃ ص آیت 7)
ہم نے اس (عقیدۂ توحید) کو آخری ملّتِ (نصرانی یا مذہبِ قریش) میں بھی نہیں سنا، یہ صرف خود ساختہ جھوٹ ہے۔
3: افتراء
اس کا مادہ فری ہے۔ فری کے معنی جھوٹ باندھنا اور بگاڑ پیدا کرنا (م ا) ہے چنانچہ قرآن کی اس آیت :
فَاَتَتۡ بِهٖ قَوۡمَهَا تَحۡمِلُهٗ‌ؕ قَالُوۡا يٰمَرۡيَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَيۡـًٔـا فَرِيًّا‏ (سورۃ مریم آیت 27)
پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی برادری والوں کے پاس لے آئیں۔ وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تو نے برا کام کیا۔
سے یہ مراد ہے تو نے یہ کیا غضب کر دیا اور فساد بپا کر دیا ہے۔
اور افتری ایسے جھوٹ یا الزام کو کہتے ہیں جو فساد اور بگاڑ کی خاطر سوچ سمجھ کر بنایا جائے (مف) بہتان باندھنا۔
وَاِنۡ كَادُوۡا لَيَـفۡتِنُوۡنَكَ عَنِ الَّذِىۡۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ لِتَفۡتَرِىَ عَلَيۡنَا غَيۡرَهٗ‌‌ۖ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوۡكَ خَلِيۡلاً‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 73)
اور اے پیغمبر جو وحی ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے قریب تھا کہ یہ کافر لوگ تم کو اس سے بہکا دیں تاکہ تم اس کے سوا اور باتیں ہماری نسبت بنا لو۔ اور اس وقت وہ تم کو دوست بنا لیتے۔
4: تقول
(قول)
ہر منہ سے نکلی ہوئی بات قول ہے۔ اور بعض دفعہ قول کا اطلاق ایسی بات پر بھی ہوتا ہے جو ابھی دل میں ہو۔ مثلاً :
وَيَقُوۡلُوۡنَ فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ لَوۡلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوۡلُ (سورۃ مجادلۃ آیت 8)
اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ (اگر یہ رسول سچے ہیں تو) اللہ ہمیں اِن (باتوں) پر عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں؟
اور تقوّل کے معنی جھوٹی بات کو اختراع کرنا پھر اسے کسی دوسرے کے سر تھوپ دینا (منجد) قرآن میں ہے:
وَلَوۡ تَقَوَّلَ عَلَيۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِيۡلِۙ‏ لَاَخَذۡنَا مِنۡهُ بِالۡيَمِيۡنِۙ‏ (سورۃ حاقہ آیت 44، 45)
اور اگر وہ ہم پر کوئی (ایک) بات بھی گھڑ کر کہہ دیتے تو یقیناً ہم اُن کو پوری قوت و قدرت کے ساتھ پکڑ لیتے۔
ماحصل:
  • خرص: محض ظن اور تخمین سے کام لینا جس میں حقیقت کو دخل نہ ہو۔
  • اختلق: جبکہ تھوڑی بہت حقیقت باقی سب فسانہ، جھوٹی بات جو سچی معلوم ہو۔
  • افتراء: فساد اور بگاڑ پیدا کرنے کے کی خاطر جھوٹ تراشنا۔
  • تقوّل: جھوٹ خود تراشنا پھر اس کسی دوسرے کے سر تھوپ دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اُٹھانا – بوجہ اُٹھانا

اس کے لیے حمل، ناء ( نوء)، وزر، اثار (ثور)، اقلّ، بعث، انشر، انشز، التقط اور لقح کے الفاظ آئے ہیں۔
1: حمل
بوجھ اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا استعمال عام ہے اور مادی اور معنوی دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ مثلاً :
مادی بوجھ اٹھانے کے لیے خواہ یہ ظاہری ہو یا باطنی جیسے ماں کا اپنے پیٹ میں بچہ کا بوجھ اٹھانا یا درخت کا اپنے پھل کا یا بادل کا اپنے پانی کا بوجھ اٹھاتا۔ غرض یہ لفظ ہر طرح مستعمل ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا تَغَشّٰٮهَا حَمَلَتۡ حَمۡلاً خَفِيۡفًا فَمَرَّتۡ بِهٖ (سورۃ الاعراف آیت 189)
سو جب وہ اسکے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔
معنوی بوجھ اٹھانے کے لیے:
وَعَنَتِ الۡوُجُوۡهُ لِلۡحَىِّ الۡقَيُّوۡمِ‌ؕ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ حَمَلَ ظُلۡمًا‏ (سورۃ طہ آیت 111)
اور (سب) چہرے اس ہمیشہ زندہ (اور) قائم رہنے والے (رب) کے حضور جھک جائیں گے، اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگا جس نے ظلم کا بوجھ اٹھا لیا
اور حمل علی بمعنی کسی پر بوجھ لادنا اور حمّل بوجھ اٹھوانا کے معنوں میں آتا ہے۔ جیسے فرمایا:
رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَاۤ اِصۡرًا كَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا‌ (سورۃ بقرۃ آیت 286)
اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا
2: ناء
(ینوء)
کے معنی سخت محنت کرنا اور مشقت سے بوجھ اٹھانا (م ن) زیادہ بوجھ ہونے کی وجہ سے مشکل سے اٹھانا یا اٹھا سکنا (م ا) ارشاد باری ہے:
اِنَّ قَارُوۡنَ كَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسَىٰ فَبَغٰى عَلَيۡهِمۡ‌ وَاٰتَيۡنٰهُ مِنَ الۡكُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَـتَـنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَةِ اُولِىۡ الۡقُوَّةِ (سورۃ القصص آیت 76)
بیشک قارون موسٰی (علیہ السلام) کی قوم سے تھا پھر اس نے لوگوں پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی کنجیاں (اٹھانا) ایک بڑی طاقتور جماعت کو دشوار ہوتا تھا
3: وزر
جب کوئی شخص اپنا کپڑا پھیلا کر اس میں اپنا بوجھ رکھ کر اٹھاتا اور چل دیتا ہے تو یہی وزر کا صحیح مفہوم ہے۔ اسی لیے ذنب یعنی گناہ کو وزر کہتے ہیں یعنی وہ شخص اپنے کیے ہوئے گناہ کا بوجھ اٹھا لیتا ہے۔ (م ل) گویا وزر کا استعمال عموماً گناہوں کے بار گراں اٹھانے کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَهُمۡ يَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَهُمۡ عَلٰى ظُهُوۡرِهِمۡ‌ؕ اَلَا سَآءَ مَا يَزِرُوۡنَ‏ (سورۃ الانعام آیت 31)
اور وہ اپنے اعمال کے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہونگے۔ دیکھو جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں بہت برا ہے۔
4: اثار
(ثور) ثار
کے معنی کسی چیز کے اوپر اٹھنا ہیں (م ل) اور آثار کا لفظ اوپر اٹھانے کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ لفظ زمین سے تعلق ہو تو اس کے معنی ہل جوتنا ہوتا ہے کہ اس سے زمین کو اوپر اٹھاتے ہیں۔ اور بالعموم اس لفظ کا استعمال ہواؤں اور دریاؤں کو اوپر اٹھانے کے لیے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اللّٰهُ الَّذِىۡ يُرۡسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيۡرُ سَحَابًا فَيَبۡسُطُهٗ فِىۡ السَّمَآءِ كَيۡفَ يَشَآءُ وَيَجۡعَلُهٗ كِسَفًا (سورۃ الروم آیت 48)
اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں۔ پھر اللہ اسکو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا اور تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اسکے بیچ میں سے بارش کی بوندیں نکلنے لگتی ہیں۔
5: اقلّ
قلّ
بنیادی طور پر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (۱) کم ہونا (۲) بلند ہونا اور اقلّ بمعنی کسی چیز کو اٹھانا اور بلند کرنا (منجد) اور اقلّ آثار سے زیادہ ابلغ ہے۔ یعنی ہواؤں کا بارش سے لدے ہوئے بوجھل بادلوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اٹھائے لیے پھرنا (مف) چنانچہ درج ذیل آیت بھی اس بات کی وضاحت کر رہی ہے :
وَهُوَ الَّذِىۡ يُرۡسِلُ الرِّيٰحَ بُشۡرًۢا بَيۡنَ يَدَىۡ رَحۡمَتِهٖ‌ؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالاً سُقۡنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ (سورۃ الاعراف ایت 57)
اور وہی تو ہے جو اپنی رحمت یعنی بارش سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم اس کو ایک مری ہوئی بستی کی طرف ہانک دیتے ہیں۔
6: بعث
بنیادی طور پر اس میں دو معنی پائے جاتے ہیں (1) ابھارنا۔ (2) اٹھانا تنہا روانہ کرنا (منجد) کبھی تو بیک وقت یہ لفظ دونوں معنوں میں کبھی الگ الگ کسی ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے، کہا جاتا ہے بعثت البعير جس کے معنی ہیں اونٹ کو اٹھانا اور آزاد کر دینا۔ اس وقت ہمارے زیر بحث اس کے پہلے معنی ہیں اگر اس لفظ کا استعمال مردوں سے متعلق ہو تو بھی اس میں دونوں معنی پائے جاتے ہیں یعنی مردوں کو زندہ کر کے اٹھانا اور میدان محشر کی طرف چلا نا۔ مثلاً :
وَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيۡبَ فِيۡهَاۙ وَاَنَّ اللّٰهَ يَـبۡعَثُ مَنۡ فِىۡ الۡقُبُوۡرِ‏ (سورۃ حج آیت 7)
اور بیشک قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور یقیناً اﷲ ان لوگوں کو زندہ کر کے اٹھا دے گا جو قبروں میں ہوں گے
پھر یہ لفظ نیند سے اٹھانے کے لیے بھی (یعنی صرف پہلے معنی میں) استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ نیند بھی ایک ہلکی قسم کی موت ہی ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَكَذٰلِكَ بَعَثۡنٰهُمۡ لِيَتَسَآءَلُوۡا بَيۡنَهُمۡ‌ (سورۃ کہف آیت 19)
اور اسی طرح ہم نے انکو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔
7: انشر
نشر
کے بنیادی معنی پھیلاتا ہیں اور اس کی ضد طوی یعنی لپیٹنا ہے ۔ نَشَرْتُ الكِتاب یعنی میں نے کتاب کو کھولا یا پھیلایا اور طویتہ کے معنی کتاب کو لپیٹ دیا یا بند کر دیا (م ل) جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :
وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ (سورۃ التکویر آیت 10)
اور جب اَعمال نامے کھول دیئے جائیں گے
اور نشر الميت نشورا کے معنی میت کے از سر زندہ ہونے کے ہیں (مف) والَیهِ النشور کے معنی اللہ کے پاس ہی قبروں سے نکل کر جانا ہے۔ اس میں زندہ ہونا، اٹھنا اور پھیلنا سب معنی پائے جاتے ہیں۔ اسی سے انشر فعل متعدی ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقۡبَرَهٗۙ‏ ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنۡشَرَهٗؕ‏ (سورۃ عبس آیت 22،21)
پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں (دفن) کر دیا گیا پھر جب وہ چاہے گا اسے (دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کرے گا
8: انشز
نشز
کے بنیادی معنی ارتفاع، اٹھان، ابھار کے ہیں۔ خصوصاً جب کسی چیز میں یہ اٹھان تحرک اور ہیجان کا نتیجہ ہو۔ (غ ق) نشز الرجل کا معنی بیٹھے ہوئے آدمی کا اٹھ کھڑا ہونا ہے (منجد) اسی سے انشز فعل متعدی ہے ۔ قرآن میں ہے
وَانْظُرۡ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجۡعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ‌ وَانْظُرۡ اِلَى الۡعِظَامِ كَيۡفَ نُـنۡشِزُهَا ثُمَّ نَكۡسُوۡهَا لَحۡمًا (سورۃ بقرۃ آیت 259)
ور اپنے گدھے کو بھی دیکھو جو مرا پڑا ہے غرض ان باتوں سے یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کی نشانی بنائیں اور ہاں گدھے کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کسطرح جوڑے دیتے اور ان پر کس طرح گوشت پوست چڑھائے دیتے ہیں۔
یہاں انشز استعمال کرنے کا معنی ہے کہ ان ہڈیوں میں تحرک اور ہیجان پیدا ہوا ۔ وہ آپس میں جڑنے لگیں اور گدھے کا پنجر کھڑا ہوگیا ۔
9: التقط
لقطہ
کے معنی زمین سے کسی چیز کا اٹھانا اور لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو زمین پر گری پڑی دستیاب ہو اور اس کا مالک معلوم نہ ہو (منجد) اسی سے التقط مشتق ہے جس کے معنی ہیں زمین سے کسی ایسی گری پڑی چیز کا اٹھانا جس کے مالک کا علم نہ ہو ۔ قرآن میں ہے:
قَالَ قَآٮِٕلٌ مِّنۡهُمۡ لَا تَقۡتُلُوۡا يُوۡسُفَ وَاَلۡقُوۡهُ فِىۡ غَيٰبَتِ الۡجُـبِّ يَلۡتَقِطۡهُ بَعۡضُ السَّيَّارَةِ اِنۡ كُنۡتُمۡ فٰعِلِيۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 10)
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو۔ کسی اندھے کنویں میں ڈال دو کہ کوئی راہ گیر اسے نکال کر کسی دوسرے ملک میں لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہی ہے تو یوں کرو۔
10: لقح
یہ لفظ باطنی قسم کے بوجھ اٹھانے سے مخصوص ہے لقحة الناقة بمعنی اونٹنی حاملہ ہو گئی (مف) پھر یہ لفظ ہواؤں سے بھی متعلق ہے جو نر درخت سے تخم لے جا کر مادہ درخت میں تخم ریزی کرتی ہیں یا وہ ہوائیں جو بارش کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَاَرۡسَلۡنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسۡقَيۡنٰكُمُوۡهُ‌ۚ وَمَاۤ اَنۡتُمۡ لَهٗ بِخٰزِنِيۡنَ‏ (سورۃ الحجر آیت 22)
اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں پھر ہم آسمان کی جانب سے پانی اتارتے ہیں پھر ہم اسے تم ہی کو پلاتے ہیں اور تم اس کے خزانے رکھنے والے نہیں ہو
نیز دیکھیے بلند کرنا۔
ماحصل :
  • حمل: بوجھ اٹھانے کے لیے خواہ مادی ہو یا معنوی عام ہے۔
  • ناء: زیادہ بوجھ جو بہ مشقت اٹھایا جا سکے۔ بوجھ کو بہ مشقت اٹھانا۔
  • اثار: ہواؤں کا بادلوں کو اٹھانے کے لیے۔
  • وزر: عموماً گناہ کا بوجھ اٹھانے کے لیے آتا ہے۔
  • اقلّ: بادلوں کا بوجھ معمولی سمجھ کر اٹھانے کے لیے۔
  • بعث: مردوں کو اٹھانے کے لیے۔
  • انشر: مردوں کو اٹھا کر پھیلانے کے لیے۔
  • انشز: کسی چیز میں تحرک پیدا کر کے اٹھانے کے لیے۔
  • التقط: کسی گری پڑی چیز کو اٹھانے کے لیے۔
  • لقح: باطنی قسم کا بوجھ اٹھانے کے لیے مخصوص ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اٹھنا

کے لیے بعث سے انبعث، نشر، نشز اور قام کے الفاظ آئے ہیں۔
1: انبعث
بعث
(کے معنی کے لیے اٹھنا) کے باب انفعال میں ہونے کی وجہ سے اس کے معنی کسی شخص کا خود اٹھنا اور کسی اہم مقصد کی تکمیل کے لیے تنہا روانہ ہونا ہے۔ قرآن میں ہے
كَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ بِطَغۡوٰٮهَآ اِذِ انۢبَعَثَ اَشۡقٰٮهَا (سورۃ الشمس آیت 11،12)
ثمود نے اپنی سرکشی کے باعث (اپنے پیغمبر صالح علیہ السلام کو) جھٹلایا جبکہ ان میں سے ایک بڑا بد بخت اٹھا
2: نشر
مردوں کا قبروں سے اٹھ کر پھیل جانا، اٹھ کر نکل کھڑا ہونا۔
وَّلَا يَمۡلِكُوۡنَ مَوۡتًا وَّلَا حَيٰوةً وَّلَا نُشُوۡرًا‏ (سورۃ الفرقان آیت 3)
اور نہ وہ موت کے مالک ہیں اور نہ حیات کے اور نہ (ہی مرنے کے بعد) اٹھا کر جمع کرنے کا (اختیار رکھتے ہیں)
ایک اور مقام پر ہے:
وَهُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الَّيۡلَ لِبَاسًا وَّالنَّوۡمَ سُبَاتًا وَّجَعَلَ النَّهَارَ نُشُوۡرًا‏ (سورۃ الفرقان آیت 47)
اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پوشاک (کی طرح ڈھانک لینے والا) بنایا اور نیند کو (تمہارے لئے) آرام (کا باعث) بنایا اور دن کو (کام کاج کے لئے) اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا
3: نشز
کسی تحریک یا تحرک کی وجہ سے اٹھنا۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِيۡلَ لَكُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِىۡ الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا يَفۡسَحِ اللّٰهُ لَكُمۡ‌ۚ وَاِذَا قِيۡلَ انْشُزُوۡا فَانْشُزُوۡا يَرۡفَعِ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡۙ وَالَّذِيۡنَ اُوۡتُوۡا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ‏ (سورۃ مجادلۃ آیت 11)
اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ (اپنی) مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادہ ہو جایا کرو اللہ تمہیں کشادگی عطا فرمائے گا اور جب کہا جائے کھڑے ہو جاؤ تو تم کھڑے ہوجایا کرو، اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے
4: قام
بیٹھے ہوتے یا لیٹے ہوئے ردی کا کھڑا ہونا یا چلتے چلتے کھڑے ہونا سب کے لیے آتا ہے۔ گویا کھڑا ہونا کے لیے بالعموم استعمال ہوتا ہے۔ اب مثالیں دیکھئے:
الَّذِيۡنَ يَذۡكُرُوۡنَ اللّٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰى جُنُوۡبِهِمۡ وَيَتَفَكَّرُوۡنَ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‏ (سورۃ آل عمران آیت 191)
جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے اور کہتے ہیں کہ اے پروردگار تو نے اس کائنات کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔ تو پاک ہے۔ تو قیامت کے دن ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔
يٰۤاَيُّهَا الۡمُدَّثِّرُۙ‏ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ (سورۃ مدثر آیت 1، 2)
اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!) اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں
كُلَّمَآ اَضَآءَ لَهُمۡ مَّشَوۡا فِيۡهِۙ وَاِذَآ اَظۡلَمَ عَلَيۡهِمۡ قَامُوۡا (سورۃ البقرۃ آیت 20)
جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تواس میں چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں ۔
ماحصل:
  • انبعثت: اٹھ کر تنہا کسی مقصد کے لیے روانہ ہو جانا کے لیے
  • نشر: اٹھنا اور پھیل جانا۔
  • نشز: کسی تحریک کی بنا پر اٹھ جانے کے لیے۔
  • قام: کسی بھی حالت کے بعد کھڑا ہونا۔ عام ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اجازت لینا

اجازت لینے کے لیے استاذن (اذن) اور استانس (انس) کے الفاظ آتے ہیں۔
1: استأذن
اذن
بمعنی اجازت یا منظوری سے مشتق ہے۔ استاذن بمعنی منظوری حاصل کرنا، کسی کام کے لیے اجازت چاہنا اور استاذنَ عَلَیہ بمعنی اندر آنے کی اجازت طلب کرنا ۔ (منجد) ارشاد باری ہے:
لَا يَسۡتَـاۡذِنُكَ الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ يُّجَاهِدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِيۡنَ‏ (سورۃ التوبہ آیت 44)
جو لوگ اللہ پر اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو تم سے اجازت نہیں مانگتے کہ پیچھے رہ جائیں بلکہ چاہتے ہیں کہ اپنے مال اور جان سے جہاد کریں اور اللہ پرہیزگاروں سے واقف ہے۔
2: استانس
انس
بمعنی کسی چیز کو دیکھنا اور اس کو جاننا۔ انس الصوت بمعنی آواز سن لینا۔ انس النار بمعنی آگ دیکھنا۔ اسی سے استانس مشتق ہے یعنی موانست پیدا کرنا۔ اپنے کسی قول و فعل کے ذریعے دوسرے کو اپنے سے متعارف کرنا۔ مثلاً کوئی شخص دروازے پر کھڑا ہو کر صاحب خانہ کو آواز دیتا ہے یا کھانستا ہے تو اس آواز یا کھانسنے کے عمل سے صاحب خانہ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ دروازہ سے پر فلاں شخص ہے۔ تو استانس کا مفہوم پورا ہو گیا۔ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُيُوۡتًا غَيۡرَ بُيُوۡتِكُمۡ حَتّٰى تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَتُسَلِّمُوۡا عَلٰٓى اَهۡلِهَا‌ؕ ذٰلِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ‏ (سورۃ النور آیت 27)
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو
ماحصل:
  • استاذن کسی کام کی اجازت یا منظوری طلب کرنا۔
  • استانس، اپنے کسی قول و فعل سے دوسرے کو متعارف کرانا۔
  • اور اجازت دینا کے لیے صرف اذن آیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے
عَفَا اللّٰهُ عَنۡكَ‌ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَهُمۡ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَتَعۡلَمَ الۡـكٰذِبِيۡنَ‏ (سورۃ التوبہ آیت 43)
اللہ تمہیں معاف کرے تم نے پیشتر اسکے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی؟
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اجڈ

کے لیے عتلّ، فظّ اور اعراب کے الفاظ آئے ہیں ۔
1: عتلّ
عتل
بمعنی سختی سے اور درشتی سے کسی کو اس کے سرکے بالوں سے پکڑ کر کھینچنا اور گھسیٹنا (مف) عتلة إلى السجن بمعنی اسے گھسیٹ کر قید خانہ میں ڈال دیا ۔ (م- ق) ارشاد باری ہے:
خُذُوۡهُ فَاعۡتِلُوۡهُ اِلٰى سَوَآءِ الۡجَحِيۡمِۙ‏ (سورۃ الدخان آیت 47)
(حکم ہو گا اس کو پکڑ لو اور دوزخ کے وسط تک اسے زور سے گھسٹتے ہوئے لے جاؤ
اور عتلّ بمعنی اجڈ اور درشت خو (م ق) سخت گیر (مف) ارشاد باری ہے:
عُتُلٍّ ۢ بَعۡدَ ذٰلِكَ زَنِيۡمٍۙ‏ (سورۃ القلم آیت 13)
(جو) بد مزاج درشت خو ہے، مزید برآں بد اصل (بھی) ہے
2: فظ
بمعنی بد مزاج (مف) بد خلق (م ق) اور فظ بمعنی سخت کلام اور خلق ہونا (منجد) زبان کا کڑوا (ضد لین یعنی زبان اور مزاج کا نرم ہونا) ارشاد باری ہے:
فَبِمَا رَحۡمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنۡتَ لَهُمۡ‌ۚ وَلَوۡ كُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَاانْفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِكَ (سورۃ آل عمران آیت 159)
پھر اے نبی اللہ کی مہربانی سے تم ان لوگوں کے لئے نرم مزاج واقع ہوئے ہو اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔
3: اعراب
گنوار، بادیہ نشین، جنگلی، جنگل میں رہنے والے غیر مہذب جنہیں گفتگو یا طرز بود و باش کا سلیقہ اور تمیز ہی نہ ہو۔ ارشاد باری ہے:
اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ كُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّاَجۡدَرُ اَلَّا يَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ (سورۃ التوبہ آیت 97)
دیہاتی لوگ پکے کافر اور پکے منافق ہیں اور ایسے ہیں کہ جو احکام شریعت اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ہی نہ ہو پائیں۔ اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔
ماحصل:
  • عتل: سخت مزاج اور سخت گیر
  • فظ: بد مزاج اور گفتگو میں گالی گلوچ استعمال کرنے والا
  • اعراب: بد تمیز جنہیں آداب گفتگو کا سلیقہ ہی نہ ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اچانک (ناگہاں)

کے لیے اذ اور اذا اور بغتۃ کے الفاظ آئے ہیں۔
1: اذ اور اذا
دونوں حرف ظرف "جب" کا معنی دیتے ہیں۔ اذ
عموماً ماضی کے لیے آتا ہے اور اذا مضارع کے لیے۔ یہ دونوں حروف کبھی مفاجات یعنی ناگہان یا اچانک کسی خبر کے ظہور کے لیے آ جاتے ہیں۔ تاہم بعد کے واقعہ کا پہلے سے کچھ نہ کچھ تعلق ہوتا ہے جیسے خرجت فاذا اسد بالباب یعنی میں نکلا تو اچانک دروازے پر شیر تھا (منجد) اور قرآن میں ہے:
فَاَلۡقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ثُعۡبَانٌ مُّبِيۡنٌ‌‌ (سورۃ الاعراف آیت 107)
موسٰی نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی تو وہ اسی وقت ایک بڑا اژدھا بن گیا۔
2: بغتۃ
بمعنی اچانک کسی چیز کا یوں ظہور میں آنا کہ اس کے ظہور کا گمان بھی نہ ہو (مف) بغتۃ اور اذ یا اذا کا فرق یہ ہے کہ اذا میں بعد کے واقعہ کی پہلے واقعہ سے کچھ تعلق یا نسبت ہوتی ہے، جبکہ بغتۃ میں صرف کسی فجائی یا ناگہانی واقعہ کا ذکر ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاَخَذۡنٰهُمۡ بَغۡتَةً وَّهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ (سورۃ الاعراف آیت 95)
تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اپنے حال میں بے خبر تھے۔
دوسرے مقام پر ہے:
قَدۡ خَسِرَ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰهِ‌ؕ حَتّٰٓى اِذَا جَآءَتۡهُمُ السَّاعَةُ بَغۡتَةً قَالُوۡا يٰحَسۡرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطۡنَا فِيۡهَاۙ (سورۃ انعام آیت 31)
جن لوگوں نے اللہ کے روبرو حاضر ہونے کو جھوٹ سمجھا وہ گھاٹے میں آ گئے۔ یہاں تک کہ جب ان پر قیامت ناگہاں آ موجود ہو گی تو بول اٹھیں گے کہ ہائے اس کوتاہی پر افسوس ہے جو ہم نے قیامت کے بارے میں کی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اچھا – خوب – بہتر

اس کے لیے نعم، خیر، حسن، مثلی، اور جمیل کے الفاظ آئے ہیں۔
1: نعم
کلمہ تحسین ہے جو ہر قسم کی مدح کے لیے استعمال ہوتا ہے (مف) جس کے معنی ہیں "واہ واہ" کیا خوب"۔ کسی اچھی چیز پر خوش ہو کر بولا جاتا ہے۔ ابن فارس کے نزدیک اس کا اصل عطف اور میلان سے (م ل) یعنی جس کو دیکھ کر طبیعت ادھر مائل اور راغب ہو تو نعم کہتے ہیں اور کی ضد بئس ہے جو کلمہ ذم ہے اور ندامت کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :
وَقِيۡلَ لِلَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا مَاذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّكُمۡ‌ؕ قَالُوۡا خَيۡرًاؕ لِّـلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِىۡ هٰذِهِ الدُّنۡيَا حَسَنَةٌ‌ؕ وَلَدَارُ الۡاٰخِرَةِ خَيۡرٌ‌ؕ وَلَنِعۡمَ دَارُ الۡمُتَّقِيۡنَۙ‏ (سورۃ النحل آیت 30)
اور جب پرہیزگاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل کیا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ بہترین کلام جو لوگ نیکوکار ہیں انکے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو بہت ہی اچھا ہے اور پرہیزگاروں کا گھر بہت خوب ہے۔
2:خیر
ہر وہ چیز جو سب کو مرغوب ہو مثلاً عدل، فضل، عقل اور مال و دولت کو بھی خیر کہتے ہیں (م۔ا) اس کی ضد شر ہے۔ قرآن میں ہے:
وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الۡخَيۡرِ لَشَدِيۡدٌؕ‏ (سورۃ العادیات آیت 8)
اور بیشک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔
یعنی خیر سے مراد ہر بھلی بات یا نیک کام ہوتا ہے اور اس کی جمع خیرات ہے۔ ارشاد باری ہے:
يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَيَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ ویُسَارِعُوۡنَ فِىۡ الۡخَيۡرٰتِؕ وَاُولٰٓٮِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ (سورۃ آل عمران آیت 114)
وہ اللہ پر اور روز آخر پر ایمان رکھتے اور اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے اور نیکیوں پر لپکتے ہیں اور یہی لوگ نیکوکار ہیں۔
خیر کا لفظ صرف بھلی بات یا بھلے کام پر ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ بھلے آدمیوں یا چیزوں پر بھی ہوتا ہے اور ایمان کے لیے بھی اس صورت میں خیر سے جمع اخیار آتی ہے۔ مثلاً
وَاِنَّهُمۡ عِنۡدَنَا لَمِنَ الۡمُصۡطَفَيۡنَ الۡاَخۡيَارِؕ‏ (سورۃ ص آيت 47)
اور بے شک وہ ہمارے حضور بڑے منتخب و برگزیدہ (اور) پسندیدہ بندوں میں سے تھے۔
گویا خیر کا لفظ کسی بھلی بات یا کام یا آدمی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور نعم کسی بھی چیز کو دیکھنے سے خوش ہونے پر بولا جاتا ہے۔ درج ذیل آیت اس بات کی وضاحت کر رہی ہے:
وَلَدَارُ الۡاٰخِرَةِ خَيۡرٌ‌ؕ وَلَنِعۡمَ دَارُ الۡمُتَّقِيۡنَۙ‏ (سورۃ النحل آیت 30)
اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی بہتر ہے، اور پرہیزگاروں کا گھر کیا ہی خوب ہے۔
3: حسن
بمعنی خوش کن اور پسندیدہ چیز (مف) اور اس کی ضد ساء ہے۔ پھر یہ لفظ ظاہری خوبصورتی اور چہرے کے نکھار کے لیے بھی مستعمل ہے۔ جیسے فرمایا
فِيۡهِنَّ خَيۡرٰتٌ حِسَانٌ‌ۚ‏ (سورۃ الرحمن آیت 70)
ان میں (بھی) خوب سیرت و خوب صورت (حوریں) ہیں۔
اس صورت میں اس کی ضد قبح ہے۔ علاوہ ازیں یہ لفظ اخلاق کی عمدگی کو ظاہر کرنے کے لیے بھی معنوی طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا :
وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓٮِٕكَ مَعَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيۡنَ‌ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓٮِٕكَ رَفِيۡقًاؕ‏ (سورۃ النساء آیت 69)
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور صالحین اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔
4: امثل اور مثلی
مثل
کے معنی تصویر کا آنکھوں کے سامنے ہونا (مف) اور امثل کے معنی مثالی، بینظیر، آئیڈیل ۔ بہترین (م -ا) جیسے قرآن میں ہے:
نَّحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا يَقُوۡلُوۡنَ اِذۡ يَقُوۡلُ اَمۡثَلُهُمۡ طَرِيۡقَةً اِنۡ لَّبِثۡتُمۡ اِلَّا يَوۡمًا (سورۃ طہ 104)
ہم خوب جانتے ہیں وہ جو کچھ کہہ رہے ہوں گے جبکہ ان میں سے ایک عقل و عمل میں بہتر شخص کہے گا کہ تم تو ایک دن کے سوا (دنیا میں) ٹھہرے ہی نہیں ہو‏
اور مثلی، امثل سے مونث ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡۤا اِنۡ هٰذٰٮنِ لَسٰحِرٰنِ يُرِيۡدٰنِ اَنۡ يُّخۡرِجٰكُمۡ مِّنۡ اَرۡضِكُمۡ بِسِحۡرِهِمَا وَيَذۡهَبَا بِطَرِيۡقَتِكُمُ الۡمُثۡلٰى‏ (سورۃ طہ 63)
کہنے لگے: یہ دونوں واقعی جادوگر ہیں جو یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ تمہیں جادو کے ذریعہ تمہاری سر زمین سے نکال باہر کریں اور تمہارے مثالی مذہب و ثقافت کو نابود کر دیں۔
5: جمیل
اپنی اصل کے لحاظ سے جمال کے معنی ظاہری خوبی، شان ، ٹھاٹھ اور خوبصورتی ہے (فق ۲۱۷) جیسے فرمایا
وَلَكُمۡ فِيۡهَا جَمَالٌ حِيۡنَ تُرِيۡحُوۡنَ وَحِيۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ (سورۃ النحل آیت 6)
اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو اور جب صبح کو جنگل چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت و شان کا اظہار ہوتا ہے۔
اور اجمل في العمل معنی کام کو بہتر طریقے سے سر انجام دینا ہے (م ق) اور جمیل کا لفظ بہتر راستہ اختیار کرنے کے لیے آتا ہے۔ جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے فرمایا:
وَجَآءُوۡ عَلٰى قَمِيـۡصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ‌ؕ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَـكُمۡ اَنۡفُسُكُمۡ اَمۡرًا‌ؕ فَصَبۡرٌ جَمِيۡلٌ‌ؕ وَاللّٰهُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 18)
اور انکے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے یعقوب نے کہا کہ یوں نہیں ہے بلکہ تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو اچھا صبر کہ وہی خوب ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اسکے بارے میں اللہ ہی سے مدد چاہئیے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں سے فرمایا
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِّاَزۡوَاجِكَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَتَهَا فَتَعَالَيۡنَ اُمَتِّعۡكُنَّ وَاُسَرِّحۡكُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلاً‏ (سورۃ الاحزاب آیت 28)
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہدو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اسکی زینت و آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔
بعد میں یہ لفظ چہرہ کی خوبصورتی میں بھی استعمال ہونے لگا لیکن اس کی مثال قرآن میں نہیں ہے۔
ماحصل:
  • نعم کلمہ تحسین ہے جوکسی اچھی بات پر تعریف کے طور پر کہا جاتا ہے۔
  • خیر ہر بھلی بات ، کام یا آدمی کے لیے۔
  • حسن خوش کن اور پسندیدہ بات ظاہری و معنوی خوبصورتی اور اچھائی کے لیے۔
  • امثل اور مثلی بمعنی مثالی۔ بہترین - آئیڈیل جو قابل تقلید ہو۔
  • جميل افعال، اخلاق اور احوال ظاہرہ کی اچھائی کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اچنبھا - اجنبی ہونا

کے لیے نکر، عجب اور جنب کے الفاظ قرآن کریم میں آتے ہیں۔
1: نکر
بمعنی کسی بات سے نا واقف ہونا (نكرة ضد معرفة) اور انکر یعنی انکار کرنا۔ کسی سے نا واقف ہونا اور تناکر بمعنی جان بوجھ کر ایک دوسرے سے نا واقف بنا اور اجنبیوں کا سا سلوک کرنا اور نکر بُرا کام سخت کام (منجد) اور منکر بمعنی برا کام بری بات - ناگوار چیز گویا نکر میں اجنبیت اور ناگواری دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ارشاد باری ہے،
فَلَمَّا رَاٰۤ اَيۡدِيَهُمۡ لَا تَصِلُ اِلَيۡهِ نَكِرَهُمۡ وَاَوۡجَسَ مِنۡهُمۡ خِيۡفَةً‌ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰى قَوۡمِ لُوۡطٍؕ‏ (سورۃ ھود آیت 70)
پھر جب دیکھا کہ انکے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے۔ یعنی وہ کھانا نہیں کھاتے تو انکو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا۔ فرشتوں نے کہا کہ خوف نہ کیجئے ہم قوم لوط کی طرف انکے ہلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں۔
2: عجب
ایسی حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو (مف) نیز عجب بمعنی پسند کرنا اور اعجب بمعنی کسی ایسی چیز کا خوشگوار محسوس ہونا جو غیر متوقع ہو یا اس کا سب معلوم نہ ہو۔ اور کبھی یہ لفظ محض خوشگوار کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ گویا عجب میں بھی دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ اجنبیت اور خوشگواری ، ارشاد باری ہے۔
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ‌ رَحۡمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيۡكُمۡ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ‌ؕ اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ‏ (سورۃ ھود آیت 73)
انہوں نے کہا کیا تم اللہ کی قدرت سے تعجب کرتی ہو؟ اے اہل بیت تم پر اللہ کی رحمت اور اسکی برکتیں ہیں وہ لائق تعریف ہے بڑا ہے۔
3: جنب
جنب
بمعنی پہلو، کروٹ اور جنب بمعنی اجنبی بھی اور ناپاک بھی اور جنب کا لفظ واحد، تثنیہ، جمع مذکر و مونث سب کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ (منجد) یہ لفظ قرآن میں ان دونوں معنوں میں آیا ہے۔ جب یہ اجنبی کے معنوں میں آئے تو اس میں ناگواری یا خوشگواری کا کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ ارشاد باری ہے:
وَالۡجَـارِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡجَـارِ الۡجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَـنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ (سورۃ النساء آیت 36)
اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر سب کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو
اور جنب بمعنی ایک طرف ہو جانا اور دور ہونا اور جنب شخص کو بھی چونکہ نماز اور مسجد وغیرہ سے ایک طرف یا علیحدہ رہنے کا حکم ہے اسی نسبت سے اسے جنبی یا جنب کہا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنۡـتُمۡ سُكَارٰى حَتّٰى تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِىۡ سَبِيۡلٍ حَتّٰى تَغۡتَسِلُوۡا (سورۃ النساء آیت 43)
مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک ان الفاظ کو جو منہ سے کہو سمجھنے نہ لگو۔ نماز کے پاس نہ جاؤ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ کہ غسل کر لو۔
ماحصل:
اجنبیت کے ساتھ اگر ناگواری شامل ہو تو نکر اور اگر خوشگواری شامل ہو تو عجب اور جب ناگواری یا خوش گواری کچھ نہ ہو تو جنب آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

احسان کرنا

احسان کرنا کے لیے فضّل، منّ، انعم، احسن کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔
1: فضّل
بمعنی کسی اچھی چیز کے اقتصاد اور متوسط درجہ سے زیادہ ہونا (مف) اور فضول یعنی ضرورت سے زیادہ چیز۔ نیز وہ مال غنیمت جو تقسیم کے بعد بچ رہے۔ اور فضول بہت فضل کرنے والا اور فضل بمعنی احسان، زیادتی (منجد) اور فضّل بمعنی کسی کو فضیلت یا بڑائی دینا ۔ ارشاد باری ہے:
تِلۡكَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ‌ۘ مِنۡهُمۡ مَّنۡ كَلَّمَ اللّٰهُ‌ وَرَفَعَ بَعۡضَهُمۡ دَرَجٰتٍ‌ (سورۃ البقرۃ آیت 253)
یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔
2: منّ
بمعنی احسان بھلائی اور منّ بمعنی احسان کرنا۔ احسان جتلانا اور ایک بھاری وزن کا نام (جمع امنان اور امناء) (منجد، مف) اور منّ بمعنی بھاری احسان یا بڑا احسان ہے۔ (مف) ارشاد باری ہے:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَۚ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ (سورۃ آل عمران آیت 164)
اللہ نے مومنوں پر یقینًا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کو سناتے اور ان کو پاک کرتے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور پہلے تو یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔
3: انعم
النعمة
انسان کی اچھی حالت کو کہتے ہیں اور نعمتہ ہر وہ چیز ہے جو انسان کی کوئی ضرورت پوری کرے اور اس کی خوشحالی کا باعث بن سکے اور یہ لفظ جنس کے لیے ہے خواہ نعمت تھوڑی ہو یا زیادہ اور نعمت اور انعام کا لفظ انسان کے ساتھ مخصوص ہے۔ انعم کے معنی احسان نیکی یا بھلائی کرنا ہے۔ لیکن انعم علی فرسہ کبھی نہ آئے گا (م۔ ق) نیز یہ لفظ اپنی ذات کے لیے بھی استعمال نہیں ہوتا۔ (فق - ل ۱۵۸)
وَاِذۡ تَقُوۡلُ لِلَّذِىۡۤ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ وَاَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِ اَمۡسِكۡ عَلَيۡكَ زَوۡجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُخۡفِىۡ فِىۡ نَفۡسِكَ مَا اللّٰهُ مُبۡدِيۡهِ وَتَخۡشَى النَّاسَ ‌(سورۃ الاحزاب آیت 37)
اور جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے احسان کیا تھا اور تم نے بھی احسان کیا تھا یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسکو اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے
4: احسن
احسان
کا معنی ہر نیک اور اچھا کام ہے خواہ اس کا تعلق اپنی ذات سے ہو، یا کسی دوسرے سے (فق ل ۱۵۸) - حدیث جبریل میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " احسان یہ ہے کہ تو خدا کی یوں عبادت کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔ احسان کا لفظ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ہر بھلائی کے کام پر بولا جاتا ہے۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا:
وَقَدۡ اَحۡسَنَ بِىۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِىۡ مِنَ السِّجۡنِ وَجَآءَ بِكُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ (سورۃ یوسف آیت 100)
اور اس نے مجھ پر بہت سے احسان کئے ہیں کہ مجھ کو قید خانے سے نکالا۔ اور اسکے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔
ماحصل :
  • فضل: از راہ مہربانی کسی کو اس کے استحقاق سے کچھ زیادہ دینا۔
  • منّ: کسی بڑے احسان کے لیے۔
  • انعم: کسی انسان پر سوائے اپنی ذات کے احسان کرنے کیلئے آتا ہے۔
  • احسن: بہت عام ہے اور اس کا تعلق دوسرے سے بھی ہو سکتا ہے اور اپنی ذات سے بھی۔
 
Top